خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍مارچ 2009ء

آج سے 120سال پہلے 23؍مارچ کو قرآ ن کریم کی وہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بڑی خوشخبری کی صورت میں عطا فرمائی تھی۔
ہر احمدی اس بات کو اچھی طرح سمجھتاہے کہ ہماری مخالفتیں، ہماری ترقی کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں
بلغاریہ اور ہندوستان کے نو احمدیوں کے اخلاص اور ثبات قدم کا محبت بھرا تذکرہ
تاریخ ہمیشہ اس بات پر گواہی دے گی کہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو جماعت کے افراد کی روحانی مادی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلم اُمّہ کے لئے بھی بوقت ضرورت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ چاہے وہ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا فلسطین کی آزادی کا معاملہ ہے یا برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔
ان تمام ظلموں کے باوجود جو جماعت احمدیہ پر روا رکھے گئے خلافت احمدیہ کی برکت سے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مدد فرماتے ہوئے جماعت کو ان ابتلاؤں سے نکالا۔ جماعت نے جو صبر کے نمونے ان حالات میں دکھائے اور آج تک دکھا رہی ہے یہ خلافت سے وابستگی کی وجہ ہے۔
احمدیوں نے تو تمام تر ظلموں کے باوجود ملک کی بہتری کے لئے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے اور وہ کریں گے۔ لیکن احمدیوں کو نقصان پہنچانے والے یہ یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کی تقدیر تم سے ایک دن ضرور بدلہ لے گی۔ آئے دن قانون اور اسلام کی آڑ میں احمدیوں کو جو شہید کیا جاتا ہے یہ خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔
یہ ملک جس آگ کے کنارے پر کھڑا ہے۔ وہاں سے احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کو اس میں گرنے سے بچا سکتی ہیں۔ اس ملک کی تعمیر میں بھی جماعت احمدیہ نے بہت کردار ادا کیا ہے اور اس کے بچانے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی دعائیں ہی کام آئیں گی۔
ملتان میں دو احمدی ڈاکٹروں مکرم ڈاکٹر شیراز باجوہ صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ ڈاکٹر نورین شیراز صاحبہ کی درناک شہادت کا دلگداز تذکرہ
دونوں شہداء اور مکرم ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب اور مکرمہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں شریف احمد صاحب کی نمازجنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 20؍مارچ 2009ء بمطابق20؍امان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آج سے 120 سال پہلے اس مہینے میں، 23مارچ کو قرآن کریم کی وہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بڑی خوشخبری کی صورت میں عطافرمائی تھی۔ مسلم اُمّہ کے ایک ہزار سال کے مسلسل اندھیروں میں ڈوبتے چلے جانے اور مسلمانوں کی اکثریت میں دینِ اسلام کا فقط نام رہ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ چاند روشن کرنے کے بارے میں اطلاع دی تھی جس نے سراج منیر سے روشنی پانی تھی۔ جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ تاقیامت پھر وہ روشنی پھیلاتا چلا جائے گا اور اس کا سلسلہ بھی دائمی ہو گا اور اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے حُسن اور ضیاء سے اس کے تربیت یافتہ بھی ہمیشہ دنیا کے دلوں کو خوبصورتی اور روشنی بخشتے رہیں گے۔
پس آنحضرت ﷺ کے اس عظیم فرزند کی قائم کردہ جماعت کا ایک دور 23مارچ 1889ء کو شروع ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً فرمایا کہ

اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَاوَوَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔

 
(تذکرہ ایڈیشن چہارم۔ 2004ء صفحہ 134)
آپؑ نے ازالہ اوہام میں اس کا ترجمہ یوں فرمایا کہ جب تُو نے اس خدمت کے لئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رُوبرو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے۔ خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا۔
(ازالہ اوھام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ565)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:’’اس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفان ضلالت برپا ہے۔ تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر۔ جوشخص اس کشتی میں سوار ہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جو انکار میں رہے گا اس کے لئے موت درپیش ہے‘‘۔
(فتح اسلام صفحہ 43-42۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ25-24)
بہرحال آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق 23مارچ 1889ء کو بیعت لی اور سینکڑوں خوش قسمت اس روز اس کشتی میں سوار ہوئے اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے آپؑ کی زندگی میں ہی لاکھوں تک پہنچ گئی اور ان بیعت کرنے والوں نے اپنی بیعت کے حق بھی ادا کئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور وہ لوگ روحانی منازل طے کرتے چلے گئے۔ اُن پر بھی مخالفت کی خوفناک اور اندھیری آندھیاں چلیں۔ اپنوں اور غیروں کی دشمنی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپؑ کی بیعت میں آنے کے جرم میں بعض کو شہید بھی کیا گیا۔ جن میں سب سے بڑے شہید، جن کو اذیت دے کے شہید کیا گیا، وہ صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید ہیں۔ جنہیں مولویوں کے فتوے پر بادشاہ کے حکم سے ظالمانہ طور پر پہلے زمین میں گاڑا گیا اور پھر سنگسار کرکے شہید کیا گیا اور ان واقعات نے قرونِ اولیٰ کے ان ظلموں کی یاد تازہ کر دی جو آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ پر روا رکھے گئے تھے۔ لیکن تمام ترمخالفتوں اور ظلموں اور حکومت کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی سازشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ سلسلہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور آپ کے سپردجو کام تھے ان کی تکمیل کرتے ہوئےآخر 26مئی 1908ء کو آپؑ الٰہی تقدیر کے تحت اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔
اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو تسلی کے الفاظ میں فرمایا تھا کہ آپ کی جماعت کا دوسرا دور قدرت ثانیہ کی صورت میں شروع ہو گا۔ جس کے بارے میں خود حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’غرض (اللہ تعالیٰ)دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّدمیں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزے کو دیکھتا ہے‘‘۔
(رسالہ الوصیت صفحہ5-4۔ ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304)
پس جب یہ دوسرا دور شروع ہوا تو جیسا کہ آپؑ نے فرمایا تھا بعض بدقسمت شبہات میں بھی پڑ گئے اور اپنی اناؤں کے چکر میں بھی پڑ گئے۔ جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بڑے واضح الفاظ میں سمجھا کر اصلاح کی طرف مائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کی بدقسمتی کہ خلافت ثانیہ کے انتخاب خلافت کے موقع پر ان میں سے بعض مرتد بھی ہو گئے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ گرتی ہوئی جماعت کو اللہ تعالیٰ

یَدُاللّٰہ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ

کا نظارہ دکھاتے ہوئے سنبھالتا ہے۔ انہوں نے باوجود عقلیں رکھنے کے یہ نہ سوچا کہ کشتی میں سوار ہو کر غرق ہونے سے وہی نجات پائے گا جو دوسری قدرت کے ساتھ جڑا رہے گا اور وہ دوسری قدرت کوئی انجمن نہیں بلکہ خلافت ہے۔ پس آج ہم خوش قسمت ہیں جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اس کشتی میں سوار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی اور غرقابی سے بچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے اوپر ہے۔ دنیا قعر مذلت میں گرتی چلی جا رہی ہے اور احمدی اپنے قادرو توانا خدا کے فضلوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں۔
1908ء سے لے کر آج تک نئے سے نئے حربوں کے ساتھ دشمن جماعت کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر بڑے ابتلاء کے بدنتائج اور دشمن کی مذموم کوششوں سے جماعت کو محفوظ رکھتا چلا جا رہا ہے اور جوں جوں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے، حسد اور مخالفت کی آگ بھی اسی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مخالفتیں بڑھ رہی ہیں اور جہاں جہاں نام نہاد، خود غرض علماء کہلانے والوں کا بس چلتا ہے وہ خدا کے نام پر ان ظلموں کے کرنے سے نہیں چوکتے جو احمدیوں پر کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہر مخالفت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے بتایا ہوا ہے کہ مومنوں کوخداتعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ابتلاء آویں جیسے فرمایا

اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:3-2)

یعنی کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف

اٰمَنَّا

کہنے سے چھوڑ دئیے جائیں گے اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں گے۔ ـــــ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 298۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا:’’غرض امتحان ضروری شے ہے اس سلسلے میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلاء سے خالی نہیں رہ سکتا۔ ہمارے بہت سے دوست ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ‘‘۔
(ملفوظات جلددوم صفحہ 258۔ مطبوعہ ربوہ)
یعنی احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہیں۔
اور پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ :
‘’جب سخت ابتلاء آئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرے تو پھر وہ ابتلاء فرشتوں سے جا ملاتے ہیں ‘‘۔ اور فرمایا کہ نبیوں پر جو ابتلاء آتے ہیں اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے ملائے جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 305 مطبوعہ ربوہ)
فرمایا کہ بغیر امتحان ترقی محال ہے۔ پس یہ ایمان میں پختگی کے لئے وہ نصائح ہیں جن کو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں نے پکڑاہوا ہے اور ہر احمدی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہماری مخالفتیں، ہماری ترقی کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بلغاریہ کے نومبائعین کا ذکر کیا تھا۔ یعنی کچھ تو ان میں نئے احمدی ہیں، کچھ چند سال پہلے احمدی ہوئے۔ انہیں وہاں کے مسلمان مفتی کے کہنے پر جس کا حکومت میں بڑا عمل دخل ہے پولیس نے ہراساں کیا اورپولیس احمدیوں کو پکڑکر سٹیشن بھی لے گئی تھی۔ ان لوگوں کو جب مَیں نے سلام بھجوایا اور حال وغیرہ پوچھا تو مربی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے ہر ایک سے انفرادی رابطہ کیا اور جب پیغام دیا تو ہر ایک کا یہ جواب تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ایمان میں مضبوط ہیں۔ یہ تکالیف تو کوئی چیز نہیں ہیں اور بعض تو جذباتی ہو کر رونے لگے اور میرے لئے پیغام بھجوایاکہ آپ فکر نہ کریں۔ ہم جماعت کی خاطرانشاء اللہ تعالیٰ ہر تکلیف برداشت کریں گے۔ ہمارے لئے صرف دعائیں کرتے رہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا انقلاب برپا کیا؟ یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے کہ قربانی کی روح کو، قرآن کریم کی تعلیم کو احمدیت قبول کرنے کے بعد حقیقی رنگ میں سمجھنے لگ گئے ہیں۔ وہ فہم و ادراک پید اکر دیا ہے جس نے انہیں اس حقیقت سے آشنا کر دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے تو امتحانوں میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ یورپ میں رہنے والے کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اورپھر وہ لوگ جو بڑا عرصہ کمیونزم کے زیر اثر رہے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت سے ان کا ایک خاص تعلق پید اہو گیاہے۔ جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فضل آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے احمدیوں پر فرما رہا ہے۔ اسی طرح آج کل ہندوستان کی نومبائع جماعتوں پر بھی بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور یہ ظلم بھی وہاں حسب روایت نام نہادمُلّاں کر رہے ہیں اورمُلّاں کے کہنے اور اکسانے پر وہاں کے مسلمان کر رہے ہیں اور حکومت اس لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے کہ عنقریب وہاں انتخابات ہونے والے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ انہیں چاہئیں جبکہ احمدیوں کی کوئی ایسی طاقت نہیں ہے۔ لیکن ان ظلم کرنے والوں کو بھی اور اس ظلم ہونے پر آنکھیں بند کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ دنیاوی طاقت تو بے شک نہیں ہے لیکن خداتعالیٰ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔ وہ ہمارا مولیٰ ہے اور جب وہ مدد کو آتا ہے تو ہر چیز کو خسِ راہ کی طرح اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ جب اس کی تقدیر چلتی ہے تو پھر کوئی چیز اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ پس ہندوستان کے احمدی بھی صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ دعاؤں میں زیادہ شدت پیدا کریں اور اپنے ربّ کے ساتھ تعلق کو پہلے سے بڑھ کر بڑھائیں۔
اسی طرح آج کل پاکستان میں بھی احمدیوں کی مخالفت عروج پر ہے۔ حکومت اور مُلّاں کی حرکتوں اور کوششوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ برصغیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے مولویوں کی طرف سے جو مخالفت شروع ہوئی، اس میں مولویوں نے اپنے طور پر بھی نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں اور غیروں کو بھی جماعت کے خلاف بھڑکایا اور ابھارا اور ان کی مدد کی کہ کسی طرح جماعت ختم ہو جائے یا اسے نقصان پہنچایا جائے۔ لیکن ان کی ہر کوشش کے بعد جماعت کے قدم ترقی کی طرف پہلے سے آگے ہی بڑھے ہیں۔ لیکن یہ سب دیکھ کر بھی ان کو احساس نہیں ہوا کہ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ جماعت کسی انسان کی قائم کردہ نہیں بلکہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا تھاکہ ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان خوشخبری کے پورا ہونے کا کھلا کھلا نشان ہے۔ اس لئے ان کو مَیں کہتا ہوں کہ عقل سے کام لیں اور خداتعالیٰ سے مقابلے سے بازرہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے توبہ اور استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے مددگار بن جائیں۔ لیکن ان لوگوں کی آنکھوں اور عقل دونوں پر پردہ پڑا ہوا ہے، پٹیاں بندھی ہوئی ہیں جواِن سے خد اکے نام پر اور اسلام کے نام پر خدا کے بندے پر ظلم کروا رہی ہیں۔ لیکن بھول جاتے ہیں کہ جب ظلم و زیادتی انتہاء پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بندے

مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ (البقرۃ:214)

کی صدا بلند کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی؟ تو پھراللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ

اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرۃ:214)

یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے۔ پس یہ ظلم جو احمدیوں پر روا رکھے جا رہے ہیں، احمدیوں کو ہر جگہ خداتعالیٰ کا قرب دلا رہے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد ان شرپسند نام نہاد علماء کی اکثریت پاکستان میں آگئی تھی اور یہاں جیسا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف بھی اور عموماً بھی ہم ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ سنتے ہیں انہوں نے ملک میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے۔ احمدیوں کے خلاف جو سلوک کر رہے ہیں وہ تو ہے ہی، ملک کی بدنامی کا بھی باعث بنتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ جو آج ملک کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں اور احمدیوں کو یہ کہتے ہیں کہ تمہارے پاس اب صرف یہ آپشنز (Options) ہیں۔ یہ راستے ہیں کہ یا تو احمدیت چھوڑ دو یا ملک چھوڑ دویا پھر اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اور ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر اور رحمۃ للعالمینؐ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم سب کچھ آنحضرت ﷺ کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کے مقام کو قائم رکھنے کے لئے کر رہے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ دینی غیرت سے کر رہے ہیں۔ اور جو ملک بقول ان کے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو وہاں ان کے نزدیک سب سے زیادہ دینی غیرت دکھانے کی ضرورت ہے اور دینی غیرت یہی ہے کہ خدا کے نام پر خدا کے بندوں کو قتل کرو۔
پہلی بات تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کے لئے دینی غیرت جو تمام دنیا میں احمدی دکھارہے ہیں، یہ لوگ تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے جو قربانیاں احمدی کر رہے ہیں اس کا لاکھواں اور کروڑواں حصہ بھی یہ لوگ نہیں کر رہے۔ باوجود اس کے کئی مسلمان ممالک جو تیل کی دولت رکھنے والے ہیں وہ ان مُلّاؤں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اس مدد کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے تو استعمال کر رہے ہیں، اپنے خزانے تو اس سے بھررہے ہیں یا دہشت گردی اور ظلم و بربریت کے لئے تووہ دولت استعمال کر رہے ہیں لیکن اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کی کوشش کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ مولوی جوآج پاکستان پر بھی سب سے زیادہ حق جتانے والے بنے ہوئے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اسلام کے اس قلعہ میں ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ قادیانی اپنے عقیدے کے ساتھ رہ سکیں ان پر واضح ہو کہ پاکستان بنانے میں احمدیوں نے جو کوششیں کی ہیں اور جس کو اس وقت جب یہ سب کوششیں ہو رہی تھیں تمام شریف النفس غیروں نے بھی مانا ہے۔ تم لوگ جو آج پاکستان کے سب سے بڑے ہمدرد بنے ہوئے ہو اور مالک بننے کی کوشش کر رہے ہو اس وقت توپاکستان کے نظریہ کی بھی مخالفت کر رہے تھے۔
جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے کیا کوششیں کیں اس بارے میں ان کے اپنوں کے بعض بیان پڑھ دیتا ہوں کیونکہ 23مارچ کا دن یوم پاکستان کے طورپر بھی منایا جاتا ہے۔ تو اس حوالے سے اتفاق سے یہ چیز بھی آج سامنے آگئی۔ تاکہ شریف النفس لیکن علم نہ رکھنے والوں کو پتہ چلے کہ کیاہے؟ کیونکہ یہ لوگ مولویوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے پاکستان کی تاریخ کو بھی نہیں جانتے۔
ایک ممتاز ادبی اور صحافی شخصیت مولانا محمد علی جوہر صاحب تھے۔ اپنے اخبار ہمدرد 26 ستمبر 1927ء میں انہوں نے لکھا کہ:
‘’ناشکری ہو گی کہ جناب مرزا بشیرالدین محموداحمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں … اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرز عمل سوادِاعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و درباطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہو گا‘‘۔
(اخبار ہمدرد مورخہ 26ستمبر 1927ء بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ صفحہ 8)
یعنی جو اعلان وہ کرتے پھرتے ہیں ظاہر میں تو بڑے بلند بانگ دعوے ہیں لیکن اصل میں بالکل معمولی ہیچ چیزیں ہیں۔ ان لوگوں کے لئے مرزا بشیرالدین محمود احمد اور ان کی جماعت ایک مشعل راہ ثابت ہو گی۔
پھر انقلاب اخبار کے مولانا عبدالمجید سالک صاحب، مسلمانوں کے بہت مشہور لیڈر رہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ:
‘’جناب مرزا بشیرالدین محمود احمد نے اس تبصرے کے ذریعہ سے‘‘ (جو ایک تبصرہ اس وقت مسلمانوں کی حالت پہ تھا اس تبصرے کے ذریعہ سے) ’’مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے جو بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا وہ مرزا صاحب نے انجام دیا‘‘۔
(انقلاب 16نومبر 1930ء بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ صفحہ9)
پھر ہر ایک جانتا ہے کہ پاکستان بنانے کے لئے قائداعظم کا ہی اصل میں ہاتھ ہے ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑ کر یہاں انگلستان میں آگئے تھے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ” مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ مَیں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ نہ ہند وذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتاہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر مَیں نے لنڈن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
(’قائد اعظم اور ان کا عہد‘ از رئیس احمد جعفری صفحہ 192بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ صفحہ 9)
یہ جو صورتحال تھی اس سے ہند کے جو مسلمان تھے ان کو بڑا سخت دھچکا لگا اور سب سے زیادہ ہمدردی تو جماعت احمدیہ کو تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو تھی۔ تو آپؓ نے اس کے لئے بڑی کوشش کی اور یہاں لندن میں اس وقت مولانا عبدالرحیم درد صاحب امام تھے، ان کے ذریعہ سے قائداعظم پر زور ڈالا کہ وہ دوبارہ ہندوستانی سیاست میں آئیں اور بڑی کوششوں سے درد صاحب نے ان کو قائل کیا۔ آخر قائداعظم نے خود کہا کہ امام صاحب کی بڑی ترغیب تھی اور ان کی بہت زیادہ زور اور تلقین نے میرے لئے کوئی جائے فرار باقی نہ چھوڑی۔
بلکہ ایک غیر از جماعت مورخ اور صحافی م۔ ش صاحب ہیں، انہوں نے بھی لکھا کہ’’مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد امام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آگئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے‘‘۔
(پاکستان ٹائمز11 ستمبر 1981 سپلیمینٹ IIکالم نمبر 1بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ صفحہ 10)
جسٹس منیر جو 1953ء کے عدالتی کمیشن کے صدر تھے انہوں نے لکھا ہے کہ” احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیااور چوہدری ظفراللہ خان نے جنہیں قائداعظم نے اس مشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا، (جسٹس منیر اس کمیشن کے ممبر بھی تھے) اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفراللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی۔ یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن حکام کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔ چوہدری ظفراللہ خان نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجو د بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے‘‘۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف منیر انکوائری رپورٹ صفحہ 305 جدید ایڈیشن)
چوہدری ظفراللہ خان نے تو جو خدمات کی ہیں اور اس کے مقابلے میں اس عدالت کے سامنے غیراحمدیوں نے جس طرح بیان دیاہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔
یہ الگ مملکت جس کا نام پاکستان رکھا گیا اس کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور آپؓ کی ہدایت پر جماعت کے افراد نے جو کوششیں کیں ان کی ایک دو مثالیں مَیں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔
تاریخ ہمیشہ اس بات پر گواہی دے گی کہ خلافت احمدیہ ہی ہے جو جماعت کے افراد کی روحانی مادی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلم اُمّہ کے لئے بھی بوقت ضرورت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ چاہے وہ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہو یا فلسطین کی آزادی کا معاملہ ہے یا برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ تاریخ جو جماعت احمدیہ کی تاریخ ہے اس بات پر گواہ ہے کہ ہمیشہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے صف اوّل میں رہی ہے۔
اس کے مقابلے پر مولویوں نے کیاکردار ادا کیا ہے؟ کہتے ہیں پاکستان ہمارا ہے۔ ہماری وجہ سے معرض وجود میں آیا۔ ان کے ذرا بیان پڑھ لیں۔ یہ بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ہے اس میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے حوالے سے جو احراری لیڈر تھے لکھا ہے کہ اب تک کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 398۔ شائع کردہ ’نیا زمانہ پبلیکیشنز‘)
پھر اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فسادات کے دوران احراری لیڈر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے لاہور میں جو تقریریں کیں ان میں سے ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ’’پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے‘‘۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 398۔ شائع کردہ ’نیا زمانہ پبلیکیشنز‘)۔

اِنَّا لِلّٰہ۔

پھر لکھتے ہیں، خود شاہ صاحب کا اپنا بیان ہے کہ’’جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سؤر ہیں اور سؤر کھانے والے ہیں ‘‘۔
(بیان عطاء اللہ شاہ بخاری بحوالہ چمنستان از مولانا ظفر علی خان صفحہ 165مطبوعہ 1944بحوالہ تعمیرترقی پاکستان از پروفیسر نصر اللہ راجہ صفحہ 13)
پھر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مجلس احرار کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس 3مارچ 1940ء کو دہلی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں پاکستان کی تجویز کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور بعد میں بعض لیڈروں نے اپنی تقریروں میں پاکستان کو پلید ستان بھی کہا۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 28۔ شائع کردہ ’نیا زمانہ پبلیکیشنز)
پھر اسی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جماعت یعنی جماعت اسلامی مسلم لیگ کے تصور پاکستان کی علی الاعلان مخالف تھی اور جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، جس کو ناپاکستان کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، یہ جماعت موجودہ نظام حکومت اور اس کے چلانے والوں کی مخالفت کر رہی ہے ہمارے سامنے جماعت کی جو تحریریں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جس میں مطالبہ پاکستان کی حمایت کا بعید سا اشارہ بھی موجود ہو۔ اس کے برعکس یہ تحریریں جن میں کئی ممکن مفروضے بھی شامل ہیں، تمام کی تمام اس شکل کی مخالف ہیں جس میں پاکستان وجود میں آیا اور جس میں اب تک موجود ہے۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ378۔ شائع کردہ ’نیا زمانہ پبلیکیشنز)
مودودی صاحب کا اپنا ایک بیان ہے کہ جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت والے علاقے ہندو اکثریت سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الٰہی قائم ہو جائے گی۔ ان کا گمان غلط ہے۔ دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی۔ اس کا نام حکومتِ الٰہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے۔
(سیاسی کشمکش حصہ سوم طبع اول صفحہ 117۔ بحوالہ جماعت اسلامی کا ماضی اور حال صفحہ 29 تا32)
اب اسی کافرانہ حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں ہر ایک کے سامنے ہیں۔
ان بیانات اور جسٹس منیر کے تبصرے سے صاف عیاں ہے کہ پاکستان کے لئے ان لوگوں کے کیا نظریات تھے جو آج اپنے آپ کو پاکستان کاکرتا دھرتا سمجھتے ہیں۔ جو بھی سیاسی حکومت آتی ہے وہ ان مُلّاؤں کو طاقت سمجھ کر ان سے گٹھ جوڑ کرنے کی کوشش کرتی ہے اورمُلّاں کے ایجنڈے پر سب سے پہلے یہ بات ہوتی ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ ہو سکتا ہے کرو۔ 1953ء میں بھی فسادات ہوئے۔ اُس وقت کچھ نہ کچھ انصاف پسند لوگ تھے اس لئے جو وہ کرنا چاہتے تھے اس وقت مولویوں کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ لیکن 1974ء میں جو اس وقت کی حکومت تھی اس نے اسلام کے نام پر مولویوں کے ساتھ مل کر احمدیوں پر جو ظلم کی داستانیں رقم کی ہیں اور جو ظلم و بربریت کے نمونے دکھائے گئے ہیں آئندہ جب انصاف پسند مؤرخ آئے گا اور پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو ایک تاریک سیاہ باب کی صورت میں یہ لکھاجائے گا۔ اورپھر 1984ء میں ایک آمر نے اس قانون میں، جو 1974ء میں بنایا گیا تھا اور اسمبلی نے پاس کیا تھا، مزید ترامیم کرکے سختی پیدا کی تاکہ احمدیت کو ختم کر دے اور بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیا کہ’’مَیں احمدیت کے اس کینسر کو ختم کر دوں گا۔ ‘‘ نتیجہ کیا نکلا؟ کہ احمدیت تو ترقی پر ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور ان لوگوں کا یا تو پتہ نہیں کہاں گئے یا پھر خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی چکی میں آج کل پس رہے ہیں۔
ان تمام ظلموں کے باوجود جو جماعت احمدیہ پر روا رکھے گئے خلافت احمدیہ کی برکت سے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مدد فرماتے ہوئے جماعت کو ان ابتلاؤں سے نکالا۔ جماعت نے جو صبر کے نمونے ان حالات میں دکھائے اور آج تک دکھا رہی ہے یہ خلافت سے وابستگی کی وجہ ہے۔ اور اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت باندھنے والوں نے اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔
آج کل کی حکومتیں جو پاکستان میں مرکزی اور صوبائی سطح پر قائم ہیں۔ ان کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں کو پاکستان کی بقا عزیز ہے جس کے لئے ہر احمدی اور ہر شریف النفس شہری ہمیشہ کوشش بھی کرتا ہے اور دعابھی کرتا ہے تو اس پاکستان کو قائم کریں جو حضرت قائداعظم قائم کرنا چاہتے تھے۔ نہ یہ کہ مذہبی بنیادوں پر نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی جائیں۔ مذہب کی بنیاد پر دوسروں کے خون سے ہولی کھیلی جائے۔
قائداعظم کیا فرماتے ہیں ؟1947ء کے صدارتی خطبہ میں، اسمبلی میں جو دستور ساز اسمبلی تھی، اس میں قائداعظم کا یہ ارشاد دیکھیں اور پاکستان کی 1974ء کی اسمبلی نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی دیکھیں۔ قائداعظم نے تو یہ فرمایا تھا کہ:
۔ ’’اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہئے۔ خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب۔ اگر آپ نے تعاون اوراشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصے میں اکثریت اور اقلیت، صوبہ پرستی اور فرقہ بندی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی‘‘۔
فرمایا کہ؛’’ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے۔ یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقے میں کوئی تمیز نہ ہو گی۔ یہاں ذات یا عقیدوں میں کوئی تمیز نہ ہو گی۔ ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں۔ آپ آزاد ہیں، آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادت گاہ میں جائیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہئے‘‘۔ یہ قائداعظم فرما رہے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہئے اور ’’آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندونہ رہے گا اور مسلمان مسلمان نہ رہے گا۔ مذہبی مفہوم میں نہیں کیونکہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے‘‘۔
(افکار قائد اعظم صفحہ358 مرتبہ محمود عاصم۔ ناشر مکتبہ عالیہ ایبک روڈ لاہور)
اب یہ تصور قائداعظم نے پیش کیا ہے اور 1974ء کی اسمبلی اس سے بالکل الٹ کام کر رہی ہے۔ پس بانی ٔ پاکستان کا اسمبلیوں کے کام اور حکومتی معاملات چلانے کے لئے یہ تصور تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اسمبلیوں کا کام نہیں ہے کہ کسی کے مذہب اور عقیدے اور عبادت کے طریقوں کا فیصلہ کرتی پھرے کہ کس نے کس طریقے سے عبادت کرنی ہے۔ جس دن حکومت پاکستان میں اس اصل کو سمجھ کر اس اصول پر کام کرنا شروع کیا گیاجس کی راہنمائی قائداعظم نے فرمائی ہے وہ دن پھر انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان کی ترقی کی نئی راہیں متعین کرنے والا دن ہو گا۔ فرقہ پرستی اور قومیت کی دیواریں گریں گی تو تبھی قائداعظم کے خوشحال پاکستان کو پاکستا نی دیکھ سکیں گے۔ پس اب بھی جوسیاستدان ہیں ان کو اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کسی کے دین کی جزئیات کا فیصلہ کرنا یا دین کے بارے میں فیصلہ کرنا اور اپنے عقیدے ٹھونسنا نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اس عظیم شخصیت نے جس نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ مملکت بنا کر دی ہے اس بارہ میں اجازت دی تھی۔
ایک شہری کی حیثیت سے پاکستان کے ہر شہری کو اس کے حقوق دینے چاہئیں۔ ووٹ کا حق ہے، ملازمتوں کا حق ہے، مذہب اور عقیدے کا حق ہے۔ یہ اس کا حق ہے اس کو ملے۔ جہاں تک قانون کے لاگو ہونے کا سوال ہے، قانون ہر ایک کے لئے ایک ہو۔ جو بھی قانون بنتے ہیں وہ کیاجائے۔ یہ برابری کے حق ملیں گے تو ملک میں سکون کی فضا قائم ہو گی۔ ان حکومتوں کو چاہئے کہ اس بات سے سبق سیکھیں کہ 1974ء کے جو فیصلے ہوئے اور پھر 1984ء میں اس میں مزید ترمیم کرکے احمدیوں کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں اور جو پابندیاں لگائی گئیں اس کے بعد سے ملک تنزل کی طرف جا رہاہے۔ کوئی ترقی نظر نہیں آتی ایک قدم آگے بڑھتا ہے توتین قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔
احمدیوں نے تو تمام تر ظلموں کے باوجود ملک کی بہتری کے لئے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے اور وہ کریں گے۔ لیکن احمدیوں کو نقصان پہنچانے والے یہ یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کی تقدیر تم سے ایک دن ضرور بدلہ لے گی۔ آئے دن قانون اور اسلام کی آڑ میں احمدیوں کو جو شہید کیا جاتا ہے یہ خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رکھو۔ فرمایا کہ

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (النساء:94)

اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے اور وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس نے اس کے لئے بہت بڑاعذاب تیار کر رکھا ہے۔
پس اللہ کے عذاب سے ڈرو۔ ایمان کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے کہ سب سے افضل ایمان کا حصہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

کہنا ہے۔ پورا کلمہ بھی نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل حصہ صرف

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

کہہ دینا ہے۔ اور پھر وہ واقعہ جب ایک صحابی نے جنگ کی حالت میں دشمن کو زیر کر لیا اور اس نے کلمہ پڑھ لیا اور پھربھی انہوں نے اس کو قتل کر دیا اور آنحضرت ﷺ تک جب یہ بات پہنچی تو آپ نے اس شدّت سے اسے کہا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا ہے یا اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہے۔ وہ صحابی کہتے ہیں اس وقت جو غصے کا اظہار آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو مَیں یہ چاہتا تھا کہ کاش مَیں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ اس کے باوجود یہ اپنی تعریفیں کرکے کلمہ گوؤں کو قتل کرتے چلے جا رہے ہیں، شہید کرتے چلے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پھر انتہائی ظالمانہ طور پر ایک نوجوان جوڑے میاں بیوی کو ملتان میں شہید کر دیا گیا اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے زمانہ کے امام کو مانا۔ دونوں ڈاکٹر تھے اور بڑے ہر دلعزیز ڈاکٹر تھے۔ ایک کا نام ڈاکٹر شیراز ہے ان کی 37سال عمر تھی اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نورین شیراز 28سال کی تھیں۔ میراخیال ہے کہ شاید یہ شہداء میں عورتوں میں سب سے کم عمر شہید ہیں۔ ان لوگوں کو اتنا بھی انسانیت کا پاس نہیں ہے کہ جو
نافع الناس وجود ہیں، انسانیت کی خدمت کرنے والے ہیں، خدمت خلق کرنے والے ہیں اور تمہارے مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں، ان کو بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیا۔ یہ مخالفین یاد رکھیں کہ احمدی جو ہیں وہ تو کسی مقصد کے لئے شہید ہو رہے ہیں لیکن جو آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے آنے سے جوحق ظاہر ہوا، اس کے انکار کی وجہ سے ملک میں جو بدامنی پھیل رہی ہے اور اس وجہ سے درجنوں معصوم بلا مقصد قتل کئے جا رہے ہیں، یہ بھی قدرت کا ایک انتقام ہے جو لیا جا رہاہے کہ اس کے نتیجہ میں تووہ مسلمان بھی نہیں رہتے جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے جیساکہ مَیں نے آیت پڑھی ہے وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پھر ان سے کیا سلوک ہو گا۔ ان لوگوں کوکچھ خوف خدا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔
گزشتہ دنوں میں پہلے حکومت کے ساتھ، فوج کے ساتھ، لڑائیاں ہوتی رہیں اس کے بعد پھرحکومت نے ہتھیار ڈال دئیے اور سوات میں ایک شرعی نظام جاری کر دیا گیا اور جب شرعی نظام قائم ہو گیا اور عدالتیں بھی قائم ہو گئیں تو اس کے بعد وہاں کے جو بھی کرتا دھرتا مُلّاں تھے انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت کے جو جج ہیں یہاں آنے کی کوشش نہ کریں۔ حکومت کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سلسلہ جو اَب شروع ہو اہے یہ یہاں رکنے والا نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کو مزید بدامنی کی لپیٹ میں لے گا۔ دنیا کی جو صورتحال ہے، دنیا میں پاکستان کی جو صورتحال ہے، اب پورے ملک کو دہشت گرد کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہاں کے وزیر خارجہ نے بھی پچھلے دنوں بیان دیا کہ اگر حکومتوں نے اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو مکمل طور پر یہ ملک دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا۔ وہ مُلاّں جو پاکستان کو پلید ستان کہتا تھا اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب ہوتا نظر آرہاہے۔ اور بظاہر تو یہ لگتاہے کہ اب ان کی کوششیں یہی ہیں کہ اگرملک ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے کہ پاکستان کے نام کو بھی یہ قائم رہنے دیں گے کہ نہیں۔
خلفاء احمدیت ہمیشہ حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان سے بچنا، ان مُلّاؤں سے بچنا۔ اگر ایک دفعہ بھی ان کو کندھے پہ سوار کر لیا تو پھر یہ لوگ پیر تسمہ پا بن جائیں گے۔ لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہی۔ ایک طرف یہ لوگ جو سیاستدان ہیں اپنے آپ کو ملک کا ہمدرد اور بڑا منجھا ہوا سیاستدان سمجھتے ہیں اور اس کے دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس خوفناک حقیقت کو نہیں سمجھ رہے کہ مُلّاں پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اس لئے ان سے کسی بھی قسم کا جو اشتراک ہے وہ حکومتوں کو بھی اور ملک کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ جہاں تک ملاں کی کوشش یا ارادے کا تعلق ہے کہ ان شہادتوں سے وہ احمدیت کی ترقی کو روک سکتے ہیں تو یہ ان کا خام خیال ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا احمدیت تو ہر قدم پر دشمنی کے بعد ترقی کرتی چلی گئی ہے۔ جو کشتی خداتعالیٰ نے خودبنوائی ہے اس کی حفاظت بھی وہ خود کرے گا اور اس کا سفر انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا۔ ہاں جہاں تک اِکّا دُکّا شہادتوں کا یا نقصان کا سوال ہے وہ تو ابتلا آتے رہتے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا اور جو شہادت پانے والے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اپنی دائمی زندگی پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بن رہے ہیں۔ بہرحال احمدی بھی، خاص طور پر پاکستانی احمدی دعاؤں پر بہت زور دیں۔ کیونکہ یہ ملک جس آگ کے کنارے پر کھڑا ہے وہاں سے احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کو اس میں گرنے سے بچا سکتی ہیں۔ اس ملک کی تعمیر میں بھی جماعت احمدیہ نے بہت کردار ادا کیا ہے اور اس کے بچانے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی دعائیں ہی کام آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جن شہید ڈاکٹرز کا مَیں نے ذکر کیا تھا اب ان کے کچھ کوائف بھی بتا دوں۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ 14مارچ کو ڈیوٹی سے فارغ ہو کریہ لوگ سوا تین بجے اپنے گھر پہنچے تو لگتا ہے کوئی پہلے سے وہاں چھپا ہوا تھا، جس نے ان دونوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا۔ دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ڈاکٹر شیراز باجوہ صاحب کی میت ان کے بیڈ روم میں تھی۔ ہاتھ پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ آنکھوں پہ پٹی باندھی ہوئی تھی۔ منہ میں روئی ٹھونسی ہوئی تھی اور گردن میں رسی کا نشان تھا یعنی پھندا ڈالا تھا۔ اَور کئی رسیاں بھی سرہانے پڑی تھیں۔ ان کی ملازمہ جب شام کو آئی ہے تو اس نے ان کودیکھا۔ کہتی ہے پہلے ان کی جو لاش تھی وہ پنکھے سے لٹک رہی تھی اور اسی طرح جو ان کی اہلیہ ہیں ان کو ڈرائنگ میں اسی طرح باندھ کے چھوڑا ہوا تھا۔ منہ میں کپڑا تھا۔ دونوں، ڈاکٹر شیراز صاحب واپڈا ہسپتال ملتان میں آنکھو ں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر تھے اور ڈاکٹر نورین جو تھیں چلڈرن ہسپتال میں تھیں۔ یہ دونوں، احمدی غیر احمدی دونوں طبقوں میں بڑے ہر دلعزیز ڈاکٹر تھے۔ بڑا دھیما مزاج اور ہمدردانہ رویہ رکھنے والے تھے۔ یہ ان کی خاص پہچان تھی۔ کچھ عرصہ انہوں نے فضل عمر ہسپتال میں بھی کام کیا ہے اور یہ کالونی ایسی ہے کہ یہاں ہر طرف سے چاردیواری تھی۔ دیواروں کے اوپرباڑ لگی ہوئی تھی۔ گیٹ ہے۔ سیکیورٹی ہے۔ اس کے باوجود اندر جا کے حملہ کرنے کامطلب ہے کہ لازماً کوئی سازش کی گئی ہے۔ کیونکہ بغیر سیکیورٹی چیک اس کالونی کے اندر کوئی جا ہی نہیں سکتا تھا۔ تو اس میں یہ سب شامل لگتے ہیں۔ دونوں اچھے قابل لائق ڈاکٹر تھے۔ 1998ء میں مضمون نویسی کا کوئی مقابلہ ہوا تھاجس میں ان کی اہلیہ کو ایک بڑا اعزاز بھی ملا تھا۔ کچھ عرصہ ہواتھا کہ ان کی شادی ہوئی تھی اور ابھی ان کے بچے کوئی نہیں تھے۔ بالکل نوجوان تھے جیسا کہ بتایا کہ 37 سال اور 28سال عمر تھی۔ ابھی مَیں انشاء اللہ تعالیٰ نماز کے بعد ان کا جنازہ غائب بھی پڑھوں گا۔ اس جنازہ غائب کے ساتھ کچھ اور جنازے بھی ہیں۔
ایک ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب ہیں جو ہمارے امیر ضلع ہری پور ہزارہ تھے۔ ان کی 15مارچ کو وفات ہوئی ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ نصرت جہاں کے تحت سیرالیون میں خدمات سرانجام دی ہیں۔ پھر یہ بڑا لمبا عرصہ امیر رہے۔ ان پہ بھی چند مہینے پہلے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا اور قاتل یہی کہتا تھا تم قادیانی ہو، تمہیں مارنے آیا ہوں۔ خیر وہ بچ گئے کیونکہ لوگ اکٹھے ہو گئے اور وہ زخمی حالت میں تھے۔ لیکن بہرحال وفات کے وقت ان کی عمر 74سال تھی۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان زخموں کی وجہ سے بھی ان میں کمزوری بڑھتی چلی گئی اور پھر بیمار بھی تھے۔ دل کا حملہ ہوا اور ان کی وفات ہو ئی۔ موصی تھے۔ ان کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی ہے۔
اسی طرح ایک جنازہ سیدہ ناصر ہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں شریف احمد صاحب کا ہے۔ یہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی بیٹی تھیں اور سیدہ مہرآپا صاحبہ کی بہن تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ماموں زاد بہن اور مخلص خاتون تھیں۔ ابھی جنازہ غائب میں ان کا بھی جنازہ شامل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے قرب سے نوازے اور ان کی نیکیاں ان کے پیچھے جو ورثاء ہیں ان کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں