خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے 20؍ ستمبر 2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس سال جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مجلس انصار اللہ اپنی مجلس کے قائم ہونے کے 75سال پورے ہونے پر جوبلی منا رہی ہے۔اس حوالے سے مختلف ممالک میں مجالس انصار اللہ نے پروگرام ترتیب دئیے ہیں۔ اکثر جگہوں پر ان پروگرامز کے مطابق یہ جوبلی منائی گئی۔ مجلس انصار اللہ یوکے نے بھی اس حوالے سے اس سال کے اجتماع پر بیرونی ممالک کے صدران انصار اللہ اور نمائندگان کو اجتماع انصار اللہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس دفعہ یورپ اور بعض اور ممالک کے انصار اللہ کے نمائندگان آج یہاں شامل ہیں۔
جوبلی منانا اچھی بات ہے۔ یہ بہت سی باتوں کی طرف توجہ بھی دلاتی ہے اور اس کے منانے کے حوالے سے بعض اہم منصوبوں کو انجام دینے کی طرف خاص توجہ پیدا ہوتی ہے، وعدے کئے جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اپنے جائزے لئے جاتے ہیں۔ پس اگر اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے 75سال منا رہے ہیں تو بہت اچھی بات ہے ورنہ اگر صرف خوشی اور ہاہُو ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن انصار اللہ کے بہت سے ایسے ممبران بھی ہیں جو صرف جوبلی منانے کی خوشی تک ہی محدود رہتے ہیںا ور سمجھتے ہیں کہ جوبلی منائی اور کام ختم ہو گیا بلکہ بہت سے عہدیداران بھی جس ذوق و شوق سے جوبلی اجتماع اور پروگراموں کو سرانجام دینے کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان میں بھی چند دن بعد وہی عام سستی طاری ہو جائے گی۔ اگر ہم نے صرف عارضی خوشی منانی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہے۔
قوموں کی زندگی میں 75سال کوئی ایسی چیز نہیں ہوتے جس کو بڑی کامیابی سمجھ لیا جائے اور صرف خوشی منا کر ہم بیٹھ جائیں اور کہتے پھریں کہ دیکھو ہماری تنظیم 75سال سے قائم ہے۔ دنیا میں کئی تنظیمیں ہوں گی جنہوں نے 75سال بلکہ 100سال منائے ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ ان کو وہ مقصد یاد نہیں رہتا جس کے حاصل کرنے کے لئے وہ قائم کی گئی ہوتی ہیں یا مصلحتوں اور ممبران کے مفادات کا شکار ہو کر وہ اپنے بنیادی مقصد سے دُور چلی جاتی ہیں۔ اگر وہ تنظیمیں دنیا کے فائدے کے لئے بنائی گئی ہوں تو ایک عرصے کے بعد دنیا ان کے فوائد سے محروم ہو جاتی ہے۔ بیشک ان کے بجٹ بڑے بڑے ہوتے ہیں، بیشک وہ بظاہر طاقتور نظر آتی ہیں لیکن ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہیں کیونکہ اصل مقصد سے وہ دُور ہٹ گئی ہوتی ہیں۔ اگر بہت بڑے بڑے بجٹ ہیں اور بیشک آمد ہورہی ہو تو مفادپرست طبقہ ہی بجٹ سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ یا اگر وہ ملکوں کی تنظیم ہے تو طاقتور ملک ہی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ یا صرف اس حد تک دوسروں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے جبتک کہ بڑے بڑے ممالک یا ملکوںکے مفادات متاثر نہ ہوں۔ گویا کہ اصل مقصد وہ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ شروع کی گئی تھیں بلکہ اپنے مفادات ہو جاتے ہیں۔ جس روح کے ساتھ تنظیم کو چلانے کا شروع میں دعویٰ کیا جاتا ہے اسے وہ بھول جاتے ہیں۔ دنیاوی تنظیموں میں اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت یو این او(UNO) ہے جس کے 70 سال پورے ہو گئے ہیں اور وہ بھی اسے منا رہے ہیں۔ اور بہت سے تبصرہ کرنے والوں نے اس کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔ کالم لکھے ہیں کہ اس نے اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ کر کھویا زیادہ ہے اور پایا کم ہے۔ تو یہ تو دنیاوی تنظیموں کا کام ہے اور ان کی حالت ہے۔ لیکن روحانی جماعتوں میں جو تنظیمیں قائم ہوتی ہیں ان کی بنیاد خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول پر ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی خوشیاں ظاہری دنیاوی خوشیاں نہیں ہوتیں، نہ ہونی چاہئیں۔ پس یہ خوشی ہم نے حاصل کرنی ہے تو اس کے لئے ایک کے بعد دوسری نسل کے انصار کو ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ اپنے مقاصد کو زندہ رکھنا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب انصار اللہ قائم فرمائی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سامنے رکھتے ہوئے، جس میں ایک ایسے نبی کے مبعوث ہونے کی دعا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ اے ہمارے ربّ! تو اُن میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث فرما۔یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ جو اُن پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تُو ہی کامل غلبے والااور حکمت والا ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد21 صفحہ265)
پس یہ ہے وہ مقصد، یہ ہیں وہ باتیں جن کو آپ نے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنانے والا ہو، جو شریعت کے احکام اور اس کی حکمتیں سمجھانے والا ہو، جو تزکیہ کرنے والا ہو۔ یہ رسول کے لئے دعا مانگی گئی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔ اور پھر سورۃ جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے آخرین میں بھی ایسے نبی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے آنے کا ذکر فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے پہنچانے والا ہو۔ اور پھر اس حوالے سے باقی ذیلی تنظیموں کی طرح انصار اللہ پر بھی یہ ذمہ داری ڈالی کہ تمہارا کام بھی تبلیغ کرنا ہے۔ قرآن کریم پڑھانا ہے۔ اس کی شرائع کی حکمتیں بیان کرنا ہے۔ اچھی تربیت کرنا ہے۔ قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں ترقی کے میدان میں بڑھانا ہے۔ پس یہ مقاصد ہیں جس کے لئے انصار اللہ قائم کی گئی تھی۔ 75 سال پورے ہونے پر ہم نے دیکھنا ہے کہ یہ ذمہ داریاں ہم نے کس حد تک ادا کی ہیں۔ یہ مقاصد ہم نے کس حد تک پورے کئے ہیں۔ کیا ہم نے تبلیغ کا حق ادا کر کے اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ کیا ہم نے تعلیم حاصل کر کے پھر اسے اپنی نسلوں میں رائج کرنے کی ذمہ داری بھی ادا کی ہے۔ کیا ہم نے اپنی اولادوں کو بھی اور دنیا کو بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکتمیں بتانے کی ذمہ داری ادا کی ہے یا صرف ان بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ہی پیچھے پڑے رہے ہیں۔ کیا ہم نے جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے یا خاص طور پر ان ملکوں میں آکر صرف مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں میں شامل رہے ہیں۔
پس 75سال پورے ہونے پر یہاں کی انصار اللہ بھی اور دنیا کی انصار اللہ کی تنظیمیں بھی یہ جائزے لیں کہ ہم میں سے ہر ایک نے اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں کس قدر حصہ لیا ہے۔ اس وقت امریکہ والے بھی براہ راست یہ پیغام سن رہے ہیں، وہاں بھی انصار اللہ کا اجتماع ہو رہا ہے۔ اَور جگہوں پر بھی سن رہے ہوں گے۔ صرف انصار اللہ کا ممبر ہونا تو مقصد نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لئے اپنی جان، مال، وقت قربان کرنا اصل مقصد ہے۔ تبھی ایک کے بعد دوسری نسل اس کام کو سنبھالنے کے لئے آتی ہے اور آتی رہے گی۔ تبھی ہم اپنی بنیادوں پر قائم رہیں گے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔ تبھی ہم اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے انصار میں شمار ہو سکیں گے اور ہم حقیقت میں نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا نعرہ لگانے والے کہلاسکیں گے۔
قرآن کریم میں یہ نعرہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے حوالے سے ملتا ہے۔ ایک آیت تلاوت بھی کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت جب ان پر تنگیاں وارد کی جا رہی تھیں، اس وقت جب وہ لوگ مشکلات میں گرفتار تھے اور پھر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عیسائیت پر، خاص طور پر موحّد عیسائیوں پر، یہ سختیاں تقریباً تین سو سال تک مختلف جگہوں پر اور مختلف حالتوں میں وارد ہوتی رہیں۔ سختیوں کے باوجود وہ اپنے مقصد کی حفاظت کرتے رہے اور پھر جب تین سو سال کے بعد حکومتوں نے عیسائیت قبول کی تو گو عیسائیت بڑے وسیع پیمانے پر پھیلنا شروع ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی اپنی بنیادی تعلیم سے وہ دُور ہوتے چلے گئے۔ اپنے مقصد کو بھول گئے۔ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بنیادی پیغام اور تعلیم جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کا سبق دیتی تھی اسے بھول کر شرک میں مبتلا ہو گئے۔ آج دنیا سمجھتی ہے کہ عیسائیت نے بڑی ترقی کی ہے۔ ایسی ترقی کو کیا کرنا جس کا مقصد دنیا کی چکا چوند سے متأثر ہونا ہے اور خدا تعالیٰ کی یاد کو پسِ پُشت ڈالنا ہے۔ یہ اس بنیادی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے ہے جو آج مثلاً اپنے زعم میں بڑے بڑے مغربی سکالر ہم جنس پرستی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو نرم رویّہ دکھاتے ہوئے اسے بھی اب اپنی تعلیم کا حصہ بنا لینا چاہئے۔ اِنَّا لِلّٰہ۔ ان دنیا داروں کا مذہب کے بارے میں یہ تصور ہے۔ گویا مذہب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرستادوں پر نہیں اترتا بلکہ دنیاوی مجلسیں اور تنظیمیں اور نام نہاد مذہب کے ٹھیکیدار ضرورت کے مطابق مذہب میں دخل اندازی کر کے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بدل سکتے ہیں۔ ایسی سوچیں اور ایسی حرکتیں پھر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں۔ یہ باتیں بتاتی ہیں کہ یہ لوگ پستیوں میں گر رہے ہیں۔ کہاں تو وہ عیسائی تھے جنہوں نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا نعرہ لگایا اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا عہد کیا، جنہوں نے یہ عہد کیا کہ ہم توحید کے قیام کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اور کہاں آج کے یہ لوگ ہیں جو شرک میں مبتلا ہوئے تو اخلاقی گراوٹوں میں بھی گرتے چلے گئے اور گرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف دنیا کمانا ہے اور دین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہے، نہ کہ دین کے پیچھے چلنا ہے۔
ان حقیقی عیسائیوں کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہی فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ۔قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۔ وَاشْھَد ْبِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ رَبَّنَا اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران:53۔54) پس جب عیسیٰ نے ان میں، عام لوگوں میں انکار کا رجحان دیکھا، محسوس کیا تو اس نے کہا کون اللہ کی طرف بلانے میں میرے انصار ہوں گے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تُو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ (یہ دعا ہے کہ )اے ہمارے ربّ! ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں جو تُو نے اتارا اور ہم نے رسول کی پیروی کی۔ پس ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔
پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حواری ہونے کا حق ادا کیا۔ جنہوں نے اٰمَنَّا بِاللّٰہ کا اعلان کیا کہ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ ہم فرمانبرداروں میں سے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں گے اور فرمانبرداری دکھائیں گے۔ دنیاوی دلچسپی اور دنیاوی مصلحتیں ہمیں دین سے دُور نہیں کریں گی۔ انہوں نے شرک سے بیزاری کا اعلان کر کے رَبَّنَا اٰمَنَّا کی آواز بلند کی اور اعلان کیا کہ اے ہمارے رب! ہم ان باتوں پر ایمان لائے، اس تعلیم کو مانا جو تُو نے اپنے رسول کے ذریعہ سے اتاری ہے۔ پس یہ لوگ تھے جن کو اِس دنیا سے زیادہ اگلے جہان کی فکر تھی۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی فکر تھی۔ انہوں نے رسول کی پیروی کا اعلان کیا تو اسے نبھایا۔ جب انہوں نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کہا تو اللہ تعالیٰ کے مددگار بنے۔ پس اس بات کو محفوظ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے راستے متعین کئے ہیں۔ وہ باتیں بیان فرمائی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کے مددگار بنا جا سکتا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ انصار اللہ کون ہیں؟ آیت(آل عمران:53) میں آنے والے لفظ حَوَارِی کو سمجھنا چاہئے۔ اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ لفظ بڑا اہم ہے۔ انصار اللہ بننے کا ادراک اس لفظ کو سمجھنے سے بڑھتا ہے۔ اس لفظ کے معنی کو سمجھ کر ہی اللہ تعالیٰ کے مددگار ہونے کا مطلب واضح ہوتا ہے۔ اس لفظ کے معنی واضح ہوں تو تبھی نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کی روح کو سمجھ کر انسان یہ نعرہ بلند کرتا ہے۔ پس حواری کے لفظ کے معنی میں پنہاں گہرائی کو سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے۔
حواری کے کئی مطلب ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے جو کپڑوں کو دھو کر صاف اور اُجلا کر دیتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جس کو آزمایا جائے تو وہ ہر قسم کی برائیوں اور غلطیوں سے پاک نظر آئے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو اخلاص سے بھرا ہؤا اور صاف ہو۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو اپنے مشوروں میں ایماندار اور وفا کو مقدم رکھنے والا ہو۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ سچا اور وفادار دوست اور ساتھی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نبی کا وفادار اور چنیدہ ساتھی، خاص تعلق رکھنے والا ساتھی۔ اس کا ایک ساتواں مطلب یہ ہے کہ خاص مضبوط اور پکا رشتہ اور تعلق رکھنے والا جو کسی طرح ٹوٹنے والا نہیں ہے۔
پس جب ایک انسان ان خصوصیات کا حامل ہو تو تبھی وہ حقیقی حواری کہلائے گا اور تبھی وہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا حق ادا کرنے والا ہو گا۔ پس یہ باتیں سامنے رکھ کر ہر ایک اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا نعرہ لگانے میں کس قدر صادق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کرنے والے حواری کہلائے کیونکہ وہ ان خصوصیات کے حامل تھے یا ان خصوصیات کے حامل بننے کا عہد کرنے والے تھے اور اس کے لئے کوشش کرتے تھے جنہوں نے اپنے دلوں کی میل کو بھی دھویا، تقویٰ پیدا کیا اور دوسروں کے دلوں کی مَیل کو دھونے کا ذریعہ بھی بنے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ایمان میں بڑھنے اور اپنے وعدے اور عہد کو پورا کرنے کی وجہ سے انہیں برائیوں سے پاک رکھا۔ لیکن جب یہ خصوصیات ختم ہو گئیں، ان کو اپنی دنیاوی ترقیات پر ناز ہونے لگا، اپنی نسلوں میں نیکیاں جاری رکھنے میں وہ سستی کرنے لگے، توحید کے بجائے شرک میں مبتلا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو روحانی برکات سے محروم کر دیا۔
پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سال گزرنے یا جوبلی منانے کا فائدہ تبھی ہے جب ہم ان خصوصیات کو نہ مرنے دیں۔ اپنی روحانی حالتوں کو کبھی نیچے نہ آنے دیں۔ اپنے دین کے علم کو بڑھانے والے ہوں۔ جب ہم اپنی تعلیم کو نہ بھولیں۔ جب ہم یہ اعلان کریں کہ ہم نے نبی سے جو عہد وفا اور قربانی کیا ہے اسے ہر حالت میں نبھاتے رہیں گے اور دنیا کی کوئی لالچ ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹا نہیں سکے گی۔ مسیح موسوی کے ماننے والوں کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ جس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں وہ قیامت تک اپنی اصلی حالت میں رہے گی لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جس تعلیم کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جس کو پھر مسیح موعود نے ایک زمانہ گزرنے کے بعد بھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ دنیا کو دکھانا تھا یہ تعلیم اب قیامت تک جاری رہنے والی تعلیم ہے۔ پس اگر عیسائی اپنی تعلیم کو بھول گئے اور حواریوں کا تسلسل ختم ہو گیا تو یہی ان کا انجام تھا۔ لیکن مسیح موعود کے ماننے والوں اور آپ کی جماعت نے قیامت تک پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس لئے اس کو نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا نعرہ لگانے والے حواری ہمیشہ ملتے رہیں گے۔ لیکن ہر زمانے کے احمدی جو انصار اللہ تنظیم میں شامل ہیں ان کو بھی یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اس خوبصورت انجام کا حصہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیروؤں اور مسلمانوں کے لئے مقدر ہے۔ کیا ہم تزکیۂ نفس کر رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے دلوں کی میلوں کو دھو رہے ہیں۔ کیا ہم قرآن کریم کی حکمت کی باتوں کو سیکھ کر خالص ہوتے ہوئے اپنا رہے ہیں، ان پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے وفاؤں کے معیار بلندیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے عہد بیعت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنا رشتہ سب دنیاوی رشتوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ کیا ہم دین کے معاملے میں بھی اور دنیاوی معاملات میں بھی اپنی رائے اور مشورے خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ایمانداری اور وفا سے دیتے ہیں۔ پس جب ہم ان معیاروں کو سامنے رکھیں گے تو خود بخود ہمارا تمام تر جائزہ ہمارے سامنے آ جائے گا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چالیس سال سے اوپر والے افراد جماعت پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے آپ کی تنظیم کا نام انصار اللہ رکھا تا کہ اس عمر میں جب ہر لحاظ سے انسان پختہ ہو چکا ہوتا ہے اپنے تجربے اور صلاحیت سے جماعت کے لئے ایک مفید وجود بن سکے۔ اپنے نمونے قائم کر کے نوجوان نسل کی تربیت کا ذریعہ بن سکے۔ انصار اللہ کے الفاظ یہ احساس دلاتے رہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے مددگار بننا ہے۔ ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی ترویج کے لئے ہر قربانی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل بھی کرنا ہے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی حکمت اور اہمیت بتا کر عمل کروانے کی نصیحت اور کوشش کرنی ہے۔ دین کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے مسیح موعود علیہ السلام کا مددگار بننا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔(تذکرہ 260 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) ۔ اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پہنچائے گا اور پہنچا رہا ہے لیکن اگر آپ اس میں حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں گے۔ یقینا یہ بھی خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا تو اس کے نیک نتائج بھی پیدا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آخر کار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہی غالب آنا ہے۔ لیکن ہم کتنے خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اس غلبے کا حصہ بن جائیں۔ یاد رکھیں جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلۃ:22)۔ اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں جہاں اس کام کے لئے مددگاروں کی ضرورت ہو گی وہ اپنے وعدے کے مطابق انصار بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کو مہیا کرتا رہے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ حواریوں والی خصوصیات پیدا کر کے کتنا اس کا حصہ بنتے ہیں۔ آگے بڑھ کر اگر نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کی روح کو سمجھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنیں گے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ عیسائیت کے پھیلنے کے ساتھ دینی اور روحانی زوال ان میں شروع ہوا لیکن احمدیت کے پھیلنے کی خوشخبری جب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر دی کہ تین سو سال پورے نہیں ہوں گے جب احمدیت کی دنیا میں اکثریت ہو گی(ماخوذ از تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ67) ۔ تو اس بات کی بھی تسلی کروائی کہ نظام خلافت کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا رہے گا اور دینی زوال انشاء اللہ تعالیٰ نہیں ہو گا بلکہ دین کی ترقی نظر آئے گی۔ مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی دنیاوی بادشاہتوں کے ساتھ دین سے دور جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے ہو گی۔ بادشاہوں کو اپنی بادشاہت کا زُعم نہیں ہو گا بلکہ وہ آپ علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے والے ہوں گے۔ وہ آپ کی تعلیم کو اپنانے والے ہوں گے۔ یہ زمانہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا جب بادشاہ مجبور ہوں گے کہ مسیح محمدی کو مانیں۔ گو آج ہم میں سے بہت سے اسے خوش فہمی سمجھیں گے یا ہمارے مخالفین کچھ لوگ ہماری خوش فہمی سمجھتے ہوں یا ایک بڑ سمجھتے ہوں کہ چھوٹی سی جماعت یہ کیا نعرے لگا رہی ہے لیکن جب ہم جماعت احمدیہ کی تاریخ اور ابتدا پر نظر ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ پس اس کی تو کوئی فکر نہیں کہ یہ کیسے ہو گا۔ یہ انشاء اللہ تعالیٰ ہو گا اور ضرور ہو گا۔ ہر دن جو بظاہر چھوٹی چھوٹی کامیابیاں دکھاتا ہے وہ ہمیں اس بات پر مضبوط کرتا ہے کہ تمہیں یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں تمہارے وسائل اور کوششوں سے حاصل نہیں ہو سکتی تھیں جن کو دنیا بظاہر چھوٹی سمجھتی ہے ۔ آج یہ چھوٹی کامیابیاں بھی ہمارے لئے ہمارے وسائل کے لحاظ سے ہم دیکھیں تو بہت بڑی نظر آتی ہیں اور ہم ان پر خوش ہوتے ہیں لیکن دنیا یہ سمجھتی ہے کہ چھوٹی کامیابیاں ہیں لیکن یہ جو بھی کامیابیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہماری کسی کوشش کی وجہ سے نہیں ہیں۔ یہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہیں۔ وہ تمام طاقتوں والا ہے۔ وہ جب چاہے گا تو دنیا جن کامیابیوں کو بڑا سمجھتی ہیں ان بڑی کامیابیوں کو بھی ہمارے قدموں میں لا ڈالے گا۔ انشاء اللہ۔
لیکن جو چیز ہمارے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہر سال جو گزرتا ہے وہ اس جائزے کی طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہمارا اصل مقصد دین میں ترقی کرنا ہے اور اسے ہم نے کس حد تک حاصل کیا ہے۔ اگر ہمارے قدم آگے نہیں بڑھ رہے اور ہم وہیں کھڑے ہیں تو ہم نام کے انصار اللہ ہیں۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار دیکھنے ہیں۔ ہمیں اپنی قربانیوں کے معیار دیکھنے ہیں۔ ہمیں اپنی عملی، اخلاقی حالتوں کے معیار دیکھنے ہیں۔ ہمیں اپنی ان کوششوں کو دیکھنا ہے جو دین کو پھیلانے کے لئے ہم کر رہے ہیں۔ مَیں نے ایک خطبہ میں جماعت میں نئے آنے والوں کا ذکر کیا تھا کہ ایک شخص مشرک سے احمدی ہوا بلکہ پورا گاؤں ہی مشرکین کا تھا جو احمدی ہوا تو احمدی ہونے کے بعد توحید اس طرح اس کے دل میں راسخ ہو گئی، اس طرح گڑ گئی کہ وہ کہنے لگا کہ یا تو مجھے خدا پہ یقین نہیں تھا اور یا اب یہ حالت ہے کہ میرے دل میں توحید اس طرح گڑ گئی ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ بتوں کے بغیر میں خدا تک پہنچ نہیں سکتا یا بت ہی سب کچھ میرا کام کرنے والے ہیں لیکن اب میرے دل میں توحید اس طرح گڑ گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف اس طرح توجہ پیدا ہوئی ہے، خدا تعالیٰ کے لئے اس طرح میرا دل خالص ہوا ہے کہ کہنے لگا کہ میں اپنے فارم پر کام کر رہا ہوتا ہوں تو نماز کے وقت میرے دل میں ایک آواز اٹھ کر مجھے توجہ دلاتی ہے کہ کام چھوڑو اور نماز ادا کرو۔ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ تو یہ ان لوگوں کی حالت ہے جو اللہ تعالیٰ ’’انصار اللہ‘‘ کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما رہا ہے۔
اب اپنے جائزے لے لیں کہ یہ کیا ہیں۔ ایک ملک کی مجلس کا مَیں جائزہ لے رہا تھا تو صدر صاحب نے بڑے فخر سے یہ بتایا کہ ہمارے ممبر نمازوں میں کمزور تھے صرف دس فیصد باجماعت نماز ادا کرتے تھے ہم نے ایک مہم چلائی تین مہینے تک تو سترہ فیصد ہو گئے ۔ میں صحیح طرح سن نہیں سکا تھا۔ ان کے اس انداز سے مَیں سمجھا کہ بڑی خوشی سے بتا رہے ہیں تو شاید ستّر فیصد کہہ رہے ہوں۔ گو کہ یہ بھی انصار اللہ کے لحاظ سے کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن سترہ فیصد تو انتہائی قابل شرم بات ہے اور وہ بھی ایک مہم چلانے کے بعد۔ اگر اپنے پیدائش کے بنیادی مقصد کو ہی یاد نہیں رکھتے یا نہیں رکھیں گے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قرآن شریف میں توجہ دلائی ہے تو انصار اللہ ہونے کا باقی حق کیا ادا کریں گے۔ اگر خود ہی تزکیۂ نفس اور اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہیںکریں گے تو دوسروں کی کیا تربیت کریں گے۔ پس اگر 75سال گزرنے کے بعد اسّی نوّے فیصد باجماعت نمازوں کی حاضری سے ہم پندرہ بیس فیصد نمازوں کی حاضری پر آ گئے ہیں تو یہ ترقی نہیں، تنزّل ہے۔ بڑی قابل فکر بات ہے۔ بڑا فکر کا مقام ہے۔ بہرحال اب جماعت پھیل رہی ہے، اگر ایک جگہ کے افراد سستی دکھائیں گے تو خدا تعالیٰ دوسری جگہ سچے عابد پیدا فرما دے گا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ یہ ایک مثال ہے جو میں نے دی ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے تو اس کے سامان بھی پیدا فرماتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق وہ فرما بھی رہا ہے۔ آپ کو عبادت کرنے والے بھی عطا فرما رہا ہے اور آپ کو آپ کے پیغام کو آگے پہنچانے والے بھی عطا فرما رہا ہے۔ کیسے اور کس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ کس طرح ان میں جوش اور جذبہ پیدا کرتا ہے۔ کس طرح وہ اپنے آپ کو مسیح محمدی کا پیغام پہنچانے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نیک فطرت لوگوں کو گھیر گھیر کر ہمارے قریب لاتا ہے اور پھر ان سے تبلیغ کے کام لیتا ہے اس کے ایک دو واقعات آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔
آئیوری کوسٹ کے دوست وُلائی محمد (Volai Mohammad) صاحب ملازمت کے سلسلے میں وہاں کے ایک شہر میں آئے۔ مسلمان تھے۔ اتفاقاً انہوں نے ایک جمعہ احمدیہ مسجد میں پڑھا اور پہلی مرتبہ جماعت کے بارے میں تعارف حاصل کیا۔ پھر اس شہر میں اپنے قیام کے دوران موصوف باقاعدگی سے مشن آتے رہے اور جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے رہے۔ چندہ بھی ادا کیا مگر باقاعدہ بیعت نہیں کی تھی۔ پھر ان کا نوکری کا contract ختم ہوا تو ابی جان جو وہاں کا کیپیٹل ہے وہاں واپس چلے گئے مگر انہوں نے جماعت سے مسلسل رابطہ رکھا۔ انہوں نے جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ 2014ء کے انتظامات میں بھی حصہ لیا لیکن پھر بھی بیعت نہیںکی۔ 2015ء میں ایک کنٹریکٹ کے سلسلہ میں موصوف فرانس آ گئے یا ان کو اللہ تعالیٰ نے فرانس آنے کا موقع دیا۔ انہوں نے وہاں سے روانہ ہونے سے پہلے فرانس مشن ہاؤس کا ایڈریس بھی لے لیا۔ وہاں مشن اور افراد جماعت سے رابطہ رکھا۔ فرانس میں قیام کے دوران ان کو جرمنی کے جلسہ کے انعقاد کا پتا چلا تو تین دن کی چھٹی لے کر جرمنی چلے گئے۔ جلسے میں شریک ہوئے۔ جلسے کے تین دن جو وہاں رہے تو اس کے بعد کہنے لگے کہ جو روحانی ماحول اور بھائی چارہ میں نے دیکھا ہے اور اسے محسوس کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ پھر انہوں نے میری تقاریر کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے میرے دل پر بڑا اثر ڈالا ہے۔ کہتے ہیں مَیں اپنی زندگی میں ایک روحانی تبدیلی محسوس کر رہا ہوں اور جلسہ میں شامل ہو کر وہاں انہوں نے بیعت کر لی۔ کہتے ہیں کہ میں آپ کی خواہش کے مطابق آئیوری کوسٹ میں احمدیت کی ترقی کے لئے کام کروں گا اور ہر ممکن طریق سے اس پیغام کو پہنچاؤں گا۔ تو یہ وہ روح ہے جو انصار اللہ کی روح ہے۔
پھر گیمبیا کے ایک صاحب جن کی 72سال کی عمر ہے۔ انصار اللہ کے بھی آخری حصہ میں۔ کہتے ہیں اس سال انہوں نے جماعت کے ریڈیو پر نشر ہونے والا پروگرام سن کر جماعت کے بارے میں تحقیق کی اور احمدیت قبول کر لی۔ بیعت کرنے کے بعد یہ بڑے پُرجوش داعی الی اللہ بن چکے ہیں اور بڑھاپے کی عمر کے باوجود دعوت الی اللہ کے لئے اٹھارہ سے بیس کلو میٹر روز پیدل چلتے ہیں اور بڑے زور شور سے تبلیغ کرتے ہیں۔ ویسے تو اَن پڑھ ہیں لیکن جماعتی لیفلیٹس لیتے ہیں، پہلے خود سنتے ہیں، پھر اس کو ذہن میں مستحضر رکھتے ہیں اور اس کے بعد پھر تقسیم بھی کرتے ہیں۔مسلمان لوگوں کو خاص طور پر مسیح موعود علیہ السلام کی آمد والے اور ختم نبوت والے پمفلٹ کو پڑھنے پر زور دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری رہنمائی کرے۔ جب سے وہ احمدی ہوئے ہیں اس عرصے کے دوران پمفلٹ تو انہوں نے تقریباً اڑھائی ہزار تقسیم کئے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے شوق اور دعا اور مسلسل محنت سے اب تک صرف یہ شخص سات سو سے اوپر افراد کو اپنی تبلیغ سے احمدیت میںشامل کروا چکا ہے۔
پھر ایک صاحب شیخ جاوید صاحب ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال ہی بیعت کی تھی۔ قرآن کریم کے تاجر تھے۔ مسلمان تھے۔ گیمبیا میں انہیں چھ مہینے کی ٹریننگ دی گئی اور پارٹ ٹائم معلم کے طور پر رکھ لیا گیا۔کہتے ہیں اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت اور نورانی وجود ہے جو اُن سے کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی عبادت اور کام کو اَور بڑھائیں۔ اپنی عبادت اور کام کو اَور بڑھائیں۔ چنانچہ وہ بڑے پرجوش انداز سے تبلیغ کرنے لگ گئے ہیں۔ تبلیغ کی خاطر کئی کلو میٹر اور کئی کئی گھنٹے پیدل سفر کرتے ہیں۔ نئی نئی جماعتیں ان کے ذریعہ سے بن رہی ہیں اور انہوں نے بھی تقریباً دو سو سے اوپر افراد کو احمدیت کا پیغام پہنچا کر انہیں جماعت میں شامل کیا اور اب جو شامل ہونے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بھی شامل کیا جارہا ہے اور اسی ذریعہ سے وہ باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں۔
پس یہ لوگ ہیں جو بعد میں آ رہے ہیں لیکن اپنے وقت کے ضائع ہونے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی عبادتوں میں بھی اور تبلیغی کاموں میں بھی طاق ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اخلاص میں اضافہ فرماتا چلا جائے اور ہم میں سے جو کمزور ہیں، جن کے گھروں میں احمدیت کئی دہائیوں سے آئی ہوئی ہے بلکہ باپ دادا سے آئی ہوئی ہے وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لانے کی کوشش کریں جہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں نے نماز باجماعت کی ابھی بات کی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے لئے کیا معیار مقرر فرماتے ہیں۔ نماز باجماعت تو فرض ہے۔ ایک صحت مند مرد کے لئے اس کو ادا کرنا ضروری ہے۔ آپ ایک جگہ اپنی جماعت کے افراد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
ہر شخص تہجد کے لئے اٹھنے کی کوشش کرے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 208) ۔ اور اب آپ انصار کی عمر تو ایسی ہے جن کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور توجہ کرنی چاہئے۔ کجا یہ کہ اس بات پر خوش ہو جائیں کہ ہمارے پندرہ فیصد ممبر نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ اگر صرف عاملہ ممبران ہی مقامی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک نماز باجماعت کی طرف توجہ کریں تو پینتیس سے پچاس فیصد حاضری تو انہیں کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ اگر انصار اس سلسلہ میں اپنے نمونے دکھائیں تو خدّام تو پھر خود بخود ان کے نمونے دیکھ کر عمل کرنے شروع کر دیں گے۔ جب خود عمل نہیں کر رہے تو دوسروں کو کیا نصیحت ہو گی۔
آپ علیہ السلام نے ایک جگہ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے۔ اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ352-351۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن (مجید) میں فرمایا ہے کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْن َکَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (آل عمران:56)‘‘ (یعنی اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست رکھوں گا یا بالا دست کروں گا۔ ان کو فوقیت دوں گا۔ وہ ترقی کرنے والے ہوں گے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ تسلی بخش وعدہ ناصرؔت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا مگر مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے‘‘۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی انہیں الفاظ میں بشارت دی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارتِ عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے، فسق و فجور کی راہوں پر کاربند ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 103۔104۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان )
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اخلاق اور اعمال میں ترقی کریں اور تقویٰ اختیار کریں تا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور محبت کا فیض ہمیں ملے۔پس آج انصار اللہ کی تنظیم کو 75سال پورے ہونے کا اگر ہم صحیح فیض اٹھانا چاہتے ہیں یا اس لئے منا رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بنیں تو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کی باتوں کو سن کر اس پر عمل کریں۔ اپنے دلوںکو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے بنائیں۔ کامیابی اسی میں ہے کہ ایک دوسرے سے نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کریں اور ان کامیابیوں کا حصہ بنیں جن کی بشارت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی ہے۔
آج امریکہ میں بھی انصار اللہ کا اجتماع ہو رہا ہے جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا اور شاید کسی اَور ملک میں بھی ہو رہا ہو۔ ہر جگہ انصار اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ مختلف ممالک کے نمائندگان یہاں آئے ہوئے ہیں وہ بھی اس بات کو نوٹ کریں اور اپنے انصار کو جا کر بتائیں اور ان کے جو انصار سن رہے ہوں گے ان کو بھی بتائیں اور میرا خیال ہے دنیا میں ہر جگہ تو سن ہی رہے ہوں گے۔ اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ کریں۔ قرآن کریم کی تعلیم کو جہاں اپنے پر لاگو کریں وہاں اگلی نسلوں کی فکر کرتے ہوئے انہیں بھی اسی انعام سے وابستہ رکھیں جو انعام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میںدیا ہے اور پھر نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ پیدائشی احمدی اس کوشش میں ہوں کہ ہم نے نئے آنے والوں سے نیکیوں میں آگے نکلنا ہے اور نئے آنے والے اس کوشش میں ہوں کہ ہم نے پرانے احمدیوں کو نیکیوں میں پیچھے چھوڑ دینا ہے۔ امریکہ کے انصار اس کوشش میں ہوں کہ ہم نے حقیقی انصار اللہ بنتے ہوئے برطانیہ کے انصار اللہ کو پیچھے چھوڑنا ہے اور برطانیہ کے انصار اس کوشش میں ہوں کہ ہم نے دنیا میں رہنے والے ہر ناصر کو، ہر شخص کو پیچھے چھوڑنا ہے اور نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ اور اسی طرح جرمنی، کینیڈا، انڈونیشیا، غانا، نائیجیریا، پاکستان، ہندوستان، آئیوری کوسٹ اور دوسرے ممالک کے انصار یہ کوشش کرنے والے ہوں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنا ہے۔ عبادتوں میں بڑھنا ہے۔ نیکیوں میں بڑھنا ہے۔ اپنی نسلوں کی تربیت میں بڑھنا ہے۔ اور جب یہ روح پیدا ہو گی تب ہی آپ ڈائمنڈ جوبلی منانے کا حق ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ 75سال آئندہ روحانی اور عملی ترقیات کے لئے نیا سنگ میل ثابت ہوں اور انصار اللہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے مددگار ہونے کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں
