حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اپریل 2007 میں مکرم نور احمد عابد صاحب کے قلم سے اپنے والد حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب آف خودپور مانگاکا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب 1867ء میں بمقام خود پور مانگا ضلع لاہور پیدا ہوئے اور 9؍ستمبر 1961ء کو احمد نگر ضلع جھنگ فوت ہوکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپؓ کے والد محمد حسین صاحب حنفی تھے مگر آپؓ نے عین بلوغت میں اہل حدیث کا مسلک اپنا لیا اور پھر 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کرلیا۔
آپ اکلوتے بیٹے اور تین بہنوں کے بھائی تھے۔ گزشتہ چھ سات نسلوں سے ان کے آباء واجداد میں صرف ایک ہی بیٹا پیدا ہوتا رہا مگر احمدیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو چھ بیٹے عطا فرمائے جن میں سے ایک تو بچپن میں ہی فوت ہوگیا اور باقی پانچ بیٹوں سے جو نسل چلی وہ اب تک سینکڑوں میں آچکی ہے۔
خود پور مانگا میں آپؓ کی جدی زرعی زمین دریابرد ہوچکی تھی اور نئے بندوبست اراضی کے تحت ضلع منٹگمری اور ضلع لائلپور میں نئی آبادکاری کے لئے زرعی زمین دی جارہی تھی۔ اس سے استفادہ کرنے میں آپؓ کے والد ناکام رہے کیونکہ وہ ایک علمی خاندان سے متعلق تھے جن کا بنیادی کام درس و تدریس تھا۔ اس لئے آپؓ اپنے آبائی مقام سے نقل مکانی کرکے پکی ٹھٹی تحصیل چونیاں میں رہائش پذیر ہوگئے اور یہیں آپؓ کو مع اہل و عیال قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
اس کے بعد آپؓ علی پور ضلع لاہور میں منتقل ہوگئے اور قرآن کریم کی درس و تدریس اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجہ میں علی پور، شمس آباد اور کھریپٹر وغیرہ میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ پھر آپ ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر ہوگئے اور وہاں مطب کھولا۔ نیز برانچ پرائمری سکول میں مدرس کے طور پر اور ساتھ ہی برانچ پوسٹ ماسٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ گاؤں کے اکثر مردوں اور خواتین کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔ یہاں بھی ایک مستحکم جماعت قائم ہوگئی۔
مضمون نگار 3؍اپریل 1919ء میں علی پور میں پیدا ہوئے۔ 1931ء میں ششم پاس کرکے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران 1941ء میں فوج میں بھرتی ہوکر جاپان، برما اور سنگاپور میں مقیم رہے اور تقسیم ہند کے بعد راولپنڈی میں منتقل ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں