حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 جولائی 2009ء میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم الصدیقی النانوتویؒ بن شیخ اسدعلی بن شیخ غلام شاہ صاحب، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے۔ آپؒ 1832ء میں قصبہ ’’نانوتہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام آپ کا خورشید حسین صاحب تھا۔ نانوتہؔ کا قصبہ دیوبند سے بارہ، سہارنپور سے پندرہ اور گنگوہ سے نوکوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ آپؒ کے والد بزرگوار حضرت شیخ اسد علی صاحب تعلیم سے چنداں بہرہ ور نہ تھے۔ معمولی زمیندار تھے ۔ تاہم بزرگوں کی نیک صحبت میں رہے۔ دین سے خاص لگاؤ تھا۔
حضرت مولانا محمد قاسمؒ نے اکثر کتب مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی سے پڑھیں۔ ایام طالبعلمی میں آپؒ نے خواب دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور مجھ سے نکل کر ہزاروں نہریں جاری ہورہی ہیں۔ حضرت مملوک علی صاحب نے یہ خواب سنا تو فرمایا کہ تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابتدا سے ہی بڑی ذہانت اور عمدہ فطانت عطا کی تھی۔ آپؒ نے قرآن پاک کسی مدرسہ استاد یا ادارہ سے حفظ نہ کیا تھا اورنہ ہی اس پر کئی سال کی محنت کی بلکہ دو ماہ رمضان میں یعنی 15پارے ایک سال رمضان میں اور 15پارے دوسرے سال کے ماہ رمضان میں حفظ کر لئے۔ آپؒ فرماتے ہیں: ’’فقط دو سال رمضان میں مَیں نے یاد کیا ہے اور جب یاد کیا پاؤ سیپارہ کی قدر یا کچھ اس سے زائد یاد کر لیا اور جب سنایا ایسا صاف سنایا جیسے اچھے پرانے حافظ‘‘۔
حضرت مولانا قاسمؒ نے حدیث کا دَور شاہ عبدالغنی مجددّی سے کیا۔ اور رواج کے مطابق مرشد کی تلاش کی اور حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کی بیعت کی۔
احمد علی صاحب سہارنپوری نے ایک مطبع قائم کیا تھا جس کا نام انہوں نے مطبع احمدی رکھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم ؒ صاحب کو چونکہ دین سے خاص شغف تھا اس لئے آپ اس مطبع میں کام کرتے رہے اور تصحیح کتب کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور اس طریق سے علم دین کی خدمت کا حق ادا کرتے رہے اور ضمنی طور پر اس تصحیح سے معمولی ساجو حق محنت ملتا اس پر گزر اوقات کرتے اور اعزہ و اقارب کے علاوہ مہمانوں کا حق پورا کرتے۔ زندگی نہایت سادہ بے تکلف اور زاہدانہ تھی، شکل و صورت سے دیکھنے والوں کو یہ وہم گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بھی کوئی عالم دین ہیں ۔
حضرت مولانا صاحب عالم بے بدل تھے اور عاشق رسولؐ آپ نے حمایت اسلام اور عشق رسولؐ میں کئی کتب تصنیف کیں۔ جب انگریزی حکومت علماء اسلام کو پیغام حق پہنچانے کی پاداش میں گرفتار کرکے پس زنداں ڈال رہی تھی تو آپؒ کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے تھے۔ تین دن روپوش رہنے کے بعد باہر آگئے۔ ’’فرمایا کہ تین دن سے زیادہ روپوش رہنا سنت سے ثابت نہیں‘‘۔
حضرت مولانا محمد قاسمؒ نے تین بار حج کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ پہلا حج 1860ء میں کیا۔ دوسرا حج 1869ء میں جبکہ تیسرا حج 1877ء میں کیا۔
نثر میں تو آپ کا علم کلام کافی ہے جو اسلام کی تائید اور عیسائیت اور ہندومت کے ردّ میں پیش کیا گیا ہے۔ آپ نے منظوم کلام بھی یادگار چھوڑا ہے جو قصیدہ قاسمی کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ اس میں پہلے قصیدہ کے151؍ اشعار ہیں۔ آپؒ نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں ختم نبوت کا مضمون وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ 1866ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا۔
15؍ اپریل 1880ء کو آپؒ کی وفات ہوئی اور دیوبند میں تدفین ہوئی۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ عیدالاضحی (9؍جولائی 1957ء میں) فرمایا:
’’مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒ کے ہدایت کے ماتحت یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور آج سارا ہندوستان ان کے علم سے منور ہو رہا ہے…
مَیں جب ’’ندوہ‘‘ دیکھنے گیا تو مولویوں نے ہماری بڑی مخالفت کی۔ مگر مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ کے بیٹے یا پوتے جو اُن دنوں ’’ندوہ‘‘ کے منتظم تھے انہوں نے میرا بڑا ادب کیا اور مدرسہ والوں کو حکم دیا کہ جب یہ لوگ آئیں تو ان سے اعزاز کے ساتھ پیش آئیں۔ بعد میں انہوں نے میری دعوت بھی کی تھی … میرے ساتھ سید سرور شاہ صاحب ، حافظ روشن علی صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب بھی تھے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے اندر ابھی مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ والی شرافت باقی تھی۔ اگر ان میں شرافت نہ ہوتی تو ہمارے جانے پر جیسے اَور مولویوں نے مظاہرے کئے تھے وہ بھی مظاہرہ کرتے لیکن انہوں نے مظاہرہ نہیں کیا اور بڑے ادب سے پیش آئے اور بڑی محبت کے ساتھ انہوں نے ہماری دعوت کی اور استقبال کیا۔ بعد میں انہوں نے مولوی عبیداللہ صاحب سندھی کو ہمارے پاس بھجوایا اور معذرت کی کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ بعض مولویوں نے آپ سے گستاخانہ کلام کیا ہے مجھے اس کا بڑا افسوس ہے۔ میں انہیں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ ایسا نہ کریں لیکن وہ سمجھتے نہیں …
ہماری جماعت کے لئے اس ملک میں بھی ابھی صوفیاء کے طریق پر کام کرنے کا موقع ہے جیسا کہ دیوبند کے قیام کے زمانہ میں ظاہری آبادی تو بہت تھی لیکن روحانی آبادی کم ہو گئی تھی۔ روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ نے دیکھ لیا کہ یہاں اب روحانی نسل جاری کرنی چاہئے تاکہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے نور سے منور ہو جائے چنانچہ انہوں نے بڑا کام کیا … پھر دیو بند کے جو بزرگ تھے وہ اپنے زمانہ کے لئے اسوئہ حسنہ تھے۔ اپنے پیچھے ایک نیک ذکر دنیا میں چھوڑا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، اسے یاد رکھنا چاہئے اور اس کی نقل کرنی چاہئے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں