حضرت مصلح موعودؓ کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اپریل 2001ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب کے قلم سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بعض پاکیزہ یادیں شامل اشاعت ہیں۔
سر ملک فیروز خان صاحب نون (جو پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے) وہ خان بہادر ملک صاحب خان صاحب نون سے چوتھی پانچویں پشت پر ملتے تھے۔ خان بہادر صاحب مخلص اور بڑے فدائی احمدی تھے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد کسی وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بھائی میجر ریٹائرڈ ملک سردار خان صاحب نون اور ملک فیروز خان صاحب سے شدید ناراض ہوگئے حتی کہ ہر قسم کے تعلقات منقطع کردیئے۔ سارے نون خاندان پر اُن کا رعب ایسا تھا کہ کسی کو اُن سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیںتھی۔ آخر بڑی سوچ بچار کے بعد ملک فیروز خانصاحب اور میجر سردار خانصاحب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ ملک صاحب خانصاحب کی ناراضگی کی وجہ سے سارا نون خاندان جو بارہ دیہات کا مالک ہے، اُس کا بے مثل اتفاق پارہ پارہ ہورہا ہے۔ حضورؓ اُن دنوں رتن باغ لاہور میں قیام فرما تھے۔ آپؓ نے ملک صاحب خانصاحب کو طلب فرمایا اور فرمایا اتنی رنجش اور ناراضگی بہت نامناسب ہے۔ آپ پہلے سر فیروز خانصاحب کے پاس جاکر معذرت کریں اور پھر اپنے چھوٹے بھائی میجر سردار خانصاحب سے معافی مانگیں اور پھر آج ہی مجھے رپورٹ دیں۔
ملک صاحب خانصاحب نے مضمون نگار سے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضورؓ کے اس حکم سے میرے دل میں انقباض پیدا ہوا کہ حضورؓ نے ناراضگی کی وجہ دریافت فرمائے بغیر چھوٹے بھائیوں کے سامنے مجھے جھکنے کا حکم دیدیا ہے۔ تاہم میری مجال نہ تھی کہ تعمیل ارشاد میں تاخیر کرتا۔ چنانچہ پہلے سر فیروز خانصاحب کی کوٹھی پر حاضر ہوا۔ وہ بڑی محبت سے میری طرف لپکے اور زاروقطار روتے ہوئے کہنے لگے کہ مَیں قربان جاؤں میرزا محمود احمد پر جنہوں نے ہمارے سارے خاندان پر یہ احسان عظیم کیا۔ جب مَیں نے اُن سے معافی مانگی تو کہنے لگے کہ آپ میرے عزیز ترین بڑے بھائی ہیں، آپ مجھے خدا کیلئے معاف کردیں۔ … پھر مَیں جلد ہی اُن سے بمشکل اجازت لے کر میجر صاحب کے ہاں پہنچا۔ وہ بھی خوشی اور ممنونیت کے جذبات سے مغلوب تھے۔ اُن کے اصرار پر بھی وہاںنہ رُکا کیونکہ حضورؓ نے رپورٹ دینے کا حکم دے رکھا تھا۔ چنانچہ سیدھا حضورؓ کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا سنایا۔ حضورؓ بہت خوش ہوئے اور اپنے پاس بٹھاکر فرمایا: آپ کے لئے میرا یہ حکم دل پسند تو شاید نہ ہوا ہوگا کہ کسی قسم کی تحقیقات کرنے یا ناراضگی کی وجوہ معلوم کرنے کے بغیر ہی آپ کو حکم دیدیا کہ جاؤ اپنے سے عمر میں چھوٹے بھائیوں سے معافی مانگو۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے میری بیعت کی ہوئی ہے۔ سر فیروز خان اور میجر سردار خان کے ساتھ تو میرے معاشرتی تعلقات ہی ہیں، وہ میرے حکم کے پابند تو نہیں، مگر آپ پابند ہیں۔ … پھر حدیث ہے کہ جو اپنے روٹھے ہوئے بھائی کو منانے میں پہل کرے گا وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گا۔ یہ استعارہ کا کلام ہے مگر بہرحال اس حدیث کی رو سے آپ ایک ہزار سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ پھر سوچ لیں کہ یہ کس قدر فائدہ اور منافع کا سودا ہوا۔
حضورؓ نے ایسے دلکش انداز میں یہ باتیں بیان فرمائیں کہ ملک صاحب خانصاحب کو انشراح صدر ہوگیا اور پھر ان بھائیوں کے درمیان کبھی اختلاف پیدا نہ ہوا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ صدر ایوب کصاے زمانہ میں جب ملک سر فیروز خان نون لاہور میں مقیم تھے، چلنے پھرنے سے قریباً معذور ہی تھے۔ ہر ہفتے مجھے فون کرتے اور حضورؓ کی طبیعت دریافت کرتے۔ نیز یہ ہدایت دیتے کہ اگر ربوہ جانا ہو تو میرا سلام ضرور عرض کریں۔ اسی طرح یہ بھی پوچھتے کہ سر ظفراللہ خانصاحبؓ کب پاکستان آئیں گے۔
جب حضورؓ کی وفات ہوئی تو سر فیروز نے اپنے بیٹے ملک نور حیات (MNA)، جو سرگودھا میں مقیم تھے، کو حکم دیا کہ حضرت صاحب ہمارے بڑے محسن تھے، فوراً ربوہ پہنچو، چہرہ مبارک کی زیارت کرو، حضورؓ کے صاحبزادگان سے اظہار تعزیت کرو اور اجازت لے کر نماز جنازہ میں شامل ہو۔ ملک نور حیات صاحب کی کمر میں شدید درد تھا جس کی وجہ سے وہ اُس رات ربوہ نہ جاسکے۔ اگلی صبح سر فیروز نے فون کرکے پوچھا کہ ربوہ گئے تھے؟ ۔ جواب نفی میں ملا تو اتنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ ملک نور حیات صاحب اُسی وقت اپنی موٹر کی عقبی سیٹ پر گاؤ تکیہ رکھ کر بڑی تکلیف اٹھاکر ربوہ پہنچے۔ مسجد مبارک کے سامنے مجھ سے ملاقات ہوگئی اور مَیں اُن کی راہنمائی کرتا رہا۔
حضرت مصلح موعودؓ کا سر فیروز خان صاحب نون پر ایک احسان اَور بھی تھا کہ اُن کی شادی کو چھ سات سال ہوچکے تھے لیکن اُن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔ لاہور میں رہائش تھی۔ 1925ء کی ایک صبح لیڈی نون صاحبہ نے اپنے ڈرائیور کو حکم دیا کہ موٹر نکالو۔ ایک نوکرانی اور خاندانی ملازم احمد شیر کو ہمراہ لیا اور قادیان کا سفر اختیار کیا۔ دوپہر ایک بجے یہ قافلہ قادیان پہنچا۔ لیڈی نون صاحبہ اور نوکرانی حضورؓ کے گھر میں چلی گئیں۔ حضورؓ اُس وقت نماز پڑھانے کیلئے گھر سے جانے والے تھے۔ لیڈی نون صاحبہ نے سارے حالات بیان کرکے عرض کی کہ آپؓ کا دوست سرفیروز خان تو اولاد کی خواہش میں دوسری شادی کرلے گا، میرے لئے دعا کریں۔ چنانچہ حضورؓ نے گھر کے افراد کے ساتھ اُسی وقت دعا کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور 1926ء میں ملک نور حیات خان صاحب نون پیدا ہوئے۔ یہ بچہ چار پانچ ماہ کا ہوا تو لیڈی نون صاحبہ پھر وہی قافلہ لے کر قادیان پہنچیں اور بچے کو حضورؓ کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا کہ یہ حضورؓ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے، اس کے سر پر دست مبارک پھیریں کہ یہ بلند نصیبے والا ہو۔
بعد میں سر فیروز نون کے ہاں مزید دو بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں، سبھی بااقبال ہوئے لیکن جس کے سر پر وہ مبارک ہاتھ لگے تھے وہ صورت و سیرت میں سارے خاندان میں یکتا تھا۔ دنیاوی لحاظ سے ایک کامیاب سیاستدان، کئی بار قومی اسمبلی کا رکن بنا، دو تین مرتبہ مرکزی وزیر کے منصب پر فائز ہوا۔ دیانتدار، راستباز اور سخاوت کے علاوہ بے ریا عبادت گزاری کا شغف رکھنے والا تھا۔ ستر سال کی عمر میں وفات پائی لیکن اُن کے کئی نیک کام صدقہ جاریہ کی صورت میں ابھی چل رہے ہیں۔
ملک نور حیات (MNA) ایک بار لاہور سے ربوہ آئے تاکہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی تقریر سنیں۔ بڑے ادب سے حضرت چودھری صاحبؓ کے پاس بیٹھے رہے، انہیں انکل کہہ کر پکارتے اور اپنے بچپن کے لندن کے واقعات سناتے جب انکل اُنہیں مختلف چیزیں کھانے کیلئے دیا کرتے تھے اور سر فیروز خانصاحب اپنے بیٹے کو کہا کرتے کہ چودھری صاحب کو تنگ نہ کیا کرو، وہ ساری آمدنی چندوں میں اور غرباء پر خرچ کردیتے ہیں اور اپنی ضروریات کیلئے معمولی رقم رکھتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں