حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی رضی اللہ عنہ

حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی رضی اللہ عنہ1830ء میں ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 25 سال کی عمر میں دینی تعلیم کے لئے دہلی گئے اور 1865ء میں جہلم آ کر اہل حدیث تحریک کے سرگرم لیڈر بن گئے اور کئی شہروں میں اس تحریک کی بنیاد رکھی۔
آپ پیشگوئیوں کے مطابق مامور زمانہ کے منتظر تھے چنانچہ اس تلاش میں کئی اہل علم کے پاس گئے لیکن اطمینان حاصل نہ ہوا۔ اسی دوران حضرت اقدس علیہ السلام کے دعاوی سے اطلاع ہوئی تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہی میری منزل ہے چنانچہ پیدل ہی قادیان کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام عبادت اور دعاؤں کی غرض سے چالیس روز کے لئے ہوشیارپور تشریف لے گئے ہیں چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ شوقِ ملاقات میں وہاں تشریف لے گئے۔ اس وقت حضرت اقدسؑ خلوت نشینی میں تھے اور کسی کو ملاقات کی اجازت نہ تھی، دروازہ پر حضرت شیخ حامد علی صاحب ؓ بیٹھے تھے جن کی منّت سماجت کے باوجود بھی ملاقات کی اجازت نہ ملی تو آخر کہنے لگے کہ مجھے صرف چِک اٹھا کر اندر دیکھ لینے دو لیکن حضرت شیخ صاحبؓ نے یہ بات بھی نہ مانی۔ اسی دوران حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت حامد علی صاحبؓ کوکسی کام سے بھجوایا۔ وہ چلے گئے تو حضرت مولوی صاحبؓ چپکے سے اٹھے اور چِک اٹھاکر حضرت اقدس علیہ السلام کو دیکھنے لگے۔ حضورؑ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور کمرے میں تیز تیز چل رہے تھے۔ لوگوں نے آپؓ سے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ نے کیا دیکھا۔ آپؓ نے جواب دیا ’’اس نے بہت دور جانا ہے۔ یہ کمرے میں تیز تیز چل رہا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بڑا کام کرنا ہے‘‘۔
ہوشیارپور میں ہی آپؓ نے بیعت کرنی چاہی لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ ابھی مجھے اذن نہیں چنانچہ آپؓ نے 1891ء میں بیعت کی۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کا نام اپنی کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اور آپؓ کے بیٹے سمیت آپؓ کا نام ’’انجام آتھم‘‘ میں اپنے 313 ؍اصحاب میں درج فرمایا ہے۔ اسی طرح ’’کتاب البریہ و تبلیغ رسالت‘‘ میں بھی آپ کا ذکر کیا ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ کے ذریعہ ضلع جہلم میں کثرت سے لوگ احمدی ہوئے۔ احمدی ہونے کے بعد آپؓ پر مصائب کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا حتّٰی کہ فاقہ کشی تک نوبت پہنچ گئی۔ 1902ء میں حضور علیہ السلام جب ایک مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تو آپؓ کی عمر 72 سال تھی لیکن اس ضعیفی کے عالم میں بھی آپؓ حضورؑ کی سواری کے آگے آگے چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ بڑی خوش بختی ہے ورنہ یہ نعمتیں کہاں!۔ اس سفرکے دوران گیارہ سو آدمیوں نے حضرتِ اقدسؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ 1904ء میں آپؓ قادیان گئے تو معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام سیالکوٹ میں ہیں۔ آپؓ بھی وہاں پہنچ گئے۔ ایک روز گلی میں کسی عورت نے حضورؑ پر راکھ پھینکنا چاہی۔ حضورؑ تو آگے گزر گئے اور راکھ آپؓ پر گری۔ آپؓ نے فرمایا ’’پا مائے پا‘‘ یعنی اے بڑھیا اور راکھ ڈالو۔ اسی سفر کے اختتام پر حضور علیہ السلام کو روانہ کرکے حضرت مولوی صاحبؓ واپس جا رہے تھے تو کچھ غنڈوں نے آپؓ پر گند پھینکا اور مونہہ میں زبردستی گوبر ڈالا۔ آپ کی عمر اس وقت 7 4 سال تھی۔ آپؓ نے اس ظلم پر یہی کہا الحمدللہ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں، مسیح موعود نے کونسا روز روز آنا ہے۔
حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ جہلمی کے بارے میں محترم نصراللہ خان ناصر صاحب کے قلم سے ایک مضمون ماہنامہ انصاراللہ ’’جون 1995ء‘‘ کی زینت ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ 3 ؍دسمبر 1905ء کو جہلم میں وفات پاگئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے 8؍دسمبر کو قادیان میں نمازِ جنازہ پڑھائی۔ حضورؑ کو یہ الہام ہوا تھا ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘۔ ایک شہتیر آپؓ تھے اور دوسرے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں