خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع جلسہ سالانہ یوکے13اگست2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ روایت ہے اس وقت مَیں رپورٹ پیش کروں گا۔

          خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 209 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ 32 سالوں میں (84ء سے لے کر اب تک) 118 ممالک اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائے ہیں۔

نئے ممالک میں نفوذ

          اس سال دو نئے ممالک پیراگوئے (Paraguay)اور کیمن آئی لینڈز (Cayman Islands) میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔

          یہ ملک پیراگوئے (Paraguay)جو ہے یہ ساؤتھ امریکہ کا ملک ہے۔ ارجنٹائن اور برازیل اور بولیویا سے ان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ سپینش ان کی مقامی زبان ہے۔ سپینش اور مقامی زبان گورانی (Guarani) یہاں بولی جاتی ہے۔ اس ملک کی آبادی 68لاکھ سے اوپر ہے اور یہاں ہمارے مبلغین کینیڈا سے بھی جاتے رہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام کیا اور جماعت کا قیام ہوا۔ یہاں آٹھ مقامی افراد اور دو پاکستانی افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو چکی ہے۔

          اس طرح کیمن آئی لینڈز (Cayman Islands)ہے۔ یہ بھی شمالی امریکہ کا ملک ہے۔ تین جزائر پر مشتمل ہے۔ یہ Caribbean Sea میں واقع ہے اور سیاحتی اعتبار سے بھی کافی مشہور ہے۔ یہاں بھی کینیڈا کے مربیان اور بلیز (Belize)کے مربیان کو جاکے تبلیغ کرنے کی توفیق ملی اور چار افراد نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کی۔

          دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 49ممالک میں وفود بھیج کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام بنائے گئے۔ جماعتی سینٹرز کے کام اور جماعت کی رجسٹریشن کے حوالے سے جائزے لئے گئے اور اخبارات میں انٹرویو اور آرٹیکل شائع ہوئے۔ لٹریچر تقسیم کیا گیا اور بہت اچھے تاثرات سامنے آئے۔

نئی جماعتوں کا قیام

          اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں (پاکستان سے باہر) ان کی تعداد 721ہے۔ اور ان جماعتوں کے علاوہ 964 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ نائیجر سرفہرست ہے جہاں امسال 174 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور اس کے بعد پھر بینن 103، مالی 75 اور اس طرح مختلف جماعتیں ہیں۔

           نئی جماعتیں قائم ہونے کے واقعات تو بہت سارے ہیں۔ ایک واقعہ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ نیامینا ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں کودونگ (Kudang) میں جماعت کا قیام ہوا تو وہاں کے احمدیوں کو دیگر مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن اس گاؤں میں احمدیوں نے ایک تبلیغی پروگرام رکھا جس میں سارے گاؤں والوں کو دعوت دی۔ چنانچہ جب ہمارے مشنری نے وہاں تقریر کی اور انہیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتایا تو اس گاؤں کے چیف نے سارے مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہا کہ میں نے جماعت کے خلاف بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن آج جماعت احمدیہ کے مبلغ کی تبلیغ کا آغاز ہی کلمہ، سورۃ فاتحہ اور درود شریف کے ساتھ ہوا ہے اور جونہی میں نے مبلغ کے منہ سے کلمہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت سنی اسی وقت میرے تمام شکوک دور ہو گئے۔ موصوف نے اسی وقت اعلان کیاکہ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں اور باقی لوگوں کو بھی یہی کہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں کے 635افراد نے اس جگہ پر بیعت کی۔

مساجد کی تعداد

          نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد۔ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو مساجد جماعت نے بنائیں یا تعمیر کیں یا ملیں ان کی مجموعی تعداد 299 ہے جن میں سے 120نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 179 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی مساجد ہیں۔ اس کی تفصیل لمبی ہے اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ برازیل میں مسجد بیت الاول کی تعمیر مکمل ہوئی۔ وہاں کی یہ پہلی مسجد ہے اور بڑی خوبصورت دو منزلہ مسجد ہے۔ جاپان کی مسجد تعمیر ہوئی۔ جزائر قموروز (Comoros) میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ بیلجیم میں تعمیر جاری ہے۔ ری یونین آئی لینڈ میں مرکز قائم ہوا۔ اسی طرح اور بہت ساری جگہوں پہ ہیں۔

           مساجد کے تعلق میں ایک دو واقعات پیش کر دیتا ہوں۔

          وہاں بینن سے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ پاراکو شہر سے 85کلو میٹر دور اور مین روڈ سے سات کلو میٹر دور جنگل میں واقع براندو (Borandou) گاؤں میں 2009ء سے ہماری جماعت قائم ہے اور اس گاؤں کے لوگ فولانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سارا دن جنگلوں میں گائیاں چرانے میں گزارتے ہیں۔ دوران سال جب یہاں مسجد کی تعمیر شروع کی تو مقامی جماعت کے مردو زن نے دن رات وقار عمل کیا اور سخت محنت کے ساتھ کام کر کے جماعت کی ایک کثیر رقم بچائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دور دراز علاقے میں اس سال جنوری میں دو سبز میناروں والی خوبصورت مسجد تکمیل کو پہنچی جس میں ڈیڑھ سو کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔

          تنزانیہ میں مٹوارا شہر سے 53 کلو میٹر کے فاصلے پر ’پومبے‘ میں ایک نئی جماعت قائم ہوئی اور اس جماعت کی اکثر تجنید خدام پر مشتمل ہے۔ ان خدام نے خود چندہ اکٹھا کر کے مسجد کے لئے ایک ایکڑ کا پلاٹ خریدا اور اپنی کوشش سے پھر نو ہزار اینٹیں یا بلاک بنائے۔ مسجد کی چھت بنائی۔ مسجد کی چھت کے لئے پیسے ختم ہو گئے تو انہوں نے قرض لے کے مسجد کی تعمیر مکمل کی۔ تو یہ نئی قائم ہونے والی جماعتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانیاں کر رہی ہیں۔

          بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ باسیلا شہر کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر عیسائی چرچ کے پادری نے کہا کہ جب مجھے مسجد کے افتتاح کا دعوت نامہ ملا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ مسلمان تو ہم عیسائیوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ یہ کون سا اسلام ہے جو ایک عیسائی چرچ کو بھی اپنی طرف بلاتا ہے۔ تو مجھے یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ بھائی چارے کی فضا مجھے بہت اچھی لگ رہی ہے۔

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز

          اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال ہمارے مشن ہاؤسز میں 121 کا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 124ممالک میں ہمارے مشن ہاؤسز کی کل تعداد 2594 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ تبلیغی مراکز کی کل تعداد 450 ہو چکی ہے۔

          مشن ہاؤسز کے قیام میں انڈیا کی جماعت سر فہرست ہے جہاں دوران سال 17 مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا۔ تنزانیہ دوسرے نمبر پر ہے یہاں 15 مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا۔ پھر برکینا فاسو ہے یہاں دس کا اضافہ ہوا۔ اور اسی طرح باقی ممالک ہیں۔

وقارعمل

          افریقہ کے ممالک میں جماعت مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ حصہ لیتی ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعتیں اپنی مساجد، سینٹرز اور تبلیغی مراکز کی تعمیر میں بجلی پانی اور دیگر فٹنگ کا کام اور رنگ و روغن وغیرہ وقار عمل کے ذریعہ سے انجام دیتے ہیں چنانچہ 78 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق چھیالیس ہزار نو سو چھیاسی وقار عمل کئے گئے جن کے ذریعہ سے چوبیس لاکھ گیارہ ہزار یوایس ڈالرز سے اوپر کی بچت ہوئی۔

          بشارت الرحمن بٹ صاحب مبلغ ڈوڈومہ لکھتے ہیں کہ نیشنل ڈے کے موقع پر تنزانیہ کے صدر کی طرف سے اعلان ہوا کہ سارا ملک نیشنل ڈے کی مناسبت سے ہفتہ صفائی منائے تا کہ قومی دن کے موقع پر ہم اپنی نسل کو یہ پیغام دیں کہ انہوں نے ملک کوتمام تر گندگی سے صاف رکھنا ہے چنانچہ اس اعلان کے بعد ڈوڈومہ شہر کے ریجنل کمشنر سے رابطہ کر کے ایک مارکیٹ کے راستے اور گندے نالے کی صفائی کا پروگرام بنایا گیا۔ یہ پارلیمنٹ ہاؤس کے بہت قریب ہے اور اس جگہ ایسی صفائی کی گئی، وقار عمل کیا گیا کہ شہر کا ہر شخص حیران تھا اور پھر یہ بھی حیران تھے کہ ہم نے کام وقار عمل سے کیا ہے اور بغیر کسی معاوضے کے کیا ہے۔

وکالت تصنیف

          وکالت تصنیف کی رپورٹ ہے کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ترجمہ اور تفسیر پر مبنی ہے اور ملک غلام فرید صاحب کا ایڈٹ کردہ ہے کافی عرصے سے دستیاب نہیں تھا۔ اس کی از سر نو ٹائپ سیٹنگ وغیرہ کی اغلاط کی درستی کے بعد چھپ کر یہ تیار ہو گیا ہے اور بک سٹال پر دستیاب ہے۔

           اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل کتب انگریزی میں طبع ہوئی ہیں جو بک سٹال پر موجود ہیں۔ کشتی نوح (Ark of Noah) ۔ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے بارے میں بتایا ہے۔بہرحال اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے ۔ کشف الغطاء، The truth unveiled کے نام سے انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ راز حقیقت، The Hidden Truth کے نام سے انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ The Advent of the Promised Messiah کے نام سے انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ محمود کی آمین انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی کا صومالین ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی کتب ہیں جو شائع کی گئی ہیں اور بک سٹالز پر دستیاب ہیں۔

          قرآن شریف کی بھی اشاعت کی خدمت کی توفیق جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔ امیر صاحب ماریشس لکھتے ہیں کہ ایک غیر احمدی عربی پروفیسر ماریشس میں بک فیئر پر آئے اور بتانے لگے کہ جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے ہیں وہاں کمرے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ قرآن کریم دیکھنے کو ملا۔ کہنے لگے کہ میں قرآن کریم دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ کتنے مسلمان ملک اور کتنے ہی مسلمان فرقے دنیامیں ہیں لیکن قرآن کریم کی خدمت کی اگر کسی کو توفیق مل رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔

کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر تبصرے اور بیعتیں

          کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تبصرے اور اس کے ذریعہ سے بیعتیں۔ کینیڈا سے ہمارے مربی لکھتے ہیںکہ لیف لیٹس کی تقسیم کے لئے ہم گزشتہ سال گوئٹے مالا گئے تھے۔ پچھلے سال یہ جامعہ کینیڈا سے فارغ ہوئے ہیں۔ وہاں ایک نو احمدی جارج ولز (George Velazqez) نے بتایا کہ میں عیسائیت کے غلط عقائد کی وجہ سے متنفر ہو چکا تھا۔ میرے اندر ہر قسم کی برائی پائی جاتی تھی۔ شراب نوشی کی کثرت کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ ان حالات میں عیسائیت نے مجھے دہریہ بننے پر مجبور کر دیا۔ اسی دوران ایک مسلمان عورت سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ جب بھی مجھے اسلام کی دعوت دیتی تو میں اس کو دھتکار دیتا۔ ایک دن میں جماعت احمدیہ کی مسجد گیا تو وہاں ایک احمدی دوست داریو (Dario) صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ پڑھنے کے لئے دی۔ اس کتاب کو پڑھ کر میرا وجود لرز گیا۔ اس کتاب نے مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا اور اس کتاب کا مجھ پر احسان ہے کہ میں اس کتاب کو پڑھ کر احمدی مسلمان ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔

          مصر کے ایک صاحب ہیں انہوں نے بیعت کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے ویب سائٹ پر جماعت میں شمولیت کی خواہش کا پیغام بھیجا تو چند روز کے بعد جماعت احمدیہ مصر کے ایک دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور پھر جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ دی۔ یہ کتاب غیر معمولی تصنیف ہے۔ ایسے روحانی خیالات کو پڑھ کر روح وجد میں آ گئی اور یقین ہو گیا کہ اس کتاب کا مؤلف خدا کا فرستادہ ہے۔ چنانچہ میں نے اس احمدی دوست کو فون کر کے بیعت کا اظہار کیا۔

          پھر فرنچ گیانا کے ایک سیرین مہاجر ہیں بہاء الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شام کے مخدوش حالات کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیا اور طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ فرنچ گیانا پہنچا۔ یہاں پہنچ کر میری ملاقات یہاں کے مبلغین سے ہوئی۔ میں نے اپنی مشکلات کے حوالے سے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے مشن ہاؤس میں ہی ایک کمرہ دے دیا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے کبھی جماعت احمدیہ کا نام نہیں سنا تھا۔ چنانچہ مشن ہاؤس میں رہنا شروع کیا تو جماعت احمدیہ کے حوالے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ چنانچہ میں نے عربی زبان میں ترجمہ شدہ کتب کشتی نوح، ضرورۃ الامام، الخلافۃ والنبوۃ، براہین احمدیہ، مکتوبات احمد اور حقیقۃ الوحی کا مطالعہ کیا۔ شروع میں ان تحریرات نے مجھے اپنی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے ورطہ حیرت میں ڈال دیا پھر جلد ہی میں نے دیکھا کہ ان کتب کے مضامین بھی بہت گہرے ہیں۔ میں ویسے تو مسلمان ہوں لیکن میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ جو علوم میں نے ان کتب سے سیکھے ہیں وہ کہیں اور نہیں دیکھے۔ یہ کتب پڑھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات کی سچائی میں کوئی بھی شک نہیں ہے اور جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سچے ہیں۔ موصوف کا تعلق بڑے پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور اب یہ اپنے خاندان کو بھی احمدیت کے بارے میں تبلیغ کررہے ہیں۔

وکالت اشاعت (طباعت)

          وکالت اشاعت (طباعت) کی رپورٹ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 126 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال 891 مختلف کتب، پمفلٹ اور فولڈر وغیرہ 58زبانوں میں ایک کروڑ چھپن لاکھ بیس ہزار اڑسٹھ کی تعداد میں طبع ہوئے اور اس طرح گزشتہ سال کی نسبت تینتیس لاکھ سے زیادہ تعداد میں لٹریچر طبع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب لاکھوں بلکہ کروڑوں میں لٹریچر کی اشاعت ہوتی ہے۔

وکالت اشاعت (ترسیل)

          وکالت اشاعت (ترسیل) ایک علیحدہ شعبہ ہے۔جو کتب شائع ہوتی ہیں ان کو مختلف جماعتوں میں، ممالک میں بھجواتا ہے۔ ان کی رپورٹ یہ ہے کہ مختلف 47زبانوں میں تین لاکھ بارہ ہزار کی تعداد میں کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بھجوائی گئیں۔ ان کتب کی کل مالیت تقریباً چار لاکھ اٹھارہ ہزار پاؤنڈ سے اوپر ہے۔

          قادیان سے بیرونی ممالک کو کتب کی ترسیل وکالت تعمیل و تنفیذ کے زیر انتظام ہوئی اور دوران سال قادیان سے جماعت احمدیہ مڈگاسکر کی تین ریجنل لائبریریز اور جماعت مایوٹے آئی لینڈ کی ایک لائبریری کے لئے کتب بھجوائی گئیں جن کی مالیت چار لاکھ پانچ ہزار روپے تھی۔

 فری لٹریچر کی تقسیم

          جماعت کے ذریعہ فری لٹریچر کی تقسیم۔ مختلف ممالک میں مختلف عناوین پر مشتمل تین ہزار ایک سو سترہ کتب، فولڈرز اور پمفلٹس ایک کروڑ چونتیس لاکھ بارہ ہزار سے اوپر کی تعداد میں مفت تقسیم کئے گئے۔ اس طرح کل دو کروڑ چالیس لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچایا گیا۔

ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کا قیام

          جماعتوں میں ریجنل اور مرکزی لائبریریز کا قیام ہوا۔ 380 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کے مختلف ممالک میں قیام ہو چکے ہیں جن کے لئے لندن اور قادیان سے کتب بھجوائی گئیں۔

وکالت تعمیل و تنفیذ (لندن)

          دوران سال ہندوستان کے مختلف اضلاع میں لائبریریوں کے قیام کے حوالے سے جو کارروائی کی گئی اس کے مطابق مجموعی طور پر 103ضلعی لائبریریاں ہندوستان میں قائم کی گئیں اور اسی طرح بیرون ممالک کو بھی لٹریچر بھجوایا گیا۔ وہاں شعبہ پریس اور میڈیا کو بھی فعال کیا گیا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی مخالفانہ خبروں کی فوری تردید کرنے اور جماعتی مؤقف کی صحیح رنگ میں اشاعت کے لئے بھی خصوصی کوشش کی گئی۔ شعبہ نور الاسلام کے کاموں میں بہتری پیدا کی گئی اور مختلف ذریعوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تبلیغ بھی کی جا رہی ہے اور مخالفین کے اعتراضوں کے جواب بھی دئیے جا رہے ہیں۔

رقیم پریس اور افریقن ممالک کے احمدیہ پریس

          رقیم پریس اور افریقن ممالک کے احمدیہ پریس۔ رقیم پریس اسلام آباد سے قریبی شہر فارنہام (Farnham) میں ایک نئی عمارت میں منتقل ہو چکا ہے۔ اس سال پریس کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد چھ لاکھ چوہتّر ہزار سے اوپر ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ الفضل انٹرنیشنل، چھوٹے پمفلٹ، لیف لیٹس اور مختلف جماعتی لٹریچر وغیرہ یہاں سے شائع ہوتا ہے۔ یہاں نئی مشینوں کا بھی اضافہ ہوا ہے۔

          بینن میں پرنٹنگ پریس کا قیام ہوا ہے اور اب افریقہ کے آٹھ ممالک میں پریس کام کر رہے ہیں ۔ افریقہ میں لٹریچر کی اشاعت میں ہمارے پریسوں کے ذریعہ چھپنے والی کتب و رسائل کی تعداد دس لاکھ پینتیس ہزار ہے۔

          سیرالیون کے پرنٹنگ پریس سے جماعتی لٹریچر کے علاوہ حکومتی اور نجی کمپنیوں کے لئے بھی طباعت کا کام ہوتا ہے۔ باہر سے کمپنیاں کام کرواتی ہیں۔ نائیجیریا کے پریس نے بھی نئی کلر پرنٹنگ مشینیں خریدی ہیں۔ نائیجیریا کے پریس سے (یوروبا )اور سادہ قرآن کریم چار ہزار کی تعداد میں طبع کیا گیا۔

نمائشیں اور بک سٹالز اور بک فیئرز

          اس سال دنیا بھر میں 580 بک فیئرز میں جماعت نے حصہ لیا اس کے علاوہ 1566نمائشیں اور 13453بک سٹالز کا انعقاد ہوا۔ ان پروگراموں کے ذریعہ چالیس لاکھ انیس ہزار سے زائد افراد تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔

           نمائشوں کے حوالے سے ایک دو واقعات سنا دیتا ہوں۔

          امیر صاحب ماریشس کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی نمائش میں ایک خاتون تشریف لائیں اور سوال کرنے لگیں کہ مسلمان دوسروں کو قتل کیوں کرتے ہیں۔ ان کو ان کے سوال کا جواب دیا گیا اورپھر موصوفہ نے ساری نمائش دیکھی۔ نمائش سے واپس جاتے وقت کہنے لگیں کہ میں اس سوچ کے ساتھ آپ کی نمائش میں داخل ہوئی تھی کہ سب مسلمان دہشتگرد ہیں۔ لیکن اب یہ سوچ اور رائے لے کر واپس جا رہی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک امن کے پیامبر ہیں۔

          کانگو برازاویل سے مبلغ لکھتے ہیں کہ کانگو برازاویل میں نمائش کے دوران ایک جرنلسٹ سے رابطہ ہوا جس کا تعلق کانگو کے نیشنل ٹی وی سے تھا۔ اس کو جماعت کو تعارف کروایا اور پمفلٹ اور کچھ کتابیں دیں۔ اس نے کہا کہ آپ کا پیغام بڑا واضح اور امن پسند ہے۔ میں آپ کا رابطہ ٹی وی کے جنرل ڈائریکٹر سے کرواتا ہوں۔ چنانچہ اگلے دن ہی اس صحافی کا فون آیا کہ ڈائریکٹر سے آ کر مل لو۔ ہم نے ان سے ملاقات کے دوران کتاب جو میرے مختلف لیکچر ہیں “World Crisis and Pathway to Peace” ان کا ذکر کیا اور کتاب دی۔ موصوف نے جماعت کا پیغام سن کر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں جرنلسٹ کو کہہ دیتا ہوں کہ وقتاً فوقتاً آپ لوگوں کو بھی پروگرام میں مدعو کر لیا کریں۔ ملاقات کے تین دن بعد ہی جرنلسٹ نے ہمیں اپنے ٹی وی پروگرام میں مدعو کیا۔ اس طرح نصف گھنٹے کا پروگرام بغیر کسی معاوضے کے ہوا جس سے ملک بھر میں جماعت کا تعارف ہوا۔

          بک سٹالز، بک فیئرز کے حوالے سے بعض واقعات ہیں۔ کولون شہر میں تبلیغی سٹال پر ایک جرمن سیاح آیا اور سٹال سے کچھ لٹریچر لے کر چلا گیا اگلے ہفتے وہ شخص دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ آپ لوگوں نے مجھے جو لٹریچر دیا تھا وہ میں نے سارا پڑھ لیا تھا۔ میں یہاں سیر کے لئے آیا تھا اور واپس جانا تھا مگر میں نے اپنا قیام لمبا کر لیاتا کہ آپ سے دوبارہ ملاقات ہو سکے۔ کہنے لگا کہ آپ کی کتابوں میں جو کچھ پڑھا ہے اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں تو پھر دنیا میں کوئی قوم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

          بیلجیم سے مربی سلسلہ لکھتے ہیں وہاں ایک دوست کمال کدورے صاحب جن کا اصل تعلق مراکش سے ہے ایک روز ایک مارکیٹ سے گزر رہے تھے کہ انہیں جماعتی بک سٹال نظر آیا۔ انہیں جماعت کے پمفلٹ دئیے گئے جس پر ایم ٹی اے العربیۃ کی فریکوئینسی بھی درج تھی۔ چنانچہ موصوف نے واپس جا کر ایم ٹی اے العربیۃ دیکھنا شروع کر دیا اور اس دوران دعا بھی کرتے رہے۔ کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں کی وجہ سے میرے علم میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ میں اپنے حلقہ احباب میں بھی ان مسائل کے حوالے سے بات چیت کرنے لگا۔ اسی طرح ایک دن وفات مسیح کے حوالے سے بات ہوئی تو ان کے ایک دوست نے کہا کہ ان کا بھائی احمدی ہے اور اس کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ چنانچہ موصوف نے اپنے دوست کے بھائی سے ملاقات کی اور اس کے ذریعہ سے جماعت سے رابطہ ہو گیا۔ موصوف بیعت کے لئے پہلے ہی تیار تھے۔ چنانچہ جلد ہی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔

          آگرہ ضلع کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک آرمی افسر نے بک سٹال سے جماعتی کتب خرید کر نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اہلیہ کو بھی وہ کتب دیں۔ مطالعہ کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بہت سی تنظیمیں اور فلاحی ادارے مختلف جہات سے کام کر رہی ہیں لیکن جماعت کا کام اس لئے قابل تعریف اور حیران کن ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی تنظیم ہے جو قیام امن کے لئے اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ اس پر میں جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

لیف لیٹس کی تقسیم

          لیف لیٹس، فلائرز کی تقسیم کا منصوبہ۔ اس سال دنیا بھر کے 101ممالک میںمجموعی طور پر ایک کروڑ گیارہ لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے اور اس ذریعہ سے دو کروڑ چھیانوے لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ اس کے حوالہ سے امریکہ اور یورپ کے ممالک میں کافی کام ہوا ہے۔

          سپین میں لیف لیٹس کی تقسیم ۔ یہاں پچھلے دو تین سال سے جامعہ کے سٹوڈنٹس کو بھجوایا جاتا ہے ۔وہ شاہدین مربی جو آخری کلاس سے پاس ہو کر جامعہ سے نکلتے ہیںکچھ عرصے کے لئے ان کو وہاں بھجواتا ہوں تا کہ لیف لیٹس تقسیم کریں۔ امیر صاحب لکھتے ہیںکہ ان مبلغین کے آنے سے پہلے ہم نے سپین کے پچاس صوبوں کے سول گورنرز کو خط لکھا کہ اس طرح یوکے اور جرمنی سے ہمارے مبلغین لیف لیٹس تقسیم کے لئے آ رہے ہیں اور آپ کے صوبے میں بھی آئیں گے۔ ہر جگہ سے ہمیں خطوط اور فون کے ذریعہ خوش آمدید کہا گیا۔ ان مربیان کو مختلف گروپس کی شکل میں سپین کے مختلف علاقوں میں بھیجا گیا اور پھر ’’جنگ عظیم سے بچاؤ اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے کوشش‘‘ کے عنوان سے لیف لیٹس تقسیم کئے گئے۔ مختلف صوبہ جات کے 247 مقامات پر چھ لاکھ گیارہ ہزار سے اوپر کی تعداد میں تقسیم ہوا۔

          سپین کا ایک شہر سیوٹا (Ceuta) جزیرہ کی شکل میں مراکش کی سرحد پر واقع ہے۔ ان کو کہا تھا وہاں جا کر لٹریچر تقسیم کریں۔ کہتے ہیں کہ یہ شہر عربی مسلمانوں کا گڑھ ہے ہم اس شہر میں لیف لیٹس تقسیم کرنا سب سے مشکل سمجھتے تھے اور اندیشہ تھا کہ بہت مخالفت ہو گی۔ بہرحال جانے سے پہلے ہم نے وہاں کے گورنر کو اطلاع کر دی۔ اسی طرح اس کے سیکرٹری سے بھی فون پر بات ہو گئی کہ آج ہم آپ کے شہر میں لیف لیٹس تقسیم کریں گے۔ چنانچہ شہر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے لیف لیٹنگ شروع کر دی گئی۔ اور کہتے ہیں کہ ہماری توقعات سے بہت بڑھ کر ہمیں رسپانس ملا اور ایک مبلغ کو وہاں کے لوکل امام مسجد ملے۔ انہیں جب لیف لیٹ دیا گیا تو موصوف دوبارہ واپس آئے اور مزید دس لیف لیٹس لے گئے اور سپین اور مراکش کا اپنا رابطہ نمبر بھی دیا۔ اسی طرح مقامی اخبار کے نمائندوں کو دیا گیا۔ ان سے بھی رابطے ہوئے۔

          میکسیکو میں تبلیغ اور فلائرز کی تقسیم کا منصوبہ اور غیر معمولی کامیابیاں وہاں بھی ہو رہی ہیں۔ میکسیکو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں سپینش بولی جاتی ہے۔ اس کی آبادی 125ملین ہے۔ میکسیکو میں اس وقت تین مبلغین کام کر رہے ہیں اور جامعہ کینیڈا سے اس سال فارغ التحصیل ہونے والے کلاس کے طلباء کو بھی وہاں گروپ کی صورت میں فلائر تقسیم کرنے کے لئے بھجوایا گیا تھا۔ وہاں میریڈا (Merida) شہر میں اور دوسرے علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں فلائر تقسیم کئے۔ مجموعی طور پر ایک ملین کی تعداد میں لیف لیٹس تقسیم ہوئے جن کے ذریعہ ایک ملین لوگوں تک پیغام پہنچا اور اس کے نتیجہ میں چھ سو ستّر بیعتیں ہوئیں۔

لیف لیٹس کی تقسیم کے دوران پیش آنے والے واقعات

          امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک معمر داعی الی اللہ ابراہیم صاحب ہیں جن کی عمر 73سال ہو چکی ہے۔ بڑے شوق سے تبلیغ کرتے ہیں۔ کئی کئی میل پیدل سفر کر کے تبلیغ کرتے ہیں اور جماعتی لیف لیٹس لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ دوران سال انہوں نے اکیلے ہی تین ہزار سے زیادہ لیف لیٹس تقسیم کئے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ میں نے ساری عمر اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لئے مختلف نوکریاںکی ہیں لیکن پھر بھی فیملی کا گزارہ نہیں ہو پاتا تھا۔ لیکن جب سے میں نے تبلیغ کے لئے وقت دینا شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر خاص فضل ہوا ہے اور میری ضرورت سے بڑھ کر انعامات سے اللہ تعالیٰ مجھے نواز رہا ہے۔

          سوئٹزرلینڈ سے ایک سوئس کو جماعتی لٹریچر لیف لیٹ دیا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس لیف لیٹ کو پڑھا جو میری پوسٹ میں ڈالا گیا تھا تو مجھے بیحد خوشی ہوئی کہ شکر ہے کہ اسلام کے اندر کوئی ایسی جماعت ہے جو اسلام کا اصل پیغام پھیلا رہی ہے۔ یہ تعریف صرف اس ای میل کی حد تک نہیں بلکہ میں آپ کی جماعت کا پیغام اپنے فیس بُک پر بھی شائع کر رہا ہوں۔ آپ لوگوں پر سلامتی ہو۔

          اسی طرح ہندوستان میں ایک عورت کے ہاتھ ہمارا لیف لٹ آیا۔ کہنے لگی کہ مجھے لیف لیٹ باہر سڑک پر گرا ہوا ملا ہے۔ میں اس کے مضمون سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ اور اگر آپ لوگ یہ لیف لیٹ تقسیم کر رہے ہیں تو مجھے اس قسم کا مزید لٹریچر دیں۔ میں بھی اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں۔

عربک ڈیسک

          عربی ڈیسک کے تحت گزشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد تقریباً 117 ہے۔ دوران سال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل کتب کے تراجم مکمل کر کے پرنٹنگ کے لئے بھجوا دئیے گئے ہیں۔ روحانی خزائن جلد 6۔ کشف الغطاء۔ تحفہ گولڑویہ۔ اور حضرت مصلح موعود کی دو کتب رحمت للعالمین (دنیا کا محسن، رحمت للعالمین، اسوہ کامل۔ تین چھوٹی چھوٹی کتابیں ہیں ان کو رحمت للعالمین کے نام سے اکٹھا کیا گیا ہے۔) دس دلائل ہستی باری تعالیٰ۔ اس کے علاوہ جماعتی تعارف پر مبنی مختلف لٹریچر ہے اور باقی کتب کا ترجمہ ہو بھی رہا ہے اس کی کافی لمبی تفصیل ہے ۔

ایم ٹی اے تھری العربیۃ

          ایم ٹی اے تھری العربیۃکے پروگراموں کے ذریعہ سے بعض تأثرات پیش کرتا ہوں۔ مصر کے ایک  اسامہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ان کا احمدیت سے تعارف ایک مصری احمدی کے ذریعہ ہوا اور پھر تحقیق کے بعد جب حق شناسی کی توفیق ملی تو انشراح صدرکی نعمت کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز میں یہی دعا کرتے ہوئے سویا کہ خدایا امام مہدی ہونے کا یہ دعویدار مجھے تو سچا لگتا ہے لیکن اصل حقیقت سے تو تُو ہی واقف ہے اس لئے تُو مجھے اس کی حقیقت سے آگاہ فرما دے۔ کچھ دیر کے بعد کہتے ہیں ایک مہیب آواز کو سن کر میں بیدار ہو گیا جو حضرت امام مہدی کے بارے میں کہہ رہی تھی۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُقْتَدِر۔ وہ مقتدر بادشاہ کے حضور سچائی کی مسند پر ہے۔ کہتے ہیں مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس آواز کو سن کر جاگا تو کانپ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو اور میری زبان پر مذکورہ الفاظ جاری تھے جو میری اہلیہ نے بھی سنے اور وہ بھی اس کی گواہ بن گئی اور بعد میں انہوں نے بیعت کر لی۔

          ایک صاحبہ ہیں ان کا تعلق سیریا سے ہے۔ وہ کہتی ہیں میں نے قبول احمدیت سے پہلے ایک رؤیا دیکھا تھا جو مجھے یاد رہا۔ میں نے رؤیا میں چمکیلے سرخ رنگ کی ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ لہو و لعب میں مصروف تھے میں نے دیکھا یہ کشتی آہستہ آہستہ پانی میں غرق ہو رہی تھی جبکہ اس کے سوار بے خبر تھے۔ ایسے میں میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جس نے عمامہ اور کوٹ پہنا ہوا تھا اس نے مجھے کہا کہ اگر اب بھی تم نہ سمجھی تو آگ میں ڈالی جاؤ گی۔ کہتی ہیں کہ میں نے متعدد بار اس سے پوچھا کہ مجھے کیا سمجھنا چاہئے لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اس رؤیا کی کوئی سمجھ نہ آئی۔ ایک روز میری ایک بہن نے فون کر کے مجھے ایم ٹی اے دیکھنے کو کہا۔ میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن بہن کے اصرار پر میں نے ایم ٹی اے لگا لیا۔ پھر یوں ہوا کہ میں یہ چینل دیکھتی اور اپنی بہن کے ساتھ اس پر پیش کئے گئے مختلف خیالات کے بارے میں بحث کرتی۔ بہرحال ایم ٹی اے مجھے پسند آیا لیکن میں اسے اپنے خاوند سے چھپ کر دیکھتی تھی اس لئے نہایت محدود وقت کے لئے بعض مخصوص پروگرام ہی دیکھ سکتی تھی۔ یہ پروگرام دیکھنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرا دل نرم ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ تقدیر نے میرے لئے بہت بڑا surprise چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ ایک روز میری بہن نے مجھے فون کر کے ایم ٹی اے پر ایک خاص پروگرام دیکھنے کے لئے کہا۔ میں نے جونہی ٹی وی آن کر کے ایم ٹی اے لگایا تو سکرین پر ایک تصویر دیکھ کر مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور میں شدت جذبات سے کانپنے لگی کیونکہ یہ اسی شخص کی تصویر تھی جسے میں نے پانچ سال پہلے خواب میں دیکھا تھا اور اس نے مجھے کہا تھا کہ اگر اب بھی تم نہ سمجھی تو آگ میں ڈالی جاؤ گی۔ وفات مسیح اور امام مہدی کے ظہور جیسے موضوعات تو میں سن چکی تھی لہٰذا تصویر دیکھتے ہی حضور علیہ السلام کی صداقت میرے دل میں راسخ ہو گئی اور بعد میں اپنے خاوند کی سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے بیعت کر لی۔

          اردن کے ایک احمد صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ان کا جماعت سے تعارف ہوا اور اس پر پیش کئے جانے والے مفاہیم کو سن کر دلی طور پر مطمئن ہو کر انہوں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی۔ اس دعا کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر فجر کی اذان دے رہا ہے۔ اس نے اذان مکمل کرنے کے بعد کچھ اس طرح کہا کہ حَیَّ عَلَی الْاَحْمَدِیَّۃ۔ حَیَّ عَلَی الْاَحْمَدِیَّۃ۔ یعنی احمدیت کی طرف آؤ۔ احمدیت کی طرف آؤ۔ مؤذن نے رؤیا میں اور بھی جملے کہے لیکن مجھے صرف یہی یاد رہے۔ عجیب بات ہے کہ جب میں جاگا تو محلے کی مسجد میں مؤذن فجر کی اذان دے رہا تھا۔ اس واضح رؤیا کے بعد میں نے بیعت کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اپنے بیٹوں اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ میں نے بیعت کی۔

          الجزائر کے ایک شخص ہیں۔ کہتے ہیں میرے بیوی بچوں نے مجھ سے ایک سال قبل بیعت کی تھی اور میں نے حال ہی میں بیعت کی ہے۔ مَیں بھی ایم ٹی اے العربیۃ دیکھتا تھا۔ میری اہلیہ نے بیعت کے بعد کمپیوٹر کی بیک گراؤنڈ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر لگا دی اس طرح میں جب بھی کمپیوٹر استعمال کرتا تو حضور کی تصویر دیکھتا۔ روزانہ انٹرنیٹ پر ایک مشہور مصری شیخ کا پروگرام سننا میرا معمول تھا۔ ایک دن اس کا خطاب سن رہا تھا کہ نیند کے غلبہ سے سو گیا اور خواب میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ چھڑی سے میری ٹانگ کو ضرب لگا رہے ہیں اور میری اہلیہ اور بچے حضور کے پیچھے کھڑے ہیں۔ پھر میرے بچے آگے آئے اور آپ کے ہاتھ کو دبایا کہ حضور بس کریں۔ حضور نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چلے گئے۔ میں جاگ گیا۔ میرا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ میں نے انٹرنیٹ کھولا تا شیخ صاحب کا خطاب سنوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ شیخ صاحب امام مہدی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اس پر یقین ہو گیا کہ میں نے خواب میں واقعۃً امام مہدی کو ہی دیکھا تھا اور پھر بیعت کا فیصلہ کر لیا۔

          اس طرح بہت سارے واقعات ہیں جو اس وقت بتانے تو مشکل ہیں۔

          اردن سے زید صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے پاس ایک بھائی مکرم ابو قاسم صاحب کو بھیجا جس نے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کشتی نوح میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ کہتے ہیں خاکسار نے بیعت کے شروع میں رؤیا دیکھا کہ میں ایسی جگہ ہوں جہاں لوگ پانی میں ڈوب رہے ہیں اور ان صاحب نے ہاتھ بڑھا کر مجھے پانی سے نکال لیا۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا۔ پھر آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں جماعت اردن سے محبت رکھتا ہوں۔ اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ میں راہ راست پر ہوں۔

          مراکش سے ایک صاحب مجھے خط لکھ رہے ہیں کہ ہم ہمیشہ کہ آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہمیں جو آپ کے لئے دعا کرنی چاہئے اس کا حق کر پاتے ہیں کہ نہیں۔ لہٰذا اس خط میں صرف یہ درخواست کروں گا کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کے لئے پورے اخلاص سے دعا کرنے کی توفیق بخشے۔ پھر لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کچھ ٹارگٹ مقرر کر رکھے ہیں جن میں اہم ترین یہ ہے کہ میں خلافت کے قریب ترین ہوں اور سب سے زیادہ اطاعت اور وفا دکھانے والا ہوں۔ کیونکہ میرا یہ یقین ہے کہ خلافت سے قوی تعلق کے ذریعہ مجھے ایسی عبادت کی توفیق ملے گی جیسے وہ چاہتا ہے۔ میرے اس ٹارگٹ کے لئے دعا کریں۔

          اردن سے ایک خاتون ہیں کہتی ہیں کہ میرے گھر والوں نے احمدیت کی وجہ سے میرا مقاطعہ کیا ہوا ہے۔ کبھی والدہ سے یا بھابھی اور بھائی سے فون پر بات ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ مجھے طلاق دلوانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں میرے خاوند نے مجھے بہکایا ہے اور کافر بنایا ہے۔ وہ اس بات سے بڑے خوش ہیں کہ ابھی تک میری اولاد نہیں ہے اور اس طرح امید لگائے بیٹھے ہیں کہ میں اپنے خاوند کو چھوڑ دوں گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اولاد ہی میاں بیوی میں بڑا رابطہ اور تعلق ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان احمدیت سب سے قوی اور پختہ رابطہ ہے۔ کہتی ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے احمدیت کی نعمت سے نوازا اور اس نعمت کے شکر کے لئے اگر میں دن رات سجدے میں پڑی رہوں تو بھی شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

رشین ڈیسک

           اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشین ڈیسک بھی کافی کام کر رہا ہے۔ میرے تمام خطبات جو ہیں اور جلسہ سالانہ کی تقاریر ہیں، مختلف جلسوں کی، اجتماعات ہیں، انگریزی اردو کے خطابات ہیں یہ ان خطابات کے تراجم کرتے ہیں۔  ایک تو یہ ٹرانسکرائب کرتے ہیں پھر الفضل وغیرہ کو بھجواتے ہیں پھر ان کا رشین زبان میں ترجمہ بھی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ رشین، ازبک اور قازق، قرغیز، تاتاری، دری، فارسی زبان میں موصول ہونے والے خطوط کا اردو ترجمہ بھی رشین ڈیسک کے سپرد ہے۔ اور اس طرح انہوں نے مختلف کام کئے ہیں۔ لٹریچر بھی اس کے علاوہ شائع کر رہے ہیں۔

فرنچ ڈیسک

          فرنچ ڈیسک ہے۔ دوران سال کتاب ’’وفات مسیح قرآنی آیات کی روشنی میں‘‘ اس کی طباعت ہوئی۔ اس کے علاوہ حسب ذیل کی نظر ثانی مکمل ہو چکی ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی (نیا ایڈیشن)۔ سوانح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عیسائیوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے دس پمفلٹس۔ اور اس طرح اور بھی لٹریچر اس وقت ترجمہ ہو رہا ہے، تیار ہو رہا ہے۔ جماعت کی فرنچ ویب سائٹ کو آٹھ لاکھ چوّن ہزار سے زائد لوگ وزٹ کر چکے ہیں اور لوگ ویب سائٹ پر سوال بھی کرتے ہیں جس کا ای میل کے ذریعہ سے جواب دیا جاتا ہے۔

بنگلہ ڈیسک

          بنگلہ ڈیسک۔ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصص کا بنگلہ میں ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ ان کو فائنل کیا جا رہا ہے اور اربعین اور شہادۃ القرآن کے بنگلہ ترجمہ کی نظر ثانی کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ ایم ٹی اے پر 42گھنٹے کے لائیو پروگرام پیش کئے گئے۔ اس پروگرام کے نتیجہ میں بنگلہ دیش میں 52بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔ خطبہ جمعہ کے تراجم پیش کئے گئے ہیں۔ اَور بھی کافی سوال جواب اور اعتراضوں کے جواب وغیرہ کا یہ کام کر رہے ہیں۔

ٹرکش ڈیسک

          ٹرکش ڈیسک۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل کتب کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ ستارہ قیصریہ۔ روئیداد جلسہ دعا۔ معیار المذاہب۔ اور کچھ اَور لٹریچر بھی ہے اس پر کام ہو رہا ہے۔

چینی ڈیسک

          چینی ڈیسک۔ قرآن کریم کے چینی زبان میں ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن پر ابھی کام جاری ہے۔ نظر ثانی کے بعد وکالت اشاعت ربوہ نے ٹائپ سیٹنگ کا کام کر دیا ہے۔ چند ماہ میں یہ انشاء اللہ چھپ جائے گا اور اس طرح باقی لٹریچر کا بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پریس اینڈ میڈیا آفس

          پریس اینڈ میڈیا آفس ۔ دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے متعلق دنیا بھر میں پانچ ہزار سے زائد مضامین اور آرٹیکل مختلف اخباروں میں شائع ہوئے اور ملینز (Millions)کی تعداد میں لوگوں تک پیغام پہنچا۔ گزشتہ سال کی نسبت یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ 190 خصوصی آرٹیکل پریس اینڈ میڈیا آفس کی کوششوں سے شائع ہوئے۔ جماعت کے حوالے سے باون مختلف خبریں مختلف دنیا کے ٹی ویز پر نشر ہوئیں۔ نیشنل ریڈیو چینلز پر 57انٹرویو نشر ہوئے۔ جرنلسٹ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے 120 شخصیات کے ساتھ میٹنگز ہوئیں۔ دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کی تمام مشہور آؤٹ لٹس پر جماعت احمدیہ کو کوریج ملی جن میں بی بی سی ٹی وی، بی بی سی ریڈیو، بی بی سی ویب سائٹ، سکائی نیوز، دی ٹائمز، گارڈیئن، اُبزرور، ڈیلی ٹیلی گراف، سنڈے ٹائمز، ایل بی سی ، اکانومسٹ وغیرہ شامل ہیں۔

          بیلجیم اور فرانس میں ہونے والے واقعات کے بعد مختلف میڈیا فورمز پر متعدد انٹرویو ہوئے جن میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتایا گیا۔

          دوران سال کل 85پریس ریلیز جاری کیں۔ دنیا بھر کی جماعتوں کے حالات اور مسائل کے بارے میں انہوں نے رہنمائی کی۔

 alislam ویب سائٹ

          اس سال alislamویب سائٹ کے ذریعہ سے جوکام ہوا ہے اس میں ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کے ساتھ امریکہ، کینیڈا، پاکستان، بھارت، یوکے اور جرمنی سے رضا کار کام کر رہے ہیں۔ کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور ملفوظات آڈیو کتب کی صورت میں الاسلام اور ساؤنڈ کلاؤڈ (Sound Cloud) پر دستیاب ہیں۔ گزشتہ سال ’خلیفہ آف اسلام‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی انہوں نے بنائی تھی۔ اس میں کچھ مختلف پروگرام شامل کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم کے اردو اور انگریزی تراجم اور تفاسیر کے علاوہ 47زبانوں میں تراجم online موجود ہیں۔ اسی طرح خطبات نور (مکمل)، خطبات محمود کی 37جلدیں، خطبات ناصر (مکمل)، خطبات طاہر کی 15جلدیں آن لائن دستیاب ہیں۔ اور میرے بھی تمام خطبات مختلف 18زبانوں میں آڈیو اور وڈیو موجود ہیں۔

ریویوآف ریلیجنز

          ریویوآف ریلیجنز جس کا اجراء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1902ء میں فرمایا تھا اور اب اس کو 114سال ہو گئے ہیں۔ اب اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جدید زمانے کے مختلف طریق اور ذرائع استعمال کرتے ہوئے تقریباً ایک ملٹی پلیٹ فارم پر لے آیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کے پرنٹ ایڈیشن، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، یوٹیوب اور دیگر نمائشوں کے ذریعہ ایک کثیر تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔ ان مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعہ دس لاکھ سے زائد لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ اس وقت اس رسالے کا پرنٹ ایڈیشن تین ممالک یوکے، کینیڈا اور انڈیا سے شائع ہو رہا ہے جن کی کل تعداد 16ہزار بنتی ہے۔ مختلف ممالک کی جماعتوں نے اس کی خریداری بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں ابھی مزید گنجائش ہے۔ خدام الاحمدیہ کے لئے خصوصی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کو ٹارگٹ بھی دئیے گئے ہیں۔ خدام الاحمدیہ کینیڈا کے تحت ریویو آف ریلیجنز کینیڈا ریسرچ ایسوسی ایشن بنائی گئی تھی۔ اس کے تحت پانچ سمپوزیم منعقد کئے گئے۔ نیز مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جوابات تیار کر کے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دئیے گئے۔ اور خدام الاحمدیہ کینیڈا کی ٹیکنالوجی ٹیم نے ریویو آف ریلیجنز کی موبائل اَیپ بھی تیار کی ہے جو اس وقت ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے۔ ریویو آف ریلیجنز کو سوشل میڈیا، فیس بُک اور ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ فالو (follow) کر رہے ہیں اور ریویو آف ریلیجنز کی یُوٹیوب چینل کے کُل سبسکرائبرز (Subscribers) کی تعداد دس ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اس چینل کے ذریعہ ممتاز مذہبی علماء اور دیگر بااثر شخصیات کے ساتھ نئے رابطے قائم ہوئے اور انہیں جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ گزشتہ سال جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر ریویو آف ریلیجز کے تحت ایک نمائش لگائی گئی تھی جس میں قرآن کریم کا ایک 750 سالہ پرانا صحیفہ بھی رکھا گیا تھا۔ اسی طرح ٹیورن شراؤڈ (Turin Shroud) بھی رکھا گیا تھا۔ اس سال بھی یہ لگائی جا رہی ہے۔ اس نمائش کو میڈیا میں کافی کوریج ملی تھی۔

           ریویو آف ریلیجنز کے متعلق بعض غیر از جماعت دوستوں کے تاثرات۔

          چارلی ہیبڈو کے واقعہ کے بعد ریویو آف ریلیجنز نے جو ’’ری ایکشن ٹو چارلی ہیبڈو‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا جس میں میرا خطبہ جمعہ شائع کیا گیا تھا۔ اس ایڈیشن کو پڑھنے کے بعد رابرٹ پی ایلیسن (Robert P. Ellison) نے جو کہ گیمبیا کے دارالحکومت بانجل (Banjul) کے بشپ ہیں اپنے خط میں لکھا: اس افسوس ناک واقعہ کے بعدمسلمانوں اور مغرب میں رہنے والے عیسائیوں کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا ہے اور فساد اور جھگڑے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن مَیں نے ریویو آف ریلیجنز میں امام جماعت احمدیہ کے بیانات پڑھے ہیں اور مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے نہایت موزوں اور معقول انداز سے صورت حال کا نقشہ کھینچا اور دونوں گروہوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جبکہ باقی سارے لوگ یکطرفہ بیان دے رہے ہیں۔ ہماری دعائیں آپ کے لئے اور آپ کی پوری جماعت کے لئے ہیں۔

          یورپ کے ایک بڑے میڈیا آرگنائزیشن بردہ میڈیا (Burda Media) جس کا ہیڈ کوارٹر جرمنی میں ہے اس کے چیف آپریٹنگ آفیسر الفریڈ Heintze صاحب نے کہا: مَیں نے ریویو آف ریلیجنز جیسا رسالہ پہلے کبھی نہیں پڑھا۔ موصوف یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ اس رسالے کے جرمن ایڈیشن پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کہنے لگے کہ وہ اس حوالے سے ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ موصوف باقاعدگی سے اس حوالے سے اپنا تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

          یونیورسٹی آف وسکونسن آشکوش (University of Wisconsin Oshkosh) کی ایک پروفیسر کیتھلین (Kathleen Corley Schuhart) ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ موصوفہ کو یہ رسالہ بہت پسند آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کشمیر میں ہجرت کے حوالے سے جو تحقیق پیش کی ہے اس سے موصوفہ بہت متاثر ہوئیں۔ موصوفہ Early Christianity کے حوالے سے کتاب لکھ رہی ہیں۔ اس کتاب کا پہلا chapterمکمل ہونے کے بعد ہمیں بھجوایا اور درخواست کی کہ کیا اس کو ریویو آف ریلیجنز میں شائع کیا جا سکتا ہے۔

          امریکہ کی سیئٹل (Seattle)یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور سنٹر فار گلوبل جسٹس کے ڈائریکٹر مسلمان طیب محمود صاحب کے ساتھ ریویو آف ریلیجز کے مرکزی نمائندہ جو امریکہ کے دورے پر گئے تھے ان کی میٹنگ ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ریویو آف ریلیجنز جیسا رسالہ ساری دنیا میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ میرے خیال میں اگر جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے تو یہ رسالہ مزید ترقی کر سکتا ہے۔ اگر آپ نوجوان نسل کو رسالے کا حصہ بنائیں تو وہ کافی جدت پیدا کر سکتے ہیں۔

          اسی طرح فلوریڈا یونیورسٹی کے پروفیسر نے بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

مختلف ممالک میں مقامی طور پر جرائد و اخبارات کی اشاعت

          مختلف ممالک میں مقامی طور پر جو رسالوں کی اشاعت ہوئی۔ اس سال 126ممالک سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جماعتوں اور ذیلی تنظیموں کے تحت پچیس زبانوں میں 141تعلیمی، تربیتی اور معلوماتی مضامین پر مشتمل رسائل و جرائد مقامی طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل

          ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ سے اللہ کے فضل سے بڑا کام ہو رہا ہے اور اپنی پسند کے پروگرام بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اب اس میں اس نئی سہولت کے نتیجہ میں اس سال سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ایم ٹی اے کی نشریات گزشتہ سالوں کی نسبت بہت وسعت پا گئی ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ نشریات بیک وقت دیکھنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

          ایم ٹی اے افریقہ بھی شروع ہوا ہے۔ یکم اگست 2016ء کو اس کا افتتاح ہوا آغاز ہوا جو وہاں کی مقبول ترین سیٹلائٹ کے ذریعہ 24گھنٹے اپنی نشریات پیش کرے گا۔ اس چینل پر افریقہ کی ضروریات کے مطابق خصوصی پروگرام کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس چینل پر اصل آڈیو کے ساتھ بیک وقت چار زبانوں کے تراجم نشر کرنے کی سہولت موجود ہے۔

          ماریشس میں ایم ٹی اے افریقہ کا پہلا سٹوڈیو مکمل ہو چکا ہے۔ کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ گھانا میں وہاب آدم سٹوڈیو بھی اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس میں بھی جدید ترین آلات رکھے گئے ہیں۔ اس کا شمار گھانا کے بہترین سٹوڈیوز میں ہو گا۔

          پھر گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، تنزانیہ اور یوگنڈا میں باقاعدہ ایم ٹی اے کی ٹیمز بن چکی ہیں اور وہاں مختلف پروگرام ہوں گے۔ ایم ٹی اے گھانا کی ٹیم نے آٹھ سیریز کے لئے کُل اڑسٹھ (68) پروگرام ریکارڈ کئے ہیں جو کہ نیشنل ٹی وی جی ٹی وی (GTV) اور سائن پلس (Cine plus) پر نشر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح نیشنل اور ریجنل جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات اور مختلف پروگرام وہاں دکھائے جا رہے ہیں۔ ان پروگراموں کے نتیجہ میں بہت اچھا ردّ عمل دیکھنے میں مل رہا ہے۔ لوگ پروگرام دیکھ کر کالز کرتے ہیں۔

           گھانا کے ویسٹن ریجن سے ایک صاحب جو مسلمان ہیں لکھتے ہیں کہ مَیں آپ کی جماعت کے پروگرام بہت شوق سے دیکھ رہا ہوں۔ میرے نزدیک اسلام میں صرف جماعت احمدیہ ہی واحد فرقہ ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہے۔ مَیں نے اور بھی کئی فرقوں کے پروگرام دیکھے ہیں لیکن جو تعلیمات آپ پیش کرتے ہیں یقینا وہی حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں۔ انشاء اللہ میں بھی آپ کی جماعت میں شامل ہوجاؤں گا۔

          ایک عیسائی گھانا سے لکھتے ہیں۔ مَیں مذہباً عیسائی ہوں اور اکثر عیسائی مسلمان ممالک میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے اسلام سے نفرت کرتے ہیں لیکن آپ لوگوں کے پروگرام دیکھ کر مجھے حقیقی اسلامی تعلیمات سے واقفیت ہوئی ہے کہ اسلام تو کسی قسم کی دہشتگردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ اب جو بھی اسلام کے خلاف بات کرے تو میں اسلام کا دفاع کرتا ہوں۔

          برکینا فاسو میں امسال پہلے لوکل جماعتی ٹی وی چینل کا افتتاح ہوا اور 3؍مارچ 2016ء کو لوکل ایم ٹی اے چینل کی ٹیسٹ ٹرانسمشن کا آغاز کیا اور 3؍جولائی 2016ء کو اس ٹی وی چینل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ اس پر صبح ساڑھے پانچ سے لے کر رات بارہ بجے تک نشریات جاری رہتی ہیں۔ اس چینل پر زیادہ تر ایم ٹی اے انٹرنیشنل سے پروگرام لے کر نشر کئے جاتے ہیں۔ لیکن روزانہ تقریباً تین گھنٹے لوکل یا فرنچ زبان میں تیار کردہ پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر ہفتہ خطبہ جمعہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس ٹی وی چینل کی نشریات بارہ لاکھ پچاس ہزار لوگوں تک پہنچتی ہیں اور لوگوں میں یہ کافی مقبول ہو رہا ہے۔

          گوادے لوپ (Guadeloupe) کے مربی لقمان صاحب لکھتے ہیں کہ اس سال جب مارٹنیک (Martinique) کا دورہ کیا تو وہاں ایک دوست شاہبان رمزی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ موصوف ویسے سیرین ہیںلیکن گزشتہ پندرہ سال سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ Martinique میں مقیم ہیں۔ شاہبان صاحب نے بتایا کہ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بہت پریشان تھے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کے نماز سینٹر میں جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن بذریعہ انٹرنیٹ جماعت کا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا علم ہوا جس پر انہوں نے جماعت کے بارے میں ریسرچ کرنا شروع کر دی۔ ایم ٹی اے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے الحوار المباشر کے تمام پروگرام جو یُوٹیوب پر موجود تھے وہ دیکھے اور جماعت کی عربی ویب سائٹ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس طرح دورے کے دوران موصوف کے ساتھ جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے فوراً بیعت کر لی۔

          اسی طرح ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتوں کے اَور بہت سارے واقعات ہیں۔

احمدیہ ریڈیو سٹیشنز

          احمدیہ ریڈیو سٹیشن ہیں۔ اس وقت جماعت احمدیہ کے اپنے ریڈیو سٹیشنز کی تعداد 20 ہوچکی ہے جن میں سے مالی میں پندرہ ہیں۔ برکینافاسو میں چار۔ سیرالیون میں ایک۔ اور ان ریڈیو سٹیشنز میں سے مالی میں دس ریڈیو سٹیشنز پر روزانہ اٹھارہ گھنٹے اور پانچ ریڈیو سٹیشنز پر روزانہ گیارہ گھنٹے کی نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی کام ہو رہا ہے۔ یوکے میں اس سال جماعتی ریڈیو سٹیشن Voice of Islamشروع ہوا اس کے بھی سننے والوں کی تعداد اب بڑھ رہی ہے۔

          کانگو کنساشا سے ایک نومبائع رمضان صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں پہلے سمجھتا تھا کہ جماعت احمدیہ بھی ایک دہشتگرد جماعت ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت میں داخل ہونے کے لئے اپنے خون سے بیعت لکھنا پڑتی ہے۔ مگر ریڈیو پر احمدیوں کا پروگرام سن کر اور آج جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج سے میں احمدیت کا سپاہی ہوں۔

          کانگو برازاویل سے معلم داؤد صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے علاقے میں ریڈیو پر جہاد کے موضوع پر ایک پروگرام کیا۔ پروگرام کے بعد ایک دوست موہانی مورس نے فوراً فون کر کے کہا کہ ہم نے آپ کا پروگرام سنا ہے اور ہمیں بہت پسند آیا ہے لیکن ہمیں ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہم اسلام کے بارے میں ٹی وی پر کچھ اَور دیکھتے ہیں اور آپ کچھ اَور بتا رہے ہیں۔ آپ ہمارے گاؤں میں آئیں اور ہمیں یہ سمجھائیں۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق ان کے گاؤں میں جو کہ ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، پہنچے۔ اس شخص نے ہمارا اچھا استقبال کیا۔ اپنے گاؤں کے لوگوں کو بلایا کہ اسلام کے بارے میں جس نے کچھ پوچھنا ہے پوچھے۔ چنانچہ ہم نے وہاں جہاد کے بارے میں جماعت کا مؤقف بتایا، اسلام کا مؤقف بتایا اور پھر امن کے بارے میں اسلام کی حسین تعلیم پیش کی۔ اس کے نتیجہ میں ان کے سمیت تیس بیعتیں ہوئیں۔

دیگر ٹی وی۔ ریڈیو پروگرام

          اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کی چوبیس گھنٹے نشریات کے علاوہ دیگر ٹی وی پروگرام بھی چل رہے ہیں۔ 77ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینل کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ اس سال دو ہزار چھ سو چھتیس (2636) ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ چودہ سو تیس (1430) گھنٹے وقت ملا۔ جماعتی ریڈیو سٹیشنوں کے علاوہ دیگر ریڈیو سٹیشنوں کے ذریعہ سے تیرہ ہزار سے اوپر گھنٹوں کا وقت ملا اور بارہ ہزار سے اوپر پروگرام نشر ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے ان پروگراموں کے ذریعہ محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ کروڑ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا۔

مختلف ممالک کے اخبارات میں جماعتی خبروں کی اشاعت

          اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی اشاعت۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر چار ہزار چھ سو اکاون (4651) اخبارات نے چھ ہزار دو سو بہتّر (6272) جماعتی مضامین، آرٹیکل اور خبریں شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد تقریباً چونسٹھ کروڑ اُناسی لاکھ سے اوپر بنتی ہے۔

          امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ فرانس کے شہر سٹراس برگ میں کافی عرصے سے نمائندوں اور اعلیٰ حکام سے رابطے کی کوشش کی جا رہی تھی مگر کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ ایک دن کسی مخالف نے ہمارے مشن ہاؤس میں سؤر کی دو کٹی ہوئی ٹانگیں پھینک دیں۔ اس واقعہ کے بعد اخبار ڈی این اے (DNA) کی نمائندہ صحافی سے رابطہ ہوا۔ وہ مشن ہاؤس آئیں اور انہیں جماعت کا تفصیلی تعارف کرایا گیا اور لٹریچر دیا گیا۔ ان کو میری کتاب بھی دی گئی۔ چنانچہ موصوفہ نے اخبار کے تقریباً آدھے سے زیادہ صفحہ پر میری تصویر کے ساتھ مضمون شائع کیا۔ یہ اخبار اس ریجن کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ اس کے قارئین کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ اور موبائل پر پڑھنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی تعداد تک جماعت کا پیغام پہنچا اور بعض اعلیٰ حکام جن میں نیشنل اور صوبائی ممبرز آف پارلیمنٹ اور سینیٹرز اور دیگر عہدیدار شامل تھے ان کے ساتھ رابطہ ہوا۔

تحریک وقف نو

          تحریک وقف نو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال واقفین نَو کی تعداد میں تین ہزار چار سو اکتالیس (3441) کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے بعد واقفین نَو کی کل تعداد ساٹھ ہزار دو سو انسٹھ (60259) ہو گئی ہے۔ اس میں دنیا بھر کے 111ممالک سے واقفین نَو شامل ہیں۔ لڑکوں کی تعداد چھتیس ہزار چار سو سینتیس (36437) ہے۔ لڑکیوں کی تعداد تیئس ہزار آٹھ سو بائیس (23822) ہے۔ اور تعداد کے لحاظ سے پاکستان اور بیرون پاکستان کا موازنہ اس طرح ہے کہ پاکستان کے واقفین نَو کی مجموعی تعداد اکتیس ہزار چار سو ایک (31401) ہے جبکہ بیرون پاکستان کی یہ تعداد اٹھائیس ہزار آٹھ سو اٹھاون (28858) ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ واقفین پیش کرنے والی جماعتوں میں اوّل ربوہ ہے جس کے دس ہزار سے اوپر واقفین ہیں۔ بیرون پاکستان زیادہ واقفین پیش کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر جرمنی ہے جہاں سات ہزار سے اوپر واقفین ہیں۔پھر انگلستان ہے جن کے پانچ ہزار سے اوپر واقفین ہیں۔ پھر انڈیا ہے جہاں چار ہزار سے اوپر واقفین ہیں۔ اور اس کے بعد دوسرے ہیں۔

شعبہ مخزن تصاویر

          شعبہ مخزن تصاویر ہے یہ بھی اچھا کام کر رہا ہے۔ جماعتی تاریخ کو تصویروں کے ساتھ محفوظ کر رہا ہے اور اس میں بھی نئی اچھی ایڈیشن ہوئی ہے۔

احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سینٹر

          احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سینٹر ہے اس میں بھی نیا کام شروع ہوا ہے اور مختلف جگہوں سے پرانی تاریخ کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ پرانے تبرکات کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نئی نئی معلومات، پرانی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی لائبریریوں سے جمع کی جا رہی ہے۔

 مجلس نصرت جہاں

           مجلس نصرت جہاں اسکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں چھتیس (36) ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ پانچ ہومیو پیتھک کلینک بھی کام کر رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں ہمارے اکیالیس (41) مرکزی ڈاکٹرز اور پندرہ مقامی ڈاکٹر خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تیرہ ممالک میں ہمارے 714 ہائر سیکنڈری سکول، جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں جن میں ہمارے سترہ (17) مرکزی اساتذہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

          امیر صاحب گھانا لکھتے ہیںکہ ہمارے ہسپتال خدمت میں بہت نمایاں ہیں۔ حکومت گھانا نے ہمیشہ ان ہسپتالوں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس سال ہمارے ہسپتالوں میںکل دو لاکھ چار ہزار انسٹھ مریضوں کا علاج کیا گیا جس میں سے دو ہزار نو سو انتیس مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔ ان ہسپتالوں میں جو بڑے آپریشن کئے گئے ان کی تعداد تین ہزار سے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکس اینڈ انجنیئرز

          انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکس اینڈ انجنیئرز۔ ان کے ذریعہ سے بھی بعض پراجیکٹس چل رہے ہیں۔ کم قیمت پر بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع۔ پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنا اور دوسرے پراجیکٹ۔ اس سال ایک سو انچاس پمپ لگائے گئے جن میں برکینا فاسو کے اکاون (51)۔ مالی سینتالیس (47)۔ یوگنڈا پینتیس (35) اور اسی طرح دوسرے ممالک کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر 1704 واٹر پمپ افریقہ کے دور دراز مقامات پر لگ چکے ہیں۔ اس وقت مزید دو سو تین (203) جگہوں پر پمپ لگ رہے ہیں جن سے پندرہ سے سترہ لاکھ افراد تک پینے کا صاف پانی پہنچے گا۔ سولر سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف افریقن ممالک میں لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے بجلی پہنچائی جا رہی ہے۔

          ماڈرن ویلیج کے قیام کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افریقہ کے آٹھ ممالک میں سولہ ماڈرن ویلیج کی تعمیر ہوئی ہے اور ابھی اور آگے مزید بھی بنائے جا رہے ہیں۔

          الاڈا ریجن میں ’سویو ماڈرن ویلیج‘ کے افتتاح کے موقع پر الاڈاکمیون کے میئر نے کہا کہ مجھے یہاں آ کر خوشی ہوئی ہے۔ میں اپنے علاقے میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس ماڈرن ویلیج کی تعمیر سے اس گاؤں کے بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ یہ جماعت کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ یہ موقع خدا کا بھی شکر کرنے کا ہے جس نے جماعت کو یہ توفیق دی۔ اس جماعت کو یہ احساس ہے کہ اکیلے شخص کی خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی اس لئے انہوں نے اجتماعی مسائل حل کر کے بہت سارے لوگوں کو خوشی دی ہے اور یہی حقیقی خوشی ہے کہ اسی وجہ سے جماعت احمدیہ اس غریب عوام کی بہبود کے لئے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح پینے کا صاف پانی مختلف جگہوں پہ مہیاہوا۔ لوگوں کے بڑے خوشی کے اظہار ہوتے ہیں ۔

          بینن سے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ جماعت بے بومَے (Gbebome) میں ڈیڑھ سال قبل مخالفین نے گاؤں کے کنوئیں سے احمدیوں کا پانی بند کر دیا تھا۔ ایک احمدی خاتون کو پانی بھرتے مارا، اس کا پانی سے بھرا ہوا ٹب بھی توڑ دیا۔ اس کے بعد اس گاؤں میں جماعت نے بھی ایک کنواں بنوایا۔ اب گزشتہ ماہ اطلاع ملی ہے کہ غیر احمدیوںکا وہ کنواں جس سے انہوں نے احمدیوں کو پانی بھرنے سے روکا تھا وہ خشک ہو گیا ہے اور گاؤں والوں نے متعدد بار ماہرین بلوائے اور اس کی صفائی اور مرمت بھی کروائی مگر پانی نہیں نکلا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نیچے کا پانی خشک ہو چکا ہے۔ اب یہ غیراحمدی ہمارے کنوئیں سے پانی بھرنے آتے ہیں اور احمدی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیراحمدیوں کو پانی بھرنے کے لئے ترجیح دیتے ہیں۔ احمدیوں کا یہ نمونہ دیکھ کر اب گاؤں والے جماعت کے حق میں ہورہے ہیں۔

ہیومینٹی فرسٹ

          ہیومینٹی فرسٹ گزشتہ بائیس سال سے قائم ہے۔ دنیا کے انچاس ممالک میں رجسٹر ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آفات میں اور دوسرے عام پروگراموں میں جو جاری پروگرام ہیں ان میں اچھا کام انجام دے رہی ہے۔

چیریٹی واکس (Charity Walks)

          چیریٹی واک کے ذریعہ سے بھی مختلف تنظیمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی چیریٹی جمع کرتی ہیں اور پھر مقامی چیریٹیز کو بھی اور ہیومینٹی فرسٹ کو بھی مہیا کرتی ہیں۔

 فری میڈیکل کیمپس

           فری میڈیکل کیمپس بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس سال انڈونیشیا، انڈیا، بینن اور مختلف ممالک میں فری میڈیکل کمپس کے ذریعہ سے ستانوے ہزار دو سو تیرہ (97213) سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔

آنکھوں کے فری آپریشنز

          آنکھوں کے فری آپریشنز۔ دوران سال اس پروگرام کے تحت ایک ہزار چار سو آپریشن کئے گئے۔ اور اب تک اس پروگرام کے تحت بارہ ہزار سے زائد افراد کے آنکھوں کے آپریشن کئے جا چکے ہیں۔

خون کے عطیات

          خون کے عطیہ کے لئے انڈیا میں بھی کام ہو رہا ہے اور امریکہ میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی۔

قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبرگیری

          قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبرگیری کا کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہا ہے اور اس کا بھی حکومت پر بھی اور جیل کے محکمے پر بھی اور قیدیوں پر بھی نیک اثر ہو رہا ہے۔

نومبائعین سے رابطے

          نومبائعین سے رابطے کی بحالی رپورٹ یہ ہے۔ جو بہت سارے رابطے ٹوٹ گئے تھے، ضائع ہو گئے تھے۔ غانا نے اس سال چھبیس ہزار سات سو تریسٹھ نومبائعین سے رابطہ بحال کیا۔ برکینا فاسو نے تیئس ہزار سے اوپر نومبائعین سے رابطہ بحال کیا۔ نائیجیریا نے اکیس ہزار سے اوپر۔ مالی نے گیارہ ہزار سے اوپر۔ آئیوری کوسٹ نے نو ہزار سے اوپر۔ سیرالیون نے پانچ ہزار سے اوپر۔ اسی طرح گنی بساؤ پانچ ہزار سے اوپر۔ کینیا چار ہزار سے اوپر۔ نائیجیریا تین ہزار سے اوپر۔ سینیگال تقریباً تین ہزار۔ بینن بھی دو ہزار سے اوپر۔ ٹوگو نے دو ہزار۔ تنزانیہ بھی اور اسی طرح باقی ممالک ہیں۔

نومبائعین کے لئے تربیتی کلاسز

          نومبائعین کے لئے تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز کا انعقاد ہوا۔ پانچ ہزار بانوے جماعتوں میں نومبائعین کی تربیت کے لئے تربیتی کلاسز، تعلیمی کلاسز اور ریفریشر کورس کئے گئے جن میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد تین لاکھ اکتالیس ہزار ایک سو بتیس ہے اور اس کے علاوہ شامل ہونے والے نومبائعین کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار ہے۔ ان کلاسز میں ایک ہزار آٹھ سو تریسٹھ اماموں کو ٹریننگ دی گئی۔

امسال ہونے والی بیعتیں

          اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال جو بیعتوں کی تعداد ہے وہ پانچ لاکھ چوراسی ہزار سے اوپر ہے۔ 119 ممالک سے تقریباً تین سو تین (303) اقوام احمدیت میں داخل ہوئیں۔

          ایک سو انیس ممالک میں بیعتیں ہوئی ہیں جن میں پہلے نمبر پر مالی ہے جہاں ایک لاکھ چالیس ہزار سے اوپر بیعتیں ہوئی ہیں۔ پھر نائیجیریا کی بیعتوں کی تعداد ستر ہزار سے اوپر ہے۔ نائیجر میں اکسٹھ ہزار سے اوپر ہے۔ گنی کناکری میں اکاون ہزار سے اوپر ہے۔ سیرالیون میں پچاس ہزار سے اوپر ہے۔ بینن میں بھی انچاس ہزار سے اوپر ہیں۔ کیمرون کی بتیس ہزار سے اوپر ہیں۔ برکینا فاسو ستائیس ہزار سے اوپر ہیں۔ سینیگال پچیس ہزار سے اوپر۔ آئیوری کوسٹ چودہ ہزار سے اوپر۔ اور اسی طرح مختلف ممالک ہیں۔

رؤیا کے ذریعہ جماعت کی طرف رہنمائی اور بیعتیں

           جو بیعتوں کے بعض واقعات ہوئے ہیں وہ بتاتا ہوں کہ سینیگال کی سرحد کے قریب ایک بڑے شہر کائی (Kayes) میں جماعت احمدیہ کو ریڈیو لگانے کی توفیق ملی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینیگال اور موریطانیہ کے بعض حصوں میں بھی سنا جاتا ہے۔ وہاں ریڈیو کے پروگراموںکے نتیجہ میں ایک آدمی محمد امین کناتے صاحب سے رابطہ ہوا۔ موصوف محمد امین نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ مشرق کی طرف سے آگ نکلی ہے جس کی وجہ سے لوگ مغرب کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ان بھاگنے والوں میں چینی، جاپانی اور ہر رنگ و نسل کے لوگ ہیں۔ چنانچہ وہ بھی گھبراہٹ میں بھاگ کر خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں جہاں سے اس طرح نیچے گرتے ہیں گویا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموںمیں گرے ہوں اور ساتھ ہی ان کو زور سے آواز آتی ہے ’احمد۔ احمد‘۔ موصوف بھی خواب میں یہ الفاظ دہراتے ہیں اور اسی کیفیت میں ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس خواب کے چند دن بعد موصوف نے اتفاقاً جماعت کا ریڈیو سنا جس پر امام مہدی کی آمد کے حوالے سے پروگرام چل رہا تھا۔ جب مبلغ نے کہا کہ امام مہدی آ گئے اور ان کا نام غلام احمد ہے تو فوراً ان کے دل نے کہا کہ یہ تو وہی خواب پوری ہو رہی ہے۔

          نائیجر کے مبلغ لکھتے ہیں کہ نیامی شہر کے تین پڑھے لکھے احباب کو بیعت کی توفیق ملی۔ بیعت سے قبل تینوں نے جماعتی لٹریچر کا کافی مطالعہ کیا۔ ان بیعت کرنے والوں میں سے ایک گویتا ادریس صاحب ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ بیعت کرنے کے بعد ان کے دل میں ایک خلش سی تھی کہ کہیں راستے کا انتخاب غلط تو نہیں ہو گیا۔ چنانچہ اس کشمکش میں رات دعا کر کے سویا کہ اے اللہ تُو ہی میری رہنمائی کر۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ میں مسجد کے باہر کھڑا ہوں۔ اور انہوں نے مجھے مسجد سے باہر آتے ہوئے دیکھا اور کہتے ہیں مجھے آپ نے مصافحہ کا شرف بخشا۔ اور کہتے ہیں کہ اس خواب کے بعد مجھے دلی سکون ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی کر دی ہے اور مجھے سچائی کا راستہ دکھا دیا ہے۔

          اسی طرح قرغیزستان سے ایک دوست خالماتوف عبدالرسول (Khalmatov Abdurasul) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ یونس صاحب کی شہادت دسمبر 2015ء میں ہوئی تھی۔ وہاں قرغیزستان کے احمدی کو شہید کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے جنوری 2016ء میں خواب میں شہید مرحوم کو دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ میں مکّہ مکرمہ میں حج کر رہا ہوں۔ اسی دوران یونس جان شہید نظر آتے ہیں اور مجھ سے میرا حال پوچھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری جماعت ٹھیک ٹھاک ہے؟ سوال پوچھتے ہیں۔ میں نے ان کو کوئی جواب تو نہ دیا لیکن جب مَیں نیند سے بیدار ہوا تو اس خواب کا مجھ پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ اسی وجہ سے میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا اور 18؍جنوری 2016ء کو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔

          کینیڈا سے امیر صاحب لکھتے ہیںکہ ایک سنّی نوجوان شجاع صاحب تقریباً دو سال سے جماعت کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔ ان کی ہر قسم کی علمی رہنمائی کی لیکن کوئی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ موصوف عمرہ پر بھی گئے وہاں بھی دعا کی۔ اسی طرح گزشتہ سال یوکے کے جلسہ پر بھی آئے۔ جمعہ وغیرہ بھی ہمارے ساتھ پڑھ لیتے تھے لیکن بیعت کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس سال جنوری میں ایک دن اچانک فون کیا کہ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا اور  بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ بیعت کرنے سے قبل موصوف نے کہا کہ رات دعا کر کے سویا تو خواب میں مجھے کہا گیا کہ اس کام کو چھ ماہ سے زائدنہیں لگنے چاہئے تھے۔ تم نے کیوں اتنی دیر کر دی۔ اور یہ پیغام کافی ناراضگی لئے ہوئے تھا۔ اب اگر بیعت نہ کرتا تو خدا تعالیٰ نے سزا دینی تھی اس لئے بڑی مشکل سے صبح کا انتظار کیا۔

          فرنچ گیانا سے ہمارے مربی انچارج لکھتے ہیں کہ جماعت کے نیشنل صدر کی ہمشیرہ اکثر کہتی تھیں کہ وہ عیسائی مذہب سے مطمئن نہیں ہیں۔ قریباً گذشتہ تین سال سے جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کر رہی تھیں اور ہماری دعوت پر مختلف جماعتی پروگراموں میں شامل بھی ہوتی رہیں لیکن بیعت نہیں کر رہی تھیں۔ ایک دفعہ ہمارے مشن ہاؤس میں آئیں تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر تو ایمان رکھتی ہیں اس لئے پوری توجہ سے دعا کریں اور اسی ہستی سے رہنمائی حاصل کریں کہ سچ کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے دعا شروع کر دی کہ اگر جماعت احمدیہ سچوں کی جماعت ہے تو میری بھی رہنمائی کر تا کہ میں بھی جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ قریباً ایک ہفتے کے بعد موصوفہ نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا کہ ایک ساتھ کھڑے ہیں اور ایک ساتھ ہی فرنچ گیانا کے دونوں مبلغین یعنی صدیق منور صاحب اور محمد بشارت صاحب کو دیکھا۔ موصوفہ کہتی ہیں کہ جب میں بیدار ہوئی تومیں خوشی سے رو رہی تھی اور میرے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ میں بہت خوش تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرما دی۔

خطبات/خطابات کا اثر

          خطبات کے ذریعہ سے بعض لوگوں پہ اثر ہوتا ہے۔ بیعتیں کرتے ہیں۔ امیر صاحب گیمبیا کہتے ہیں کہ ایک گاؤں کیرنوگور (Ker Ngorr) میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو ایک دوست الحاجی فائے (Faye) صاحب نے جماعت کی شدید مخالفت کی۔ جماعتی لٹریچر کو ہاتھ تک لگانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ لیکن ہمارے داعیین الی اللہ نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے۔ ایک دن گاؤں میں نومبائعین کے لئے تربیتی کلاس کا پروگرام رکھا گیا۔ ہمارے داعیین الی اللہ نے موصوف کو اس بات پر منا لیا کہ وہ بیشک کوئی کتاب نہ پڑھیں مگر ایک دفعہ ہمارے ساتھ مشن ہاؤس چلے جائیں اور ہمارے پروگرام میں شامل ہو جائیں۔ ہم وہاں آپ کو کوئی تبلیغ نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ آپ صرف پروگرام میں شامل ہو کر ہماری باتیں سن لیں۔ چنانچہ موصوف جب مشن ہاؤس آئے تو کہنے لگے میں نے آپ کی کلاس میں شامل نہیں ہونا۔ میں یہاں ٹی وی والے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لیتا ہوں۔ اس پر انہیں ٹی وی والے کمرے میں بٹھا کر ٹی وی پر ایم ٹی اے لگا دیا گیا اور انہیں وہیں چھوڑ کر باقی سارے لوگ کلاس میں شامل ہونے کے لئے مسجد چلے گئے۔ اس دوران موصوف نے ایم ٹی اے پر میرا خطبہ سنا۔ کلاس کے بعد جب ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ یہ شخص کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میرے لئے ممکن نہیں کہ اب پیٹھ پھیروں۔ چنانچہ موصوف اپنے خاندان کے دس افراد سمیت جماعت میں داخل ہو گئے۔

          جلسہ سالانہ قادیان 2015ء کے موقع پر میرا جو خطاب تھا وہ نشر ہوا تو کانگو کے شہروں میں سنا جا رہا تھا۔ بن کینگے (Ben Kenge) صاحب جو ایک ٹی وی کمرشل ڈائریکٹر ہیں انہوں نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت احمدیہ کے خطابات نے اسلام کے متعلق ہمارے سامنے بالکل ایک نیا زاویہ نگاہ رکھا ہے۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں ان کو پتا ہے کہ میں خواہ مخواہ متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہوں۔ لیکن امام جماعت احمدیہ کے خطابات سن کر میں کہتا ہوں کہ بہت جلد ساری دنیا اس پیغام کو ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔

          کیمرون کے ویسٹرن ریجن کے شہر فمبان (Fumban) کے ایک نو مبائع نے ہمارے معلم کو کہا کہ مَیں ایم ٹی اے پر خطبہ سنتا ہوں اور یہ خطبات ایسے ہوتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بولے جا رہے ہیں۔

مخالفین کے پراپیگنڈا کے نتیجہ میں بیعتیں

          مخالفین کے پراپیگنڈے کے نتیجہ میں بیعتیں۔ پنجاب (انڈیا) کے ایک گاؤں شیخوپورہ کے ایک دوست پردیپ صاحب کافی عرصے سے زیر تبلیغ تھے مگر بیعت نہیں کی ہوئی تھی۔ ایک دن مقامی جماعت کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ابھی ان سے گفتگو کا آغاز ہی ہوا تھا کہ وہاں دو دیو بندی مولوی چندہ لینے کی غرض سے پہنچ گئے۔ ان مولویوں سے وہاں قریباً دو گھنٹے کے قریب اختلافی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ دونوں مولوی لاجواب ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس بات کا پردیپ صاحب پر بہت گہرا اثر ہوا چنانچہ انہوں نے اپنی پوری فیملی کے ساتھ بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی۔

بیعتوں کے تعلق میں بعض ایمان افروز واقعات

          بیعت کے تعلق میں بعض اور ایمان افروز واقعات۔ کانگو برازویل سے معلم یوسف صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے جلسہ سالانہ میں اتھاریٹیز کے علاوہ چرچ کے پادریوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ایک پادری جو ہماری ایک جماعت جماعت کیوسی میں رہائش پذیر ہے اور اسی گاؤں میں ایک چرچ میں تعینات ہے وہ بھی ہمارے جلسہ میں مدعو تھا۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں جماعت کا مؤقف سن کر بہت متاثر ہوا اور جاتے ہوئے اپنے ساتھ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کتاب بھی لے گیا۔ چند دن کے بعد یہ پادری دوبارہ ہمارے پاس آیا اور کہا کہ میں نے بہت سوچا ہے اور آپ کو ہی حق پر پایا ہے۔ میں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ موصوف نے بیعت کر لی اور پھر اپنی فیملی کو بھی تبلیغ کی اور وہ بھی جماعت میں شامل ہو گئے۔

          بے شمار واقعات ہیں۔ بیان کرنے تو بہت مشکل ہیں۔

           نومبائعین کو احمدیت چھوڑنے کی دھمکیاں۔ مخالفت۔ مال اور مدد کا لالچ اور نومبائعین کی ثابت قدمی

          امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ جماعت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے معاندین احمدیت اور حاسدین بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی جماعت کاپودا لگتا ہے اور لوگ اسلام کو قبول کرتے ہیں مولوی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور نومبائعین کو لالچ دیتے ہیں اور ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ امسال جنوری میں پاراکو ریجن کی ایک نئی جماعت میں پیش آیا۔ مولویوں نے اس گاؤں میں بڑا اکٹھ کیا اور نومبائع کو مختلف لالچیں دیں کہ احمدیت چھوڑ دیں۔ جماعت کے افراد نے ان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی تو کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ نے اگر آپ کو مسجد بنا بھی دی تو آپ سے ساری زندگی چندے کے نام پہ پیسے مانگتے رہیں گے۔ انہوں نے نیا نبی بنا لیا ہے، شریعت کو تبدیل کر دیا ہے اور جماعت احمدیہ جہاد کو نہیں مانتی۔ اس قسم کی باتوں کے ساتھ ان کو تنگ کرتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے نومبائعین نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں وہاں سے نکال دیا۔

          امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ایک خاتون درامے دینیبا صاحبہ کو اپنی بہن کے سسرال کی طرف سے احمدیت کا پیغام ملا۔ انہوں نے جب مزید تحقیق کی تو ان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی سچائی واضح ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے یہ دور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی طرح نظر آنے لگا۔ میری نمازوں میں نمایاں فرق پڑ گیا۔ چنانچہ ایک دن میں نے بیعت کر لی۔ بیعت کی وجہ سے میرے سسرال شدید مخالفت کرنے لگے اور میرے خاوند نے مجھے تین بچوں سمیت گھر سے نکال دیا۔

          مصر کی ایک خاتون کہتی ہیں میں احمدی ہوں۔ ایک غیر احمدی لڑکا میرا یونیورسٹی فیلو اور شریف النفس انسان ہے۔ اس نے میرا رشتہ مانگا۔ میں نے اور میرے والد صاحب نے اس کو احمدیت کے بارے میں بتایا اور دو کتابیں پڑھنے کے لئے دیں لیکن وہ قائل نہ ہوا اور مجھے احمدیت چھوڑنے کے لئے کہا لیکن میں نے انکار کر دیا اور دین کو دنیا پر ترجیح دی۔

          امیر صاحب سپین لکھتے ہیں کہ موریطانیہ کے ایک نومبائع نوح صاحب 2012ء میں احمدی ہوئے تھے۔ ان کے سسر نے ان کی بیوی کو ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے گھر بلوا کر ان سے رشتہ ختم کر لیا۔ اس پر اس نومبائع نے کہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے اگر میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو نہ رہے، مجھے کوئی بھی احمدیت سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وفا اور اخلاص میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

بیعت کے نتیجہ میں پاک تبدیلیاں

          تنزانیہ کے لوکل معلم لکھتے ہیں کہ شیانگا ریجن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی ترقی کر رہی ہے۔ وہاں کے ریجنل کمشنر صاحب نے کہا مجھے پتا ہے کہ شیانگا کے لوگ زیادہ تر بے دین ہیں مگر پھر بھی احمدیت کے پیغام سے کافی متاثر ہو رہے ہیں اور احمدیت قبول کر رہے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ احمدیت کی وجہ سے ان میں نیک روحانی تبدیلی آ رہی ہے۔ آپ لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کہ شیانگا کے تمام لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائے کیونکہ آپ جو دین سکھا رہے ہیں اس سے لوگ مہذب بنتے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جرائم وغیرہ کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔

          کانگو جماعت کے ایک نومبائع کہتے ہیں پہلے میں تعویذ وغیرہ کو مانتا تھا لیکن جب سے میں نے اسلام احمدیت کی تعلیم کو مانا ہے اور عبادت شروع کی ہے مجھے سمجھ آئی ہے کہ میں بھٹکا ہوا تھا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے وہ راستہ لیا ہے جو خدا کی طرف جاتا ہے۔

دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کا انجام

          مایوٹے سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ مایوٹے میں جماعت کو کافی مخالفت کا سامنا ہے۔ مجھے بھی انہوں نے دعا کے لئے لکھا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا، یہ لوگ خود اپنی آگ میں جل جائیں گے۔ تو کہتے ہیں کہ ایک عجیب نشان ظاہر ہوا کہ مایوٹے میں ایک شخص جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ اس نے خاکسار کو فون کر کے دھمکیاں دیں اور کہا کہ آپ لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس شخص کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کسی طرح بھی باز نہ آتا اور جماعت کے خلاف ان کی بدکلامی جاری رہی۔ چنانچہ چند دن قبل اس شخص کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ نہر میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھ کر نہا رہا تھا جہاں پانی بہت کم تھا مگر پیچھے سے پانی کا ایک ریلا آیا۔ جس جگہ وہ بیٹھا تھا وہاں اس کی قمیض کسی چیز کے ساتھ اٹک گئی اور اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا اور اس ریلے کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔ اس واقعہ کے تین دن بعد اس کی نعش ملی۔ اس طرح یہ واقعہ احباب جماعت کے ایمانوں میں اضافے کا موجب بنا۔

          اسی طرح مخالفین کے انجام کے بہت سارے واقعات ہیں۔

          اللہ تعالیٰ داعین الی اللہ کی حفاظت کس طرح فرماتا ہے۔ تنزانیہ کے معلم لکھتے ہیں کہ خاکسار اپنی جماعت کے سیکرٹری مال حسن ناؤجا صاحب کے ساتھ نومبائعین کو ملنے کے لئے قریبی گاؤں گیا۔ وہاں سے واپسی پر مَیں نے دیکھا کہ ہمارے پیچھے ایک شیر بھاگتا ہوا آ رہا ہے۔ راستہ خراب ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کی رفتار بہت آہستہ تھی اس لئے شیر بہت قریب آ گیا اور ہم پر حملہ آور ہو گیا۔ حملہ کی وجہ سے خاکسار موٹر سائیکل سے چھلانگ لگا کر نیچے اترا تو شیر اچانک رُک گیا اور پیچھے مڑ گیا۔ کچھ دور جا کر ایک دوسرے شیر کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔ دونوں شیر ہمیں دُور سے دیکھتے رہے لیکن دوبارہ ہماری طرف نہیں آئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کو محفوظ رکھا اور ہمیں واپس پہنچا دیا۔

          مالی کے معلم لکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک تبلیغی سفر کے دوران بارش کی وجہ سے تمام راستے خراب ہو گئے۔ ہماری گاڑی ایک گڑھے میں بری طرح پھنس گئی اور باوجود ہر قسم کی کوشش کے گاڑی گڑھے سے باہر نہ نکل سکی۔ شام کا وقت ہوا جا رہا تھا جہاں ہم نے پہنچنا تھا وہ انتظار کر رہے تھے۔ اس پر خدا کے حضور دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ! ہم تو تیرے کام سے ہی نکلے ہیں اب تو ہماری مدد فرما۔ دعا سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ ایک کرین سامنے سے آ رہی ہے جس پر دل خدا کی حمد سے پُر ہو گیا۔ اس کی مدد سے ہماری گاڑی نکالی گئی۔ اس جگہ پر کرین کا آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔ چنانچہ ہم اپنی مقررہ منزل پر وقت پر پہنچ گئے۔

جماعتی جلسوں میں شامل ہونے والے غیرازجماعت مہمانوں کے تأثرات

          غیر از جماعت جو شامل ہوتے ہیں ان کے ایک دو تأثرات بیان کرتا ہوں۔

           صوبہ آسام ہندوستان کے ایک ٹی وی چینل ’’پراگ ٹی وی‘‘ کے ایگزیکٹو پروڈیوسر اپنی ٹیم کے ساتھ جلسہ قادیان (2015ء میں) شامل ہوئے۔ موصوف نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں بار بار قادیان آؤں اور اس جلسہ میں شامل ہوں۔ آپ کی جماعت کے ساتھ جو تعلق بن گیا ہے اس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ جماعت احمدیہ کے روحانی امام دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو خدمات سرانجام دے رہے ہیں یہ کسی اور مسلم لیڈر میں ہمیں نظر نہیں آتا۔ میں آئندہ کوشش کروں گا کہ اس پروگرام کو Miss نہ کروں۔

          بینن کے جلسہ سالانہ کے موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نمائندے آئے۔ کہنے لگے کہ بینن میں جماعت اپنے کاموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہر کوئی جماعت کو جانتا ہے۔ جماعت مساجد تعمیر کر رہی ہے۔ سکول کھول رہی ہے۔ ہسپتال، یتیم خانے، ماڈل ولیج بنا رہی ہے۔ میڈیکل کیمپس کا انعقاد کر رہی ہے۔ ڈونیشن کے پروگرام کرتی ہے۔ عید کے موقع پر ضرورت مندوں میں تحائف تقسیم کرتی ہے۔ بین المذاہب پروگرامز کا انعقاد کرتی ہے۔ اور ایسے پروگرام ہیں جو بڑا متاثر کرتے ہیں۔

          یہ میں نے مختصر رپورٹ بیان کی ہے۔

          حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

          ’’یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو بجھا دیں مگر خدا اپنے گروہ کو غالب کرے گا۔ تُو کچھ بھی خوف نہ کر۔ مَیں تجھے غلبہ دوں گا۔ ہم آسمان سے کئی بھید نازل کریں گے اور تیرے مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر کو ہم وہ باتیں دکھلائیں گے جن سے وہ ڈرتے تھے۔ پس تُو غم نہ کر۔ خدا ان کی تاک میں ہے۔ خدا تجھے نہیں چھوڑے گا اور نہ تجھ سے علیحدہ ہوگا جب تک کہ وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلائے۔ کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں بھیجا گیا جس کے دشمنوں کو خدا نے رسوا نہ کیا۔ ہم تجھے دشمنوں کے شر سے نجات دیں گے۔ ہم تجھے غالب کریں گے اور مَیں عجیب طور پر دنیا میں تیری بزرگی ظاہر کروں گا۔ مَیں تجھے راحت دوں گا اور تیری بیخ کنی نہیں کروں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور تیرے لئے میں بڑے بڑے نشان دکھاؤں گا۔ … ان کو کہہ دے کہ مَیں صادق ہوں۔ پس تم میرے نشانوں کے منتظر رہو۔ حجت قائم ہو جائے گی اور کھلی کھلی فتح ہوگی۔ … وہ چاہتے ہیں کہ تیرا کام نا تمام رہے لیکن خدا نہیں چاہتا مگر یہی کہ تیرا کام پورا کرکے چھوڑے۔ خدا تیرے آگے آگے چلے گا اور اس کو اپنا دشمن قرار دے گا جو تیرا دشمن ہے۔ جس پر تیرا غضب ہوگا میرا بھی اُسی پر غضب ہوگا۔ اور جس سے تو پیار کرے گا مَیں بھی اسی سے پیار کروں گا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور انجامکار ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ … میری فتح ہوگی اور میرا غلبہ ہوگامگر جو وجود لوگوں کے لئے مفید ہے مَیں اس کو دیر تک رکھوں گا۔ تجھے ایسا غلبہ دیا جائے گا جس کی تعریف ہو گی اور کاذب کا خدا دشمن ہے اس کو جہنم میں پہنچائے گا۔ ‘‘

(تتمہ حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 588 تا 590)

          اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جلد ہماری زندگیوں میں پورے ہوں اور ہم کامیابیوں اور کامرانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں