حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2012ء میں حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری کے بارہ میں مکرم محمد رفاقت احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭ حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور کو فن مناظرہ میں کمال حاصل تھا۔ مخالف کو مؤثر دلائل کے ساتھ مسکت کر دیتے۔ ایک تحریری مناظرہ المعروف ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘جماعت احمدیہ راولپنڈی اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی (غیر مبائعین ) کے مابین جون 1937ء میں ہوا۔ جماعت احمدیہ (مبائعین) کی طرف سے حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب مرحوم نے اور جماعت غیرمبائعین کی طرف سے سید اختر حسین صاحب گیلانی فاضل اور مولوی عمرالدین صاحب شملوی نے مناظرہ کیا۔ اس مناظرہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے فریق مخالف پر نہایت سلجھے ہوئے انداز میں حجّت تمام کر دی اور پہلی مرتبہ (مولوی کرم دین صاحب بھیں والے مقدمہ گورداسپور میں) مولانا محمد علی صاحب مرحوم اور جناب خواجہ کما ل الدین صاحب پلیڈر مرحوم کے بطور وکیل اور گواہ ’’نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کے متعلق بیانات پیش کئے۔ اور یہ قیمتی حوالہ جات بعدازاں ماہنامہ ’’فرقان‘‘ قادیان کے عدالتی بیان نمبر جولائی 1942ء میں شائع بھی کردیئے۔
٭ 1970ء میں مشہور دیوبندی عالم حافظ ریاض احمد صاحب اشرفی خطیب جامعہ مسجد گوالمنڈی راولپنڈی ایک مرتبہ مسجد بیت الحمد راولپنڈی آئے تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ مکرم میجر عبدالرحمن صاحب مغل مرحوم نے حضرت مولانا صاحب سے عرض کیا کہ حافظ اشرفی صاحب یہ سوال بڑا دہراتے ہیں کہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ میں مقدم، تالی، جزئی اور جزو کلّی کا نتیجہ مرزا صاحب پر چسپاں کریں تو اُن کے حق میں نہیں نکلتا۔ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا: حافظ صاحب! آپ عربی زبان جاننے والے لگتے ہیں تو اپنے اس سوال کا جواب یوں سمجھیں: وَلٰکَنّا لَمْ نَاْخُذْ مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ فَثَبَتَ اَنَّہٗ لَمْ یَتَقَوَّلْ عَلَیْنَا۔
٭ اسی طرح ایک مجلس میں ایک غیر از جماعت مولوی صاحب نے کہا کہ آیت یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوااللہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی اْلاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء60:) میں جناب مرزا صاحب کو کس کھاتہ (Category) میں رکھیں گے ؟ مولانا مرحوم نے فرمایا: قرآن کریم میں ہے فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعرا17:)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ ا لسلام دو رسول فرعون کے دربار میں جاتے ہیں مگر لفظ رسولا (تثنیہ ) کے بجائے رسول (واحد مذکر) استعمال کرتے ہیں کہ ہم دونوں ربّ العالمین کی جانب سے تمہاری طرف پیغام دینے کے لئے ایک رسول ہو کر آئے ہیں۔ پھر مولانا صاحب نے جب امام فخرالدین رازی ؒ کا تفسیر کبیر سے اس آیت کی تفسیر میں حوالہ دیا کہ حضرت ہارونؑ کی نبوت رسالتِ موسوی میں ضم تھی یعنی حضرت موسیٰؑ مطاع نبی اور حضرت ہارونؑ مطیع رسول تھے۔ تو سائل کی طبیعت صاف ہوگئی اور مجبور ہو گئے کہ اس کی مزید وضاحت طلب کریں تو مولانا مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ سنایا:
’’بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی معہ نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔ ‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 11)
٭ اسی مجلس میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ امکانِ نبوت پر وہ آیاتِ قرآنی پیش کریں جن کو جناب مرزا صاحب نے بھی پیش کیا ہو۔ حضرت مولوی صاحب نے دو آیات پیش کیں۔ ہُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ (الجمعۃ آیات 3-4)۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ثابت کیں اور تقدیر آیت یوں بیان کی ہُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیٖٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ ویبعث فِی آخَرین رسولًا منھم۔ دوسری آیت یہ پیش فرمائی: وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ (النساء71:)۔ آپ نے مِنْ کی تفسیر بیانیہ اور بعضیہ دونوں طریق سے بیان کی کہ یہ درجات صرف قیامت سے مخصوص نہیں۔
٭ اسی طرح حضرت مولوی صاحب نے سائل کو خاتَم کی تفسیر خاتِم سے کرنے پر فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نےخاتَم تلاوت فرمایا اور کسی صحابی ؓ سے قراء ت بالکسر ثابت نہیں۔ بلکہ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی ؓ جب حسنین ؓ کو خاتِم پڑھانے لگے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے منع فرمایا کہ خاتَم پڑھایا جائے ۔ جب کسی صحابیؓسے قراء ت بالکسر ثابت نہیں تو چند مفسرین کے لکھنے سے متواترہ کس طرح ہو گئی؟
٭ پروفیسر بشیر احمد صاحب نے 1994ء میں کتاب لکھی:”The Ahmadiyya Movement, British-Jewish Connections”۔ اس کا مقدمہ ڈاکٹر محمود احمد غازی سابق وزیر مذہبی امور نے لکھا۔ پروفیسر بشیر احمد صاحب میرے استاد بھی رہے ہیں۔ اُس زمانہ میں ایک بار انہوں نے خاکسار سے کہا کہ کچھ سوالات ہیں اگر مولانا ابوالعطاء صاحب راولپنڈی آئیں تو میری اُن سے ملاقات کروائیں۔ اتفاقاً حضرت مولوی صاحب فروری 1971ء میں تشریف لائے ۔ پروفیسر صاحب نے آکر سوال کیا کہ ہر نبی صاحبِ کتاب و شریعت ہوتا ہے اور بغیر کسی پیغام کے پیغامبر نہیں کہلاسکتا۔ مولانا صاحب نے فرمایا پیغام تو ہر نبی لاتا ہے اور پیغام دوطرح کا ہے تشریعی اور غیر تشریعی۔ پھر آپ نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر45 پیش کی: اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْر کہ تورات کے بیان اور خدمت کے لیے بنی اسرئیل میں صدہا غیرتشریعی نبی مبعوث ہوئے۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ تورات حضرت موسیٰ ؑ کی کتاب نہیں بلکہ یہ مجموعہ کتبِ انبیاء بنی اسرائیل کا نام ہے۔ مولانا صاحب نے جب محسوس کیا کہ یہ سوال برائے سوال کر رہے ہیں تو مناظرانہ طریق پر آڑے ہاتھوں لیا۔ فرمایا کہ قرآن مجید، احادیث نبویہ، کتب تفاسیر و فقہ اور تاریخ نیز یہود و نصاریٰ (جن کا توریت سے واسطہ ہے) کی کتب میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ توریت مجموعہ کتب انبیاء بنی اسرائیل ہے تو کیا یہ عُقدہ صرف آپ پر یا جناب پرویز صاحب پر کھلا ہے ؟ اس کے بعد پروفیسر صاحب مزید کوئی سوال نہ کرسکے ۔
٭ ایک دفعہ مولانا ابوالعطاء صاحب سے ایک شیعہ عالم مولانا سید امیرحسین صاحب بخاری آف سیالکوٹ نے مسئلہ ختم نبوت پر گفتگو کرتے ہوئے شیعی حوالہ پیش کیا کہ حضرت امام ابو جعفرؓ نے فرمایا فَکَیْفَ یُقِرُّوْنَ فی اٰل اِبْراھیمؑ و یُنْکِرُوْنَہٗ فِی آل محمدٍصلی اللہ علیہ وسلم۔ بخاری صاحب نے بے جا تاویلات سے کام لے کر قواعد عربیہ کے خلاف مفہوم نکالنا چاہا تو مولانا صاحب نے فرمایا: بخاری صاحب! آپ اپنے کسی عربی دان عالم کو اگلی دفعہ ساتھ لائیں تا کہ سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔
٭ حضرت مولوی صاحب نے اپنے ایک خط محررہ 8؍اپریل 1972ء میں خاکسار کے چار اہم سوالوں کے مختصر لیکن جامع جوابات دئیے۔ رقم فرمایا :
’’ 1۔ خواجہ محمد اسمٰعیل صاحب کے دعویٰ کی معین تاریخ تو مجھے معلوم نہیں غالباً تین چار سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے انہوں نے خاتم النبیین ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ان کی ناکامی ان کے دماغی عارضہ پر واضح دلیل ہے ۔
2۔ تورات حضرت موسیؑ کی کتاب کا نام ہے۔ انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفوں کا نام نہیں۔ قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’شھادۃ القرآن‘‘ میں بھی یہی صراحت فرمائی ہے ۔
3۔ حضرت امام حسن ؓنے حدیث کی پیشگوئی اَلْخِلَافَۃ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً نیز حدیث نبوی اِنَّ ابْنِیْ ھٰذا سَیُصْلِحُ بَیْنَ الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْن کے پیش نظر اس وقت کے خلافتِ راشدہ کے دَور کو ختم سمجھتے ہوئے دستبرداری اختیار فرمالی تھی۔ واللہ اعلم باالصواب
4۔ حضرت مسیحؑ نے آتَانِیَ الْکِتَابَ (سورۃ مریم) کہہ کر تورات کے حقیقی فہم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئے جانے کا اعلان فرمایا ہے ۔ لفظ ایتاء الکتاب قرآن مجید میں دو طرح سے استعمال ہوا ہے (i) نئی کتاب کے دئے جانے کے معنوں میں (ii) سابقہ کتاب کی صحیح تفہیم عطا کئے جانے کے معنوں میں۔ حضرت مسیح ؑکے قول میں دوسرے معنے مراد ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ ربوہ مئی 1972ء)
٭ حضرت مولانا صاحب کو اردو، عربی، فارسی اور علوم اسلامیہ پر دسترس رکھنے کی وجہ سے علم تفسیر میں بھی کمال حاصل تھا۔ آپ نے ماہنامہ الفرقان میں قرآن مجید کے سلیس اور با محاورہ ترجمہ کے علاوہ مختصر اور جامع تفسیر کا سلسلہ اقساط وار شروع کیا۔ سیّارہ ڈائجسٹ لاہور نے قرآن نمبر حصہ دوم کے صفحہ 397تا 440 تک قرآن کریم کے اردو تراجم اور مفسرین کے نام شائع کیے ہیں۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا ذکرنمبر 6پر درج ہے۔
اسی طرح شیعہ عالم جناب سید حسین عارف نقوی صاحب نے اپنے مقالہ ’’قرآنیات پر … کام ـ‘‘ میں حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کا ذکر بطور مفسر قرآن بیان کیا ہے ۔
٭ حضرت مولوی صاحب کے رسالہ الفرقان میں تحقیقی اور علمی مضامین کے علاوہ قرآنی آیات کی تفسیر، حالات حاضرہ پر تبصرہ، شذرات اور سوالات کے جوابات کا سلسلہ جاری رہا ۔ غیراحمدی بلکہ غیرمسلم علماء بھی آپ سے سوال کرتے جن کا جواب رسالہ کی وساطت سے دیا جاتا۔ چنانچہ کالم نگار جناب عبداللہ طارق سہیل صاحب نے لکھا کہ ’’علمائے اسلام سے معذرت کے ساتھ، قادیانی عالم عطاء جالندھری ایک رسالہ نکالتے تھے جب تک وہ چھپتا رہا، مطالعے میں رہا، نام تھا ’الفرقان‘۔ Comparative Religions (موازنۂ مذاہب) کے موضوع پر یہ ایک رسالہ تھا جس میں مسیحیت کے اعتراضات کا مہذّب اور علمی انداز میں جواب دیا جاتا تھا ۔ سارا رسالہ علمی محنت کی گواہی دیتاتھا‘‘۔
٭ 1977ء میں حضرت صاحبزاد ہ مرزا طاہر احمد صاحب راولپنڈی تشریف لائے تو ایک مجلس میں خاکسار نے عرض کیا کہ رسالہ ’’الفرقان‘‘ ایک علمی رسالہ تھا اسے حضرت مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی جاری رہنا چاہئے ۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ رسالہ جاری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ تو مولانا صاحب مرحوم کی ہی ہمت تھی کہ مرکزی فرائض کے ساتھ ساتھ یہ تحقیقی و علمی رسالہ بڑی شان سے نکالتے رہے۔ بہرحال اس کے بدل کے طور پر اَور جماعتی رسائل ہیں۔
٭ حضرت مولانا صاحب کو جماعت کے اہم نمائندہ وفود میں شمولیت کی توفیق ملتی رہی۔ 1964ء میں احراری مولویوں کی غلط رپوٹنگ کی وجہ سے حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کتابچہ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ ضبط کر لیا کہ اس کے صفحہ 11حاشیہ کی عبارت سے حضرت فاطمۃالزہرا ؓکی توہین نکلتی ہے۔ 28 جولائی 1964ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جماعت کا ایک وفد زیر قیادت حضرت مرزا عبدالحق صاحب، گورنر مغربی پاکستان جناب ملک امیر محمد خان صاحب کو ملا۔ اس وفد کے نو ممبران میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب شامل تھے۔ وفد نے محترم گورنر صاحب کو بتایا کہ اس حوالہ کی تشریح خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے براہین احمدیہ میں کر دی ہوئی ہے جو پڑھ کر سنائی گئی۔ جناب گورنر صاحب نے اس پر اطمینان کرتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ اس تشریح کو ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ کتابچہ میں متعلقہ صفحہ پر بطور فُٹ نوٹ شامل کر دیا جائے۔ اس کے بعد حکومت نے ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا ۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے حضرت مولوی صاحب کو ایک مباحثہ کے لئے سند نیابت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کی جانب سے بھی حضرت مولوی صاحب کو سند وکالت حاصل ہوئی۔ جب24 اگست 1974ء کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اعتراض ’’تحریف فی القرآن‘‘ زیربحث تھا۔ حضورؒ نے کمیٹی کے چیئرمین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر مجھے بھی اجازت ہو تو بعض سوالوں کا جواب میرے delegation (وفد) کے ایک صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب دے سکیں (کیونکہ مخالف فریق کی جانب سے سوالات و جوابات کے لئے مولانا ظفر احمد صاحب انصاری مقرر ہوئے ہیں ) اور یہ کہ مَیں ذمہ داری لے رہا ہوں ۔ پہلے تو یہ کہا گیا :
we do not have any objection ….
مگر بعد میں کہا گیا کہ ابوالعطاء صاحب بول سکتے ہیں لیکن اگر آپ خود جواب دیں گے تو اس میں اتھارٹی بھی بہتر ہوگی اور اس پر weight بھی زیادہ ہو گا۔
اس پر حضور ؒ نے مائیک حضرت مولوی صاحب سے لے لیا اور خود جواب دینا شروع فرما دیا اور اللہ تعالیٰ کی تائید پہلے دنوں سے بھی زیادہ شان سے ظاہر ہوئی۔ مخالفین نے شائد یہ سمجھا کہ حضرت صاحب ؒ عربی عبارتوں کے جواب نہ دے سکیں گے اور ہمارا پلّہ بھاری ہو جائے گا ۔
٭ غیر احمدی علماء کے چند حوالے بھی اس مضمون میں شامل ہیں جن میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے علم و دانش، علوم اسلامیہ پر دسترس، سلجھی ہوئی شخصیت، عربی فارسی نیز صرف نحو اور منطق کے بہت بڑے فاضل، بہت اچھے مناظر ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے۔
٭ حضرت مولوی صاحب بڑے دعا گو بزرگ تھے ۔ احباب کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ آپ خلافت احمدیہ سے پختہ وابستگی اور نظام جماعت کی کامل اطاعت کی تصویر تھے۔ نومبر 1974ء میں حضرت مولوی صاحب ایک وفد کے ساتھ راولپنڈی تشریف لائے۔ امیر وفد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تھے ۔ نماز مغرب کا وقت ہوا تو کسی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ نماز پڑھا دیں۔ فرمایا: امیر وفد آ رہے ہیں جس کو اجازت دیں گے وہ نماز پڑھائے گا۔
٭ ایک بار تربیلا سے آئے ہوئے ایک احمدی طالبعلم نے آپ سے کہا کہ اُن کے ٹیچر نے کہا ہے کہ جا کر اپنے خلیفہ صاحب سے اس سوال کا جواب لانا کہ ’’انبیاء سابقین کا ذکر قرآن کریم میں صیغۂ ماضی کے ساتھ کیا گیا ہے لہٰذا کسی مزید امّتی نبی کے آنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ ایسے سوالوں کے جوابات کے لئے حضرت صاحب کے خادم حاضر ہیں اور اپنے استاد صاحب سے پوچھنا کہ کیا انبیاء سابقین کا ذکر قرآن کریم میں بصیغۂ استقبال کیا جاتا؟
٭ حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے۔ بعض خدام جسم دبانے لگے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کس سلسلہ کے پیر ہیں؟ فرمایا: یہ عاجز تو ربوہ والے مرشد کا ایک ادنیٰ خادم ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں