خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جنوری 2010ء

ایک مومن کے لئے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں، اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں۔
نئے سال کے پہلے دن کو ہی اِس طرح دعاؤں سے سجاؤ کہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں۔
اپنی زندگی کے سال کے پہلے دن کو ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دن کو بابرکت بنانے کے لئے دعاؤں اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے۔
حقیقی مومن وہی ہے جو تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اعمال بجالانے کی کوشش کرے۔ اس دعا کے ساتھ اپنے ہر دن اور ہر سال میں داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہمیشہ تقویٰ پہ قائم رکھے اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازتا رہے۔
2010ء کے آغاز پر نئے سال کی مبارکباد۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہراحمدی کے لئے یہ سال اور آئندہ آنے والا ہرسال مبارک فرماتا چلا جائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ یکم جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں۔ چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الحدید:29)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال 2010ء کا پہلا دن ہے اور اس پہلے دن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جمعہ کے دن داخل کیا ہے جو دنوں میں سے ایک بہت مبارک دن ہے۔
اس لحاظ سے سب سے پہلے تو مَیں آپ سب کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہر احمدی کے لئے یہ سال اور آئندہ آنے والا ہر سال مبارک فرماتا چلا جائے۔ ہم ہر سال کی مبارکباد ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن ایک مومن کے لئے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں، اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے۔ اس کی مغفرت اور بخشش کا دن ہوتا ہے۔ جو انسان کو روحانی منازل کی طرف نشاندہی کروانے کا دن ہوتا ہے۔ جو دن ایک انسان کو روحانی ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کر نے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لانے کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے عملی کوششوں کا دن ہوتا ہے۔ پس ہمارے سال اور دن اُس صورت میں ہمارے لئے مبارک بنیں گے جب ان مقاصد کے حصول کے لئے ہم خالص ہو کر، اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے، اس کے آگے جھکیں گے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
بیشک آج جمعہ کا دن ہے اور یہ دن بہت بابرکت دن شمار ہوتا ہے اور اس لحاظ سے یہ نیا سال جو آج شروع ہورہا ہے ایک انتہائی بابرکت دن سے شروع ہورہا ہے۔
آنحضرتﷺ نے بھی اس دن کی اہمیت کے بارے میں بعض ارشادات فرمائے ہیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ باوجود اس کی اہمیت کے جس طرح حقیقی مومن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،غیرمومن فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ دن تو وہی ہے۔ ایک مومن اس دن کو اپنی نجات کا باعث بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن غیرمومن صرف یہ جانتا ہے کہ یہ ہفتہ کے سات دنوں میں سے ایک دن ہے۔ ایک مومن آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے جس کا حدیث میں بھی ذکر آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے جمعہ کا ذکر کیا اور فرمایا۔ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو ایسا وقت میسر آئے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے قبول کی جاتی ہے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ یہ وقت بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ (مؤطا امام مالک۔ باب ماجاء فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ)۔ پس مومن تو اس دن میں اپنی دعا کی قبولیت کے نظارے دیکھتا ہے اور غیرمومن اپنے لہو و لعب میں لگا ہوتا ہے۔
سال کا پہلا دن جمعہ کی وجہ سے مومن کے لئے تو اَور بھی اہم ہو گیا ہے کہ وہ اس دن کو اپنی دعاؤں سے سجاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، رات کو بھی اپنی عبادت سے زندہ کرتے ہوئے نئے سال کا استقبال کررہے ہیں جو انتہائی برکت والے دن سے شروع ہورہا ہے۔ جبکہ غیرمومن جس کو نہ جمعہ کی اہمیت کا علم ہے، نہ نئے سال کے استقبال کے طریقے کا پتہ ہے، اس کو صرف یہ غرض ہے کہ نئے سال کی پہلی رات اور گزرے سال کی آخری رات کو یہ وقت لہو و لعب، شور شرابا اور شراب کے جام پہ جام چڑھانے میں گزارنا ہے۔
پس خوش قسمت ہیں ہم جو آنحضرتﷺ کی اُمّت میں سے ہیں۔ ہم اس رسولﷺ کے ماننے والے ہیں جو سراپا نور تھے اور ہیں۔ جنہوں نے ہمیں خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے راستے دکھائے۔ انسان کو، ایک مومن کو اپنی پیدائش کے مقصد کے حصول کی طرف راہنمائی فرمائی اور راستے دکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے تھے جن کی پیروی کرنے والوں سے اور آپ کی سنت پر حقیقی رنگ میں چلنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے محبت کا اعلان فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الٰہی بنا دیتا ہے۔ اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے۔ اسی لئے اللہ جلّشانہ نے قرآن شریف میں آنحضرتﷺ کا نام نور رکھا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے:

قَدْ جَآء کُمْ مِّنَ ﷲِ نُوْرٌ (المائدہ:16)

یعنی تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے‘‘۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ نمبر 372)
پس یہ خداتعالیٰ کا ہم پربہت بڑا احسان ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس نور کی روشنی سے حصہ لینے والے بنیں۔ اور اس کا ایک بہترین طریق آپﷺ نے جمعہ کے دن کی مناسبت سے ہمیں سکھایا ہے تاکہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں۔
ایک حدیث میں حضرت اَوسؓ بن اَوس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے۔ اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو۔ کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تفریع ابواب الجمعۃ)
خداتعالیٰ آپ کو بتاتا ہے کہ دیکھ اے میرے پیارے محمدﷺ تیری امت کے لوگ شکرگزاری کے جذبات سے پُر اور اپنے عمال کو قرآنی تعلیم اور تیرے اُسوہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہوئے اِس بابرکت دن میں تجھ پر درود بھیج رہے ہیں جس کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اس لئے مَیں ان لوگوں سے پیار کا سلوک کرتے ہوئے ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں اور پھر مَیں نے بھی ان کو حکم دیا تھا کہ تجھ پر درود بھیجیں کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی تجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ جب اِن مومنین نے میرے حکم کی تعمیل کی ہے اور میری رضا کے حصول کے لئے میرے پیارے پر درود بھیجا ہے تو مَیں بھی ایسے عبادت گزاروں کی دعائیں سنتا ہوں اور سنوں گا۔
پس آج کے درُود اور آج کی گئی دعائیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والی ہوں گی۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیا جانے والا درُود بشرطیکہ خالص ہو کر آنحضرتﷺ کے عشق میں فنا ہو کر بھیجا جائے آنحضرتﷺ کی شفاعت سے سج کر پھر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا اور زمانہ کے امام ہونے کا درجہ پایا تو وہ آنحضرتﷺ سے سچے عشق اور درُود کی وجہ سے ہی تھا۔ جس سے پھر نور کے ستون آسمان سے زمین کی طرف آنے لگے اور یہی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بھی جو آپ کی بیعت میں شامل ہیں فرمائی ہے کہ اگر تمہیں میری بیعت میں آنے کا دعویٰ ہے، اگر تمہیں آنحضرتﷺ سے محبت کا دعویٰ ہے تو خالص ہوکر آنحضرتﷺ پر درود بھیجو اور اپنی استعدادوں کے مطابق پھر تم بھی اس نور سے حصہ لوگے جو خداتعالیٰ کا نور ہے اور پھر یہی چیز تمہاری دنیا بھی سنوارے گی اور تمہاری آخرت بھی سنوارے گی۔
پھر احادیث میں آج کے دن کی ایک اور اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ مسلم کی حدیث ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ

خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِیْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا

(مسلم کتاب الجمعۃ باب فضل یوم الجمعۃحدیث 1860)
یعنی دنوں میں سے بہترین دن جس میں سورج چڑھتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس دن میں آدم پیدا کئے گئے۔ اس دن میں جنت میں لے جائے گئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے۔ پس اس دن میں برکت سمیٹنے کے بھی مواقع ہیں اور سزا یا محرومی بھی ہوسکتی ہے۔ پس آدم کی اولاد کی صوابدید پر ہے کہ اس نے کس گروہ میں شامل ہونا ہے۔ اس دن کے تقدس کا خیال، دعائیں، درود اور اعمال صالحہ جنت میں لے جانے کا باعث بھی بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ لینے والے بھی بنائیں گے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر باوجود اس دن کی برکت کے جس طرح آدم کو جنت سے نکلنا پڑا یہی اصول ابن آدم کے لئے بھی ہے۔ اگر نیکیوں کی طرف توجہ رہے گی۔ دعاؤں اور درُود کی طرف توجہ رہے گی تو جنت کی طرف قدم بڑھتے رہیں گے۔ یہ دنیا بھی جنت بن جائے گی اور آخرت میں بھی جنت کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اگر انسان برائیوں میں مبتلا ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ جنت سے نکلنے کی خبر دیتا ہے۔ یہ دنیا بھی پھر جہنم بن جاتی ہے۔ پس اس دن کی اہمیت نیک نیتی سے کئے گئے اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط ہے اور ہزاروں ہزار درُود ہوں اس محسن پر جس نے آدم کی اولاد کو دنیوی اور اخروی جنتوں کے راستے دکھائے جیسا کہ مَیں نے احادیث بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور کی گئی دعائیں اور درُود ان جنتوں کا وارث بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی رکھی ہیں اور آخرت میں بھی رکھی ہیں۔
پس جمعہ کی اہمیت اور جنت میں داخل ہونا یا نکلنا اعمال کے ساتھ مشروط ہے۔ دنیوی اور اخروی جنتوں کا قرآن کریم میں ایک جگہ یوں ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن : 47)

یعنی جو شخص اپنے ربّ کی شان اور مقام سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں مقرر ہیں۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں بیان فرماتے ہیں کہ :
’’جو شخص خداتعالیٰ کے مقام اور عزت کا پاس کرکے اور اس بات سے ڈرکر کہ ایک دن خداکے حضور میں پُوچھا جائے گا گناہ کو چھوڑتا ہے اُس کو دو بہشت عطا ہوں گے۔ (1) اوّل اسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو عطا کی جاوے گی اور ایک پاک تبدیلی اس میں پیدا ہو جائے گی اور خدا اس کا متولّی اور متکفل ہوگا۔ (2) دوسرے مرنے کے بعد جاودانی بہشت اس کو عطا کیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ وہ خدا سے ڈرا اور اس کو دنیا پر اور نفسانی جذبات پر مقدم کرلیا‘‘۔
(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 158)
پس جمعہ کو جب اللہ تعالیٰ اپنے قرب کی تلاش کے موقعے زیادہ مہیا فرماتا ہے تو جو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا ہے وہی حقیقی مومن ہے۔
پس آج اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ نئے سال کے پہلے ہی دن کو اِس طرح دعاؤں سے سجاؤ کہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں۔ اپنے لئے دعائیں ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے لئے دعائیں ہیں۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعائیں ہیں۔ جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں ہیں۔ جن جگہوں پر ہیں اس ماحول اور معاشرے کے لئے دعائیں ہیں۔ ملک کے لئے دعائیں ہیں۔ ایک مومن تبھی حقیقی مومن بھی کہلاسکتا ہے جب جس ملک میں رہ رہا ہے، جس کا شہری ہے، اس کے لئے بھی دعا کررہا ہو۔ پس یہ سب فرائض ہیں جو ایک احمدی کے سپرد کئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے۔ احمدیوں کی دعاؤں سے ہی دنیا کی بقا ہے۔ انسانیت کی بقا ہے۔ جنت کے راستوں کی طرف راہنمائی ہے۔ اگر خود ہی ان راستوں کی طرف نہیں چل رہے تو دوسروں کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ ہم احمدی تو اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے بھی ہیں جو جنت سے نکلنے کے لئے نہیں آیا۔ جو نہ صرف دونوں جنتوں کا وارث بنا بلکہ جنت کی طرف لے جانے کے لئے اُس تعلیم کے ساتھ آیا جو آپؑ کے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ لائے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ

خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ۔ جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء۔ بُشْرٰی لَکَ یَا اَحْمَدِی۔

اس نے اس آدم کو پیدا کیا اور پھر اُس کو عزت دی۔ یہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے میرے احمد۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 82)

جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآء

کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ‘’اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیھمُ السَّلام خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں۔ خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیراسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو حصہ دیا گیا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 116)
ہر ایک نبی کی فطرت کانقش میری فطرت میں ہے اور آنحضرتﷺ سے تو عشق صادق کی وجہ سے بروزی نبی کا اعزاز پاتے ہوئے آپ کو آنحضرتﷺ کے نور سے جو حصہ ملا ہے اس کی تو کوئی انتہاء نہیں ہے۔ یہ آدم جو اس زمانہ میں آیا یہ نور محمدی سے پُر ہے۔ اس لئے روشنی کے نئے سے نئے راستے ہمیں دکھاتا ہے۔ دعاؤں کے طریقے اور قرینے ہمیں سکھائے۔ دنیا و آخرت کی حسنات کے حصول کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی تاکہ ہم ہمیشہ دنیوی اور اخروی جنتوں کے وارث بنے رہیں۔
پس اِس نور سے فیض حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کے سال کے پہلے دن کو ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دن کو بابرکت بنانے کے لئے دعاؤں اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے جس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آج اِس سال کے اِس بابرکت دن کو احمدیوں نے اس جذبے کے تحت ہی گزارا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد میں باجماعت تہجد کی نماز بھی ادا کی گئی ہے۔ اب یہ جذبہ اس پہلے دن میں ختم نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہر آنے والا دن اس کے اثرات کو ظاہر کرتے چلے جانے والا بنتا چلا جائے۔ ہمارا ہر قدم تقویٰ کی طرف بڑھنے والا ہو۔ رسول پر ایمان مضبوط تر کرنے والا ہو۔ پہلے دن کی اس سلسلہ میں کی گئی کوشش 365 دنوں پر حاوی ہونے والی ہو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ جوآیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ وہ تمہیں اپنی رحمت میں سے دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں ایک نور عطا کرے گاجس کے ساتھ تم چلو گے۔ اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
یہ ہے ایک مومن کی نشانی، اس کا مقام کہ وہ اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ آدم اور ابن آدم کی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ ایک شخص کی لعنتی موت ہوسکتی ہے۔ بلکہ ایک حقیقی مومن کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے، مسلسل قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے اور اس پر قائم رہنا ہے۔ حقوق العباد کی طرف توجہ دینا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح روحانی ترقی کے لئے کوشش، توجہ اور حقوق اللہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اپنی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نئے سال کا استقبال نشے میں دھت ہونے اور بیہودگیاں کرنے سے نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور پاک دل لے کر حاضر ہونے سے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے روحانی معیاروں کو بڑھانے کے لئے دعاؤں سے کیا جاتا ہے۔ مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لئے قربانیاں کرنے سے کیا جاتا ہے۔ توبہ و استغفار سے کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی جہنم سے بھی بچائے اور آخرت کی جہنم سے بھی بچائے۔ ہر ایک خود اپنے عمل کا جوابدہ ہے۔ کوئی کسی کا کفّارہ نہیں بن سکتا۔ پس یہ نیک اعمال ہیں جو دنیا کی حسنات سے حصہ دلانے کا بھی باعث بنتے ہیں اور آخرت کی حسنات سے حصہ دلانے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ پس یہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی کامل پیروی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والی ہوتی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ رسول اللہﷺ کی کامل پیروی خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ جو دوہرا حصہ دیتا ہے اور نور عطا فرماتا ہے یہ دوہرا حصہ اس دنیا کی بھی حسنات ہیں اور آخرت کی بھی حسنات ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیر میں فرق رکھ دے گا وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہوجائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھرجائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے‘‘۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہوسکتی‘‘ (یعنی تقویٰ اور جاہلیت کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے) ’’ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقویٰ کم و بیش ہوسکتا ہے‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177۔ 178)
تقویٰ سمجھ ہے۔ اس کا علم ہے۔ اس کا فہم و ادراک ہے۔ جتنا اس کااللہ تعالیٰ سے تعلق ہے وہ اس کے مطابق، اس مرتبے کے مطابق اوپر نیچے ہوسکتا ہے۔ لیکن جہالت اور تقویٰ جمع نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کے مختلف معیار ہیں۔ اس لئے انسان کو کہا گیا ہے کہ تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ۔ پس چاہے کوئی کم پڑھا لکھا احمدی ہے۔ یا پڑھا لکھا ہے۔ دینی علم رکھنے والا ہے یا کم دینی علم رکھنے والا ہے اگر تقویٰ پر قائم ہے تو جاہلانہ باتوں سے وہ ہمیشہ بچتا رہے گا۔ پس یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جہالت اور تقویٰ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کے معیار بیشک اوپر نیچے ہوسکتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ حقیقی مومن وہی ہے جو تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اعمال بجالانے کی کوشش کرے۔ اس دعا کے ساتھ اپنے ہر دن اور ہر سال میں داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہمیشہ تقویٰ پہ قائم رکھے اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازتا رہے۔ انسان کے اپنے اعمال ہی ہیں جو اسے حسنات سے نوازتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب بناتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ واضح فرمایا ہے بلکہ کئی جگہ فرمایا ہے کہ

وَلَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی (سورۃالفاطر:19)

کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی رحمت میں سے ان لوگوں کو دوہرا حصہ دے گا جو تقویٰ پر قائم ہوتے ہیں اور رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رسول اللہﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور آپؐ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دوہرا حصہ ملتا ہے وہ وہ حسنات ہیں جو دنیوی جنتوں کا بھی وارث بناتی ہیں اور اُخروی جنتوں کا وارث بھی بناتی ہیں۔ پھر اس کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیں دعا بھی سکھادی کہ جنتوں کا وارث بننے کے لئے تمہیں دعا بھی کرنی چاہئے۔ کس کس طرح انسان خداتعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اس کا حق کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ پس ایک ہی طریق ہے کہ انسان مسلسل خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے آگے جھکا رہے۔ ان حسنات کے لئے، اللہ تعالیٰ نے رحمت سے دوہرا حصہ لینے کے لئے حقیقی مومن کو جو دعا سکھائی ہے اور نشانی بتائی ہے وہ یہ ہے جس کا سورۃ بقرہ میں ذکر ہے کہ

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ:202)

کہ انہی میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پس یہ وہ حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دنیا کی حسنہ بھی مانگتے ہیں اور آخرت کی حسنہ بھی مانگتے ہیں۔ نئے سال کے شروع ہونے کی دعا میں صرف دنیاوی ترقیات ہی نہیں مانگتے بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ صرف اپنی بہتری کے لئے ہی نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی سوچتے اور دعا کرتے ہیں۔ پس تقویٰ پر چلنے والے اور حقیقی مومن جہاں دنیا کی حسنات کی تلاش میں ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے آخرت کی حسنہ کے حصول کی بھی دعا کرتے ہیں تاکہ یہ ہر دو حسنات جو ہیں انہیں آگ کے عذاب سے بچائیں۔ یہ ایک ایسی جامع دعا ہے جو عارضی حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے اور مستقل حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ یہ دعا اکثر مانگا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ باب فضل الدعاء باللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ … حدیث 6735۔ 6736)
یہ دعا ایسی ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتے ہوئے جہاں ایک مومن کو اس دنیا میں آگ کے عذاب سے بچاتی ہے وہاں اس عمل کی وجہ سے جو ایک مومن ان حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے اگلے جہان میں بھی اُسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس دنیا میں بھی انسان عَذَابَ النَّار سے گزرتا ہے۔ کئی قسم کے دکھ ہیں۔ حسرتیں ہیں۔ مختلف قسم کی مصیبتیں ہیں۔ جنگیں ہیں۔ یہ سب عَذَابَ النَّار ہی ہیں۔ آگ کے عذاب ہی ہیں۔
آجکل دیکھیں پاکستان میں، افغانستان میں اور بعض دوسرے ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہی جو آگ لگی ہے وہ ان متاثرین کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے

عَذَابَ النَّار

ہی ہے اس آگ نے پوری ملک کی معیشت کو تباہ کردیا۔ صرف ایک شہر کی معیشت تباہ نہیں ہوئی۔ کھربوں کا نقصان ہوا ہے۔ پس آگ کے جو عذاب ہیں وہ اس دنیا میں بھی انسان کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے انسان کو پناہ مانگنی چاہئے اور اگر انسان تقویٰ سے عاری ہے، نیک اعمال نہیں۔ اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں۔ تو ایسے لوگوں کے لئے پھر اللہ تعالیٰ کے بڑے انذار ہیں۔ پس جب انسان دعا کرتا ہے تو حسنات مانگنے کے ساتھ فوراً تقویٰ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔ اپنے آپ کو ہر ایسے کام میں ملوث ہونے سے بچانے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے جس کے نتائج بُرے ہوں اور اس طرف بھی توجہ ہونی چاہئے کہ مَیں اپنے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حسنہ سے محروم نہ رہ جاؤں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے۔ اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونو سنور جاتے ہیں۔ اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونو میں آرام اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔
دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار(البقرۃ:202)۔

اے ہمارے ربّ ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان عطا فرما۔ اور آنے والے جہان میں آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دیکھو در اصل رَبَّنَا کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اَور ربّوں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے۔ اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ربّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔ اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اُس کے رَبّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حُسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اُس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک اُن سب کو ترک کرکے اُن سے بیزار ہوکر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب ّکے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَا کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دلسوزی اور جاں گدازی سے اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے توبہ کرتا اور اُسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب مَیں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کردیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور تیرے آستانہ پر آتا ہوں۔
غرض بجز اس کے خدا کو اپنا ربّ بنانا مشکل ہے جب تک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور اُن کی قدرومنزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی ربّ اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا‘‘۔
پھر فرمایا ’’بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا ربّ بنایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزارہ مشکل ہے۔ بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا ربّ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں۔ سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔ دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقع بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اُس کا رزق آسکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے۔ غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے اُن کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت ؟‘‘ (اپنے حیلوں کو اپنے بہانوں کو اپنے ذرائع کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ان کی پھر توجہ دعا کی طرف بھی نہیں ہوتی)۔ ‘’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس در کے نہ ہو۔ اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض

رَبَّنَا اٰتِنَافِی الدُّنْیا حَسَنَۃً … الخ

ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا ربّ جان چکے ہیں۔ اور ان کو یقین ہے کہ ان کے ربّ کے سامنے اَور سارے ارباب باطلہ ہیچ ہیں ‘‘۔
فرمایا کہ ‘’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حُزن، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلّت و ادبار کے اندیشے۔ ہزاروں قسم کے دکھ۔ اولاد۔ بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں اُلجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ145۔ 144۔ جدید ایڈیشن)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ایک بڑا جامع قسم کا اقتباس ہے۔ اَور بھی بہت سارے ہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس کس طرح انسان کو مشکلات آتی ہیں اور اس دعا کا کیامقصد ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے، ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کو دعا کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دنیا و آخرت کے حسنہ سے نوازتا رہے۔ دنیوی اور اخروی ہر قسم کے آگ کے عذاب سے ہمیں بچائے۔ نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق دے اور یہ سال بھی اور آئندہ آنے والا ہر سال بھی جماعت کے لئے، افراد جماعت کے لئے ہر قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ہر قسم کی حسنہ لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی رنگ میں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس نور سے حصہ پاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے جو حضرت محمد مصطفیﷺ لے کر آئے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں