حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22جنوری 2007ء میں حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ کا مختصر ذکرخیر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں فقیر محمد صاحب ولد ہیرا(قوم جٹ) ونجواں ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے کاشتکار تھے۔ ونجواں میں آپ کی زرعی و سکنی اراضی تھی۔ آپ تقریباً 1877ء میں پیدا ہوئے اور مارچ 1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ آپؓ جماعت احمدیہ ونجواں کے امیر بھی رہے۔
لوائے احمدیت کی تیاری میں آپؓ کے حصے میں یہ عظیم سعادت آئی کہ 1939ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر جب حضرت مصلح موعودؓ نے لوائے احمدیت کی تیاری کے متعلق فرمایا کہ صحابہؓ سے پیسہ پیسہ یا دھیلہ دھیلہ کرکے اُس سے روئی خریدی جائے اور صحابیات کو دیا جائے کہ وہ اس کو کاتیں اور اُس سوت سے صحابہ ہی اچھی سی لکڑی تلاش کر لائیں پھر اس کو باندھنے کے بعد جماعت کے نمائندوں کے سپرد کردیا جائے۔ روئی کی خرید کے متعلق حضورؓ کو یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ اگر ایسی کپاس مل جائے جسے صحابہ نے کاشت کیا ہو تو بہت اچھا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی اس مبارک خواہش کو اس طرح پورا فرمایا کہ حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ نے کچھ سوت حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا کہ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بویا اور پانی دیتا رہا اور پھر چُنا اور صحابہؓ سے دُھنوایا اور اپنے گھر میں اُس کو کتوایا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ آپؓ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار عرصہ سے سندھ میں رہتے تھے۔ میں جوانی کے آغاز میں تھا کہ سندھ سے مجھے خط آیا کہ تمہارا فلاں رشتہ دار فوت ہو چکا ہے اور زمیندارہ کام میں مدد کی ضرورت ہے اسلئے فوراً سندھ چلے آئو۔ خط دیکھ کر مَیں بہت گھبرایا کیونکہ مجھے سندھ کے سانپوں اور بچھوؤں کی باتیں سن سن کر بہت گھبراہٹ ہوتی تھی اور میں ڈرتا تھا۔ میں نے سوچاحضرت مسیح موعودؑ سے مشورہ کرلوں، چنانچہ قادیان گیا۔ اس وقت مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ عصر کی نماز پڑھارہے تھے۔ صرف چھ سات نمازی تھے۔ میں نے حضورؑ کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور نماز کے بعد اپنا مسئلہ عرض کیا۔ حضورؑ میری بات سنتے رہے، حضورؑ کی نظر نیچی تھی اور تسبیح فرمارہے تھے۔ جب میری بات ختم ہوئی تو حضورؑ نے میری طرف دیکھا جس سے مجھ پر خاص اثر ہوا۔ پھر فرمایا: ’’آپ سندھ جائیں آپ کو کوئی خطرہ نہیں‘‘۔ چنانچہ مَیں بے فکر ہوکر سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہاں کبھی سانپ سامنے آتا تو نڈر ہوکر اسے ہاتھ سے پکڑلیتا اور ماردیتا… لوگوں نے مجھے پنجابی دیوتا کہنا شروع کردیا۔ ایک دن کھرلی میں چارہ ٹھیک کررہا تھا کہ کسی چیز نے میرے بائیں ہاتھ کی انگلی پر ڈنگ مارا۔ میں نے ہاتھ پٹھوں سے باہر نکالا تو ایک موٹا بچھوتھا جو مرا ہوا تھا، میں نے اسے جھٹک دیا۔
حضرت چوہدری فقیر محمد صاحبؓ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے اور موصی بھی تھے۔ آپ ؓ1947ء میں تقسیم ملک کے وقت اپنے گائوں میں عورتوں کی حفاظت کر رہے تھے کہ شہید کردیے گئے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں