حضرت مصلح موعودؓ کے چند رؤیا و کشوف

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 فروری 2010ء میں مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کے قلم سے ایک مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کے چند رؤیا و کشوف بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر تقسیم کررکھا ہے۔ (1) عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسّل سے محسوس ہوسکتا ہے۔ (2) عالم باطن جو عقل اور قیاس کے ذریعہ سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ (3) عالم باطن درباطن جو ایسا نازک اور لایدرک و فوق الخیالات عالم ہے جو تھوڑے ہیں جو اس سے خبر رکھتے ہیں۔ وہ عالَم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کو طاقت نہیں دی گئی مگر ظن محض اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے اور نہ اور کسی ذریعہ سے‘‘۔
(سرمہ چشم آریہ ۔روحانی خزائن جلد2 ص175)
پیشگوئی مصلح موعود میں بتایا گیا تھا کہ وہ ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔ حضورؓ کو سینکڑوں الہامات، رؤیا و کشوف ہوئے ان میں سے جن کو حضورؓ نے بیان فرمایا وہ ’’رؤیا و کشوف سیدنا محمود‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ نیز حضورؓ کے پورے ہونے والے رؤیا و کشوف کا ایک ایمان افروز مجموعہ محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے ’’المبشرات‘‘ کے نام سے بھی ترتیب دیا تھا۔ ذیل میں محض چند کشوف و الہامات کا ذکر نمونتہً کیا جارہا ہے۔
=… سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’تین یا چار سال ہوگئے کہ قادیان میں طاعون بڑی سخت پڑی۔ عصر کے وقت میں نے دیکھا کہ میری ران میں سخت درد ہورہا ہے اور مجھے بخار بھی تھا۔ میں کمرہ کے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کرکے چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا تو مسیح موعود سے یہ وعدہ تھا کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ تو خداتعالیٰ تو وعدوں کو جھٹلایا نہیں کرتا اور اب مَیں اپنے آپ میں طاعون کے آثار دیکھتا ہوں۔ لیکن پھر مَیں نے اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ تو خداتعالیٰ کا وعدہ مسیح موعود کے ساتھ تھا اور یہ فیوض اور برکات انہی کے زمانہ میں رہیں۔ اب وہ بھی دنیا میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ برکات ہیں تو مَیں نے پھر دعا کی۔ مَیں جاگتا ہی تھا اور کمرہ کی تمام چیزوں کو دیکھ رہا تھا تو مَیں نے خدا کو دیکھا۔ وہ ایک نور تھا جو میرے کمرہ کے نیچے سے نکل رہا تھا اور آسمان کی طرف کمرے کی چھت پھاڑ کر جارہا تھا۔ اس کا نہ شروع تھا نہ ہی اس کا انتہا تھا۔ لیکن اس نور میں اس کا ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید اور بالکل سفید چینی کا پیالہ تھا اور اس پیالہ میں دودھ تھا۔ اس نے وہ پیالہ مجھے پکڑا دیا۔ مَیں نے وہ دودھ پی لیا۔ مَیں جب دودھ پی چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو مجھے کوئی درد تھا اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا تھا اور مجھے کوئی ذرہ بھر بھی تکلیف نہ تھی‘‘۔ (اخبار الفضل 8 مارچ 1914ء)
=… حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کی خبر کے حوالہ سے حضورؓ نے فرمایا ’’جس رات کو حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپؑ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہوتا تھا۔ … میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا اور یہ مصرع میری زبان پر جاری ہوگیا۔ ع

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

… رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یکدم ترقی کرگئی اور صبح آپ فوت ہوگئے‘‘۔
=… حضرت اماں جانؓ کی وفات کے بارہ میں رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ میری ایک داڑھ گرگئی ہے مگر وہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں اسے دیکھ کر تعجب کرتا ہوں کہ وہ اتنی بڑی جسامت کی ہے کہ دو بڑی داڑھوں کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ میں خواب میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اتنی بڑی داڑھ ہے۔ اسے دیکھتے دیکھتے میری آنکھ کھل گئی۔ چونکہ داڑھ کے گرنے کی تعبیر کسی بزرگ کی وفات ہوتی ہے اور چونکہ منذر خواب کا بیان کرنا منع آیا ہے۔ میں نے یہ رؤیا بیان نہیں کی لیکن … آخر میں وہی بات ثابت ہوئی کہ وہ مرض جسے پہلے معمولی ملیریا سمجھا گیا تھا آخر ان کے لئے مہلک ثابت ہوا۔ خواب میں جو داڑھ کو دو داڑھوں کے برابر دکھایا گیا اس سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت (اماں جان) ہمارے اندر حضرت مسیح موعود کی بھی قائم مقام تھیں اور اپنی بھی قائم مقام تھیں اور گو بظاہر وہ ایک نظر آتی تھیں لیکن درحقیقت ان کا وجود دو کا قائم مقام تھا‘‘۔
=… پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے اس کثرت اور تفصیل کے ساتھ انکشافات فرمائے کہ لوگوں کو اقرار کرنا پڑا کہ ان امور کا قبل ازوقت بتا دینا ایک غیرمعمولی اور خارق عادت امر ہے۔ جس جس طرح خداتعالیٰ نے خبر دی تھی بعینہٖ اس طرح واقعات ظہور میں آئے مثلاً جنگ کا چھڑنا، بعض مسودات کا جلایا جانا، برطانیہ کی طرف سے فرانس کو اتحاد کی پیشکش، بیلجئم کے بادشاہ کاہتھیار ڈالنا، امریکہ کی طرف سے برطانیہ کی ہوائی مدافعت مستحکم کرنے کے لئے 2800 جہازوں کا بھجوانا، اتحادی فوجوں کے سسلی اور اطالیہ پر اترنے کا علم۔ جنگ کا عین اسی سال، اسی مہینہ اور اسی دن کو اختتام جس کی حضور نے تعیین فرمادی تھی۔ جنگ کے بعد برطانیہ کی اقتصادی بدحالی کی پیشگوئی وغیرہ۔ یہ تمام کشوف قبل از وقت شائع کر دیئے گئے اور ان میں سے کچھ ہندوستان کے بعض اعلیٰ حکام تک پہنچا بھی دیئے گئے جن میں اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو بھی تھے۔
=… تقسیم پنجاب کے متعلق ہونے والے الہام کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’کوئی دس بارہ دن کی بات ہے کہ القا ہوا: ’’گیارہ اگست تک یا گیارہ اگست کو‘‘ نہ معلوم کس امرکے متعلق ہے۔ بہرحال ذات یا جماعت یا ملک یا قوم کے کسی اہم تغیر کی طرف اشارہ ہے۔ اگست میں ہونے والے ایک تغیر کی نسبت اخباروں میں خبریں چھپ رہی ہیں مگر وہ پندرہ اگست کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر اسی کی طرف اشارہ ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ پندرہ اگست سے پہلے ہی وہ تغیر ہو جائے گا اور کوئی معاملہ ہے تو وقت پر انشاء اللہ ظاہر ہوجائے گا‘‘۔
اس الہام کی اشاعت کے صرف دو دن بعد پنجاب کی تقسیم کا اہم فیصلہ ہوا جس نے آئندہ ملکی سیاست کا رخ ہی بدل ڈالا۔
=… جب ہندوستان میں ریڈکلف کی سربراہی میں حد بندی کمیشن آیا تو یہ صاحب خفیہ فیصلہ کرچکے تھے کہ ضلع گورداسپور جس میں قادیان بھی شامل تھا، ہندوستان کو دے دیا جائے۔ یہ فیصلہ ابھی نشرنہیں ہوا تھا کہ حضور نے ایک مجلس میں بیان فرمایا:
’’آج عصر کے بعد مجھے الہام ہوا کہ: اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا بھی۔ تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہوگیا ہے یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اگر ہمارا قادیان ہندوستان کی طرف چلا جاوے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں کیونکہ ہماری جماعتوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں ہے۔ اسلئے دوستوں کو اس معاملہ میں خاص طور پر دعاؤں سے کام لینا چاہئے‘‘۔
اس الہام کے بعد ریڈکلف ایوارڈ نے اپنے فیصلہ کا اعلان کیا اور قادیان کی مقدس بستی بھارت میں شامل کر دی گئی ۔
=… قادیان ضلع گورداسپور میں واقع تھا جسے 30 جون 1947ء کے اعلان کے مطابق اصولاً پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا مگر ریڈکلف ایوارڈ کے ظالمانہ فیصلہ کے نتیجے میں اسے ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ ایک وسیع پیمانے پر اچانک اس قدر بڑی تبدیلی اور انخلاء آبادی کا تصور کسی کے ذہن میں نہ تھا لیکن ایسے میں خدائے علیم و خبیر کی طرف سے حضرت مصلح موعود کو متعدد رؤیا و کشوف کے ذریعہ بتایا گیا کہ:
1۔ قادیان اور اس کے گردونواح میں دشمن یکدم حملہ کرکے آئے گا۔
2۔ دشمن کی طرف سے خفیہ رنگ میں جنگ ہوگی۔
3۔ قادیان سے جالندھر تک بڑی خوفناک تباہی آئے گی اور لوگ نیلا گنبد یعنی آسمان تلے پناہ لیں گے۔
4۔ قادیان میں بھی دشمن غالب آجائے گا مگر مسجد مبارک کا حلقہ اس مرحلہ میں پامردی سے مقابلہ کرے گا اور آخر محفوظ رہے گا۔
5۔ تباہی کے اس دور میں حضرت خلیفۃالمسیح اپنے خاندان کے علاوہ بعض اپنے جانثار خدام کے ساتھ قادیان سے کسی دوسری جگہ مرکز کی تلاش میں ہجرت کر آئیں گے۔
6۔ ان کی ہجرت پر قادیان کے باشندوں میں ایک عام افسردگی سی طاری ہوگی مگر خداتعالیٰ قادیان اور دوسری جماعت احمدیہ کو خاص برکتوں سے نوازے گا اور حضرت خلیفۃالمسیح کے طفیل وہ صحیح سالم اس طوفان سے پار نکل آئیں گے۔
7۔ہجرت کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح ایک پہاڑی مقام کے دامن میں نیا مرکز تعمیر کریں گے۔ جہاں پہلے فوجی بارکوں کی طرز پر مکان بنانے پڑیں گے۔
8۔اس مرکز کی بنیاد 1948ء میں رکھی جائے گی۔
9۔یہ ہجرت دوسرے مسلمانوں کی طرح کسی اضمحلال اور کمزوری کا موجب نہ بنے گی بلکہ اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایک خاص عظمت و شوکت نصیب ہوگی اور اس کی شہرت اکناف عالم تک جاپہنچے گی۔
=… ربوہ کے قیام کے وقت اس بے آب و گیاہ شورزدہ زمین پر علاوہ دیگر بہت سی مشکلات کے ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کی کمیابی تھا۔ گورنمنٹ کے کاغذات میں یہ جگہ نہ صرف ناقابل زراعت بلکہ ناقابل رہائش قرار دی جاچکی تھی۔ تقسیم ہند سے قبل ہندو سرمایہ دار پانی کے لئے سرتوڑ کوشش کر چکے تھے مگر نتیجہ بے سود۔ قیام ربوہ کے بعد یہ ناقابل بیان کیفیت حضرت مصلح موعودؓ کو بے چین و بے قرار کئے رکھتی۔ پس آپ نے اپنے آسمانی آقا (جس کی خبروں کے مطابق اس عظیم الشان مرکز توحید کی تعمیر ہورہی تھی) کے حضور جھک کر اس مرحلہ پر بھی اسی سے نصرت چاہی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خوشخبری عطا فرمائی۔ حضور اس حوالہ سے بیان فرماتے ہیں:
’’مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہوگئی۔ اسی نیم غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں خداتعالیٰ کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھ رہا ہوں۔ ؎

جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا

مَیں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں ’’جاتے ہوئے‘‘ سے کیا مراد ہے۔ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہوسکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کرے گا کہ جس سے ہمیں پانی بافراط میسر آنے لگے گا … جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا اسی طرح یہاں خداتعالیٰ میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہادے گا۔ یہ ایک محاورہ ہے جو محنت کرنے اور دعا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے اپنا پورا زور لگا دیا تا ہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے۔ اب خداتعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوا دیا کہ پانی صرف تیری دعاؤں کی وجہ سے نکلے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا لیکن بہرحال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کردے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہوجائے گی۔ انشاء اللہ ‘‘۔
ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ خبر نہایت شان سے پوری ہوئی۔
=… حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کی خبریں بھی کھلے کھلے اور واضح انداز میں دیدی گئی تھیں۔ ایک بدبخت عبدالحمید نے 10 مارچ 1954ء کو مسجد مبارک ربوہ میں آپ پر قاتلانہ حملہ کیا اور جس جس طرح مختلف رؤیا میں دکھایا گیا تھا۔ اسی طرح واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ابھی یہ زخم تازہ تھے کہ 26 فروری 1955ء کو آپ کے دائیں طرف فالج کا حملہ ہوا جس کے اکثر و بیشتر اثرات معجزانہ رنگ میں صبح تک زائل ہوگئے۔ تاہم باقی ماندہ عوارض کے پیش نظر ڈاکٹری رائے کے مطابق آپ کو مجبوراً یورپ کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ اس سفر کے بارہ میں بھی آپ کو بہت پہلے خبر دے دی گئی تھی۔
سفرِ یورپ کے دوران جب حضور زیورک (سوئٹزر لینڈ) میں تشریف فرما تھے تو ربوہ میں حضور کی صحت یابی کے لئے نہایت درجہ درد و الحاح سے دعائیں کی گئیں جن کا نظارہ حضورؓ کو زیورک میں ہی دکھادیا گیا۔ چنانچہ حضورؓ نے سفر کے دوران ہی مندرجہ ذیل رؤیا بغرض اشاعت بھجوایا:
’’23 اور24 مئی کی درمیانی رات کو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہزاروں ہزار آدمی جماعت کے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور میرے لئے دعا کررہے ہیں وہ اتنا دردناک نظارہ تھا کہ اس سے میرا دل ہل گیا اور میری طبیعت پھر خراب ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود ارادہ کے میں عید پڑھانے نہیں جاسکا۔ چونکہ اس رؤیا کی میرے دل پر ایک دہشت تھی اور اب بھی اس کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ مَیں سفر میں اس رؤیا کو لکھ کر بھجوانا پسند نہیں کرتا۔ اس عرصہ میں جو ربوہ سے خطوط آئے ہیں اس میں بھی یہ لکھا ہوا تھا کہ آخری رمضان کی شام کو جودعا کی گئی وہ ربوہ میں ایک غیر معمولی دعا تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا عرش بھی ہل گیا ہو گا ان خطوں میں بھی گویا میری رؤیا کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ جزی اللّہ ساکنی ربوۃ خیراً ‘‘۔
حضور کی بہت سی رؤیا و کشوف اور الہامات میں سے یہ چند پیش کی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان خوابوں کی اور بھی تعبیریں ہوں جو اپنے وقت پر ظاہر ہوں۔ ابھی تو لاتعداد پیش خبریوں کو پورا ہونا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں