خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ستمبر 2009ء

ایسے عباد الرحمن بننے کی کوشش کریں جو خداتعالیٰ کی رضا سے حصہ پانے والے ہوں
یہ ایک احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، خاص طور پر ان حالات میں جبکہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں احمدیوں کے لئے مصائب اور مشکلات کادور ہے کہ احمدی نہ صرف اپنی فرض نمازوں کی طرف توجہ دیں بلکہ اپنی راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں۔
عبادالرحمن بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کی نیک نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 25؍ستمبر 2009ء بمطابق25؍تبوک 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ۔ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا۔ اِنَّھَا سَآ ءتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَایَزْنُوْنَ۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔ (سورۃ الفرقان آیات64تا 69)
وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْھَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔ (سورۃ الفرقان آیات73تا 77)

ان آیات کا ترجمہ ہے۔ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں السلام۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لئے راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ یقیناً وہ عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی بہت بُری ہے اور مستقل ٹھکانے کے طورپر بھی۔ اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو ناحق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ایسا کرے گاگناہ کی سزا پائے گا۔ اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جب انہیں اُن کے ربّ کی آیات یاد کروائی جاتی ہیں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ انہیں اس باعث کہ انہوں نے صبر کیا بالاخانے بطور جزا دئیے جائیں گے اور وہاں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا اور سلام پہنچائے جائیں گے۔ وہ ہمیشہ اُن جنتوں میں رہنے والے ہوں گے۔ وہ کیا ہی اچھا مستقل اور عارضی ٹھکانہ ہے۔
رمضان کا مہینہ آیا اور گزر گیا، لوگوں کے خطوط ابھی تک آرہے ہیں۔ رمضان کے دنوں کے لکھے ہوئے خطوط بھی ہیں اور رمضان کے بعد لکھے ہوئے خطوط بھی جو فیکسز کے ذریعہ سے پہنچ رہے ہیں کہ اللہ کرے ہم نے خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی حقیقتاً کوشش کی ہو اور اگر کوئی پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے تو خداتعالیٰ اُسے جاری بھی رکھے۔ اور یہ خیالات اور احساسات جو ہم میں سے بعض میں پیدا ہوئے ہیں یہی رمضان کا مقصد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض خصوصیات اور علامتیں بتائی ہیں جن کو اختیار کرکے یا جن پر عمل کرکے انسان عباد الرحمن کہلا سکتا ہے۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں یہ خصوصیات بیان ہوئی ہیں جیسا کہ آپ نے سنا۔ جن میں ذاتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے، معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور خداتعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اگر ان کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو خداتعالیٰ ایسے لوگوں کو عباد الرحمن کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے اپنی رضا کی خوشخبری دیتا ہے، اپنی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے۔ پس رمضان کے بعد بھی اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اُس کی جنتوں میں جانے والے ہوں گے۔ اس سے حصہ لینے والے ہوں گے۔ اور اسی وجہ سے پھر جب اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے گا تو جو پاک تبدیلیاں ہم میں سے کسی میں پیدا ہوئی ہیں وہ بھی ہم میں قائم رہیں گی۔
پہلی خصوصیت ان عبادالرحمن کی یہ ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا یعنی زمین پر عاجزی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔ ہر فیصلہ ان کا اعتدال پر ہوتا ہے۔ بلاوجہ کی سختی اور غصّہ ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا جو کہ پھر بعض اوقات تکبّر تک لے جاتا ہے۔ اور بلاوجہ کا ٹھہراؤ بھی ان کی طبیعت میں نہیں ہوتا کہ ان سے بے غیرتی اور مداہنت کا اظہار ہوتا ہو۔ یہ خصوصیت جو بیان کی گئی ہے صرف انفرادی نہیں ہے بلکہ جماعتی طور پر بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے عبادت گزار بنتے ہوئے یہ خصوصیات پیدا کرو۔ اور پھر اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ جو عبادالرحمن ہیں ان کو خداتعالیٰ کی طرف سے غلبہ بھی ملے گا۔ اور جب غلبہ کی صورت ہو تو اس وقت تکبر پیدا نہ ہو۔ اُس وقت پرانے بدلے لینے کی طرف توجہ نہ ہو۔ اُس وقت خدا کو بھولنے والے نہ کہیں بن جانا۔ بلکہ تمہیں عاجزی، انکسار اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے والا ہونا چاہئے۔
دوسری خصوصیت یہ کہ

خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا

یہ اس بات کا ایک طرح سے اعادہ کیا گیا ہے کہ ایک تو انفرادی خصوصیت ہر اللہ کے بندے میں ہونی چاہئے کہ لڑائی جھگڑوں سے بچتے ہوئے ہر سختی کرنے والے اور جھگڑنے والے کو نرمی سے سمجھاؤ اور دوسری یہ کہ جو عاجزی تم نے اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم کے تحت حاصل کرلی، پھر اسی طرح جماعتی طور پر جو وقار تم نے اپنے معاشرے میں، اپنے علاقے میں قائم کر لیا، جب طاقت بھی تمہارے پاس آجائے گی تو پھر بھی اس کو یاد رکھنا۔ شیطان نے اپنا کام کئے چلے جانا ہے۔ تمہارے خلاف مختلف طریقوں سے ایسے محاذ کھڑے کئے جائیں گے کہ جس سے تمہارے جذبات کو بھڑکایا جائے گا اور پھر یہ کہا جائے گاکہ دیکھو یہ کتنے ظلم کرنے والے لوگ ہیں۔ ایسے میں اپنے جذبات کو کنٹرول رکھنا۔ اُن مثالوں کو قائم رکھنا، اُس اسوہ کو قائم رکھنا جو ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے پیش فرمایا۔ گویا اس میں بھی جماعتی طور پر آئندہ حالات بہتر ہونے کی پیشگوئی ہے۔
لیکن اِس وقت بعض ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں ایسی صورتحال ہے کہ احمدیوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات انگیخت کئے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح احمدی اس قسم کی حرکتوں پر جو مخالفین کی طرف سے ہو رہی ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں اور پھر قانون کا بہانہ بنا کر احمدیوں کو سختی اور ظلم کا نشانہ بنایا جائے۔ تو فرمایا ان شیطانی تدبیروں کے مقابلہ پر رحمان کے بندے بنتے ہوئے، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تو کارروائی کرو لیکن گند کا جواب گند سے نہ دو کہ اس سے بھی بعض مسائل دوسرے احمدیوں کے لئے بھی اور جماعتوں کے لئے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔
پس آجکل کے حالات کے حوالے سے مَیں احمدیوں کو کہوں گا کہ ایسے عباد الرحمن بننے کی کوشش کریں جو خداتعالیٰ کی رضا سے حصہ پانے والے ہوں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس میں پیشگوئی بھی رکھی ہے کہ من حیث الجماعت تمہارا ہاتھ ایک وقت میں اوپر ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ تو اُس وقت تم دنیا کو بتانا کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور طاقت رکھتے ہوئے بھی دوسرے کے جذبات کا احساس کرنا اور اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا کیا ہوتا ہے۔
آجکل پاکستان میں خاص طور پر مختلف طریقوں سے مخالفین کی یہ کوشش ہے کہ احمدی کسی طرح بھڑکیں اور ان کو نقصان پہنچانے کی جس حد تک ان کی کوشش ہو سکتی ہے کی جا رہی ہے۔ مختلف جگہوں پر منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس لئے بڑی احتیاط سے، بڑے محتاط طریقہ سے اس سب صورتحال کا سامنا کریں اور صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان حالات کا مقابلہ کریں۔
رحمن خدا کے بندوں کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں ‘‘۔ ہمارا واسطہ انتہائی جاہل لوگوں سے ہے اور اس کے لئے اپنے جذبات کو بہت زیادہ کنٹرول کرتے ہوئے سلامتی اور رحمت کا طریق اختیار کرنے کا اظہار کرنا ہے۔ فرمایا کہ:’’بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمن بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمن کا لفظ ان معنوں کرکے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمتِ وسیع عام طور پر ہریک بُرے بھلے پر محیط ہو رہی ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ449حاشیہ)
پس آج بھی اور آئندہ بھی ہم نے ہر ایک بُرے بھلے، دوست دشمن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پرتَو بننے کی کوشش کرتے ہوئے، رحمت کا سلوک کرتے چلے جانا ہے۔ درگزر کا سلوک کرتے چلے جانا ہے اور دعاؤں سے اپنے لئے مدد مانگنی ہے اور دوسروں کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہے تاکہ ہم ہمیشہ عبادالرحمن میں شامل رہیں۔
پھر تیسری خصوصیت عبادالرحمن کی یہ بتائی کہ

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا

کہ اپنے ربّ کے لئے راتیں سجدے کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
گزشتہ دنوں چند دن کے لئے ایک بہت بڑی تعداد نے اس پر عمل کیا۔ لیکن خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبادالرحمن چند دن گزارتے ہیں۔ بلکہ مستقل اپنی راتیں عبادت اورقیام میں گزارتے ہیں۔ سجدے او ر قیام میں گزارتے ہیں۔ پس یہ ایک احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں احمدیوں کے لئے مصائب اور مشکلات کادور ہے کہ احمدی نہ صرف اپنی فرض نمازوں کی طرف توجہ دیں بلکہ اپنی راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں۔ کیونکہ راتوں کو اٹھنا نفس کو کچلنا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔ اگر ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور راتوں کو عبادت کرنے والے بنیں گے تو یہی چیز انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی مشکلات کے دور کرنے کا باعث بنے گی۔ پس یہ مدنظر رہنا چاہئے کہ راتوں کو اٹھنا صرف ذاتی اغراض کے لئے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور جماعتی ترقی کے لئے اور دعاؤں کے لئے ہو۔ اگر دنیا میں ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے جماعتی ترقی کے لئے رات کے کم از کم دو نفل اپنے اوپر لازم کر لے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح خداتعالیٰ کی مدد پہلے سے بڑھ کر ہمارے شامل حال ہوتی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ دشمن کی دشمنیاں اور مخالفین کی مخالفتیں ہوا میں اڑا دیتا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نوافل کے ذریعہ مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ مَیں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب التواضع)
پس اللہ تعالیٰ نوافل ادا کرنے والوں اور تہجد ادا کرنے والوں کے اتنا قریب آجاتا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور رمضان گزرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پھر اسی طرح راتوں کو ضائع کریں او ر دیر تک فضول مجلسیں لگائی جائیں اور صبح کی نماز کے لئے اٹھنا مشکل ہو جائے۔ نہیں، بلکہ اُن راتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کو قریب لانے والی ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہوں۔
رمضان نے جو ہمیں عباد الرحمن بننے کے اسلوب سکھائے ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے ہمارا یہ کام ہے کہ اپنی راتوں کو عبادتوں سے سجائے رکھیں۔ یہی چیز ہے جو ہمارے حق میں جیسا کہ مَیں نے کہا انشاء اللہ تعالیٰ جلد انقلاب لانے والی ہو گی۔
آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے اس کا حق ادا کیا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ کیا انقلاب لائے۔ دن کو اگر ان کومجبوری کی وجہ سے جنگ کرنی پڑتی تھی تو راتوں کو وہ آرام نہیں کرتے تھے بلکہ راتیں عبادتوں میں گزارتے تھے۔ جب تک مسلمانوں میں راتوں کی عبادت کایہ طریق قائم رہا ان کی ترقی ہوتی رہی۔ آج یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل کرے۔ اور احمدیت اور اسلام کی ترقی کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرے۔
حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ ﷺ آئے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بالکل وحشی لوگ تھے۔ کھانے پینے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے۔ نہ حقوق العباد سے آشنا، نہ حقوق اللہ سے آگاہ۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ

یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْا َنْعَامُ (سورۃ محمد:13)

یعنی صرف ان کا کام کھانا پینا تھا اس طرح کھاتے تھے جس طرح جانور کھاتے ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا کہ

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا

کی حالت ہو گئی۔ یعنی اپنے ربّ کی یاد میں راتیں، سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے۔ اللہ اللہ، کس قدر فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے سبب سے ایک بے نظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہو گئی۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کر دیا اور مردار خوار اور مردہ قوم کو ایک اعلیٰ درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنا دیا۔ دو ہی خوبیاں ہوتی ہیں، علمی یا عملی۔ عملی حالت کا تو یہ حال ہے کہ

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا

اور علمی کا یہ حال ہے کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی‘‘۔ (الحکم جلد 2 نمبر24-25مورخہ20-27 اگست1898 صفحہ 10)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’روحانیت اور پاکیزگی کے بغیر کوئی مذہب چل نہیں سکتا۔ قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی

یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْا َنْعَامُ (سورۃ محمد:13)

پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔

جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا۔ انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے۔ قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہو تو وہ مذہب چل سکتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا اور کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ (البدر جلد 2 نمبر37مورخہ 2اکتوبر1903ء)
پس ہم جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جماعت کی جلد ترقی ہو۔ افراد جماعت کو جن مشکلات اور مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ جلدی دُور ہوں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاآسمانی تریاق کی ضرورت ہے۔ اور آسمانی تریاق اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق حاضر ہو کر مانگنے سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔
پھر چوتھی خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ عباد الرحمن خداتعالیٰ سے جہنم سے دوری کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور جہنم سے دونوں جہنم مراد ہیں، اخروی جہنم بھی جو گناہوں کی پاداش میں ملے گی اور اس دنیا کی جہنم بھی جو بعض برے کاموں کے یا غلطیوں کے بدنتائج کی صورت میں ملتی ہے۔ پس عبادالرحمن کا کام ہے کہ ہر وقت توبہ اور استغفار کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی ذلتوں سے بچائے۔ ہر قسم کی دنیاوی مشکلات کی جہنم سے بچائے۔ دنیا کی چمک اور توجہات اور ترجیحات کا غلام نہ بنائے کہ یہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے دُور لے جا کر پھر اخروی جہنم میں پڑنے کا باعث بناتی ہیں۔ پھریہ کہ اولاد کی طرف سے بھی ہماری فکریں دُور ہوں اور ان کی وجہ سے بھی ہم اپنے اندر دل میں بے چینی کی آگ میں نہ جلتے رہیں۔
پھر عبادالرحمن کی پانچویں خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ لَمْ یُسْرِفُوْا۔ اسراف نہیں کرتے، فضول خرچی نہیں کرتے۔ نہ ہی ذاتی اموال میں دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی جماعتی اموال کو بغیر سوچے سمجھے خرچ کرتے ہیں۔
ذاتی فضول خرچی کی ایک مثال ہمارے ہاں بہت عام ہوتی جا رہی ہے اور وہ ہے شادی بیاہوں پر فضول خرچی۔ ایک د وسرے کی دیکھا دیکھی یہاں بھی او رپاکستان میں بھی کئی قسم کے کھانے پکوائے جاتے ہیں اور شادی کی دعوت ہوتی ہے۔ پھر ولیمہ کی دعوت ہوتی ہے۔ دعوت کرنا کوئی حرج نہیں۔ سادہ بھی کی جا سکتی ہے۔ پھر شادی سے پہلے مہندی کی دعوت کا بھی رواج پڑ گیا ہے جو لڑکی کے گھر والے شادی کی رونق لگانے کے بہانے کرتے ہیں۔ اس پر بھی بے تحاشا خرچ کیا جاتا ہے اور اس کے لئے بھی باقاعدہ کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، تقسیم کئے جاتے ہیں اور دعوت دے کے بلایا جاتا ہے۔ مہندی کرنی ہے تو لڑکیاں یا اس دلہن کی جوسہیلیاں ہیں وہ جمع ہوں اوررونق لگا لیں لیکن اس میں روزبروز وسعت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے اور صرف دیکھا دیکھی۔
پھر ایک نئی رسم یہ پیدا ہو گئی ہے کہ لڑکے والے بھی شادی سے پہلے رونق لگانے کے نام پر دعوت کرنے لگ گئے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ غلط قسم کی جو رسم ہے بلکہ بدعت ہے اس میں اچھے بھلے دین کا علم رکھنے والے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اور پھر جوکسی وجہ سے اتنی زیادہ زیادہ دعوتیں نہ کرے (بہرحال ہمیں حسن ظن یہی رکھناچاہئے کہ کسی نیکی کی وجہ سے) تو اس کے متعلق پھر باتیں کی جاتی ہیں کہ یہ کنجوس ہے، یہ فلاں ہے۔ خاص طور پر باہر کے ملکوں سے لوگ پاکستان جاتے ہیں تو وہ دعوتوں، زیور اور جوڑوں وغیرہ پر بے انتہا خرچ کرتے ہیں اور ہر ایک بڑھ بڑھ کر خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ تو یہ سب اسراف ہے۔ یہی بچت جوہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا یہ غریبوں کے کام آسکتی ہے۔ غریبوں کی شادیوں میں کام آسکتی ہے۔ بہت ساری رقوم یتیموں کو پالنے کے کام آسکتی ہیں اور دوسرے نیکی کے کاموں میں خرچ ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر بچت کرنے کا احساس پیدا ہو جائے تو یہی چیز ہے جو انسان کو عبادالرحمن بناتی ہے۔
پھر چھٹی چیز یہ بیان فرمائی کہ

لَمْ یَقْتُرُوْا

کہ بخل اور کنجوسی بھی نہیں کرتے۔ اور بعض لوگ کنجوسی کرکے جہاں جائز ضرورت ہے وہاں بھی خرچ نہیں کرتے۔ کنجوسی کی انتہا کر دیتے ہیں اور وہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ مال جوڑتے چلے جائیں۔ بعض لوگ تو اس حد تک کنجوس ہوتے ہیں کہ اپنی جو ذاتی جائز ضروریات ہیں ان پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ نہ اپنے عزیزوں کی مدد کرتے ہیں، نہ غریبوں کے لئے کچھ دیتے ہیں۔ نہ ہی جماعت کے لئے قربانی کا مادہ ان میں ہوتا ہے۔ پس جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں مال ہوتے ہوئے بھی خرچ نہ کریں تو وہ بھی عبادالرحمن میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے اسراف کرنے والوں کو ناپسند فرمایا ہے اور عباد الرحمن سے اُنہیں باہر نکالا ہے وہاں بخل کرنے والوں کو بھی انتہائی ناپسند فرمایا ہے۔ ایک تو وہ جوخرچ ہے اس کا حق ادا نہیں کررہا۔ دوسرے پیسے کو روک کر اور صرف جمع کرکے معاشرے کی ترقی میں بھی روک ڈالنے کا باعث بن رہا ہے۔ پس خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمن میں نہ حد سے زیادہ شاہ خرچی ہو اور دنیا دکھاوے کے لئے شاہ خرچی ہو اور نہ ہی اتنی زیادہ کنجوسی کہ جائز ضرورت پر بھی خرچ نہ کریں۔ بلکہ اس کے بین بین رہنا چاہئے اور عبادالرحمن کا خرچ کرنا بھی اور خرچ سے رُکنا بھی خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو۔
پھر ساتویں علامت یہ بتائی کہ عبادالرحمن شرک کے قریب بھی نہیں جاتے۔ شرک خداتعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں لیکن شرک نہیں۔ عبادالرحمن کے ساتھ جو شرک کو مخصوص کیا گیا ہے تو یہ صرف ظاہری شرک نہیں کہ بتوں کی پوجا کی جائے بلکہ شرک خفی سے بھی بچتے ہیں۔ ان کی عبادتوں اور دوسرے حقوق کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہوتی ہے اور بڑی باریکی سے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی عمل کسی قسم کے شرک خفی کا باعث نہ بنے۔ انتہائی محتاط ہوتے ہیں۔ نہ ان کی ملازمتیں ان کی عبادتوں کے سامنے روک بن رہی ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے۔
پھر آٹھویں شرط یا خصوصیت عبادالرحمن کی یہ بتائی کہ کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔ آنحضرت ﷺ نے اگر جنگیں لڑیں اور صحابہؓ نے یا خلفاء نے، خلفاء راشدین نے بھی اور بعد میں مسلمانوں نے بھی تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اگر جنگیں لڑیں تو دشمن کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے اور اس کے ہاتھ کو ظلم سے روکنے کی وجہ سے جنگیں لڑیں اور کوشش یہ کی بلکہ آنحضرت ﷺ نے بھی، آپؐ کے خلفاء نے بھی حکم دیاکہ کوئی بچہ، کوئی عورت، کوئی مذہبی لیڈر، پادری راہب وغیرہ جو جنگ میں شامل نہیں اس کو قتل نہیں کرنا۔ لیکن اس کے مقابلہ پر ہم دیکھتے ہیں (کہ صرف) دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں معصوم جاپانیوں کو قتل کر دیا گیا۔
آجکل بھی امن قائم کرنے کے بہانے جہازوں سے حملے کرکے معصوم شہریوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن جو اپنے زُعم میں اپنے آپ کو عبادالرحمن سمجھتے ہیں وہ بھی خود کش حملے کرکے معصوم جانوں کا خون کر رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر، مذہب کے نام پرجو خون ہو رہا ہے یہ ایک اَوردرد ناک اور بھیانک کہانی ہے۔ پس خداتعالیٰ کا ایسے لوگوں کے لئے فیصلہ یہ ہے کہ وہ کبھی عبادالرحمن نہیں ہو سکتے۔
پھر نویں خصوصیت یا علامت عبادالرحمن کی یہ ہے کہ وہ زنا نہیں کرتے۔ اس میں عملی زنا بھی شامل ہے اور گندے بیہودہ پروگرام اور نظارے دیکھ کر ان سے لطف اٹھانا بھی شامل ہے اور آجکل انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز پرجو بعض ایسے پروگرام دیکھے جاتے ہیں یہ سب ذہنی اور نظری زنا میں شمار ہوتے ہیں۔ پس احمدی کو ان سے بھی خاص طورپر بچنا چاہئے۔
پھر دسویں خصوصیت یہ ہے کہ عبادالرحمن نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ یہ جھوٹ بھی قوموں کے تنزل اور تباہی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے بندے اور الٰہی جماعتیں جو ہیں انہوں نے تو اونچائی کی طرف جانا ہے اور ان سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے لئے ترقی کی منازل ہیں جو انہوں نے طے کرنی ہیں اور اوپر سے اوپر چلتے چلے جانا ہے۔ اُن میں اگر جھوٹ آجائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے نہیں رہتے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے یا جن سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ پس احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے۔ مثلاً عائلی معاملات ہیں۔ نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام لیں گے۔ سچ سے کام لیں گے۔ ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو۔ صاف ستھری بات ہو۔ لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے۔ دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اگر بچے ہو گئے ہیں تو وہ بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ مَیں اس بارہ میں کہہ چکا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اور بندوں کے حق ادا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ایک مومن کو، ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو عبادالرحمن میں شمار کرتے ہیں ہر قسم کے جھوٹ سے نفرت ہو۔
پھر گیارہویں علامت یہ ہے کہ

مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا

یعنی دنیوی لذات سے متاثر ہو کر اس میں شامل نہیں ہو جاتے۔ اس زمانے کی لغویات جیسا کہ مَیں نے کہا ہے انٹرنیٹ بھی ہے، یہ ٹی وی چینلز بھی ہیں جوپروگراموں کے دکھانے میں، عجیب طرح کے غلط پروگراموں کے دکھانے میں مصروف ہیں۔ پھر آجکل لڑکے لڑکیاں سکولوں میں، کالجوں میں، گروپ بنا کر پھرتے ہیں، کلبوں میں جاتے ہیں، پھر ڈانس گانے وغیرہ کئے جاتے ہیں۔ یا اس کے پروگرام بنائے جا رہے ہوتے ہیں یا کنسرٹ دیکھنے کے پروگرام بنائے ہوتے ہیں۔ تو ایک مومن کے لئے یہ سب لغویات ہیں۔ ایک طرف تو ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ہم عبادالرحمن بننے کا بھی عہد کرتے ہیں۔ پھر اس کے باوجود لغویات میں شامل ہونا، ایسی باتوں میں شامل ہونا جو سراسر اخلاق کو برباد کرنے والی باتیں ہیں۔ پس حقیقی احمدی کے لئے ضروری ہے کہ ان سے پرہیز کرے۔
پھر لغویات میں لڑائی جھگڑا وغیرہ بھی شامل ہے۔ پہلے بھی اس کا تفصیل سے ذکر آچکا ہے۔ پھر کسی بھی قسم کی بات جو معاشرے کے امن کو برباد کرنے کا ذریعہ بننے والی ہے، یہ سب لغویات ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:

’’وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔

…اگر کوئی لغوبات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اورلڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طَرَح دے کر چلے جاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو خیال میں نہ لاویں اور معاف فرماویں۔ اور لغو کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا بہ نیتِ ایذا ایسا فعل اس سے صادر ہو کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا۔ سو صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایذاسے چشم پوشی فرماویں اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں ‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 349)
پھر بارہویں علامت یہ ہے کہ جب اُن کے سامنے خداتعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے بلکہ کان کھول کر توجہ سے سنتے ہیں۔ قرآن کریم کے حوالے سے جو نصائح کی جائیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی روحانیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس عبادالرحمن بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کی نیک نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ نہ دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حوالے سے کی جا رہی ہے اس پر عمل کرنا ہے۔ ورنہ عمل نہ کرنا انسان کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ عبادالرحمن کے زُمرے سے نکل جاتے ہیں بلکہ آہستہ آہستہ جماعت سے بھی دُور ہو جاتے ہیں۔
پھر تیرہویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں اوراولادوں کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک رکھے۔ پس آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے یہ نہایت اہم نسخہ ہے کہ جہاں ظاہری تدبیریں اور کوششیں ہو رہی ہیں جو اپنی اولاد کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے ایک انسان کرتا ہے وہاں دعا بھی ہوکیونکہ اصل ذات تو خداتعالیٰ کی ہے جو اچھے نتائج پیدا فرماتا ہے۔ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ وہ لوگ اپنی ذاتی صلاحیت سے اپنی اولاد کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی خیال غلط ہے۔ ایسے لوگ جو دنیا دار لوگ ہیں اگر اپنی اولاد کی ترقی دیکھتے ہیں تو یہ ترقی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے صدقے تو بے شک انہیں فائدہ دے رہی ہے یا اس سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ صرف دنیاوی ترقی ہے، دنیاوی معاملات کی ترقی ہے۔ لیکن وہ رحمان کے بندے کہلانے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں متقیوں کا امام ہونے کا اعزاز نہیں بخشا اور متقیوں کا امام ہونے کی وجہ سے اپنے تقویٰ میں بڑھنے کی طرف ان کی توجہ نہیں پھیری۔ لیکن جو اپنی اولاد کے لئے تقویٰ میں بڑھنے کی دعا بھی مانگے گا وہ صرف ان کی دنیاوی ترقی نہیں مانگے گا بلکہ دینی او رروحانی ترقی بھی مانگے گا اور پھر خود بھی تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے والا ہو گا۔
آجکل دنیا میں ہر جگہ معاشرے میں بچوں کی تعلیم اور دنیاوی ترقی کے لئے والدین بڑے پریشان رہتے ہیں لیکن روحانیت کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ یہاں مغربی ممالک میں تو آزادی کے نام پر اب بچوں کو اتنا بیباک کر دیا گیا ہے کہ وہ والدین کی نصیحت ماننے سے بھی انکاری ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور اب ان لوگوں کو احساس ہو رہا ہے، پروگرام بھی ٹی وی پر آنے شروع ہو گئے ہیں کہ یہ ضرورت سے زیادہ آزادی ہے جو بچوں کو دی جا رہی ہے۔ والدین نے بچوں کا امام کیا بننا ہے اب تو بچے والدین کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہت سے کیس ایسے ہونے لگ گئے ہیں کہ بچے والدین پر ہاتھ اٹھانے لگ گئے ہیں۔ ذرا سی روک ٹوک بھی برداشت نہیں کرتے ہیں۔ کوئی نیک نصیحت کی جائے برداشت نہیں کرتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اب یہ آوازیں اٹھنے لگ گئی ہیں کہ اگلی نسل کو اگر سنبھالنا ہے تو اس کی کوئی حد مقرر کی جائے کہ کس حد تک والدین نے برداشت کرنا ہے اور کہاں اپنے بچوں کو سزا دینی ہے۔ کیونکہ والدین جب کسی غلط حرکت پر سزا دیتے ہیں تو یہاں مغربی ممالک میں بچوں کی حفاظت کے جو ادارے بنے ہوئے ہیں وہ بچوں کو اپنے پاس لے جاتے ہیں یا بچے والدین کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو ہم وہاں چلے جائیں گے اور اس بات نے بچوں کو حد سے زیادہ بے باک کر دیا ہے۔ وہ کسی لینے دینے میں نہیں رہے۔ بعض خاندان تو ایسے ہیں کہ ان کے بچوں کی حالت بہت ہی بُری ہو چکی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دُعا کا خانہ خالی ہے۔ پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگو کہ بچوں کی صحیح تربیت ہو اورپھر اس کے ساتھ ہی اپنے نیک نمونے بھی قائم کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خداتعالیٰ کا فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں ‘‘۔
(تربیت کے جو مختلف درجے ہیں کہ کس طرح کرنی ہے۔ کس عمر میں کس قسم کی تربیت ہونی چاہئے۔ کس عمر سے بچوں کو سنبھالنا ہے۔ اس کی طرف توجہ نہیں ہے۔ )
فرمایا کہ:’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہو تے جاتے ہیں ‘‘۔
’’لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگرنہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو۔ اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جا تا۔ نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے‘‘۔
(الحکم جلد 5نمبر35مورخہ 24؍ستمبر 1901ء صفحہ 12-10)
بچوں کو سکھایا بھی نہیں جاتا۔ کسی نے مجھے بتایا، کسی دوسرے مسلمان نے کسی بچے یا بچی کو کہہ دیا کہ تم لوگ تو شیطان کی عبادت کرنے والے ہو۔ خدا کو نہیں مانتے۔ اچھا بھلا ہوش مند بچہ تھا یا بچی تھی لیکن اس کو پتہ ہی نہیں تھاکہ جواب کیا دینا ہے اور خاموش ہو گئی۔ اس خاموشی سے دوسرے بچوں نے یقیناً یہ تاثر لیا ہو گا کہ جو احمدی ہیں یہ خدا کو نہیں ماننے والے۔ تو بنیادی چیزیں بھی بعض والدین اپنے بچوں کو نہیں بتاتے۔
فرمایا:’’اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے‘‘۔ اخلاقی حالت کو اگر بچپن سے درست کیا جائے تو بچہ کبھی والدین کے سامنے کھڑا ہی نہیں ہو سکتا کہ آگے سے تُوتکار کرے۔ پہلے میں ایک دفعہ کہہ چکا ہوں۔ بچوں کے لباس ہیں، لڑکیوں کے لباس ہیں، بچپن میں ہی 5-4 سال کی عمر میں لباس کی طرف توجہ دلائیں گے تو بڑے ہو کر ان میں احساس پیدا ہو گا۔ 14-13 سال کی عمر میں احساس کروائیں کہ ایک دم جینزبلاؤز سے اب تم کوٹ پہن لو تو وہ بچی آگے سے رد عمل دکھائے گی۔ اس لئے فرمایا کہ اخلاقی حالت کو درست نہیں کیا جاتا۔ اس کی طر ف بچپن سے توجہ دینی چاہئے۔ فرمایا کہ :’’یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے‘‘۔ (جو قریب قریب کے تعلقات ہیں ان کا بھی اگر خیال نہیں ہے تو باقی نیکیاں کس طرح آسکتی ہیں)۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔

یعنی خداتعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈ ک عطا فرماوے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں۔ بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کریہ کہہ دیا

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔

اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے‘‘۔ (الحکم جلد5 نمبر35 مورخہ 24 ستمبر 1901 صفحہ 10-12) یعنی اس میں اپنے متقی ہونے کی بھی دعا ہے۔
پس بچوں کی تربیت کے لئے جو متقی ہونا اور عبادالرحمن ہونا شرط ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ اپنے متقی ہونے کے لئے بھی دعا اور کوشش کرنی چاہئے اور جب ہم خود متقی ہونے کی کوشش کریں گے تو ان خصوصیات کے بھی حامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی بیان فرمائی ہیں اور یہی باتیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:’’انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں اور نوع انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور خدا کے سچے فرمانبردار ہیں ‘‘۔ (الحکم جلد6 نمبر36 مورخہ 10 اکتوبر 1902 صفحہ 16)
ایک سچے احمدی میں یہ خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمیں اس کے ساتھ سچا تعلق ہو اور ہمارا اندرونہ ہمیشہ صاف رہے اور ہم اُن خصوصیات کے حامل بنیں جو عبادالرحمن بننے کے لئے ضروری ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی دائمی جنتوں کا وارث بنائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں