حضرت میاں مولابخش صاحب ؓ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی و جون2023ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

حضرت میاں مولابخش صاحب رضی اللہ عنہٗ (والد محترم حافظ محمدرمضان صاحب مولوی فاضل مربی سلسلہ احمدیہ) قادیان سے جا نبِ شمال موضع پسنانوالی کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کے والد کانام محمد تھا جواسی گاؤں کے اچھے لکھے پڑھے صاحب ِ تقویٰ وطہارت بزرگ تھے۔ علاقہ بھرمیں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے تین بیٹے تھے: محمدعبداللہ ؔمنشی فاضل، خیردین اور مولابخش۔
میاں مولابخش صاحب اپنے بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ (1885ء سے قبل) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ملاقات کے لیے کئی دفعہ قادیان آچکے تھے۔ گو آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ زندگی کی جھلک توبچپن سے ہی دیکھی ہوئی تھی لیکن آپ خود احمدیت کی طرف یوں راغب ہوئے کہ انہی دنوں قصبہ سٹھیالی کے قریب سے نہراپرباری دوآب کی ایک شاخ گزرتی تھی اور حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دہلوی اسی نہرپراوورسیئرمتعیّن تھے۔ میاں مولابخش صاحب ملازمت کے لئے حضرت میر صاحب کی خدمت میں حاضرہوئے اوراس طرح دونوں میں روابط بڑھنے لگے اور اسی تعلق سے احمدیت کی طرف راغب ہوکر 1894ء میں مولابخش صاحب نے بیعت کرلی۔
اسی زمانہ میں میاں مولا بخش صاحبؓ کے دو بڑے بھائی برٹش سفارت خانہ کابل میں ملازم ہوکر افغانستان چلے گئے۔ بعدمیں کسی موقع پر انہوں نے آپؓ کوبھی کابل بلوالیا مگر جب آپؓ افغان سرحد پارکرنے لگے توبوجہ پروانہ راہداری نہ ہونے کے روک دیے گئے۔ وہاں بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی۔ اورسخت حیران کہ علاقۂ غیرمیں اب کیا بنے گا؟ اتنے میں انگریزی چوکی کا ایک کلرک آیا اور پنجابی میں کہنے لگا: آؤ میاں جی گھر چلیں۔ یہ حیران کہ یہ کون ہے؟ وہ کہنے لگا کہ مَیں آپ کے والد صاحب کا ایک شاگرد ہوں۔ مَیں نے آپ کوپہچان لیا ہے۔ آپ کو اس بےسروسامانی میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں، آرام سے میرے گھرمیں رات بسرکریں، صبح اللہ مالک ہے۔ اگلے دن اتفاق سے سفارت خانہ کابل کے ایک مسلمان ڈاکٹرکابل جارہے تھے۔ ان کوایک ملازم کی ضرورت تھی۔ اس کلرک نے مولابخش صاحب کی سفارش کردی۔ ادھرجب ڈاکٹرصاحب کوعلم ہواکہ ان کے دوبھائی برٹش سفارت خانہ میں پہلے ہی ملازم ہیں تواُن کوخوشی سے ہمراہ لے گئے۔

’’خدا خود میرِ سامان است اربابِ توکلّ را‘‘

کابل جاکر بھائیوں سے ملے، ملازمت پہلے ہی مل چکی تھی۔ انہی ڈاکٹر صاحب کے ہاں سے کھانا مقرر ہوگیا۔ جو تنخواہ ملتی وہ خالص بچت ہوتی۔ اس طرح کافی روپیہ پس اندازکرلیا۔
کابل میں ایک دن شاہی باغ کے دروازے پرکھڑے تھے کہ امیر عبدالرحمٰن شاہ افغانستان کی سواری آگئی۔ اس نے ایک اجنبی کو دروازے پر دیکھ کرپوچھاکہ تم کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ فلاں ڈاکٹرصاحب کے ہاں ملازم ہوں اور پنجاب کارہنے والاہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارے باغ میں خوب میوہ کھایا کرو۔ انہوں نے ذرا اَور جرأت سے کا م لے کرعرض کیا:’’حکم بدِ ہ‘‘کہ آپ حکم دے دیں۔ اس پر بادشاہ نے افسرباغ سے کہہ دیا کہ ان کواجازت ہے، مفت پھل دے دیا کرو۔ چنانچہ آپ جب جاتے سیرہوکرآتے۔ آپؓ چھ برس کابل میں رہے۔ کچھ توگھریلوتعلیم کااثرتھا کہ اس زمانہ میں فارسی عام زبان تھی اورکابل میں رہ کربحرکھُل گیا۔ فارسی میں بڑی روانی سے باتیں کیا کرتے تھے۔ ’’گلستان ‘‘ اور ’’بوستان ‘‘ کے اشعارنوکِ زبان رہتے اوربڑی مہذّب گفتگو کیا کرتے تھے۔
کابل سے واپسی پرآپؓ نے اپنے گاؤں میں چمڑے کی تجارت شرو ع کردی۔ اس عرصہ میں کبھی کبھی قادیان ضرور آتے رہے۔ 1918ء میں آخر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی کشش اُنہیں مستقل طورپرقادیان میں لے آئی اور حضرت میرصاحب کے مکان سے بالکل ملحق پھاگل پورہاؤس کی دکانوں میں رہائش اختیار کرلی۔ چندسال قبل بیوی کاانتقال ہوچکا تھا۔ چار لڑکے تھے۔ فضل حق، اللہ داد، محمدرمضان اور علاؤالدین۔ دوبڑے لڑکے باپ کے ہمراہ کام کرتے تھے۔ محمد رمضان اڑھائی برس کی عمرمیں نابینا ہو گئے اورعلاؤالدین بالکل بچہ تھا۔ نہایت سادگی سے زندگی بسر ہوتی تھی۔ خداتعالیٰ نے طبیعتوں میں کچھ ایسی مناسبت پیداکی تھی کہ حضرت میر صاحب ان کے بغیرنہ رہتے تھے اوریہ بھی ہمزاد کی طرح ساتھ لگے رہتے تھے۔
بٹالہ سے تین میل کے فاصلہ پرقادیان کی سڑک سے نصف میل ہٹ کرقصبہ مسانیاں میں ایک پیرصاحب کی گدّی ہے جن کی اُس علاقہ میں خوب مانتا تھی۔ ایک دفعہ حضرت میرصاحب ؓ اورمیاں مولابخش صاحبؓ بٹالہ سے ریل میں سوار ہوکر امرتسرجارہے تھے۔ اتفاق سے وہ پیرصاحب بھی اسی ڈبّے میں سوار ہوگئے لیکن اس حالت میں کہ ان کے ہاتھ پرایک بازتھا۔ دوچارمریدحقّہ لیے ہوئے ہمراہ تھے اور کوٹ کی جیب سے شراب کی بوتل جھانک رہی تھی۔ جب گاڑی روانہ ہوئی توپیرصاحب نے مولابخش صاحبؓ سے پوچھا۔ کہ ’’یہ کون بزرگ ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’حضرت مرزاصاحب ؑ کے خسر ہیں۔ ‘‘
پیرصاحب نے خواہش کی کہ اُن سے کچھ دریافت کرناچاہتاہوں۔ مولابخش صاحب نے میر صاحب سے اجازت لے کرپیرصاحب کو قریب آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے میر صاحب سے دریافت کیاکہ ’’حضرت! آپ نے مرزا صاحب میں کیاخوبی دیکھی تھی جواپنی بیٹی کارشتہ دینامنظورکرلیا؟‘‘
میرصاحب نے فرمایاکہ ’’مَیں نے کیا بُرا کیا؟کیا تمہارے جیسے سیّدوں کو رشتہ دیتا؟ کیا تمہارے نانا کے ہاتھ پر باز ہوا کرتا تھا؟ کیا وہ حقّہ پیا کرتے تھے اور نوکر حقّہ لے کرہمراہ چلتے تھے؟ اور کیا اُن کی جیب میں بوتل ہوا کرتی تھی ؟
پیرصاحب نے بھلا ایسا جواب کب سُنا تھا؟ سنّاٹے میں آگئے۔ آخر کیا بولتے؟ حالت دیکھنے والی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھتے رہے۔ وہ توشُکرہے کہ جلد ہی سٹیشن جینتی پورہ آگیااوروہ اُترکر کسی دوسرے خانے میں چلے گئے۔
ایک دفعہ حضرت میر صاحب نے مولابخش کو بلوایا اور کہا کہ تیار ہوجاؤ۔ ابھی امرتسر جانا ہے۔ وہ ہروقت تیار رہتے تھے۔ صرف اشارے کے منتظرتھے۔ رات امرتسر میں کسی احمدی کے گھر مقیم ہوئے۔ صبح سویرے ہی میر صاحب نے بکرمنڈی جاکر ایک سو بکرے جو قربانی کے لائق تھے خریدے اور مولا بخش کو زادِراہ دے کربٹالہ روانہ کردیا۔ وہ رات منشی عبدالکریم صاحبؓ کی سرائے میں گزار کر اگلے دن قادیان پہنچ گئے۔ عیدقربان نزدیک تھی۔ تمام جانور فروخت کرائے۔ نفع میں سے یکصد روپیہ مولا بخش کا حصّہ بنا۔
ایک دن اتفاق سے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ میر صاحب سے ملنے کے لیے تشریف لائے تو مولابخش نے عرض کیا کہ میر صاحب! میاں صاحب سے سفارش فرمائیں تا مجھے دس مرلہ زمین مکان کے لیے عنایت فرمائیں۔ میر صاحب ؓنے وہی نفع والا سو روپیہ میاں صاحب کو دے دیا اور سفارش بھی کر دی۔ میاں صاحب فرمانے لگے کہ بیس روپے اَور درکار ہیں۔ میر صاحب ؓ نے بزرگانہ رعب ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وہ بیس روپے اپنی جیب سے ڈال دو۔ اس طرح محلہ دارالرحمت میں بڑی موقع کی زمین مل گئی، جس پر مختصر سا مکان تعمیر کرلیا۔
چونکہ میاں مولا بخش صاحب ہمیشہ حضرت صاحب کے زیر سایہ ر ہے۔ ایک دن عرض کیا کہ اب مجھے کوئی فکرنہیں ہے سوائے ایک کے باقی تمام لڑکے تو اپنے کاموں میں ماہر ہوگئے ہیں مگر محمد رمضان کا کیا بنے گا ؟ حضرت میر صاحب ؓ نے فرمایا کہ اس کو مدرسہ احمدیہ میں لے جاؤ اور داخل کرادو۔ دوسرے دن جب ہیڈماسٹر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے جاکر ملے تو انہوں نے معذوری ظاہر کی کہ ایک نابینا طالب علم کا انتظام مشکل ہے۔ میر صاحب نے فرمایا کہ کل میرے ساتھ چلنا۔ میر صاحب گئے اور شیخ مصریؔ صاحب اب کی بار انکار نہ کرسکے۔ میر صاحب نے فرمایا کہ یہ کلاس میں بیٹھ کر صرف سنتا رہے گا اور ان شاءاللہ کچھ نہ کچھ حاصل کرلے گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے ایسی برکت بخشی کہ ظاہری بصارت کی کمی خداداد دماغی قابلیت سے پوری ہوگئی۔ نہ صرف قرآن مجید حفظ کرلیا بلکہ پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل امتحان میں چوتھے نمبر پرپاس ہوئے۔ مولوی محمد سعید انصاری صاحب (مبلغ انڈونیشیا) اُن کے رائٹر تھے۔ محترم حافظ رمضان صاحب کافی عرصہ تک متفرق کلاس کے استاد رہے۔ پھر باقاعدہ مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل کرلیے گئے۔ ان کے پڑھنے کا طریق حافظ روشن علی صاحبؓ اور حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی اے کا امتزاج تھا۔ آواز خوب پاٹ دار تھی اور عام فہم زبان میں وعظ کیا کرتے تھے اور وعظ کے درمیان موزوں اشعار اور لطائف سنا کر سماں باندھ دیا کرتے تھے۔اُن کے تین بیٹے ہیں۔
حضرت میاں مولا بخش صاحبؓ کی آنکھوں میں ہر وقت ایک پانی سارہا کرتا تھا جو کثرت سے ذکرِ الٰہی کا ثبوت تھا۔ روزانہ بہت سویرے بیدار ہوتے۔ تہجد کے لیے بلند آواز سے ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے مسجد کو جاتے۔ لوگ ان کی آواز سے جاگ اٹھتے اور ذکرِ الٰہی میں لگ جاتے۔ الغرض بہت خوبیوں کے مالک تھے۔1938ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں