خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع تقریب تقسیم اسناد جامعہ احمدیہ یوکے، کینیڈا 2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج یوکے(UK) اور کینیڈا کی شاہد کلاس کے فارغ التحصیل طلباء کا Convocationہے۔ چٹھی کلاس شاہد پاس کر کے کینیڈا سے نکلی ہے اور یوکے(UK) کے جامعہ احمدیہ کی چوتھی ہے۔ اب آپ کا پڑھائی کا دَور تو ایک لحاظ سے ختم ہو گیا۔ وہ جو پڑھائی تھی جس میں آپ نے کلاسیں  attend کرنی تھیں، امتحان دینے تھے اور پھر اگلی کلاسوں میں جانے کے لئے آپ کی، ہر ایک کی جستجو ہوتی تھی یہ دَور اب ختم ہوا۔ اب آپ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لئے تیار ہوئے ہیں اور عملی زندگی میں آپ کو مختلف جگہوں پر کام کرنا پڑے گا۔ بعض اپنے اپنے ممالک میں مشنری کے طور پر بھیجے جائیں گے۔ بعض کو پھر دوسرے ملک میں مشنری کے طور پر بھیجا جائے گا۔ بعضوں کو بعض دفاتر میں لگایا جائے گا۔ بہرحال اس عملی زندگی میں اب آپ کا ایک نیا دَور شروع ہو گا اور اس نئے دَور میں آپ کو اپنے رویّوں کو، اپنی حالتوں کو اس سے مختلف کرنا ہو گا جو بحیثیت طالبعلم آپ کی تھیں۔ اب آپ ایک مربی اور ایک مبلغ کے طور پہ کام کرنے والے ہیں۔ اور آپ کو مربی اور مبلغ بننے کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ مربی کا کیا کام ہے اور مبلغ کا کیا کام ہے؟ چاہے کسی بھی دفتر میں آپ کو لگایا جائے تب بھی آپ کی حیثیت جو مربی کی ہے وہ ہر جگہ قائم ہے۔ دنیا میں مختلف پیشوں میں لوگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بنتے ہیں۔ انجنیئربنتے ہیں۔ سائنٹسٹ بنتے ہیں۔ وکیل بنتے ہیں۔ استاد بنتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک محدود ماحول ہے۔ اس محدود ماحول کے اندر انہوں نے رہ کر کام کرنا ہے جبکہ آپ کا ماحول اور آپ کا میدان بہت وسیع ہے۔ آپ کی جو تعلیم تربیت ہوئی اس کے عملی اظہار کا اب جو وقت ہے وہ دوسروں سے مختلف ہے اور نہ صرف مختلف ہے بلکہ آپ کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

           آپ کا کام دنیا کو خدا تعالیٰ سے ملانا ہے اور انسانوں کا حق ادا کرتے ہوئے ان کی روحانی اور مادی زندگی کے سامان پیدا کرنا ہے اور یہ ایسے دو عظیم کام ہیں جو اگر انسان سوچے تو خوف سے کانپ جانا چاہئے۔ یہ یاد رکھیں کہ یہ کام آپ نے جو سات سال جامعہ میں گزارے اور جو تعلیم حاصل کی صرف اسی پر بناء رکھتے ہوئے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے آپ کو اس نئے دَور میں نئی سوچوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کے لئے آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ آپ عام معلم اور استاد نہیں ہیں۔ عام مربی نہیں ہیں کہ جس نے لوگوں کی تربیت کر دینی ہے۔ کسی سکول کے استاد نہیں بننے لگے کہ جہاں جا کے آپ نے صرف پڑھایا اور بس معاملہ ختم ہو گیا بلکہ آپ کا میدان جیسا کہ مَیں نے کہا بہت وسیع میدان ہے۔ بہت سارے استاد ہیں جو دنیا میں سکولوں میںپڑھاتے ہیں، دینیات بھی پڑھاتے ہیں، اسلامیات بھی پڑھاتے ہیں۔ ان کے سپرد ڈسپلن کا کام بھی ہوتا ہے، تربیت بھی کرتے ہیں۔ پھر بہت سارے لوگ ہیں جو میدان عمل میں دنیا میں امن کے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور ان کو دنیا میں بڑا پسند کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس ایکٹیویسٹس(Human Rights activists) ہیں،دوسرے حقوق کے علمبردار ہیں۔ یہ سب ہیں لیکن نہ ہی ان استادوں کو جو سکولوں میں پڑھا رہے ہیں، جو کالجوں میں پڑھا رہے ہیں، یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں، جو علم پھیلا رہے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو جو امن پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں یا کم از کم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امن پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ پتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار کیا ہے اور اسے کس طرح حاصل کرنا ہے؟ یہ بہت اہم بات ہے۔ اس کا ادراک صرف احمدی مربی اور مبلغ کو ہو سکتا ہے۔ گو ہر احمدی کو ہونا چاہئے اور ہو سکتا ہے لیکن سب سے زیادہ آپ لوگوں کو ہونا چاہئے اور ہو سکتا ہے کیونکہ آپ نے کم از کم اس تعلیم کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس میںآگے چل کر ان باتوں کے اِدراک میں مزید وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔

          پس یاد رکھیں کہ آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا پیار کس طرح حاصل کرنا ہے اور پھر دوسروں میں یہ بات ڈالنی ہے کہ خدا تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے اور اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے کتنی کوشش ہمیں کرنی چاہئے۔ تبھی ہماری یہ دنیا بھی سنور سکتی ہے اور عاقبت بھی سنور سکتی ہے۔ اپنوں کی تربیت بھی آپ نے کرنی ہے۔ غیروں تک بھی پیغام حق پہنچانا ہے اور ان کو حقیقی اسلام سے آشنا کروانا ہے۔ پس عملی میدان میں آ کر خدا تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بڑھ کر آپ لوگ کوشش کریں۔ اس کے لئے بہت چیزیں ضروری ہیں۔ فرائض تو ہیں ہی ہیں، عبادتیں، جو فرض عبادتیں ہیں، نمازیں ہیں وہ تو ہیں ہی ہیں۔ نوافل کی طرف بھی توجہ دیں۔ اپنے تعلق کو خدا تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی طرف توجہ دیں۔

           عبادتیں ہی ایک ایسا ذریعہ ہیں جس سے آپ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھ سکتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا وہ اِدراک پیدا کریں جواللہ تعالیٰ سے ایک کامل تعلق رکھنے والے کو پیدا کرنا چاہئے۔ انسان کبھی کامل نہیں بن سکتا۔ دنیا میں ایک ہی کامل انسان پیدا ہوا اور وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کے اُسوہ حسنہ پر چلو۔

           پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی قرآن کریم میں بتایا کہ باقی انبیاء بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے میں بڑھے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ مثال دی فرمایا کہ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:38) کہ ابراہیم وہ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے وفا کی۔ پس یہ بات یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کے لئے آپ لوگوں نے اس کا مصداق بننے کی کوشش کرنی ہے۔ وفا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ وفا میں بڑھنا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق میں بڑھنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے‘‘۔ پس آپ کی عبادتیں بھی اس معیار پر ہونی چاہئیں جہاں آپ کو خدا تعالیٰ سے وفا اور صدق اور اخلاص کے یہ معیار نظر آتے ہوں ۔ آپ کو نظر آتا ہو کہ آپ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں۔

           پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی‘‘۔( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 429۔ایڈیشن1985ئمطبوعہ انگلستان)

           پس یاد رکھیں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ اعزاز ملا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو  قرآن کریم میں بیان فرمایا تو یہ معمولی بات نہیں تھی۔ صدق اخلاص دکھانا، اس حد تک وفا میں چلے جانا جو اپنے اوپر ایک موت وارد کر لے یہ بہت بڑی بات ہے۔ اور ہر مربی اور مبلغ کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چیزیں ہم نے حاصل کرنی ہیں۔

           پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اپنی ساری لذتوں اور ساری شوکتوں پر  ہر وقت پانی پھیرنے کو تیار ہو۔ یہ نہیں ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اپنی اَنائیں بھڑک جائیں۔ اگر اپنی اَنائیں بھڑک رہی ہوں، اگر اپنی تربیت صحیح نہ ہو تو دوسروں کی تربیت کس طرح کر سکیں گے۔ اگر اپنا اَنا کا سوال ہو تو دوسروں کو پیغام حق کس طرح پہنچا سکیں گے۔ اگر اپنی تکلیفوں کا خیال ہو یا اپنی ذلّتوں کا خیال ہو تو کس طرح تربیت اور تبلیغ کے کام ہو سکتے ہیں۔ پس ان کاموں کو کرنے کے لئے جہاں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں وہاں یہ یاد رکھیں کہ وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس میں مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ فرائض کے ساتھ نوافل کو ادا کرتے چلے جانا ہے اور اپنے معیار تقویٰ کو بڑھاتے چلے جانا ہے۔ ہم نے اپنے اندر عاجزی اور قربانی کی روح نہ صرف بڑھانی ہے بلکہ جہاں بھی موقع ملے آپ نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کرنی ہے۔

           کہیں یہ سوال نہ اٹھنا چاہئے کہ اب مَیں میدان عمل میں آ گیا ہوں۔ فلاں مربی اور فلاں مبلغ کو فلاں فلاں سہولتیں میسر ہیں مجھے بھی ملیں گی تو مَیں یہ کام کر سکتا ہوں۔ہمارے پرانے مبلغین تھے  افریقہ میں ایسے مربیان اور مبلغین رہے ہیں جہاں کوئی سہولت نہیں تھی۔آج گیمبیا کے لڑکے ہمارے سامنے بیٹھے ہیں۔ تین یہاں سے پاس  ہوئے ہیں۔ مولوی محمد شریف صاحب نے مجھے خود بتایا کہ گیمبیا میں حالات ایسے تھے۔ وہ گیمبیا میں بڑا لمبا عرصہ رہے ہیں، فلسطین میں بھی رہے ہیں کہ الاؤنس ختم ہو جاتا تھا یا اتنا ہوتا نہیں تھا کہ کوئی گزارہ کر سکیں تو بازار سے بریڈ (Bread)خرید کے رکھ لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ پیسہ نہیں ہے تو وہی پرانے ٹکڑے بچا لیتے تھے اور ان کو پانی میں بھگو کے کھایا کرتے تھے۔ یہ عاجزی اور یہ قربانی تھی جو اُن لوگوں نے دی۔ آجکل اللہ تعالیٰ نے سہولتیں مہیا فرمائی ہیں اور جماعت خیال رکھتی ہے لیکن مطالبہ کسی کی طرف سے نہیں ہونا چاہئے۔ عاجزی کی راہیں جو ہیں وہ نہیں بھولنی چاہئیں۔ اپنی اَناؤں کے دام میں گرفتار نہیں ہونا چاہئے۔

           پس یہ یاد رکھیں کہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ وفا ہو گی تو عبادتیں بھی قبول ہوں گی۔ عبادتوں کے ساتھ ساتھ اس وفا کی وجہ سے عاجزی بھی پیدا ہو گی اور اسی وجہ سے پھر آگے انسان روحانیت میں بھی ترقی کرتا چلا جائے گا اور روحانیت کی ترقی ہی پھر مزید عبادتوں کی طرف مائل کرتی چلی جائے گی اور یہی ایک مربی اور مبلغ کی ترجیحات ہونی چاہئیں کہ اس نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور خالص وفا دار ہو کر تعلق پیدا کرنا ہے۔ اپنی عزت اور اپنے نام اور نمود اور شوکت کی کسی قسم کی کوئی پرواہ نہیں کرنی۔ ہروقت ہرقربانی کے لئے تیاررہنا ہے۔ پس یہ خاص نکتہ ہمیشہ ہرایک کے ذہن میں ہونا چاہئے۔

          پھر عبادتوں کے ساتھ ساتھ اس کا اِدراک پیدا کرنے کے لئے کہ وفا کیا چیز ہے اور کس طرح حاصل کرنی ہے قرآن کریم کا باقاعدگی سے مطالعہ ہے، اس پر غور ہے۔ یہاں سے آپ کو بہت ساری باتیں پتا لگیں گی کہ وفا کے معیار ہم نے کس طرح قائم کرنے ہیں۔ عاجزی کے معیار ہم نے کس طرح قائم کرنے ہیں۔ اپنی شوکت اور شان کو کس طرح ہم نے بھلانا ہے اور خدا کی خاطر ہر ذلّت اور رسوائی کو برداشت کرنے کے لئے کس طرح تیار ہونا ہے۔ کس طرح ہم نے دوسروں کی تربیت کرنی ہے۔ کس طرح ہم نے تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھنا ہے۔ پس  قرآن کریم آپ کے لئے ایک لائحہ عمل ہے۔ ضابطہ حیات ہے۔ تبلیغ کی گائیڈ بُک(Guide Book) ہے۔ تربیت کے لئے ایک معیار ہے۔ اس کو ہمیشہ پڑھیں اور اس پہ غور کریں۔ تفسیریں پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ جب انسان کو، ذہن کو جِلاء بخشتا ہے تو مزید نکات سامنے آتے ہیں۔ پس یہ چیز یاد رکھیں کہ قرآن کریم کا مطالعہ باقاعدہ آپ کے لئے ہونا چاہئے۔ ہرروزہردن اس تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پہ غور کا بھی وقت نکالیں۔

          پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں۔ ان کا مطالعہ ہے۔ان کا مطالعہ کریں۔ باقاعدگی سے مطالعہ ہونا چاہئے۔ پھر اس میں سے نوٹس تیار کریں۔ اس میں سے نکات نکالیں جو آپ کے تربیتی اور تبلیغی کاموں میں کام آئیں۔ جب تک آپ اس میں سے نوٹس نہیں بنائیں گے تو آپ صحیح طرح اس کی گہرائی تک نہیں جا سکتے جو  حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں علم عطا فرمایا ہے۔ پس اس علم کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ جب یہ حاصل ہو گا تبھی جہاں آپ کا علم بڑھے گا جہاں ہر اس شخص کا علم بڑھتا ہے جو اس پہ غور کرتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی بڑھے گی۔ آپ کی زندگی کے بارے میں اِدراک بھی حاصل ہو گا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم کا بھی پتا چلے گا۔

           پھر جو ایک اہم بات ہے اور اس زمانے میں بڑی ضروری ہے وہ خلافت سے تعلق اور کامل اطاعت ہے۔ اطاعت صرف عہد تک نہیں ہونی چاہئے بلکہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا تھا عملی اطاعت ہو۔ اس طرح اپنے آپ کو پیش کرو جس طرح مُردہ غَسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔(ماخوذ از خطباتِ نور صفحہ 131) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک موقع پر فرمایا کہ اطاعت بڑی مشکل بات ہے۔ کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بڑے اطاعت گزار ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بہت مشکل بات ہے۔ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے۔ بلکہ فرمایا جو پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ سلسلے کو بدنام کرتا ہے۔  آپ جو سلسلے کے محافظ ہیں، آپ جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق اپنوں کی بھی تربیت کرنی ہے اور غیروں تک بھی اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا ہے ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اطاعت ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ یاد رکھیں ’جو اطاعت نہیں کرتا وہ سلسلے کو بدنام کرتا ہے‘۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 74۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ جس طرح زندہ آدمی کی کھال اتاری جاتی ہے ویسی ہی اطاعت ہونی چاہئے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 74 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)  اب زندہ آدمی کی کھال معمولی بات نہیں ہے۔ ذرا سا ہماری انگلی پہ زخم آ جائے یا ذرا سی کھال اتر جائے یا جھرِیٹ آ جائے تو تکلیف ہوتی ہے کجا یہ کہ کھال اتاری جائے۔ اور کھال اتارنے میں جو تکلیف ہوتی ہے بڑی شدید تکلیف ہوتی ہے۔ مستقل رہنے والی تکلیف ہے۔ اس میں بڑی جلن ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اطاعت کرنے سے بعض دفعہ اس طرح تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن تم نے یہ تکلیف برداشت کرنی ہے اور اطاعت کرنی ہے۔ اور  جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ تربیت اور تبلیغ کا کام کریں گے اور اپنے آپ کو ہر قربانی کے لئے صف ِاوّل میں شامل کرنے کا عہد کرتے ہیں جب تک وہ اس پر عمل نہیں کریں گے تو دوسروں کو کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ جب عملی میدان میں آپ جائیں گے تو اس کی مزید اہمیت آپ کو پتا چلے گی۔ جب دوسروں سے آپ اطاعت کی توقع رکھیں گے تو پھر آپ کو سوچنا ہو گا کہ اطاعت کے آپ کے اپنے معیار کیا ہیں۔ تب آپ کو خیال ہو گا کہ حقیقی اطاعت کیا چیز ہے؟

           ایک طالبعلم نے مجھے لکھا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں نے اب کامل اطاعت کرنی ہے اور کوئی کسی قسم کی حیل و حجت نہیں کرنی۔جامعہ میں خطبے سے دس منٹ پہلے ہمیں یہاں آنے کا حکم ہوتا ہے تا کہ وقت پہ سارے حاضر ہو جائیں اور خطبہ سنا جائے لیکن مَیں عین موقع پہ آیا کرتا تھا۔ گو خطبہ کبھی ضائع نہیں کیا۔ لیکن اب میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جس طرح حکم ہے اسی طرح کروں گا اور دس منٹ پہلے آیا کروں گا۔ اسی طرح ساتھ یہ بھی لکھا کہ گو میں وقت پہ  آتا ہوں اور خطبہ پورا سنتا ہوں اور منطقی طور پر میں نہیں سمجھتا اس میں کوئی حرج ہے۔ پھر انٹرنیٹ کا استعمال ہے اس سے کیونکہ مَیں نیک باتیں پڑھتا ہوں اور سنتا ہوں اس لئے اگر مجھے اس کے بارے میں منع بھی کیا جاتا ہے تو اس کے باوجود مَیں کرتا ہوں۔ گو میں اطاعت کروں گا لیکن منطقی طور پر مَیں اس کا حرج نہیں سمجھتا۔ یا فلاں کام میں کیا کرتا تھا اس میں مَیں نہیں سمجھتا کوئی حرج ہے کیونکہ وہ نیک کام ہے۔ ایک نیک کام کے بارے میں بھی یاد رکھیں کہ عمل صالح بھی اگر غلط وقت پر ہو تو اس کی نیکی نہیں ہوتی اس لئے ہر بات کو منطق کے معیار پر نہ پرکھا کریں۔ اگر ہر لڑکا یہی فیصلہ کرے کہ اس نے مثلاً خطبہ سننے وقت پر ہی آنا ہے تو ایک رَش ہو جائے گا۔ دروازہ ایک ہے۔ لوگ بے تحاشا  جمع ہو جائیں گے اور پھر اگر وقت پہ سن بھی لیتے ہیں تو رَش کی وجہ سے ضرور دھکم پیلی ہو گی یا اتنے آہستہ چلیں گے کہ اس میں سے کچھ وقت گزر جائے گا۔ اس لئے یہ دیکھا کریں کہ حالات کے مطابق انتظامیہ جو فیصلہ کرتی ہے وہ صحیح ہے اور اس کی تعمیل کرنی ہے کہ نہیں والی بات آپ نے نہیں کرنی۔ مَیں نے جیسا کہ کہا اگر ہر لڑکا یہ فیصلہ کرنے لگ جائے، جامعہ کے لڑکے بھی سن رہے ہیں کہ مَیں نے وقت پہ آنا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں تو پھر حرج ہونا شروع ہو جائے گا۔ خطبہ بھی ضائع ہونا شروع ہو جائے گا۔ رَش بھی پڑ جائے گی۔ اگر ہر چیز کو منطق پہ ہی پرکھنا ہے تو اس لڑکے کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ جنگ اُحد میں مسلمانوں کا درّہ خالی کرنا جو تھا اس میں منطقی لحاظ سے کوئی حرج نہیں۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ دشمن دوڑ چکا ہے۔ میدان خالی ہو چکا ہے اور اب کوئی وجہ نہیں کہ یہاں درّہ میں کھڑا ہوا جائے۔ لیکن جو اطاعت کا مفہوم جانتے تھے جن کو پتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو چاہے ہو جائے تمہیں درّہ خالی نہیں کرنا وہ کھڑے رہے۔ دوسرے چلے گئے۔ اور وہاں کمزوری پیدا ہوئی۔ نتیجہ کیا نکلا جو درّہ کی حفاظت کے لئے چند رہ گئے تھے وہ بھی مارے گئے۔ مسلمانوں کو جنگ میں نقصان بھی ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زخم آئے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 2صفحہ 403 و 411تا 413  غزوۃ احد مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء) تو ہر چیز کو اگر منطق سے ہی دیکھا جائے یاعقل کا استعمال کر لیا جائے اور اطاعت نہ کی جائے تو پھر نقصان ہو جاتا ہے۔

           اس منطق کے ضمن میں ہی ایک لطیفہ بھی سنا دوں ۔ بعض لوگ منطق کی بڑی باتیں کرتے ہیں۔

          ایک شخص جو اپنے آپ کو یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ،بڑا پڑھا لکھا سمجھتا تھا اور ماں بیچاری اَن پڑھ تھی۔ چھٹیوں میں گھر آیاتو ماں نے پوچھا کہ بچے کیا پڑھتے ہو؟ کھانے کی میز پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا منطق۔ ماں نے کہا بتاؤ منطق کیا چیز ہے؟ اس نے کہا ایک اور ایک کو تین ثابت کرنا۔ خیر ماں کہتی ہے مجھے تو تمہاری حکمت کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک اور ایک تین کس طرح ہو سکتے ہیں۔ لمبی بحث چلی گئی۔ باپ بھی بیٹھا تھا۔ کچھ عقل مند تھا۔ اس کو پتا تھا کہ بیٹے کو کس طرح سمجھانا ہے۔ کھانے کی میز پہ جیسا کہ مَیں نے کہا آگے ڈش میں دو بٹیرے پڑے ہوئے تھے یا کہہ لیں کہ چِکن کے دو پِیس(piece) پڑے ہوئے تھے۔ تو باپ نے ایک اٹھا کے اپنی پلیٹ میں رکھ لیا، ایک اس کی ماں کی پلیٹ میں رکھ دیا اور کہتا ہے بیٹا! تیسرا تم کھا لو۔ تو منطق تو اس طرح بھی ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہر چیز کو منطق پہ نہ پرکھیں اور نہ عقل پہ پرکھیں۔ یہ تو خود اندھی ہے گر نیّرِ الہام نہ ہو۔

          پس نیّرِ الہام  پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھیں یہ ایک ایسی بات ہے جسے میدان عمل میں پہلے آپ نے خود سمجھنا ہے، اس میں مزید ترقی کرنی ہے اور پھر دوسروں کو بھی سمجھانا ہے۔ آپ نے افراد جماعت میں یہ بات پیدا کرنی ہے کہ اللہ اور رسول اور اولی الامر کی اطاعت کس طرح کی جاتی ہے۔ کہاں کی جاتی ہے۔ ہاں اگر بڑا جماعتی نقصان دیکھ رہے ہیں اور مقامی امیر کو توجہ دلانے کے باوجود اس پر توجہ نہیں ہو رہی اور جماعت کا نقصان ہے یا دین کا حرج ہو رہا ہے تو پھر خلیفۂ وقت کو اطلاع کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اگر یہ چیز جو میں سمجھ رہا ہوں غلط ہے اور یہاں اطاعت کے نام سے جماعت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تو اس کی اصلاح کے جلد سامان پیدا کر دے۔ جب خلیفۂ وقت کو بھی اطلاع ہو جائے گی اورآپ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی  کر رہے ہوں گے اور پھر وہی بات کہ جب اللہ سے تعلق ہو گا تو اللہ تعالیٰ پھر اصلاح کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔

          پھر جیسا کہ مَیں نے کہا آپ مختلف علاقوں میں جائیں گے یا مختلف دفاتر میں جائیں گے جہاں جہاں بھی آپ کی پوسٹنگ ہو گی وہاں آپ اپنی پہچان پیدا کروائیں۔ پتا ہو کہ یہ مربّیان سات سال کی تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں اور صرف کتابیں پڑھ کر نہیں آ گئے۔ ان لوگوں میں شمار نہیں ہو گئے جنہوں نے صرف ایک کتابوں کا بوجھ لادا ہوتا ہے بلکہ حقیقت میں علم کو حاصل کر کے اس کو اپنے علم کو بڑھانے کی ایک سیڑھی سمجھا ہے اور پھر اس علم کو بڑھاتے چلے جائیں۔جہاں بھی آپ موجود ہوں یہ احساس پیدا کروائیں کہ آپ کا علم محدود نہیں بلکہ اس میں ترقی کر رہے ہیں اور جو کچھ آپ نے حاصل کیا ہے وہ اس لئے حاصل کیا کہ جہاں آپ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں وہاں علم و معرفت میں بھی بڑھیں۔

           حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ ’میرے ماننے والے علم و معرفت میں ترقی کریں گے‘ (ماخوذ از تجلیاتِ الہٰیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409)تو اس لئے کہ آپ نے وہ علم و معرفت ہمیں عطا بھی فرمائی۔ پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا آپؑ کی کتابوں سے علم و معرفت سیکھیں اور دینی لحاظ سے اپنے آپ کو ایسا ہتھیار بند کر لیں کہ کوئی مخالف، کوئی سوال کرنے والا آپ سے مایوس نہ ہو یا آپ کے مقابلے پر ٹھہر نہ سکے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی تک جو بھی یوکے(UK) اور کینیڈا کے جامعات سے مربیان بن کے نکلے ہیں، جرمنی کے جامعہ والے ابھی میدان عمل میں نہیں آئے، اس سال وہ بھی آ جائیں گے انشاء اللہ۔ لیکن بہرحال جو نکلے ہیں وہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے راحت کا باعث بنے ہیں۔ میرے مددگار بنے ہیں۔ اور ان کو دیکھ کے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ پس آپ لوگ بھی یاد رکھیں کہ آپ نے ان معیاروں کو اونچا کرتے چلے جانا ہے۔

           یہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں بھی آپ جائیں گے لوگوں کی آپ پر نظر ہو گی۔ ہر ایک آپ کو دیکھ رہا ہو گا۔ اب آپ مربی اور مبلغ کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ پہلے ایک طالبعلم کی حیثیت سے تھے۔ انسان غلطیاں کر جاتا ہے اور طالبعلمی کے زمانے میں بہت ساری غلطیاں ہو جاتی ہیں، لیکن جو بھی غلطیاں ہوتی تھیں، کوئی حرکت ہوتی تھی، تو انتظامیہ آپ کو اس بارے میں تنبیہ کر دیتی تھی اور ایک طالبعلم سمجھ کے معاف کر دی جاتی تھیں۔ اب آپ ان لوگوں میں شمار ہو رہے ہیں جو غلطیاں درست کرنے والے ہیں۔ اس لئے اصل امتحان اب آپ کا شروع ہوا ہے۔ پہلے جو سات سال آپ نے امتحان دئیے چھ مہینہ بعد دس بارہ یا شاید زیادہ سے زیادہ چودہ پرچے دے دئیے ہوں گے، اس سے زیادہ نہیں دیتے ہوں گے اور اتنے ہی نمبر لگانے والوں سے آپ کو واسطہ پڑتا رہا۔ اساتذہ سے واسطہ پڑتا رہا۔ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اب میدان عمل میں ہر روز ایک پرچہ آپ کے سامنے آئے گا یا آ سکتا ہے اور جس جماعت میں آپ ہوں گے پوری جماعت آپ کی ایگزامینر( examiner) ہے، امتحان لینے والی ہے۔ اور پھر امتحان بھی ایسا جس میں آپ کا ہی امتحان نہیں ہے بلکہ آپ کے عمل اور آپ کے جوابوں سے، آپ کے طور طریقوں سے، آپ کے رویّوں سے، آپ کے لباس سے، آپ کی بول چال سے دوسرے بھی امتحان میں پڑ سکتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ابتلاء میں پڑ سکتے ہیں۔ اب بچے کا وہ جواب ہمیشہ یاد رکھیں جس کو بزرگ نے کہا تھا کہ بارش میں تیز دوڑتے جا رہے ہو پھسل جاؤ گے، چوٹ لگ جائے گی۔ تو اس نے کہا تھا میرے گرنے سے تو مجھے چوٹ لگے گی، نقصان ہو گا لیکن آپ احتیاط کریں۔ آپ کے گرنے سے بہتوں کو چوٹ لگ جائے گی۔ پس یہ چیزیں ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہئیں اور اس کے لئے ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم کسی کو ابتلاء یا امتحان میں ڈالنے کا باعث نہ بن جائیں۔

          پھر نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ آئندہ ذمہ داری نوجوانوں نے اٹھانی ہے۔ بعض دفعہ بعض جماعتوں میں بڑی عمر کے لوگ یا ایک عرصے سے خدمت کرنے والے لوگ جو اَب ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جن کی سوچیں پکّی ہو گئی ہیں وہ نوجوانوں کو موقع نہیں دیتے کہ آگے آئیں اور نوجوان اس وجہ سے frustrate ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں نے، نوجوان مربّیان نے، مبلغین نے ان نوجوانوںکو اپنے ساتھ ملانا ہے تا کہ جماعت کی ترقی کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ تا کہ ہمیں جماعت میں ہر طبقے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے اور ایمان پر پختگی سے قائم رہنے والے ملتے رہیں۔ آپ لوگوں نے نوجوانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم جماعت کا حصہ ہو اور بڑا اہم حصہ ہو۔

          پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ نوجوانوں کی تربیت کی طرف آپ نے بہت زیادہ توجہ دینی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور اس کی جگالی کرتے رہیں کہ بہت بڑی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے تبھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ جامعہ میں جائیں۔ بہت سارے واقفینِ نَو ہیں جن کو ماؤں نے، باپوں نے پیدائش سے پہلے وقف کیا لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جو جامعات میں آئے اور بہت سی بلکہ اکثریت ایسی ہے جو کسی رنگ میں بھی جماعت کے کام نہیں کر رہی۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ آپ جامعہ احمدیہ میں آئے۔ پس اس بات کو یاد رکھیںکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ آپ کے ماں باپ کے عہد کو نہ صرف اُن کو نبھانے کی توفیق دی بلکہ اس کے بعد آپ کو بھی یہ توفیق دی کہ اپنے ماں باپ کے عہد کو نبھائیں۔تلاوت بھی کی گئی ہے کہ امانتوں کی حفاظت کرنی ہے اور سب سے بڑی امانت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تم نے اس کی امانت لوٹانی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے آپ نے ایک عہد کیا ہے کہ جو امانتیں میرے سپرد کی جائیں گی مَیںوہ امانتیں لوٹاؤں گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی امانتیں کیا ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا۔ دوسرے اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا۔ اور آپ کا جو فِیلڈ(field) ہے، آپ کا جو میدان عمل ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی امانتیں آپ اسی وقت لوٹا سکتے ہیں جب اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف لانے والا بنائیںگے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کروائیں گے۔ دنیا اس وقت خدا کو بھول رہی ہے آپ لوگوں نے جہاں بھی آپ ہوں اللہ تعالیٰ کی پہچان کروانی ہے۔ مخلوق کو خدا سے ملانا ہے اور وہ اسی وقت ہو گا جب آپ خود اپنی امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ پس ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں۔

           مَیں نے پہلے جہاں اطاعت کی بات کی تھی وہاں ایک اور بات بھی اس میں یاد رکھیں کہ سوائے اس کے کہ شریعت کے خلاف کوئی حکم ہو رہا ہو آپ نے اپنے بالا کی اطاعت کرنی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جگہ جنگ کے لئے یا کسی مقصد کے لئے ایک وفد بھیجا۔ وہاں آگ جلائی گئی تو امیر وفد نے اپنے بعض لوگوں کو کہا کہ اس آگ میں چھلانگ لگاؤ۔ کچھ نے کہا کہ امیر کی اطاعت کرنی ہے اس لئے لگادو۔ کچھ نے کہا کہ غلط ہے۔ اپنے آپ کو نہیں مارنا۔ خیر بہرحال واپس آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ کرتے تو گناہ کرتے۔(سنن ابی  داؤد کتاب الجہاد ، باب فی الطاعۃ حدیث 2625)  اس لئے جو ہدایت شریعت کے واضح احکام کے خلاف ہو اس کے علاوہ ہر کام میں اطاعت کرنا ضروری ہے۔

           پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر مربی، ہر مبلغ میدان عمل میں یا جہاں بھی وہ ہے وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے اور آپ لوگوں نے اس کا دست و بازو بن کے رہنا ہے۔ پس اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ لوگوں پر ڈالی جا رہی ہے۔ جوں جوں نبوت کے زمانے سے ہم دُور جا رہے ہیں ہمارے چیلنج بڑھ رہے ہیں۔ ہر کلاس جو نکلتی ہے وہ پہلی کلاس کی نسبت زیادہ چیلنجوں کا سامنا کرنے والی ہے۔ زیادہ چیلنجوں کے ساتھ میدان عمل میں آ رہی ہے۔ پس یہ نہ سمجھیں کہ ہماری کمزوریاں اگر خود پیدا ہوتی چلی جا رہی ہیں تو یہ زمانے کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے۔ اگر جماعت نے ترقی کرنی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ کرنی ہے، اگر وہ مقاصد پورے کرنے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کرنے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے تو پھر ہمیں اپنی حالتوں کو، معیاروں کو بڑھانے کی ضرورت ہو گی اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو گا۔ پس ہر کلاس جو نکلتی ہے اس کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آپ کے چیلنجز پہلوں سے زیادہ بڑے ہیں۔ ان کا مقابلہ آپ نے کرنا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے آپ کو تقویٰ کے معیار بلند کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہو گا اور اس تعلق میں بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرنی ہو گی۔

          پس ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور اس امانت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ صرف یہ کہہ دینا، نظمیں پڑھ لینا کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے اس سے گزارا نہیں ہو گا۔ دیوانے بننا پڑے گا اور دیوانے ہی ہوتے ہیں جو پھر آگے میدان عمل میں کام کر سکتے ہیں ۔ جب آپ نے اس کام کے لئے پیش کر دیا تو پھر آپ کو یہ عہد نبھانے کے لئے، اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ اپنی اس امانت کو اور اس عہد کو ادا کرنے والے ہوں۔ اور میدان عمل میں خدا تعالیٰ آپ کو کامیابیاں دکھائے اور کسی بھی صورت میں آپ جماعت کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو بدنام کرنے والے نہ ہوں بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر روشن کرنے والے ہوں اور ہر ایک انگلی جو آپ پر اٹھے وہ اس اشارے کے ساتھ اٹھے کہ یہ مربیان اور مبلغین جو ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھے ہوئے ہیں وہاں علم و عمل میں بھی بہت ترقی یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ ایسے ہی ہوں۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں