خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے23اگست2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ۔ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل:91)

یقینا اللہ تعالیٰ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو۔

آج دنیا میں جو ہر طرف فساد پھیلا ہوا ہے اس نے ہر امن پسند انسان کو پریشان کیا ہوا ہے۔ ہروہ انسان جس کو انسانیت سے ہمدردی ہے حیران و پریشان ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کہنے کو تو کہنے والے یہ کہتے ہیں اور اس بات پر بہت کچھ لکھا بھی جاتا ہے کہ دنیامیں یہ فساد اسلامی دنیا میں زیادہ شدت سے پیدا ہوا ہوا ہے یا مسلمان اس کی وجہ ہے اور پھر اس وجہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مذہب عمومی طور پر اور اسلام بالخصوص نعوذ باللہ فساد کی جڑ ہے۔ اب تک مغربی دنیا یہی سمجھتی تھی کہ یہ سب فسادات اسلامی ممالک اور غیر ترقی یافتہ ممالک تک محدود رہیں گے اور یہ صرف انہی کا مسئلہ ہے اور ہم یعنی یہ ترقی یافتہ لوگ مسئلے کو حل کرنے کے نام پر اور انصاف قائم کرنے کی کوشش میں ان کی مدد بھی کرتے رہیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ مدد کے نام پر یا انصاف قائم کرنے کے نام پر اپنی برتری ثابت کرنا اور ان ممالک کے وسائل سے فائدہ اٹھانا بھی ایک مقصد تھا۔ لیکن بعض بڑی طاقتوں یا مذہب مخالف قوتوں کی یہ بھول تھی جس کو اب وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف مسلم ممالک کا مسئلہ نہیں رہا۔ شدّت پسندی اور دہشتگردی کا رجحان اسلامی دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ نکل کر مغربی اور ترقی یافتہ دنیا کے لئے بھی فکر انگیز اور خوفناک نتائج کا حامل ہونے والا ہے۔

                    مَیں گزشتہ چند سالوں سے ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ دنیا ایک فساد کی حالت میں ہے۔ آج ہم اس حالت کو صرف محدود علاقے میں ہی سمجھ رہے ہیں جو ہماری غلط فہمی ہے۔ میری باتوں پر اکثریت اخلاقاً ہاں میں ہاں تو ملاتی تھی لیکن بعد میں یہی کہتے تھے کہ دنیا کے لئے اور خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کے لئے ایسے بھیانک حالات نہیں ہونے والے جس طرح، جس حد تک یہ بیان کرتا ہے یا کیا جاتا ہے۔ لیکن آج انہی کے لیڈر اور دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ جو دنیا میں فساد کی حالت ہے اس سے اب ترقی یافتہ دنیا بھی محفوظ نہیں اور ہمارے لئے بھی خوفناک صورتحال منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ چنانچہ وزیراعظم برطانیہ کا بیان بھی اس خطرے کا اظہار کر رہا ہے۔ آسٹریلیا کی وزیر خارجہ نے بھی یہ اظہار کیا ہے۔ یوکے(UK) کے سابق آرمی چیف نے بھی ایسی ہی باتیں کی ہیں۔ کئی اخبارات نے بھی لکھنا شروع کر دیا ہے۔

                     پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا آج ظلم و فساد کی لپیٹ میں ہے۔ ترقی یافتہ یا دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مذہب کی وجہ سے ہے اور اس کی انتہا مسلمانوں کے ایک مذہبی گروہ اور تنظیم کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ مذہب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ یہ فساد ختم کرنے کے لئے ہمیں مذہب سے دُور ہونے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا بڑا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ پریس میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے کہ مذہب یا تو جاہل اور سست بناتا ہے یا شدّت پسند بنا دیتا ہے اور اگر ترقی کرنی ہے تو مذہب سے ہٹ کر ترقی ہوسکتی ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دُور جانے میں ہی ترقی ہے اور اس غلط نظریے کے پھیلانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھلا دینے کی وجہ سے ہی دنیا فساد میں مبتلا ہے۔ یہ فساد یا تو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے غلط استعمال کی وجہ سے اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کا نام استعمال کرنے کی وجہ سے ہے یا خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار کرنے کی وجہ سے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر استہزاء کرتے ہوئے تمام حدوں کو پھلانگنے کی وجہ سے ہے۔

                    پس دنیا میں فساد کی کیفیت کی بنیادی وجہ خدا تعالیٰ کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کا حصول اور اس کا حقیقی خوف دلوں سے نکلنا یا اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر کے اپنے دنیاوی قوانین اور نظریات کو ہر چیز پر بالا سمجھنے میں ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قوانین اور اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و انصاف کو اپنے بنائے ہوئے قوانین اور نظام عدل و انصاف سے کمتر سمجھتا ہے اور سوال اٹھاتا ہے کہ ہم وقت کی ضرورت کے تحت مذہبی تعلیم کو دنیاوی رسم و رواج اور دنیاوی خواہشات اور دنیاوی قوانین کے تابع کیوں نہیں کر سکتے۔ ایک پوچھنے والے پڑھے لکھے یونیورسٹی کے پروفیسر نے مجھ سے بھی پوچھا ہے۔ مگر یاد رکھیں کہ اگر تو مذہبی تعلیم بگڑ گئی ہو اور اس کی بنیادی قدروں اور اصولوں پر انسانی قدروں اور اصولوں کی بالادستی ثابت ہو سکتی ہو تو پھر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم تو اس کتاب پر یقین رکھتے ہیں جو چودہ سو سال سے محفوظ ہے اور جس کی تعلیم ہر لحاظ سے اعلیٰ ترین اور ہر زمانے کے انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے اور جو ربّ العالمین اور عالم الغیب والشہادۃ خدا کی طرف سے نازل ہوئی  ہے۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ انسانی قانون قاعدہ کی تابع ہو جائے۔ مذہب انسانوں کو اپنے پیچھے چلانے آتا ہے، خود دنیا کے یا ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے نہیں آتا۔ اور آج اسلام وہ مذہب ہے اور قرآن کریم وہ کتاب ہے جو ہر زمانے کے انسان کے لئے رہنما ہے بشرطیکہ انسان میں اسے سمجھنے کی صلاحیت ہو۔

                     آج دنیا میں جو حقوق غصب ہو رہے ہیں وہ مذہب نہیں کر رہا بلکہ دنیاوی قوانین یا مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والے کر رہے ہیں۔ آج جنگوں اور لڑائیوں کی صورت میں جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں وہ مذہب نہیں کر رہا بلکہ مفادپرست دنیا کر رہی ہے۔ آج آزادی کے نام پر اخلاقی گراوٹیں اور فحاشی کے ہوشربا منظر مذہبی تعلیم کا حصہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو تہہ و بالا کرنے والے انسانی قوانین کی گراوٹوں کی وجہ سے ہے۔ اپنی طاقت اور قوت اور برتری کا اظہار اللہ تعالیٰ کی تعلیم نہیں بلکہ انسان کی اپنی پیداوار ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر چیز سے بالا سمجھے ۔

پس یہ باتیں جو آجکل ہمیں دنیا میں نظر آ رہی ہیں وہ انسان کے اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے اور نیّر الہام سے خالی ہونے کی وجہ سے ہیں اور یہی وہ صورتحال ہے جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکر ہے۔ فرمایا: ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(الروم:42) لوگوں نے جو اپنے ہاتھوں بدیاں کمائیں ان کے نتیجہ میں فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تری پر بھی تا کہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے تا کہ شاید وہ رجوع کریں۔

پس انسان کے پیدا کردہ اس فساد کی وجہ سے جس سے نہ امیر باہر ہے، نہ غریب، نہ مذہبی لوگ یعنی نام نہاد مذہبی۔ اور نہ ہی مذہب سے دُور ہٹے ہوئے باہر ہیں۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ پھر انسان خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا اور سزا پائے گا جو اس پیدا کرنے والے سے دُوری کی وجہ سے ہے اور اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلنا ہے۔ جب ہم خدا تعالیٰ سے دور ہوں گے تو پھر ظاہر ہے جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے، کائنات کا خالق ومالک ہے، اس سے دور ہٹنے کی وجہ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا تھا، نکلنا چاہئے تھا اور نکل رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ سزا بھی مل رہی ہے۔ اور جو اِن عملوں کی آخرت میں سزا ملنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے، وہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ بندوں کو سزا دے کر خوش ہو کر نہیں بیٹھ جاتا۔ خدا تعالیٰ تو وہ ہے جو اپنے بندے کے صحیح راستے پر آنے اور فسادوں سے دُور ہونے والوں کو دیکھ کر اُس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنی ایک ماں اپنے بچے کو خوفناک حالات میں گم ہو جانے کے بعد اس کو پانے پر خوش ہوتی ہے۔ جب وہ دیوانوں کی طرح اپنے بچے کو تلاش کرتی ہے اور یاس و امید کی حالت میں بے چین پھر رہی ہوتی ہے کہ پتا نہیں بچہ ان حالات میں زندہ بھی ہے یا نہیں اور پھر اچانک وہ اسے پا لیتی ہے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتی ہے۔ جتنی اس کو خوشی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ تو اس سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ کی طرف بندہ جائے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس محبت کے تقاضے کے تحت اپنے انبیاء اور فرستادے دنیا کی اصلاح اور ان کو صحیح راستے دکھانے کے لئے بھیجتا ہے تا کہ دنیا تباہ ہونے سے بھی بچے اور غلط کاموں اور فسادوں کی وجہ سے سزا پانے سے بھی بچے۔ اور اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ بندوں کو آگ میں گرنے سے بچائے اور نہ صرف یہ کہ آگ میں گرنے سے بچائے بلکہ انعامات سے نوازے۔ اس حالت اور اس زمانے کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

                    ’’اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں۔ زمین بالکل مر چکی ہے۔ یہ زمانہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:42) کا مصداق ہو گیا ہے۔ جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔ جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہل کتاب ہیں۔ جاہل و عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے۔ جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے۔ روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیریں نظر آتی ہیں۔ اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ خدا پرستی اور خد اشناسی کا نام و نشان مِٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے ا س وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ444۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                    پس اللہ تعالیٰ تو انسانیت کو بچانے کے لئے اپنی سنت پر عمل کرتا ہے اور دنیا کی صحیح رہنمائی کے لئے انہیں فسادوں سے بچنے کے راستے دکھانے کے لئے اپنے فرستادے بھیجتا ہے۔ اور اس زمانے میں بھی اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ دنیا کے حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بھی بگڑی ہوئی ہے، جس کا ابھی ایک ملک کے حوالے سے یہاں آئے ہوئے مقرر نے اظہار بھی کیا ہے، اور دوسرے مذاہب اور لامذہبوں کی حالت  بھیبگڑی ہوئی ہے۔ دنیا جس کو پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑ رہی ہے وہ پانی نہیں سراب ہے۔ حقیقی پانی اور نور وہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے اتارا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمان بھی اور دوسری دنیا بھی شکر کرے اور اس نور سے روشنی لے اور اس چشمے سے پانی پیئے، اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ گندے تالابوں میں پانی پی رہی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی قدر نہیں کر رہے ہیں۔ گندے پانی کو صاف پانی سمجھ کر علمائِ سُوء کے پیچھے چل رہے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی حق کو شناخت کرنے کے بجائے حجتیں کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج دنیا مذہب سے ہی برگشتہ ہو رہی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکاری ہو رہی ہے۔ گو مسلمانوں کی اکثریت اپنے دین پر دعوے یا اعتقاد کی حد تک تو قائم ہے لیکن علماء نے ان کی عقلوں پر پردے ڈال کر ان کی علمی اور عملی حالتوں میں انتہا کا بگاڑ پیدا کر دیا ہؤا ہے اور یہ کوئی الزام نہیں ہے جو مَیں لگا رہا ہوں۔ یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔

                     مسلمان دنیا میں فساد، مذہب اور خدا اور رسول کے نام پر دہشتگردی اور کُشت و خون دنیا کے سامنے ہے۔ حکومتوں کے رعایا پر ظلم اور رعایا کے باغیانہ رویّے اور ظلم اس بات کا ثبوت ہیں۔ پھر جب عامّۃ الناس علماء کی طرف رہنمائی کے لئے جاتے ہیں وہاں ان کو ان کی خود غرضیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہمیں سو فیصد پورا ہوتے ہوئے نظر آتا ہے کہ علماء سے فتنوں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ ان کے قول و عمل میں تضاد ہو گا۔جہالت کی باتوں اور فتووں کے سوا ان سے کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔(ماخوذ از الجامع لشعب الایمان للبیہقی جزء ثالث صفحہ 318-317 حدیث نمبر1763 مکتبہ الرشد 2004ء) پس آجکل کے علماء کی یہ باتیں اور حرکتیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک ثبوت ہیں۔

                    پھر عمومی طور پر مسلمان اخلاقی گراوٹوں کا شکار ہیں اور دینی انحطاط تو نظر ہی آ رہا ہے۔ جب علماء جاہل ہوں گے اور اپنے مطلب کے فتوے دیں گے تو عام مسلمانوں کی دینی حالت تو ظاہر ہے کیا ہو گی۔ ان علماء نے اسلام کی تعلیم کو اپنے مفادات کے لئے اس حد تک توڑ مروڑ دیا ہے کہ دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا بھی جائز بن گیا ہے۔ یہ فتوے تو اب پاکستان میں عام ہیں کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں بیشک یہ لَااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہتے ہیں یا کہتے رہیں۔ کیونکہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں اس لئے ان کا مال لوٹنا اور غصب کرنا جائز ہے۔ آپس میں بھی وہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور نفرتوں کی آگیں سُلگ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ لیکن یہ محبت اور بھائی چارہ تو ایک طرف رہا گہری دشمنیاں اُن میں پنپ رہی ہیں۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فساد کی حالت مسلمانوں میں بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے کسی فرستادے کو ایسے وقت میں بھیجتا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنّت اوروعدے کے مطابق بھیجا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ علماء نے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر کے اس کو ماننے کی بجائے اس کی مخالفت میں بڑھا دیا اور بجائے اس کے کہ آنے والے کی آواز پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے لبّیک کہتے اور اُمّتِ واحدہ بننے کی کوشش کرتے، مخالفت کر کے آپس میں بھی فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں مبتلا ہو گئے ہیں اور دوسری دنیا پر بھی اپنا غلط اثر ڈال رہے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمان مخالف طاقتیں جو ہیں مسلمانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اسلام پر اعتراض کر رہی ہیں۔ اسلام پر حملے کر رہی ہیں۔ اسلام کو فتنہ و فساد اور شدّت پسندی کا مذہب کہہ رہی ہیں۔ اور غیر مسلموں اور مذہب سے ہٹے ہوؤں کو دنیا کا امن قائم کرنے اور صلح و آشتی پھیلانے والا ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن یہ طاقتیں کھل کر بھی یہ سب باتیں نہیں کہتیں بلکہ بڑی ہوشیاری سے اپنی تدبیریں کرتی ہیں۔ ایک طرف تو مسلمانوں سے ہمدردی اور ان کے ساتھ امن و سلامتی کے تعلقات رکھنے کا دعویٰ ہے۔ مسلمان دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے کے لئے اپنی خدمات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ اسلام بُرا مذہب نہیں ہے، مسلمان برے نہیں ہیں اسلام دہشت گردی اور ظلم کی تعلیم نہیں دیتا اور ہمیں مل کر دنیا کے فساد کو جس میں مسلمان دنیا کا فساد زیادہ ہے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام اور دہشتگردی اور شدّت پسندی میں تعلق ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے یہ شدت پسندی ہے۔ ایک ہی وقت میں دو باتیں کہہ کر یا ایک لیڈر سے ایک بات کہلوا کر اور دوسرے سے دوسری بات کہلوا کر اسلام مخالف طاقتوں کو بھی خوش کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی خوش کرنا چاہتے ہیں۔

                     ہم ان لوگوں کو بتاتے ہیں کہ جہاں تک اسلام کی تعلیم کا تعلق ہے یہ امن و سلامتی اور صلح کی بنیاد ڈالنے والی وہ تعلیم ہے جس کا کوئی دوسری تعلیم مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں کے خلاف بولنے والوں کو یہ بات ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہئے کہ ایسی باتیں کر کے یہ نام نہاد اسلامی شدت پسند گروہوں کو مزید ایندھن مہیا کرتے ہیں۔ایسی باتیں کر کے یہ کم علم اور حالات سے بے چین مسلمانوں کو بھڑکانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ امن قائم کرنے کے لئے مذہب پر الزام لگانے سے کام نہیں ہو گا بلکہ مذہب کو ایک طرف کر کے ظلم کے خلاف کارروائی کر کے پھر ہی یہ کام ہو گا۔ اگر ظلم کے خلاف کارروائی کر کے اپنا کردار ادا کریں گے تو تبھی کامیابی بھی ہو گی۔ پس یہ لوگ جو بڑی طاقتوں سے تعلق رکھنے والے ہیں جو حکومتی سربراہ ہیں ان کو اپنی حکمت عملی کو انصاف پر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا دار دین کی آنکھ نہیں رکھتے اس لئے صرف دنیا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور بظاہر جو امن کے لئے کوششیں ہیں وہی فساد کا ذریعہ بن رہی ہیں اس لئے بڑی طاقتیں صرف اپنی طاقت کے زعم میں نہ رہیں۔ اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو ان دنیاوی طاقتوں کو بھی اپنے رویّے بدلنے ہوں گے ورنہ یاد رکھیں کہ تمام دنیا فساد اور جنگوں کی لپیٹ میں اور زیادہ شدت سے آئے گی۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی خدا تعالیٰ کی آواز کو سننا ہو گا اور اپنے نام نہاد علماء اور لیڈروں اور تنظیموں کے نام نہاد نعروں کو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے معیاروں پر پرکھنا ہو گا، نہ کہ ان کے اپنے معیاروں پر۔ یہ دیکھیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے ہوئے کی طرف نظر کریں اور جب یہ ہو گا تو آپس کے اختلافات ختم ہو کر محبت اور پیار اور انصاف قائم ہو گا۔ مسلم اُمّہ اُمَّتِ واحدہ بنے گی اور نتیجۃً غیر مسلم طاقتوں کے ہاتھوں سے جو ان کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں، نجات ملے گی، آزادی ملے گی۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مغربی یا دنیاوی تعلیم اور نظام دنیا کے امن اور سلامتی کے ضامن نہیں ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے امن اور سلامتی کی ضامن اسلامی تعلیم ہے جو اسلام سے پہلے نہ کسی مذہب نے پیش کی، نہ ہی کسی موجودہ زمانے کے فلسفے اور ازم اور نظام میں موجود ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہی ہے جو امن اور سلامتی اور محبت کی ضمانت ہے۔

                    پس آج بجائے اس کے کہ غیر مسلم قوتیں ہمیں امن و سلامتی کے راستے دکھائیں، ہمیں ان کو حقیقی امن اور انصاف کے راستے اسلامی تعلیم کی روشنی میں دکھانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تعلیم اس چھوٹی سی آیت میں اپنی چمک دکھا رہی ہے جو ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے۔ پس ہر مسلمان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے۔ صرف دفاعی رنگ اختیار کرنے کی بجائے اس روشن تعلیم کو ایک چیلنج کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ پس آج مَیں اس کی روشنی میں بھی کچھ بیان کروں گا جو تعلیم آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین اور بعض بے نفس اور اُمّت کا درد رکھنے والے سربراہان حکومت نے اسے اپنے زمانے میں لاگو اور قائم کیا اور ایک خوبصورت معاشرے کا قیام کیا۔ اس حقیقت سے بھی مَیں انکار نہیں کرتا کہ بعد کی اکثر حکومتوں کے خودغرضانہ رویّوں اور اسلامی سربراہوں اور علماء کے ذاتی مفادات نے اس خوبصورت تعلیم پر پردہ ڈال دیا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ ہر فساد کے زمانے میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے انبیاء اور فرستادے بھیجتا ہے۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بھیجا جنہوں نے ہمیں کھول کر اس خوبصورت تعلیم کے حسن سے روشناس کروایا۔ آپ علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ میری آمد کے دو مقاصد ہیں۔ ایک بندے کو خدا تعالیٰ سے ملانا اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانا اور دوسرے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنانا۔(مأخوذ از ملفوظات جلد3صفحہ 96-95)پس اسلام ہمیں ان دو حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اس کو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دیکھنا ہو گا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس آیت کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان حقوق کے اعلیٰ معیار کس طرح قائم ہوتے ہیں اور کس طرح دنیا میں عدل و انصاف اور محبت اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔ کس طرح ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُسوہ سے اس پر عمل کر کے دکھلایا۔ اس زمانے میں بھی اس بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نے کس طرح ہر دو قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس آیت سے رہنمائی فرمائی۔

                    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

                    ’’قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں۔ ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزّاِسْمُہٗ۔ دوسرے ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی۔ اور ان حکموں کو اس نے تین درجہ پر منقسم کیاہے… ‘‘اس آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی(النحل:91)۔پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو۔ ظالم نہ بنو۔ پس جیسا کہ درحقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں۔ کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں۔ کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیّت وربوبیّت خاصہ کے ہر یک حق اسی کا ہے۔‘‘ اسی نے ہمیں پیدا کیا وہی ہمیں زندگی دیتا ہے، قائم رکھتا ہے۔ وہی ہمارے لئے پرورش کے سامان مہیا فرماتا ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے ۔ ’’اِسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اوراس کی محبت میں اور اس کی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔

                     پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متأدّب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اوراس کے حسنِ لازوال کودیکھ لیا ہے۔بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلّف اور تصنّع دورہوجائے اور تم اس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلا ًتم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتاہے۔

                    اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرّض نہ کرو ۔‘‘جو تمہارے حق ہیں وہ تو تم لینے کی کوشش کرو اس سے زیادہ لینے کی کوشش نہ کرو’’اور انصاف پرقائم رہو۔اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔

                    پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو ۔‘‘جونیکی کرو اس سے اس نیکی میں کسی احسان کی سوچ نہ ہو۔ کسی غرض کے بغیر یہ خدمت ہو۔ فرمایا ’’بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو۔ جیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔‘‘ ایک رشتے دار دوسرے رشتے دار سے، ایک قریبی دوسرے قریبی سے نیکی کرتا ہے۔ ’’سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوّت وقرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پاجائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گذاری یا دعا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ550تا552)

                    پس جب تک ان دونوں قسموں کے حقوق کی ادائیگی کا تصور اور اِدراک پیدا نہ ہو انسان کے عدل و انصاف قائم کرنے کے دعوے صرف دعوے رہتے ہیں۔ انسانی قوانین عدل کی حد سے آگے نہیں جاتے، نہ جا سکتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عدل قائم کرنے سے دنیا میں امن قائم ہونے کے تمام مراحل طے ہو گئے، جو ہم نے پانا تھا وہ پا لیا۔ لیکن یہاں بھی بے انصافیاں ہیں۔ جہاں مفادات ہوں وہاں عدل کے تقاضے بھی پورے نہیں کئے جاتے اور یہ امیر دنیا میں بھی ہے اور غریب دنیا میں بھی ہے۔ اور پھر اگر بہت چھلانگ لگاتے ہیں تو کچھ احسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ احسان ان کے کوئی فرائض میں سے نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے پھر اس احسان کے بعد جس پر احسان کیا گیا ہو عموماً اسے جتلا بھی دیا جاتا ہے۔ یا دنیا میں ہمیں یہ بھی عمومی طور پر نظر آتا ہے کہ کسی کو اس کے حق سے زیادہ ہمدردی کے نام پر کچھ دینے کا سوچا بھی جائے تو اس کے لئے بھی بعض شرطیں عائد کر دی جاتی ہیں اورآجکل ہم بڑی حکومتوں کے رویّوں اور عمل میں اس بات کا عام مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب غریب ممالک کی مدد کی جائے تو بعض شرائط ہوتی ہیں۔ لیکن اسلام کی تعلیم کہتی ہے کہ ایسی مدد جس کے پیچھے احسان جتانا اور تکلیف دینا ہو وہ نیکی نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی(البقرۃ: 265)حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ:۔’’اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ354)

                    پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ اور مدد جو غریب پروری کے طور پر کی جا رہی ہے مدد اور صدقہ نہیں رہتی۔ اور پھر دنیا میں ایتاء ذی القربیٰ کا تو تصور پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ پس جیسا کہ میں نے کہا دنیاوی قانون میں عدل کی حد تک زیادہ سے زیادہ قانون جاسکتا ہے اور وہ بھی صرف الفاظ کی حد تک کیونکہ عدل کرتے وقت بھی مختلف توجیہیں کر کے عدل کو بھی برباد کر دیا جاتا ہے۔

                     لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خدا عدل قائم کرنے کا، احسان کرنے کا، اور ایتاء ذی القربیٰ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تمہارا عدل و انصاف تمہیں عدل و انصاف کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرنے والا ہونا چاہئے۔ تمہارے احسان کے پیچھے تکلّف اور ایذاء نہ ہو۔ اور پھر یہ بھی کہ انہی پہلی دو باتوں کو اپنی انتہا نہ سمجھو بلکہ ایتاء ذی القربیٰ کے مضمون کو بھی سامنے رکھو۔ دوسروں سے سلوک میں بے غرض ہمدردی ہو۔ دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھو اور یہ کیفیت ہے جو تمہیں مومن بناتی ہے۔ اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حکم اور بنائے ہوئے قانون کی شان کہ جب تک بے غرض ہو کر انصاف، احسان اور محبت کے معیار قائم نہیں کرو گے حقیقی امن اور سلامتی کی تم ضمانت نہیں بن سکتے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے حقوق ادا کرنے کے معراج پر پہنچاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت سے متعلق اور امن و سلامتی قائم رکھنے سے متعلق دنیاوی قوانین تو کیا کوئی مذہب بھی یہ تعلیم پیش نہیں کر سکتا۔ نہ کسی مذہب نے یہ تعلیم پیش کی۔ حقوق انسانی اور امن و سلامتی کے قیام کے لئے اسلامی تعلیم ہی ہے جو اس اعلیٰ و ارفع مقام پر کھڑی ہے۔

                     اگر کوئی مسلمان کہلانے والا اس تعلیم سے ہٹ کر اپنا عمل دکھا رہا ہے یا کوئی مسلمان حکومت یا اسلام کے نام پر قائم ہونے والے نام نہاد گروہ اس تعلیم سے ہٹ کر حرکتیں کر رہے ہیں یا شدت پسندی اور ظلم کے اظہار کر رہے ہیں تو وہ قرآنی تعلیم کے مخالف کر رہے ہیں۔ اسلام نے تو ہر موقع پر اور ہر طبقے کے لئے اس حکم پر چلنے کی اپنے ماننے والوں کو تلقین کی ہے۔ اسلام کے نام پر کسی کا کوئی غلط فعل اس بات کی دلیل نہیں کہ اسلام کی تعلیم اسے غلط کام کرنے کا لائسنس دے رہی ہے یا اجازت دے رہی ہے۔

                     اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو جو اپنے آپ کو انصاف اور امن کے قیام کا علمبردار سمجھتے ہیں انصاف سے کام لیتے ہوئے اپنے بیانات دینے چاہئیں۔ یہ جو بیان یہاں کے لیڈر اور سیاستدان دے دیتے ہیں کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسلام کی تعلیم اور دہشتگردی کا تعلق نہیں کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ یہ ان کی کم علمی ہے یا بے انصافی سے کام لیتے ہوئے بیان ہے جو یہ بیان دیتے ہیں۔ اپنے عمل ان لوگوں کو نظر نہیں آتے کہ امن کے قیام کے نام پر انصاف کی کس طرح دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ظلم کے بازار کس طرح گرم کرتے ہیں۔ مجھے اس پر اپنی رائے دینے کی ضرورت نہیں۔ ان کے اپنے لکھنے والے ان کے انصاف اور امن کے قیام کا پول کھولتے ہیں۔ چنانچہ ایک میڈیا پر ’’ویسٹس لیبیئن لیگیسی‘‘(West’s Libyan Legacy) ایک آرٹیکل ایک جرنلسٹ جان رائٹ(John Wright) نے لکھا۔ یہ کہتے ہیں کہ ویسٹرن انٹروینشن(Western Intervention) کی بہت سی مثالوں میں سے لیبیا جیسی تباہ کن مثال نہیں پائی جاتی۔  نیٹو نے لیبیا میں دخل دیا جس کی وجہ سے نتیجہ صرف یہی نکلا کہ وہ ملک تباہ ہوا۔ نیٹو کی کیمپین(Campaign) نے ایک چلتے ہوئے ملک کو، ایک بٹے ہوئے اور متفرق اور قبائلی طرز پر لَوٹا دیا ہے جہاں داعش نے مضبوطی پکڑ لی ہے۔  پھر لکھتا ہے کہ یہ بات یاد رکھیں کہ لیبیا میں نیٹو کے آنے سے قبل کوئی دہشتگردوں کے ٹریننگ کیمپس نہیں تھے۔ ویسٹ کی موٹی ویشن(motivation) یہ نہ تھی کہ کوئی جمہوری تبدیلی لائی جائے بلکہ یہی تھی کہ تیل ایکسپلوریشن(exploration) کا دروازہ کھولنا چاہتے تھے اور اکنامک ٹائیز(economic ties) قائم کرنا چاہتے تھے۔ تو یہ ہے امن اور انصاف کے نام پر ظلم کی ایک جھلک۔

                     پھر اسی طرح بے شمار لکھنے والوں نے عراق جنگ کے غلط ہونے کے بارے میں اور دوسری بے انصافیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اسلام کی تعلیم دیکھیں جس پر یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں تو وہ سب سے چھوٹی نیکی عدل کو کہتی ہے۔ عدل کوئی بہت بڑی نیکی نہیں۔ اسلام کہتا ہے یہ عدل سب سے چھوٹی نیکی ہے۔ اور یہ عدل و انصاف کا نعرہ لگا کر اس کو بڑی نیکی کہتے ہیں۔ اگر اس پر ہی عمل کر لیں تو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا دار ہیں ان کے لئے یہی بہت بڑی نیکی ہے لیکن جہاں ان کے مفادات ہوں وہاں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے عدل کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔

                     اسلام اس کے لئے ایک خوبصورت معیار قائم کرتا ہے۔ یہ کہ عدل کس طرح قائم کرنا ہے؟ کیا معیار ہونا چاہئے؟ فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ۔وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا ۔ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔(المائدۃ:9)کہ اے ایماندارو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لئے اِیستادہ ہو جاؤ( کھڑے ہو جاؤ) اور کسی قوم کی دشمنی ہرگز تمہیں اس کام پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو۔ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقینا آگاہ ہے۔

                    پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم۔ دشمنیوں میں بھی غلط بہانے نہیں تراشنے۔ قَوَّام کا مطلب ہے کہ صحیح طریق سے کسی کام کو کرنا اور مستقل مزاجی سے کرنا۔ پس انصاف قائم کرنا ہے حقیقی رنگ میں قائم کرنا ہے اور مستقل مزاجی سے قائم کرنا ہے۔ یہ ایک مسلمان کو حکم ہے۔ اور ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام کرنے ہیں۔ ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی باریکی میں جا کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ ایک مومن کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے اور اس کی تلاش رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کیا حکم دیتا ہے اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی حقیقی مسلمان کہلاؤ گے۔ انصاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیشہ سامنے رکھو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے دُور نہ لے جائے۔ اب جب دشمن سے عدل و انصاف سے کام لینے کی خدا تعالیٰ مسلمانوں کو تلقین فرماتا ہے تو پھر مزید نیکیوں کی بھی تلقین فرماتا ہے۔

                     اب جیسا کہ اُس کالم میں لکھنے والے نے لکھا ہے کہ لیبیا کی جنگ یا قذافی کو ہٹانے کے معاشی محرکات تھے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ تیل کی دولت پر اپنے ہاتھ مزید مضبوطی سے ڈالنا بھی تھا۔ قرآنی تعلیم تو یہ کہتی ہے جس پر انہوں نے اعتراض کیا کہ قرآنی تعلیم دہشت پسندی سکھاتی ہے۔ قرآن کیا کہتا ہے کہ دوسرے کی دولت کو لالچ کی نظر سے نہ دیکھو! مَیں نے یہ بات جب امریکہ میں سیاستدانوں کے سامنے کہی تو ایک افریقن امیریکن سیاستدان میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ جو تم نے بات کہی ہے کہ دوسرے کی دولت پر لالچ کی نظر نہ ڈالو اور ان کی دولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ یہ بڑی حقیقی اور صحیح بات ہے جس کی ہمیں یہاں بہت ضرورت ہے۔ تو یہ تو ان کا اپنا حال ہے۔ یہ لوگ اسلام پر کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں ۔

                     اب تو ان کے لکھنے والے جیسا کہ میں نے ایک کا ذکر کیا ہے لکھنے لگ گئے ہیں۔ بہت سے حوالے میرے پاس ہیں جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی بعض شدت پسند تنظیمیں ہماری عراق جنگ اور ان ممالک میں بے انصافی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جو جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرایا اور یہ گرا کر معصوم شہریوں کا قتل عام کیا گیا یہ کونسا انصاف تھا؟ کونسی انسانی ہمدردی تھی جو اس وقت ظاہر ہوئی یا اب یہ کونسا موقع ہے کہ اب اس ایشو کو دوبارہ اٹھایا جا رہا ہے؟ آج بھی یہ لوگ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں آج کہ اُس وقت یہ غلط ہؤا اور اس طرح نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن آج بھی ان کو اپنے اس فعل پر کوئی شرمندگی نہیں۔

                     کلفٹن ٹرومین جو کہ پریذیڈنٹ ٹرومین کا نواسہ ہے ایک انٹرویو میں ایٹم بم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ بہت عظیم چیز تھی۔ اپنے نانا کے بارے میں کہتا ہے کہ انہوں نے جنگ ختم کر دی۔ انہوں نے دونوں اطراف سے ملکوں کی جانوں کو بچا لیا اور یہی میرے نانا نے اپنے فیصلے کے لئے بطور وجہ بیان کی تھی۔ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ کو کبھی جاپان سے معافی مانگنی چاہئے۔ پھر ایک کالم نگار نے بھی 9؍اگست کے Daily Telegraphمیں لکھا کہ ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کی انسانی قیمت جائز تھی۔ تو یہ تو ان کا حال ہے۔ یہ ان کی سوچیں ہیں۔ جنگ فوجوں کے درمیان ہو رہی ہے اور قتل معصوم بچے اور بوڑھے اور عورتوں کا ہو رہا ہے۔ یہ ہے انصاف جس کی یہ توجیہیں نکالتے ہیں کہ یوں نہ ہوتا تو یہ ہوتا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان گروہ غلط حرکت کرتا ہے تو اسے یہ اسلامی تعلیم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو ایسی ہے جو ہر سطح پر عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کی تلقین کرتی ہے۔ ظلم و بغاوت کو ردّ کرتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ عدل کرو تو اس قرآنی تعلیم پر سب سے بڑھ کر عمل کرنے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کا اُسوہ نظر آتا ہے۔ ایک شخص جو مسلمان نہیں ہے بلکہ یہودی ہے جب آپؐ کے پاس دادرسی کے لئے آتا ہے اور مسلمان کے خلاف شکایت کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں فریق کی بات سن کر یہودی کے حق میں اور مسلمان کے خلاف فیصلہ فرماتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ336 مسند ابن ابی حدرد حدیث نمبر15570 عالم الکتب بیروت1998ء)

آجکل انفرادی طور پر بھی اور حکومتوں کی سطح پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ قرض لئے جاتے ہیں لیکن واپس کرتے وقت کئی بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں جو بات ہمیں نظر آتی ہے اور آپؐ کا اُسوہ ہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے وہ یہ ہے کہ آپؐ قرضدار کو نہ صرف وقت سے پہلے مطالبے پر قرض ادا کرتے ہیں بلکہ احسان کرتے ہوئے کچھ زائد بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ پھر جنگوں کے حوالے سے بھی بات ہو رہی تھی تو جنگی قیدیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ( الانفال:68) کسی نبی کی شان نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے قیدی بنا لے سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میں قیدی پکڑے جائیں۔ اس زمانے میں جب یہ عمل عام تھا کہ دشمن قبیلے کے لوگ قیدی بنا لئے جاتے تھے اسلام آواز اٹھاتا ہے کہ یہ عدل اور انصاف کے خلاف ہے کہ جو باقاعدہ جنگ میں شامل ہو کر اسلام کے خلاف نہیں لڑتا اسے قیدی بنایا جائے۔ اگر آجکل اسلام کے نام پر حکومتیں یا نام نہاد حکومتیں یہ کام کرتی ہیں تو یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ یہ جائز ہی نہیں ہے۔

                     پھر اسلام ان قیدیوں کے متعلق جو جنگی قیدی ہیں فرماتا ہے کہ فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً (محمد:5)  اور جنگی قیدیوں سے بھی کیا سلوک کرنا ہے؟ فرمایا کہ یا تو احسان کے طور پر انہیں چھوڑ دو یا فدیہ لے کر انہیں آزاد کر دو۔

                    پھر اس سے بھی بڑھ کر جنگی قیدیوں سے سلوک ہے۔ اس زمانے میں جو جنگیں ہوتی تھیں ہر ایک اپنے جنگی سامان کا بھی اور اگر قید ہو جائے تو قید سے رہائی کے لئے بھی ذمہ دار ہوتا تھا اور خود کوشش کرتا تھا یا اس کے خاندان والے اس کا انتظام کرتے تھے۔ تو ان حالات میں بھی بعض دفعہ بعض رشتہ داروں کے دل میں کھوٹ پیدا ہو جاتا تھا کہ مال پر قبضہ کریں اور جو قید میں ہے اسے قید میں ہی رہنے دیں۔ قریبی رشتے دار نہ ہوں تو دُور کے رشتہ دار ایسی حرکتیں کرتے تھے۔ یا بعض دفعہ کوئی اور وجہ ہو جاتی ہے کہ کوئی شخص فدیہ نہ دے سکے تو فرمایا کہ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ (النور:34)کہ تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ ان کی قوم نے ان کا فدیہ دے کر انہیں آزاد کروایا ہے۔ اگر وہ تم سے مطالبہ کریں کہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشے اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنا جرمانہ ادا کر دیں گے تو پھر ان کی حالت دیکھ کر اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ آزاد ہو کر روزی کما سکتے ہیں تو انہیں آزاد کر دو۔ بلکہ احسان کا اگلا قدم بھی اٹھایا کہ ان کی اس کوشش میں خود بھی حصہ دار بن جاؤ۔ اور وہ   حصہ دار بن کر، مسلمان مل کر اپنے مال میں سے ان کی مالی امداد کریں اور مالی امداد دے کر اسے آزاد کرنے کی کوشش کریں۔

                    آجکل کے انصاف اور عدل کا نعرہ لگانے والے بھی یہ معیار نہیں دکھا سکتے۔ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ بعض حقوق انسانی کی تنظیمیں یہ کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن جنگی قیدی تو ایک طرف رہے سیاسی اور مذہب کے نام پر جو قید کئے جاتے ہیں ان کو بھی نہیں چھڑوا سکتیں۔

                     جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلمان بھی دینی تعلیم کو بھول چکے ہیں اگر وہ اس تعلیم پر غور کریں تو بلا وجہ کے جو قیدی بنا لئے جاتے ہیں اور اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے وہ کبھی نہ کریں گے۔ بہرحال اسلام کی تعلیم کا ذکر ہو رہا ہے تو اسلام تو اس حد تک جا کر انسان کی آزادی کے حقوق قائم کر رہا ہے کہ ایک دشمن قوم کا شخص جو اسلام دشمنی میں جنگ میں شامل ہو کر مسلمان کے خلاف تلوار اٹھاتا ہے جب جنگی شکست کی صورت میں یا کسی بھی صورت میں جنگی قیدی بن جاتا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ تم احسان سے کام لیتے ہوئے ایسے دشمن کی بھی آزادی کے سامان کرنے کی کوشش کرو۔

                     مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کو آج جائز قرار دیا جا رہا ہے جس میں معصوم شہریوں کی بڑی تعداد ماری گئی۔ اگر تصویریں دیکھیں سیڑھیوں پر ایک شخص وہاں بیٹھا ہے تو وہیں اسی حالت میں رہ گیا اور اس کی کھال پگھل کر لٹک گئی اور اسی طرح وہیں بُت بن گیا۔ پھر جو فوری اموات ہوئیں اس کے بعد تابکاری اثرات کی وجہ سے بہت عرصے تک اموات ہوتی رہیں۔ معذور بچے پیدا ہوتے رہے۔ آج اتنے عرصے بعد  جاپان کی اس جنگ کے بارے میں، ایٹم بم کے بارے میں باتیں کر کے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ کیا اس بات سے ان لوگوں کو شہ دے رہے ہیں جو ظلم کرنا چاہتے ہیں۔

                     آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں جو دشمن حملہ کر رہا ہے اس پر قابو پا لینے کے بعد بھی کسی صورت میں اس کی شکل بگاڑنے کی اجازت نہیں۔ جنگ میں بھی کسی قسم کی دھوکے بازی نہیں کرنی۔   (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب تأمیر الامام الامراء… حدیث نمبر1731)کسی بچے اور عورت کو نہیں مارنا۔ پادریوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا۔ بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو نہیں مارنا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ768 مسند عبد اللہ بن عباسؓ حدیث نمبر2728 عالم الکتب بیروت 1998ء) (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء  المشرکین حدیث نمبر2614)

                    ہمیشہ صلح اور احسان کو مدّنظر رکھنا ہے۔ اگر دوسرا ملک تمہیں تنگ کرتا ہے اور اگر تمہیں جنگ کی وجہ سے حملہ کرنے کے لئے دشمن ملک میں جانا پڑے اور حملہ ہوتا ہے تو وہاں عوام میں ڈر اور خوف پیدا نہیںکرنا اور عوام الناس پر سختی نہیں کرنی۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فی الامر بالتیسیر و ترک التنفیر حدیث نمبر1732)

                    لڑائی کے قافلے فوجوں کی نقل و حرکت ایسے راستوں سے ہونی چاہئے جس کی وجہ سے عوام کو تکلیف نہ ہو۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب ما یؤمر من انضمام العسکر وسعتہ حدیث نمبر2629)

 دشمن کے منہ پر زخم نہیں لگانا۔(صحیح البخاری کتاب العتق باب اذا ضرب العبد فلیجتنب الوجہ حدیث نمبر2559)

                     دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر کوئی مسلمان جنگی قیدی پر ناجائز سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو فوری آزاد کر دیا جائے ۔

(صحیح مسلم کتاب الاَیمان والنذور باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ لمن لطم عبدہ حدیث نمبر1659)

                     قیدیوں کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ اگر رشتے دار قیدی ہوں تو انہیں ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے، اکٹھے رکھا جائے۔(سنن الترمذی ابواب السیر باب فی کراہیۃ التفریق بین السبی حدیث نمبر1566)

                     جس شخص کے پاس کوئی قیدی ہو وہ جو خود کھائے وہی اسے کھلائے۔

(صحیح مسلم کتاب الاَیمان والنذور باب اطعام المملوک مما یأکل …حدیث نمبر1661)

                    یہ سب باتیں کیا ہیں۔ یہ عدل کو تو بہت پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ یہ تو سب احسان ہے۔ کون ہے جو اس طرح جنگی قیدیوں سے سلوک کرے۔

                    پس نہ ہی اس تعلیم کا کوئی پہلی تعلیم مقابلہ کر سکتی ہے، نہ ہی آجکل کے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والوں کے قانون اس اعلیٰ پیمانے کے عدل اور احسان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔یہ باتیں تو جو میں نے بتائی ہیں کہ قیدیوں سے یہ یہ کرنا ہے جنگیں جاری رکھنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ جنگیں ختم کرنے کے لئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میثاق مدینہ کیا تو مدینہ کے یہود کو بھی وہی حقوق دئیے جو مسلمانوں کے تھے کہ مومنوں کی طرف سے ان پر  کوئی ظلم نہ ہو گا اور اگر ان پر مومنوں کی طرف سے یا کسی بھی طرف سے کوئی ظلم ہو تو اس ظلم کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 354-355ہجرۃ الرسولﷺ دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)

                    اب بہت ساری شقوں میں سے یہودیوں کے لئے یہ شق کہ چاہے وہ مدینہ میں رہیں چاہے باہر چلے جائیں امن کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ عدل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا۔ اگر مسلمان یہ معیار حاصل کریں اور اپنے معاہدات کی پابندی کریں تو کبھی ذلّت کا سامنا نہ کریں۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جبتک وہ اپنے عَہدوں کی پابندی کرتے رہے ان کی ترقی ہوتی رہی۔ جہاں انہوں نے عَہدوں کی پابندی کو چھوڑا، عدل کو خیر باد کیا وہیں ان کی ذلّت شروع ہو گئی۔

                     دیکھیں عَہدوں کو پورا کرنے کی کیا اعلیٰ مثال ہے کہ جب رومیوں کے حملے کی وجہ سے اسلامی لشکر چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگا تو مسلمانوں نے وہاں کے غیر مسلم لوگوں کا خراج یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا کہ یہ ٹیکس تو ہم نے تمہاری حفاظت اور علاقے کے امن کو قائم کرنے کے لئے لیا تھا جو ہم کر نہیں سکے اس لئے اب ہم اس کے حق دار بھی نہیں ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے اس پر جو جواب دیا اور ردّ عمل دکھایا وہ بھی دنیا کی تاریخ کا ایک عجیب باب ہے، سنہری باب کہنا چاہئے جو سنہری حروف میں لکھا جانے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو اپنے ہی مذہب کے لوگوں کے ظلموں کا نشانہ بن رہے تھے تم نے آکر یہاں قبضہ کیا اور اپنے عَہد کی پابندی اور عدل کے اعلیٰ معیاروں سے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اب ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ چنانچہ مسلمانوں نے رومی فوج کو پسپا کیا اور دوبارہ حکومت قائم ہو گئی اور مسلمان جب شہر میں داخل ہوئے تو وہاں کے باشندوں نے بڑے پُرجوش طریقے پر ان کا استقبال کیا۔ (کتاب الخراج از قاضی ابویوسف صفحہ 149 تا 151 فصل فی الکنائس والبیع والصلبان)

                     کاش کہ آج کی مسلمان حکومتیں بھی اس سے سبق لیں اور اپنوں اور غیروں پر ظلم بند کریں تو ان کی ذلّت اور رسوائی انہیں دنیا کا رہنما بنا دے گی۔ لیکن اس کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ کی آواز کو سننا ہو گا جو زمانے کا امام ہمیں دے رہا ہے۔ یہ مضمون عدل اور احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کا ایسا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں بیشمار ارشادات ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی اس سے بھری پڑی ہے۔ پھر اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں بیشمار جگہ اس کے حوالے ملتے ہیں جن کو اگر بیان کیا جائے تو گھنٹوں لگ جائیں جو براہ راست اس آیت کی تشریح میں آپ نے فرمایا ہے۔

                     ایک اوربات اس وقت مَیں پیش کروں گاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت کے لئے ایتاء ذی القربیٰ کے جذبے کا اظہار ہے۔ مومنوں کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے لئے۔ مشرکوں کے لئے بھی کافروں کے لئے بھی اور دوسرے مذاہب کے لئے بھی جس کو خدا تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں محفوظ کر لیا۔ آپؐ کے اللہ تعالیٰ سے دُور ہٹے ہوؤں کے لئے غم اور صرف اس لئے یہ غم کہ لوگ خدا سے دُور ہٹ کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی سزا کے مستحق بنیں گے۔ انسانیت کے لئے جو رحم کا جذبہ آپ کے دل میں تھا وہ ماں باپ سے بھی زیادہ تھا۔ وہ آپؐ  کو راتوں کو بھی بے چین رکھتا تھا اور دن کو بھی بے قرار کرتا تھا۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اس فکر میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہوا تھا۔ اس بے چینی اور بیقراری کو دیکھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔(الشعراء:4)کیا تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ اس سے بڑھ کر کُل انسانیت کے لئے قرابت داری کے جذبات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ اپنی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے درد میں ڈوب کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جذبات ہیں۔ اور پھر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام کے شدت پسند گروہ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے یہ عمل دکھا رہے ہیں یا نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ یہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے بھٹکنے کی وجہ سے یہ عمل دکھا رہے ہیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ حقیقی اسلام پر عمل کرنے کے لئے مسلمانوں کو کسی شدت پسند گروہ کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادہ کی ضرورت ہے۔ اور اسلام پر اعتراض کرنے والے بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور عقل کو استعمال کریں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دیکھیں ۔

                     آج ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ جہاں وہ عدل و احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کے حکم کو اپنی زندگی کے ہر پہلو پر لاگو کرے وہاں اس پیغام کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچائے۔یہ انہیں بتائے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی آواز کو سنو۔ اس کے درد کو محسوس کرو جو اپنے آقا و مطاع کی اتباع میں اس کے دل میں تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بھی اسی طرح یہ فرمایا کہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔(الشعراء:4)اللہ تعالیٰ کرے کہ انسانیت کے لئے یہ درد ہم سب میں پیدا ہو جائے۔ ہر ایک کو اپنے اپنے جذبات اور کیفیات کے لحاظ سے پیدا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔ معیار کے مطابق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دنیا تباہی کی طرف جانے کی بجائے عدل احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو بچا لے اور دنیا کو اللہ تعالیٰ یہ سمجھنے کی توفیق دیتے ہوئے اس دنیا کو بھی جنت بنا دے اور اُخروی جنت کے بھی سامان اللہ تعالیٰ اس دنیا کے لئے کر دے۔

                    اب ہم دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہر لحاظ سے حاضری کے لحاظ سے بھی  اور موسم کے لحاظ سے بھی اس جلسے کو بابرکت فرمایا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بھی اپنے اپنے گھروں میں حفاظت سے لے کر جائے۔ دعا کر لیں۔

                    [دعا کے بعد سٹیج کے سامنے اور سٹیج پر موجود احباب کھڑے ہو گئے تو حضور انور نے فرمایا:]

                    السلام علیکم۔ ایک منٹ ذرا۔ میرے سامنے جو گرین ایریا میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ بیٹھے رہیں ان کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں اور سٹیج والے بھی بیٹھے رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں