حضرت مرزا ناصر احمدؒ بحیثیت پرنسپل

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 21؍ تا 31مئی 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 16 و 17؍جنوری 2013ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا دو اقساط پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں تعلیم الاسلام کالج کے چند مرحوم اساتذہ اور کارکنان کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

مضمون نگار کا مذکورہ عنوان پر ایک مضمون قبل ازیں 7؍اکتوبر2011ء کے اخبار میں بھی ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔

حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؓ کی حسین یادوں کو سمیٹتے ہوئے مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرا ایک شعر ہے ؎

آنکھیں کہ جیسے نُور کی ندی چڑھی ہوئی
چہرہ کہ جیسے پھول کھلا ہو گلاب کا

میں نے پہلی بار قادیان میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو اس وقت دیکھا جب وہ اطفال الاحمدیہ کے ہمارے اجتماع میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپؒ ایم اے آکسن ہیں۔ آکسن آکسفورڈ کے فارغ التحصیل طلباء کو کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ تو اندازہ نہیں تھا کہ آکسفورڈ کوئی بہت بڑی اور مشہور یونیورسٹی ہے مگر کسی شخص کا انگلستان پلٹ ہونا ہی اس کی شخصیت کا رعب ڈالنے کو کافی تھا۔ ہمارے سامنے جو انگلستان پلٹ آدمی تھا اس کے لب و لہجہ یا لباس و اطوار سے کوئی غیرمعمولی صلاحیت کا اظہار نہیں ہو رہا تھا، نہ ہی یہ مترشح ہوتا تھا کہ یہ شخص تعلیم الاسلام کالج کا پرنسپل ہے اور پرنسپل تو بہت بڑا آدمی ہوتاہے۔
اس کے بعد مرزا ناصر احمد صاحب ؒکو ربوہ میں اس وقت دیکھا جب ہم حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ساتھ خدمت کررہے تھے۔ میاں صاحب لاہور سے آتے، اپنے عموں صاحب کی خدمت میں حاضری دیتے اور پھر کالج کی تعمیر کی نگرانی کے لیے کالج کی طرف چلے جاتے۔ ایک سائیکل اور چھتری ان کا کُل سامان ہوتا تھا۔ کالج بن گیا توہم کالج میں داخل ہوگئے۔ کالج میں چار سال بطور طالب علم گزارے اور سولہ سال بحیثیت لیکچرار اور پروفیسر۔
قادیان کے زمانے سے ہی اس کالج کی شاندار تعلیمی روایات کا آغاز ہو ا اور جتنے اساتذہ اس ادارے میں آئے وہ سب کے سب اپنے اپنے مضمون کے ماہر اور اپنی دینداری میں دوسروں کے لیے مشعل راہ تھے۔ طلبا نے ان علمی شخصیتوں سے کماحقہٗ فائدہ اٹھایا۔ اپنے کالج میں ایسے نابغوں کو اکٹھا کرلینا اور انہیں ایک ہمہ وقت مستعد ٹیم کی صورت دے دینا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ کا کمال تھا۔ ہم نے ان سینئر اساتذہ کو اپنے پرنسپل کی ماتحتی کرتے نہیں دیکھا، ان سے محبت کرتے دیکھا ہے۔ کالج کی سٹاف میٹنگ ہو یا درس و تدریس کے سلسلہ کی کوئی میٹنگ۔ یہ اساتذہ پرنسپل کے سامنے یوں محبت سے بات کرتے تھے جیسے پرنسپل سے نہیں کسی محبوب سے بات کر رہے ہوں۔ لہجہ میں خلوص، باتوں میں ادب، مشورہ میں انکسار، اختلاف میں حیا اور پھر فیصلوں پر مستعدی سے عمل پیرا ہوجانے کا عزم صمیم!کالج کے اساتذہ کی یہ روایتیں ہی کالج کو نیک نام بنانے میں مُمد ہوئیں۔
تقسیم ملک کے وقت جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اس سے کالج بھی اجڑ کر در بدر ہو گیا۔ قادیان میں کالج کی عظیم الشان عمارت تھی، لاہور میں پہلے ایف سی کالج کے قریب کے متروکہ اصطبل میں کالج کا آغاز ہوا۔ بعد کو ڈی اے وی کالج کی متروکہ عمارت کالج کو الاٹ ہوئی۔ یہ عمارت ہر لحاظ سے متروکہ تھی۔ دروازے کھڑکیاں غائب۔ دیواریں کہیں کھڑی کہیں سرنگوں۔ غرض عجیب بے سروسامانی کے عالم میں کالج شروع ہوگیا اور وہی بوسیدہ لٹی پٹی عمارت معتبر ہو گئی۔ ؎

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

لاہور کے زمانہ میں کالج کی نیک نامی کا وہ چرچا تھا کہ غریب اور ذہین طالب علم جو خود کو معاشرے میں بے سہارا محسوس کرتے تھے کھچ کر کالج کی طرف آجاتے اور پرنسپل کی ایک مسکراہٹ ان کے سارے مسائل کو حل کر دیتی۔
لاہور کے کالجوں کی ایک روایت یہ تھی کہ ہر کالج کسی خاص کھیل میں نامور ہو جاتا تھا اور پھر اپنا اعزاز برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کرتا تھا۔ کشتی رانی میں تعلیم الاسلام کالج اور اسلامیہ کالج فائنل میں پہنچتے اور یہ مقابلے شدید تناؤ کی کیفیت میں ہوتے۔ اسلامیہ کالج کے سابق پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان نے مجھے بتایا کہ روئنگ کے مقابلوں کا فائنل دن تھا اور تعلیم الاسلام کالج پچھلے دو سال سے چیمپئن چلا آرہا تھا اب کے برس جیتنے کا مطلب یہ تھا کہ تعلیم الاسلام کالج ٹرافی کا مستقل مستحق ہو جائے گا اس لیے میں نے اپنے کھلاڑیوں سے کہا کہ اگر آج آپ تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کو شکست دے دیں تو مَیں تمہیں دوسو روپے انعام دوں گا۔ یہ خبر تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل مرزا ناصر احمد صاحب تک پہنچی تو انہوں نے بھی یہ اعلان کیا کہ اگر اسلامیہ کالج کی ٹیم اُن کی ٹیم کو شکست دے دے گی تو وہ بھی اسلامیہ کالج کی ٹیم کودو سو روپے انعام دیں گے۔ یہ خبر سن کر ماحول کا سارا تناؤ دُور ہو گیا اور دونوں ٹیموں نے جان توڑ مقابلہ کیا مگر تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم نے مقابلہ جیت لیا۔ دونوں مخالف ٹیموں کے کھلاڑی سر جھکا کر مرزا صاحب کے سامنے آئے اور ان سے پیار شاباش اور تھپکی لی۔
زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی کہا کرتے تھے کہ پنجاب میں ایک ہی کالج ہے جس کا نام آئے تو اس کے پرنسپل کا چہرہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
اس سلسلہ کے تو بے شمار واقعات ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو پکڑ کر تعلیم الاسلام کالج میں لے آتے اور پرنسپل کے سپرد کرکے بےفکر ہو جاتے کہ اب ہمارے بچے کی بے راہ روی کا کوئی خدشہ نہیں اور وہ پڑھائی میں بھی سست نہیں رہے گا۔
طالب علمی کے زمانہ میں ہم نے خاصی شرافت سے وقت گزارا اور سوائے جرمانوں کے اَور کوئی سزا نہیں پائی اور جرمانے بھی حضرت پرنسپل صاحب کی مہربانی اور دریا دلی سے معاف ہو جاتے رہے۔ البتہ سٹاف پر آجانے کے بعد ہم ایک عجیب جرم میںپکڑے گئے۔ عصر کے بعد جب کالج بند تھا تو لاہور سے آئے ہوئے اپنے ایک دوست کے ساتھ ہم بیالوجی لیبارٹری کے سامنے والے لان میں کرسیاں بچھائے بیٹھے تھے اور مزے سے سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ یکایک ایک دوست نے زور سے نعرہ لگایا:ارے میاں صاحب!۔ ہماری تو جان نکل گئی۔ یہ تو سان گمان میں بھی نہ تھا کہ اس وقت میاں صاحب اپنی کوٹھی سے نکل کر اسی برآمدہ میں آجائیں گے جس کے سامنے ہم نے دھواں دار گھٹائیں چھوڑ رکھی تھیں۔ سب نے مُڑ کر دیکھا۔ میاں صاحب نے اپنا بایاں ہاتھ بائیں کنپٹی پرشیلڈ کی طرح رکھا ہؤا تھا اور بغیر اِدھر اُدھر دیکھے سیدھے کالج کے دفتر کی طرف جا رہے تھے گویا آپ نے ہمیں دیکھا ہی نہیںتھا۔ سب کا خیال تھا کہ اگلے روز جواب طلبی ہوگی۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ہم لوگوں نے کالج کے ماحول میں سگریٹ نوشی چھوڑ دی۔
ہمارا پہلا کالج تھا جس نے کُل پاکستان اردو کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ اس میں حضرت مرزا ناصر احمد نے یہ سلوگن وضع کیا کہ ’’اردو ہماری قومی ہی نہیں مذہبی زبان بھی ہے‘‘۔ اب تو یہ بات ایک زمانے پر آشکار ہے کہ حضرت مرزا ناصر احمد کو مناسب سلوگن سوچنے کا خاص ملکہ تھا ان کاسلوگن
Love for all Hatred for none
‘‘محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں’’ اب سارے عالم میں گونجتا ہے۔

ہمارے کالج میں روس کے سائنسدان آئے، امریکہ کے اہل علم آئے، عدالت ہائے عالیہ کے جج صاحبان آئے۔ علماء آئے، کبراء آئے، سفراء آئے اور ان سب کو ربوہ لانے کا باعث تعلیم الاسلام کالج اور کالج کے پرنسپل تھے۔
گورنمنٹ کالج سرگودھا کے پرنسپل خان عبدالعلی خان گرم مزاج پٹھان تھے۔ سرگودھا کالج کے پرنسپل بن کر آئے تو آتے ہی اپنا پستول سامنے میز پر رکھ دیا کہ طالب علموں پر رُعب رہے۔ پروفیسر غلام جیلانی اصغر فرمایا کرتے تھے کہ علی خان کا پستول لڑکوں کو خوف زدہ نہیںکر سکا مگر مرزا ناصر احمد کی میز پر کاغذ کاٹنے والا چاقو بھی نہیں ہوتا تھاتب بھی لڑکے ان سے دبتے اور خوف کھاتے تھے۔
حضرت صاحب کی وفات کے بعد لندن میںایک غیراحمدی آرکیٹیکٹ دوست نے مجھ سے کہا تھا کہ ‘مرزا ناصر احمد جماعت احمدیہ کے شاہجہان تھے، انہیں عمارتوں سے خاص شغف تھا’۔ ہم نے تو کالج کی تعمیر میں ان کا شغف دیکھا ہوا تھا اس لیے ان کی بات ہمیں زیادہ سمجھ میں آئی۔ کالج کے ہال کی چھت پڑنے کا سماں تو اب تک آنکھوں کے سامنے ہے سینکڑوں مزدور اپنے کام پر مستعد ہیں شٹرنگ پڑچکی ہے اب لنٹل پڑنے کا وقت ہے کہ مغرب سے گھٹا ٹوپ گھٹا اٹھی اور سب کے رنگ فق ہو گئے کہ اگر بارش ہو گئی تو سب کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ مگر حضرت مرزا ناصر احمد چھت پر کھڑے ہیں اور اسی انہماک سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قریب کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے لبوں پر دعا ہے اور ایک آدھ بار آنکھ اٹھا کر بادلوں کی طرف بھی دیکھتے ہیں مگر انہیں جیسے یقین ہے کہ یہ بادل ان کا کام خراب نہیں کر سکتے۔ بس ایک بار انگلی اٹھا کر بادلوں کی طرف اشارہ کیا۔ یہ گویا بادلوں کو دُور ہٹ جانے کا حکم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کی بات نہیں ٹالی گھٹا تلی کھڑی رہی پانی کا ایک قطرہ نہیں برسا۔ لنٹل کا کام مکمل ہو گیا تو سب کی جان میں جان آئی۔ بادل برس جاتا تو لنٹل کی توانائی کو بہا لے جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خادم کی بات سن لی۔

جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

ہم نے اپنے پرنسپل کے ہاتھوں بھی معجزے ہوتے دیکھے ہیں۔
میں آج اس بات کا اظہار کر رہا ہوں کہ پہلی بیعت کے وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی آواز اُس مرزا ناصر احمد کی آواز نہیں تھی جس کو ہم جانتے پہچانتے تھے۔ ہمارا جانا پہچانا مرزا ناصر احمدخلیفۃ المسیح الثالث کے پیرہن میں گم ہو گیا تھا۔ اس کے ایک اَور نظارہ کا بھی مَیں گواہ ہوں۔ پروفیسر حمید احمد خاں جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور حضرت مرزا ناصر احمد کے پرانے شناسا تھے حضور کو ملنے کے لیے آئے۔ حضور نے انہیں دوپہر کے کھانے پر مدعو فرما لیا اور ساتھ میں مجھے اور چودھری محمد علی صاحب کو بھی کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔ پروفیسر حمید احمدخاں کوئی تین گھنٹے تک حضور کی خدمت میں حاضر رہے۔ جب پروفیسر صاحب رخصت ہونے لگے تو حضرت صاحب نیچے ان کی کار تک تشریف لائے اور اپنے پرانے دوست اور رفیق کار کی کار کادروازہ خود کھولا۔ خان صاحب بیٹھ گئے۔ کار روانہ ہوئی تو پروفیسر حمیداحمد خاں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا ‘پروازی! یہ وہ مرزا ناصر احمد تو نہیں رہے۔’ یہ گواہی ایک پرانے رفیق کار کی تھی۔
مَیں تو اپنے دوستوں سے بر ملا کہا کرتا تھا اور کہتا ہوں کہ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور ہم نے اس کا نظارہ تین بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
حضرت صاحب کی ایک عادت کا ذکر کردوں شاید کسی کے کام آجائے۔ دعوتوں میں حضوؒر اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے دوستوں کے چھوڑے ہوئے روٹی کے ٹکڑوں میں سے ایک دو ٹکڑے اہتمام سے کھایا کرتے تھے۔ مَیں نے ایک بار اپنی نادانی میں پوچھ لیا میاں صاحب!آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ خندہ فرمایا اور کہا تمہیں حضرت مسیح موعودؑ کا وہ شعر یاد ہے ؎

لفاظات الموائد کان اکلی
فصرت الیوم مطعام الاہالی

(ترجمہ: ایک وقت تھا کہ دسترخوان کے بچے کھچے ٹکڑے مجھے کھانے کو ملتے تھے اور اب خاندانوں کے خاندان میرے دسترخوان سے متمتع ہوتے ہیں)
فرمانے لگے بس حضور ؑکی سنت کی پیروی کرتا ہوں اور اس طرح تحدیث نعمت بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی بات کس طرح پوری کی اور ہم اپنی آنکھوں سے اس کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں