حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب ؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10جنوری2007ء میں حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ کا مختصر ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب رنمل ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ آپ ملازمت کے سلسلے میں مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں پہلے تو محکمہ ریلوے میں کلرک ہوگئے لیکن بعد میں اسپتال اسسٹنٹ ہوگئے۔ طبیعت زیادہ تر نیچریت کی طرف مائل تھی۔ اتفاقاً بیمار ہو گئے تو حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحبؓ (یکے از 313اصل سکونت گوڑیانی ضلع رہتک وفات 9جون 1921ء قادیان) عارضی طور پر آکر آپ کی جگہ کام کرنے لگے۔ اسی اثناء میں انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب آپ کو دکھلائیں۔ انہی ایام میں آپ نے خواب بھی دیکھا جس سے تفہیم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ حضرت مرزا صاحب ہیں۔ چنانچہ آپ نے بذریعہ خط 1898ء میں احمدیت قبول کی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ نے تقویٰ و طہارت میں بہت ترقی کی۔ چنانچہ آپ کے پاک نمونہ کو دیکھ کر بھی سینکڑوں سعید روحیں جماعت سے وابستہ ہوئیں ۔ قادیان آتے تو لمبے عرصے تک قیام کرتے تا حضورؑ کی پاکیزہ صحبت سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ ایک مرتبہ قادیان ایسے وقت میں حا ضر ہوئے کہ گھر میں کئی امور آپ کی حا ضری اور شراکت چاہتے تھے کسی عزیز کی شادی کا ہونا اور خود آپ کے گھر میں دختر کا پیدا ہونا مگر آپ نے اب سارے امور پر قادیان کی حاضری کو ترجیح دی۔
آپ سومالی لینڈ (مشرقی افریقہ ) میں ایک جنگ کے دوران مصروف خدمت تھے کہ بعمر 28سال 10؍جنوری 1904ء کو دشمن کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے اورآپ کی نعش وہیں دفن کر دی گئی ۔حضور کو آپ کی وفات کی اطلاع ملی تو حضور نے فرمایا:
’’وہ واقعی قابل تعریف آدمی تھے اور ایک نمونہ تھے ۔ اخلاص اور محبت سے پر تھے۔ تقویٰ بھی ان میں تھااور نور سے ان کا منہ چمکتا تھا۔ حقیقت میں ایک آدمی ایسا فوت ہوا ہے کہ بظاہر اس جیسا پیداہونا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ ایسے اخلاق اور محبت والے جماعت میں کم ہیں خدا تعالیٰ قادر ہے اس کی جناب میں کمی نہیں وہ اور کسی طور سے اس نقصان کو پورا کر دے گا … 15 یا 20 دن یا شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے مجھے الہام ہوا تھا’’ایک وارث احمدی فوت ہو گیا‘‘۔
حضورؑ نے فروری 1904ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کو ایک مکتوب میں فرمایا: ’’درحقیقت مجھے بھی ان کے فوت ہونے سے بہت صدمہ ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ ایسا نیک بخت ، مخلص اور عالی ہمت جوان ہم سے جدا ہو گیا۔ ہزاروں میں سے کوئی اس کی مانند ہوگا لیکن تقدیر الٰہی سے کیا چارہ ہے۔ اگر کوئی مصیبت ایسی ہوتی جو پہلے مجھے خبر ہوتی تو میں دعا کرتا مگر یہ ناگہانی امر ہے۔…‘‘
ایک اور موقع پر حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ اس کی پاکیزہ فطرت کی نشانی ہے کہ افریقہ میں غائبانہ طور پر ہمیں قبول کیااور اس چھوٹی سی عمر میں ترقی اخلاص میں بھی کی۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم ص 553)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں