حضرت چودھری منشی رُستم علی صاحبؓ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2002ء میں حضرت چودھری منشی رُستم علی صاحبؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم راشد محمود احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
’’براہین احمدیہ‘‘ کی خریداری کے سلسلہ میں حضرت منشی صاحبؓ کا پہلا رابطہ حضرت مسیح موعودؑ سے قائم ہوا جو بعد میں مراسلات اور تعلقات کے ذریعہ مضبوط ہوتا چلا گیا اور آپؓ کو اخلاص و محبت کے ساتھ محض للہ خدمت کی سعادت بھی عطا ہوتی رہی۔ بیعت کرنے والوں میں آپؓ کا نمبر دسواں ہے۔ 1891ء اور 1892ء میں پہلے اور دوسرے جلسہ سالانہ میں بھی آپؓ شامل ہوئے اور آپؓ کا ذکر حضورؑ نے اپنی کتب ’’آسمانی فیصلہ‘‘ اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں فرمایا۔ 1894ء میں حضورؑ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانداری کے سلسلہ میں بعض خدمات کا شرف عطا فرمانے کے لئے آپؓ کو متعدد خطوط تحریر فرمائے۔ آپؓ کا نام حضورؑ نے 313 صحابہؓ کی فہرست میں 227ویں نمبر پر تحریر فرمایا ہے۔ حضورؓ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’حبی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے۔ یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں میں سے ہے۔ اُن کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں۔ کسی ابتلا کے وقت مَیں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا، اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روزافزوں ہے‘‘۔
حضرت منشی صاحبؓ مدراں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے اور آپؓ کے والد محترم کا نام شہاب الدین تھا۔ آپؓ محکمہ پولیس میں سارجنٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور 1888ء میں ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر ہوئے اور دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تعینات ہوئے۔ 1890ء میں آپؓ کی تبدیلی محکمہ پولیس ریلوے میں ہوئی۔ 1893ء میں کورٹ انسپکٹر ہوکر منٹگمری چلے گئے۔ پھر انسپکٹر بنادیئے گئے اور پہلے لاہور میں، پھر حضورؑ کی دعا سے (قادیان کے قریب) گورداسپور میں متعین رہے۔
حضرت منشی صاحبؓ مالی قربانی میں پیش پیش رہے۔ دو روپیہ سے بیس روپیہ ماہوار تک چندہ دیتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت منشی صاحبؓ کی تنخواہ 80؍روپے تھی تو حضورؑ نے ایک دینی ضرورت کیلئے آپؓ کو رقم بھجوانے کیلئے لکھا۔ انہی دنوں حکومت نے تمام کورٹ انسپکٹروں کو ترقی دے کر انسپکٹر کردیا اور آپؓ کی تنخواہ یکدم 180؍ روپے ہوگئی۔ اس پر آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں لکھا کہ یہ اوپر کے روپے میرے نہیں ہیں، یہ حضورؑ کے طفیل ملے ہیں اس واسطے یہ سو روپے وہ ہمیشہ علیحدہ حضورؑ کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے اور سابقہ چندہ بھی بدستور جاری رکھا۔
آپؓ شعر بھی کہتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کا کلام دیکھ کر فرمایا: ’’آپؓ کے اشعار نہایت پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے ہیں۔ باایں ہمہ متانت ایسی ہے کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی۔ یہ امر خداداد ہے۔‘‘
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپؓ قادیان آگئے اور سلسلہ کی خدمت بلامعاوضہ کرتے رہے حتیٰ کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا۔ انجمن نے آپؓ کو افسر بیت المال مقرر کیا اور لنگر کا انتظام بھی آپؓ کے سپرد کردیا۔ ایام جلسہ میں آپؓ نے نہایت جانفشانی سے خدمت سرانجام دی۔ اس کی وجہ سے آپؓ کو بخار نے آلیاجو نمونیہ میں بدل گیا اور صرف چھ روز بعد 11؍جنوری 1909ء کو یہ مخلص، خاموش طبیعت، سلسلہ کا فدائی وفات پاگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں