خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 15؍اگست2003ء

توکل کی کمی سے خدا سے دوری، جھوٹ، غلط بیانی اور خوشامد کی برائیاں جنم لیتی ہیں
آنحضرت ﷺ نے توکل علی اللہ کی اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۵؍ اگست ۲۰۰۳ء مطابق ۱۵؍ظہور۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۔اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ-

دنیا میں سب سے زیادہ توکل اللہ تعالیٰ انبیاء میں پیدا کرتاہے اور ان کو خود تسلی دیتاہے کہ تم فکر نہ کرو مَیں ہر معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں- کوئی دشمن تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔مَیں تم میں اور دیکھنے والاہوں اگر دشمن نے غلط نظر سے دیکھنے کی کوشش کی یا کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو مَیں جو ہر بات کا علم رکھنے والا اور تیری دعاؤں کو سننے والاہو ں خوداس کا علاج کرلوں گا۔ اور اس طرح باقی روزمرہ کے معاملات میں بھی انبیاء کا توکل بہت بڑھا ہوا ہوتاہے کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ خدا ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے، ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہے اور پھر اسی طرح روحانی مدارج اور مقام کے لحاظ سے توکل کے معیار آگے مومنین میں قائم ہو تے چلے جاتے ہیں تو جو آیت ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقینا وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
تفسیر روح المعانی میں علامہ شہاب الدین آلوسی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:

’’ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ

سے یہ مرادہے کہ اپنا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپردکردے اور اس امر سے خائف نہ ہو۔اگر وہ تیرے لئے اپنے بازو سلامتی کے لئے جھکائیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے بازو مکراور سازشوں سے لپٹے ہوئے ہوں-

اِنَّہٗ

سے مراد اللہ جل شانہ ہے۔

ھُوَالسَّمِیْعُ

سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دھوکہ دہی کی ان تمام باتوں کو جو وہ علیحدگیوں میں کرتے ہیں سنتاہے۔

الْعَلِیْمُ

سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کو بھی جانتاہے۔پس وہ ان سے ایسا مواخذہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کی تدابیر کو ان پر الٹا دے گا۔(تفسیر روح المعانی)
تو یہاں اس سے ایک بات تو یہ بھی واضح ہوگئی کہ اسلام پر جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ یہ جنگجو قسم کا مذہب ہے، اس اعتراض کو بھی یہاں دور کردیا گیاہے۔کہ اگر دشمن اپنی کمزوری کی وجہ سے یا کسی چال کی وجہ سے صلح کرنا چاہے تو تم بھی اللہ کی خاطر صلح کرلو۔ کیونکہ اسلام کا تو مقصد ہی امن قائم کرنا ہے۔پھر یہ نہیں ہوگا کہ ان کو مفتوح کرکے یا مسلمان بنانے کے بعد ہی صلح کی بنیاد ڈالنی ہے بلکہ اگر ان کی طرف سے صلح کا ہاتھ بڑھتاہے توُبھی صلح کا ہاتھ بڑھا، مسلمانوں کو یہی حکم ہے۔ پھر یہ نہیں سوچنا کہ دشمن چال چل رہاہے اوراس وقت چاہتاہے تاکہ اپنی طاقت اکٹھی کرے اور پھر جنگ کے سامان میسر آئیں اورپھر حملہ کرے۔تو یہ بات اس سے واضح ہوگئی، ظاہر ہوگیا کہ مسلمان اس زمانہ میں بھی صرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے جنگ لڑ رہے تھے۔تو اب جب دشمن صلح کی طرف ہاتھ بڑھاتاہے تو قطع نظر اس کے کہ اس کا اپنا طاقت جمع کرکے دوبارہ حملہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتاہیتم صلح کرو اور اللہ پر توکّل کرو خدا خود سنبھال لے گا۔ تو ایک تو یہ بھی اس سے رد ّ ہوا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے پہلے حصـے کی تشریح کرتے ہوئے یعنی اگر وہ صلح کریں تو تم بھی صلح کرلو۔ فرماتے ہیں کہ اصل میں مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھناچاہئے۔جہا ں نرمی کا موقع ہو وہاں سختی اور درشتی نہ کرے اور جہاں بجز سختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے۔ ایک جگہ اس ضمن میں آپ نے فرمایا ہے کہ باوجود فرعون کے سخت کفر کے حضرت موسیٰؑ کو اس سے نرمی سے بات کرنے کا حکم تھا۔
تو دعوت الی اللہ میں بھی یہ اصول ہر احمدی کو مدنظر رکھناچاہئے۔یہ تو مختصراً مَیں نے ذکرکیا توکل کے بارہ میں اور اس آیت کی مختصر تفسیر میں کہ دشمن کے ساتھ اگر معاملہ پڑے تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور پھرمعاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے اور اسی پر توکّل کرنا چاہئے۔ لیکن روز مرہ کے معاملات میں بھی توکّل علی اللہ کی بہت ضرورت ہے۔اور اللہ تعالیٰ پر توکّل تبھی پیدا ہوتاہے جب خدا کی ذات پر اس کی طاقتوں پر کامل یقین پیدا ہو۔ جیساکہ اس آیت میں جو مَیں ابھی پڑھتاہوں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (سورۃ الانفال :۳)

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکل کرتے ہیں-
توکّل کی اعلیٰ ترین مثالیں توحضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہی رقم فرمائی ہیں اورکیوں نہ ہو،آپ ہی تو انسان کامل تھے۔ اور ساتھ ہی امت کو بھی سبق دے دیا کہ میری پیروی کرو گے، خداسے دل لگاؤ گے، اس کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرو گے تو تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا۔ اور اپنے پر توکّل کرنے کے نتیجہ میں وہ تمہیں بھی اپنے حصار عافیت میں لے لے گا۔
آنحضرت ﷺ کے توکل کے بارہ میں بعض احادیث میں یہاں بیان کرتاہوں- یہ بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں لیکن جب بھی پڑھیں ایمان میں ایک نئی تازگی پیدا ہوتی ہے اور ایمان مزید بڑھتاہے۔
وہ واقعہ یاد کریں جب سفر طائف سے واپسی پر رسول اللہ نے کچھ روز نخلہ میں قیام فرمایا۔ زید بن حارثہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب آپ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جبکہ وہ آپ کو نکال چکے ہیں- رسول اللہ ﷺنے کس شان سے، توکل سے جواب دیا کہ اے زید تم دیکھوگے کہ اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ اپنے دین کا مدد گارہے۔وہ اپنے نبی کو غالب کرکے رہے گا۔ چنانچہ نبی کریم ؐنے سرداران قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپ کواپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخل کرنے کا انتظام کریں- کئی سرداروں نے انکار کردیا بالآخر مکہ کے ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا۔ پھر آخر کار جب مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے اورمکہ سے ہجرت کا وقت آیا تو کمال وقار سے آپ ؐنے وہاں سے ہجرت فرمائی۔ غار میں پناہ کے وقت دشمن جب سر پر آ ن پہنچاتو پھربھی کس شان سے اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے اس کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے آ پ نے فرمایا۔حضرت ابوبکر ؓاس بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ مَیں رسول کریم ﷺکے ساتھ غار میں تھا۔مَیں نے اپنا سراٹھا کر نظر کی توتعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے۔اس پر مَیں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپؐ نے فرمایا : چپ اے ابوبکر!ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیسرا خداہے۔ تو یہ ہے وہ توکل کا اعلیٰ معیار جو صر ف اور صرف رسو ل کریم ﷺکی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں- اور پھر آپ دیکھیں جب غار سے نکل کر سفر شروع کیا توکیا شان استغنا تھی اورکس قدر اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل تھا۔
حضرت ابوبکر ؓکی روایت ہے کہ سفر ہجرت کے دور ان جب سراقہ گھوڑے پر سوار تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب پہنچ گیا تو مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ !اب تو پکڑنے والے بالکل سر پر آ پہنچے اور مَیں اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کی خاطر فکر مند ہوں- آپ ؐنے فرمایا !لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔چنانچہ اسی وقت آپ کی دعاسے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنس گیااور وہ آپ کی خدمت میں امان کا طالب ہوا۔ اس وقت آپ ؐنے سراقہ کے حق میں یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ اور یہ پیشگوئی بھی بڑی شان سے بعد میں پوری ہوئی۔
پھر وہ شان بھی دیکھیں جب آپ دشمن سے صرف ایک فٹ کے فاصلہ پر تھے اور نہتے تھے اور دشمن تلوار تانے کھڑا تھا لیکن کوئی خوف نہیں- کیسا ایمان، کیسا یقین اور کیسا توکل ہے خدا کی ذات پر۔
جابرؓکہتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع میں ہم حضور کے ساتھ تھے۔ایک دن ہم ایک سایہ دار درخت کے پاس پہنچے۔ہم نے آنحضرت ﷺکے آرام کے لئے اس کو منتخب کیا۔ اچانک ایک مشرک وہاں آن پہنچا۔جب آپ ؐکی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اس نے تلوار سونت لی اور کہنے لگا کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو یانہیں- حضور ؐنے اسے جوا ب دیا :نہیں- اس نے پھر کہا مجھ سے تمہیں کون بچا سکتاہے۔ آپ ؐنے فرمایا :اللہ۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔تو حضور نے تلوار اٹھائی اور فرمایا کہ اب مجھ سے تمہیں کون بچا سکتاہے۔اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ درگزر فرما دیں-آ پ ؐنے فرمایا کیا تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں-وہ تھا بھی پکا مشرک۔اس پر اس نے کہا :نہیں- لیکن مَیں آپ سے عہد کرتاہوں کہ آپ سے کبھی لڑائی نہیں کروں گا۔ اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں- اس پر آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے جا ملا اوران سے کہنے لگا، مَیں تمہارے ہاں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیاہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔ (بخاری کتاب المغازی با ب غزوۃ ذات الرقاع)
یہ ٹھیک ہے کہ آنحضرتﷺسے خدا تعالیٰ کا جو سلوک تھااور جو وعدے تھے وہ عام مسلمان کے لئے یا عام انسان کے لئے نہیں ہو سکتا۔لیکن جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رات کے وقت آنحضرت ﷺکی حفاظت کی غرض سے پہرہ لگا کرتا تھا۔حضور کو جب وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کی وحی ناز ل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے برے ارادوں سے تجھے محفوظ رکھے گا۔توحضور ﷺنے خیمہ سے باہر جھانکا اور فرمایا کہ اب تم لوگ جا سکتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود میری حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ لیکن یہاں اپنی امت کو خداتعالیٰ کی ذات پریقین قائم کرنے کے لئے اور اس پر توکل کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے آپؐ ایک جگہ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا میری امت کے ستّر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے نہیں رہتے اور نہ ہی فال لینے والے ہوں گے بلکہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہوں گے۔(بخاری کتاب الرقاق)
تو اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اگر امت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے،بیہودہ گوئی، لغو، فضول کاموں میں ملوث نہیں ہوں گے،حقوق العباد اداکرنے والے ہوں گے، اپنے رب پر ا یمان لانے والے ہوں گے، اس پرتوکل کرنے والے ہوں گے، اور اسی کی طرف جھکنے والے ہوں گے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
تو یہاں جو تعداد کا ذکر ہے یہ کثرت کے لئے ہے اور ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ کثرت سے ہوں گے انشاء اللہ،جو اللہ پر توکل رکھنے والے ہوں گے اور قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔یہ نہیں کہ جہاں ستّر ہزار کی تعداد مکمل ہوئی وہاں فرشتوں نے جنت کے گیٹ (Gate)بند کردئے کہ اب وہ آخری آدمی جو نیکیوں اور توکل کرنے والا تھا وہ تو جنت میں داخل ہوگیا اب ختم۔ اب چاہے تم توکل کرو، نیکیاں کرو یا نہ کرو جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ نہیں ،اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ اللہ کرے ہم میں سے ہر احمدی توکّل سے پُر ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین سے پر ہو، اور اس کی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپٹا ہواہو۔
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں-
یاد رکھو شرک یہی نہیں کہ بتوں اور پتھروں کی تراشی ہوئی مورتیوں کی پوجا کی جاوے یہ تو ایک موٹی بات ہے۔یہ بڑے
بے وقو فوں کا کام ہے۔دانا آدمی کو تواس سے شرم آتی ہے۔ شرک بڑ اباریک ہے۔ شرک جو اکثر ہلاک کرتاہے وہ شرک فی الاسباب ہے یعنی اسباب پر اتنابھروسہ کرنا کہ گویا وہی اس کے مطلوب و مقصود ہیں- جو شخص دنیا کو دین پر مقدم رکھتاہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھروسہ ہوتاہے اور وہ امید ہوتی ہے جو دین و ایمان سے نہیں-نقد فائدہ کو پسند کرتاہے اور آخرت سے محروم۔ جب وہ اسباب پر ہی اپنی ساری کامیابیوں کا مدا ر خیال کرتاہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو تو اس وقت وہ لغو محض اور بے فائدہ جانتاہے اور تم ایسا نہ کرو۔تم توکل اختیار کرو اور توکل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر کچھ دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیرکر۔ صدہاآفات ہیں اورہزاروں مصائب ہیں-جو ان اسباب کو بھی برباد اور تہ وبالاکرسکتے ہیں-اب ذمہ دار اس مثال سے خوب واقف ہیں- فصل اگتی ہے، فصل بڑھتی ہے، پکنے کے قریب ہوتی ہے ایک دم طوفان آتاہے، اولے پڑتے ہیں اور فصل جو ہے بالکل کٹے ہوئے بھوسے کی مانند ہو جاتی ہے تو فرمایا کہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس کی دستبرد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود تک پہنچا۔
پھر آ پ فرماتے ہیں :اصل رازق اللہ تعالیٰ ہے۔وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتاہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا۔وہ ہر طرح سے اور ہرجگہ سے اپنے پر توکّل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتاہے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے مَیں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتاہوں-پس چاہئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔
اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں-
’’ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیساکہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیاکہ اس جنگل میں دعا کریں-پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جوقادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے۔ جب ہم دعا کر چکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے :’’دیکھ مَیں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کر تاہوں ‘‘۔ تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیاہے یا نہیں- چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھاتھاکہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یادوسرے دن ہمیں مل گیا‘‘۔
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۱۲)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خداتعالیٰ پر چھوڑ ے اس کا نام توکل ہے اور اگر تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتاہے تو اس کا توکل پھوکاہے‘‘۔(جس کے اندر کچھ نہ ہو)’’اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتاہے اور خداتعالیٰ پرتوکل نہیں کرتا تووہ تدبیربھی پھوکی‘‘(یعنی اس کے اندر کچھ نہ ہو )’’وہ تدبیر بھی پھوکی ہوگی۔ایک شخص اونٹ پر سوار تھا۔آنحضرت ﷺکو اس نے دیکھا۔ تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے۔چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا۔جب رسول اللہ ﷺسے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے۔ واپس آ کر آنحضرت ﷺسے شکایت کی کہ مَیں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ توُ نے غلطی کی۔پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا، پھرتوکل کرتا تو ٹھیک ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد ششم۔مطبوعہ لندن صفحہ ۳۳۴)
آپ ؑ فرماتے ہیں :’’توکل کرنے والے اور خداکی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے۔ جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتاہے اس کو سوائے ذلت کے اور کیا حاصل ہو سکتاہے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سنت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں- جو لو گ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے وہ اگر چند روزمکروفریب سے کچھ حاصل کربھی لیں تووہ لاحاصل ہے کیونکہ آخر ان کو سخت ناکامی دیکھنی پڑتی ہے۔اسلام میں عمدہ لوگ وہی گزرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پروا نہ کی۔ ہندوستان میں قطب الدین اور معین الدین خدا کے اولیاء گزرے ہیں ان لوگوں نے پوشیدہ خداتعالیٰ کی عبادت کی مگر خداتعالیٰ نے ان کی عزت کو ظاہر کر دیا ‘‘۔ (بدرجلد ۶نمبر ۳۲۔مورخہ۸؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارہ میں بھی یہ واقعہ ایمان میں زیادتی کا باعث بنتاہے۔
۴۔۱۹۰۳ میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گورداسپورتشریف لے جایا کرتے تھے۔تو ایک دفعہ آپ نے پیغام بھجوایا وہاں سے کہ حضر ت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فوراً پہنچ جائیں- چنانچہ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں اور حضرت مولوی صاحب دو بجے بعد دوپہر یکہ پر بیٹھ کر بٹالہ کی طرف چل پڑے۔شیخ صاحب کے دل میں خیال آیا کہ حضرت مولوی صاحب کہا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ مَیں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تو خداتعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گااور مَیں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا۔ آج ہم بے وقت چلے ہیں پتہ لگ جائے گاکہ رات کو ان کے کھانے کا کیا انتظام ہوتاہے۔توکہتے ہیں بٹالہ میں مقامی جماعت کی طرف سے ایک مکان بطور مہمان خانہ ہواکرتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب وہاں ایک چارپائی پر لیٹ گئے اور کتاب پڑھنے لگ گئے۔اس وقت اندازاً شام کے چھ بجے کا وقت ہوگا۔اچانک ایک اجنبی شخص آیا اور کہاکہ مَیں نے سناہے کہ آج مولوی نورالدین صاحب آئے ہوئے ہیں ، وہ کہاں ہیں؟مَیں نے کہا وہ یہ لیٹے ہوئے ہیں- کہنے لگا حضور ! میری ایک عرض ہے آج شام کی دعوت میرے ہاں قبول فرمائیے۔ مَیں ریلوے میں ٹھیکیدار ی کرتاہوں اور میری بیلسٹ ٹرین کھڑ ی ہوئی ہے اور مَیں نے امرتسر جاناہے۔میراملازم حضور کے لئے کھانا لے آئے گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا، بہت اچھا۔چنانچہ شام کے وقت اس کا ملازم بڑا پرتکلف کھانا لے کر حاضر ہوا۔ اورہم دونوں نے سیر ہوکر کھالیا۔ شیخ صاحب کہنے لگے میرے دل میں خیال آیاکہ ان کی بات تو صحیح ہو گئی اور انہیں خدا نے واقعہ میں کھانا بھجوادیا۔
چونکہ گاڑی رات دس بجے کے بعد چلتی تھی۔مَیں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ اندھیرا ہو رہاہے، پھرمزدور نہیں ملے گا۔ ہم کسی مزدورکو بلالیتے ہیں اور سٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں-وہاں ویٹنگ روم میں ہم آرام کرلیں گے۔حضر ت مولوی صاحب نے فرمایا بہت اچھا۔چنانچہ ایک مزدور بلایا…اور وہ ہم دونوں کے بستر لے کر سٹیشن پہنچ گیا۔چونکہ گاڑی رات کے دس بجے کے بعد آتی تھی مَیں نے آپ کا بستر کھول دیا تاکہ حضرت مولوی صاحب آرام فرما لیں-جب مَیں نے بستر کھولا تو اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ اس کے اندر سے ایک کاغذ میں لپٹے ہوئے دو پراٹھے نکلے جن کے ساتھ قیمہ رکھا ہواتھا۔ مَیں سخت حیران ہوا اور مَیں نے دل میں کہا لو بھئی وہ کھانا بھی ہم نے کھالیا اور یہ خدا کی طرف سے اور کھانا بھی آگیا۔ کیونکہ اس کھانے کا ہمیں مطلقاً علم نہیں تھا۔
مَیں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضور جب قادیان سے چلے تھے تو چونکہ اچانک اور بے وقت چلے تھے مَیں نے دل میں سوچا کہ آج ہم دیکھیں گے کہ مولوی صاحب کا کھانا کہا ں سے آتاہے۔تو پہلے آپ کی دعوت ہوگئی اور اب یہ پراٹھے بستر سے بھی نکل آئے ہیں-حضرت مولوی صاحب نے فرمایا :شیخ صاحب! اللہ تعالیٰ کو آزمایا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اس کا میرے ساتھ خاص معاملہ ہے۔
حضرت خلیفہ اولؓ اپنے ایک دوست کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میرے ایک دوست بڑے مہمان نوازتھے۔ ایک دن ایک مہمان آیا۔ عشاء کی نماز کا وقت تھا۔پاس پیسہ تک نہ تھا۔ اسے کہا کہ آپ ذرا لیٹ جاویں مَیں آپ کے کھانے کا بندوبست کرتاہوں- اس کے بعد انہوں نے دعا کی، توجہ کی اورکہا

اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ۔ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌبِالْعِبَاد

مولا تیرا ہی مہمان ہے، یکایک ایک آدمی نے آواز دی کہ لینا میرے ہاتھ جل گئے۔ ایک کاب(ٹرے)پلاؤ کا تھا۔نہ اس نے اپنا نام بتایا، نہ ان کو جلدی میں خیال رہا۔ وہ کاب مدت تک بمد امانت رہا کوئی مالک پیدا نہ ہوا۔ تو توکل عجیب چیزہے۔
آنحضرت ﷺکی قوت قدسی نے صحابہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین اور یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کے وہ اعلیٰ معیار قائم کر دئے تھے جو کسی سے چھپے ہوئے نہیں-یہاں مَیں ایک روایت پیش کرتاہوں جس میں اللہ تعالیٰ پر توکل اور دعا کی قبولیت پر یقین کا پتہ چلتاہے۔اور دعا ہمیں بھی کرنی چاہئے۔
حضرت طلق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابودرداء کے پاس آیا اور کہا کہ آ پ کاگھرجل گیاہے تو آپ نے فرمایا کہ میرا گھر نہیں جلا۔پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ کا گھر جل گیا ہے۔تو آپ نے فرمایا کہ میرا گھر نہیں جلا۔ پھر تیسرا شخص آیا اور کہا کہ اے ابودرداء ؓ! آگ لگی تھی اورجب آپ کے گھرکے قریب پہنچی تو بجھ گئی۔ آپؓ نے فرمایاکہ مجھے معلوم تھاکہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا۔
حاضرین مجلس نے حضرت ابودرداء سے کہا کہ آپ ؓ کی دونوں باتیں عجیب ہیں- پہلے (یہ کہنا )کہ میرا گھر نہیں جلا اور پھر یہ کہنا کہ مجھے علم تھا کہ اللہ ایسا نہیں کرے گا۔
آپ ؓنے فرمایا کہ یہ مَیں نے ان کلمات کی وجہ سے کہا تھا جو مَیں نے آنحضورﷺسے سنے تھے۔آپ ؐنے فرمایا تھا کہ جس نے یہ کلمات صبح کے وقت کہے اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اورجس نے شام کے وقت یہ کلمات کہے اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی اوروہ کلمات یہ ہیں :

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَااِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم۔ مَاشَاءَ اللہُ کَانَ وَلَمْ یِشَآء لَمْ یَکُنْ۔ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ وَاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّکُلِّ دَآبَّۃٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْم۔

یعنی اے میرے اللہ !تو ہی میرارب ہے۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں-مَیں تجھ پرہی توکل کرتاہوں اورتو ہی عرش عظیم کا رب ہے۔اور جو تو نے چاہا ہوگیااور جو نہ چاہا وہ واقعہ نہ ہوا۔اعلیٰ اور عظمت والے اللہ کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں-اورمَیں جانتاہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کا علم ہرچیزپر حاوی ہے۔ اے اللہ مَیں اپنے نفس کے شر اور ہر اس جاندار کے شر سے جو تیرے قبضہ ٔقدرت میں ہے تیری پناہ میں آتاہوں- یقینا میرارب سیدھے راستہ پرہے۔
تو یہی توکل تھا جس کی مثالیں ہمیں اس زمانہ میں بھی نظر آتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی تھی لیکن اس یقین پرقائم رہنے کی وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلا م سے خدا کا وعدہ ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو اسی وعدہ نے گھر میں بٹھائے رکھا جبکہ ارد گرد چاروں طرف آگ تھی۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ سے ان تک اس آگ کو پہنچنے نہ دیا اوریہ آگ ان کے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔
تو یہ مثالیں ہمیں پھر نظر آتی ہیں جو ایمان او ریقین میں اضافہ کاباعث بنتی ہیں- جیسا کہ مَیں پہلے عرض کرچکاہوں کہ روزمرہ کے معاملات میں بھی توکل کی کمی بہت سی برائیوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ مثلاًغلط بیانی ہے، جھوٹ ہیـ،جو انسان بعض دفعہ اپنے آپ کو کسی سزا سے بچانے کے لئے بول لیتاہے۔یاافسر کی ناراضگی سے بچنے کے لئے غلط بیانی سے یا جھوٹ سے کام لیتاہے اور اس بات پربڑے خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو مَیں نے عدالت کویا افسر کو ایسا چکر دیا اور اپنے حق میں فیصلہ کروا لیا۔اور اس کے علاوہ پھر افسروں کی خوشامد ہے۔ یہ اس قدر گر کر ناجائز حد تک جی حضوری کی عاد ت پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر بھی اس سے کراہت آ رہی ہوتی ہے کہ اس نے اپنے افسر کو خدابنالیاہے۔اپنا رازق ایسے لوگ اپنے افسروں کوہی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ذرا سابھی توکل نہیں ہوتا۔اس پر یقین ہی نہیں ہوتااورپھر آہستہ آہستہ ایسے لوگ بندے کوبھی خدا کا درجہ دے دیتے ہیں- تو دیکھیں غیر محسوس طریقے سے جھوٹ اورجھوٹی خوشامد شرک کی طرف لے جاتی ہے اور پھر اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ وہ سمیع وعلیم خدا بھی ہے جو میرے حالات بھی جانتاہے، جس کے آگے مَیں جھکوں ، اپنی تکالیف بیان کروں ، اپنے معاملات پیش کروں-تو وہ دعاؤں کوسننے والا ہے،وہی میری مدد کرے گا،اور مشکلات سے نکالے گا اور نکالنے کی طاقت رکھتاہے۔اور اسی پر مَیں توکل کرتاہوں- تو یہ باتیں پھر جھوٹوں اور خوشامدیوں کے دماغوں میں کبھی آ ہی نہیں سکتیں-پس ہر احمدی کو ان باتوں سے پرہیز کرنا چا ہئے۔اور اس طریق پرچلنا چاہئے جو حضرت اقد س محمد رسو ل اللہ ﷺنے ہمیں بتائے اور جن کو اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے عمل سے ہمارے سامنے رکھا۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’مجھے یاد ہے مَیں نے ایک مرتبہ امرتسر ایک مضمون بھیجا۔اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔ میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایاگیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے، گویا جھوٹ کیـ سوا بچاؤ نہیں- مگر مَیں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو، جھوٹ نہیں بولوں گا۔ آخر و ہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاکخانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو مَیں نے صاف طورپر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر مَیں نے اس کوجزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کردیا۔ مَیں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں- ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں-سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارہ نہیں-مَیں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو ایک مزا آتاہے کہ خداتعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہو گئی۔

مَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَھُوَحَسْبُہٗ (الطلاق :۴)۔

(ملفوظات جلد چہارم۔جدید ایڈیشن۔ صفحہ ۶۳۶۔۷۳۶)
پھر میاں بیوی کے جھگڑے ہیں یہ بھی توکّل میں کمی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں-اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتاہے۔بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے،اپنے دوستوں ، سہیلیوں یاہمسایوں کی طر ف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں-اور پھر خرچ کرلیتی ہیں ، پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتاہے کہ ا ور دو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اوراس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے۔کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں-اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتاہے۔اور اگر خداتعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں ،اس سے دعا بھی نہیں کرتے۔ تو یہ ایک سلسلہ جب چلتاہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتاہے۔اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتاہے۔ تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کردیتی ہیں-خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہوجاتے ہیں-اور پھر جیساکہ مَیں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے لیکن یہ صرف عورتوں کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایسے مرد بھی ہیں جن کو مَیں کہوں گا کہ،جن میں غیرت کی کمی ہے جو اپنی بیوی سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ تم جہیزمیں جو زیور لائی ہو مجھے دو تا کہ مَیں کاروبار کروں- یا جو رقم اگر نقد ہے تو وہ مجھے دو تا کہ مَیں اپنے کاروبار میں لگاؤں-اگر تو میاں بیوی کے تعلقات محبت اور پیار کے ہیں تو آپس میں افہام و تفہیم سے عورتیں دے بھی دیتی ہیں-لیکن اگر عورت کو پتہ ہوکہ میرا خاوند نکھٹو ہے، اس میں اتنی استعداد ہی نہیں ہے کہ وہ کاروبار کرسکے اور یہ احساس ہو کہ کچھ عرصہ بعد میرا جو اپنا سرمایہ ہے،رقم ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور گھر میں پھرفاقہ زدگی پیدا ہو جائے گی اوروہی حالات ہوجائیں گے تووہ نہیں دیتیں اور اس سے لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں-پھر یہ بھی ہوتاہے کہ بعض دفعہ تھوڑی بے غیرتی کی حد آگے بھی چلی جاتی ہے جب ایک دفعہ بے غیرت انسان ہوجائے تو یہ مطالبہ ہوجاتاہے کہ بیوی کوکہا جاتاہے کہ تمہارا باپ کافی پیسے والاہے، امیر ہے اس لئے مجھے اتنی رقم اس سے لے کر دو تاکہ مَیں کاروبار کروں- اور اس میں لڑکے کے گھر والے بھائی بہن وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس کو اکساتے رہتے ہیں کہ تم اس رقم کا مطالبہ کرو۔تو گویا اب لڑکی کے پورے سسرال کوپالنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے۔تو ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں وہ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے والے اور اس پر توکل نہ کرنے والے اور اس کے احکامات اور تعلیم پر عمل نہ کرنے والے ہوتے ہیں-جو اللہ تعالیٰ کی عبادات، جو حق ہے عبادت کرنے کا اس طرح نہ کرنے والے ہوں ان میں کبھی توکل پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔اور پھر جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ جب عائلی معاملات میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں توان حالات میں بھی عورتوں پرہی ظلم یہ ہوتاہے کہ اگر مردوں کی ڈیمانڈ(Demand) پوری نہ کی جائیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتاہے اور بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔اور یہ ایسی صورت حال ہے جو سامنے آتی ہیں جن کا مَیں ذکر کر رہاہوں-تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ایسے گھروں کو عقل اور سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر، ہر احمدی گھرانہ پیار اور محبت اورالفت کا نمونہ دکھانے والاہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔’’اصلاح نفس اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کاہے۔ اس میں جس قدر توکل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔ تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خداتعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا۔ نفسانی جذبات پر محض خداتعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتاہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔
مَیں پھر کہتاہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کوہر گز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہی دعا توہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہئے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور وہ توجہ نہیں کر سکتے … ایک عیسائی جو خونِ مسیح پر ایمان لاکر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتاہے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کر تارہے۔اور ایک ہندو جو یقین کرتاہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتارہے گا۔ وہ تویقینا سمجھتاہے کہ کتّے،بلّے،بندر،سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دُعا کی تعلیم ہے۔اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو‘‘۔(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۲۶۶۔۲۶۷)
معاشرے میں آج کل بہت سارے جھگڑوں کی وجہ طبیعتوں میں بے چینی اور مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے جو حالات کی وجہ سے پیداہوتی رہتی ہے۔ اور یہ مایوسی اور بے چینی اس لئے بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیا داری اور مادیت پرستی اور دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کم ہوگیاہے اور دنیاوی ذرائع پر انحصار زیادہ ہوتا جا رہاہے۔اس لئے اگر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بناناہے تو جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ دعاؤں پر زوردیں اور اسی سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونوں سنوریں گی۔اوریہی توکل جو ہے آپ کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی نسلوں میں بھی آپ کے کام آئے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’اصل میں توکّل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و بامراد بنا دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : مَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی ا للّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ (الطلاق :۴) جو اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہو جاتاہے بشرطیکہ سچے دل سے توکل کے اصل مفہوم کو سمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اور صبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو،مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاوے‘‘۔
’’اور اس کے کام بھی ایسے ہی ہیں-پس انسان کو لازم ہے کہ اس کا غم نہ کرے اور آخرت کا فکر زیادہ رکھے۔اگر دین کے غم انسان پر غالب آجاویں تو دنیا کے کاروبار کا خود خدا متکفل ہو جاتاہے‘‘۔(ملفوظات جلد دہم صفحہ ۲۵۲۔مطبوعہ لندن)
ایک حدیث ہے جس میں بہت ہی پیار ی ایک دعا سکھائی گئی ہے۔حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رات کو جب تہجد پڑھتے تو یہ دعا کرتے کہ اے ہمارے اللہ !تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ، آسمان اور زمین کو توہی قائم رکھنے والاہے۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں-تو ہی زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں-توُآسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا نور ہے۔تو حق ہے،تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے،تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے،جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔اے میرے اللہ !مَیں تیری ہی فرمانبرداری اختیار کرتا ہوں اور تجھ پر ہی ایمان لایاہوں اور تجھ پر ہی توکل کرتاہوں اور اپنے تمام جھگڑے تیرے ہی حضور پیش کرتاہوں اور تجھ سے ہی فیصلہ طلب کرتاہوں-میری اگلی اور پچھلی، ظاہری اور پوشیدہ خطائیں معاف فرما اوروہ خطائیں جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتاہے۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں-
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دعائیں کرنے اوراس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں