خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍نومبر 2009ء

جب ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آتا ہے تو اس کے لئے پہلی خوشخبری یہ ہے کہ اس خاتم الخلفاء کی بیعت اور اس کے بعد نظام خلافت کے جاری ہونے اور اس کی بیعت میں آنے کی وجہ سے اسے تمکنت ملی ہے اور یہی چیز پھر اسے خیر امت بناتی ہے۔ اب اس کا حق ادا کرنے کے لئے نماز کے قیام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مالی قربانی کرتے ہوئے اپنے مال کا تزکیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیک باتوں کا حکم دینے کا حکم ہے اور برائیوں کے راستے میں سدراہ بن جانے کا حکم ہے۔
تحریک جدید کے 76ویں سال کے آغاز کا اعلان
دنیا بھرمیں تحریک جدید کی مالی قربانی میں پاکستان اوّل، امریکہ دو م اور جرمنی سوم رہا۔
اس سال تحریک جدید میں جماعت نے 49لاکھ 53ہزار 800پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کی۔ باوجود نامساعد عالمی معاشی حالات کے خداتعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے مقابلہ میں تحریک جدید میں امسال 8لاکھ 50ہزار پاؤنڈز کا اضافہ ہے۔
جماعت کا قدم ہر پہلو سے ترقی پذیر ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری قربانیاں بھی بڑھیں۔ ہماری ترقی کی رفتار بھی بڑھے اور ہم فتح کے نظارے بھی دیکھنے والے ہوں۔
(تحریک جدید کے ثمرات وبرکات کا تذکرہ اور نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی نہایت مؤثر تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 06؍نومبر 2009ء بمطابق06؍نبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتْبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (آل عمران۔ آیت نمبر111)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے آل عمران کی آیت ہے اس کے اس حصہ کہ

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ

کے بارہ میں کچھ بیان کروں گا۔ اس کا ترجمہ ہے کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتے ہواور بدی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس میں مسلمان ہونے کی اہمیت اور اس کے مقاصد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مسلمان ہونا ایک بہت بڑی بات ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک مسلمان آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے بعد اس آخری شریعت پر ایمان لاتا ہے، جو کامل، مکمل اور جامع ہے۔ اوریہ وہ شریعت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں خداتعالیٰ نے اتار کر پھر یہ اعلان فرمایا کہ

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)

کہ اس ذکر یعنی قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی یقیناً اس کی حفاظت کریں گے۔
پس یہ وہ شریعت ہے جو قرآن کریم کی صورت میں آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور آج تک ہم خداتعالیٰ کے وعدہ کو بڑی شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ فخر آج مذاہب کی دنیا میں صرف اور صرف اسلام کو حاصل ہے اور تاقیامت یہ فخر اسلام کو ہی حاصل رہنا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کو ہمیشہ سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان اور اسلام کے اس فخر کا ہونا ہی اس کے لئے کافی ہے؟ اسلام کا یہ اعلیٰ مقام ہونے اور آخری اور کامل شریعت ہونے میں ایک عام مسلمان کا کیا حصہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو مسلمانوں کو خیراُمّت کہا ہے ایک مسلمان نے یا بحیثیت اُمّہ، اُمّت مُسلمہ نے اس کے خیرِ اُمّت ہونے میں کیا حصہ ڈالا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر بھیجا ہے۔ قرآن کریم کو آخری شرعی کتاب کی صورت میں نازل فرمایا اورآج تک اس کی حفاظت فرمائی اور اس کو اپنی اصلی حالت میں رکھا۔ اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی توقع رکھتا ہے اور اسے عمل صالح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان پر کچھ ذمہ داریاں عائد فرماتا ہے۔ اس آیت کے اس حصّہ میں خداتعالیٰ نے انہی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے تم خیراُمّت ہو۔ بغیر دلیل کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر اُمّت کے خطاب سے نہیں نوازا۔ بلکہ وجہ اور دلیل بیان کی ہے کہ ان وجوہات سے تم خیر امت ہو۔ یہ چیزیں تمہارے اندر ہوں گی تو تم خیراُمّت کہلاؤ گے۔ ایک یہ کہ تم

اُخْرِجَتْ لِلنَّاس

ہو، تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تمہیں کسی خاص قوم یا لوگوں کی بھلائی کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ تم

تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْف

کرنے والے ہو۔ تم اچھی اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہو۔ یہ پوری اُمّت کی ذمّہ داری ہے کہ نیکی کی اور اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائیں، اس کا حکم دیں۔ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے

وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ،

خیر اُمّت اس لئے ہو کہ بُرائی سے روکتے ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کی پہلی چند صدیوں تک مسلمانوں نے خیر اُمّت ہونے کو دنیا پر ثابت کیا۔ حکومت کے معاملات چلاتے ہوئے بلا تخصیص مذہب اگر ایک طرف انصاف قائم کیا تو ساتھ ہی علم کی روشنی سے اس دنیا کو منور کیا۔ اگر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی تبلیغ کرکے دنیا کو اس کے حلقے میں لائے تو ساتھ ہی علوم و فنون کے نئے نئے راستے بھی دکھائے، نئے نئے دروازے بھی کھولے۔ جہاں نیکیوں کو پھیلانے کی کوشش کی وہاں برائیوں اور ظلموں کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور اس کے خلاف جہاد کیا۔ غرضیکہ انسانیت کی بہتری کے لئے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کرتے رہے لیکن پھر ہوس پر ستوں نے، ذاتی مفادات رکھنے والوں نے، باوجود اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے کہ اس تعلیم کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ محفوظ رکھے گا اس پر عمل نہ کرکے اور بھلائیوں اور نیکیوں کو خیر باد کہہ کر اور برائیوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو بڑی تعداد سمیت خیر اُمّت کہلانے سے محروم کر لیا اور ایک شاعر کو یہ کہنا پڑا کہ
ع

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

(بانگ درا)
لیکن خداتعالیٰ نے جب قرآن کریم کی تعلیم کو محفوظ کرنے کا وعدہ فرمایا تو اس کتاب قرآن کریم میں بیان کی گئی باتوں کو قصّے کہانیوں کے طور پر محفوظ رکھنے کا وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ اس تعلیم پر عمل کرتے چلے جانے والے گروہ اور جماعت کے پیدا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا تھا۔ تاکہ اُمّت مُسلمہ پھر سے خیر اُمّت کی عظیم تر شوکت سے دنیا میں ابھرے۔ نیکیوں کی تلقین کرنے والی ہو۔ اسلام کے پیغام کودنیا کے کناروں تک پہنچانے والی ہو۔ برائیوں کو بیزاری سے ترک کرنے والی ہو اور بلا تخصیص مذہب و ملت انسانیت کی خدمت پر مامور ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کو دنیا میں بھیجا تاکہ ایمان کو ثریا سے دوبارہ زمین پر لے کر آئے اور آکر دوبارہ اسلام کی شان و شوکت کو قائم فرمائے تا کہ اسلام کے بہترین مذہب ہونے اور مسلمانوں کے خیراُمّت ہونے کا اعزاز ایک شان سے دوبارہ دنیا کے سامنے سورج کی طرح روشن ہو کر ابھرے۔
پس آج خیر اُمّت ہونے کایہ اعزاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو حاصل ہے۔ بیشک دوسرے مسلمان فرقوں میں نیک کام کرنے والے بھی ہیں۔ برائیوں سے روکنے والے بھی ہوں گے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خیراُمّت ہو۔ مِنْ حَیْثُ الْاُمّت ان نیکیوں کے بجا لانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اُمّت ایک ہاتھ پر کھڑی ہونے والی اور بیٹھنے والی نہ ہو۔ مسلمان ممالک میں بھی گروہوں کی صورت میں بھی اچھے کام کرنے والے اور برے کاموں سے روکنے والے ہو سکتے ہیں اور ہوں گے۔ لیکن وہ ہر ملک میں اپنے اپنے عالم یا لیڈر کے پیچھے چل کر اپنے اپنے طریق پر کام کرنے والے لوگ ہیں اور پھر کتنے مسلمان ملک ہیں جو ایک ہو کر اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنے والے ہیں، دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے والے ہیں۔
جتنے فرقے ہیں اپنے اندرونی فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو کِسے دنیا میں پھیلانے کی فرصت ہے؟ اس تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کِسے فرصت ہے؟ گزشتہ دنوں اتفاق سے مَیں نے ایک اسلامی ٹی وی چینل دیکھا۔ اس میں ایک شیعہ عالم تھے اور ایک سنی عالم تھے اور شاید نبوت کے بارہ میں بحث ہو رہی تھی۔ آخر میں چند منٹ مَیں نے دیکھا، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ایک اعتراض کا جواب دے رہا تھا۔ یا اعتراض کر رہاتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں تو دونوں ایک جیسے خیالات رکھنے والے تھے۔ لیکن باتوں میں شیعہ عالم اپنے مسلک کے حوالے سے ہی بات کرتا تھا تو سنّی عالم اس کو ٹوک دیتا تھا کہ یوں نہیں یوں ہونا چاہئے یا اس طرح ہے۔ اور جہاں سنّی عالم اپنے مسلک کے حوالے سے کوئی بات کرتا تھا تو شیعہ اسے ٹوک دیتا تھا کہ اس طرح نہیں اس طرح ہونا چاہئے۔ آئے تو شاید، شاید کیا یقیناہمارے خلاف زہر اگلنے تھے، اپنے خیال میں، اپنے زُعم میں مسلم اُمّہ کو ایک فتنے سے بچانے کے لئے تھے لیکن خود آپس میں الجھ کر فتنے کا شکار ہو رہے تھے۔ اورنہ صرف خود شکار ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کے لئے بھی بدنمونہ ہی پیش کر رہے تھے۔ اور ان کے چہروں پر صاف عیاں تھا، صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اُنہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑی بے زاری پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے آپس میں ایک د وسرے کے خلاف جوکفر کے فتوے ہیں، ان کو دیکھ کر ایک عام سادہ مسلمان جو دل سے صرف اسلام کی عظمت دیکھنا چاہتا ہے ان مختلف مسالک اور فرقوں کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ اب کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ فرقہ مسلمان ہے یا دوسرا فرقہ مسلمان ہے۔ یہ ایک فرقہ خیر اُمّت میں شامل ہے یا دوسرا فرقہ خیراُمّت میں شامل ہے۔
اس کا جوحل آنحضرت ﷺ نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کریں تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب ایسے حالات ہوں گے، تم لوگ کئی فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہو گے تو مسیح موعود کو خداتعالیٰ مبعوث فرمائے گا اسے مان لینا اور جا کر میرا سلام پہنچانا۔ بلکہ برف کی سلوں پر گھٹنوں کے بل چل کر بھی اگر جانا پڑے توجانا اور اسے سلام پہنچانا اور اس کی جماعت میں شامل ہو جانا۔ وہی حَکَم اور عدل ہو گا۔ وہی حقیقی فیصلے کرے گا۔ وہی تمہیں صحیح شریعت بتائے گا۔ وہی اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کرے گا۔ وہی اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کرے گا۔
پس جہاں یہ غیر از جماعت دوستوں کے لئے اور اسلام کا درد رکھنے والوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے، ایک احمدی پر بھی اس بات سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خیر اُمّت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو

عَلٰی دِیْنٍ وَاحِد‘‘

(تذکرہ۔ الہام 20؍نومبر 1905ء) تو یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ اس کا حق ادا کر یں۔ مسلمان تو پہلے ہی اس آخری شریعت قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں اور آخری نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں۔ کسی نئے دین نے تو اب آنا نہیں ہے اور یہی ایک دین ہے جو تاقیامت قائم رہنے والا دین ہے۔ پھر یہاں کون سا دین مراد ہے جس پر مسلمانوں کو جمع کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا ہے۔ یہ دین اسلام ہی ہے جس میں ہر فقیہ اور ہر امام کے پیچھے چلنے والوں نے فرقہ بندیاں اور گروہ بندیاں کر لی ہیں۔ اور زمانے کا امام جو آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی میں مبعو ث ہوا اور جسے حَکَمْ اور عَدَل بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا، وہی ہے جو اسلام کی اورقرآن کریم کی صحیح تفسیر پیش کرنے والا ہے۔ اور 13 صدیوں کے دوران پیدا ہونے والے جتنے عالم اور جتنے فقیہ اور جتنے مجدّد اور جتنے مفسر ہیں جنہوں نے اپنے اپنے حالات اور علم کے مطابق جو فیصلے دئیے یا تفسیریں لکھیں ان میں سے جن کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوایہ خاتم الخلفاء اورحَکَمْ اور عَدَل کرے وہی تفسیر و تشریح صحیح ہے اور وہی حقیقی دین ہے جس پر جمع کرنا ہے۔ اس لئے اب کسی قسم کے فقہی یا فروعی مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں۔ جو فیصلہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اس زمانہ میں کیا وہی وہ حقیقی دین ہے جو آنحضرت ﷺ لائے تھے اور اسی پر اب تمام اُمّت کی بقا ہے کہ اس پر جمع ہو جائے۔
پس آج احمدی اس ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خیر اُمّت کہلاتے ہیں اور یہ ان کی ذمّہ داری ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیں اور بُری باتوں سے روکیں اور یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اپنے عمل بھی اس کے مطابق نہ ہوں اور جب تک خداتعالیٰ پر مضبوط ایمان نہ ہو اور پھر ان نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئیمِنْ حَیْثُ الجماعۃ قربانی کا جذبہ نہ ہو۔ بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بہر حال قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنے پڑتے ہیں اور اپنے مال کا تزکیہ کرنا ہوتا ہے۔ سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایاہے۔ فرمایا:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنّٰھُمْ فِی الْا َرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْا ُمُوْرِ (الحج:42)

کہ جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں ہم زمین میں تمکنت دیتے ہیں، ان کی ایک منفرد شان ہو جاتی ہے۔ وہ فتنوں اور فسادوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ڈھال کے پیچھے ہوتے ہیں اس لحاظ سے دینی اور روحانی لحاظ سے وہ محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اب اس آیت کو اگر آیت استخلاف کے ساتھ ملائیں جس میں خداتعالیٰ نے خلافت کا وعدہ فرمایاہے تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کو خلافت کے انعام کے ساتھ تمکنت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایاہے۔
پس جب ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آتا ہے تو اس کے لئے پہلی خوشخبری یہ ہے کہ اس خاتم الخلفاء کی بیعت اور اس کے بعد نظام خلافت کے جاری ہونے اور اس کی بیعت میں آنے کی وجہ سے اسے تمکنت ملی ہے اور یہی چیز پھر اسے خیر امت بناتی ہے۔ اب اس کا حق ادا کرنے کے لئے نماز کے قیام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مالی قربانی کرتے ہوئے اپنے مال کا تزکیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیک باتوں کا حکم دینے کا حکم ہے۔ اُنہیں پھیلانے کا حکم اور اس کی ضرورت ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی تلقین ہے۔ اور برائیوں کے راستے میں سدراہ بن جانے کا حکم ہے۔ ایک روک کھڑی کرنے کا حکم ہے۔ تم برائیوں کے رستے میں ایسے کھڑے ہو جاؤ جیسے ایک سیسہ پلائی دیوار ہوتی ہے جس سے کوئی چیز گزر نہیں سکتی۔ پس اگر نیک نیتی سے ایک احمدی اس حق کو ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، خداتعالیٰ کی طرف سے تمہیں مدد ملے گی، قوت اور طاقت بھی ملے گی۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ جب تک مسلمان ان نیکیوں پر قائم رہے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت اور مدد ملتی رہی اور خیر اُمّت بنے رہے اور جب اپنے فرائض کو بھولے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو گئے۔ جس کا مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا۔ مَیں نے یہ آیت پڑھی تھی کہ

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد:12)

یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت کو نہ بدلیں۔ جب تک عبادتیں قائم رہیں گی، جب تک تزکیہ اموال کی طرف توجہ رہے گی، جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر کمر بستہ رہیں گے، جب تک نیکیوں کو پھیلاتے رہیں گے، جب تک برائیوں سے روکتے رہیں گے، جب تک خلافت سے تعلق قائم رکھیں گے تمکنت دین حاصل کرنے والوں کا حصہ بنے رہیں گے اور خوف کی حالت کو خداتعالیٰ امن میں ہمیشہ بدلتا چلا جائے گا۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ خیر اُمّت کہہ کر ایک مجموعی ذمہ د اری سب پر ڈالی گئی ہے کہ نیکیاں پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کے لئے مل کر کام کریں۔ اب ہر ایک تو اپنے علم میں اتنا نہیں ہوتا کہ بعض کام کر سکے یا اپنی مصروفیت کی وجہ سے بھی بعض دفعہ اس کو وقت نہیں ملتا۔ اپنی بعض دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے بھی وہ ہر وقت اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ اُن پروگراموں کو بجالانے کے لئے جو نیکیوں کو پھیلانے اور تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہیں وہ پوری طرح اپنا عہد نبھا نہیں سکتااور ذاتی طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا ہر ایک کے لئے بہت مشکل ہے اور اگر وقت دے بھی دے تو اکثر کام بلکہ فی زمانہ تو سارے کام ہی ایسے ہیں کہ جن کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیشہ الٰہی جماعتیں مالی قربانیاں بھی کرتی ہیں اور وہ لوگ جو ذاتی طور پر یہ کام انجام نہیں دے سکتے وہ اس زمانہ میں خاص طور پر مالی قربانیوں کے ذریعہ سے اس کا م کو سرانجام د یتے ہیں تاکہ خداتعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جو منصوبے مرکزی طورپر انبیاء کے زمانے میں انبیاء کے حکم کے مطابق اور بعد میں خلافت کے تابع تیار کئے جاتے ہیں انہیں پورا کیا جا سکے۔
آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی اور مالی قربانیوں کا حکم تھا۔ اسی لئے قرآن کریم نے متعدد جگہ عبادتوں کے ساتھ مالی قربانیوں کا بھی ذکر فرمایا۔ پھرجو آپ ﷺ کے خلفاء راشدین کہلاتے ہیں انہوں نے بھی مالی قربانیوں کے لئے اُمّت میں تحریک کی۔ اس کے علاوہ بھی مومنین ان کا موں کے لئے قربانیاں کرتے رہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی یہ قربانی جاری رہی۔ پھر آپ کے بعدہر خلافت کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مالی قربانیوں میں حصہ لیتی رہی اور یہ سلسلہ انشاء اللہ تا قیامت چلتے چلے جانے والا ہے، چاہے جتنے بھی جماعت کے وسائل ہو جائیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے پاس بہت پیسہ آجائے گا، جب جماعتیں بہت ہو جائیں گی تو چندوں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ بالکل غلط تصور ہے۔ مالی قربانیوں کا مطالبہ تو ہر صورت میں ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مالی قربانیوں کو تزکیہ نفس کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔
جماعت میں مالی قربانیوں کا سلسلہ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے چلتا چلا جا رہاہے۔ علاوہ آمدپر چند ے کے اور وصیت وغیرہ کے مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک مستقل تحریک، تحریک جدید کی بھی ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی تھی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تحریک کی تو اس کا بہت بڑامقصد ہندوستان سے باہر دنیا میں تبلیغ اسلام تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہترین نتائج نکلے اور آج احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 193 ممالک میں یا تو اچھی طرح قائم ہو چکی ہے یا ایسے پودے لگے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی صحت کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔ 193 ممالک میں رہنے والے احمدی اُمّت واحدہ کا نظارہ پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں مالی قربانیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ بعض تیز دوڑنے والی جماعتیں ہیں بعض آہستہ چلنے والی ہیں اور جوں جوں تربیت ہو رہی ہے بہتری آتی جا رہی ہے اور قربانیاں بڑھ رہی ہیں۔
آج سے چند سال پہلے مثلاً جامعہ احمدیہ صرف ربوہ میں تھا جہاں مبلغین تیار ہوتے تھے، مربیان ہوتے تھے۔ اور اس میں ہر سال زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس لڑکے داخل ہوتے تھے جووقف کرکے آتے تھے۔ اور اب جب سے وقف نو کے بچے جوان ہونے شروع ہوئے ہیں گزشتہ تقریباً تین سال سے جامعہ ربوہ میں ہی ہر سال 200 سے اوپر بچے داخل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے انتظامات کے لئے اخراجات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی جو جماعتیں ہیں خود یہ تمام اخراجات برداشت کرتی ہیں۔ اسی طرح اب یو کے، جرمنی، کینیڈا، انڈونیشیا وغیرہ میں بھی جامعات ہیں اوریہ ممالک بھی تقریباً اپنے وسائل سے اپنے جامعات کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش، نائیجیریا، گھانا، کینیا اور بعض اور ممالک ہیں جن کے جامعہ احمدیہ کے اخراجات چلانے کے لئے مرکز سے مدد دینی پڑتی ہے۔ اور اس کے علاوہ اخراجات ہوتے ہیں۔ لٹریچر ہے۔ جو بڑی کتب ہیں ان کی تو مرکزی طور پر اشاعت ہوتی ہے۔ مساجد کی تعمیر ہے جو غریب ممالک میں مرکز کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ وہاں مرکز مساجدبنا کر دیتا ہے۔ اسی طرح مشن ہاؤسز ہیں۔ مبلغین کو بھجوانے اور ان کے الاؤنسز اور متفرق اخراجات ہیں جو مرکز کرتا ہے جس میں چند ہ تحریک جدید کا بھی ایک بہت بڑا اوراہم کردار ہے۔ ایک تو جیسا کہ مَیں نے بتایاشروع میں تحریک جدید نے اپنا کردار ادا کیا کہ ہندوستان سے باہر تبلیغ پھیلی اور باہر آنے کے بعد مزید وسعت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پس یہ وہ کام ہیں جس میں چندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والے ہر احمدی بڑے اور بچے کا حصہ ہو جاتا ہے اور وہ بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ ہم وہ اُمّت ہیں جو نیکیوں کی تلقین کرتے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں، برائیوں سے روکنے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہر مالی قربانی کرنے والا ایک احمدی علاوہ اپنی انفرادی کوشش کے جو وہ اپنے ماحول میں نیکیوں کو پھیلانے کے لئے اور برائیوں کو روکنے کے لئے کرتا ہے اور یہی احمدیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ کرتا ہو اور کرے۔ کوئی بعید نہیں کہ ایک عام احمدی کی معمولی سی قربانی جو وہ انگلستان میں بیٹھ کر کر رہاہے یا جرمنی میں بیٹھ کر وہ کرتا ہے یا امریکہ کینیڈا میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا آسٹریلیا میں بیٹھ کر کر رہا ہے یا ہالینڈ اور فرانس میں بیٹھ کرکر رہا ہے یا یورپ یا کسی بھی دنیا کے ملک میں بیٹھ کر کررہا ہے وہ قربانی افریقہ کے دور دراز علاقوں میں کسی نیک بخت کی تربیت کا باعث بن رہی ہے۔ وہ برائیوں کو روکنے کا باعث بن رہی ہے۔ پھر جیسا کہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں تو ان تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرنے والوں پر جو اخراجات ہیں اس میں بھی چندہ دینے والے احمدی کا حصہ شامل ہو کر اسے بھی اس ثواب میں شامل کر رہا ہوتا ہے جو دین کا پیغام پہنچانے والے کو مل رہا ہوتا ہے۔ پس یہ قربانیاں جو احمدی کرتے ہیں ایسی قربانیاں ہیں جو تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر کے دائرے کو وسیع کرتی چلی جاتی ہیں۔
اب مَیں بعض کوائف پیش کروں گا جو چند ہ تحریک جدید کے ختم ہونے والے گزشتہ سال کے ہیں اور ساتھ ہی حسب روایت نومبر کے پہلے جمعہ میں جو تحریک جدید کے نئے سال کااعلان ہوتا ہے اس کا بھی اعلان کرتا ہوں۔ مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے چندے کی اس مد میں یا اس تحریک میں جو فضل فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر ایک مومن اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے۔ ایک احمدی کے جذبات اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری سے جھکتے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال معاشی لحاظ سے بدترین سال گزرا ہے۔ کاروباروں پر بھی بے انتہا منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ملازمتوں سے بھی کئی لوگوں کی فراغت ہوئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے گھریلو اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ اگر عام نظر سے، دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ چندوں پر منفی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس جماعت نے خیراُمّت ہونے کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کسی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر نے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ ہمارے حمد اور شکر کے پیالے جتنے بڑے ہوں تو وہ پھر بھی محدود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات اور فضل لامحدود ہیں۔
اب مَیں بعض کوائف پیش کر دیتا ہوں۔ تحریک جدید کا یہ 75 واں سال گزرا ہے۔ باقی دفاتر جوہیں، دفتر اوّل دوئم سوئم ان کا رپورٹ میں ذکر نہیں آیا۔ مجھے بھی یاد نہیں رہاکہ نوٹ کرکے لے آتا۔ بہرحال دفتر دوم 19سال بعد شروع ہوا تھا۔ پھر دفتر سوئم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے غالباً 1965ء میں جنوری میں شروع کیا تھا۔ پھرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 19 سال بعد شاید 1985ء میں دفتر چہارم شروع کیا۔ اور 2004ء میں میرا خیال ہے کہ مَیں نے دفتر پنجم شروع کیا تھا اور مَیں نے یہ کہا تھا کہ دفتر پنجم میں نئے بچے اور نئے شامل ہونے والے احمدی شامل ہوں۔ بہرحال تحریک جدید کو شروع ہوئے 75 سال ہو گئے ہیں۔ 75 واں سال اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ 76 واں سال شروع ہو گیا ہے اور رپورٹس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی جماعتوں نے اس سال تحریک جدید میں 49 لاکھ 53 ہزار 800 پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کی ہے اور یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے 8لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔
اوپر کی جو دس جماعتیں ہیں ان میں پہلے نمبرپر پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ باوجود غربت کے ابھی تک انہوں نے اپنا پہلا اعزاز برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے۔ تیسرے پر جرمنی۔ چوتھے پر برطانیہ۔ پھر کینیڈا، انڈونیشیا، پھر ہندوستان، پھر آسٹریلیا پھر بیلجیئم پھر سوئٹزر لینڈ۔ برطانیہ اور جرمنی کا ویسے تو تھوڑا سا ہی فرق ہے صرف 15 سو پاؤنڈ کا۔ میرا خیال تھا کہ پچھلے سال تیسری پوزیشن تھی۔ اب بھی شاید تیسری آجائے لیکن جرمنی نے اس سال بڑی محنت کی ہے۔ بہرحال اس کے علاوہ ماریشس، نائیجیریا، ناروے، فرانس، ہالینڈ، مڈل ایسٹ کی دو جماعتوں کی وصولی بھی کافی قابل ذکر ہے۔
دنیا میں جو معاشی انحطاط پیدا ہو رہا ہے اس کی وجہ سے دنیا کی ہر کرنسی جو ہے ڈسٹرب ہو گئی ہے۔ کسی بھی کرنسی کوانڈیکس بنا کراگر ہم لیں توخاص طورپر غریب ممالک کی کرنسیاں بہت متاثر ہوئی ہیں۔ بہرحال مقامی کرنسی کے لحاظ سے گزشتہ سال کے مقابلہ پہ یہ جائزہ مَیں نے اس لئے دے دیا ہے تاکہ ان کے جائزے بھی پتہ لگتے رہیں۔ اس میں انڈیا نے اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی پوزیشن لی ہے۔ اس نے 42.19 فیصد اضافہ کیاہے۔ قادیان انڈیا کی جو وکالت مال ہے اس کے وکیل المال صاحب نے لگتا ہے کافی محنت کی ہے۔ اور اللہ کے فضل سے 42 فیصد سے زیادہ وصولی ہوئی ہے۔ جرمنی نے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فرق توتھوڑا ہے لیکن اس دفعہ انہوں نے بہت محنت کی ہے بڑا جمپ لیا ہے۔ 32.8 فیصد انہوں نے گزشتہ سال کی نسبت اپنا اضافہ کیاہے اور آسٹریلیا نے 18فیصد اور برطانیہ نے 17 فیصد۔ انہوں نے بھی زور تو بڑا لگایاتھا لیکن اب دیکھ لیں جرمنی کے مقابلے میں جوکوشش ہے وہ تقریباً نصف ہے، گو کہ جرمنی والوں کے امیر صاحب کو شکوہ ہے کہ ہمارے بہت سارے چندہ دینے والے مائگریٹ(Migrate) کرکے برطانیہ چلے گئے ہیں۔ بیلجیئم 12.2 فیصد، سوئٹزر لینڈ تقریباً 9 فیصد۔ اسی طرح پاکستان 9 فیصد، پاکستان تو اپنے معیاروں کو چھو رہاہے۔ کینیڈا تقریباً 6.2، امریکہ3.7۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اگر امریکہ نے 3.7حاصل کیا ہے تو انہوں نے اپنا معیار حاصل کر لیا ہے ابھی وہاں بہت گنجائش ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں صرف 2فیصداضافہ ہے۔ ان میں بھی گنجائش ہے۔
تحریک جدید میں نئے مجاہدین کو شامل کرنے کے لئے مَیں نے گزشتہ سال جماعتوں کو توجہ دلائی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا کہ بچوں کو شامل کریں اور مرکز کی طرف سے بھی نئے مجاہدین کو شامل کرنے کے لئے ٹارگٹ دئیے گئے تھے۔ جماعتوں نے ان ٹارگٹس کے حصول کے لئے امسال جو محنت کی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے 90ہزار افراد تحریک جدید کی قربانی میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ ٹوٹل نہیں بلکہ گزشتہ سال جتنے شامل ہوئے تھے ان میں 90 ہزار کا اضافہ ہو اہے اور اب کل 5 لاکھ 93ہزار ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سال 5لاکھ تھے۔ ابھی بھی بہت گنجائش ہے۔ جماعتیں کوشش کریں تو اضافہ ہو سکتا ہے۔ شاملین میں اضافے کے لحاظ سے بھی انڈیا پہلے نمبر پہ ہے۔ انہوں نے اس سال 32 ہزار 200 افراد کااضافہ کیا ہے۔ 76 ہزار سے ایک لاکھ8ہزار افراد تک لے گئے ہیں اور پاکستان 14ہزار 200، نائیجیریا9ہزار، سیرالیون 5ہزار، آئیوری کوسٹ 5ہزار200، انڈونیشیا 4ہزار یہ اضافہ ہے جو ان میں ہوا۔ گھانا 3ہزار 300، بینن2ہزار 400۔ بینن چھوٹا سا ملک ہے لیکن اللہ کے فضل سے جماعت وہاں پھیل رہی ہے۔ اس طرح گیمبیا بھی چھوٹا سا ملک ہے وہاں بھی 2ہزار 300 کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں 2ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ کینیڈا1700 کا۔ کینیا1500۔ بنگلہ دیش میں بھی تھوڑا سا 1100اضافہ ہواہے۔ ایک ہزار سے اوپر جواضافے تھے وہ مَیں نے بتائے ہیں۔
تحریک جدید کے جو پانچ ہزاری مخلصین تھے جو پہلے دفتر اوّل کے تھے ان کا تمام ریکارڈ مع کوڈ نمبر
الاسلام ویب سائیٹ پر آگیا ہوا ہے۔ مرحومین کے جو ورثاء ہیں، عزیز و اقارب ہیں انہوں نے اس سے دیکھ کر کھاتے جاری کئے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اب سارے کھاتے جاری ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی بڑی جماعتوں میں سے اوّل لاہور ہے۔ دوم ربوہ ہے، سوئم کراچی ہے۔ اس کے علاوہ شہری جماعتوں میں پہلے نمبر پر راولپنڈی، پھر اسلام آباد، پھر شیخوپورہ، حیدر آباد، بہاولنگر، چھٹے نمبر پہ بہاولپور، ساتویں پہ پشاور۔ (پشاور کا شامل ہونا اور پوزیشن لینا بھی بڑی ہمت کی بات ہے کیونکہ وہاں تو ہر روز ہی بم دھماکے اور فساد اور آگیں لگی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود احمدیوں نے قربانی کا نمونہ دکھایا ہے۔ ) جہلم نمبر آٹھ پر، پھرکوٹلی آزاد کشمیر ہے۔ کوٹلی آزاد کشمیر میں مخالفت بہت زیادہ ہے یہاں بڑے حالات خراب رہتے ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی امن اور سکون اور چین کی زندگی نصیب کرے۔ خانیوال نمبر10پہ۔
ضلعی سطح پر قربا نی کرنے والے پہلے 10اضلاع یہ ہیں۔ سیالکوٹ نمبر1، پھر سرگودھا، گوجرانوالہ۔
عمر کوٹ۔ نمبر5 اوکاڑہ۔ نمبر6میرپور خاص۔ 7نارووال۔ 8پہ فیصل آباد۔ 9میرپور آزاد کشمیر۔ 10پہ حافظ آباد اور سانگھڑ۔
گزشتہ سال کی نسبت بعض اورجو اچھی جماعتیں ہیں وہ واہ کینٹ، کنری، چونڈہ، کھوکھر غربی وغیرہ چھوٹی جماعتیں ہیں۔ انہوں نے اچھا کام کیا۔
امریکہ کی پہلی چار جماعتیں جو ہیں ان میں سیلیکون ویلی۔ نمبر2لاس اینجلیس ویسٹ۔ 3۔ ڈیٹرائیٹ اور 4شکاگو ویسٹ۔
دفتر پنجم کا جو مَیں نے ذکر کیا تھا کہ بچوں کو شامل کریں تو امریکہ نے اس بارہ میں بہت اچھی کوشش کی ہے اور ایسے بچے جن کی عمر 5سال سے کم تھی اور تحریک جدید میں شامل نہیں تھے ان میں سے بھی تقریباً 80 فیصد بچوں کو انہوں نے کم از کم 20ڈالر کے ساتھ شامل کیا۔ مجھے تصویروں کی البم بھی بھجوائی تھی۔ بچوں کو خود بھی ان کے ہاتھ سے قر بانی دلوانی چاہئے تاکہ ان کو بھی آئندہ قربانیوں کی عادت پڑے۔
کینیڈا کی جوچار اچھی جماعتیں ہیں وہ کیلگری نارتھ ویسٹ ہے۔ پیس ولیج ایسٹ۔ پیس ولیج سنٹر اور سرے ایسٹ۔ اورچوتھے نمبر پہ وینکوور ہیں۔
انگلستان کی جو دس بڑ ی جماعتیں ہیں ان میں مسجد فضل پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے پہ سربٹن۔ پھر کیمبرج، پھر جلنگھم، نیو مولڈن، برمنگھم ویسٹ، ووسٹر پارک، پرلے، ساؤتھ ایسٹ لنڈن اور آکسفورڈ شامل ہیں۔ چھوٹی جماعتوں میں سکنتھورپ، ڈیگنہم، کارنوال، وولورہیمپٹن، نارتھ ویلز، سپن ویلی، برسٹل، پیٹربرا، آلڈ گیٹ،
لیمنگٹن سپا، کیتھلے۔
ریجنز جو ہیں ان میں لنڈن ریجن، ساؤتھ ریجن، نارتھ ویسٹ ریجن، ہارٹفورڈشائر، مڈلینڈز، نارتھ ایسٹ ریجن، ساؤتھ ویسٹ ریجن اور ایسٹ لندن ہے۔
فی کس ادائیگی کے لحاظ سے جرمنی کی(پوزیشن حاصل کرنے والی) جو جماعتیں ہیں وہ ہیں مہدی آباد (یہ ہمبرگ کے قریب ہماری ایک چھوٹی سی جگہ ہے وہاں جماعت کی زمین ہے اور اس میں کچھ آبادی بھی ہے) اور دوسرے نمبر پر مائینز، ویزباڈن، گروس گراؤ، فرانزہائم، ڈی بُرگ، ماربُرگ، بُوکسٹے ہُوڈے، کولون، ہائیڈل برگ اورریڈ شٹَڈ۔ اور جو دوسری جماعتیں ہیں ان میں آگس بُرگ، میونخ، میونسٹر، کیمپٹن، ٹونٹے ہاؤزن، نیورن برگ، وائن گارٹن، شٹول برگ، الزائے، ہیز ڈورف اور ہوف شامل ہیں۔
وصیتوں کی تحریک کرنے پر جب جماعت کا وصیت کی طرف رجحان ہوا تو بعض کا خیال تھا کہ باقی چندوں میں ادائیگی کی رفتار شاید اتنی نہ رہے جتنی پہلے تھی۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا اور کوائف نے ثابت کر دیاکہ چند ہ دہندگان کی تعداد میں بھی خوش کن اضافہ ہے اور وصولی میں بھی۔ الحمدللہ۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھرتا ہے وہاں اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں میں مزید وسعت بھی انشاء اللہ تعالیٰ پیدا فرمانے والا ہے اور جو پہلے سے انتظام کر رہا ہے اور ہمیں ہوشیار بھی کر رہا ہے۔ قربانیوں کی طرف بھی مائل کر رہا ہے۔ جو کام ہمارے سپرد ہیں ان میں انشاء اللہ بہت وسعت پیدا ہونے والی ہے اور یہ بھی کہ تم دنیا کے کسی کریڈٹ کرنچ (Credit Crunch)کی فکر نہ کرو۔ میرے ساتھ سودا کرتے جاؤ مَیں انشاء اللہ تعالیٰ تمہاری توفیقیں بڑھاتا چلا جاؤ ں گا۔
اللہ کرے کہ ہمارے ایمان بھی ان کو دیکھ کر بڑھتے چلے جائیں۔ ہماری قربانیاں بھی بڑھیں۔ ہماری ترقی کی ترقی کی رفتار بھی بڑھے اور ہم فتح کے نظارے بھی دیکھنے والے ہوں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وصیت کی ارہاص کے طورپر ہے۔ وصیت کے لئے ایک بنیادی اینٹ ہے۔ اس سے وصیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور قربانی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا جہاں جماعت کو وصیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے وہاں تحریک جدید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یعنی یہ بنیاد ایسی ہے جو خود بھی پھیلتی چلی جا رہی ہے اورنئے دفتر پنجم میں شاملین کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وصیت کرنے والوں کے بچے اور آئندہ جوہماری نئی نسل آرہی ہے بچپن سے لڑکپن میں یا 7سال کی عمر میں، اطفال الاحمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں وہ بھی تحریک جدید میں قربانی کرکے آئندہ کے لئے اپنے آپ کو وصیت کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں اور قربانیوں کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں۔ دنیا کہتی ہے اور معیشت دان یہ کہا کرتے ہیں کہ جب معاشی کرائسز آتے ہیں تو غربت کا ایک شیطانی چکر جو ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جنہیں خیراُمّت بناتا ہے ان کے لئے معاشی کرائسز کے باوجود چندوں میں اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو سمیٹنے اور نیکیوں کی طرف مائل ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور یوں ہمارا رحمان خدا ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے اور

فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات

کا ادراک ہم میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک ہم نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی سوچ کوصیقل کرتے چلے جائیں گے، روشن کرتے چلے جائیں گے، چمکاتے چلے جائیں گے، خیراُمّت کہلانے والے بنے رہیں گے انشاء اللہ۔ ایک معمولی قربانی کرنے والا غریب آدمی اور ایک بچہ جو چند پینس(Pense) اپنے جیب خرچ میں سے دیتا ہے وہ اس قربانی کی وجہ سے تبلیغ اسلام اور تعمیر مساجد اور نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے میں حصہ دار بنتا چلا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری نسلوں میں قربانی کی یہ روح ہمیشہ قائم رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں