خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے22اگست2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج اس وقت دوران سال جو اللہ تعالیٰ کے فضل جماعت احمدیہ پر ہوئے ہوں ان کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے لیکن جو مختصر خلاصہ بھی تیار کیا جاتا ہے وہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ سب بیان نہیں کیا جا سکتا اور بہت سارا حصہ اس میں سے چھوڑنا پڑتا ہے۔ آج میں نے ویسے بھی ارادہ کیا ہے کہ جتنا زیادہ مختصر کر سکوں کروں اور ایک گھنٹے کے اندر اندر یہ ختم ہو جائے۔ اب دیکھیں میری کوشش کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت دنیا کے 207 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے اور اس سال جو نیا ملک شامل ہوا ہے پورٹو ریکو(Puerto Rico) ہے جس میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ یہ چھوٹا سا سپینش ملک ہے۔ انگریزی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ تینتیس لاکھ پینتالیس ہزار کی آبادی ہے۔ قریباًساڑھے تین ہزار مربع کلو میٹر رقبہ ہے۔ یہاں ایک داعی الی اللہ حسن پرویز باجوہ صاحب کے ذریعہ سے پہلے پیغام پہنچا۔ ایک بیعت ہوئی۔ اس کے بعد امریکہ سے مبلغین نے اس کا دورہ کیا اور پروگرام وغیرہ ہوتے رہے ریڈیو پروگرام بھی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سات مزید بیعتیں ہوئیں۔
نئے ممالک میں نفوذ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 54ممالک میں وفود بھجوا کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے۔ پرانے لوگوں سے رابطہ کر کے ان کے لئے تعلیم و تربیتی پروگرام بنائے گئے۔ لائبریریوں میں لٹریچر رکھوایا گیا۔ اخبارات میں انٹرویو شائع ہوئے اور بے شمار ممالک ہیں جن میں یہ سارے کام ہوئے۔
اللہ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 776ہے اور ان جماعتوں کے علاوہ 1280نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے نئی جماعتوں کے قیام میں سرفہرست بینن کا نمبر ہے جہاں اس سال 155نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر سیرالیون ہے جہاں 136 نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ تیسرے نمبر پر مالی ہے جہاں 65نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سارے ممالک ہیں جن میں یوکے بھی شامل ہے جہاں بیس بائیس سے اوپر نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ قیام کے دوران بہت سارے ایمان افروز واقعات سامنے آتے ہیں۔اس وقت بیان کرنے مشکل ہیں۔
بینن سے لوکل مشنری عالیو صاحب لکھتے ہیں کہ ہم ایک گاؤں لانتیری(Lanterie) میں تبلیغ کے لئے گئے۔ وہاں جب تبلیغ شروع کی تو لوگ اسلام کی موجودہ حالت پر باتیں کرنے لگ گئے کہ آج مسلمان یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں یعنی ہر قسم کی خرابیاں گنوانے لگ گئے۔ تب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد بیان کیا کہ اسی حالت کی درستی کے لئے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے توآپ علیہ السلام آئے ہیں۔ آپ مسیح اور امام مہدی بن کر آئے ہیں۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ اگر یہی امام مہدی ہیں تو پھر کوئی معجزہ بیان کریں۔ تو مشنری کہتے ہیں میں معجزات کی باتیں کرنے لگا تو ایک شخص کھڑا ہوا اس نے کہا چھوڑو کہ معجزات کیا کیا بیان ہوئے۔ ہمارے یہاں اس علاقے میں عرصے سے بارش نہیں ہوئی۔ دعا کرو کہ بارش ہو جائے۔ ہم تب مانیں گے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے آئے ہیں اور اگر تم یہی نشان مانگتے ہو تو میں بھی اس اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے تمہیں کہتا ہوں کہ بارش ہو جائے گی۔ اور کہتے ہیں ہم نے دعا کی۔ اگلے دن دوسرے شہر میں جب پہنچے ہیں تو پیچھے ان کی اطلاع آئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات ہی بہت بارش ہو گئی۔
امیر صاحب کانگو لکھتے ہیں کہ مشرقی صوبے میں دورہ کیا۔ پمفلٹ تقسیم کئے۔ مخالفین نے یہ کوشش کی کہ لوگ پیغام نہ سنیں۔ گھر گھر جا کر لوگوں کو منع کیا۔ لیکن الحمد للہ اس کوشش کے باوجود ساؤتھ کے جس شہر میں وہ گئے تھے وہاں اب تک ساٹھ سے زیادہ لوگ احمدیت قبول کر چکے ہیں اور اس کے علاوہ اس علاقے میں مختلف جگہوں پر پانچ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور صوبے میں دو ہزار سے زیادہ بیعتیں ہو چکی ہیں۔
امیر صاحب کانگو ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے کام سے کنشاسا آیا اور احمدیہ مشن بھی آ گیا۔ اس نے بتایا کہ ’پَوپَوکاپاکا‘(Popokapaka)میں کئی سو احمدی ہیں (ایک جگہ کا نام ہے) ان کو مدد کی ضرورت ہے اس لئے ان کو بھی کچھ مدد دیں۔ کہتے ہیں وہاں گئے۔ ہمارے ریکارڈ میں تو یہ جماعت تھی ہی نہیں ۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ جماعت یہاں قائم ہے۔ بہرحال جائزہ لینے کے بعد معلم بھجوایا۔ جب ہمارا معلم وہاں پہنچا اور وہاں کے مولوی کو پتا لگا کہ یہ احمدی ہے۔ اس نے کہا تم لوگ کافر ہو ہم تمہاری بات نہیں سنیں گے یہاں سے چلے جاؤ۔ لیکن بہرحال رمضان کے مہینے میں ایک واقعہ ہوا۔ مسلمانوں کی مسجد کا جو امام تھا وہ کچھ دنوں کے لئے وہاں سے کہیں گیا ہوا تھا۔ تراویح اور نمازیں پڑھانے کے لئے ان کو کوئی نہیں مل رہا تھا۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نے معلم سے کہا کہ مسجد میں آ جاؤ اور نمازیں پڑھاؤ، تراویح پڑھاؤ۔ دو تین دن تو معلم نے پڑھائیں لیکن جب وہاں کے امام کو دوسرے شہر میں یہ خبر پہنچی کہ احمدی معلم نمازیں پڑھا رہا ہے تو اس نے پیغام بھجوایا کہ اس کو فوراً مسجد سے نکال دو۔ بہرحال ایک شریف النفس عیسائی نے معلّم کو اپنے ہاں ٹھہرا لیا۔ اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی اور ایک جگہ مہیا کر دی۔ معلم نے لوگوں کو کہا کہ جو میرے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں وہ اس گھر میں آ جایا کریں۔ تیسرے دن ہی وہاں نماز شروع ہو گئی اور اس کے بعد پھر معلم کی رہائش اور نماز سینٹر کے لئے مکان کرائے پر لے لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اب ایک جماعت قائم ہے اور عید پر بھی مقامی مسجد میں جتنے لوگ جاتے تھے اس سے زیادہ ہمارے معلم کے پیچھے لوگ نمازیں پڑھنے کے لئے آ رہے تھے اور بیعت کر لی۔
مبلغ انچارج گنی کناکری کہتے ہیں کہ لیف لیٹس کی تقسیم کے انتہائی بابرکت منصوبے کے تحت ہر جگہ جماعت کا تعارف ہو چکا ہے۔ ایک گاؤں میں جہاں پہلے سے اطلاع بھجوائی گئی تھی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی پیغام لے کر آ رہے ہیں۔ یہ گاؤں والے اور قریب کے گاؤں کے امام اور چیف ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ چنانچہ جب ہم وہاں پہنچے تو ایک غیر معمولی جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا ۔ تقریباً چار گھنٹے کی مجلس سوال وجواب کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام گاؤں بشمول امام اور چیف اور اسی طرح ساتھ کے گاؤں کے امام اور گاؤں کے لوگ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ الحمد للہ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایک بنی بنائی خوبصورت مسجد بھی جماعت کو عطا فرمائی۔ گاؤں کا چیف امام کہنے لگا کہ آپ کی باتیں سن کر لگ رہا تھا کہ میں آج حقیقی مسلمان ہوا ہوں۔ لہٰذا آپ میری تربیت کریں اور مجھے صحیح اسلام سکھائیں۔
برکینا فاسو میں بھی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ریجن کے ایک گاؤں بومبیں(Bombain)میں ہمارے مشنری تبلیغ کی غرض سے پہنچے۔ نماز عشاء کے بعد تبلیغ کا آغاز کیا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے حوالے سے دلائل پیش کر کے لوگوں کی تسلی کروائی گئی۔ تبلیغ کے اختتام پر ایک شخص نے بتایا کہ جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد نے ایک خواب سنائی تھی کہ ایک شخص ہاتھ میں تلوار لئے آسمان سے زمین کی طرف آ رہا ہے۔ میرے والد نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ امام مہدی کے آنے کا وقت ہے۔ کیونکہ اب میں بوڑھا ہو چکاہوں ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ آمد میری زندگی میں نہ ہو اور میرے مرنے کے بعد ہو۔ بہرحال تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب بھی امام مہدی آئیں تو ان کو قبول کر لینا۔ آج آپ لوگوں کے منہ سے امام مہدی کے ظہور کی خبر سن کر مجھے میرے والد کی نصیحت یاد آ گئی۔ اس لئے میں آج اپنے خاندان سمیت احمدی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے اس گاؤں میں 59 افراد نے بیعت کی۔
نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد
جماعت کودوران سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی، تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ ان کی مجموعی تعداد 401ہے۔ جن میں سے 156مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں اور 245 بنی بنائی ملی ہیں۔ اس میں امریکہ اور بہت سارے دوسرے ممالک ہیں جہاں مساجد تعمیر کی گئیں۔
مختلف ممالک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر ہوئی۔ دوران سال ستمبر میں آئرلینڈ میں تعمیر مکمل ہوئی۔ مڈغاسکر میں ہوئی ۔ برازیل میں ہوئی۔ اور جاپان کی مسجد بھی آخری مراحل میں ہے۔
مساجد کے تعلق میں واقعات
مساجد کے تعلق سے واقعات میں آئیوری کوسٹ سے ہمارے ایک معلم کریم صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ دو ہفتہ قبل خواب میں دیکھا کہ گاؤں میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو کر ایک طرف جا رہے ہیں جبکہ ایک شخص ان کے آگے چل رہا ہے جس کے ہاتھ میں ایک عصا ہے۔ جو لوگ خواب میں اس کے پیچھے چل رہے تھے انہی میں سے بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم جس آدمی کے پیچھے چل رہے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو مَیں بھی خواب میں بھاگ کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا۔ جب قریب سے دیکھا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جو ہماری ہدایت کے لئے ہمارے آگے چل رہے تھے۔ چنانچہ ہم ان کے پیچھے چلتے رہے۔ تھوڑی دور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا عصا زمین میں گاڑتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ یہاں اپنی مسجد بنائیں گے۔ چنانچہ ابھی چند دن پہلے جب گاؤں کے چیف نے ہمیں مسجد کے لئے زمین دکھائی تو وہ عین وہی جگہ تھی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں مجھے اپنا عصا گاڑ کر دکھایا تھا۔
اروشہ ریجن تنزانیہ سے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نئی جماعت کسوانی(Kisiwani) میں وقار عمل کے ذریعہ پانچ ہزار اینٹ تیار کی جا رہی ہے۔ وقار عمل میں نومبائعین شامل ہو رہے ہیں اور دو ہزار اینٹیں بن چکی ہیں۔ ان اینٹوں کو پکایا جائے گا۔ وہاں نومبائعین بھی بڑی محنت سے مسجد تعمیر کر رہے ہیں۔ اس طرح اوربہت سارے واقعات ہیں۔
مسجد کی تعمیر میں مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ تینکو دُوگو (Tenko Dogo)ریجن کی ایک ابتدائی جماعت کوکو نوغیں (Koko Nogain) میں کویت سے مولویوں کا ایک گروپ آیا اور ان کو ایک شاندار مسجد بنانے کی پیشکش کی۔ لیکن گاؤں والوں نے جب ان کو بتایا کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے تو مولوی جماعت کے خلاف بولنے لگ گئے اور کہا کہ اگر آپ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں تو ہم آپ کو بہت اچھی مسجد بنا کر دیں گے۔ اس پر گاؤں کے احمدی امام نے انہیں جواب دیا کہ اگر آپ مسجد بنانا چاہتے ہیں تو بنائیں لیکن یہ خیال مت کرنا کہ ہم جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں گے کیونکہ ہماری زندگیوں کا نچوڑ احمدیت ہے اور اس مٹی کی مسجد میں ہی ہم خوش ہیں۔ جو کچی مسجد بنی ہوئی ہے اسی میں ہم خوش ہیں اور اسی مٹی کی مسجد میں ہی ہم احمدی ہونے کی حالت میں مرنا پسند کریں گے اور جب تک میں زندہ ہوں اس جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ جواب ساری جماعت کے ایمان کی تقویت کا باعث بنا۔ یہ صورتحال دیکھ کر مولوی وہاں سے اٹھے اور برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب وہاں مٹی کی مسجد نہیں بلکہ ان کو مسجد کی منظوری دی گئی تھی اورپکی مسجد تکمیل کے مراحل میں ہے، تقریباً مکمل ہونے والی ہے۔
تراجم قرآن کریم
ایڈیشنل وکالت تصنیف کی رپورٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو مکمل تراجم قرآن کریم جماعت احمدیہ کی طرف سے طبع کروائے جا چکے ہیں ان کی تعداد اب تک 74 ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال یہ 72 تھی اس سال دو نئی زبانوں سنہالی اور برمی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو اہے۔ اسی طرح مختلف قسم کی کتب اور فولڈر 22زبانوں میں شائع ہوئیںاور بہت سارے ابھی چھپوائی کے مراحل میں ہیں۔
کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تبصرے۔ چین میں کتب کی نمائش کے دوران ایک رسالے کی مدیرہ صاحبہ ہمارے سٹال پر آئیں اور کتب کو دیکھتے ہوئے ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کو کھول کر دیکھا۔ وہ کچھ دیر کھڑی ہو کر ورق گردانی کرتی رہیں۔ پھر بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیا اور تقریباً ایک گھنٹہ تک بیٹھی پڑھتی رہیں۔ پھر کہنے لگیں یہ کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ چھوڑنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ میں نے اسّی فیصد تو یہاں پڑھ لی ہے اور باقی گھر جا کر پڑھوں گی۔ اپنا رابطہ اور پتہ وغیرہ بھی دیا اور کہنے لگیں کہ انہیں اور لٹریچر بھجوایا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عظیم الشان مضمون کے بالا ہونے کے نظارے بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آئیوری کوسٹ کے بسّم(Bassam) ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ میں ایک جماعتی سکول کے کام کے سلسلہ میں بَونُوآ(Bonoua) شہر میں ایک سرکاری افسر سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ دفتر میں جب مشن کا تعارف کروایا تو ایک اہلکار نے کہا کہ وہ جماعت احمدیہ سے کسی حد تک واقف ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس نے ایک بک سٹال سے ’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا فرنچ ترجمہ خریدا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ مذہباً عیسائی ہے مگر یہ کتاب اکثر اس کے مطالعہ میں رہتی ہے کیونکہ اس کے مضامین نہایت گہرے اور حیرت انگیز ہیں۔
وکالت اشاعت (طباعت )
وکالت اشاعت طباعت کا جو شعبہ ہے اس کی رپورٹ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 105 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 761مختلف کتب، پمفلٹ اور فولڈر 58 زبانوں میں ایک کروڑ تئیس لاکھ چوہتر ہزار آٹھ سو کی تعداد میں شائع کئے۔ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ کا بڑا احسان ہے کہ پہلی دفعہ جماعت کی طرف سے دنیا بھر میں شائع ہونے والے لٹریچر کی تعداد ایک کروڑ سے اوپر گئی ہے۔
میاں قمر احمد مبلغ بینن کہتے ہیں کہ امیر صاحب فلسطین اور صدر صاحب مصر کے دورے کے بعد خاکسار مدرسۃ الاسلامیہ العربیہ کے ڈائریکٹر امام موسیٰ سے ملنے گیا۔ موصوف رمضان کے تیس دن پورتونووکے بڑے ریڈیو پر درس دیتے ہیں۔ موصوف امام نے بہت محبت سے استقبال کیا اور کہاکہ میرے پاس آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ آپ کے لٹریچر نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ میں زبان سے تو احمدی نہیں مگر دل سے احمدی ہوں۔
وکالت اشاعت (ترسیل)
رپورٹ وکالت اشاعت ترسیل۔ وکالت اشاعت کا یہ ترسیل کا شعبہ جو بنایا گیا ہے ان کے مطابق دوران سال دنیا کے مختلف ممالک کو 38 مختلف زبانوں میں نئی شائع شدہ کتب تین لاکھ پانچ ہزار تین سو کی تعداد میں یہاں لندن سے بھجوائی گئیں ۔ اور ان کتب کی کل مالیت تین لاکھ سینتالیس ہزار پاؤنڈز تھی۔
قادیان سے کتب کی ترسیل بھی جاری ہے اور وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پریس کام کر رہا ہے اور مختلف ممالک کی مرکزی اور ریجنل لائبریریوں میں اور فروخت کے لئے دو کروڑ چھیاسٹھ لاکھ روپے کی مالیت کی کتب بھجوائی گئیں۔
جماعتوں میں ریجنل اور مرکزی لائبریریز کا قیام ہوا۔ 220سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کا مختلف ممالک میں قیام ہو چکاہے۔ ان کے لئے لندن اور قادیان سے کتب بھجوائی گئیں۔ مزید جماعتوں میں لائبریریوں کے قیام کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔
وکالت تعمیل و تنفیذ
وکالت تعمیل و تنفیذ لندن۔ وکالت تعمیل و تنفیذ کے کاموں میں بھارت، نیپال اور بھوٹان کے کام ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کاموں میں کافی وسعت پیدا ہو چکی ہے۔
رقیم پریس اور افریقن ممالک کے احمدیہ پریس
رقیم پریس اور افریقن ممالک کے جو مختلف احمدیہ پریس ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال رقیم پریس لندن کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد دولاکھ نوے ہزار سے اوپر ہے۔ الفضل انٹرنیشنل، چھوٹے پمفلٹ، لیف لیٹ اور جماعتی دفاتر کی سٹیشنری اس کے علاوہ ہے۔ فارنہام(Farnham) میں رقیم پریس کے لئے ایک نئی عمارت خریدی گئی ہے انشاء اللہ یہ اسلام آباد سے وہاں شفٹ ہو جائے گا ۔ افریقن ممالک کے پرنٹنگ پریس بھی کام کر رہے ہیں جن میں گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، برکینا فاسو، کینیا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اس سال وہاں جو لٹریچر طبع ہوا ہے اس کی تعداد دس لاکھ پچاسی ہزار ہے۔ فضل عمر پریس قادیان کے لئے جدید اور تیز رفتار بائنڈنگ اور فولڈنگ مشین خرید کر بھجوائی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اس مشین کے ذریعہ سے کام ہو رہا ہے۔ گیمبیا میں پہلا جدید کمپیوٹرائزڈ پریس سسٹم لگایا گیا۔
نمائشیں و بک سٹالز
نمائش اور بک سٹالز، بک فیئرز جو ہیں ان کے ذریعہ سے اس سال چوبیس سو ساٹھ نمائشوں کے ذریعہ سترہ لاکھ نو ہزار سے اوپر افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اس سال تیرہ ہزار سات سو پینتیس بک سٹالز اور بک فیئرز میں شمولیت کے ذریعہ سترہ لاکھ اٹھانوے ہزارافراد تک پیغام پہنچا۔
نمائشوں کے تعلق میں واقعات و تأثرات
نمائشوں کے حوالے سے واقعات اور تاثرات۔ نائیجریا کی سٹیٹ اوسون(Osun) کے گورنر کے نمائندے نے یہ لٹریچر وغیرہ دیکھ کر کہا: ہم جماعت احمدیہ کی انسانیت کی خدمت کے معترف ہیں اور آپ کی امن کے لئے کی گئی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے۔ لکسمبرگ میں ایک نمائش کے موقع پر ایک جرمن آدمی ہمارے سٹال پر آیا اور مختلف کتب دیکھ کر کہنے لگا کہ میں ویسے تو دہریہ ہوں لیکن آپ کے اس پُرامن پیغام کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ کاش ہر ایک اس پیغام کو مان لے تب ساری دنیا امن سے بھر جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ یہ پیغام ہر ایک تک پہنچائیں گے۔ اس پر ایک خادم نے کہا کہ ہم پہنچا رہے ہیں اس لئے تو یہاں بھی آئے ہیں۔
لیگوس نائیجیریا کے سیکیورٹی آفیسر کو جب مختلف لیکچرز کی جو میری کتاب ہےPathway to Peace دی گئی تو کہنے لگے: یہ کتاب پڑھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ حقیقی سچائی اور امن کی تبلیغ کی۔ اگر ہر مذہبی لیڈر اس عالمی امن کے لئے امام جماعت احمدیہ عالمگیر کا ساتھ دے تو دنیا میں امن کی بارش ہونے لگ جائے اور ہمیں امن نصیب ہو جائے۔
اس سال بینن میں تراجم قرآن کریم اور کتب سلسلہ کی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر کالج کے پروفیسر ہوبرٹ ماگا (Hubert Maga)صاحب نے ہمارے مربی کو نمائش دیکھنے کے بعد کہا کہ میں مذہباً عیسائی ہوں۔ اسلام کے بارے میں میڈیا سے بہت کچھ سنا اور دیکھا تھا لیکن نمائش دیکھنے کے بعد سب کچھ اس کے برعکس پایا۔ مجھے یہاں آ کر معلوم ہوا ہے کہ اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے۔ جو لوگ متشددانہ کارروائیاں کرتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جماعت احمدیہ اسلام کا بہترین تصور پیش کر رہی ہے۔ چنانچہ موصوف نے جاتے ہوئے فرنچ ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم اور اسلام کی دیگر کتب بھی خریدیں۔
کبابیر کے مبلغ لکھتے ہیں کہ حیفا یونیورسٹی میں کبابیر جماعت کی طرف سے نمائش کی کتب اور ایک سٹال کا اہتمام کیا گیا۔ ہمارے بک سٹال پر ایک غیر احمدی نوجوان آیا اور کتابوں کو بغور دیکھنے لگا۔ اسی اثناء میں اس کی نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘ پر پڑی اور کہا کہ اس کتاب کی قیمت کیا ہے؟ میں دس کتابوں کی قیمت ادا کرنا چاہتا ہوں تا کہ میری طرف سے یہ لوگوں میں تقسیم کی جائیں۔ ہم نے اس سے پوچھا کیا آپ نے اس کتاب کو پڑھا ہے۔ تو کہنے لگا میں اس کتاب سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس نے دس کتابوں کی قیمت ادا کی کہ میری طرف سے لوگوں کو دے دیں۔
نائیجیریا کے ایک پروفیسر نمائش کے موقع پر آئے۔ اپنے تاثرات میں کہتے ہیں کہ بہت عمدہ پروگرام ہے۔میری خواہش ہے کہ دوسرے مسلمان بھی اسلام کی امن کی تعلیم ہمارے ملک اور ساری دنیا میں پھیلانے میں آپ کا ساتھ دیں۔
بُک سٹال اور بُک فیئرز کے حوالے سے واقعات
بُک سٹالز اور بک فیئرز کے حوالے سے بعض اور ایمان افروز واقعات۔ ابوطاہر منڈل صاحب مرشد آباد بنگال کہتے ہیں کہ ہم نے لال باغ میں ایک بک سٹال لگایا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہا۔ کچھ مخالفین نے ہمارے بک سٹال کی مخالفت کی جس میں مرشد آباد کے اخبار کے ایڈیٹر سکھندو منڈل صاحب سٹال پر آئے اور مخالفین کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ میں اس جماعت کو اچھی طرح جانتا ہوں ایک دن یہی جماعت پوری دنیا کو فتح کرے گی۔
مبلغ انچارج جاپان لکھتے ہیں کہ ہمارے بک سٹال پر ایرانی سفارت خانے کے ایک عہدیدار آئے اور درّثمین فارسی اور دیگر کتب حاصل کیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ کہنے لگے کہ 1980ء کے اواخر میں مشرقی افریقہ کے ممالک میں تعینات تھا تو ایک دن میں نے سواحیلی ترجمہ قرآن دیکھا تھا۔ مجھے اس وقت سخت حیرانگی ہوئی تھی کہ یہ وہی قرآن ہے جو ہم پڑھتے ہیں لیکن اس کا سواحیلی ترجمہ اس جماعت کو کرنے کی توفیق ملی ہے جسے ہم مسلمان نہیں سمجھتے۔ اسی طرح انہوں نے جماعت احمدیہ جاپان کی طرف سے شائع کردہ اسلامی لٹریچر میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے جاپان میں اسلام کی زبردست خدمت کو سراہا جو جماعت احمدیہ جاپان انجام دے رہی ہے۔
لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم
لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کا منصوبہ جو جاری کیا گیا تھا اس سال دنیا بھر کی جماعتوں میں مجموعی طور پر ایک کروڑ چھتیس لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے اور اس ذریعہ سے تین کروڑ اٹھاسی لاکھ انتالیس ہزار سے اوپر افراد تک پیغام پہنچا۔
اس وقت فلائرز اور لیف لیٹس کے ذریعہ پیغام پہنچانے کے لحاظ سے نمایاں کام کرنے والوں میں امریکہ جہاں بیالیس لاکھ فلائرز تقسیم کئے گئے۔ اسی طرح گزشتہ چھ سالوں میں مجموعی طور پر امریکہ میں اکہتر لاکھ سے اوپر فلائرز تقسیم ہوئے۔ ان فلائرز کے علاوہ بک فیئرز، نمائشیں، اخبارات، ٹیلیویژن وغیرہ کے انٹرویو بھی ہیں ان کے ذریعہ سے ساٹھ ملین سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ کینیڈا والوں نے چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار فلائرز تقسیم کئے اور ان کے ذریعہ سے پندرہ لاکھ افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ جرمنی میں دو لاکھ نو ہزار لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔ وہاں تیس ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ سویڈن میں ایک لاکھ پچاس ہزار فلائرز تقسیم ہوئے۔ دولاکھ سے اوپر لوگوں تک پیغام پہنچا۔ سوئٹزرلینڈ میں ایک لاکھ ترانوے ہزار فلائرز تقسیم ہوئے۔ تین لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ اسی طرح ٹرینیڈاڈ پچپن ہزار۔ گوئٹے مالا ایک لاکھ۔ برازیل پچیس ہزار۔ جمائیکا وغیرہ بہت سارے ملک ہیں۔ ہیٹی اور بیلیز۔ اور آسٹریلیا میں چار لاکھ پچاس ہزار سے زائد پمفلٹس تقسیم کئے گئے۔ چار لاکھ سے اوپر لوگوں تک پیغام پہنچا۔ فجی میں پندرہ ہزار، نیوزی لینڈ پچیس ہزار، مارشل آئی لینڈ۔ یوکے میں پانچ لاکھ بارہ ہزار سے زائد فلائرز تقسیم ہوئے۔ ناروے کی جماعت نے اس سال دو لاکھ نوّے ہزار اور اب تک مجموعی طور پر دس لاکھ افراد تک پیغام پہنچایا۔ بیلجیئم نے اس سال تین لاکھ لیف لیٹس تقسیم کئے۔ نولاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔ ہالینڈ ایک لاکھ تیئس ہزار۔ سپین پانچ لاکھ چار ہزار۔ فرانس دو لاکھ ستر ہزار پرتگال سولہ ہزار ۔ ڈنمارک میں بھی اس سال دو لاکھ لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔ کروشیا پچیس ہزار۔ اور نائیجیریا نولاکھ پچاس ہزار۔ تنزانیہ دولاکھ۔ ٹوگو تیس ہزار۔ برکینا فاسو اٹھاون ہزار۔ کانگو کنشاسا ایک لاکھ پچاس ہزار۔ کینیا ایک لاکھ سینتیس ہزار۔ بینن چار لاکھ تریسٹھ ہزار۔ اور مختلف ملک جو لاکھ سے اوپر ہیں مَیں بتا دیتا ہوں۔ مالی ایک لاکھ تہتر ہزار۔ یوگنڈا ایک لاکھ تیئس ہزار۔ سیرالیون دو لاکھ اسّی ہزار۔ انڈیا میں پانچ لاکھ چھ ہزار سے زائد فلائر تقسیم کئے گئے جن کے ذریعہ سے اتنے ہی افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ بنگلہ دیش میں کہتے ہیں کہ تین لاکھ افراد تک پیغام پہنچایا۔ اسی طرح نیپال، بھوٹان میں بائیس ہزار اور دو ہزار آٹھ سو لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔ جاپان میں کہتے ہیں دو لاکھ افراد تک پیغام پہنچایا۔ اسی طرح سنگاپور، تھائی لینڈ، کبابیر وغیرہ مختلف ممالک ہیں۔
اس سال سپین میں جامعہ یوکے سے جو طلباء فارغ ہوئے تھے ان کو لیف لیٹس تقسیم کرنے کے لئے بھجوایا گیا تھا اور انہوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لیف لیٹس چھپوا کر دو لاکھ بیاسی ہزار کی تعداد میں چھیاسی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں سپین کے لوگوں کو تقسیم کئے ۔ پولیس نے بعض جگہ ان کو تقسیم کرتے دیکھ کر تلاشیاں بھی لیں پھر لیف لیٹ پڑھ کے معذرت بھی کی۔ کہتے ہیں اس سال کئی نئی جگہوں پر اسلام کا پیغام پہنچا۔ پھر ستمبر کے شروع میں ایک اور جامعہ کا گروپ وقف عارضی پر وہاں گیا تھا۔ انہوں نے پچپن ہزار کی تعداد میں لیف لیٹ تقسیم کئے۔ میکسیکو میں فلائر کی تقسیم کا غیر معمولی کام ہؤا۔ ان کو میں نے لاس اینجلس میں خطبے کے دوران کہا تھا کہ اس علاقے میں تبلیغ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں جو انہوں نے کام کیا ہے بہت بڑی تعداد یہاں سپینش بولنے والی ہے۔گوئٹے مالا سے ایک وفد یہاں بھجوایا گیا تھا۔ میکسیکو میں پرانے مایاؔ تہذیب کے بعض لوگ مسلمان ہیں۔ خیاپاس(Chiapas) میں ان کی مسجد بھی ہے۔ چنانچہ پیغام بھجوایا گیا تو ستّر افراد نے مسجد اور امام سمیت احمدیت قبول کی۔ اس سال وہاں جامعہ کینیڈا کے طلباء بھجوائے گئے تھے۔ انہوں نے بہت بڑی تعداد میں فلائر تقسیم کئے۔ مریڈا(Merida) شہرکی آبادی ایک ملین ہے۔ پرامن شہری ہیں، بیس یونیورسٹیاں ہیں۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں ڈیڑھ ملین فلائر وہاں تقسیم کئے گئے ہیں اور آٹھ ماہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسّی بیعتیں بھی ہو چکی ہیں۔
پھر لیف لیٹس کی تقسیم کے دوران پیش آنے والے بعض واقعات۔ عبدالنور عابد صاحب لکھتے ہیں کہ فلائر کی تقسیم کے نتیجہ میں ہماری ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے اپنا فون نمبر دیا۔ بعد میں ہم امیر صاحب کے ساتھ اس کے شہر اس سے ملنے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تمام خاندان بیروت سے 1930ء میں گوئٹے مالا آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم سب احمدی تھے۔ بچپن سے میں احمدی ہوں۔ میرے ماں باپ احمدی ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ اس کی عمر ساٹھ سال تھی اور ایک یونیورسٹی میں اکانومسٹ ہے۔ کہتے ہیں الحمد للہ کہ لیف لیٹس کے ذریعہ سے ہی پرانے ایک گمشدہ احمدی سے بھی رابطہ بحال ہو گیا۔ لیف لیٹ کی تقسیم کی وجہ سے گوئٹے مالا میں 91بیعتیں حاصل ہوئیں۔
ڈنمارک کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ انصار اور خدام کے فلائر تقسیم کرنے کے پروگرام میں سابق وزیراعظم ڈنمارک کی بیٹی نے بھی فلائر لئے اور گھر جا کر اس نے کچن کی میز پر رکھ دئیے۔ جب سابق وزیر اعظم نے ہمارا فولڈر Muslims for Loyalty دیکھا اور پڑھا تو اس کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کو اپنے فیس بک(Facebook) کے اکاؤنٹ پر ڈال دیا جس کو اندازاً تین چار لاکھ افراد نے وِزٹ کیا۔
امیر صاحب فرانس کہتے ہیں کہ فرانس کے ایک شہر لی آن(Lyon) میں بعض مولویوں نے جماعت کے خلاف الزامات لگائے اور لوگوں سے کہا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ اس شہر میں جماعت کی طرف سے جب پمفلٹ تقسیم کئے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور اسلامی تعلیم پر مشتمل ایک پمفلٹ ایک امام کو ملا۔ اس نے جب پمفلٹ پڑھا تو اپنے جمعہ کے خطبہ میں کہا کہ میں نے جماعت احمدیہ کا پمفلٹ پڑھا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں آج کے بعد میں ان کو غیر مسلم نہیں سمجھتا۔
مبلغ انچارج گنی کناکری کہتے ہیں کہ جماعتی تعارف پر مشتمل دو صفحوں کا لیف لیٹ خدا تعالیٰ کے فضل سے ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے اور ہمیں ملک کے دور دراز علاقوں سے فون کالز موصول ہو رہی ہیں کہ ہم اپنے بزرگوں سے امام مہدی اور مسیح کے بارے میں سنا کرتے تھے اب آپ کا یہ لیف لیٹ دیکھ کر ہمیں اشتیاق ہے کہ ہم آپ سے ملیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہم امّت مسلمہ کو ایک مصلح کی ضرورت ہے۔ اس طرح لیف لیٹنگ(Leafletting) کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگ ہمارے سے رابطہ کر رہے ہیں۔
نسیم مہدی صاحب مبلغ انچارج امریکہ لکھتے ہیں کہ میکسیکو کے شہر کین کیون(Cancune)میں لیف لیٹس کی تقسیم کے دوران ایک خاتون نے ہمارے مبلغ کو روک کر کہا کہ میں اسلام میں دلچسپی رکھتی ہوں اور آج ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور موصوفہ نے ایک مبلغ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں نے رات کو اس کو خواب میں دیکھا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ لڑکا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسلام کے بارے میں اشتہار تقسیم کر رہا ہے۔ چنانچہ موصوفہ نے اسی وقت بیعت کر لی اور ان کا بڑا وسیع کاروبار ہے اور اپنا ایک گھر بھی انہوں نے ہمارے مبلغ کو پیش کر دیا۔
مبلغ سوئٹزرلینڈ لکھتے ہیں کہ اب تک ملک میں تیرہ لاکھ لیف لیٹس تقسیم ہو چکے ہیں اور اس کا بہت اچھا فِیڈ بیک(feedback) مل رہا ہے۔
کیتھولک چرچ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے لکھا کہ آج ایک بچے نے مجھے ایک فلائر دیاتھا۔ جب میں نے اس کو پڑھا تو اس نے میرا دل موہ لیا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس طرح کے مضامین کی تشہیر نہایت حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی یہ تحریر دوسرے مسلمانوں کو بھی متحرک کرنے میں کامیاب ہو گی۔
کتاب ’لائف آف محمدؐ‘ کی تقسیم اور اس پر غیروں کے تأثرات۔یہ بڑے وسیع پیمانے پر تقسیم کی جا رہی ہے اور مجلس انصار اللہ یوکے نے مجموعی طور پر سٹالز کے ذریعہ سے یہ تقریباً انچاس ہزار سے اوپر کی تعداد میں’ لائف آف محمدؐ ‘ اور پینتیس ہزار سے اوپر پاتھ وے ٹو پِیس(Pathway to Peace…) تقسیم کی ہے اور لوگ کھڑے ہو کر مانگتے ہیں۔ آکسفورڈ سٹریٹ میں ایک سٹال لگایا تھا کہتے ہیں کہ ایک عرب خاتون جس کا تعلق قطر سے تھا آئیں اور انتہائی جذباتی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اس سے بہتر کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا جو آپ ان کتابوں کے ذریعہ سے دے رہے ہیں اور زبردستی پچاس پاؤنڈ بھی دے گئیں۔
کہتے ہیں کہ ایک سٹال پر ایک افریقن خاتون آئی اور کتاب حاصل کرنے کے بعد بینر love for all دیکھ کر کہنے لگی آپ لوگ تو احمدی ہیں اور میں ہوم آفس کرائیڈن میں کام کرتی ہوں اور بہت سے احمدیوں کے کیسز پاس کر چکی ہوں۔ آپ لوگ بہت بہادری کا کام کر رہے ہیں۔ اب میں پہلے سے بھی بڑھ کر احمدیوں کے کیسز کا خیال رکھوں گی۔ اور احمدی بھی خیال رکھیں کہ سچائی پر قائم رہنا ہے، جھوٹ بول کے کیس نہیں پاس کروانا۔
عربک ڈیسک کے تحت گزشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہوئے ان کی تعداد ایک سو دس ہے اور اب مزید کتابیں بھجوائی گئی ہیں جن میں روحانی خزائن جلد 4 اور حضرت مصلح موعود کی بہت ساری کتب شامل ہیں جن کا ترجمہ ہو گیا ہے، شائع ہو رہی ہیں۔
عربوں کے بعض واقعات ہیں ۔ تیونس سے ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میری رہنمائی خدا تعالیٰ نے احمدیت کی طرف خود فرمائی۔ کہتی ہیں مَیں ایک دینی مسئلے کے حل کے لئے مختلف مذہبی چینل دیکھ رہی تھی کہ ایم ٹی اے مل گیا اور باقاعدگی سے دیکھنے لگی۔ پھر میں نے آپ کو چار دفعہ خواب میں دیکھا۔وہ مجھے لکھ رہی ہیں کہ آپ کو چار دفعہ خواب میں دیکھا اور میرا دل مطمئن ہو گیا۔ ایک دن میرے داماد آئے اور کہنے لگے کہ ایم ٹی اے دیکھا کریں۔ مَیں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی باقاعدگی سے دیکھتی ہوں۔ جب صدر جماعت تیونس ہمیں ملنے آئے تو میں نے بیعت کر لی۔ اس کے بعد اپنے میاں کو تبلیغ کی تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
اسی طرح مراکش سے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بیعت کے وقت تو شرائط بیعت کا سطحی اعتراف کیا تھا لیکن اب جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں یا خطبات جمعہ سنتا ہوں یا جماعت کے علماء کو سنتا ہوں تو حقیقی ادراک نصیب ہوا ہے۔
پھر دمشق سے ایک صاحب لکھتے ہیں مجھے امام مہدی کی آمد کی پیشگوئی کا علم تھا اور میں مختلف مجالس علم میں گیا مگر سب میں بھٹکتا ہی رہا اور ہلاکت کی طرف ہی بڑھتا رہا۔ آخر کار ایک دوست سے ایم ٹی اے کا علم ہوا اور احمدی احباب سے ملاقات ہوئی۔ جس روز ان احمدی دوستوں نے میرے گھر آنا تھا اس روز میرے آٹھ سالہ بیٹے نے خواب میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا جو اسے نہایت خوبصورت باغ کا دروازہ کھول کر کہہ رہے ہیں کہ آؤ تم اور تمہارے والد اس میں داخل ہو جاؤ۔ اس واضح پیغام کے بعد مَیں بیعت کر کے خلافت حقہ سے وابستہ ہونا چاہتا ہوں۔ قبول فرمائیں۔ یہ لکھ رہے ہیں۔
الجزائر سے ایک صاحب لکھتے ہیں مَیں نے بیعت سن 2013ء میں کی ہے۔ مجھے لکھتے ہیں کہ ایک خواب میں دیکھا کہ مَیں آپ کے ساتھ ہوں اور بہت سے لوگ مخالفوں کی طرح آوازیں دیتے ہیں اور ہمیں مارنے کے لئے کھڑے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ خدا کی قسم یہ حق پر ہیں اور امام مہدی علیہ السلام کے خلیفۂ خامس ہیں۔ اس پر ایک شخص مجھے مارنے اور گرانے کے لئے نکلا۔ میں نے اسے مارا اور زمین پر دے مارا اور وہ بے حس ہو کر پڑا رہا۔ پھر دوسرا آیا اسے بھی مار کر پہلے پر دے مارا اور وہ بھی بے حرکت پڑا رہا۔ اور پھر تیسرا نکلا اس کا بھی یہی حشر ہوا۔ اس پر مجھے خواب میں معلوم ہوا کہ میں حق پر ہوں اور جماعت احمدیہ حق پر ہے اور خدا کی طرف سے مؤید و منصور ہے۔
ایک صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں کہ میرا تعارف جماعت سے کئی سال سے ہے لیکن بیعت کی توفیق مجھے چار ماہ قبل ملی۔ آپ سے بے پناہ محبت ہے اور جب بھی ایم ٹی اے پر آپ کو دیکھتا ہوں تو فوراً جذباتی ہو جاتا ہوں۔ مجھے اس عظیم محبت کا راز معلوم نہیں ہے۔ حالانکہ کہتے ہیں صرف ایک سال قبل جماعت کے بارے میں غلط خیالات کی وجہ سے مَیں آپ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ بیعت سے پہلے جتنی نفرت تھی خدا تعالیٰ نے سب محبت میں بدل دی۔
الجزائر سے ہی ایک صاحب لکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے امام الزماں کی بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عہد بیعت پر قائم ہیں اور ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ایران سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میری عمر 35سال ہے۔ میرے دو بچے ہیں۔ میرا جماعت احمدیہ سے تعارف ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہوا اور میں نے حضرت اقدس مسیح موعود کی تصویر دیکھتے ہی ان کو سچا مان لیا۔ مجھے 2014ء میں شرف بیعت حاصل ہوا۔ اور پھر یہ والدین کے لئے اور اہلیہ کی قبول احمدیت کے لئے دعا کی درخواست بھی کر رہے ہیں۔
مختلف زبانوں کے ڈیسکس کی رپورٹ
رشین ڈیسک۔ رشیا اور دیگر ریاستوں میں مبلغین اور معلمین اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے انٹر نیٹ کی سہولت کی وجہ سے بڑی محنت سے رشین ڈیسک کے ساتھ کام کرنے کی توفیق پا رہے ہیں۔ خطبات جمعہ اور دوسرے لٹریچر کے ترجمے ہو رہے ہیں اور ماشاء اللہ یہ بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ کافی وسعت آ چکی ہے۔
فرنچ ڈیسک میں بھی کافی کام ہو رہا ہے۔ خطبات کا ترجمہ، کتب کا ترجمہ، یُوٹیوب کے ذریعہ سے ان کا ایک آفیشل چینل بھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ ہو رہا ہے۔
بنگلہ ڈیسک۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہا ہے اور ایم ٹی اے پر لائیو پروگرام بھی ان کے چل رہے ہیں۔
ٹرکش ڈیسک ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار پانچ کتب کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جَلد شائع ہو جائیں گی۔
چینی ڈیسک۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہا ہے اور کتابیں اور لٹریچر شائع کر رہا ہے۔
پریس اور میڈیا آفس۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بہت زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔ ان کے ذریعہ سے بڑی اچھی کوریج دنیا میں جماعت کو مل رہی ہے اور میڈیا فورمز کے ذریعہ انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔ بی بی سی آبزرور اور ایل بی سی ریڈیو شامل ہیں جنہوں نے کوریج دی۔
پھر پریس اینڈ میڈیا آفس کے ممبران نے دوران سال 250انٹرویو دئیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اچھا کام کر رہے ہیں۔
سالانہ رپورٹ احمدیہ ویب سائٹ یہ ہے۔ ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ یہ کام کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہاں اچھا کام ہو رہا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات آڈیو صورت میں بھی ’الاسلام‘ میں دستیاب ہیں۔ اَور بہت ساری کتب ہیں۔ یہاں وزٹ کریں گے تو آپ کو پتا لگ جائے گا۔
ریویو آف ریلیجنز کا کام بھی بڑا وسیع ہو چکا ہے۔ یوکے، کینیڈا اور انڈیا میں پرنٹ ہوتا ہے۔ تیرہ ہزار پانچ سو سے زائد کاپیاں پرنٹ ہوتی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجی جاتی ہیں۔ طلباء کے لئے اس سال قیمت پندرہ پاؤنڈ سے کم کر کے دس پاؤنڈ کر دی گئی ہے۔ اسی طرح کینیڈا وغیرہ میں بھی ان کو میں نے اگلے سال کے لئے بیس ہزار کا ٹارگٹ دیا تھا اب دیکھیں یہ پورا کرتے ہیں یا نہیں۔ ان کے بعض خصوصی نمبر شائع ہوتے رہے ہیں اور بڑے اچھے مضامین ہوتے ہیں اب اسے لوگوں کو پڑھنا چاہئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا معیار اچھا نہیں۔ لیکن اب تو غیر بھی اس کے معیار کی تعریف کرنے لگ گئے ہیں۔کئی غیروں نے لکھا ہے کہ ہم نے رسالہ دیکھا اور بڑے اعلیٰ معیار کے مضمون ہوتے ہیں۔اس کو پڑھنا چاہئے۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو بہت عالم سمجھتے ہیں، بعض تنقید بھی کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں بغیر دیکھے تنقید ہو رہی ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر اس کی تعداد بڑھانی چاہئے۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کو کوشش کرنی چاہئے۔
مختلف ممالک سے رسالوں کی اشاعت
اس سال مختلف ممالک میں مقامی طور پر رسالوں کی جو اشاعت ہوئی۔ 105 ممالک سے جو رپورٹ موصول ہوئی اس کے مطابق 28زبانوں میں 140 تعلیمی، تربیتی اور معلوماتی مضامین پر مشتمل رسائل و جرائد مقامی طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔ ان زبانوں میں عربی، فرنچ، نارویجئن، اردو، جرمن انگریزی وغیرہ مختلف زبانیں شامل ہیں۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی کام ہو رہا ہے۔ بڑی وسعت اس میں پیدا ہو چکی ہے۔ سب ٹائٹلنگ(subtitling) کی صورت کے ساتھ اب خطبات بھی آتے ہیں۔ ان کے سٹوڈیو وغیرہ میںوسعت دی گئی ہے۔ جلسہ سالانہ برطانیہ پر اب آج کل افریقن ممالک کے لئے خصوصی نشریات بھی ہیں۔ یوں تو سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ایم ٹی اے کے تمام پروگرام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ رہے ہیں مگر جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر حدیقۃ المہدی سے امسال چار افریقن ممالک گھانا ،نائیجیریا، سیرالیون اور یوگنڈا کے سات چینل جو ان کے اپنے لوکل چینل ہیں خصوصی نشریات کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔ ایم ٹی اے افریقہ پروجیکٹ بھی اب اللہ کے فضل سے کام کر رہا ہے اور غانا میں نیشنل ٹی وی اور سائن پلس(Cine Plus) چینل پر ہفتہ وار ایک slot حاصل کیا گیا ہے جس پر جماعتی پروگرام دکھائے جا رہے ہیں۔ تبلیغی کام بھی ان سے ہو رہا ہے۔ غانا میں ایک وسیع سٹوڈیو کمپلیکس بھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہاں سے ایم ٹی اے کا افریقہ کے ریجن کے لئے علیحدہ سٹوڈیو کام کرے گا اور افریقن ریجن کو انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کا پیغام پہنچائے گا، اسلام کا پیغام پہنچائے گا۔
ملک مالی میں ایک میڈیا گروپ Africable ہے جس نے 2004ء میںAfricable ٹی وی سیٹلائٹ شروع کیا تھا۔ یہ افریقہ کے تیرہ ممالک میں سب سے مقبول پرائیویٹ چینل ہے۔ اس کے مالک نے اب ٹی این ٹی سیٹ افریقہ (TNT SAT AFRICA)کے نام سے پچاس فری چینل پر مشتمل ایک سروس شروع کی ہے۔ یہ ویسٹ افریقہ کو کور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مالی کو یہ توفیق ملی ہے کہ ان فری چینلز میں ایم ٹی اے بھی شامل کروایا گیا ہے اور اس سروس پر چینل نمبر 36 ایم ٹی اے کا ہے۔ اس کمپنی کا ٹارگٹ ہے کہ پینتیس لاکھ گھروں تک یہ سہولت پہنچائی جائے۔ اس طرح ٹارگٹ مکمل ہونے پر ایم ٹی اے کی نشریات انشاء اللہ تین سو ملین افراد تک پہنچیں گی۔
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتیں
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتیں۔ گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ گاؤں مَامَت فانہ(Mamt Fanna) میں مولویوں کی وجہ سے جماعت کی شدید مخالفت ہوئی۔ گاؤں میں جن لوگوں نے احمدیت قبول کی تھی انہوں نے ایم ٹی اے لگوا لیا اور پروگرام دیکھنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیت میں لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور آہستہ آہستہ مخالفین بھی ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے لگے اور لوگ جو جماعت کے شدید مخالف تھے جب خطبہ سنتے اور دیکھتے تو انہوں نے کہا کہ اس شخص کی مخالفت تو نہیں ہونی چاہئے۔ اور کہتے ہیں اس جگہ پر 350افراد نے احمدیت قبول کر لی۔
امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ’ مَامَت فانہ‘ گاؤں میں ایک خاتون احمدی ہوئیں اور ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے شروع کئے۔ موصوفہ کے خاوند احمدیت کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے گھر میں جماعت اور خلافت کے بارے میںبات کی تو وہ خاوند غصے میں آ گیا اور کہا کہ آج کے بعد گھر میں احمدیت کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی اور لوگوں کی موجودگی میں بیوی کو سخت برا بھلا کہا ۔ موصوفہ نے حوصلے اور صبر کے ساتھ خاوند کی بات سن لی لیکن ثابت قدمی سے احمدیت کو تھامے رکھا اور مسلسل ایم ٹی اے دیکھتی رہیں۔کچھ عرصے بعد خاوند نے بھی ایم ٹی اے دیکھنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ایک ماہ کے بعد موصوفہ کے خاوند نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
قمررشید صاحب صاحب لکھتے ہیں کہ کانڈی میں منعقد کی جانے والی نمائش کے موقع پر ایک دوست نمائش دیکھنے آئے۔ میری وہاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ مختلف کتابیں دیکھتے ہوئے ان کی نظر اس پر پڑی تو کہنے لگے یہ تصویر کس کی ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ ہمارے موجودہ خلیفہ کی ہے۔ تو اس پر کہنے لگے کہ یہ آدمی تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ میں اس کو روز اپنے ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ مجھے اس کی زبان تو سمجھ نہیں آتی۔ لیکن بہرحال اس کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس پر فرنچ ترجمہ بھی آتا ہے وہ سنا کریں اور انہیں ریسیور کی سیٹنگ کے بارے میں بتایا گیا۔ بہت خوش ہوئے اور پھر انہوں نے اس کے مطابق کر لیا۔
احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ سے قبول احمدیت بھی ہو رہی ہے۔ برکینافاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ برکینا فاسو کے ریجن ’فادا ‘میںبھی ریڈیو کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور دور دراز علاقوں سے لوگ فون کر کے بتاتے ہیں کہ وہ احمدیت کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ یہی حقیقی اسلام ہے اور یہی تعلیم دنیا کی ہدایت کا باعث بن سکتی ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک سو دس کلو میٹر دور سے جنگل کے علاقے سے ایک شخص نے مشن کو فون کیا کہ میں آپ کی تعلیم کو باقاعدگی سے سنتا ہوں اور میں سمجھ گیا ہوں کہ جماعت احمدیہ جو تعلیم دے رہی ہے وہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔ چنانچہ آج سے میں اور میرا خاندان جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریڈیو کے ذریعہ سے بھی بہت سارے لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ بینن میں بھی ریڈیو کے ذریعہ بہت سارے لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔Bandundu کانگو کنشاسا میں بھی ۔مختلف جگہوں کے واقعات ہیں۔
ایک صاحب کیتھولک عیسائی ہیں ہمارے مبلغ کو لکھتے ہیں کہ میں ہر جمعہ پر ریڈیو پر اسلام احمدیہ کی نشریات سنتا ہوں۔ آپ کے پروگراموں سے میں اخلاقیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہوں۔ اب تو میں ہر جمعہ اپنے خاندان اور دیگر افراد کو جمع کر کے آپ کا پروگرام دوسروں کو بھی سناتا ہوں۔ اگر کبھی ہم نے اپنا مذہب تبدیل کیا تو سچے اسلام احمدیت میں ہی داخل ہوں گے۔ انشاء اللہ
ایم ٹی اے کے علاوہ دیگر ممالک کے ٹی وی چینلز پر کوریج
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کے علاوہ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلز پر بھی جماعت کو اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ اس سال اٹھارہ سو بیاسی ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ سے نو سو چوّن گھنٹے وقت ملا۔ اس طرح مختلف ممالک کے ملکی ریڈیو سٹیشنز پر نو ہزار ستّر گھنٹوں پر مشتمل دس ہزار پانچ سو چوالیس پروگرام نشر ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے ان پروگراموں کے ذریعہ محتاط اندازے کے مطابق بیس کروڑ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا۔ اس میں سیرالیون میں جماعتی ریڈیو اسٹیشن کے علاوہ دوسرے ملکی ریڈیو اسٹیشنز بھی شامل ہیں جہاں کافی کام ہو رہا ہے۔ غانا میں، نائیجیریا میں، گیمبیا میں، یوگنڈا میں، آئیوری کوسٹ میں، نائیجر میں، گنی کناکری میں، ٹوگو میں، لائبیریا میں، کونگو برازویل میں،مڈغاسکر میں، کونگو کنشاسا، سورینا، گیانا، فجی، طوالو، ہندوستان میں بھی، کینیڈا میں، ہالینڈ، جرمنی، مالٹا، آئر لینڈ، یوکے، سینیگال، بیلیز، ڈنمارک یو ایس اے، ناروے، کریباتی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے وسیع پیمانے پر جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔
جامعہ احمدیہ گھانا میں طلباء اور اساتذہ کا ایک پینل بنایا گیا ہے جو ایک پروگرام کرتا ہے اورپھر لوگوں کو فون پر ان کے جواب بھی دیتا ہے۔ امیر صاحب گھانا کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے بڑے وسیع علاقے میں احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور لوگ اس پروگرام کی بڑی تعریف کرتے ہیں ۔
کونگو کنشاسا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ ٹی وی کے ذریعہ سے پیغام سنتے ہیں اور بڑا appreciate کر رہے ہیں اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔
اخبارات میں جماعتی خبروں کی اشاعت
اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی اشاعت۔ اخبارات میں بھی جماعتی خبریں اور آرٹیکل شائع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر تین ہزار سات سو تیس اخبارات نے چھ ہزار آٹھ جماعتی مضامین، آرٹیکل اور خبریں وغیرہ شائع کیں۔ اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد تقریباً ستاسٹھ کروڑ اڑتیس لاکھ چھیاسی ہزار سے اوپر بنتی ہے جہاں اس ذریعہ سے ان تک پیغام پہنچا ۔
تحریک وقف نَو
تحریک وقف نو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال واقفین نو کی تعداد میں دوہزار چھ سو تراسی واقفین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے بعد واقفین کی کل تعداد چھپن ہزار آٹھ سو اٹھارہ ہو گئی ہے۔ اس میں دنیا بھر کے 105ممالک سے واقفین نَو شامل ہیں۔ لڑکوں کی تعداد چونتیس ہزار آٹھ سو اسّی۔ لڑکیوں کی تعداد اکیس ہزار نو سو اڑتیس ۔ تعداد کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے اور بیرون پاکستان یہ تعداد چھبیس ہزار ہے۔
مخزن تصاویر کا شعبہ ہے۔ نمائش ہے۔ یہ بھی بڑا اچھا کام کر رہے ہیں ۔بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے۔
احمدیہ آرکائیو ریسرچنگ سینٹر ہے یہ بھی نیا کام شروع کیا ہے۔ اس میں تاریخ کے لحاظ سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔
مجلس نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں بیالیس ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں جن میں 39 مرکزی ڈاکٹرز اور دس مقامی ڈاکٹر خدمت میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ تیرہ ممالک میں ہمارے 684ہائر سیکنڈری سکول، جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں جن میں 19مرکزی اساتذہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اور اس سال یوگنڈا میں ایک فری ڈسپنسری کا قیام بھی ہوا۔
ایبولہ(Ebola) کی جو بیماری افریقہ میں پھیلی تھی اس کی وجہ سے سیرالیون اور لائبیریا میں جماعت کو بڑا کام کرنے کی توفیق ملی اور اس کا بڑا اچھا نیک اثر ہوا۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیئرزبھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہی ہے اور ماڈل ویلج پراجیکٹ اور پانی کے نلکے لگانے کا کام بڑا اچھا چل رہا ہے۔ سولر سسٹم بھی یہ لگا رہے ہیں اور اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان علاقوں پر بڑا اچھا اثر ہو رہا ہے۔
ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے بھی بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ فری میڈیکل کیمپس بھی دنیا میں لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے احمدیت کا اور اسلام کا پیغام پہنچتا ہے۔
خون کے عطیات۔ امریکہ میں اس سال ایک سو تیس بلڈ ڈرائیوز منعقد کی گئیں جن میں تین ہزار خون کے عطیات دئیے گئے اور اس کا وہاں کے لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ کینیڈا میں بھی ہو رہا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش ،جرمنی، ماریشس، آئر لینڈ، یو کے اس سلسلے میں کافی اچھا کام کر رہے ہیں۔
آنکھوں کے فری آپریشن۔ اس میں گوئٹے مالا، سیرالیون، مالی، برکینا فاسو، لائبیریا، بینن اور ٹوگو میں اچھا کام ہو رہا ہے۔ موتیا کے انہوں نے کافی فری آپریشن کئے ہیں۔ چیریٹی واک کے ذریعہ سے کافی اچھی کولیکشن ہو جاتی ہے جو مختلف چیریٹیز میں تقسیم کی جاتی ہے۔
قیدیوں سے رابطہ اور خبر گیری میں بھی بعض ملکوں میں بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ برکینا فاسو میں بھی۔ کنشاسا کونگو میں بھی۔ عید الاضحی اور دوسرے موقعوں پر یہاں چیزیں تقسیم کی گئیں۔
نو مبائعین سے رابطے
نومبائعین سے رابطے کی بحالی کے سلسلے میں نائیجیریا نے اس سال پچیس ہزار سے اوپر نومبائعین سے رابطہ بحال کیا۔ بینن نے بائیس ہزار سے زائد نومبائعین سے دوبارہ رابطہ قائم کیا جو بڑے عرصے سے سالوں سے کٹا ہوا تھا۔ برکینا فاسو نے انیس ہزار آٹھ سو سے زائد نو مبائعین سے رابطہ کیا۔ آئیوری کوسٹ نے تیرہ ہزار سات سو سے زائد، سیرالیون نے پانچ ہزار تین سو سے زائد، اسی طرح کینیا چار ہزار سے اوپر۔ ٹوگو، غانا ہندوستان، گنی بساؤ، مالی، تنزانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رابطے میں کافی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور پرانے جو گمے ہوئے تھے ان میں جنہوں نے دین کو دین سمجھ کر، احمدیت کو سمجھ کر قبول کیا تھا وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ واپس آ رہے ہیں۔ جو کسی غرض کے لئے آئے تھے وہ علیحدہ ہو رہے ہیں تو ان کے لئے علیحدہ ہونا ہی بہتر ہے ۔
ساوے ریجن( بینن) کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ پرانے نومبائعین سے تعلق از سر نو بحال کرنے کے لئے لوکل مبلغین اور معلمین پر مشتمل ٹیمیں بنا کر ریجن میں روانہ کی گئیں۔ میں بھی ایک ٹیم کے ہمراہ ایک جگہ گیا۔ گاؤں میں جو بینن سے ملحق نائیجیریا کی سرحد کے قریب واقع ہے جب ہمارے مقامی مبلغ ابوبکر صاحب اور خاکسار نے اس جماعت سے رابطہ بحال کیا تو احباب نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور تمام گاؤں ملاقات کے لئے اکٹھا ہو گیا۔ تب مقامی مبلغ اور خاکسار نے تربیتی موضوع پر تقاریر کیں۔ پروگرام کے اختتام پر احباب جماعت نے چندہ بھی پیش کیا۔ اللہ کے فضل سے اب اس جماعت سے ہماری ٹیم کا مستقل اور مضبوط رابطہ ہے۔ اسی طرح آئیوری کوسٹ میں بھی رابطہ بحال کیا گیا۔
بیعتیں
اس سال جو بیعتیں ہوئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک کی جو اطلاعیں آئی ہیں اس کے مطابق پانچ لاکھ ستاسٹھ ہزار تین سو تیس افراد نے احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کیا۔ اس سال 113ممالک سے تقریباً تین سو اکانوے(391) اقوام احمدیت میں داخل ہوئیں۔ مالی میں ایک لاکھ سینتیس ہزار سے اوپر بیعتیں ہوئیں۔ نائیجیریا کی بیعتیں اٹھانوے ہزار سے اوپر ہیں۔ سیرالیون میں چھیالیس ہزار سے اوپر ہیں۔ غانا کی دس ہزار سے اوپر ہیں۔ برکینا فاسو بیالیس ہزار سے اوپر ہیں۔ گنی کناکری کو پچاس ہزار سے اوپر کی توفیق ملی۔ آئیوری کوسٹ میں بارہ ہزار سے اوپر۔ اسی طرح سینیگال سترہ ہزار سے اوپر۔ بینن اڑتالیس ہزار سے اوپر۔ کیمرون چھبیس ہزار سے اوپر۔ یوگنڈا، کینیا ان میں ہزاروں کی تعداد ہے اور باقی کچھ ممالک میں سینکڑوں میں ہیں۔
بیعتوں کے تعلق میں بعض واقعات۔ گوہاٹی صوبہ آسام کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک معلم کے ساتھ ایک جماعت میں تبلیغ کے لئے گیا۔ اس جماعت میں مخالفین کی کافی تعداد ہے۔ رات کو بھی مخالفین کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ دوران گفتگو مخالفین گالی گلوچ کرتے رہے۔ لیکن ہماری طرف سے انہیں قرآن کریم اور احادیث کی رو سے سمجھانے کی کوشش ہوتی رہی۔ ساری رات بات چیت ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز فجر کے بعد انہی مخالفین میں سے دس افراد کو جماعت احمدیہ کی صداقت سمجھ میں آئی اور قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں اس سال بنگلہ دیش میں ایک چھوٹی سی جماعت میںجلسہ کے آخری دن ایک غیر احمدی امام حافظ ظہور الاسلام بھی شریک ہوئے۔ اس سے کچھ عرصے بعد موصوف اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ سات افراد کا وفد بنا کر ڈھاکہ مشن ہاؤس آئے۔ یہاں جماعت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اللہ کے فضل سے ساتوں ہی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔
نائیجیریا کی ایک نو احمدی خاتون اپنی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں اس سال جلسہ سالانہ نائیجیریا میں شامل ہوئی اور پہلی مرتبہ مجھے اتنا بڑا منظم ہجوم دیکھنے کو ملا۔ احمدیت کا جلسہ سالانہ دیکھ کر ہی احمدی مسلمانوں کو دوسرے جاہل مسلمانوں سے تمیز کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جلسے کے بعد میںنے بیعت کر لی۔
اسی طرح بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ گاؤں ’گاہ یِیرو‘ (Ga Yero) میں تبلیغ کے لئے گیا۔ تبلیغ کے دوران انہوں نے سورۃ اخلاص کی تلاوت کی اور اس کی تفسیر پیش کی۔ جس پر ایک عمر رسیدہ شخص جس کا تعلق مقامی ارواح پرست مذہب سے تھا غصے سے کہنے لگا کہ ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ تب اس کا بیٹا کھڑا ہوا اور اس نے اپنے باپ کو روک دیا اور کہا کہ ہمیں احمدی مبلغ کی باتیں سننے دو۔ تب ہمارے مبلغ صاحب نے انہیں مزید تبلیغ کی جس کے نتیجے میں اس ارواح پرست بوڑھے شخص کے بیٹے نے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ احمدیت قبول کر لی۔ ان نوجوانوں کا تعلق مقامی ارواح پرست مذہب سے تھا۔
بہرحال بہت سارے واقعات ہیں۔
خوابوں کے ذریعہ سے بعض لوگ احمدیت قبول کرتے ہیں ۔ بینن کے لوکل مشنری حسینی صاحب کہتے ہیں کہ تابے (Tabe)گاؤں کے ایک شخص فاضل صاحب نے فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ موصوف اپنے گاؤں میں جماعت کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ جب وہ ملنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب میں ایک آواز سنی ہے یا تو وہ کوئی فرشتہ ہے یا خدا ہے جو مجھے کہہ رہا ہے کہ جس نے امام مہدی کو نہیں مانا وہ مسلمان نہیں ہے۔ جس نے امام مہدی کو نہیں مانا وہ مسلمان نہیں ہے۔ موصوف کہنے لگے کہ اس خواب سے مَیں ہِل گیا ہوں۔ میں امام مہدی کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اس طرح موصوف نے بیعت کر لی۔
یہاں سے بھی ہمارے مبلغ نے لکھا کہ ایک شخص اجمل صاحب ہیں انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کچھ دوستوں کے ساتھ ایک راستے پر جا رہے ہیں اور اچانک کیچڑ میں گر جاتے ہیں۔ وہ مدد کے لئے پکارتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ان کے ساتھ ان کے دوست ہوتے ہیں کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آتا۔ اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں تو اچانک ایک بزرگ آتے ہیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کیچڑ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ جب باہر نکلتے ہیں تو کپڑے بالکل صاف ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ وہ اس بزرگ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔ اس پر بزرگ کچھ نہیں بولتے صرف آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کہتے ہیں کچھ دن بعد ایک احمدی دوست جن کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا کہ یہی وہ بزرگ تھے۔
مالی کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک شخص فاتح صاحب مشن ہاؤس ’سکاسو‘ آئے اور بتایا کہ وہ بیعت کرنے آئے ہیں۔ جب ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کچھ عرصہ سے ایک خواب بار بار دیکھ رہے ہیں جس میں ایک سفید باریش بزرگ ان کے خواب میں آتے ہیں اور ان کو احمدیت میں شامل ہونے کا کہتے ہیں۔ اس پر جب ان کو تصاویر دکھائی گئیں تو میری تصویر دیکھ کر کہنے لگے یہی وہ شخص تھا جو مجھے خواب میں آتا ہے۔
مالی ریجن کے معلم ادریس صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ان کے ریجن میں ایک بزرگ فاکنا گونے(Faqina Goune) صاحب روزانہ ریڈیو سنتے تھے لیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن انہوں نے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا جس کے بعد مشن ہاؤس آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو دیکھا اور بتایا کہ یہی وہ بزرگ تھے جو خواب میں آئے تھے۔ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی۔
اس کے بھی بیشمار واقعات ہیں۔ بیان کرنے تو مشکل ہیں۔
فرانس کے ایک شہرRoubaix سے ایک خاتون Malissa صاحبہ کہتی ہیں کہ قبول احمدیت سے پہلے میں نے خواب میں ایک مسجد دیکھی جس میں لوگ نماز پڑھنے کے بعد چھوٹے چھوٹے گروپس میں کھڑے ہیں۔ ان لوگوں میں میرا بھائی بھی شامل ہے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد میرا جماعت احمدیہ کے ساتھ تعارف ہوا اور مجھے فرانس جماعت کی مرکزی مسجد ’مسجد مبارک‘ میں جانے کا موقع ملا۔ جونہی میں مسجد میں داخل ہوئی تو مجھے اپنی خواب یاد آ گئی کہ یہ تو وہی مسجد ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی اور جب میں مسجد میں داخل ہوئی تو وہی نظارہ تھا جو میں نے خواب میںد یکھا تھا۔ اب اللہ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی ہے۔
پھر نشانات دیکھ کر بیعتیں ہوئی ہیں۔ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں دعوت الی اللہ کے لئے ایک ٹیم گئی جب تبلیغ شروع ہوئی تو گاؤں کی ایک عورت’ کمباں جالو‘ صاحبہ بڑے غور سے تبلیغ سننے لگیں۔ تبلیغ میں جب جماعت کا ذکر آیا تو اپنے خاوند سے کہنے لگیں کہ فوراً احمدیت قبول کر لو یہی اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے اور اسی میں شامل ہو کر جہنم کے عذاب سے بچا جا سکتا ہے۔ موصوفہ کا خاوند کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا کہ سب سے پہلے میرے خاوند کا نام لکھیں۔ اس کے بعد کہنے لگی کہ میرا بھائی احمدیت کا شدید مخالف تھا اور کہتا تھا کہ میں گاؤں میں احمدیوں کی مسجد نہیں بننے دوں گا۔ اس کے لئے اس نے رشوت بھی دی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مخالفت کی وجہ سے سخت سزاد ی۔ پہلے گاؤں سے ذلیل کر کے باہر نکالا گیا۔ پھر اس کی بیوی مر گئی اور پھر اس کی ماں پر ابلتا ہوا تیل گر گیا جس کی وجہ سے وہ جل گئی۔ یہ سب اس کو احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے ملا۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارا انجام بھی میرے بھائی جیسا ہو۔ چنانچہ وہاں مجمع میں اس وجہ سے 45افراد نے احمدیت قبول کر لی ہے۔
مخالفین کے پروپیگنڈے کے نتیجہ میں بیعتیں ہوتی ہیں۔ڈوڈومہ (تنزانیہ)کے مبلغ لکھتے ہیں کہ جب گھر گھر جماعت کا تعارف کروایا اور جماعتی لٹریچر تقسیم کیا تو دوسرے دن یہ خبر گاؤں کے بڑے مولوی تک پہنچی اور وہ شدیدغصے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں آپ لوگ ان کی بات نہ سنیں اور نہ ان کو گاؤں میں آنے دیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹیم بنائی ۔ اور انہوں نے کثرت سے مخالفت شروع کر دی اور احمدیت کے خلاف جو بھی ان کے منہ میں تھا کہنا شروع کر دیا کہ یہ لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے۔ مولوی صاحب ایک ایسی بڑھیا کے گھر بھی پہنچے جس کو ہم لوگ پہلے جماعت کا تعارف کروا چکے تھے اور اسے جماعتی لٹریچر بھی مہیا کیا ہوا تھا۔ وہ بڑھیا اَن پڑھ تھی لیکن وہ اپنے بیٹے سے یہ لٹریچر پڑھوا کر سن چکی تھی۔ چنانچہ جب مولوی صاحب اس بڑھیا کے گھر گئے اور اس سے کہا کہ یہ لوگ تو مسلمان نہیں ہیں کافر ہیں وغیرہ وغیرہ اور کہا کہ ہم آپ کو جہنم سے بچانے آئے ہیں۔ اس پر اس عورت نے جو پہلے ہی ہماری تمام باتیں سن اور سمجھ چکی تھی جلدی سے وہ لٹریچر منگوایا اور اپنے بیٹے کو مولوی صاحب کو پڑھ کر سنانے کو کہا اور مولوی صاحب سے کہا آپ مجھے بتاتے جائیں کہ ان میں کون کون سی بات ایسی ہے جو اسلامی نہیں ہے اور کون سی ایسی بات ہے جو ہمیں جہنم میں لے کر جا رہی ہے؟ مولوی صاحب نے دو تین اعتراضات کئے جن کے جوابات اسی لڑکے نے ہمارے لٹریچر سے نکال کر مولوی صاحب کو دے دئیے۔ اس پر مولوی صاحب آگ بگولا ہو کر بڑھیا کو یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ تم بھی کافر ہو گئی ہو۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ اچھا اگر سچی بات کو ماننا کفر ہے تو ٹھیک ہے مَیں کافر ہی ہوں۔
پھر خطبات سن کر بعض لوگوں میں بڑی نمایاں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ایم ٹی اے سے جو خطبات سنتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا نیک اثر ہو رہا ہے۔ بعض جگہ دھمکیاں ملتی ہیں، احمدیت کو چھوڑنے کا کہا جاتا ہے لیکن لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ثابت قدمی سے قائم رہتے ہیں۔
مبلغ انچارج زیمبیا کہتے ہیں کہ زیمبیا کے کیپیٹل لوکاسا سے ایک ہزار پچیس کلو میٹر دور ایک شہر مپوروکوسو (Mporokoso) ہے امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس شہر میں ایک جماعت قائم ہوئی۔ اس شہر میں جب اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچا تو گیارہویں کلاس کے ایک عیسائی طالبعلم برائن چی سنگا (Brian Chisenga)نے جماعتی پمفلٹ اور تبلیغ سننے کے بعد جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ موصوف کے والد اس شہر میں کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اسلام کے شدید مخالف ہیں۔ جب انہیں اپنے بیٹے کے مسلمان ہو جانے کا علم ہوا تو غصے میں آ کر کہنے لگے کہ تم نے اسلام قبول کر کے اس شہر میں میری عزت خاک میں ملا دی ہے اس لئے میرے گھر سے نکل جاؤ۔ اس پر ان کے بیٹے عبدالوہاب صاحب نے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے اور میں اپنا اچھا برا سمجھتا ہوں۔ میں نے اسلام احمدیت کو حق سمجھ کر قبول کیا ہے اب آپ مجھے بیشک گھر سے نکال دیں لیکن میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ انہیں بعد میں لالچ بھی دیا گیا کہ احمدیت کو چھوڑ دو لیکن اس نوجوان نے ہر لالچ کو ٹھکرا دیا۔ ثابت قدمی کے ساتھ احمدیت پر قائم ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کے بعد احمدی ہونے کے بعد غیر معمولی تبدیلیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ ازبکستان کے ایک ظہیر واحد صاحب ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے 2014ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ کہتے ہیں قبول احمدیت سے پہلے وہ اکثر اپنے دوستوں سے گفتگو کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث میں پڑ جاتے تھے اور بعض اوقات بات بدکلامی تک پہنچ جاتی تھی۔ لیکن احمدی ہونے کے بعد اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پڑھنے کے بعد ان کی زندگی میں عجیب روحانی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اب جب دوستوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور کوئی ایسی بات ہو جس پر بحث چل نکلے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد یاد آ جاتا ہے کہ سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سوچ کر میں نہ صرف خود اس بحث سے دُور رہتا ہوں بلکہ اپنے دوستوں کو بھی یہ بات سمجھاتا ہوں اور میرے دوست انتہائی حیرانگی سے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم تو خود اتنی بحث کرتے تھے اب تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تو میں ان کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھ دیتا ہوں۔
مبلغ کوسووو بیان کرتے ہیں کہ ایک نومبائع ابراہیمی صاحب بہت مخلص احمدی ہیں۔ نظام وصیت میں شامل ہیں اور مالی قربانی میں پیش پیش ہیں۔ دین کی خاطر وقت کی قربانی بھی کرتے ہیں۔ موصوف مشن ہاؤس سے دور ایک شہر میں رہتے ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے ہر جمعرات کو لمبا سفر طے کر کے مشن ہاؤس آتے ہیںا ور معلم صاحب کے ساتھ مل کر تبلیغی پروگرام کرتے ہیں اور پھر اگلے روز جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس اپنے شہر چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح بہت سارے نشانات ہیں بارشوں کے نشانات، قبولیت دعا کے واقعات ہیں۔ دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کے واقعات ہیں۔
قرغیزستان کے ایک عظمت صاحب لکھتے ہیںجو ملازمت کی غرض سے آجکل ماسکو میں ہیں، کہتے ہیں ماسکو میں ان کے ساتھ ان کے بھائی اور ایک احمدی رشتے دار بھی کام کرتے ہیں ان کے بھائی غیر احمدی ہیں اور جماعت کی وجہ سے وہ کافی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن جو رشتے دار ان کے ساتھ وہاں کام کرتا تھاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بہت گندی زبان استعمال کرتا تھا۔ عظمت صاحب نے انہیں بہت دفعہ کہا کہ تم نے اگر مہذب انداز میں جماعت کے بارے میں بات کرنی ہے تو کرو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کرو اس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن اس شخص نے اپنی بدکلامی جاری رکھی۔ عظمت صاحب کہتے ہیں کہ جب حد ہو گئی تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے اللہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میںیہ الفاظ سننا میری برداشت سے باہر ہیں۔ اب تُو ہی اس شخص کو روکنے کا انتظام کر دے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میرا وہی رشتے دار جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بدکلامی کرتا تھا کام کرتے کرتے سیڑھیوں سے نیچے گر گیا اور سر پر ایک زخم آیا اور آہستہ آہستہ وہ زخم اتنا خراب ہو گیا کہ وہ رفع حاجت کے لئے بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے زخم کا علاج بھی کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر اسی حالت میں وہ ماسکو سے واپس قرغیزستان چلا گیا۔
امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ ’ نَاتِی ٹِنگُو‘ (Natitingou)علاقے کے ریجنل کمشنر ہماری دعوت پر مشن ہاؤس آئے اور انہوں نے کہا کہ بینن میں جماعت احمدیہ بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں کچھ تشویش بھی ہوئی ہے کہ جماعت کے کہیں کوئی خفیہ مقاصد تو نہیں ہیں لہذا حکومت نے احمدیوں کے متعلق اعلیٰ سطح پر ایک خفیہ تحقیق کی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ ایک پُرامن جماعت ہے اور انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ لوگ جو بھی کہیں لیکن ہمیں آپ کے بارے میں اچھی طرح پتا ہے اس لئے میں آپ کی دعوت پر یہاں آپ سے ملنے آ گیا ہوں۔
علماء کا احمدیت کی صداقت کا اقرار۔ برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک وہابی امام کو مسلسل دو ماہ تبلیغ کی گئی۔ جب اس کو تمام سوالات کے جوابات مل گئے تو اس سے بیعت کرنے کو کہا لیکن اس نے جواب دیا کہ آپ کی تمام باتیں درست ہیں اور قرآن و حدیث سے وفات مسیح بھی ثابت ہے۔ مگر مَیں چونکہ غیر احمدیوں کی مسجد کا امام ہوں اور اسی پر میرا گزربسر ہے اس لئے میرے لئے احمدیت میںداخل ہونا ناممکن ہے۔ لیکن اگر مجھے کہا جائے کہ احمدیت کی صداقت کو ثابت کر دو تو وہ میں ثابت کر سکتا ہوں۔
یہ مختصر رپورٹ ہے جو میں نے پیش کی ہے۔ آخر میں ایک اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں :
’’پس اے لوگو تم خدا سے مت لڑو۔ یہ وہ کام ہے جو خدا تمہارے لئے اور تمہارے ایمان کے لئے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مزاحم مت ہو۔ اگر تم بجلی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہو مگر خدا کے سامنے تمہیں ہرگز طاقت نہیں۔ اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو تمہارے حملوں کی کچھ بھی حاجت نہ تھی۔ خدا اُس کے نیست و نابود کرنے کے لئے خود کافی تھا۔ افسوس کہ آسمان گواہی دے رہا ہے اور تم نہیں سنتے اور زمین ضرورت ضرورت بیان کر رہی ہے اور تم نہیں دیکھتے! اے بدبخت قوم اُٹھ اور دیکھ کہ اس مصیبت کے وقت میں جو اسلام پیروں کے نیچے کچلا گیا اور مجرموں کی طرح بے عزت کیاگیا۔ وہ جھوٹوں میں شمار کیا گیا۔ وہ ناپاکوں میں لکھا گیا تو کیا خدا کی غیرت ایسے وقت میں جوش نہ مارتی۔ اب سمجھ کہ آسمان جھکتا چلا آتا ہے اور وہ دن نزدیک ہیں کہ ہر ایک کان کو اَنَا الْمَوْجُود کی آواز آئے‘‘۔ (مجموعۂ اشتہارات، جلد 2 صفحہ 435۔436 )
آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
