حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق چند یادیں

مکرم مولانا چودھری رشیدالدین صاحب کی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق چند یادیں ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا فروری 2009ء میں شامل اشاعت ہیں۔
آپ بیان کرتے ہیں بچپن میں حضرت مصلح موعودؓ سے اجتماعی ملاقات اور مصافحہ کی سعادت اُس وقت ملتی جب ہم جلسہ سالانہ پر اپنے گاؤں نزد سرگودھا سے قادیان جایا کرتے۔ 1949ء میں ربوہ میں پہلی ملاقات کا شرف مجھے اتفاقاً حاصل ہوگیا۔ حضورؓ اپنے کچے مکان میں مقیم تھے جو یادگار چوک کے ساتھ تھا۔ اس میں ایک چوبارہ بنا ہوا تھا۔ اس سے ملحق دفتر پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ایک روز ربوہ آیا اور حضورؓ کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں۔ رات دارالضیافت میں گزاری۔ ارادہ تھا کہ صبح جلد حضور سے ملاقات کر کے واپس گاؤں چلا جاؤں گا۔ صبح دفتر پہنچا تو ابھی کوئی کارکن نہیں آیا تھا۔ میں صحن میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ واپس چلا جاؤں یا یہیں انتظار کروں۔ اتنے میں حضورؓ چوبارہ سے سیڑھیاں اتر کر دفتر میں تشریف لے آئے۔ حضورؓ صرف شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے اور ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے۔ میں نے السلام علیکم کہا اور دعا کے لئے عرض کی۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ دفتر میں کوئی کارکن موجود ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کی کہ ابھی تک کوئی نہیں آیا۔ حضور نے فرمایا ’’اچھا‘‘ اور واپس تشریف لے گئے۔ اس ملاقات پر مَیں نے شکر ادا کیا اور گاؤں روانہ ہو گیا۔
جامعہ میں داخلہ کے بعد خاکسار کو پہلی بار انفرادی ملاقات کا موقعہ ملا۔ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے فرمایا کہ لسٹ میں صرف رشیدالدین ولد جلال الدین لکھا ہے، مقام درج نہیں ہے۔ یہ کونسے جلال دین ہیں … پھر حضورؓ نے دس بارہ جلال دین اور اُن کے مقام گِنوا دیئے اور فرمایا کہ ان میں سے آپ کے والد کون سے ہیں؟۔ میں نے عرض کی کہ سرگودھا والے چوہدری جلال الدین میرے والد ہیں۔ افراد جماعت کے بارہ میں حضور کے وسیع علم اور واقفیت دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
اُن دنوں جامعہ کا آخری امتحان (مولوی فاضل) پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دینے کے بعد واقفین زندگی تین سال تک جامعۃالمبشرین میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ خاکسار کو خیال ہوا کہ عربی اور دینی تعلیم تو میں نے کسی حد تک حاصل کرلی ہے، اب قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایل ایل بی کرلیا جائے۔ اس غرض کے لئے میں نے اپنے خیال میں ایک مدلّل اور مؤثر درخواست تیار کی اور محترم والد صاحب کو ساتھ لے کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپؓ نے درخواست پڑھی تو سخت ناراض ہوئے اور بلند آواز میں مجھے سرزنش فرمانے لگے۔ حضورؓ کی آواز اتنی بلنداور رعب دار تھی کہ دفتر کے کارکن کمرہ سے باہر آ گئے لیکن اتنی دیر میں وہ ’’صاحب شکوہ و عظمت ‘‘ ، ’’دل کا حلیم ‘‘ ہو چکا تھا۔ کیونکہ حضورؓ کی ناراضگی دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ حضور! میں وقف سے بھاگ تو نہیں گیا، صرف اجازت طلب کی ہے ، اگر حضور کو یہ ناپسند ہے تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ یہ سنتے ہی حضور نرمی اور شفقت سے مجھے نصیحت فرمانے لگے اور ارشاد فرمایا کہ واقف زندگی ہونے کی وجہ سے اب تمہارا یہ اختیار نہیں کہ آئندہ تعلیم کے لئے تم خود کوئی لائن انتخاب کرو۔ اب یہ اختیار سلسلہ کو ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق تمہیں تعلیم دلائے گا۔ فی الحال ہمیں قانون پڑھانے کی ضرورت نہیں لیکن آئندہ اگر کبھی ضرورت ہوئی تو اپنی مرضی کے خلاف بھی آپ کو قانون پڑھنا پڑے گا۔
پھر مَیں حسب ارشاد جامعۃ المبشرین میں داخل ہوگیا تاہم اس ڈانٹ کے بعد پیہم حضورؓ کے احسانات اور شفقت کا مورد رہا۔ چند ماہ بعد ایک دن حضور جامعۃالمبشرین میں تشریف لائے۔ سب طلبہ ایک کمرہ میں حضورؓ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تعلیمی جائزہ لینے اور کچھ نصائح فرمانے کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ ہر طالب علم کو کوئی نہ کوئی کام بطورہابی اختیار کرنا چاہیے اس سے آئندہ زندگی میں اسے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ پھر ہر ایک سے اُس کا مشغلہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے زراعت سے دلچسپی ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کل سے آپ عصر کی نماز کے بعد ہمارے ساتھ احمد نگر میں میرے فارم پر جایا کریں۔ وہاں زراعت کا کام سیکھیں اور اس سلسلہ میں علم حاصل کریں۔ حضرت سید عبد الرزاق شاہ صاحب مرحوم ہمارے استاد مقرر ہوئے۔ حضورؓ کے ارشاد کے مطابق یہاں کھاد اور فصلوں کے سلسلہ میں کئی تجربات کئے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بیل اور دیگر مویشی بھی پال رکھے تھے۔ سبزیاں بھی کاشت کرواتے۔ ریڈش مولی بہت پسند تھی۔ کبھی ساتھ آنے والے دوست بھی ریڈش مولی اور گنّے سے جی بہلاتے۔ حضور عصر کے بعد تشریف لاتے اور مغرب کے قریب واپس تشریف لے جاتے۔
ایک دفعہ حضورؓ نے فرمایا کہ کپاس اس علاقہ میں کم کاشت کی جاتی ہے اس بارہ میں تجربہ کرنا چاہیے کہ پہلے برسیم بطور کھاد کاشت کرو۔ جب بڑا ہوجائے تو ہل چلا کر اسے زمین میں دبا دیا جائے۔ پھر اچھی طرح کھیت تیار کرکے موسم آنے پر کپاس بوئی جائے۔ چنانچہ نصف ایکڑ میں برسیم بو دیا گیا۔ جب یہ تیار ہو گیا اور ہل چلانے کا وقت آیا تو اتفاقاً ہل چلانے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دن حضور نے تشویش کا اظہار فرمایا کہ یہ کام تو اب ہو جانا چاہیے تھا۔ جب اگلی صبح میں فارم پر گیا۔ بیل وہاں موجود تھے۔ میں نے ہل جوتا اور کھیت میں چلا دیا۔ اپنی پوری کوشش کی کہ برسیم پوری طرح مٹی کے نیچے دب جائے۔ عصر کے بعد حضورؓ فارم پر تشریف لائے تو خوش ہوئے اور حیران بھی۔ پھر آپؓ نے ایک تنکا ہاتھ میں لیا اور کھیت کے درمیان سیاڑ کی گہرائی ناپی۔ پھر کونے پر آکر گہرائی کا مقابلہ کیا۔ اور فرمایا کہ کونے پر جب بیل مڑتے ہیں تو ہل اوپر آ جاتا ہے اور اناڑی آدمی سیاڑ کی گہرائی قائم نہیں رکھ سکتا۔ حضورؓ نے جب دیکھا کہ دونوں جگہ سیاڑ کی گہرائی برابر ہے تو بہت خوش ہوئے اور مجھے فرمایا کہ تم نے تو ماہر آدمی کی طرح ہل چلایا ہے۔ پھر چند دن بعد مجلس مشاورت میں بھی اس کا ذکر کرکے تعریف فرمائی۔ اس ہابی کی وجہ سے قریباً دو سال تک حضور کا قرب مجھے حاصل رہا۔
حضرت مصلح موعودؓ کو احمدی زمینداروں کی ترقی کی بہت فکر تھی۔ تقاریر میں وقتاً فوقتاً ہدایات بھی جاری فرماتے۔ دوسرے علوم کی طرح زراعت کے بارہ میں بھی حضورؓ کا علم بہت گہرا اور وسیع تھا۔ لائل پور کا زرعی کالج ہندوستان کا ایک منفرد ادارہ تھا۔ غالباً 1945ء میں وہاں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک بھر کے زرعی ماہرین نے مقالے پیش کئے۔ اس میں حضورؓ کا مضمون بھی پڑھا گیا جو بہت پسند کیا گیا اور مندوبین نے اسے بڑی اہمیت دی۔ علم کے ساتھ عملاً بھی حضور نے کامیاب زراعت کر کے دکھلادی۔ سندھ میں اپنے وسیع رقبہ کے علاوہ صدر انجمن اور تحریک جدید کی ہزاروں ایکڑ زمین اپنی نگرانی اور ذاتی کوشش سے آباد کروا دی اور اس وقت جبکہ ٹریکٹر وغیرہ نام کی کوئی چیز وہاں نہ تھی سارا کام بیلوں کے ذریعہ کروایا گیا اور بڑے مشکل حالات میں۔ پھر اسی زمین میں سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل باغات بھی تیار ہو گئے جن کے بیسیوں قسم کے عمدہ آم سندھ بھر میں مشہور ہیں۔ حضور کے علم اور تجربہ کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ملتان کے ایک بڑے زمیندار کے پاس آموں کی ایک نایاب قسم تھی۔ وہ اس کا پودا/قلم کسی کو نہیں دیتا تھا۔ کئی لوگوں نے اس سے آم لے کر گٹھلیاں بوئیں لیکن ان پودوں کے آم اصل کے مقابلہ میں بہت ناقص تھے۔ کیونکہ قلم یا پیوند سے تیار کردہ پودا ہی اصل کے مطابق پھل دیتا ہے جبکہ گٹھلی سے تیار ہونے والے پودے کا پھل اصل آم کی پوری خوبیاں نہیں رکھتا۔ حضورؓ نے اُس زمیندار سے نایاب قسم کے آم منگوائے اور اُن کی گٹھلیاں اپنے سندھ کے فارم میں بوئیں۔ پھر ان پودوں کو چند ماہ بعد دوسری جگہ منتقل کرادیا۔ اس طرح چھ سات دفعہ ان کی جگہ تبدیل کی گئی۔ ان پودوں کو جب پھل لگا تو وہ صفات کے لحاظ سے اصل آموںجیسا تھا۔ وہ زمیندار اور دوسرے لوگ حضورؓ کے علم اور کامیاب تجربہ پر حیران رہ گئے۔
اُنہی دنوں سندھ کی زمینوں کے لئے آپ نے کچھ ٹریکڑ خریدنے کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت مشینی کاشت کا رواج بہت کم تھا۔ ٹریکٹر فروخت کرنے والی کمپنیاں بھی چند ایک ہی تھیں۔ انہیں دعوت دی گئی کہ وہ اپنے ٹریکٹروں کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے ربوہ آئیں۔ تین کمپنیاں اپنے ٹریکٹر لے کر آئیں۔ کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے حضورؓ نے لائل پور زرعی کالج کے پروفیسر چوہدری کرم رسول صاحب کو بلایا تھا۔ یہ احمدی تو نہیں تھے تاہم حضورؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔ حضورؓ گیارہ بجے کے قریب تشریف لائے۔ تین ٹریکٹر والوں کو الگ الگ کھیت ہل چلانے کے لئے دیئے گئے تھے۔ تینوں نے ایک ہی وقت کام شروع کیا اور مقررہ وقت پر بند کر دیا۔ پھر حضور نے ماہرین کے ساتھ کھیتوں میں جاکر جائزہ لیا۔ اختتام پر چوہدری صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ لائل پور واپس جانے سے قبل اپنے گاؤں جانا چاہتے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا: میری موٹر پر چلے جائیں۔ اس وقت ربوہ میں صرف ایک ہی موٹر ہوتی تھی۔ چوہدری صاحب موصوف نے بخوشی حضورؓ کی اس نوازش سے فائدہ اٹھایا۔
احمد نگر فارم پر جانے کے لئے ایک روز ہم قصرخلافت کے باہر حضورؓ کے منتظر تھے۔ اُس دن مکرم شیخ عبدالخالق صاحب پروفیسر جامعہ بھی ساتھ آکر کھڑے ہو گئے۔ یہ نومسلم تھے اور کسی زمانہ میں عیسائیوں کے بڑے پادری تھے۔ تقسیم ملک سے قبل قادیان گئے اور کئی روز تک حضور سے گفتگو اور بحث کرکے، پوری تسلی ہونے پر آخر احمدی ہوگئے۔ بائبل انہیں ازبر تھی۔ عیسائیت کے زمانہ میں انہوں نے بڑی فراخی کے دن دیکھے تھے اور احمدی ہونے پر وہ درویشانہ زندگی گزارنے لگے لیکن کشائش کے دَور میں لمبا عرصہ زندگی گزارنے کے باعث بعض اوقات ہاتھ تنگ ہو جاتا تھا۔ حضورؓ باہر تشریف لائے تو انہوں نے السلام علیکم کہا۔ حضور نے سلام کا جواب دیا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کوئی بات کہے بغیر ایک گراں قدر رقم انہیں عطا کر دی جو اُن کی مہینہ بھر کی ضرورت کے لئے کافی تھی۔
ایک دفعہ لائلپور سے ایک مولوی صاحب اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ حضورؓ سے ملنے آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ مالی منفعت اور دنیاوی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے آپ لوگوں نے یہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ محض خیال کرلینا تو کوئی بات نہیں، حالات دیکھ کر اور پورا غور کرکے کوئی نتیجہ اخذ کرناچاہیے۔ ہماری جماعت کے مالی امور کلّی طور پر صدر انجمن کے ہاتھ میں ہیں۔ آمد و خرچ کا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جسے گورنمنٹ کے لوگ بھی چیک کرتے ہیں۔ بجٹ تیار ہوتا ہے اورطبع ہوتاہے۔ اس کے مطابق ہی اخراجات ہوتے ہیں۔ ہمارے خاندان کو اس سے کچھ نہیں ملتا بلکہ ہم لوگ بھی دوسرے احمدیوں کی طرح چندے ادا کرتے ہیں۔ میں سارا وقت جماعت کا کام کرتا ہوں لیکن صدر انجمن سے تنخواہ وغیرہ کچھ نہیں لیتا بلکہ اپنی جیب سے اسے دیتا ہوں اور اب بھی جبکہ جماعت میں اچھے کھاتے پیتے لوگ شامل ہیں سب سے زیادہ چندہ میرا ہی ہوتا ہے۔ آپ غور کریں میں بفضل خدا صاحب جائیداد ہوں اور اثرو رسوخ رکھتا ہوں۔ اگر دنیوی فوائد حاصل کرنا میری غرض ہوتی تو میں اپنے بچوں کو اعلیٰ دنیوی تعلیم دلا کر انہیں اچھے عہدوں پر فائز کروا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے تیرہ کے تیرہ لڑکوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور انہیں دینی تعلیم دلوائی ہے۔ ان میں سے جن کو دنیوی تعلیم اپنے خرچ پر دلائی وہ بھی جماعتی خدمت پر مقرر ہیں۔ کوئی بھی دنیا نہیں کما رہا۔ حضور کی اس گفتگو کا مولوی صاحب پر گہرا اثر ہوا۔
جامعہ میں طالب علمی کے دوران ایک دفعہ میری ڈیوٹی مجلس مشاورت میں رائے شماری پر لگی۔ ایک سینئر طالب علم بھی گنتی کررہے تھے۔ پہلی رائے شماری کے وقت ہی جب ہم دونوں اپنی اپنی پرچیاں لے کر حضورؓ کی خدمت میں سٹیج پر حاضر ہوئے تو حضورؓ نے میرے سینئر پر نظر ڈالی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پاس پرائیویٹ سیکرٹری کا جاری کردہ ٹکٹ ہے؟ میں نے ٹکٹ پیش کیا۔ اِس پر دوسرے صاحب کو فرمایا کہ آپ کو کس نے یہاں مقرر کیا ہے، آپ ہال سے نکل جائیں۔
اس واقعہ کے کچھ سال بعد ہم دونوں افریقہ کے ایک ملک میں بطور مبلغ اکٹھے ہو گئے۔ وہاں ایک بڑی مسلمان تنظیم تھی جن کے دو سو سے زائد سکول تھے۔ اُنہیں اپنے ایک ادارہ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو عربی اور انگریزی دونوں میں گریجویٹ ہو۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور اچھے مشاہرہ اور دیگر مراعات کی پیش کش کی۔ خاکسار نے کہا کہ میں واقف زندگی ہوں اور جماعت کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا۔ پھر انہوں نے اُن صاحب کو دعوت دی تو وہ اس گرانقدر پیش کش کو ردّ نہ کرسکے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے اور وقف زندگی کا عہد پورا نہ کرسکے۔ اس واقعہ کے یاد آنے پر خاکسار کی توجہ اس حدیث کی طرف جاتی ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے۔ میں نے اپنے طور پر بھی دیکھا ہے کہ بعض دفعہ کوئی شخص مجھ سے ملتا ہے تو اس شخص کے قلب میں سے ایسی شعائیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں جن سے صاف طور پر اس کا اندرونہ کھل جاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کپٹ ہے یا غصہ ہے یا محبت ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست مجھ سے ملنے آئے۔ وہ نہایت ہی مخلص تھے مگر مجھ پر اس وقت ایسا اثر پڑا جس سے میں نے محسوس کیا کہ ان کے دل میں کوئی خرابی پیدا ہو چکی ہے۔ میں نے بعض دوستوں سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے ایسا نظارہ نظر آیا ہے مگر انہوں نے اس دوست کی بڑی تعریف کی۔ حالانکہ میرے ساتھ ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملنے آیا اور وہ حقیقت میں مخلص ہے تو میں نے محسوس کیا کہ میری روح میں سے کوئی چیز نکل رہی ہے اور اس کی روح میں سے بھی کوئی چیز نکل رہی ہے اور وہ آپس میں مل گئی ہیں مگر جب دوسرا شخص مخلص نہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ میری روح اس کی روح کو دھکا دے رہی ہے۔اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے دل میں جذبات تنافر پائے جاتے ہیں مگر جب ارواح کا اتصال ہو جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جذبات محبت پائے جاتے ہیں۔ پس جب وہ دوست بھی مجھ سے ملنے آئے تو میری فطرت نے محسوس کیا کہ ان کے اندر خرابی پیدا ہو چکی ہے حالانکہ وہ اس وقت بہت مخلص تھے۔ آخر سالہا سال کے بعد اس دوست کو ٹھوکر لگی اور پھر ان کے خیالات میں بھی کئی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں۔ گو یہ بات ابتلاء تک ہی رہی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہ ہونے سے بچا لیا مگر بہرحال بات ظاہر ہو گئی اور ان کے اندر جو تنافر اور سلسلہ کے کاموں سے بے رغبتی کا جذبہ کام کررہا تھا وہ ظاہر ہو گیا۔ پس ایسا معاملہ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا ہے۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا اور میرے ساتھ بھی کبھی کبھی ایساہوتا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کر دیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا۔ اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ پر ظاہر نہ کر دے۔‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان۔9 مارچ1938ء، صفحہ3 )
حضرت مصلح موعودؓ جامعہ کے طلباء کی دلجوئی کے لئے بعض اوقات ان کے تفریحی پروگراموں میں بھی رونق افروز ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ہماری درخواست پر دریائے چناب پر پکنک میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔ چائے کے وقت آپؓ طلباء کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے۔ چائے نوشی کے ساتھ ساتھ حضور نے حاضرین سے گفتگو بھی جاری رکھی۔ اس وقت غیر ملکی طلباء اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنے ملکی لطائف سنائے اور حضور بہت محظوظ ہوئے۔
اُن دنوں خدام الاحمدیہ کو کسی بیرونی ملک سے موٹر سے چلنے والی کشتی ملی تھی اور ربوہ میں ایک نئی چیز تھی۔ حضرت مرزا منصور احمد صاحب یہ کشتی لے کر دریا پر موجود تھے۔ حضورؓ اس میں بیٹھ کر ان کے ساتھ کچھ دُور تک گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں