خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے 12اگست2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس سال جماعت احمدیہ برطانیہ جلسہ سالانہ کو اس لئے بھی خاص اہمیت دے رہی ہے اور اس میں اس وجہ سے حاضری کے لئے بھی کوشش کی ہو گی اور لگتا ہے کہ اس کوشش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضری میں اضافہ بھی ہے اور باہر سے بھی بہت سے لوگ اس لئے شامل ہو رہے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ برطانیہ کا یہ پچاسواں جلسہ سالانہ ہے۔’ کہا جاتا ہے‘ مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض حقائق جو بعد میں سامنے آئے ہیں ان کے مطابق دو ایسے جلسے بھی منعقد ہوئے جو کسی وجہ سے شمار میں نہیں آئے۔ سن 1949ء اور 1950ء میں۔ اس کے بعد 1964ء تک جلسے نہیں ہوئے اور 1964ء کے بعد بھی دو سال ایسے آئے جن میں جلسے منعقد نہیں ہوئے 1974ء میں اور پھر 2001ء میں۔ بعض پرانے لوگ 1949ء اور 1950ء کے جلسوں کو شمار نہیں کرتے۔ ایک عید الاضحی کے دن ہوا۔ ایک دن کے جلسے تھے۔ لیکن الفضل سے یہی پتا چلتا ہے کہ جلسے ہوئے۔

(ماخوذ از الفضل 25 دسمبر 1949ء صفحہ 11 و الفضل 13 اکتوبر1950ء صفحہ3)

          بہرحال برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے حساب رکھنے میں جو غلطی ہوئی یا غلط فہمی ہوئی یا ان کو بوجوہ شمار نہیں کیا گیا یا ان جلسوں کو جو ایک دن کے لئے تھے جلسہ نہیں سمجھا گیا، جو بھی بات تھی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی تاریخ پچاس سال یا اس سے زائد ہے۔ اگر وہ دو جلسے شمار کر بھی لئے جائیں جن کو عام طور پہ  بعض جلسہ نہیں شمار کرتے اور بعض کہتے ہیں کہ ہے تو تب بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ برطانیہ اس سال میں قطع نظر اس کے کہ جلسوں کی تعداد کیا ہے۔ اپنے جلسوں کی پچاس سالہ تقریب منعقد کر رہی ہے۔ دنیا داروں کی نظر میں جب کسی خاص موقع کے پچاس سال پورے ہوتے ہیں تو وہ گولڈن جوبلی مناتے ہیں لیکن دینی جماعتوں کا یہ کام نہیں ہے اور خاص طور پر وہ جماعت جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے قائم ہوئی۔ اس کا مقصد دنیاوی طور پر جوبلیاں منانا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے وہ مقصد ہم نے حاصل کیا ہے؟ یا کیا وہ مقصد ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہم نے دیکھنا ہے کہ جس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی اس کے حاصل کرنے کے لئے ہم نے کیا کوشش کی اور ہم کیا کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ جلسوں کا جو مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اس کو حاصل کر کے ہم نے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیا ہے؟ پس ہمارے سامنے ایک عرصہ پورا کر کے سلور جوبلی یا گولڈن جوبلی یا ڈائمنڈ جوبلی ہدف اور مقصد نہیں ہے جس میں دنیادار شور شرابے کر کے، تفریح کر کے، مبارکبادیں دے کر، دنیاوی نشانیاں قائم کر کے سمجھیں کہ کامیابی ہو گئی۔ دنیا دکھاوا ان میں زیادہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق تو ایک طرف رہا حقوق العباد کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ جوبلیاں تو ایک طرف رہیں چند سال کے بعد بعض ایسی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں شور شرابا، کھیل کود اور دکھاوے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔

          آج کل برازیل میں اولمپکس(Olympics) ہو رہے ہیں۔ چند دن کے کھیل کود کے لئے کئی بلین ڈالرز خرچ کر دئیے۔ ایسا ملک جس میں ایک بڑے طبقے کو کھانا بھی نہیں ملتا۔ کہتے ہیں حکومتی کارکنوں کی تنخواہیں بھی اتنی کم ہیں کہ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ ہنگامی حالات نافذ کر کے اولمپکس کے لئے سٹیڈیم اور جگہیں بنائی گئیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیروں کے علاقے سے ٹراموں اور ریل کی سہولتیں مہیا کی گئی جبکہ وہ لوگ جو اُن علاقوں میں رہتے ہیں وہ  سفر ہی اپنی کاروں کے ذریعہ کرتے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ایک عارضی مقصد کے لئے وہ سہولتیں بھی مہیا کی جائیں جن کا بعد میں کوئی اور استعمال نہیں ہو سکتا بلکہ ان دنوں میں بھی نہیں ہو گا۔ان دنوں کے بعد استعمال تو دور کی  بات ہے ان دنوں میں بھی ان کا استعمال نہیں ہو رہا۔ صرف دکھاوا کرنے اور اپنی تقریبات کے رنگ بھرنے کے لئے اور بتانے کے لئے کہ ہم کتنے ترقی یافتہ ہیں ایک بے جا خرچ کیا گیا ہے۔ اگر غریبوں کو یہ سہولت مہیا کی جاتی تو بہتر تھا۔ ان کے علاقوں کے لئے ٹرامیں چلائی جاتیں، ریلیں چلائی جاتیں، ٹرانسپورٹ مہیا کی جاتی۔ غرض کہ چند دنوں کے کھیل کود کے لئے ملک کی معیشت جو پہلے ہی کمزور ہو رہی تھی بلکہ انتہائی نیچے جا رہی ہے اس کو مزید برباد کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ یہ سب اس امید پر خرچ کیا گیا کہ دیکھنے والوں کی ٹکٹوں کے ذریعہ سے آمدنی ہو جائے گی حالانکہ ہر اولمپک کا یہ تجربہ ہے کہ ان کی صرف امیدیں ہوتی ہیں۔ کبھی بھی خرچ پورے نہیں ہوتے۔ غرض کہ دنیاوی کاموں کے کرنے کا مقصد صرف ظاہری دکھاوا ہوتا ہے، شور شرابا ہوتا ہے، چاہے اس کے لئے عوام الناس کو ان کے حقوق سے محروم کرنا پڑے اور اس کے لئے آجکل وہاں عوام بہت شور مچا رہے ہیں۔

           لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والے اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی جماعتوں میں کام کرنے والے غرباء ہوتے ہیں جو خوشی سے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس زمانے کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح کو بھیجا جس نے اعلان کیا کہ اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ جس نے کہا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں اور ہم نے اس کی بیعت میں آ کر یہ اعلان کیا کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھیں گے اور کبھی ظاہری یا مخفی شرک نہیں کریں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم تیری بیعت کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جھوٹ اور ہر قسم کی بداخلاقیوں سے بچیں گے۔ ہم ہر قسم کے ظلم، خیانت اور بغاوت سے بچیں گے۔ ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد رکھیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہیں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم کبھی مخلوقِ خدا کے حق نہیں ماریں گے اور مسلمانوں کو تکلیفیں نہیں پہنچائیں گے۔ ہمیشہ عاجزی دکھائیں گے اور تکبر سے بچیں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو قبول کریں گے۔ ہم مسیح موعود اور معہدی معہود اور آپ کے بعد جاری نظام خلافت کی ہمیشہ اطاعت کرتے رہیں گے۔ پس جب ہم نے یہ عہد اور اعلان کیا کہ ہم یہ سب کچھ کریں گے تو ان باتوں کی گہرائی اور تفصیل کو جاننے کے لئے ایک تربیتی کیمپ کی بھی ضرورت تھی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کا انعقاد کیا اور اعلان فرمایا کہ آؤ اپنے عہد بیعت کی جزئیات کو سمجھنے کے لئے، اپنے ایمان اور ایقان میں اضافے کے لئے، اپنے اخلاقی معیاروں کو بلند کرنے کے لئے سال میں کم از کم ایک دفعہ یہاں مرکز میں جمع ہو جاؤ۔ اور جوں جوں جماعت وسعت پذیر ہے یہ جلسے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں ہو رہے ہیں۔ قادیان سے نکل کے اب دنیا کے ہر ملک میں یہ جلسے پھیل گئے ہیں۔ لیکن مقصد ہر ملک کے جلسے کا ایک ہی ہے کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے شروع کئے تھے اس سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ہر احمدی پھر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔

           آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جلسے میں آنے کا مقصد تب پورا ہو گا جب ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے تعلق، معرفت اور روحانیت میں ترقی کرے۔ جب دینی علم میں اضافہ ہو۔ جب آپس کی محبت اور بھائی چارہ بڑھے۔ جب قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے پر لاگو کر کے اپنے عملی نمونوں سے اس کا اظہار کرو۔ پھر اپنے علم اور عمل سے دنیا کو اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچاؤ اور ان سب باتوں کے حصول کے لئے تقویٰ میں بڑھنا بہت ضروری ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ340 الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ)

          پس چاہے پچاس سالہ جلسہ ہو یا اس سے زیادہ سال کا جلسہ، کوئی جوبلی جلسہ ہے یا ہر سال منعقد ہونے والا سالانہ جلسہ ہے، ہر ایک کا مقصد ایک ہی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہم ترقی کرنے والے ہوں۔ کوئی دنیوی مقصد نہ ہمارے کسی سابقہ جلسے کا تھا، نہ اِس جلسے کا ہے۔ اگر ہماری سوچیں صحیح دھارے کی طرف نہیں چل رہیں تو نہ ہمیں پچاسواں جلسہ کوئی فائدہ دے سکتا ہے نہ پچھہترواں، نہ سَوواں۔

           ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں صرف یہ ہدف نہیں دیا کہ کیا کرنا ہے بلکہ یہ بھی بتایا کہ کس طرح کرنا ہے۔ ہمارا ایمان کس قسم کا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ہمارا معیار کیا ہونا چاہئے۔ ہمیں آپ کی بیعت میں آ کر کیا، کس طرح کے اظہار کرنے چاہئیں۔ ہمارے عمل کیسے ہونے چاہئیں۔ کن کن مراحل سے گزرنے کی ضرورت ہے اور کس طرح زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی اپنی جماعت سے کیا توقعات ہیں۔ اور کن لوگوں کے نمونوں کو ہمیں اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم احمدی ہونے کا بھی اور جلسے میں شامل ہونے کا بھی مقصد پورا کر سکیں۔

           اس زمانے میں جبکہ ہر طرف فساد برپا ہے دنیا خدا تعالیٰ کو بھول چکی ہے۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتے بلکہ یہ بھی المیہ ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی ایسے گروہ ہیں جو اسلام کے نام پر اور خدا تعالیٰ کے نام پر ظلم و تعدی میں بڑھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کی مخلوق کے حقوق پامال کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ تم سے کیا چاہتا ہے اور اسلام تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تم نے کس طرح اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے۔ کس طرح اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا ہے۔ ایک موقع پر ان دونوں قسم کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:

          ’’ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے۔ اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

          پس یہ حق اللہ تعالیٰ کا آپ ہم سے ادا کروانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے بے غرض تعلق اور محبت ہو اور یہی وہ تعلق ہے جو ہر قسم کے ظاہری اور مخفی شرک سے محفوظ رکھتا ہے۔

           پھر فرمایا کہ ’’بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمن:61) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا‘‘۔ یہ تو نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ فرمایا بلکہ ’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنّت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقتاً موذی نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ یعنی دوسروں کو دکھ دینے والا نہیں بننا چاہئے۔ فرمایا ’’شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا کہ جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی مَیں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں‘‘۔ فرمایا ’’اور یہی مَیں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔‘‘

          پس یہ وہ سبق ہے جو وسعت حوصلہ کی انتہاؤں کو چُھو رہا ہے۔ جب غیروں سے یہ سلوک ایک مومن کا ہونا چاہئے تو پھر اپنوں سے حسن سلوک کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہئے۔

           پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے‘‘۔ یعنی بلا وجہ کی دشمنی اور مخالفت اور شرک اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے۔ یعنی دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔ فرمایا کہ ’’ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا‘‘۔ ایک جگہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ علیحدگی ہو۔ انسان انسان سے علیحدہ ہو۔ انسان ایک دوسرے کے حق ادا نہ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا۔ اور دوسری جگہ وصل نہیں چاہتا۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ فرمایا ’’یعنی بنی نوع( انسان) کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔ اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمّت بلند ہوتی ہے۔‘‘ یہ وسعت حوصلہ ہمیں دکھانی ہے۔ فرمایا: ’’اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ 96-97۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ہم نے یہ بلندیوں کے معیار حاصل کرنے ہیں اور یہی وہ معیار ہیں جو آپ نے شرط بیعت میں بیان فرمائے ہیں کہ محض لِلّٰہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔  (ماخوذ از ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 564)

پھر ایک حقیقی مسلمان کے بارے میں کہ وہ کون ہے اور کیسا ہونا چاہئے؟ آپ اپنی ایک تقریر میں اس بات کو  مزید کھول کر بیان فرماتے ہیں کہ ’’مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپرد کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور خوشنودی ہو‘‘ ۔ جہاں اعتقاد یہ ہے، ایمان یہ ہے، اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جانی چاہئے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہئے، وہاں عملی طور پر بھی اس کے نمونے دکھائے جائیں۔ فرمایا: ’’اور تمام نیکیاں اور اعمال حسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقّت اور مشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذّت اور حلاوت کی کشش ہو‘‘۔ نیکیاں اگر کرنی ہیں تو یہ نہیں کہ کونسا بوجھ مجھ پر پڑ گیا۔ کیا مجبوری آ پڑی ہے۔ بلکہ نیکیاں کرنے سے ایک مزہ آنا چاہئے۔ ایک لذت حاصل ہونی چاہئے۔ شوق سے کی جانی چاہئیں اور ان کی طرف پھر کِھچنا چاہئے کہ ہم نے یہ نیکی کرنی ہے۔ فرمایا ’’جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت سے تبدیل کر دے۔ اس طرح نیکیاں کرو جو ہر قسم کی تکلیف کو خوشیوں میں بدل دے۔‘‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی دلی خوشی سے ہو نہ کہ کسی مجبوری اور خوف کی وجہ سے تبھی تکلیف راحت میں بدلتی ہے۔ فرمایا: ’’حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب و مولیٰ پیدا کرنے والا اور محسن ہے۔ اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتا ہے۔ سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں، نہ لذات ہیں تو وہ اپنے اعمال صالحہ اور محبت الٰہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ  نہیں سکتا‘‘۔ نیکیاں صرف اس لئے نہیں کرنی کہ جنت ملے گی۔ یا برائیوں سے اس لئے نہیں بچنا کہ دوزخ میں نہ چلا جاؤں بلکہ فرمایا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیاں کرنی ہیں اور کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ کرو اس لئے کرنی ہیں۔ فرمایا ’’کیونکہ اُس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اب اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی شناخت، اس کی محبت اور اطاعت کے لئے بنائی گئی ہے‘‘۔ اپنے عمل اور اپنی سوچ کو ایک انسان اس مقام پر لے جائے کہ جہاں اس کی شناخت یہ ہو جائے کہ یہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔ اس کی رضا کے لئے کام کرتا ہے۔ اس کی محبت کے معیار اتنے بلند ہوں کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ یہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ اطاعت کے معیار وہ ہوں کہ پتا لگے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا اور کامل اطاعت کرنے والا ہے۔ فرمایا ’’اور کوئی غرض اور مقصد اس کا ہے ہی نہیں‘‘۔ یہ دنیا کو پتا لگنا چاہئے۔ ’’اسی لئے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میں صَرف کرتا ہے تو اس کو اپنے محبوب حقیقی ہی کا چہرہ نظر آتا ہے۔‘‘ ایسا انسان جب اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا اس کی پہچان ہی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کی محبت کا محور بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کی اطاعت بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے تو پھر جب اس کا اَور کوئی غرض اور مقصد نہیں ہوتا تب اس کو پھر اپنے خدا کا حقیقی چہرہ نظر آ جاتا ہے۔ فرمایا ’’بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاً نظر نہیں ہوتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلا دیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو ایک لذّت اور محبت کے جوش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیارہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لا انتہا موت سے بڑھ کر اور دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’جیسے اگر کوئی بادشاہ اعلان کرائے کہ اگر کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ دے گی تو بادشاہ اسے خوش ہو کر انعام دے گا تو ایک ماں کبھی گوارا نہیں کر سکتی کہ وہ اس انعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچے کو ہلاک کرے۔ اسی طرح ایک سچا مسلمان خدا کے حکم سے باہر ہونا اپنے لئے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اور آرام کا وعدہ دیا جائے‘‘۔ فرمایا ’’پس حقیقی مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کسی جزا اور سزا کے خوف اور امید کی بناء پر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعی خاصّہ اور جُزو ہو کر ہو۔ پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لئے ایک بہشت پیدا کر دیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے‘‘۔ یہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے پھر وہ ایک جنت پیدا کر دیتی ہے۔ فرمایا ’’کوئی آدمی بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے۔ اس لئے مَیں تم کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اسی راہ سے داخل ہونے کی تعلیم دیتا ہوں کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ182-183۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

           پس یہ ہے ہمارے لئے خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کا ہدف یا ٹارگٹ اور اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کے بارے میں کوئی دوسرا ہمیں نہیں بتا سکتا۔ جو معیار آپ نے سامنے رکھا ہے اس کے جائزے ہر ایک اپنے لئے خود لے سکتا ہے۔ پھر ہمیں زندگی کا لائحہ عمل دیتے ہوئے کہ اگر اس طرح زندگی گزارو تو اللہ تعالیٰ کس طرح سلوک فرماتا ہے اور رحمت کی نظر ڈالتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

          ’’ استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو۔ موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔ جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا بھی اقرار کرے لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے۔‘‘اگر کسی سے غلطی ہو جائے تو انسان تو دوسرے انسان کا گناہ بخشتا ہی نہیں۔ کہیں نہ کہیں کینہ دل میں بیٹھا رہتا ہے اورظاہراً بیشک صلح بھی کروا دی جائے، ایک دوسرے کو معاف بھی کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی اور چھوٹا سا بھی واقعہ ہو یا اگر موقع ملے تو وہ کینہ پھر ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور اس کا اظہار ہو جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور رجوع برحمت فرماتا ہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا کو معاف کر دیتا ہے۔ اس لئے تم بھی اب ایسے ہو کر جاؤ کہ تم وہ ہو جاؤ جو پہلے نہ تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو‘‘۔ فرمایا’’ نماز سنوار کر پڑھو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو تمہارے دلوں میں رقت اور خدا کا خوف ہو اور جب اپنے گھروں میں جاؤ تو بے خوف اور نڈر ہو جاؤ۔ نہیں، بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہئے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 247 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس یہ جلسہ کے تین دن جو ہیں صرف یہ تین دن ہی ہمیں اپنی حالتوں کی طرف غور کرنے والے نہ بنائیں بلکہ یہاں سے جو کچھ سیکھیں اور سنیں ان کو زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔

           اپنی حالتوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق رکھنے کے لئے ایک بڑی خوبصورت نصیحت آپ نے فرمائی ہے۔ فرمایا ’’ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہو گا یا ناراض‘‘۔ فرمایا ’’نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز اس لئے نہیں کہ ٹکّریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں۔ بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں‘‘۔ دلی جوش سے نماز نہیں پڑھ رہے ہوتے بلکہ اپنے بڑوں کے کہنے سے یا اپنے دوستوں کے کہنے سے، ساتھیوں کے کہنے سے نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں۔ فرمایا ’’یہ کچھ نہیں۔‘‘ نماز وہ ہے جو دلی جوش سے پڑھی جائے اور اس کی عادت پڑنی چاہئے۔ شروع میں لوگوں کے کہنے سے اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے نصیحت بھی کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب انسان شروع کر دے تو پھر دلی جوش سے ہمیشہ نمازوں کی طرف توجہ رہنی چاہئے۔ پس نماز کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی جو آواز ہے وہ دل سے نکلنی چاہئے۔ کسی دکھاوے یا کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہونی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’نماز خدا تعالیٰ کی حضور ی ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکّب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مدّنظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔ پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو‘‘۔ یہ  اطاعت کا بھی معیار ہے۔’’ اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے۔ اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے۔ اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو۔‘‘ دین پہلے اور دنیا بعد میں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ247-248۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے کے بعد مخلوق کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ پہلے بھی مَیں نے ایک اقتباس پڑھا تھا۔ ایک اورہے۔فرمایا کہ بندوں کے حق ادا کرنے کی ادائیگی کا سبق بھی تم اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھ کر کرو اور اس کے لئے آپ نے سورۃ فاتحہ کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ:

          ’’ سورۃ فاتحہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت ربّ العالَمین بیان کی ہے جس میں تمام مخلوقات شامل ہیں۔ اس طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کا میدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ تمام چرند پرند اور کُل مخلوق اس میں آجاوے۔ پھر دوسری صفت رحمن کی بیان کی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہئے۔ اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے۔ غرض اس سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہئے۔ اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے، خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں۔ اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ345۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس یہ وہ سنہری اصول ہے جو عام خلق اللہ سے ہمدردی اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی شرط جو آپ نے شرائط بیعت میں بیان فرمائی ہے (ماخوذ از ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 564) اسے پورا کرنے میں روشن راستے دکھاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے باہم محبت اور مؤاخات پیدا کرنے کے نمونے قائم کرنے والا بناتی ہے۔

          پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے حوالے سے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

          ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیاہے‘‘ (عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کے کہنے پر اس کا جنازہ پڑھایا۔ وہ منافقوں کا سردار تھا)(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الکفن فی القمیص الذی یکف أو لا یکف و من کفن بغیر قمیص حدیث 1269)  فرمایا ’’بلکہ اپنا مبارک کرتہ بھی دے دیا ہے۔اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے ’’جبتک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی‘‘۔ اخلاق درست کرنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میرے میں کیا برائیاں ہیں اور کون سی بداخلاقیاں ہیں۔ تبھی انسان اصلاح کر سکتا ہے۔ پس یہاں بھی آپ نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے جائزے لو، اپنے گریبان میں جھانکو۔ دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں پر نظر کرو۔ فرمایا کہ ’’زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے۔ دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔ پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔ ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے۔ البتہ وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے علانیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا اور خطرناک دشمنی کرتا ہے اس کا معاملہ اَور ہے۔ جیسے صحابہ کو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی تو پھر باوجود تعلقاتِ شدیدہ کے ان کو اسلام مقدم کرنا پڑا‘‘۔(ملفوظات جلد3 صفحہ345-346۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

           یعنی پھر اگر اسلام کے خلاف کوئی ہے اور گالیاں نکالتا ہے اور اپنی دشمنی میںانتہا کو پہنچا ہوا ہے تو پھر وہاں تو دوستیاں قائم نہیں رہ سکتیں۔ وہاں تو پھر سب رشتے بھی ختم ہو گئے۔ پھر اسلام مقدم ہو گیا۔ دین مقدم ہو گیا۔ لیکن بعض لوگ جہالت اور غلط فہمی میں دشمنی کر جاتے ہیں انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچانی چاہئے اور اپنے اعلیٰ اخلاق دکھانے کی ضرورت ہے۔ ان کو بتایا جائے کہ جو تم کر رہے ہو غلط فہمی میں کر رہے ہو تو پھر ایسے ہیں جن کی اصلاح ہوتی ہے۔ اگر ہم نے ان کی غلط فہمیاں دُور کرنے کا حق ادا کر دیا، ان کو ساری باتیں بتا دیں اور پھر بھی وہ دشمنی میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں پھر تو قطع تعلقی ہے۔ نہیں، تو نہیں۔

           امریکہ میں گزشتہ دنوں چند مہینے ہوئے ایک مسجد میں ایک شخص نے حملہ کیا، فائرنگ کی۔ اس کو جماعت نے کہا ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۔ اس کو بتایا کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔اسلام کیا خوبصورت تعلیم دیتا ہے۔ کس طرح  انسانوں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ کس طرح دوسرے مذاہب کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کو اتنا اثر ہوا کہ وہ رونے لگ گیا اور مسجد میں آیا اور معافیاں مانگیں اور گزشتہ جلسہ جو امریکہ کا ہوا ہے اس میں آ کر تقریر بھی کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں غلط طریقے سے اسلام کے بارے میں بتایا گیاتھا۔ آج مجھے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پتا لگا ہے اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اسلام جیسا خوبصورت مذہب کوئی نہیں۔

          جماعت اُس وقت بنتی ہے اور مضبوط ہوتی ہے جب آپس میں محبت، اتفاق اور اخوت کا تعلق ہو۔ اس تعلق کو قائم کرنے کے لئے کہ آپس میں کیسا سلوک ہونا چاہئے اس بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

          ’’اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوتی۔ کیا ساری گندم تخمریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے۔ بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں‘‘ ۔ اب زمیندار جانتا ہے،  اَن پڑھ زمینداروں کو تو پتا نہیں منوں کے حساب سے یا سیروں کے حساب سے بیج ڈال دیتے ہیں لیکن اگر دانوں کی تعداد دیکھیں اور ایک ایکڑ میں جتنا بیج ڈالا جاتا ہے اور جو پودے اگتے ہیںاس کے حساب سے نو حصے ضائع ہو جاتے ہیں اور صرف ایک حصہ اُگتا ہے اور ثمروار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں‘‘ (دانوں کو) ’’بعض کسی اور طرح قابلِ ثمر نہیں رہتے۔ غرض ان میں سے جو ہو نہار ہوتے ہیں ان کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا‘‘۔فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی کَزَرْعٍ ہوتی ہے‘‘۔ کھیتی کی طرح ہوتی ہے۔ ’’اسی لئے اس اصول پر اس کی ترقی ضروری ہے۔ پس یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے‘‘۔ اب بعض دفعہ بیج کھیت میں اُگ بھی جاتا ہے لیکن ایک کے قریب دوسری کوئی جڑی بوٹی اُگ جاتی ہے۔ اس کی بڑھوتری رک جاتی ہے یا کمزور ہو جاتی ہے تو اس کے لئے پھر زمیندار جو ہے، کسان جو ہے وہ بوٹیوں کو مارتا ہے یا تلف کرتا ہے اور پھر وہ پودا دوبارہ اس طرح ہی نشوونما پانے لگ جاتا ہے۔ تو اسی طرح فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ فرمایا کہ ’’یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدۃ:3)۔ کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جائو ‘‘۔ یعنی جو عملی طور پر کمزور ہیں ان کو پیار سے سمجھاؤ۔ ان کے عملوں کو درست کرو۔ ان کو نصیحت کرو۔ ان کے قریب جاؤ۔ ان کے دوست بنو۔ ان کے ہمدرد بنو۔ جن میں ایمانی کمزوریاں ہیں ان کو قریب ہو کے سمجھاؤ۔

           اگر ہمارا جو نظام ہے ہر سطح پر اس طرف توجہ دینے لگے اور عہدیدار ہر کمزور شخص کی طرف توجہ دینے لگیں تو بہت سارے ایک دوسرے کی کمزوریاں دُور کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے تو جو کام کرنے والے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنی کمزوریاں دور کریں پھر اپنے بھائیوں کو سہارا دیں۔ مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ اس لحاظ سے بھی مدد کرنی چاہئے۔ ’’بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو‘‘۔ اس کے لئے بھی جماعت احمدیہ اپنے وسائل کے لحاظ سے دنیا میں خدمت کرتی ہے۔

           فرمایا ’’کوئی جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چِڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتائو کرے۔ دیکھو وہ جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہر گز نہیں چاہئے۔ بلکہ اِجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ ہمیں توجہ سے سننا چاہئے۔ ’’میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں، معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خَلق کو گمراہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے۔ کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ347-348۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس وہ جو آپس میں ایک دوسرے سے رنجشیں بڑھاتے ہیں، ذاتی باتوں پر مقدمے چلتے ہیں، رنجشیں بڑھ رہی ہیں، ان کو سوچنا چاہئے۔

           پھر شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے اوپر قبول کرنا اور قال اللہ اور قال الرسول اپنا دستور العمل بنانا(ماخوذ از ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 564) اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کریم پڑھا اور سمجھا نہ جائے۔ اس کے لئے پھر آپ نے دینی علم اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:

          ’’میں زیادہ امید اُن پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پا لے۔ اس لئے کبھی سست نہ ہونا چاہئے۔ ہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھنا چاہئے تا کہ معرفت میں زیادت ہو۔ پوچھنا حرام نہیں۔ بہ حیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہئے اور عملی ترقی کے لئے بھی۔ جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کریں۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے‘‘۔ فرمایا ’’قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیںکہ ’’ …بعض ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کے ترجمہ سے واقف ہیں‘‘۔ مولویوں میں سے، علماء میں سے، غیروں میں سے دعویٰ کرتے ہیں، دوسرے مذاہب میں سے جو اسلام پہ اعتراض کرنے والے ہیں دعویٰ کرتے ہیں ’’مگر انہوں نے مشق تو کی ہے‘‘ پڑھ لیا، ترجمہ بھی شاید جانتے ہیں ’’ لیکن اُن میں روحانیت نہیں ہے۔ اور اس کا ہمیں بارہا تجربہ ہوا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد3 صفحہ194-195۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

           اور جس میں روحانیت نہیں ہے اس کو قرآن کریم کی گہرائی اور باریکی سمجھ آ ہی نہیں سکتی اور اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آجکل شدت پسند جو ہیں وہ اسلام کے نام پر ظلم و بربریت کر رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں جی اسلام یہ کہتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے قرآن شریف کو سمجھا ہی نہیں اور روحانیت ان میں سے ختم ہو چکی ہے اس لئے کہ جس شخص کو اس دنیا میں دین اور روحانیت قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اس کے وہ انکاری ہیں۔ پس قرآن کریم کی تہہ سے یہ نایاب موتی نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس کو اس زمانہ میں اعلیٰ ترین عرفان عطا فرمایا ہے اُس سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اس لحاظ سے بھی اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

          قرآن کریم پڑھنے کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے اور اس کے احسان کا ذکر کرتے ہوئے اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے۔ کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْ۔ وَّمَا ھُوَ بِالْھَزْلِلٌ‘‘(الطارق:14)۔ یعنی یقینا وہ ایک فیصلہ کُن کلام ہے اور وہ ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں۔ فرمایا: ’’ وہ میزان، مہیمن( یعنی حفاظت کرنے والا) نور اور شفا اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں‘‘۔ فرمایا ’’ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض مَیں بار بار اس امر کی طرف اُن لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں۔‘‘ ہم احمدیوں کو مخاطب فرما رہے ہیں ’’غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بِدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔ پس ’کشف حقائق‘ ،حقائق کو کھولنے کے لئے، قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کو کھولنے کے لئے، اس پر عمل کرنے کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا گیا ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ بِدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔ جب تک یہ اسرار قرآن کریم کے کھلیں گے نہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر سے قرآن کریم کو ہم سمجھیں گے نہیں، قرآن کریم کی حقیقت کو ہم جانیں گے نہیں تب تک روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا۔

           فرمایا ’’اور مَیں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر‘‘۔ فرماتے ہیں ’’قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی۔ اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن:47)۔یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے واسطے دو بہشت ہیں۔ یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تو دمِ نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اِسی دنیا سے اس کے لئے شروع ہو جاتی ہے‘‘۔ پس وہ دوزخ اس دنیا سے شروع ہو جاتی ہے جب انسان غلط کاموں کی طرف جاتا ہے، اپنے نفس کے قابو میں آ جاتا ہے، جذبات نفسانی سے مغلوب ہو جاتا ہے، شہوات اس پر غالب آ جاتی ہیں تو پھر ان سے بچنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں صرف یہی ہے کہ خدا کا خوف کھانا۔ ’’اور وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’جس سے ایک لذت اور سرور اسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اُس کے لئے شروع ہو جاتی ہے‘‘۔ جب انسان ان برائیوں سے بچتا ہے اور خدا کی طرف جھکتا ہے تو بہشتی زندگی اس دنیا سے شروع ہو جاتی ہے ’’اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنمی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ 155-156۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر ہمیں توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کئے ہیں  اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ  کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آ جاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں‘‘۔ فرمایا ’’ فیج اَعوج کے دشمن ہوں۔ اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں۔ ایک قرون ثلاثہ‘‘۔ یعنی پہلی تین صدیاں۔’’ اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ‘‘۔ وہ زمانہ جب سب کچھ ٹیڑھا ہو گیا تھا۔’’جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لَیْسُوْا مِنِّیْ وَ  لَسْتُ مِنْھُمْ۔ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں۔ اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ فیجِ اَعوج کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسابھی ہے جو صحابہ کے مَشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’معدودے چند کے سوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے‘‘۔ یعنی جو سمجھتے تھے قرآن کریم کی ضرورت ہی نہیں ہے اور وحی کی ضرورت نہیں ہے۔ عقل سے ہی سب کچھ حل ہو سکتا ہے۔ یا پھر دین میں تبدیلیاں کرنے والے۔

           فرماتے ہیں ’’ہم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو مگر وہ ابدال اور اولیاء اللہ جو اس درمیانی زمانہ میں گزرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراط مستقیم سے بھٹک کر اسلام سے دُور جا پڑے تھے کچھ بھی چیز نہ تھے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی آنکھ سے اس زمانے کو دیکھا اور اس کا نام فَیج اَعوج رکھ دیا۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک اور گروہ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گروہ کہلائے۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لئے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور کَزَرْعٍ (کھیتی کی طرح) ہو گی اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دُور ہیں۔ وہ حاصل نہیں ہو سکتے جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔ توحید کے اقرار میںبھی خاص رنگ ہو۔ تبتّل اِلَی اللہ ایک خاص رنگ کا ہو۔ ذکر الٰہی میں خاص رنگ ہو۔ حقوق اِخوان میں خاص رنگ ہو‘‘۔(ملفوظات جلد3 صفحہ 94-95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس یہ چیزیں ہیں جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہیں اور اس کے لئے اپنی علمی اور روحانی استعدادوں کو بڑھانے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔

           حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیعت کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

          ’’ اگر دنیاداروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔ بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک گاؤں میں اگر ایک آدمی نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤں کو تباہی سے محفوظ کر لیتا ہے۔ لیکن جب تباہی آتی ہے تو پھر سب پر پڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچا لیتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’سنت اللہ یہی ہے کہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لئے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں۔ جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ ہے کہ جب لوط کی قوم تباہ ہونے لگی تو انہوں نے کہا کہ اگر سو میں سے ایک ہی نیک ہو تو کیا تباہ کر دے گا؟ کہا، نہیں۔ آخر ایک تک بھی نہیں کروں گا‘‘۔ فرمایا ’’لیکن جب بالکل حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا(الشمس:16) خدا کی شان ہوتی ہے۔ پلیدوں کے عذاب پر وہ پرواہ نہیں کرتا کہ ان کے بیوی بچوں کا کیا حال ہو گا اورصادقوں اور راستبازوں کے لئے کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا(الکہف:83) کی رعایت کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ اور خضر کو حکم ہوا تھا کہ ان بچوں کی دیوار بنا دو اس لئے کہ ان کا باپ نیک بخت تھا اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے۔ غرض ایسا تو رحیم و کریم ہے۔ لیکن اگر کوئی شرارت کرے اور زیادتی کرے تو پھر بہت بری طرح پکڑتا ہے۔ وہ ایسا غیّور ہے کہ اس کے غضب کو دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے۔ دیکھو لوط کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا۔ اِس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہی ہو رہی ہے‘‘۔ فرمایا ’’اِس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہی ہو رہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لائی ہے۔ تم بہت اچھے وقت آ گئے ہو۔ اب بہتر اور مناسب یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو بدلا لو۔ اپنے اعمال میں اگر کوئی انحراف دیکھو تو اسے دُور کرو۔ تم ایسے ہو جاؤ کہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ262-263۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر ہمیں ہماری عملی حالت کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ آپ نے فرمایا۔ ’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس مَیں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے‘‘۔ فرمایا اگر زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے تو وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ ’’پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں؟۔ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اس طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشاء کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے‘‘۔ فرمایا ’’یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بِدُوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ 370-371۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس اس کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو بھرپور کوشش کی ضرورت ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہماری روحانی اور عملی حالت کا کوئی اور اندازہ نہیں لگا سکتا جتنا زیادہ بہتر ہم خود اندازہ لگا کے اپنے آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ اپنے جائزے لو۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی باہر لوگوں میں حسن اخلاق اور دین داری میں بڑھا ہوا ہے۔ لوگ اس کو دیکھ کر یہی کہتے ہیں۔ لیکن اگر گھر کے اندر سے اس کا پتا کرو تو گھر کے اندر اس کی انتہائی تکلیف دِہ صورتحال ہے۔اس کے بیوی اور بچے اس سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ کوئی اپنے دنیاوی ماحول میں اچھا ہے تو باوجود بیعت میں شامل ہونے کے دینی لحاظ سے کمزور ہے۔ لیکن ایسی کمزوریاں ایسے لوگوں کی کسی خاص وجہ سے سامنے آتی ہیں ورنہ ظاہراً تو کسی کو کچھ نہیں پتا لگتا ۔ بہرحال ہر قسم کے طبقے کی اصلاح اس وقت ہو سکتی ہے جب اسے خود احساس ہو کہ مَیں نے اصلاح کرنی ہے اور اپنی بیعت کا حق ادا کرنا ہے تبھی ہم اس معیار پر پہنچ سکتے ہیں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ بہت ہی قابل فکر اور ہمیں ہلا دینے والی بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ اگر عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتے اور صرف زبانی اقرار بیعت ہے تو عملاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ضرورت کے ہم انکاری ہیں۔ صرف انکار نہیں بلکہ فرمایا کہ میری عدم ضرورت پر زور دیتے ہو۔ اس بات پر زور دیتے ہو کہ مسیح موعود کے آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پس ہم سب کو آج اپنے جائزے لینے چاہئیں اور اگر کمزوریاں ہیں تو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ضرورت ہمارے ہر عمل سے ظاہر ہو۔ پاک تبدیلیاں ہمارے اندر پیدا ہوں۔ اگر یہ ہو گا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج ہم نے جو کچھ پایا ہے وہ دنیاوی دولتوں سے بہت بڑھ کر ہے۔ اگر یہ نہیں تو ہماری پچاس سالہ جلسہ کی تقریبات یا سو سال سے زائد جماعت کی تاریخ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ خدا کرے کہ ہم میں سے اکثریت اس کو پانے والی ہو، سمجھنے والی ہو اور جو کمزور ہیں آج کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور ہمارا ہر عمل یہ گواہی دے کر اعلان کرے کہ اے مسیح محمدی! تیری بعثت اور تیرا آنا حق ہے اور تُو ایسے وقت میں آیا جب زمانے کو تیری ضرورت تھی اور ہم عہد کرتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ ہم کوشش کرتے رہیں گے۔

          اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ دوبارہ میں یاددہانی کراتا ہوں کہ جلسہ کے دنوں میں دعاؤں اور ذکر الٰہی پر اور عبادتوں کی طرف خاص طور پر زور دیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جلسے سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں