خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع جلسہ سالا نہ جرمنی03 ستمبر2016 ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آجکل دنیا میں عورت اور مرد کے حقوق کی بڑی بات ہوتی ہے اور اس کے اظہار میں اس قدر شور مچایا جانے لگا ہے کہ دنیا والے اس بات پر غور کرنے سے انکاری ہیں کہ حقوق کی حدود کو بھی متعین کر لیں۔ یہ دیکھ لیں کہ کہاں انسان کی بناوٹ کے اعتبار سے جس میں جسمانی بناوٹ بھی ہے اور فطری صلاحیتیں بھی ہیں فرق کی ضرورت ہے۔ ان بناوٹوں میں جو فرق ہے اس کو بھی تو دیکھنا چاہئے۔ کون کون سے حقوق ہیں جو مرد اور عورت کے ایک جیسے ہونے چاہئیں اور کہاں ان میں فرق کی ضرورت ہے۔ اور اگر عورت اور مرد کے حقوق میں فرق کئے جانے کی ضرورت ہے تو کس لئے؟ کیا مرد کی برتری ثابت کرنے کے لئے؟ کیا عورت کو اس کی کمزوری کا احساس دلانے کے لئے؟ کیا عورت کی فطرت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے؟ اگر تو اس لئے عورت اور مرد کے حقوق میں غور کیا جائے اور اس فرق کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ یقینا عورت پرظلم ہے ۔ دنیا داروں نے تو اس ظلم کے خلاف آج آواز اٹھائی ہے۔ اسلام نے تو آج سے چودہ سو سال پہلے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس کی قرآن کریم کے حوالے سے کچھ تفصیل مَیں جلسہ سالانہ یوکے(UK) میں لجنہ کی تقریر میں بیان کر چکا ہوں۔

           لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ان حقوق کے بارے میں آجکل بہت کچھ کہا جاتا ہے اور یہاں جرمنی میں بھی اس بارے میں بہت شور مچایا جاتا ہے اور ہماری بچیاں اور عورتیں بھی بعض دفعہ اس بات سے متاثر ہو جاتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ شاید عورتوں کے حقوق کے چیمپیئن ہیں اور ہمارے حقوق قائم کرنے کی جو یہ کوشش کر رہے ہیں حقیقتاً قابل تعریف ہے۔ یہ ان عورتوں کے حقوق دلوانے کی کوششوں میں تو شاید قابل تعریف ہوں جو ہمیشہ سے حقوق سے محروم تھیں اور جن کو نہ مذہب نے وہ حقوق دئیے جن کی وہ حقدار تھیں اور نہ ملکی قانون نے وہ حقوق دئیے جن کی وہ حقدار تھیں۔ لیکن ایک مسلمان عورت یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے آزادی دلوانے اور میرے حقوق قائم کروانے میں عورتوں کے حقوق دلوانے کی تنظیموں کا کوئی ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو جوتعلیم قرآن کریم میں دی ہے اور تفصیل سے ہر طبقے کے جو حقوق قائم کئے ہیں اس کا مقابلہ نہ کوئی قانون کر سکتا ہے، نہ ہی کوئی قانون قائم کرنے والے تنظیموں کے دستوروں میں ان کو اس نظر سے دیکھا گیا ہے جس نظر سے قرآن کریم نے دیکھا ہے۔ جس طرح اسلام دیکھتا ہے۔ ہاں اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض بیشک کر سکتے ہیں کہ ان حقوق کی پاسداری اور ان پر سو فیصد عمل یا اکثر حصے پر عمل ہمیں اسلامی حکومتوں میں، اسلامی ممالک میں نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ اعتراض اسلام کی تعلیم پر نہیں ہو سکتا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام اپنے قوانین میں عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کرتا ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں کو اپنی جس شرعی کتاب پر ناز ہے کہ وہ ہر معاملے کا حل پیش کرتی ہے اور بہترین حل پیش کرتی ہے اس نے تو عورتوں کے حقوق کی نفی کی ہے یا ان کا خیال نہیں رکھا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرتا ہے تو ظلم کرتا ہے۔ ہاں اسلام میں عورت مرد کے حقوق کی فلاسفی اور دنیاوی قوانین یا سوچ کے تحت بنائے گئے حقوق کی تعریف میں فرق ضرور ہے۔

           اسلام دین فطرت ہے اور عورت اور مرد کے حقوق کا تعین بھی دونوں کی فطرتی خصوصیات کے مطابق کرتا ہے۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے یعنی مرد اور عورت اس لئے ان کے حقوق و فرائض بھی ان دو قسموں کے مطابق رکھے ہیں۔ پس حقوق کا قائم ہونا اسلام کے نزدیک اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے ہونا چاہئے۔ ہاں جہاں ان دونوں قسموں میں اشتراک پایا جاتا ہے، جہاں حقوق مشترک ہیں جس کا میں لجنہ کی یوکے(UK) کی تقریر میں بڑی تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں کہ کہاں کہاں اللہ تعالیٰ  مردوں اور عورتوں کو ایک جیسے حقوق دلواتا ہے۔ ان کے اعمال کی جزا ہے اور دوسرے بہت سارے کام ہیں جہاں اشتراک ہے وہاں حقوق مشترک ہیں جہاں اختلاف پایا جاتا ہے وہاں مختلف حقوق اور ضروریات کو بیان کیا گیا ہے۔

           مثلاً خوراک ہے، پانی ہے، زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری چیزیں ہیں۔ مرد بھی کھاتا ہے اور عورت کے لئے بھی اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خوراک کی ضرورت ہے۔ لیکن بعض حالات میں جب عورت حمل اور بچے کے پیدائش کے دور سے گزر رہی ہو اس کو بہترین غذا کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور اس کو سب دنیادار بھی تسلیم کرتے ہیں ،ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس عرصہ میں عورت کے جسم کے بعض حصے ایسی غذا چاہتے ہیں جو اس وقت عورت اور بچے کے لئے ضروری ہے۔ اسلام نے کس قدر باریکی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھا ہے کہ بچہ کو دودھ پلانے کے دوران عورت کے حق کا تحفظ کس طرح کیا ہے۔ اگر عورت مرد کی طلاق ایسے وقت میں ہو جائے جب عورت اپنے اور اس مرد کے بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بچہ کے دودھ پلانے کے دوران ماں کا کھانے پینے کا تمام خرچ مرد کے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرۃ:234)اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ حسب دستور دودھ پلانے کے دوران اس عورت کا کھانا اور اس کی پوشاک مرد کے ذمہ ہے۔ اور کھانے اور کپڑے سے مراد اخراجات ہیںنہ کہ صرف روٹی اور لباس کہ جس طرح نوکر کو دے دیا۔عورت نوکر نہیں ہے ۔ وہ اس کے بچے کی ماں ہے۔ اور معروف سے مراد ہے باپ بھی مقدرت کے لحاظ سے یعنی امیر اپنی طاقت کے لحاظ سے اور غریب اپنی طاقت کے مطابق دے۔ معروف کایہ مطلب ہے۔ یہ ذکر طلاق کے ضمن میں کر کے واضح کر دیا کہ عام دودھ پلانے والی عورت مراد نہیں ۔یہاں اس کا ذکر نہیں ہو رہا کہ جو بعض قبیلوں میں رواج تھا اس زمانے میں بھی اور پرانے زمانے میں بھی کہ دودھ پلانے والی عورتیں رکھ لیتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کے خرچ کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ بچہ کی ماں کے کھانے پینے کا ذکر ہو رہا ہے۔ جہاں ماں پر فرض ہے کہ مقررہ وقت تک دودھ پلائے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، وہاں باپ پر بھی فرض ہے کہ بچہ کی ماں کا تمام خرچ اٹھائے اور عام نوکر یا مزدور کی طرح نہیں اٹھائے بلکہ فرمایا کہ اپنی طاقت کے مطابق، جو تمہارے وسائل ہیں، اس کے مطابق خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ جب بیوی تھی تو زیادہ خرچ کرتے تھے، جب طلاق دے دی تو اور سلوک ہونے لگ جائے۔ جب تک بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہے ماں کا خرچ اسی طرح دینا باپ پر فرض ہے جس طرح وہ پہلے بیوی کی حیثیت سے اس کا خرچ اٹھاتا تھا۔ یہ کوئی احسان نہیں ہے جو عورت پر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ احسان نہیں ہے بلکہ عورت کا حق ہے جو تم نے اسے دینا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس حق کو عورت کو دلوایا۔ یہ حق قائم کر کے عورت کو ذلت سے بھی بچایا گیا ہے۔

           پس اس طرح بظاہر معمولی باتوں سے بھی اسلام عورت کا حق قائم کر کے مرد کو اس کے فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ پس اسلام تو ہر بات میں عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جب طلاق کے بعد اتنا خیال رکھنے کا حکم ہے تو مرد کے لئے بیوی کی حیثیت سے تو اور بھی زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

           پھر باوجود اس کے کہ اسلام کہتا ہے کہ مرد اور عورت کی ذمہ داریوں میںفرق ہے۔ جسموں کی بناوٹ مختلف ہے۔ لیکن عقل سے جس طرح اللہ تعالیٰ نے مرد کو نوازا ہے اسی طرح عورت کو بھی نوازا ہے۔ علم حاصل کرنے کا حکم جس طرح مرد کو ہے اسی طرح عورت کو بھی ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت کو برابر کی ترقی کرنے کا مادہ بھی دیا ہے اور دونوں کو عقل دی ہے کہ اس کو استعمال کر کے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ایک دوسرے سے آگے بڑھ سکتے ہو۔ نہ مرد یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ عقل اور دماغ صرف مجھے ہی دیا گیا ہے اور میں ہی اس کے ذریعہ ترقی کرنے کا حق رکھتا ہوں، نہ ہی عورت اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ہے، جو ذہن دیا ہے اس سے علم و عرفان دونوں حاصل کر سکتے ہیں۔ کوئی مرد نہیں کہہ سکتا کہ ایک جگہ پہنچ کر عورت کے علم و عرفان کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں اور مرد کی جاری رہتی ہیں۔ اسی طرح زبان مرد اور عورت کو ایک طرح دی ہے۔ اگر مرد بڑے بڑے مقرر ہو سکتے ہیں اور اپنے علم و عرفان کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں تو عورتیں بھی بڑی بڑی مقرر بن سکتی ہیں اور ہیں۔ اور عورت کا یہی علم و عرفان اور ترقی کا معیار ہے جو صحابہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے علم حاصل کرنے کے لئے لیکچر لیتے تھے۔ پس علم و عرفان میں بڑھنے اور مردوں کو بھی پڑھانے کا راستہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے کھولا ہے اور جہاں ضرورت ہے اس کو استعمال کیا ہے۔ بالکل کھلی چھٹی نہیں دی بلکہ اگر حقیقت میں ضرورت ہے تو اس کو استعمال کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی عورت کے حیا اور تقدس کا بھی خیال رکھا ہے اور پردہ کی رعایت سے ان باتوں کی اجازت دی ہے۔

          پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں وغیرہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں کو برابر دئیے ہیں مگر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت اور مرد کے ہاتھ پاؤں اور اعصاب میں قوت اور طاقت میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھ دیا ہے۔ یعنی مردوں کو زیادہ طاقت دی ہے اور عورت کو کم۔ مثلاً اعصاب کی طاقت مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہے۔

           ایک سروے یوکے(UK) میں ہوا تھا جس سے پتا چلا کہ کام پر آنے جانے کی وجہ سے عورتوں پر اعصابی اور نفسیاتی تناؤ اور سٹریس(stress) مردوں کی نسبت چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد عورت پر قَوَّام ہے تو اس سے یہ بھی مطلب ہے کہ اس کے اعصاب بھی مضبوط ہیں۔ آپس میں گھروں میں بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں، معاملات ہوتے ہیں۔ لیکن معاملات کو ٹھیک رکھنے میں، مسائل کو حل کرنے میں مردوں کو برداشت کا مادہ دکھانا چاہئے۔ جب اعصاب میں فرق رکھا تو عورت کا حق بھی قائم کر دیا اور مرد کو نصیحت بھی کر دی کہ تم قَوَّام ہو اس لحاظ سے تمہارا فرض زیادہ بنتا ہے کہ اپنے اعصاب کو کنٹرول میںرکھو۔ اسی طرح مرد عورت کی نسبت اپنے قویٰ کی مضبوطی کی وجہ سے بوجھ بھی زیادہ اٹھاسکتا ہے۔ اگر مرد عورت کو یہ کہے کہ تم بھی میرے جتنا وزن اٹھاؤ تمہیں بھی اللہ تعالیٰ نے بازو دئیے ہوئے ہیں تو یہ عورت پر زیادتی ہے اور اس کے عورت ہونے کے حق کی نفی ہے۔ لیکن جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے عورت پر ڈالی ہے اس کے انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے اعصاب کو بھی مضبوط کر دیا ہے۔ ایک جگہ اعصاب اتنے مضبوط نہیں کہ کام پر آنے جانے کی وجہ سے اس کا تناؤ اعصابی مردوں کی نسبت چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف جہاں ضرورت تھی وہاں اعصاب بھی دے دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعصاب کو مضبوط بھی کر دیا اور جہاں برداشت کی زیادہ ضرورت تھی اس میں برداشت کا مادہ بھی مرد سے کئی گنا زیادہ دے دیا۔ مثلاً صبر ہے اور برداشت ہے۔ یہ صلاحیت بعض حالات میں مرد کی نسبت عورت میں بہت زیادہ ہے ۔ اس کی ایک عام مثال بچوں کو پالنے کی ہے۔ عورت بچہ کا رونا چلّانا برداشت کرتی ہے رات میں کئی کئی دفعہ اٹھ کر اسے دودھ پلاتی ہے۔ اس معاملے میں عورت کے صبر کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بعض مرد تو ایسے ظالم ہوتے ہیں کہ بچے کے تھوڑی دیر تک رونے چلانے کی وجہ سے بچہ کو مارنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ اس مضمون کو بیان فرما رہے تھے کہ عورت اور مرد میں فطرت کے مطابق کیا فرق ہے اور یہ فرق بیان فرمانے کے بعد جب آپ نے عورت کی مثال بچے کے رونے کے برداشت کرنے کے بارے میں دی تو فرمایا کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے عورت کا دل  پہاڑ جیسا بنایا۔ آپ نے لکھا کہ بڑے بڑے مضبوط اعصاب کے لوگ اور بڑے فلاسفر جو ہیں ان کے سپرد اگر بچہ کرو اور بچہ رونے والا ہو تو شام تک وہ شخص نیم پاگل ہو جائے گا لیکن عورتیں بڑی ہمت سے اسے برداشت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس معاملہ میں ایسی طاقت دی ہے کہ حیرت انگیز ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں جنگ میں مرد کام آتے ہیں۔ یہاں پر عورت کتنی ہی صابر اور ہوشیار کیوں نہ ہو گھبرا جائے گی۔ جبکہ بچوں کی پرورش کے معاملہ میں جاہل سے جاہل عورت عقلمند سے عقلمند شخص کے مقابلہ میں بھی زیادہ معاملہ فہم اور عقلمند ثابت ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے کام کے لحاظ سے اس کی فطرت میں ہی صبر رکھا ہے۔ اس لئے شاید چند ہی مرد ہوں جو اس معاملہ میں صبر دکھا سکیں ورنہ عموماً مردوں میں سواں حصہ بھی عورت کے مقابلہ میں صبر نہیں ہے۔ بعض مرد بچوں کو سنبھال بھی لیتے ہیں۔ پرسوں ہی میں یہاں سے جب نماز پڑھانے جا رہا تھا، مَیں نے دیکھا فجر کی نماز پہ ایک شخص نے دو سال کا بچہ گود میں اٹھایا ہوا تھا جوساتھ ہی اس کے سو رہا تھا ،شاید ہال میں ہی سو رہا تھا اس نے بچہ کو سنبھالا ہے ۔ کیا وجہ تھی اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہرحال اس کو چپ کرانا اور اس کو سنبھالنا ،بڑے صبر سے وہ کام کر رہا تھا۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن چند ایک۔ اس کے مقابلہ میں ہر عورت کو اللہ تعالیٰ نے فطرت دی ہے۔

 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر عورتوں کے صبر کے بارے میں فرمایا کہ عورت کھانا پکانا، لکھنا پڑھنا سب کام کرتی ہیں اور ساتھ ہی بچوں کی نگہداشت اور ان کے رونے چلّانے سے ذرا نہیں گھبراتیں۔ ان کو بھی ساتھ ساتھ پال رہی ہوتی ہیں۔ اگر بالفرض کبھی گھبرا بھی جائیں اور بے چینی کا اظہار کر بھی دیں، چڑ بھی جائیں تو ذرا سی چپت لگا دی بچے کو اور پھر دوبارہ گلے لگا لیا۔ تو یہ عورت کی فطرت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کی فطرت ہی علیحدہ بنا دی ہے اور اس کے مطابق کام بھی علیحدہ کر دئیے ہیں۔ تو پھر یہ سوال ہی جاہلانہ ہے کہ ہر معاملہ میں برابری دو یا ا ن کے کام بدل دو۔ جس طرح مطالبات روزمرہ ہوتے ہیں کوئی بعید نہیں کہ یہ مطالبہ بھی ہونے لگ جائے کہ ان کے کام بھی بدل دو۔ مرد عورتوں کے کام کریں۔ عورتیں مردوں کے کام کریں۔ ایسی باتیں اب شروع ہو چکی ہیں۔

           برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے اپنے ملک میں اجازت دے دی کہ اب فوج کے اس حصہ میں بھی عورتیں شامل ہو سکتی ہیں جو لڑنے والی فوج ہے اور ان کے مطابق یہ عورت کا حق اور برابری کا تقاضا ہے جو اس کو مرد کے برابر ہونا چاہئے کہ وہ فوج میں بھی لڑے۔ اس پر خود ان کے جرنیلوں نے آواز اٹھائی ہے کہ یہ غلط ہے۔ یہ کیا بیوقوفی والی بات ہے۔ بلکہ سابق فوجیوں نے تو کھلے طور پر کہا ہے کہ یہ فوج کو کمزور کرنے والی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے عورت مرد کے قویٰ اور طاقتوں میں فرق رکھ دیا تو پھر ایسے فیصلے سوائے نقصان پہنچانے کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکالیں گے۔ فوجیوں نے یہ بھی کہا کہ اگر عورت فرنٹ لائن پر جا کر لڑتی ہے تو مرد فوجی جو ہے وہ لڑائی پر توجہ دینے کی بجائے، دشمن سے لڑنے کی بجائے اپنی فوجی عورتوں کو بچانے کی طرف توجہ دیں گے۔ ان کی توجہ ساری اس طرف رہے گی۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں ایک ٹی وی پروگرام آ رہا تھا۔ ایک خبر پر تبصرہ تھا ،اخبار کی خبر تھی کہ روسی فوج کو برطانوی فوج پر کچھ برتری حاصل ہے تو اس پر پروگرام کرنے والے نے ازراہِ مذاق کہا کہ شاید اس لئے کہ اب برطانوی فوج میں عورتیں بھی شامل ہو جائیںگی۔ تو یہ خود ان لوگوں کو احساس ہے کہ یہ فرق ہیں۔ یہ خود سمجھتے ہیں کہ عمومی حالات میں عورت مرد کی ذمہ داریاں اس کے قویٰ کے فرق کی وجہ سے مختلف ہیں۔ پس اس فرق کو سمجھنا چاہئے۔

          اسلام ایسا خوبصورت مذہب ہے جو اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے عورت اور مرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ دنیا میں مرد نے عموماً عورت پر زیادتی کی اور ہر معاملہ میں اختلاف کرتے ہوئے اپنی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کی اور عورت نے بھی اس کے ردّعمل میں اب اپنے حقوق کے لئے ہر بات میں برابری کا مطالبہ کر دیا۔ دونوں کی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اور ہم احمدیوں نے جو حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے ہیں اس غلطی کی اصلاح کرنی ہے۔

           افسوس یہ ہے کہ ہمارے اندر بھی ایسے مرد ہیں جو عورت کو حقیر سمجھتے ہیں۔ دو چار نہیں کئی عورتیں ہیں جو مجھے زبانی بھی کہتی ہیں اور خط بھی لکھتی ہیں کہ ہمارے خاوند شادی کے بعد چاہتے ہیں کہ ہم اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیں کیونکہ اب ہم ان کی بیویاں بن گئی ہیں اور بیوی نے بہرحال ہر معاملے میں خاوند کی بات ماننی ہے۔ حتی کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے ماں باپ سے بھی نہیں ملنا۔ ان سے ملنے سے بھی روک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہمارے رشتہ داروں سے تم نے تعلق رکھنا ہے۔ اور اس حد تک بعض مرد بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بیویوں کے قریبیوں اور ماں باپ سے صرف یہ نہیں کہ ملنا نہیں بلکہ ان کی ذلّت اور تحقیر کرنے لگ جاتے ہیں۔ عورتوں کو جذباتی تکلیفیں دیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ عورت کے بھی جذبات ہیں۔ عورت کے سینے میں بھی دل ہے۔ ہمارے ملکوں میں جہاں ابھی تک جہالت ہے بلکہ وہاں سے آئے ہوئے ان ملکوں میں بھی رہنے والوں میں یہ جہالت ہے اور وہ یہاں آ کر بھی اس جہالت میں گرفتار ہیں اور عورت کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے۔

           یہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ ان ظلموں کے پیچھے بعض اوقات ساسوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور وہ اپنا وقت بھول جاتی ہیں۔ اگر ان کے خاوندوں نے ان سے برا سلوک کیا یا ان کے خاوندوں نے اپنی ماؤں کے کہنے پر ان سے برا سلوک کیا اور رشتہ داری کے تقاضے پورے کرنے کے بنیادی حقوق سے محروم کیا تو اس کا ردّ عمل تو ان بوڑھیوں میںیہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اپنی بہوؤں سے نیک سلوک کرتیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جہالت الٹا ردّعمل دکھاتی ہے اور ساسیں بات بات پر غلط ردّعمل دکھا کر لڑائی شروع کر دیتی ہیں۔

           یوکے(UK) جلسہ سالانہ پر جب میں نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کا حق ادا کرنے کے بارے میں بیان کیا تو جلسہ کے بعد ایک دوست جو امریکہ سے آئے ہوئے تھے مجھے ملے اور کہنے لگے کہ ساس بہوؤں کے بارے میں بھی انصاف کرنے کے متعلق آپ کو کچھ کہنا چاہئے تھا۔ اسلام تو ہر جگہ پر عدل کا تقاضا کرتا ہے، ہر ایک کو حق دلواتا ہے۔ گو لجنہ کی تقریر میں وہاں مَیں مختصراً ذکر کر چکا تھا لیکن لگتا ہے کہ خاص طور پر جو ہمارا مشرقی دماغ ہے اپنی روایات اور اپنی سوچ کو بعض معاملات میں مذہب کی تعلیم کے مطابق نہ چلانے میں بہت بڑھا ہوا ہے۔ مذہب پیچھے چلا جاتا ہے اور ان کی سوچیں غالب آ جاتی ہیں۔ پس اپنی سوچوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق چلائیں۔ ایک دوسرے کا حق ادا کریں۔ خاوند بیوی کا اور ساس بہو کا اور اس طرح بہو خاوند اور ساس کا، ہر ایک اگر اپنے ذمہ حق ادا کر رہا ہو تو کبھی حقوق کی تلفی کا الزام اسلام کی تعلیم پر نہیں لگ سکتا۔

           بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے جذبات کا خیال رکھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کیا تھا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ام حبیبہ کی ران پر ان کے بھائی سر رکھ کے لیٹے ہوئے ہیں اور وہ ان کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام حبیبہ کیا آپ کو معاویہ بہت پیارا ہے؟ یہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ اور بھائی کا نام معاویہ تھا۔ کہ کیا آپ کو بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھی یہ بہت پیارا ہے تمہاری وجہ سے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد۔ تالیف الحافظ نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان الھیثمی المصری۔ الجزء التّاسع صفحہ 441۔ الطبعۃ الاولی 2001ء مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان)

           پس یہ ہے جذبات کا خیال۔

           اسی طرح اگر مرد جذبات کا خیال رکھنے والے ہوں تو عورتوں کو بھی غلط قسم کے مطالبات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داریوں کے فرق کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہوں تو حقوق کے غلط مطالبات بھی کبھی نہ ہوں۔ بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زیادتی کرتی ہیں لیکن اگر حقوق ادا ہو رہے ہوں تو پھر میرا نہیں خیال کہ کوئی عورت زیادتی کرے۔

           بعض دفعہ دنیا والے لوگ بھی مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ کس طرح معاشرے کو پر امن بنانا چاہئے۔ تو میرا جواب اکثر ان کو یہی ہوتا ہے اور اکثر لوگ اس کو پسند بھی کرتے ہیں کہ امن قائم کرنے کے لئے ہر ایک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرے اور حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے، یہ مطالبہ کرنے کی بجائے کہ مجھے حق دو، حقوق دینے کی طرف توجہ دے۔ دوسروں کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دے۔ جب ہر ایک حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دے رہا ہو گا تو کسی کا حق غصب ہی نہیںہو گا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ جب وہ حق غصب نہیں ہو رہا تو کوئی پاگل نہیں ہے کہ بلا وجہ مطالبات کرتا رہے ۔

           عورت یہ دیکھے کہ اس کے فرائض کیا ہیں اور انہیں اس نے کس طرح احسن رنگ میں ادا کرنا ہے۔ ساس بھی، بہو بھی، بیٹی بھی، ماں بھی۔ اور مرد دیکھے کہ اس کے فرائض کیا ہیں اور اس نے انہیں احسن رنگ میں کس طرح ادا کرنا ہے تو گھروں کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں۔ اور عورتیں جو یہ مطالبے کرتی ہیں کہ ہمیں حقوق دئیے جائیں وہ ختم ہو جائیں۔

           اگر عورت یہ سمجھتی ہے کہ بچے کی تربیت اس کا اوّلین فرض ہے اور اسلام کی یہ تعلیم ہے اور اسلام یہ فرض عورت پر ڈالتا ہے کہ بچے کی تربیت تمہارا اوّلین فرض ہے تو وہ نوکریاں کرنے اور بلا وجہ باہر سہیلیوں کے ساتھ گھومنے اور مجلسوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے بچوں کی تربیت پر توجہ دے گی۔ وہ صرف اپنے بچے کی تربیت نہیں کر رہی ہو گی بلکہ قوم کے بچوں کی تربیت کر کے انہیں ملک و قوم کا فعال حصہ بنا رہی ہو گی۔ بچوں کی اچھی تربیت ہی جماعت کے لئے بھی اور ملک و قوم کے لئے بھی بہترین اور کارآمد وجود پیدا کر رہی ہو گی۔ حکومتیں بڑی سکیمیں بناتی ہیں کہ بچوں کو پالنے کے لئے انتظام کرے اور مائیں اپنی نوکریوں پر توجہ دیں۔ یہاں بھی شاید کوئی ایسی سکیم بن رہی ہے۔ یہ عورتوں کے حق قائم کئے جانے کے لئے کوشش ہے۔ لیکن ایک وقت میں ان کو احساس ہو گا کہ بچے کی اصل تربیت ماں کی گود ہی ہے۔ ماں کا پیار اور بچوں کی تربیت کا انداز دوسرا کوئی اپنا ہی نہیں سکتا اور اس انداز میںا ور اس طریق سے کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا۔ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ جو بچے سوشل سروس والوں کے ذریعہ سے پلتے ہیں ان میں سے بہت بڑی تعداد ہے جو بگڑ جاتی ہے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت ایسی پالیسی بھی بنا رہی ہے کہ مائیں کام کریں اور باپوں کو حکومت کچھ الاؤنس دے جو بچوں کے ساتھ رہیں۔ اگر تو صرف کسی خاص فیلڈ میں کام کرنے والی اعلیٰ  تعلیم یافتہ عورت کی ضرورت ہے تو اَور بات ہے۔ اگر اس کو عمومی اصول بنا دیا گیا تو بڑے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ ان کی بڑی کامیابی ہو جائے گی۔ ایک وقت آئے گا جب ان کو خیال ہو گا کہ یہ غلط پالیسی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ عورت کی گود ہی بچے کی صحیح پرورش گاہ اور تربیت گاہ ہے اور یہی سچ ہے۔

           یہاں میں ان عورتوں سے بھی کہوں گا جن کے بچے وقف نَو میں ہیں اور جو سمجھتی ہیں کہ ان کی تربیت کرنا اور ان کو مکمل طور پر سنبھالنا اب جماعت کی ذمہ داری ہے۔ جماعت کی تربیت کی ذمہ داری دینی اور دنیاوی تعلیم کے لئے رہنمائی کرنے کی حد تک تو ہے لیکن بچوں کی بچپن سے نیک ماحول میں اٹھان اور انہیں دینی تربیت دینا، انہیں دین کی اہمیت سمجھانا، انہیں جماعت کے لئے ایک مفید وجود بنانا یہ ماؤں کی ذمہ داری ہے اور باپوں کا بھی اس میں تعاون ضروری ہے کیونکہ مرد اس سے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ یہاں دونوں کو اپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے اور عورت کا یہ حق ہے کہ مرد اس معاملے میں اس سے مکمل تعاون کرے۔

           حضرت مصلح موعود نے یہ بہت خوبصورت بات بیان فرمائی کہ بچوں کی صحت اور خوبصورتی کے لئے تم بڑی کوشش کرتی ہو، بڑی بے چین ہو جاتی ہو لیکن روح کی خوبصورتی کا جب سوال پیدا ہوتاہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتی۔ اگر ایسا کریں گی تو بہت ظالم ہوں گی کہ روح کی خوبصورتی کا احساس نہ کیا جائے۔ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ دنیا داری کی طرف زیادہ توجہ رہے۔ پس احمدی مائیں جو یہ عہد دہراتی ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی اس وقت تک اس عہد کو نبھانے والی نہیں ہو سکتیں جب تک اپنے بچوں کے دین کو سنوارنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش نہیں کرتیں اور اگر یہ کوشش نہیں کرتیں تو پھر اپنے عہد کوبھی پورا نہیں کر رہیں۔

          لڑکیاں بھی یاد رکھیں کہ انہوں نے کل انشاء اللہ تعالیٰ مائیں بننا ہے تو دنیا دار مائیں بننے کے بجائے جو صرف اپنے دنیاوی حق کا مطالبہ کرتی ہیں وہ دیندار مائیں بننے کی کوشش کریں جو اپنے بچوں کا حق ادا کرنے والی ہوں۔ جن کے بچے ہمیشہ ان کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں۔ جو بچے ایسے تربیت یافتہ ہوں گے وہ بھی اور ان کی نسلیں بھی پھر اس فرق کے ساتھ حق دینے اور حق قائم کرنے والے ہوں گے جو دنیا میں عورت اور مرد کے فرق کو سامنے رکھتے ہوئے حق قائم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وہ معاشرہ جنم لے گا جس میں حق ہمیشہ قائم رہیں گے۔ جو دنیا داروں کو یہ بتانے والا معاشرہ ہو گا کہ حقوق کی ادائیگی کی اگر رہنمائی لینی ہے تو ہم سے لو۔ پس اس کے لئے بہت کوشش اور بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورت اور مرد کی ذمہ داریوں کا جو فرق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے اس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ جس دن ہماری ہر عورت کو یہ ادراک حاصل ہو گیا اس دن ہماری نسلیں دنیا کی رہنما بن کر ابھرنا شروع ہو جائیں گی۔ اس دن ہر بچی کا حق محفوظ ہو جائے گا۔ اس دن ہر عورت کا حق محفوظ ہو جائے گا۔ ایسی تربیت سے نکلے ہوئے لڑکے وہ مرد بنیں گے جو عورت کے حقیقی مقام کو پہچاننے والے ہوں گے۔ جو عورت پر ظلم کرنے والے نہیں بلکہ ان کے حق دینے والے ہوں گے۔ وہ باپ پیدا ہوں گے جو بچوں کی صحیح پرورش میں ماؤں کا ہاتھ بٹانے والے ہوں گے۔

          پس آج ہماری بچیاں دنیا داروں کے عورت کے حق دلوانے کی تنظیموں سے متاثر ہو کر صرف اپنے اس حق کا مطالبہ نہ کریں جو اپنی ذات تک اور دنیا داری تک محدود رہتا ہے اس سے آگے نہیں نکلتا۔ بلکہ اس حق کا نعرہ بلند کریں جو مردوں کے ذہنوں میں ان کی بچپن کی تربیت سے بلند ہوتا رہے۔ جو بچوں اور لڑکوں میں ان کی بچپن کی تربیت کے دوران سے بلند ہونا شروع ہو جائے کہ تم نے بیوی، بیٹی، ماں کے حق کو قائم کر کے انہیں معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام دینا ہے۔ وہ مقام دینا ہے جو اسلام نے ان کو دیا ہے۔ جہاں جہاں ان کو برابری کے حق ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ حق دئیے ہوئے ہیں۔ اعمال کی جزا اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو برابر دی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے برابر کے مواقع ہیں اور بہت ساری ضروریات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حق برابر کے دئیے ہوئے ہیں۔ وہ سب حق قائم کرنے ہیں۔ لیکن جہاں بچوں کی تربیت کا معاملہ ہے، اولاد کی تربیت کا معاملہ ہے، اگلی نسلوں کو سنبھالنے کا معاملہ ہے، اگلی نسلوں میں حقوق قائم کرنے کی جو حقیقی روح ہے وہ پیدا کرنے کا معاملہ ہے وہاں عورت کی ذمہ داری لگا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔ (دعا)

اپنا تبصرہ بھیجیں