حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

محترم شیخ اعجاز احمد صاحب نے نومبر 1985ء میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے بارہ میں چند خوبصورت یادیں مکرم سید حسین احمد صاحب کی خواہش پر تحریر کی تھیں جو ماہنامہ ’’المصلح‘‘ کراچی کے شکریہ کے ساتھ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مارچ 1998ء میں شامل اشاعت ہیں۔

محترم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت چودھری صاحب کا حافظہ حیرت انگیز تھا اور آپؓ کی سوانح عمری اس عطیہ الٰہی کا بین ثبوت ہے۔ حضرت چودھری صاحبؓ اپنی عملی زندگی کی ابتدا میں بیرسٹری کی پریکٹس کے ساتھ ساتھ دو تین سال تک لاء کالج لاہور میں جزوقتی لیکچرار بھی رہے تھے جہاں میں پڑھا کرتا تھا۔ ہماری کلاس میں ڈیڑھ دو سو طالبعلم تھے اور چونکہ امتحان میں شمولیت کے لئے مقررہ تعداد میں کلاس میں حاضری ضروری تھی اس لئے طلبہ لیکچروں سے غیرحاضر ہونے کے باوجود اپنی حاضری لگوانے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ دوسرے اساتذہ کے لیکچروں میں حاضری لگوانے میں کوئی دشواری نہ ہوتی اور زید کی جگہ اُس کا دوست بکر Present کہہ دیا کرتا لیکن چودھری صاحب کی کلاس میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہر ایک کی آواز پہچانتے ہوں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ابتدا میں نیویارک سے کچھ میل باہر ہوتے تھے۔ جب چودھری صاحب اجلاس کیلئے جاتے تو آپ کا قیام نیویارک میں ہوتا۔ پاکستانی مشن کی موٹر کا ڈرائیور ایک حبشی ایلمو نامی تھا۔ ایک روز جب اُس نے ایک غلط موڑ مُڑا تو چودھری صاحب نے اُس کو غلطی کی طرف توجہ دلائی۔ وہ نیویارک کا رہنے والا اور عرصہ سے وہاں ڈرائیونگ کرنے والا، بھلا راستوں کی ناواقفیت کو کیسے تسلیم کرلیتا۔ بڑے فخر سے کہنے لگا: “Mr. Minister I know my job”. ۔لیکن کچھ ہی دور جاکر جب اُسے غلطی کا احساس ہوا تو اُس نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے معذرت کی۔
چودھری صاحب کو وقت کی پابندی کا بہت خیال تھا۔ دہلی میں قیام کے دوران آپؓ نے کسی معاملہ پر غور کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا ایک رُکن میں بھی تھا۔ سردیوں کے دن تھے اور مجھے پرانی دہلی سے نئی دہلی آنا پڑتا تھا۔ چودھری صاحب نے صبح آٹھ بجے کا وقت مقرر کیا۔ میں نے ذرا تاخیر سے وقت مقرر کروانے کے خیال سے پوچھا ’’کیا یہ وقت تبدیل نہیں ہوسکتا؟‘‘ فرمایا کیوں نہیں ہوسکتا۔ اور صبح سات بجے کا وقت مقرر کردیا۔ مرتا کیا نہ کرتا صبح سات بجے آنا پڑا۔
چودھری صاحبؓ کو جوانی میں ہی ذیابیطس کا مرض لاحق ہوگیا تھا لیکن آخری ڈیڑھ سال کے علاوہ اُن کی صحت قابل رشک تھی۔ 90 سال تک وہ پوری طرح چاق و چوبند رہے۔ 63ء میں جب میں عالمی ادارہ خوراک و زراعت سے متعلق تھا تو ایک کانفرنس کے سلسلہ میں واشنگٹن جانے کا اتفاق ہوا۔ کانفرنس کے اختتام پر کچھ چھٹی لے کر نیویارک گیا اور چودھری صاحب کے ہاں ٹھہرا جن کی رہائش پاکستان مشن سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک اپارٹمنٹ میں تھی۔ آپؓ روزانہ پارک میں دو میل سیر کرتے ہوئے پیدل دفتر جاتے تھے۔ ناچار مجھے بھی پیدل چلنا پڑا۔ اُنہیں تیز سیر کرنا ہوتی تھی اور یہ میرے لئے دوہری مصیبت تھی۔ مشن کے دفتر میں اُن کا کمرہ تیسری منزل پر تھا۔ جب پہلے دن ہم مشن پہنچے تو انہوں نے سیڑھیوں کا رُخ کیا۔ میں پہلے ہی ہانپتے کانپتے پہنچا تھا۔ اُن کو سیڑھیوں کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا اس عمارت میں کوئی لفٹ نہیں؟۔ ہنس کر فرمایا ’’یہاں ہے اس کونے میں، بوڑھوں کے لئے تم اس میں آ جاؤ‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں