خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍اگست 2009ء

نیکیوں کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے جو بھی مواقع پیدا ہوں وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔
(برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے جلد بعد ہی جرمنی کے جلسہ کاانعقاد اور اب رمضان کے بابرکت ایام ایک خاص روحانی ماحول کا تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تاکید)
بیلجیئم اور جرمنی کے سفر کے دوران جماعت کی مقبولیت اور اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی فضلوں کے ایمان افروز واقعات کا بیان۔ بیلجیئم میں مسجد کے لئے جگہ کی تلاش کے لئے ہدایت۔
جلسہ سالانہ جرمنی کے تمام کارکنان و کارکنات نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
تمام کارکنان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے اوپر جو بھی افسر خلیفۂ وقت کی طرف سے مقرر ہو گا ہم نے اس کی ہر طرح اطاعت کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اسے مکمل تعاون دینا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نے اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے ہیں اور یہ باتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم نے اپنے کام دنیاداروں کی طرح کسی خاص شخصیت کے کہنے یا اس کے تعلق کی وجہ سے نہیں کرنے بلکہ خلیفۂ وقت کے اشارے پر چلتے ہوئے اپنے تمام تر فرائض سرانجام دینے ہیں۔
میری خواہش ہے کہ پہلی فیز(Phase)میں ہم یورپ کے ہر ملک میں جہاں مسجدیں نہیں ہیں آئندہ پانچ چھ سالوں میں کم از کم ایک مسجد بنالیں۔ پھر انشاء اللہ جب ایک مسجد بن جائے گی تو ان میں اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔
پاکستان اور ان تمام ممالک کے احمدیوں کے لئے جہاں احمدیت کی مخالفت ہے رمضان میں خصوصی دعاؤں کی تحریک۔
رمضان میں اللّہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو مستقل ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 21؍اگست 2009ء بمطابق21؍ظہور 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن پہلے ہی مَیں جرمنی کے سفر سے واپس پہنچا ہوں۔ اس سال رمضان کی جلد آمد کی وجہ سے جرمنی کا جلسہ پہلے منعقدکرنا پڑا۔ یو کے(UK) کے جلسے کی مصروفیات کے ساتھ ہی جرمنی کی مصروفیات بھی شروع ہو گئیں۔ یو کے (UK)کے جلسہ پر باہر سے آئے ہوئے وفود جن کی اکثریت افریقن ممالک کے وفود پر مشتمل ہوتی ہے اور جن میں غیر از جماعت اور مختلف حکومتوں کے عہدیدار ہوتے ہیں، ممبر آف پارلیمنٹ ہوتے ہیں، وزراء ہوتے ہیں، ان وفود سے جلسہ کے بعد ملاقات اور میٹنگز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر باہر سے آئے ہوئے مبلغین اور نمائندوں سے بھی ایک میٹنگ اور پھر احمدی احباب جو پاکستان ہندوستان یا دنیا کے کسی بھی ملک سے آئے ہوئے ہوتے ہیں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس طرح میرا جلسہ تو اس حوالے سے کئی دن چلتا رہتا ہے اور اس سال جیسا کہ مَیں نے کہا کیونکہ جرمنی کاجلسہ جلد منعقد کرنا پڑا اس لئے سفر کے دن تک ہی مصروفیت رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جلسہ اور اس کے بعد کی مصروفیات اور پھر جرمنی کا جلسہ اور وہاں کی مصروفیات کا سارا وقت اللہ تعالیٰ نے آرام سے، خیریت سے گزارا اور کسی بھی قسم کا کوئی احساس نہیں ہوا کہ یہ ایک بوجھ ہے۔ اس پر مَیں خداتعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ بہرحال یہ تو مَیں نے اپنا مختصر حال بتایا۔
جو دوسرے احمدی ہیں ان کو بھی اس سال جلسہ کا جو تسلسل ہے وہ نظر آیا۔ انہیں بھی یہ لگا کہ جلسہ سالانہ یوکے (UK) کا جو اثر ہے وہ لمبا چلتا چلا جا رہا ہے اور پھر اس کے ساتھ جرمنی کا جلسہ سالانہ مل گیا۔
ایک لکھنے والے دوست نے مجھے لکھا کہ جرمنی کے جلسے کو دیکھنے اور سننے کا بڑا مزا آرہا ہے اور اس طرح گھر میں ہم سب لوگ وہی جو لنگر کے کھانے ہوتے ہیں وہ پکا کر اور جلسہ کا سماں پیدا کرکے بیٹھے جلسہ سن رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ یو کے کا جلسہ ابھی ختم ہی نہیں ہوا اور ابھی تک برطانیہ کے جلسہ سالانہ کا ہی تسلسل چل رہا ہے اور گھر میں وہی روحانی ماحول ابھی تک قائم ہے۔
ہر ایک جو جلسہ دیکھنے کا مشتاق ہے اس کا جلسہ سے فائدہ اٹھانا اصل چیز ہے اور یہ تسلسل جاری رہنا چاہئے اور اگر یہ تسلسل نہیں تو پھر جلسوں کا فائدہ بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ مومن کی زندگی کا مقصد خداتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، عبادات اور اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسوں کے انعقاد کا بھی یہ مقصد تھا کہ ہر سال جمع ہو کر اپنی سوچوں اور خیالات کو اس نہج پر چلانے کی تربیت لیں اور سارا سال پھر اس روحانی ماحول کے فیض کی جگالی کرتے رہیں یہاں تک کہ اگلا جلسہ آجائے اور پھر روحانیت میں ترقی کی طرف مزید قدم بڑھیں۔
پس یاد رکھیں کہ صرف یو کے اور جرمنی کے جلسے قریب قریب ہونے کی وجہ سے تسلسل کا مزانہیں لینا بلکہ اس تسلسل کو اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اس تسلسل کو قائم رکھنے کی طرف عبادتوں کے حوالے سے آنحضرت ﷺ نے بھی ہمیں توجہ دلائی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ کبائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک کفارہ ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب الصلوٰت الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ)
پس نیکیوں کی طرف توجہ اور ان میں تسلسل اور ان کی آمد کا انتظار ایک مومن کو دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ غیر مومن سے ممتاز کرتا ہے۔ انسان کبائر سے یا گناہوں سے تبھی بچ سکتا ہے جب نیکیوں کو قائم رکھنے کا ایک تسلسل ہو اور ایک خواہش ہو۔ پس نیکیوں کاتسلسل قائم رکھنے کے لئے جو بھی مواقع پیدا ہوں وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اب انشاء اللہ تعالیٰ دو دن بعد یعنی پرسوں اتوار سے اس تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے رمضان بھی شروع ہونے والا ہے۔ جلسے کے روحانی ماحول کو تو ہم نے روحانی مائدے کے ساتھ ساتھ مادی غذا سے بھی لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا۔ رمضان کے ان بابرکت ایام میں ہم نے جسمانی مادی غذا میں کمی کرتے ہوئے صرف روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اسے گزارنا ہے۔ ایک خاص توجہ اور کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے انشاء اللہ۔ اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم رمضان کا حق ادا کرنے والے بنیں۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کا اجراء فرماکر ہمارے لئے ایک زائد ٹریننگ کیمپ مہیا فرما دیا۔ ایک ایسا روحانی ماحول مہیا فرما دیا جس میں ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ ایک علمی، دینی اورروحانی ماحول میسر کیا جاتا ہے جس میں جہاں ہم اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اپنے جائزے لیتے ہیں اور لینے چاہئیں۔ جلسوں کے فوراً بعد ہی مخلصین کی طرف سے خطوط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ جلسہ ہمارے لئے بے انتہا علمی دینی اور روحانی امور کی طرف توجہ دلانے کا باعث بنا ہے۔ جب احمدی اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف دیکھیں تو ایک حقیقی احمدی خوفزدہ ہو جاتا ہے او رپھر بڑے درد کے ساتھ دعا کے لئے کہتے ہیں کہ دعا کریں یہ تو جہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہو اور نیک نیتی سے ہم اس پر دوام حاصل کرنے والے ہوں۔ پس یہ بھی جماعت احمدیہ کی ایک خوبصورتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اپنی جماعت میں پیدا فرمایا ہے۔
آپ علیہ السلام ایک جگہ اپنی جماعت کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’غور سے دیکھا جاوے تو جو کچھ ترقی اور تبدیلی‘‘(یعنی اخلاص اور وفا اور روحانیت میں ترقی مراد ہے)’’ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانے بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 536)
پس یہ انتہا کا حسن ظن ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کیا ہے۔ ایک حقیقی احمدی کو ہلا دینے والی بات ہے۔ یہ ایک انتہائی خوف کی حالت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اگر ہم ان فقرات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزے لیتے رہیں تو ایک کے بعد دوسری نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ ہم اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھاتے چلے جائیں گے۔
دوسرافائدہ جو ان جلسوں سے ہوتا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل جو خداتعالیٰ جماعت پر فرما رہا ہے اس کو دیکھ اور سن کر پھر خداتعالیٰ کے شکر کی طرف توجہ پھرتی ہے۔ ایک احمدی کا سَر اِن فضلوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر اپنے فضل برساتا رہے اور ہمیشہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے شکر گزار بننے والے بندے کہلائیں۔
جن جلسوں میں مَیں شامل ہوتا ہوں، عموماًجلسوں کے بعد مَیں ان کا ذکر بھی کیا کرتا ہوں اور اس حوالے سے خداتعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ کارکنان اور کارکنات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کارکنان کی بھی خواہش اور توقع ہوتی ہے کہ ان کا کچھ ذکر ہو۔ اس لئے آج مَیں جرمنی کے جلسے کے حوالے سے بھی کچھ ذکر کروں گا۔ ایک بات یہاں واضح کر دوں کہ ہمارے کارکنان اس لئے اپنے ذکر کی توقع اور خواہش نہیں رکھتے کہ صرف ان کی تعریف ہو۔ یہ لوگ توبے نفس ہو کر خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر کام کرنے والے ہیں اور جس جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں وہ کوئی دنیاوی اظہار کے لئے، دنیاوی بدلے کے لئے نہیں کر سکتا۔ اس لئے اگر ان کارکنان کے بارہ میں یہ سوچا جائے تو یہ ان پر بڑی سخت بدظنی ہو گی کہ شاید وہ اپنی تعریف کروانے کے لئے ذکر سننا چاہتے ہیں۔ پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ کارکنان صرف اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں۔ ان کو ان کے نقائص اور کمزوریوں کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے تاکہ اصلاح ہو۔ بلکہ ہمارے کارکنان تو خود اپنی کمزوریوں کو ایک لال کتاب میں لکھتے ہیں جو جلسہ کے لئے رکھی گئی ہے تاکہ آئندہ کے لئے یہ غلطی دوہرائی نہ جائے اور یہی مومن کا طرہ امتیاز ہے، ایک خاص شان ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتا ہے۔ جماعت کے افراد کا اور خلافت کا جو تعلق ہے اس تعلق کی وجہ سے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ خلیفہ ٔوقت کے خیالات ان تک پہنچیں۔ اگر خوشنودی کے الفاظ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں اور اگر کسی قسم کی کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، توجہ دلائی گئی ہے تو تب بھی اس بات پر خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ خداتعالیٰ نے انہیں خلافت جیسی نعمت عطا فرمائی ہے جو خالصتاً ہمدردی کے جذبے کے تحت اور مومن ہونے کے ناطے افراد جماعت کے نیکی کی خاطر اٹھنے والے قدموں کی صحیح سمت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور معیاروں کو اونچے سے اونچا تر کرنے کے لئے جو کمیاں رہ گئی ہیں ان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خلافت اور جماعت کے تعلق اور رشتے کو مضبوط تر کرتا چلا جائے۔
جرمنی جماعت کے کارکنان اور کارکنات جلسہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مَیں کہتا ہوں کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ لوگ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اب اتنے میچیور (Mature) اور بالغ ہو چکے ہیں کہ ان ڈیوٹیوں کے اکثر میدانوں میں کوشش کرکے کوئی معمولی نقص نکالے تو نکالے ورنہ عموماً بہت اچھا کام ہوتا ہے اور اس میں بھی نقص نکالنے والے کی نیک نیتی اور اصلاح کم ہو گی اور اعتراض زیادہ ہو گا۔ سوفیصد تو کہیں بھی پرفیکشن (Perfection)نہیں ہو سکتی۔ لیکن انسانی طاقت کے اندر جو بہترین کام ہو سکتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں باوجود اس کے کہ اس کام کے کرنے کی کوئی باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی ہوتی جیسا کہ مَیں نے UK کے کارکنان کے بارے میں بھی کہا تھا۔ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں، مختلف پیشوں کے لوگ ہوتے ہیں اور مختلف کام ان کے سپرد کئے جاتے ہیں جو بڑے احسن طریق پر سرانجام دیتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس کام کے سرانجام دینے کے لئے صرف کر دیتے ہیں۔ کارکنان کے کام کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے اور جلسہ میں شامل ہونے والوں اور دیکھنے والوں کو بھی ان کارکنان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ بے نفس ہو کر کام کرتے ہیں۔ وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس میں کوئی مہارت حاصل نہیں کی ہوتی لیکن اس کے باوجود بڑی بڑی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ معمولی کمیاں رہتی ہیں اور اس سال تو جرمنی والوں نے خاص طور پر بہت محنت کی ہے۔ کارکنان نے بہت تھوڑے وقت میں جلسہ کے جملہ تمام انتظامات کو مکمل کیا ہے۔ جرمنی کے افسرصاحب جلسہ سالانہ بتا رہے تھے کہ جلسہ سے پہلے مارکیاں وغیرہ بھی وہ خود کھڑی کرتے ہیں اس کے لئے اور دوسرے کاموں کے لئے جو وقار عمل ہوتے ہیں اس میں اگر وہ جماعت کو کہتے تھے کہ اڑھائی یا تین سو افراد کی ضرورت ہے تو ہمیشہ روزانہ جو وقار عمل کرنے والے آتے تھے وہ چالیس پچاس زائد آرہے ہوتے تھے۔ اور دنیا میں ہر جگہ خدمت کا جذبہ لئے ہوئے احمدیوں کی یہ خوبصورتی ہے کہ جب بھی کسی جماعتی کام کے لئے بلاؤ، تو دوڑے چلے آتے ہیں۔ پس اس جذبہ کو قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے۔
اس سال جلسہ سالانہ جرمنی سے چند دن پہلے مَیں نے بعض وجوہات کی بناپر اوپر کی انتظامیہ میں تبدیلی کی تھی لیکن انتظامات کو دیکھ کر کوئی احساس نہیں ہوتا تھاکہ افسر جلسہ سالانہ بدلا گیا ہے تو اس وجہ سے کہیں بھی کام کے دھارے میں کوئی روک پیدا ہوئی ہے یا کہیں کام اٹکا ہوا ہے یا رکا ہوا ہے۔ گزشتہ جلسہ سالانہ میں یا اس سے پہلے سالوں میں جن کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی، یا کارکنان نے خود کمیاں محسوس کیں انہیں بڑی خوبصورتی سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ یو کے کے جلسہ سالانہ میں جو اچھا ئیاں انہیں نظر آئیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے فائدہ بھی اٹھایا۔ ایک مومن کا فرض ہے کہ اگر کہیں اچھائی دیکھے تو اسے اختیار کرنے کی کوشش کرے نہ کہ حسد کے جذبے سے اس میں کیڑے نکالے او ر صرف اپنے کام کو ہی دنیا داروں کی طرح سراہتا رہے اور اچھا سمجھتا رہے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ چاہے انفرادی طور پر ہو یا جماعتی طور پر ہو جب بھی رشک اور سبق سیکھنے کی بجائے حسد کا جذبہ ہو گا وہ بے برکت ہو گا۔ مومن ہمیشہ ایک دوسرے کا مددگار ہوتا ہے اور اس سے سبق لیتا ہے۔ ان کے کاموں سے سبق لیتا ہے۔ اچھائی دیکھ کر اس کی تعریف کرتا ہے اس کو اپناتا ہے۔ اگر کوئی کمی دیکھے تو اس کی پردہ پوشی کرنے والا ہوتا ہے۔
اسی طرحUK کے جلسہ کے بعد جو مَیں نے کہا تھا کہ جرمنی والے اس طرف توجہ دیں۔ مَیں نے انتظامات میں مزید بہتری کے لئے، خاص طور پر رہائشی خیموں کی حفاظت کے تعلق میں بعض ہدایات دی تھیں، ان پر بھی انہوں نے پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال ہر شعبہ میں کارکنان اور کارکنات نے جن میں ایک تعداد بالکل نو عمر نوجوانوں کی اور بچوں اور بچیوں کی ہوتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ، ان سب نے بھرپور طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور تمام کارکنان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے اوپر جو بھی افسر خلیفۂ وقت کی طرف سے مقرر ہو گا ہم نے اس کی ہر طرح اطاعت کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اسے مکمل تعاون دینا ہے۔ اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نے اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے ہیں اور یہ باتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم نے اپنے کام دنیاداروں کی طرح کسی خاص شخصیت کے کہنے یا اس کے تعلق کی وجہ سے نہیں کرنے بلکہ خلیفۂ وقت کے اشارے پر چلتے ہوئے اپنے تمام تر فرائض سرانجام دینے ہیں۔ پس مَیں ایک بار پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں کام کرنے والے تمام کارکنان مرد و عورت کا شکر یہ ادا کرتا ہوں، بچیوں بچوں کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس طرح ایم ٹی اے جرمنی کے کارکنان نے جلسے کی کوریج اور متفرق پروگرام دکھانے اور بنانے کے لئے بھی بڑی محنت سے کام کیا ہے اور لندن سے جو ہمارے ایم ٹی اے مرکزیہ کے کارکنان کی ٹیم گئی ہوئی تھی ان سے بھی پورا تعاون کیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی بہترین جزا دے۔
ہر سال مَیں جرمنی کے کچھ لڑکوں کے ایک کام کا ذکر کرتا ہوں جو کسی ایک علیحدہ شعبے کے تحت تو نہیں ہوتے، لنگر کے نظام کے تحت ہی وہ کام ہے لیکن اس میں تین بھائی بڑی محنت سے کا م کرتے ہیں۔ یہ ہے دیگ دھونے کی مشین جو ان بھائیوں نے خود ایجاد کی ہے۔ اس سال بھی انہوں نے اس میں مزید بہتری پیدا کی ہے۔ اسے امپروو (Improve) کیا ہے اور اسے مکمل آٹو میٹک (Automatic) بنا دیا ہے۔ اس کے اندرسارا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے جو دیگ کو مشین کے اندر لے جاتاہے، دھوتا ہے اور جب صاف ہو جائے تو اٹھا کے باہر پھینک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کو بھی جزا دے اور ان کے ذہنوں کو مزید جلا بخشے۔ اس دفعہ انہوں نے مقامی طور پر دو انجینئر یا ٹیکنیشن یا مکینکس بھی ساتھ لگائے تھے۔ ایک شاید بوزنیا کا اور ایک جرمنی کا تھا۔ بہرحال ان سب نے بڑا اچھا کام کیا۔
دوسرے یہ کہ میرے دورے کے بعد جواحباب ہیں وہ عموماًسفر کے حالات اور جلسہ کے بعض واقعات جو ایم ٹی اے پر دکھائے اور سنائے نہیں جاتے انہیں بھی سننے کی خواہش رکھتے ہیں، مجھے خطوط میں ذکر کرتے رہتے ہیں۔ تو یہ سفر تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں بلکہ جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کا سفر ہی خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ برکتوں کے حصول کے لئے تین دن رات ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے سفر کرنے والوں کو بشارت بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بشارت اس کی خوشنودی اور اس کے انعامات کا ملنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ صرف منہ سے دعویٰ نہ ہو کہ ہم خداتعالیٰ کی خاطر سفر کرنے والے ہیں بلکہ بعض خصوصیات کا بھی اظہار ہونا چاہئے۔
سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبۃ:112)

یعنی جو لوگ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، خدا کی حمد کرنے والے ہیں، خداکی راہ میں سفر کرنے والے ہیں، رکوع کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں، نیک باتوں کا حکم دینے والے ہیں اور بری باتوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ایسے مومنوں کو تُو بشارت دے۔ پس ان تمام باتوں کا پیدا ہونا جن کا ذکر کیا گیا، عبادت کرنے والے ہوں، خدا کی حمد کرنے والے ہوں، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، اس کے حضور جھکنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بشارت سے نوازا ہے۔
بہرحال مَیں ذکر کر رہا تھا کہ لوگ سفر کے حالات سننے کے شائق ہوتے ہیں۔ اس لئے مختصر اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے سفر میں خداتعالیٰ برکت بھی بہت ڈالتا ہے بشرطیکہ وہ تمام لوازمات بھی پورے کئے جا رہے ہوں جن کااللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا اور مَیں نے آپ کو بتایا ہے۔
یہاں سے روانہ ہو کر ایک رات ہم بیلجیئم مشن ہاؤس میں بھی ٹھہرے تھے۔ وہاں باقاعدہ مسجد تو نہیں ہے کیونکہ لوکل کونسل اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن دو چھوٹے چھوٹے ہال ہیں جو مشن ہاؤس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے لئے نمازوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ سنٹر برسلز کے قریب ایک قصبے میں ہے جس کا نام دلبیک (Dilbeek) ہے۔ وہاں کے میئر بھی اس دفعہ وقت لے کر مجھے ملنے آئے ہوئے تھے۔ ان سے کافی دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو چلتی رہی۔ مَیں نے جب مسجد کا ذکر چھیڑا تو کہنے لگے مَیں ذاتی طور پر تو اجازت کے حق میں ہوں لیکن مقامی لوگ اور کونسل کے بہت سے اراکین جو ہیں، باوجود اس کے کہ وہ جماعت کو برا نہیں سمجھتے۔ جماعت کے جو فنکشن وغیرہ ہوتے ہیں ان پر بھی آتے ہیں اور بلکہ جہاں بڑے پیمانے پر جماعتی فنکشنز ہوتے ہیں اور کافی ڈسٹربنیس (disturbance) بھی ہوتی ہے، ٹریفک بھی ہوتا ہے، لوگ بھی آتے ہیں، نعرے بھی لگتے ہیں اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن وہ لوگ مسجد بنانے کے مخالف ہیں۔ ان کو رام کرنے میں، ان کو منانے میں کچھ عرصہ لگے گا۔ بہرحال ہمارے لئے تو اب وہاں مزید انتظار مشکل ہے۔
اس لئے مَیں نے وہاں کی جماعت کو یہ ہدایت دی ہے کہ برسلز شہر میں مسجد کے لئے جگہ تلاش کریں تاکہ ہم بیلجیئم میں جلد ہی پہلی مسجد تعمیر کر سکیں۔ انشاء اللہ۔ اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہاں مسجد کی تعمیر کی صورتحال پیدا بھی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ میری اس خواہش کو بھی پورا فرمائے کہ جو پہلی فیز (Phase)ہے اس میں ہم یورپ کے ہر ملک میں جہاں مسجدیں نہیں ہیں آئندہ پانچ چھ سالوں میں کم از کم ایک مسجد بنا لیں۔ پھر انشاء اللہ تعالیٰ جب ایک مسجد بن جائے گی تو ان میں اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔
بیلجیئم کی مسجد کے لئے ان کی MP نے بھی جو ممبر آف پارلیمنٹ ہیں جن کی اب ٹرم ختم ہونے والی ہے انہوں نے مدد کی حامی بھری ہے۔ یہ جلسے پریہاں بھی آئی تھیں اور سٹیج سے انہوں نے مختصر سا اپنا پیغام بھی دیا تھا اور جماعت سے بہت متاثر ہیں بلکہ میرے بیلجیئم پہنچنے سے پہلے مشن ہاؤس میں موجود تھیں کہ مَیں استقبال کرنے والے لوگوں میں شامل ہوں گی اور کافی دیر تک کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا اس لحاظ سے بھی سینہ کھولے کہ وہ احمدیت قبول کرنے کی طرف بھی قدم بڑھائیں۔ ان ممبر پارلیمنٹ خاتون سے ملاقات تھی۔ انہوں نے وہاں آئے ہوئے مراکن اور الجیرین جو ہیں ان میں تبلیغ کے لئے اور جماعت کا پیغام پہنچانے کے لئے بعض مشورے بھی دیئے اور ان کے مشورے بڑے اچھے تھے۔ لگتا ہے دل سے تو احمدی ہو چکی ہیں، صرف اظہارکرتے ہوئے ان کو ابھی خوف ہے۔
بیلجیئم میں ایک انڈونیشین نژاد مرد اوربیلجیئم کی ان کی اہلیہ ہیں اور اسی طرح ایک نو احمدی مراکن اور اس کی ایک غیر احمدی کزن تھیں وہ اور کچھ افریقن لوگ آئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں سے بھی تربیتی اور تبلیغی موضوعات پہ باتیں ہوتی رہیں۔ یہ انڈونیشین دوست جن کا میں نے ذکر کیا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سیبیلجیئم میں رہ رہے ہیں اور وہیں کہیں انہوں نے شادی کی لیکن ان کو خدا پر ایمان نہیں تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی جلسہ یو کے (UK) پر بھی تشریف لائے تھے اور آنے سے چند دن پہلے یعنی یو کے جلسے سے چند دن پہلے احمدی ہوئے تھے۔ جلسہ پر جب یہاں آئے تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ مَیں تو خداکے وجود کا قائل نہیں تھا اور یہ سمجھتا تھا کوئی خدا نہیں ہے لیکن جماعت کا لٹریچر پڑھ کر اورجو مبلغ ہیں ان سے باتیں کرکے مَیں خدا کے وجود کا قائل ہوا اور جب مَیں خدا کے وجود کا قائل ہو گیا تو اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ مَیں احمدی بھی ہو جاتا۔ مراکن لڑکی جو احمدی ہوئی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے مختلف اعتراضات اٹھائے۔ جو پرانے اعتراضات یہ جماعت پر ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال ایک گھنٹے کے قریب کافی لمبی یہ مجلس چلتی رہی۔ وہاں سے باہر نکلا ہوں تو افریقن اوربیلجین نو احمدی اور وہ لوگ جو احمدیت کے قریب ہیں اور دوستوں میں سے ہیں وہ بھی باہر کھڑے تھے ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک نوجوان جنہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ بیلجیئن تھے۔ جو ایک سال ہوا ڈاکٹر بنے ہیں۔ ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔ جب ان سے تعارف ہوا تو ہمارے مبلغ اور امیر صاحب کہنے لگے کہ یہ احمدیت کے بڑے قریب ہیں لیکن ابھی بیعت نہیں کی۔ ابھی مربی صاحب بات کرہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے فوراً جواب دیا کہ UKکے جلسے پر جو عالمی بیعت ہوئی ہے اور جلسہ کا پروگرام میں نے دیکھا ہے مَیں نے تو اس وقت ہی بیعت کر لی تھی۔ تو مربی صاحب اور امیر صاحب کو نہیں پتا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے کہ خود لوگوں کوبھیجتا ہے۔ یہ ہے

نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآء

کا نظارہ۔ بہرحال وہاں نمازوں کے بعد انہوں نے دستی بیعت بھی کی۔ اس کا اظہار کیا کہ دستی بیعت کروں گا۔
جرمنی کے جلسہ کے کارکنوں کے حوالے سے تومَیں نے باتیں کی ہیں۔ جرمنی کا جلسہ سب نے دیکھا ہے۔ ایم ٹی اے نے دنیا کو دکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب جلسہ تھا۔ حاضری بھی 32 ہزار سے اوپر تھی۔ اور گزشتہ جلسہ کے برابر تھی۔ امیر صاحب کا بھی خیال تھااور میرا بھی خیال تھا کہ گزشتہ سال سے شاید 7-6 ہزار حاضری کم ہو کیونکہ گزشتہ سال جوبلی کا جلسہ تھا۔ لیکن جلدی جلسہ کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سکولوں کی چھٹیاں تھیں اس لئے لوگ آئے اور اصل چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل فرماتا ہے تو ہمارے اندازے جو ہیں و ہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
جلسہ سالانہ کے پروگرام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھرپورتھے۔ سب نے تقریر یں سنیں۔ مقررین کے خطابات سے علمی او رروحانی فائدہ اٹھایا ہو گا۔ اُسے صرف حظّ اٹھانے تک ہی محدود نہ کریں بلکہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے دلوں میں پاکیزگی پیدا کریں۔ جلسے کو ہمیں صرف علمی اور ذوقی حظ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی ہم وقتی روحانی فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ بلکہ جیسا کہ مَیں نے سورۃ توبہ کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم وہ تمام خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ عبادت کرنے والے بھی ہوں۔ سجدہ کرنے والے بھی ہوں اور رکوع کرنے والے بھی ہوں۔ نیکیوں کا حکم دینے والے بھی ہوں۔ برائیوں سے روکنے والے اور رکنے والے بھی ہوں۔ اور ہوں گے ہم اس وقت جب خود اپنے آپ میں یہ ساری تبدیلیاں پیدا کریں گے۔ تب ہی ہم برائیوں سے روکنے والے یہ سب کام کرنے والے ہو سکتے ہیں۔
جلسہ کی خاص باتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس سال مشرقی یورپ کے ممالک میں سے دس ممالک سے جلسہ جرمنی پر نمائندگی ہوئی ہے۔ ان میں سے بلغاریہ ہے، ہنگری ہے، رومانیہ ہے، مالٹا ہے، آئس لینڈ ہے، البانیہ، بوزنیا، میسیڈوینا، کسووو، لیتھوینیا۔ ان ملکوں نے اس دفعہ وہاں حاضر ہو کر جلسہ کے پروگرام سنے اور ان میں سے کچھ تعداد تو احمدیوں کی تھی اور بہت سے غیر مسلم یا غیر احمدی مسلمان تھے۔ ان وفود سے ہفتہ کی شام کو ایک مشترکہ میٹنگ امیر صاحب نے رکھی ہوئی تھی۔ لیکن پھرمَیں نے محسوس کیا کہ فائدہ تبھی ہو گاجب علیحدہ علیحدہ یعنی ہر گروپ سے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ ملاقات ہو اور وہاں کے حالات کے مطابق ان سے باتیں ہوں۔ چنانچہ جلسہ ختم ہونے کے اگلے روز ان وفود سے علیحدہ ملاقات ہوئی۔ جس میں مَیں نے ان کے تاثرات پوچھے۔ ہر ایک نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جلسہ کا جو انتظام تھا عجیب حیرت انگیز تھا۔ ہر ایک نے جو احمدی نہیں تھے اس بات کا اظہار کیا کہ اب ہم نے جماعت کو قریب سے دیکھ لیا ہے۔ جلسے کو بھی دیکھ لیا ہے۔ اب ہم اپنے رابطے جماعت سے مزید مضبوط کریں گے اور اس بات پر بھی بلا استثناء سب کو حیرت تھی کہ اتنے بڑے مجمع کو سنبھالنا آسان نہیں ہے۔ لیکن ابھی کیونکہ یہ دنیادار ہیں اس لئے علم نہیں کہ مجمع کو خدا کی خاطرشامل ہونے والا خود سنبھالتا ہے۔ والنٹیئر اور کارکن تو کم کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر شامل ہونے والا کیونکہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے آتا ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو خود سنبھال رہا ہوتا ہے۔ اس لئے کسی پولیس فورس کی یا کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور ہر جلسہ پر ہمیشہ یہاں بھی، وہاں بھی دنیا میں ہر جگہ پر جو غیر شامل ہوتا ہے اس کایہی اظہار کرتا ہے۔ ہر ایک نے یہ کہا کہ امن اور پیار کا ماحول بھی عجیب تھا۔ یہ ہم نے توکہیں نہیں دیکھا۔ ہر ایک لگتا تھا کہ دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہا ہے۔ پھر یہ بھی ان کے لئے حیرت انگیز بات تھی کہ اتنے بڑے مجمع کو کھانا کھلا نا اور بڑے آرام سے کھلانا اور ایسٹ یورپ میں تو ویسے بھی ڈسپلن اتنا نہیں ہے ان کے لئے تو بہت بڑی بات تھی۔ پھر ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ تو ان کے لئے بالکل ہی انوکھی بات تھی۔ پس یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے جو جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص کرتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس خصوصیت کو بھی قائم رکھیں اور یاد رکھیں۔ بعض دفعہ جہاں بڑی بڑی دلیلیں کام نہیں کرتیں عملی نمونے جو ہیں اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔
بلغاریہ سے نوّے (90)افراد کاوفد باوجود اس کے کہ وہاں جماعت کی مخالفت ہے اور جو سرکاری مفتی ہے جماعت کا بڑا سخت مخالف ہے اور اس مفتی کی وجہ سے ہماری جماعت پر بڑی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ اس کے باوجود اتنے لوگ شامل ہوئے۔ اتنی تعداد میں لوگوں کا آنا جس میں سے نصف احمدی اور باقی غیر از جماعت دوست تھے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پھر لوگ ان کی پابندیوں کی وجہ سے حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ یہ پابندیاں بھی تبلیغ کا کام کرتی ہیں۔ مخالفت کی وجہ سے عیسائیوں کو بھی توجہ پیدا ہوئی ہے اور بہت سے عیسائی بھی وہاں آئے تھے۔ ایک باپ بیٹی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا ہم نے علیحدہ بھی ملنا ہے۔ تو باپ نے پھر مجھے بتایا کہ گزشتہ سال مَیں یہاں آیا تھا اور اپنے بیٹے کے ساتھ آیا تھا اور میرا بیٹا وہاں پولیس میں ملازم تھا۔ جلسہ پر آنے کی وجہ سے واپس جاتے ہی اس کے خلاف چارج شیٹ لگ گئی۔ محکمانہ کارروائی کی گئی اور اس کو پولیس سے فارغ کر دیا گیا۔ مَیں نے کہا مقدمہ کرکے اپنا حق لیں لیکن قانون تو وہاں بھی اس طرح قائم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ملنے کی امید نہیں ہے۔ اس پر صرف یہ الزام تھا کہ جرمنی میں احمدیوں کا جلسہ ہوا وہاں کیوں گئے؟ ضرور تم میں کچھ نہ کچھ بغاوت کا عنصر ہے۔ جو لڑکے کا باپ تھا مَیں نے ان سے کہا کہ اپنے بیٹے سے کہیں کہ احتیاط کریں، ہمارے لئے اپنے آپ کو اتنی مشکل میں نہ ڈالیں۔ اس پر اس شخص نے جواب دیا کہ میرا بیٹا کہتا ہے کہ مجھے تو ان میں سچائی نظر آتی ہے اور یہ مظلوم بھی ہیں۔ اس لئے مَیں ہمیشہ انہی کا ساتھ دوں گا۔ چاہے میری نوکری جائے یا مجھے کوئی اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، مجھے تواس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ باتیں کون ان کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں کر سکتا۔ احمدیت کے یہ لوگ بڑے قریب ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کا سینہ بھی کھولے۔ اس دفعہ جوبیٹی ان کے ساتھ آئی تھیں پڑھی لکھی ہیں۔ ہمارے بعض لٹریچر اور کتب کے اقتباسات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کا جماعت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس وقت مبلغین تو وہاں ہیں نہیں صرف ایک پاکستانی فیملی ہے اور اس فیملی نے ساری جماعت کو وہاں سنبھالا ہوا ہے۔ کافی بڑی تعداد میں جماعت ہو گئی ہے۔ یہ عیسائی خاتون جن کا مَیں نے ذکر کیا۔ ان کا اس وجہ سے بھی اٹھنابیٹھنا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کا یہ ترجمہ کرتی ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اُردو بھی سیکھ لی ہے۔ مَیں جب اس خاتون کے والد سے مربی صاحب کے ذریعہ باتیں کر رہا تھا تو یہ لڑکی اپنا سر ہلاتی جاتی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ اس کو سمجھ آرہی ہے۔ مَیں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا ہاں مَیں نے کافی حد تک اُردو سیکھ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا بھی سینہ کھولے اور احمدیت کی قبولیت کی توفیق عطا فرمائے۔ اس خاتون کے ارُدو بولنے سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ جو ابھی بیعت میں شامل بھی نہیں ہوئے وہ تو قریب آنے کے لئے اُردو سیکھ رہے ہیں اور وہ جن کے ماں باپ کی یہ زبان ہے وہ اسے بھول رہے ہیں تو یہ بعد میں آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لٹریچر آپ کی زبان میں پڑھ کر، کہیں پُرانوں سے آگے نہ نکل جائیں۔
ان وفود میں بعض اخباری نمائندے بھی تھے جنہوں نے اپنے ملکی اخباروں میں جلسہ کی خبریں مع تصویروں کے شائع کرائی ہیں اور اس حوالے سے بھی جوجلسہ ہے وہ تبلیغ کا ذریعہ بن گیا اور جماعت کے تعارف کا ذریعہ بن گیا۔ ان اخباری نمائندوں کو مَیں نے جماعت کا تعارف اور جو ہم انسانیت کے لئے خدمت کر رہے ہیں اس کے بار ہ میں تفصیل سے بتایا۔ ان کو توجہ دلائی کہ انسانی قدر وں کی پہچان ہونی چاہئے۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے اخبارات میں کالم لکھتے رہیں گے۔
جلسہ کے بعد جرمن احمدی مردوں اور عورتوں سے بھی علیحدہ علیحدہ وفود کی صورت میں ملاقات ہوئی۔ اس جلسہ میں شامل ہونے والی وہ خواتین جو قریب تھیں ان میں سے دو بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوئیں۔ ایک ان میں سے جرمن تھیں اور ایک مصری نژاد تھیں۔ مصری خاتون کے میاں بھی مصری تھے۔ وہ بڑے عرصے سے یہاں آباد ہیں۔ انہوں نے بیعت کی۔ جرمن خاتون جنہوں نے بیعت کی وہ تو جذبات سے اس قدر مغلوب تھیں کہ جب مَیں نے ان سے کچھ سوال کئے، تاثرات بیان کرنے کو کہا تو جذبات کی وجہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے، بار بار رو پڑتی تھیں۔ او ریہ کیفیت بناوٹ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتی۔
بعض نئی احمدی خواتین نے اس بات پر بھی بے چینی کا اظہار کیا کہ ہم بعض دکانوں میں کام کرتی ہیں، پہلے ہی کر رہی تھیں جہاں سؤر اور شراب کا کام بھی ہوتا ہے۔ ہم کوشش کر رہی ہیں کہ اس کام کو جلد چھوڑ دیں یعنی ان دکانوں کو جلد چھوڑ دیں۔ براہ راست تو یہ کام نہیں کرتیں لیکن بے چینی سے اس بات کا اظہار کر رہی تھیں کہ ہم سے اس وجہ سے چند ہ نہیں لیا جاتا۔ تو مَیں نے ان کو بتایا کہ اگر تم براہ راست شراب پلانے یا رکھنے یا سنبھالنے کا کام نہیں کر رہی یا سؤر کا کا م نہیں کر رہی تو پھر تو کوئی پابندی نہیں۔ لیکن اگر کسی بھی اس قسم کے کام میں ملوث ہو تو بہرحال چندہ نہیں لیا جائے گا۔ یہ عذر تمہارے لئے تو جائز ہے کہ اپنا پیٹ پالنا ہے لیکن جماعت کے لئے نہیں۔
پھر جب جرمنی اور یورپ کے مرد احمدیوں کی باری آئی تو ان میں سے بھی بہت سارے ہیں جو جماعت کے بہت قریب ہیں وہ بھی ان میں شامل ہوئے۔ مردوں میں سے ایک جرمن اور ایک ہنگری کے آئے ہوئے دوست جلسہ کی کارروائی دیکھ کر جماعت میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے وہیں اس مجلس میں پھر دستی بیعت بھی کی اور ان کی یہ بیعت جذباتی کیفیت میں تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کے انعقاد کا ایک مقصد یہ بھی بتایا ہے کہ غیر قوموں میں تبلیغ کے راستے تلاش کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جلسہ کی کارروائی دیکھ اور سن کر جلسہ کی برکت سے اور نیک اثر قائم ہونے کی وجہ سے، نیک نمونوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پھل بھی عطا فرماتا ہے۔
یہاں ایک وضاحت یہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ یو کے پر مَیں نے نئے شامل ہونے والے ملکوں میں لیتھوینیا کا نام بھی لیا تھا جس پر مجھے یہ بات پہنچی کہ یہ مُلک تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے وقت میں شامل ہو گیا تھا اور دوبارہ تعداد بڑھانے کے لئے شاید نام لیا گیا ہے۔ ملکوں کی تعداد جو مَیں نے 193 بتائی ہے اس کو شامل کرکے بھی تعداد اتنی ہی بنتی ہے۔ اس بارہ میں ایک وضاحت یہ بھی کر دوں کہ 1992ء میں یہاں جماعت کا نفوذ ہوا تھا۔ چند لوگوں نے بیعت کی تھی۔ وہاں مشن بھی کھولا گیا تھا۔ مبلغین سلسلہ کوبھی بھجوایا گیاتھا۔ اس دوران وہاں جماعتی حالات خراب ہو گئے اور جو چند احمدی ہوئے تھے انہوں نے تاتاری مخالفین کے ساتھ مل کر جماعت کی مخالفت شروع کر دی اور معاندانہ رویہ رکھا او ر پیچھے ہٹ گئے۔ ان حالات میں اپریل 1994ء میں وہاں سے مبلغ کو بھی فوراً نکالنا پڑا۔ تو1995ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر لیتھوینیا کو ان ممالک کی لسٹ سے نکال دیا گیا جہاں جماعت قائم کی گئی تھی۔ خود حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اس کا اعلان فرمایا تھا کہ مَیں اس کو نکالتا ہوں۔ جرمنی کے سپرد یہ ملک کیا گیا تھا۔ اب 14سال کے بعد اس ملک میں نئے سرے سے احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ ایک مخلص خاتون جماعت میں شامل ہوئی ہے۔ شادی بھی پاکستانی سے ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں رابطے مزید بڑھ رہے ہیں اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت وہاں ترقی کرتی چلی جائے گی۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر کامیاب رہا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دو دن بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہے۔ اس روحانی ہلچل کے تسلسل کو قائم رکھیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ تقویٰ میں بڑھنے اور دعاؤں کی قبولیت کا یہ خاص موقع انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ملنے والا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری روحانی ترقی کے سامان پیدا فرماتا چلا جائے۔ ہمیں پاک صاف کر دے، ہمارے اندر کی تبدیلیوں کو جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں ایک خاص ماحول کی وجہ سے مستقل رہنے والی تبدیلیاں بنا دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاؤں کا اصل اور جڑیہی دعا ہے۔ کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خداتعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں ‘‘۔ (دنیاوی ضرورتوں کے لئے اور حاجتوں کے متعلق ہوتی ہیں۔ )’’وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں۔ وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرایا جاوے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ617)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس نکتے کو سمجھتے ہوئے اپنے لئے دعائیں کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو مستقل ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی اس رمضان میں دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ رمضان میں مخالفت بھی زوروں پر ہو جاتی ہے۔ ان کے لئے رمضان کی نیکی یہی ہے کہ احمدیوں کی مخالفت کرو اور ان کو تنگ کرو اور انہیں نقصان پہنچاؤ۔ جہاں جہاں اور جس ملک میں بھی احمدیت کی مخالفت ہے وہاں ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ یہ رمضان جماعت کے لئے بے شمار برکتیں اور فضل لے کر آئے اور ہم اس سے صحیح رنگ میں استفادہ پانے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں