خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍اپریل 2009ء

ایک مومن، ایک دنیاد ار کی طرح صرف اپنے فائدہ کی نہیں سوچتا بلکہ دوسروں کا فائدہ بھی سوچتا ہے۔ حقیقی منافع وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے
مغربی ممالک میں جوحکومت سے سوشل الاؤنس لیتے ہیں انہیں جو بھی کام ملے وہ کام کرکے جتنا بھی کوئی کماسکتا ہو اس کو کمانا چاہئے اور حکومت کے اخراجات کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے
ایک احمدی کے لئے تو یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے حکومت سے کسی بھی قسم کا الاؤنس وصول کرے۔ اس قسم کی رقم کا حاصل کرنا نفع کا سودا نہیں ہے بلکہ سراسر نقصان کا سودا ہے۔
پاکستان، ہندوستان اور دوسرے غریب ممالک میں بھی ایک احمدی کو حتی الوسع یہ کو شش کرنی چاہئے کہ لینے والا ہاتھ نہ بنے بلکہ دینے والا ہاتھ بنے۔
دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے
(قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلامکے ارشادات کے حوالہ سے نفع رساں وجود بننے کے لئے نہایت مفید اور اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 24؍اپریل 2009ء بمطابق24؍شہادت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایک لفظ متعدد بار بعض اوقات سنتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں اور وہ لفظ ہے’’نفع‘‘۔ کاروباری لوگوں کے کاروبار کا مدار ہی اس لفظ پر ہوتا ہے۔ چاہے وہ ایک چھوٹا سا چھابڑی لگا کر اپنا سامان بیچنے والا شخص ہویا ملٹی ملینئر(Multi Millionaire) ہوجس کے کاروبار دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمیشہ یہ لوگ ایسی سوچ میں رہتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ اس کے لئے وہ جائز ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات آج کل کی دنیا میں ناجائز ذرائع بھی استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح ایک عام آدمی ہے جس کا کاروبار سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن وہ بھی اپنے مفاد کی سوچ رہا ہوتا ہے کہ کس طرح وہ کسی بھی چیز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے اور یہی چیز اس کے لئے نفع حاصل کرنا ہے۔ یہ تو دنیاوی معاملات میں اس لفظ کا استعمال ہے لیکن دینی اور روحانی دنیا میں بھی اس کا بہت استعمال ہوتا ہے۔ اس تعلق میں احادیث اور قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کچھ بیان کروں گا۔
یہ لفظ عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے لغوی معنی پہلے بیان کرتا ہوں۔ نَفَعَ کا مطلب ہے کسی چیز کا انسان کو فائدہ پہنچانا۔ کسی چیز کا انسان کو میسر آنا۔ کسی چیز کا قابل استعمال یا قابل فائدہ ہونا۔ لین(Lane) ایک لغت کی کتاب ہے۔ یہ اس میں لکھا ہے۔ پھر لین(Lane) میں ہی

نَفَّعَہٗ۔

(ف کی شد کے ساتھ) لکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی شخص کا کسی کے لئے فائدہ کا سبب بننا اور بعض احادیث کے مطابق ایک مومن کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے فائدے کاموجب بنتا ہے۔
پھر مفردات میں لکھا ہے کہ

اَلنَّفْعُ

ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے۔ یا وسیلہ بنایا جائے۔ پس نفع خیر کا نام ہے۔
پھر لین (Lane)میں ہی اس کا یہ مطلب بھی لکھا ہے کہ کسی شخص کے مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ۔
اور لسان العرب ایک لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ

اَلنَّافِع

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ ذات جو اپنی مخلوق میں سے جس تک چاہتی ہے فائدہ کو پہنچاتی ہے۔ کیونکہ وہ ہر نفع اور نقصان اور ہر خیر اور شر کا پیدا کرنے والا ہے۔
اس لغوی وضاحت کے بعد اب میں احادیث کی روشنی میں یہ بیان کروں گا کہ ایک مومن پر اس لفظ کو کس طرح اطلاق پانا چاہئے۔ ایک مومن ایک دنیا دار کی طرح صرف اپنے فائدہ کی نہیں سوچتا بلکہ دوسروں کا فائدہ بھی سوچتا ہے اور اس کوسوچنا چاہئے۔ قرآن کریم میں بھی ہمیں یہی تعلیم ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات جواحادیث سے ہمیں ملے ہیں وہ بھی یہی بیان کرتے ہیں۔ اور اس فائدہ پہنچانے کے مختلف طریقے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں۔
اس بارہ میں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جن سے پتہ چلتاہے کہ دوسروں کو نفع پہنچانے کے بارے میں آنحضرت ﷺ کے کیا ارشادات ہیں۔
سعید بن ابی بُردہ نے اپنے باپ سے، ان کے باپ نے ان کے دادا سے(حضرت ابو موسیٰ اشعری ان کے دادا تھے) انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا:یا نبی اللہ! جو شخص طاقت نہ رکھے؟ آپؐ نے فرمایا وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے۔ خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے کہا اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟ آپؐ نے فرمایا حاجتمند، مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو؟ آپؐ نے فرمایا :چاہئے کہ اچھی بات پر عمل کرے اور بدی سے باز رہے۔ یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الادب۔ باب کل معروف صدقۃ)
پھر اسی طرح ایک حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے راستے میں درخت کی ایک شاخ پڑی دیکھی تو اس نے کہا اللہ کی قسم !مَیں اس کو ضرور ہٹا دوں گا تاکہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس پر اسے جنت میں داخل کر دیا گیا۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ باب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق۔ حدیث نمبر 6565)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدریؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جس نے ایسے علم کو چھپایا جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے معاملات اور دین کے امور میں نفع پہنچا سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائے گا۔
(سنن ابن ماجہ۔ باب من سئل عن علم فکتمہ حدیث نمبر 265)
پس ایک مومن کے لئے اپنا مال بڑھانے اور مالی مفاد حاصل کرنے میں ہی نفع نہیں ہے بلکہ اصل منافع وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے ملتا ہے۔ جو دائمی ہے اور جس کے کھاتے اگلے جہان میں کھلتے ہیں۔ ان احادیث میں اس منافع کے حصول کے لئے جوسب سے پہلی چیز آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی وہ صدقہ ہے۔ جو ضرورت مندوں، غریبوں، مفلسوں، ناداروں کے بھوک اور ننگ کو ختم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک بکری ذبح کی اور اس کا گوشت غرباء میں اور عزیزوں میں تقسیم کر دیا اور کچھ گھر کے لئے بھی رکھ لیا۔ تو آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ بکری ذبح کی تھی۔ اس کا کس قدرت گوشت بچ گیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ مَیں نے تمام گوشت تو تقسیم کر دیا، صرف ایک دستی بچی ہے۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سوائے اس دستی کے گوشت کے تمام گوشت بچ گیا۔ (ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ)۔ کیونکہ اسی کا ثواب ہے۔ جو لوگوں کے فائدے کے لئے خرچ کیا۔ اسی پر اصل منافع ملنا ہے اور جو منافع ہے وہی بچت ہے۔
پس یہ تو اس انسان کاملؐ کا نمونہ تھا جس کو دنیاوی چیزوں سے ذرا بھی رغبت نہیں تھی اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا اصل مقصد تھا۔ ہر انسان اس مقام تک تو نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن یہ اسوہ قائم کرکے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہمیشہ غریبوں کا خیال بھی تمہارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ کیونکہ حقیقی منافع وہی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور اس بات کی اتنی اہمیت آپ نے بیان فرمائی کہ جب صحابہ نے پوچھا کہ اگر صدقے کی توفیق نہ ہو تو کیا کریں۔ تو فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرو اور کماؤ۔ جس سے تمہیں بھی فائدہ ہو، قوم کو بھی فائدہ ہو۔ قوم پر بوجھ نہ بنو۔ تم اگر کماؤ گے تو ایک تو قوم پر بوجھ نہیں بنو گے۔ دوسرے تم لینے والا ہاتھ نہیں بنو گے بلکہ دینے والا ہاتھ بنو گے جو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔
یہاں مغربی ممالک میں جو حکومت سے سوشل الاؤنس لیتے ہیں انہیں بھی اس بات پر سوچنا چاہئے کہ جس حد تک کام کرکے چاہے کسی بھی قسم کا کام ہو(بعض دفعہ اپنی تعلیم کے مطابق کام نہیں ملتا توجو بھی کام ملے وہ کام کرکے) کوئی جتنا بھی کما سکتا ہو اس کو کمانا چاہئے اور حکومت کے اخراجات کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے۔ اور ایک احمدی کے لئے تو یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے حکومت سے کسی بھی قسم کا الاؤنس وصول کرے۔ اس قسم کی رقم کا حاصل کرنا نفع کا سودا نہیں ہے بلکہ سراسر نقصان کا سودا ہے۔ اسی طرح پاکستان، ہندوستان اور دوسرے غریب ممالک ہیں ان میں بھی ایک احمدی کو حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لینے والا ہاتھ نہ بنے بلکہ دینے والا ہاتھ بنے۔
پھر صحابہ نے جب پوچھا کہ اگر ایسی کوئی صورت ہی نہ بنتی ہو جس سے کوئی کمائی کر سکیں۔ کسی بھی قسم کا کام نہیں ملتا اور اگر کچھ ملا تو مشکل سے اپنا گزارا ہوا اور صدقہ دینے کا تو سوال ہی نہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا کریں ؟۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوسروں کی مدد کے مختلف ذرائع ہیں وہ اختیار کرو ان ذرائع کو استعمال کرو اورکسی حاجتمند کی، ضرورت مند کی کسی بھی طرح مدد کردو، کوئی خدمت کردو۔
اس طرح کی مدد کی بھی ایک اعلیٰ ترین مثال آنحضرت ﷺ نے قائم فرمائی۔ ایک بڑھیا جسے آپ کے خلاف خوب بھڑکایا گیا تھا جب نئی نئی شہر میں آئی تھی تو اس کا سامان اٹھا کر اسے منزل مقصود تک آپؐ نے پہنچایا۔ وہ آپ کو جانتی نہیں تھی کہ آپ کون ہیں ؟ اس نے انجانے میں آپ کو بہت کچھ کہا۔ آپؐ سنتے رہے لیکن آپؐ نے اظہار نہیں کیا۔ اور منزل پر پہنچ کر جب بتایا کہ وہ مَیں ہی ہوں جس سے بچنے کا تمہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ اس جادوگر سے بچ کے رہنا تو بے اختیار اس بڑھیا کے منہ سے نکلا کہ پھر مجھ پر تو تمہارا جادو چل گیا۔ تو کسی بھی رنگ میں، کسی کی تکلیف دور کرکے اسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا یہ بھی صدقہ جتنا ہی ثواب دیتا ہے اور پھر جب صحابہ نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے، کوئی بالکل ہی معذور ہو تو فرمایا کہ بے شمار نیکیاں ہیں جن کا خدا تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ، ان پر عمل کرو۔ یہی تمہارے لئے نفع رساں ہے۔ اور پھر جو برائیاں ہیں ان سے بچو تو یہ تو ہر غریب سے غریب شخص بھی کر سکتا ہے کہ نیکیوں کو بجا لائے اور برائیوں سے بچے۔ اس کے لئے تو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے لئے تو جسمانی طاقت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اب دیکھیں کہ ہمارے پیارے خدا نے چھوٹی سی نیکی کا کتنا اجر رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے اس کی اطلاع ہمیں دی۔
اس بارہ میں بھی ایک حدیث میں ہم نے سن لیا کہ مومنوں کے راستے کی تکلیف دور کرنے کے لئے، راستے سے درخت کی شاخ ہٹانے کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جنت میں داخل کر دیا۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الادب۔ باب اماطۃ الاذی من الطریق)
پس یہ کس قدر منافع بخش سودے ہیں کہ نیکیاں کرنے کے اجر میں اللہ تعالیٰ بے انتہا دیتا ہے۔ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کس حد تک اللہ تعالیٰ اسے نوازتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں، بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک ترک شر دوسرا افاضۂ خیر‘‘۔ ایک شر کو چھوڑنا دوسرے خیر سے فائدہ اٹھانا۔ ’’ترک شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو۔ یعنی دوسرے کو نفع بھی پہنچائے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی صفات پر ایمان ہو اور ان کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’دوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے۔ بادشاہوں کے رُعب اورتعزیرات ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے‘‘۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم ہو تو اس کے احکامات پر عمل ہو گا۔ دوسروں کو نفع پہنچانا تو دور کی بات ہے بعض لوگ ایسے ہیں، اتنے دلیر ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو اوامر ونواہی مقرر کئے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں دیتے اور بڑی دلیری سے اُن باتوں کو کرتے ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ جبکہ ایک دنیاوی حکومت جو ہے اس سے ڈرتے ہیں۔ توفرمایا کہ ’’بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ بجز اس کے کہ اس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 466۔ جدید ایڈیشن)
پھر دوسروں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچانے کا بھی حکم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر علم ہے چاہے وہ دنیاوی علم ہے یا دینی علم ہے، اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ایک نفع مند اور فائدہ بخش سودا کر رہے ہو گے۔ اور جو علم خداتعالیٰ نے دیا ہے اگر اسے چھپائے رکھو گے کہ اگر یہ بات مَیں نے کہیں دوسرے کو بتا دی تو اس کے علم میں بھی اضافہ نہ ہو جائے تو آنحضرت ﷺ نے ایسے شخص کو بڑا انذار فرمایا ہے اور اپنی امت کو نصیحت فرمائی کہ اس بات سے ہمیشہ بچو بلکہ ان سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے بعض دعائیں بھی ہمیں سکھائیں۔
آپؐ جو انسان کامل تھے جن کا ایک ایک لمحہ اور سانس دوسروں کے فائدہ کے لئے وقف تھا۔ آپؐ جب صحابہؓ کے سامنے یہ دعائیں کرتے تھے تو اصل میں انہیں سکھاتے تھے کہ ہمیشہ یہ دعائیں مانگو اورامت میں ان کو رائج کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ اصل منافع اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ ان دعاؤں میں سے دو دعائیں مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں اُس دل سے جو نہ ڈرے اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے اور اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس علم سے جو فائدہ نہ دے۔ مَیں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ میں آتاہوں۔
(سنن الترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب 68/68۔ حدیث نمبر 3482)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب صبح کی نماز ادا کرتے تو سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا کرتے کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَیِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا

کہ اے اللہ میں تجھ سے ایسا علم مانگتا ہوں جو نفع رساں ہو۔ ایسا رزق جو طیب ہو اور ایسا عمل جو قبولیت کے لائق ہو۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الصلوٰۃ والسنۃ۔ باب ما یقال بعدالتسلیم۔ حدیث نمبر925)
پس اپنے آپ کو نافع وجود بنانے کے لئے، نیک اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر خداتعالیٰ کی ذات ہی ہے جو شیطان کے بہکاوے میں آنے سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اس وقت شامل حال ہوتی ہے جب اس کے محبوب ترین بندے کے وسیلے سے اس سے دعائیں مانگی جائیں اور یہ اس وقت ہو گا جب ہم آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہوں گے اور جب یہ ہو گا توپھر ہی ہمارا عمل منافع بخش عمل کہلائے گا۔
ایک دعا جو آنحضرت ﷺ نے سکھائی وہ یہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن یزیدالاانصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں یہ الفاظ بھی فرمایا کرتے تھے کہ: اے میرے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس شخص کی محبت عطا کر جس کی محبت مجھے تیرے حضور نفع دے۔ اے میرے اللہ !میری پسندیدہ چیزوں میں سے جو تو نے مجھے عطا کی ہیں ان میں سے جو تجھے پسند ہیں ان کو میری قوت کا ذریعہ بنا۔ اے میرے اللہ! میری پسندیدہ چیزوں میں سے جو تو نے مجھ سے دور رکھی ہیں تو ان سے مجھے فراغت عطا کر اور وہ چیزیں میری محبوب بنا جو تجھے پسند ہیں۔
(سنن الترمذی۔ ابواب الدعوات۔ باب73/74 حدیث نمبر3491)
خداتعالیٰ کو دنیا میں آنحضرت ﷺ سے زیادہ تو کوئی محبوب نہیں۔ اس لئے ہمیشہ آپؐ کے وسیلے سے جیسا کہ مَیں نے کہا، دعا مانگنی چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے وہ ہمارا محبوب بن جائے اور اس ذریعہ سے ہمیں بھی وہ فیض حاصل ہوتے رہیں جس کے قائم کرنے کے لئے، جس کے پھیلانے کے لئے آنحضرت ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔
انسان کے نفع رساں ہونے کے لئے قرآن کریم کے اس ارشاد کہ

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران:93)

کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران:93)

حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے کیونکہ مخلوق الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے‘‘۔ یعنی اپنے ہم قوم، اپنے ہم وطن انسانوں کی اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے’’جو ایمان کا دوسرا جزو ہے۔ جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران:93)

میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اورمَحَک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 368-367 جدید ایڈیشن)
مَحَک کا مطلب کسوٹی یا معیار ہے۔
جیسا کہ احادیث میں بھی دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے صدقہ کا حکم ہے اس پر اسی وقت عمل ہو سکتا ہے جب قربانی اور ایثار کی روح بھی انسان کے اندر ہو اور وہ حقیقی رنگ میں اس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت ہو اور اسی کے حصول کے لئے یہ دعا جومَیں نے اس سے پہلے پڑھی ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے راہنمائی فرمائی ہے کہ میری محبت تلاش کرو۔
نفع کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ

اَلنَّافِع

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہی ہے جو اپنی مخلوق میں سے جسے جس حد تک چاہتا ہے فائدہ اور نفع پہنچاتا ہے۔ وہی ہے جو نفع اور خیر کا پیدا کرنے والا ہے۔ پس انسان بھی اس وقت تک نفع حاصل کرنے والا اور نفع پہنچانے والا بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مرضی بھی شامل حال ہو۔ اس لئے جب آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی کہ تم نفع رساں وجود بنو تو ساتھ ہی اپنے عمل سے بھی اور نصیحت فرماتے ہوئے بھی یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہی مدد چاہتے ہوئے نافع وجود بننے کی کوشش کرو کیونکہ حقیقی ذات، نافع ذات جو ہے وہ خداتعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کا رنگ اس کے بندے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی اصول بیان فرمایا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ حقیقی مومن کو حقیقی نفع میری ذات سے ہی مل سکتا ہے۔ اس لئے میرے آگے جھکو اور ہر لمحہ مجھے یاد رکھو اور مجھے پکارو۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ پریہ مضمون بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

قَالَ اَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا (الانبیاء :67)

اس نے کہا کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہوجو نہ تمہیں ذرا بھر فائدہ پہنچا سکتا ہے

وَلَا یَضُرُّکُمْ (الانبیاء :67)

اور نہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فائدہ دینے والی ہے۔ بعض شرک تو ظاہری ہوتے ہیں لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ جو مشرکین تھے وہ اُس زمانے میں بھی کیا کرتے تھے۔ آج کل بھی بتوں کی پوجا کرنے والے ہیں جو خود انہوں نے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں، جو نہ ہی کسی قسم کا نفع دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اور یہ شرک جو ظاہری شرک ہے، یہ ہر ایک کو نظر آرہا ہوتا ہے۔ بعض مخفی شرک بھی ہوتے ہیں۔ کسی مشکل وقت میں دنیاوی وسائل کی طرف نظر رکھنا۔ دنیاوی اسباب کو ضرورت سے زیادہ توجہ دینا اور تلاش کرنا۔ افسروں کی بے جا خوشامد کرنا حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو دنیاوی اسباب جو ہیں یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
ایک شخص نے کسی کا واقعہ بیان کیا کہ اس کو ملازمت نہیں مل رہی تھی۔ آخر ایک دن اس کے کسی عزیز رشتہ دار کو پتہ لگا کہ ملازمت کی تلاش میں ہے۔ تعلیم مکمل کر لی ہے۔ بڑا پڑھا لکھا ہے تو اس نے کہا ٹھیک ہے میرا ایک بہت بڑا افسر دوست واقف ہے۔ تم صبح میرے پاس آجانا اس کے گھر چلیں گے۔ خیر اس کو ملنے گئے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے کل تم صبح میرے دفتر آجانا، تو مَیں تمہارا کام کردوں گا۔ ایک جگہ خالی ہے وہاں تمہیں نوکری مل جائے گی۔ وہ کہتا ہے کہ میں صبح سائیکل پر دفتر میں گیا تو گیٹ بند تھا۔ چوکیدار نے کہا کیوں آئے ہو؟ مَیں نے کہا فلاں صاحب نے مجھے کہا ہے اس لئے مَیں ان کو ملنے کے لئے آیا ہوں اور بڑے رعب سے اور فخر سے چوکیدار سے بات کی۔ اس نے کہا گیٹ کھول دو تو چوکیدار نے بتایا کہ ان صاحب کو تو صبح دفتر آنے سے پہلے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ فوت ہو چکے ہیں۔ یہ جو خدا کے علاوہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے یہ زعم توڑ دیتا ہے۔ تو وہ کہتاہے کہ مَیں سخت مایوس ہو کے واپس آیا۔
پس جب بھی انسانوں کو خدا بنایا جاتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر حقیقت میں میری طرف رجوع کرو تو میں ہی ہوں جو تمہیں نفع پہنچانے والا ہوں۔ تمہارے فائدے کے کام کرنے والا ہوں۔ تمہیں ہر چیز میسر کروانے والا ہوں۔ ہر چیز دینے والا ہوں۔
ایک جگہ مزید کھول کر فرمایا کہ یہ دنیا تو عارضی ہے تمہیں ہمیشہ اپنی آخرت کی فکرکرنی چاہئے۔ آخرت کی زندگی کی پرواہ کرنی چاہئے کیونکہ تمام نفع اور نقصان آخرت میں ظاہر ہو کر سامنے آنے والا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَابَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعراء:90-89)

کہ جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے مگر وہی (فائدہ میں رہے گا)جو اللہ تعالیٰ کے حضور(قلب سلیم)، اطاعت شعار دل کے ساتھ حاضر ہو گا۔ پس فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں اور جو اس نے نیکیاں بتائی ہیں، ان پر عمل نہیں تو مال اور اولاد پر خوش نہ ہو یہ کسی کام نہیں آئیں گے۔ خداتعالیٰ یہ نہیں پوچھے گا کہ کتنا مال چھوڑا کر آئے ہو؟ نہ ہی یہ پوچھے گا کہ کتنی اولاد چھوڑی ہے۔ کام آئیں گی تو اپنی نیکیاں اور جیسا کہ حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک درخت کی شاخ راستے سے ہٹانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا اورجنت میں داخل کر دیا۔ ہاں اگر اولاد کام آسکتی ہے تو وہ اولاد جو نیکیوں پر قائم ہو۔ جو ان نیکیوں کو جاری رکھنے والی ہو جو ماں باپ نے کی تھیں ان بچوں کی جونیکیاں ہیں وہ آخرت میں والدین کو لمحہ بہ لمحہ نفع دیتی رہتی ہیں۔ ان کو فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک اطاعت شعار دل لے کر حاضر ہو گے تو یہی تمہارا اصل منافع ہے۔ وہ دل لے کرحاضر ہو گے جو دنیا میں تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیتا رہا تو یہی انسان کی پیدائش کا حقیقی مقصد ہے۔ ایسا دل لے کر جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر وگے۔ اگر ایسا دل لے کر جاؤ گے جو حقوق العباد اداکرتا رہا تو تبھی اس نافع ذات کی صفت نافع سے فیض پاؤ گے۔
لغت کے مطابق قلب سلیم وہ دل ہے جو مکمل طورپر غیراللہ کی ہر قسم کی ملونی سے پاک ہو۔ پھر اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایمان کی کمزوری سے بالکل پاک ہو۔ پھر ہر قسم کے دھوکے سے پاک ہو۔ کسی کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے بھی پاک ہو۔ اخلاقی بے راہ روی سے بھی پاک ہو، یہ قلب سلیم ہے۔ اور بعض کے نزدیک قلب سلیم ایسا دل ہے جو دوسروں کے لئے درد رکھنے والا دل ہو۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرنے والے اورنیک عمل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو پھر میری رضا کی جنتوں میں داخل ہوں گے اور ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے دل عطا فرمائے جو نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس مَیں پیش کرتا ہوں جس سے جماعت کے افراد کے لئے آپؑ کی دلی خواہش اور کیفیت اور دعا کا پتہ چلتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کرمَیں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کر لوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خداتعالیٰ کے لئے، خدا کے رسول کے لئے خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ ایسے شخص کو جو درد و الم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا:’’ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں جس طرز اور جس رنگ کی خدمت جسں سے بن پڑے کرے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی قدر و منزلت ہے جو دین کا خادم ہے اور نافع الناس بھی ہے۔ ورنہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیڑوں کی موت مر جائیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ216-215جدید ایڈییشن)
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام قرآن کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کی سنت کی روشنی میں، اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں