حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی کی دعوت الی اللہ کی راہ میں بے مثال قربانی

ماہنامہ‘‘مشکوٰۃ’’اپریل 2011ء میں مکرم محمود احمد عرفانی صاحب کے قلم سے ایک تبلیغی سفر کی داستان بیان کی گئی ہے جو دراصل حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی کی بیمثال قربانی کی آئینہ دار ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 1919ء میں خاکسار کو حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ بہت طویل تبلیغی سفر کرنا پڑا۔ مَیں اُس وقت ایک ناتجربہ کار نوجوان تھا اور آپؓ ایک عالم فاضل، متقی اور باخدا انسان تھے۔ ہم یوپی کے علاقہ سے گزرتے ہوئے بمبئی ہوکر مالابار جارہے تھے۔ راستے میں دہلی کے اسٹیشن پرآپؓ کو اعصابی دور ے شروع ہوگئے۔ مجھ سے آپؓ کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ آپؓ کے پٹھے کھنچ جاتے تھے اورکبھی یہ عصبی درد سر اورگردن اورپٹھوں پرہوتا اورکبھی جبڑوں کے پٹھوں پر۔ کبھی کندھے اور بازو پراورکبھی کسی اَور جگہ۔ مَیں حیران تھا کہ ایسی حالت میں یہ تبلیغ کیا کریں گے؟
رات کے دس بجے کے قریب کانپور پہنچے۔مولانا کو شدید بخار ہوگیا تھا۔ رات کو خان بہادر محمد حسین صاحب جج کی کوٹھی تلاش کی مگرنہ ملی۔ پریشان ہوکر ایک سرائے میں پناہ گزیں ہوئے۔ گرمی کا موسم تھا۔سرائے کے لوگوں سے اندیشہ تھا کہ چوری نہ کریں۔ اس لیے کمرے کے اندر رات گزاری۔ مچھروں نے بُری طرح کاٹا۔ ادھر مولانا کو شدّ ت بخارسے ہوش نہ رہا۔ صبح بمشکل کوٹھی کا پتہ ملا اور تانگہ پروہاں گئے۔ اس بیماری کی حالت میں کوٹھی پر لوگ ملنے آتے تو آپؓ اعصابی دردوں کی پروا نہ کرتے ہوئے تبلیغ کرتے۔ کبھی پگڑی سے سر اورمنہ کو باندھتے اورکبھی ٹانگوں پر پگڑی باندھتے اورکبھی بازوئوں پر۔
ان ہی دنوں اہل حدیث کانفرنس کانپورمیں ہو رہی تھی۔ مولوی ثناء اللہ اورمولوی ابراہیم سیالکوٹی بھی وہاں موجود تھے۔ کانفرنس میں مولوی ثناء اللہ نے حضرت مولوی صاحبؓ کانام لے کر چیلنج دیا۔ مَیں نے کہا کہ وقت دو تاکہ مَیں ان کولے آئوں۔ اُس نے آدھ گھنٹہ کاوقت دیا جوکافی نہ تھا۔ اس دن تانگے والوں کی ہڑتا ل تھی مگرخدا کی قدرت مَیں جب پنڈال سے نکلا تو ایک یکّہ کھڑا تھا۔ مَیں نے منہ مانگے دام دیے اورجاکر مولانا صاحبؓ کو قصہ سنایا۔ وہ اس وقت اعصابی تکلیف میں مبتلا تھے لیکن بے اختیار اُن کے منہ سے نکلا کہ پھرچلیں۔ گرم کوٹ کھونٹی سے اتار کرپہن لیا۔ اور اللہ کا نام لے کر یکے پر بیٹھ گئے اور اعصابی دردوں کی موجودگی میں پنڈال پہنچ گئے۔ آٹھ دس ہزار کا مجمع تھا۔ سامنے سے صفوں کو چیرتے ہوئے اسٹیج پر چلے گئے۔ آپؓ کو مولوی ثناء اللہ نے منگوا کر کرسی دے دی اور مَیں پاس بیٹھ گیا۔ غیرت ایمانی سے آپؓ کی طبیعت میں ایک ایسی حالت پیدا ہوئی کہ وہ دورہ رُک گیا۔مباحثہ شروع ہوا۔ دوگھنٹہ تک وہ رنگ پیدا ہوا کہ غیراحمدیوں نے ہمارے مبلغ کے ہاتھ چومے اوردعا کی درخواستیں دیں۔
تصور کریں کہ اعصابی دردوں کے جھٹکوں میں مبتلا انسان ہرکروٹ پر جس کے منہ سے آہ نکلتی ہو وہ سارے ہندوستان کی تبلیغ کے لیے گھر سے نکل آئے اور اسے اس کی پروا بھی نہ ہو کہ وہ بہت سی امراض کا گھر بن رہاہے۔ اسی حالت میں ہم مختلف مقامات پرہوتے ہوئے بمبئی گئے۔ بمبئی سے مالابار کے لیے جہاز پرسوارہوئے۔ جہازمیں مولانا کی طبیعت پھر خراب ہوگئی۔
منگلور کی بندرگاہ میں اُترے جہاز سمندر میں دو تین میل دُور کھڑا ہوا۔کشتی کے ذریعہ بندرگاہ تک آنا تھا۔ مولانا کی حالت ایسی تھی کہ نبض گر رہی تھی۔رنگ زرد، چہرے پر پسینہ اور آنکھیں بند تھیں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ شاید وہ زندہ کنارے تک نہ پہنچ سکیں۔ سمندرنے طوفانی رنگ اختیار کرلیا۔ موج پر موج اٹھنے لگی۔ کشتی موج کی د ھار پر پچاس فٹ اونچی چلی جائے اورکبھی دھاروں کے درمیان نیچے چلی جائے۔ اوپر سے خطرہ محسوس ہوتا کہ دونوں دھاریں مل جائیں گی اور سب مسافر ہمیشہ کی نیند سو جائیں گے۔ میرے قلب کو یہ تسلی تھی کہ ہم دین کے لیے نکلے ہیں، اگر مرگئے تو شہید ہوںگے۔ اس حالت میں کشتی والوں نے شور مچا دیا: یَابُخَارِیۡ شَیۡئًا لِلہ۔ یہ سننا تھا کہ حضرت راجیکی صاحبؓ کی آنکھیں کھلیں۔ آنکھوں میں خون اترااور کڑک کر کہا کہ یہ کیا بکتے ہو، بخاری ہمارے جیسا ایک آدمی تھا۔ کشتی والے سہم گئے۔ مولانا کے منہ سے ایک تیز فوارے کی طرح کلام جاری ہوگیا اور توحید اور پھر رسالت اور احمدیت کا وعظ ہونے لگا۔ چند آدمیوں کے سوا اور کوئی سمجھتا نہ تھا مگر آپ نے ان پر اتمام حجت کردی۔ اس حالت جوش نے اعصابی دردوں میں کمی کردی۔ ہم بخیریت کنارے پر پہنچ گئے۔
مولانا کے لیے مرطوب ہوا، چاول اور مچھلی ناموافق تھی۔ اب یہاں یہی غذا تھی۔ دورے بڑھ رہے تھے مگر تبلیغ جاری رہتی۔ کئی کئی آدمی دباتے مگر آرام نہ آتا۔ اس حالت میں مباحثات تقریری، درس قرآن جاری رہتا۔سچ تو یہ ہے کہ مَیں ان کی تکلیف کا نقشہ کھینچ نہیں سکتا۔ خدا کی آزمائش اور بڑھی۔ مولانا کے مقعد اور پیشاب کی نالی کے درمیان ایک پھوڑا نکلا۔ ورم سے تکلیف بڑھ گئی۔بخار دن را ت رہنے لگا۔جب ڈاکٹر نے پھوڑا چیرا تو پیشاب اصل جگہ کی بجائے آپریشن کی جگہ سے آنے لگا۔ جب پیشاب زخم کی جگہ سے آتا تو چیخ کے ساتھ بیہوش ہوجاتے۔ اس حالت میں بھی جب سننے والا آتا تو لیٹے ہی لیٹے تبلیغ کرنے لگتے اور کہتے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ پیغام حق دیتے ہوئے جان نکلے۔ پھر انفلوئنزا بھی ہوگیا۔ کئی کئی گھنٹے بے ہوشی رہتی۔ مگر جب افاقہ ہوتا تو لوگوں کوجمع کرکے سلسلہ کا پیغام دیتے۔ قرآن کریم کا درس دیتے۔ اس تکلیف میں چھ ماہ کا لمبا عرصہ گزر گیا مگر ایک منٹ کے لیے بھی ناشکری نہ کی اورنہ سلسلہ کی تبلیغ کو چھوڑا۔ ان کا صبر ایوبؑ کا صبر تھا۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحبؓ کو بہترین جزا عطا فرمائے اور آئندہ بھی مبلغین احمدیت کو ایسے نمونے پیش کرنے کی توفیق بخشے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں