خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 10؍اکتوبر2003ء

تنگی ترشی کے حالات بھی ہوں تو خدا سے شکوہ نہیں کرنا، خدا کا فضل مانگنا ہے اور راضی برضا رہناہے۔
سگریٹ پینے والے کو چاہئے کہ وہ اس کے مضراثرات کی وجہ سے سگریٹ نوشی ترک کر دے۔
(شرائط بیعت حضرت مسیح موعود ؑ پر عمل پیراہونے کے بعد عظیم روحانی تبدیلیوں کا روح پرور بیان )
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۰؍اخاء ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح۔مورڈن ( لندن)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-

گزشتہ جمعہ سے پہلے جمعہ کے خطبے میں مَیں یہ بیان کررہا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں ان دس شرائط بیعت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتے ہوئے شامل ہونے کے بعد احمدیوں میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں- کچھ واقعات پیش کئے تھے اب اسی مضمون کو مزید آگے بڑھاتاہوں-
پانچویں شرط میں حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عہد لیا تھاکہ تم پر تنگی، ترشی، بلا، مصیبت،ذلت ور سوائی کے جیسے مرضی حالات ہوجائیں کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرنا۔ہاں اس کے فضل مانگتے رہنا ہے لیکن یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ اس کی رضا پر ہمیشہ راضی رہوں گا۔ تو اس کے چند عملی نمونے مَیں پیش کرتاہوں-
سب سے پہلے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکا نمونہ ہے۔ اگست۱۹۰۵ء کو آپ کے صاحبزادے عبدالقیوم چند دن خسرہ میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگئے۔ اور اس وقت ان کی عمر قریباً دو سال تھی-حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جو نمونہ دکھایا وہ یہ ہے کہ آپؓ نے سنت نبوی کی متابعت میں پہلے بچے کوبوسہ دیا اس پر آپ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں اور فرمایا :’’مَیں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولاتھاکہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ آنحضرت ﷺکا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھاتو آنحضرتؐ نے اس کامونہہ چوماتھا اور آپ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی مد ح کی اور فرمایاکہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی مگر ہم خدا کے فضلوں پر راضی ہیں-اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے مَیں نے بھی اس کا منہ کھولا اور چوما۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے اور خوشی کامقام ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقع عطا ہوا‘‘۔
یہ تو خیر اس شخص کا عمل ہے جس کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک زاُمت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہردل پُر از نور یقیں بودے

کہ کیاہی اچھا ہو اگر قوم کا ہر فرد نور ِ دین بن جائے مگریہ تو تب ہی ہو سکتاہے جب ہر دل یقین کے نور سے پُر ہو۔
پھر ایک مثال ہے مکر م حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب ؓ کی۔چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک بھائی عزیزم چوہدری شکراللہ خان صاحبؓمرحوم سے چھوٹے عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ(مرحوم ) سے بڑے تھے جن کانام حمید اللہ خان تھا۔ وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کرفوت ہوگئے۔ ان کی وفات فجرکے وقت ہوئی۔والد صاحب تمام رات ان کی تیمارداری میں مصروف رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیزو تکفین، جنازہ اور دفن سے فارغ ہوکر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پرحاضر ہوگئے۔ نہ موکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا، اور نہ افسر عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے ایک لخت جگرکو سپردخاک کرکے اپنے مولا کی رضا پرراضی اور شاکر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہوگئے ہیں-
(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحہ ۱۶۵۔۱۶۶)
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ :’’اہلیہ اور تین بچوں کی وفات ادھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا۔ آبروریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا۔ اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طورپر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ عاجز راقم کسی قدر بلیہ دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا اوریہ سب الٰہی آفات و مصائب کا ظہور ہوا جس کی حضور ؑ نے پہلے سے ہی مجمل طورپر خبرکر دی تھی۔اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازارہ نوازش تعزیت کے طورپر ایک تسلی دہندہ چٹھی بھیجی۔ وہ بھی ایک پیشگوئی پرمشتمل تھی جو پوری ہوئی اور ہو رہی ہے-لکھاتھاکہ واقع میں آپ کو سخت ابتلا پیش آیا۔ یہ سنت اللہ ہے تاکہ وہ اپنے مستقیم الحال بندوں کی استقامت لوگوں پرظاہر کرے اور تاکہ صبرکرنے سے بڑے بڑے اجر بخشے۔خداتعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مخلصی عنایت کردے گا۔دشمن ذلیل و خوارہوں گے جیساکہ صحابہ ؓکے زمانہ میں ہوا کہ خداتعالیٰ نے ان کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا۔ ایسا ہی اس جگہ ہوگا۔ان کی بددعائیں آخران پرپڑیں گی۔سو بارے الحمدللہ کہ حضور ؑکی دعا سے ایسا ہی ہوا۔ عاجز ہر حال میں استقامت وصبر میں بڑھتا گیا۔(اصحاب احمد جلد ۶صفحہ ۱۲۔۱۳)
حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا نمونہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتداء میں جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو حضور لیکچر دینے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تشریف لے جا رہے تھے اور دیگر احباب بھی حضور کے ہمراہ تھے۔ گلی سے گزرتے ہوئے کسی نے ازراہ شرارت کوٹھے پرسے راکھ کی ٹوکری پھینک دی۔ حضور تو خداکے فضل سے بچ گئے کیونکہ آپ گزرچکے تھے۔ٹوکری کی راکھ والد صاحب کے سر پرپڑی۔(یہ ان کے بیٹے بیان کررہے ہیں )۔ بس پھرکیاتھا بوڑھا آدمی،سفید ریش، لوگوں کے لئے تماشا بن گیا۔چونکہ آپ کو حضرت صاحب سے والہانہ اور عاشقانہ محبت تھی۔بس پھر کیاتھا اسی جگہ کھڑے ہو گئے اور ایک حالت وجد طاری ہو گئی اورنہایت بشاشت سے کہنا شروع کیا :’’پا مائیے پا، پا مائیے پا‘‘۔ یعنی مائی یہاں ڈالو یہاں- فرماتے تھے شکرہے خدا کا کہ حضرت صاحب کے طفیل یہ انعام حاصل ہوا۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے۔حضرت صاحب جب سیالکوٹ سے واپس آئے تو خدا م آپ کو گاڑی پر چڑھانے کے بعد واپس گھروں کو جارہے تھے تو یہ کسی وجہ سے اکیلے پیچھے رہ گئے۔ تو مخالفوں نے پکڑ لیا اور نہایت ذلت آمیز سلوک کیا۔ یہاں تک کہ منہ میں گوبر ڈالا۔ مگروالد صاحب اسی ذلت میں عزّت اور اسی دکھ میں راحت محسوس کرتے تھے۔ اورباربار کہتے تھے ’’برہانیا، ایہہ نعمتاں کیتھوں ‘‘۔ یعنی اے برہان الدین! یہ نعمتیں کہاں میسر آ سکتی ہیں- یعنی دین کی خاطرکب کوئی کسی کو دکھ دیتاہے۔یہ تو خوش قسمتی ہے۔
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ، ستمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۱۴۔۱۵)
حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب (یعنی آپ کے بیٹے ) تحریر فرماتے ہیں کہ :’احمدیت قبول کرنے کے بعد مالی حالت کا یہ حال تھاکہ مہینوں اس ارزانی کے زمانہ میں ہم گھروالوں نے کبھی گھی کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ ایندھن خریدنے کی بجائے شیشم کے خشک پتے جلایا کرتے تھے۔مگر خشک پتوں سے ہانڈی نہیں پکتی۔ اس لئے پہلے دال کو گھر ہی میں بھون لیاکرتے تھے۔ اس کے بعد اسے پیس لیتے تھے۔اب ہانڈی میں پانی، نمک، مرچ ڈال کر نیچے پتے جلانے شروع کرتے۔ جب پانی جوش کھاتا تو وہ بھنی اور پسی ہوئی دال ڈال دیتے۔ یہ ہماری ترکاری ہوتی جس سے روٹی کھاتے ‘۔
’عام طورپر جوار،باجرہ اور گیہوں کی روٹی کبھی کبھار۔ بجائے گھی کے تلوں کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ساگ کی بجائے درختوں کی کونپلیں ساگ کے طور پر پکاکر کھاتے تھے۔لباس پرانے زمانہ کے زمینداروں کا تھا نہ کہ مولویوں کا‘۔کہتے ہیں کہ ’ دراصل والد صاحب کو حضرت صاحب سے مل کر ایک عشق اور محبت، شوق اور جوش پیدا ہوگیا تھا اوراس عشق ومحبت اور وارفتگی کی وجہ سے آپ کو اپنے آرام و آسائش اور خوراک کی قطعاً پرواہ نہ تھی۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ جو عشق کی آگ ان کے ا ندر تھی وہی عشق ا لٰہی، محبت رسول اور حضرت صاحب کا عشق لوگوں کے دلوں میں لگا دوں- اور بس ہر وقت یہی خیال، یہی جذبہ، یہی عشق، یہی غم اور یہی فکر کہ کس طرح احمدیت پھیل سکتی ہے۔ کھانے کی نہ پینے کی نہ پہننے کی پرواہ۔جس طرح مَیں نے اور میری والدہ نے ان حالات میں وقت گزاراہے وہ ا للہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے۔ باوجود اس قدر تنگ دستی اور ناداری کے خود داری اور صبر اور استقلال کی ایک مضبو ط چٹان تھے۔ اور دین کے معاملہ میں ایسے غیور کہ کوئی لالچ اور کسی قسم کا دوستانہ اور رشتہ دارانہ تعلق درمیان میں حائل نہیں ہوسکا، الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔ اورہماری بھی ایسے ماحول میں پرورش ہوئی کہ دنیا اور مافیہا ہماری نظروں میں ہیچ۔ اس استغناء کودیکھ کر آخر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب مولوی صاحب کو تنخواہ دیتے ہیں-
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ، ستمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۱۱۔۱۲)
حضرت ام المومنین ؓ کا بے مثال صبر کا نمونہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری لمحات کے وقت حضرت ام المومنین ؓ نے بجائے دنیا دار عورتوں کی طرح رونے چیخنے اور بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنے کے صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گر کے سجدہ میں نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دعائیں مانگنے کا پاک نمونہ دکھایا۔ جب اخیر میں یٰس پڑھی گئی اور حضورؑ کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی تو حضرت ام المومنین ؓ نے فرمایا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور بس خاموش ہو گئیں کسی قسم کا جزع فزع نہیں کیا۔ اندر بعض مستورات نے رونا شروع کیا آپ نے ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو۔ یہ صبر و استقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو نازونعمت میں پلی ہو اور جس کا ایسا روحانی بادشاہ اور ناز اٹھانے والا مقدس خاوند انتقال کر جائے، ایک زبردست اعجاز تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲صفحہ ۵۴۷)
پھر بچوں کو بھی یہی نصیحت کی کہ یہ نہ سمجھناکہ تمہارا باپ تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ کرگیا بلکہ دعاؤں کاایک بڑا عظیم خزانہ چھوڑ کر گئے ہیں جو وقت پر تمہارے کام آتارہے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام چاہتے تھے کہ آپ کی جماعت میں شامل ہونے والا ہر شخص قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو اور کم از کم عمل کرنے کی کوشش کرنے والاہو،اس کو ماننے والاہو۔اگر ایک حکم کوبھی نہیں مانتا تو فرمایاکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں- آپ چاہتے تھے کہ آپ کے ماننے والے دنیا کی رسموں سے بالا ہو کر دنیا کے لالچوں اور فضول رسموں سے بچنے والے ہوں-اور انہی اعمال کو بجا لانے کی کوشش کرنے والے ہوں جن کا خدا اور اس کے رسول ﷺنے حکم دیاہے۔اورخدا کے رسول نے وہی حکم دیاہے جو خدا کا قرآن میں حکم ہے۔ تبھی تو جب کسی نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھاتھاکہ ہمیں آنحضرت ﷺکے خُلق کے بارہ میں بتائیں تو آپ ؓنے فرمایا کیاقرآن نہیں پڑھتے۔ جو قرآن میں خُلق بیان ہوئے ہیں وہی آنحضرت ﷺکے خُلق تھے۔اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں تو اپنے آقا اورمطاع کی پیروی کرتاہوں اور قرآن کے ہر حکم کو اپنا دستورالعمل قرار دیتاہوں-تم بھی اگر ایسی اتباع کرنے کی کوشش کروگے تو میری جماعت میں شمار ہوگے اوربیعت کرنے کے بعد پھر اس کے نمونے بھی جماعت نے دکھائے۔
سب سے پہلے ایک خاتون کا نمونہ یہاں پیش کرتاہوں-یہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کی والدہ تھیں- ان کے بھانجے چوہدری بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں- انہوں نے چوہدری صاحب کو بیان کیا، چوہدر ی صاحب نے یہ لکھاہے یہاں کہ والدہ صاحبہ کو بدعات رسوم سے کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ اس طرح ہوتاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر ی شادی کا موقعہ تھا (چوہدری بشیر صاحب کی )۔نکاح کے بعد مجھے زنانہ میں بلایا گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ جیسے دیہات میں رواج ہے دونشستوں کا ایک دوسرے کے مقابل انتظام کیاگیاہے اورمجھ سے توقع کی جارہی ہے کہ مَیں ایک نشست پر بیٹھ جاؤں اور دوسری پر دلہن کو بٹھا دیا جائے۔اور بعض رسوم ادا کی جائیں جنہیں پنجابی میں بیڑو گھوڑی کھیلنا کہتے ہیں- مَیں دل میں گھبرایا۔لیکن پھرمَیں نے خیال کیاکہ ا س وقت عورتوں کے ساتھ بحث اور ضد مناسب نہیں اور مَیں اس نشست پر جو میرے لئے تجویز کی گئی تھی بیٹھ گیااور ان اشیاء کی طرف جو اس رسم کے لئے مہیاکی گئی تھیں ہاتھ بڑھایا۔ اتنے میں ممانی صاحبہ (یعنی چوہدری صاحب کی والدہ نے ) میراہاتھ کلائی سے مضبوط پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا اورکہا :نہ بیٹا یہ شرک کی باتیں ہیں-اس سے مجھے بھی حوصلہ ہوگیا، مَیں نے ان اشیاء کو اپنے ہاتھ کے ساتھ بکھیر دیااورکھڑے ہوکرکہہ دیا کہ مَیں ان رسوم میں شامل نہیں ہوں گا اور ا س طرح میری مخلصی ہوئی۔
آج بھی عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں-بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتاہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذبہ کے ساتھ اپنی اوراپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی ہوں- ہمارے ملکوں میں ،پاکستا ن اور ہندوستان وغیرہ میں مسلمانوں میں بھی یہ رواج ہے کہ لڑکیوں کو پوری جائداد نہیں دیتے۔ پوری کیا،دیتے ہی نہیں- خاص طورپر دیہاتی لوگوں میں ،زمینداروں میں- اس کاایک نمونہ ہے،چوہدری نصراللہ خان صاحب کا۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ہمشیر ہ صاحبہ مرحومہ کو اس زمانہ کے رواج کے مطابق والد صاحب نے ان کی شادی کے موقع پر بہت سارا جہیز دیا اور پھر آپ نے یہ وصیت بھی کردی کہ آپ کا ورثہ شریعت محمدی کے مطابق تقسیم بھی ہوگا، لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی۔چنانچہ اس کے مطابق ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی کو بھی شریعت کے مطابق حصہ دیا گیا۔
ایک واقعہ ہے: حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام۱۸۹۲ء میں جالندھر تشریف لے گئے تھے۔حضور کی رہائش بالائی منزل پر تھی۔کسی خادمہ نے گھر میں حقہ رکھا اور چلی گئی اسی دوران حقہ گر پڑا اور بعض چیزیں آگ سے جل گئیں-حضور نے اس بات پر حقہ پینے والوں سے ناراضگی اور حقہ سے نفرت کا اظہار فرمایا۔یہ خبر نیچے احمدیوں تک پہنچی جن میں سے کئی حقہ پیتے تھے اور ان کے حقے بھی مکان میں موجود تھے۔انہیں جب حضور کی ناراضگی کا علم ہوا تو سب حقہ والوں نے اپنے حقے توڑ دئیے اور حقہ پینا ترک کردیا۔جب عام جماعت کو بھی معلوم ہوا کہ حضور حقہ کو نا پسند فرماتے ہیں تو بہت سے با ہمت احمدیوں نے حقہ ترک کردیا۔(اصحاب احمد جلد۱۰ صفحہ۱۵۷یکے از ۳۱۳)
مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال بھی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ میرے ماموں مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ مرزا صاحب دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں-ماموں صاحب خود حقہ پیتے تھے انہوں نے حضور سے عرض کیا بہت اچھا حضور۔ گھر آکر اپناحقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا۔ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حقہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لئے یہ فعل ناراضگی کا نتیجہ ہے لیکن جب ماموں نے کسی کو کچھ بھی نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا آج حقے پہ کیا ناراضگی آگئی تھی؟ فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے اور میں خود حقہ پیتا ہوں اس لئے پہلے اپنے حقہ کو توڑا ہے۔چنانچہ ماموں صاحب نے مرتے دم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔(سوانح فضل عمر جلد ۲صفحہ ۳۴)
آج کل یہی برائی ہے حقہ والی جو سگریٹ کی صورت میں رائج ہے۔توجو سگریٹ پینے والے ہیں ان کوکوشش کرنی چاہئے کہ سگریٹ چھوڑیں- کیونکہ چھوٹی عمرمیں خاص طورپر سگریٹ کی بیماری جوہے وہ آگے سگریٹ کی کئی قسمیں نکل آئی ہوئی ہیں جن میں نشہ آور چیزیں ملا کر پیاجاتاہے۔تو وہ نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے کی طرف ایک قدم ہے جو دجال کا پھیلایاہواہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک بھی اس میں شامل ہیں-بہرحال ہمارے نوجوانوں کوچاہئے کہ کوشش کریں کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں-
حضرت منشی برکت علی خاں صاحب صحابی حضرت اقدس شملہ میں ملازم تھے۔احمدی ہونے سے پہلے انہوں نے ایک لاٹری ڈالی ہوئی تھی وہ لاٹری نکلی تو ساڑھے سات ہزار کی رقم ان کے حصے میں آئی۔(اس زمانہ میں )۔انہوں نے حضور سے پوچھا تو حضور نے اسے جؤا قرار دیا اور فرمایا اپنی ذات میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں-حضرت منشی صاحب نے وہ ساری رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی۔ (اصحاب احمد جلد ۳ص۳۳)
تو یہی آج کل یہاں یورپ میں روا ج ہے،مغرب میں رواج ہے لاٹری کا کہ جو لوگ لاٹری ڈالتے ہیں اوران کی رقمیں نکلتی ہیں وہ قطعاً ان کے لئے جائز نہیں بلکہ حرام ہیں-اسی طرح جس طرح جوئے کی رقم حرام ہے۔اول تو لینی نہیں چاہئے اوراگر غلطی سے نکل بھی آئی ہے تو پھر اپنے پر استعمال نہیں ہوسکتی۔
ایک واقعہ یہیں آپ کے ملک انگلستان کا محترم بشیر آرچرڈ صاحب کاہے جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کے بعداپنی زندگی وقف کی۔ ۱۹۴۴ء میں احمدی ہوئے تھے اور قادیان میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور جیساکہ مَیں نے کہا ہے اپنی زندگی وقف کردی۔اور اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ عبادات الٰہی اور دعاؤں میں بے انتہا شغف پیدا ہوگیا۔ان کے قادیان کے پہلے دورہ کا سب سے پہلا ثمرہ ترک شراب نوشی تھا۔شراب بہت پیا کرتے تھے۔فوری طورپر انہوں نے پہلے شراب ترک کی۔انہوں نے جوئے اور شراب نوشی سے توبہ کرلی اور اور ان دونوں چیزوں سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کی،ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ (الفضل ۱۰؍جنوری۱۹۷۸ء،عظیم زندگی صفحہ ۸۔۹)
اس زمانہ میں بھی، آج کل بھی چند سال پہلے بعض احمدی یہاں بھی،جرمنی وغیرہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی ایسے کاروبار جن میں ریستورانٹ میں ،ہوٹلوں میں جہاں شراب کا کاروبار ہوتا تھا۔حدیث کے مطابق شراب کشیدکرنے والا، شراب پلانے والا،شراب بیچنے والا، رکھنے والا، ہر قسم کے لوگوں کو کہاگیا کہ یہ جہنمی ہیں اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اعلان فرمایا تھاکہ جو بھی احمدی اس کاروبار میں ملوث ہیں ان کو فوری طورپر یہ کاروبار ترک کردینا چاہئے ورنہ ان کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا۔ تو خود ہی حضور ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھاری تعداد نے اس کاروبارکو ترک کردیا۔ اوربعضوں کو توخداتعالیٰ نے فوراً بہت بہتر کاروبار عطا کئے اور بعضوں کو ابتلاء میں بھی ڈالا۔ اور وہ لمبے عرصہ تک کاروبار سے محروم رہے۔لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور پھر انہوں نے اس گندے کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
امرتسر کے ایک غیراز جماعت میاں محمد اسلم صاحب مارچ ۱۹۱۳ء میں قادیان تشریف لائے تھے۔ وہ حضرت خلیفۃ اولؓکے بارہ میں لکھتے ہیں کہ :’’مولوی نورالدین صاحب نے جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلّمہ پیشوا ہیں-جہاں تک مَیں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غورکیاہے مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصتاً للہ کے اصول پر نظرآیا۔ کیونکہ مولوی صاحب کاطرز عمل قطعاً ریا ء و منافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ ٔ دل میں صداقت اسلام کاایک زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہروقت ان کے بے ریاء سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفت توحید کو فیضیاب کر رہاہے۔اگرحقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں مَیں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یہ نہیں کہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبورہیں- نہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہوگیاہے۔ کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآ ن مجید کی مَیں نے ان کے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالباً دنیامیں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے‘‘۔(بدر ۱۳؍مارچ ۱۰۱۳ء۔ حیات نور صفحہ ۶۱۱۔۶۱۲)
پھر ایک وصیت ہے جو حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ نے اپنی اولاد کو کی۔فرمایا: قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بناؤ اور اتباع سنت کی پیروی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اشاعت اسلام میں ہمہ تن مصروف رہو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی انہی امور کی پابندی کے لئے تیار رکھو۔(سیرت سیّدعبدالستار شاہ صاحب صفحہ ۱۹۳)۔یہ نصیحت تو ہر ا حمدی کو ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہئے۔
حضرت مرزا عبدالحق صاحب لکھتے ہیں حضرت ملک مولابخش صاحب رضی اللہ عنہ کے بار ہ میں کہ : آپ ؓ کو قرآن کریم سے خاص عشق تھا اور قرآنی معارف وحقائق سننے کے لئے باوجود بیماری اور کمزوری کے تعہد کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کئی ماہ تک موسم سرما میں صبح کی نمازمحلّہ دارالفضل سے آ کردارالرحمت میں اس لئے ادا کرتے رہے کہ مکرم مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اس مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔اور وہ ان کے حقائق و معارف سے مستفیض ہوں-اور پھر رمضان المبارک میں جو درس مسجد اقصیٰ میں ہوتا اس میں بھی التزام کے ساتھ شریک ہوتے اور قرآن کریم کو کثرت سے پڑھتے اور غورسے پڑھتے جہاں خود فائدہ اٹھاتے وہاں دوسروں کو بھی شامل کرتے۔ عمرکے آخری حصہ میں کہتے ہیں دن میں کئی کئی بارجب بھی دیکھو قرآن شریف پڑھ رہے ہوتے تھے۔ اورکاپی اورقلم پاس رکھتے۔ جب کسی آیت کی لطیف تفسیر سمجھ میں آتی اس کو نوٹ کرتے اوربعد میں اپنے گھر والوں کو بھی سناتے۔مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت جب و ہ گھروالوں کو سنا رہے ہوتے تو ان کے چہرے سے یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ آپ کی اولاد قرآن کریم کی عاشق ہو۔(اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۱۲۴۔۱۲۵)
گیمبیا کے ایک عیسائی نوجوان نے احمدیت قبول کی تو ماں نے اس کی شدید مخالفت شروع کردی۔ پہلے تو وہ برداشت کرتا رہا مگر جب اس کی ماں نے قرآن کریم کی توہین شروع کی تو گھر چھوڑ کر نکل گیا اور دوبارہ اس گھر میں نہیں گیا۔ (ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ستمبر۱۹۸۷ء صفحہ۶)
تو اس زمانہ میں بھی افریقہ کے دور درازملکوں میں بھی یہ معجزے رونما ہورہے ہیں-
اسلام میں چار شادیوں تک کی اجازت ہے جس کو بعض لوگ حکم بنا لیتے ہیں ، بہرحال اجازت ہے۔ تو افریقہ میں رواج ہے کہ جتنا بڑا کوئی آدمی ہو، یا پیسے والا ہو یاچیف ہو تو بعض دفعہ بعض قبائل میں چار سے زیادہ نو دس تک شادیاں کرلیتے ہیں-سیرالیون کے علی روجرز صاحب نے جب احمدیت قبول کی تھی تو اس وقت وہ جوان تھے اور ان کی بارہ بیویاں تھیں- جماعت کے مربی مولانا نذیر احمد صاحب علی نے انہیں فرمایا کہ اب آپ احمدی ہوچکے ہیں اس لئے قرآنی تعلیم کے مطابق چار بیویاں رکھ سکتے ہیں-باقی کو بہرحال طلاق اور نان نفقہ دے کر رخصت کریں- انہوں نے نہ صرف اس ہدایت پر فوراً عمل کیا بلکہ ان کے کہنے پر جو پہلی چار بیویاں تھیں وہ اپنے پاس ر کھیں اور نوجوان بیویوں کو رخصت کر دیا۔ تویہ تبدیلی ایک انقلاب ہے۔
پھرہمارے ایک مربی تھے یونس خالد صاحب وہ لکھتے ہیں کہ : وی وی کاہلو صاحب بذریعہ کشف احمدیت ہوئے تھے۔مولانامحمد صدیق امرتسری صاحب کے زمانے میں- پھر بعد میں وہ جماعت احمدیہ سیرالیون کے امیر بھی رہے۔ احمدی ہونے سے پہلے بالکل آزاد ماحول تھا۔اور ان کا ماحول تو اس حد تک آزاد تھا کہ ان کا پیشہ بھی،ویسے بھی وہ ڈانسر تھے۔لیکن بیعت کے فوراً بعد اپنے اندر تبدیلی پیداکی۔ تقویٰ و طہارت عبادت، خدا خوفی اور دیانت میں ایک مقام بنالیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی ترقیات سے نوازا۔ اور آپ علاقہ کے پیراماؤنٹ چیف بھی تھے۔ جس علاقہ کے پیراماؤنٹ چیف تھے و ہاں ہیروں کی بہت بڑی کانیں تھیں- آپ صاحب اختیار تھے۔ کیونکہ ان علاقوں میں چیف کافی اختیار والے ہوتے ہیں-آپ اگرچاہتے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ کا فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن احمدیت کی حسین اور پاکیزہ تعلیم کی وجہ سے یہ دولت اپنے اوپر حرام سمجھی اور سادہ اور درویشانہ زندگی گزارتے رہے۔ اور اونچی سطح میں بھی مشہور تھا کہ مسٹر وی وی کاہلو ایک انتہائی دیانت دار پیراماؤنٹ چیف ہیں- نہ خود رشوت لیتاہے اور نہ ہی عملہ کو لینے دیتاہے۔ تو کہتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوئے۔ایک دن مَیں ان کی عیادت کے لئے گیا تو مجھے بلا کر کہتے ہیں کہ یونس! میری آنکھوں کے سامنے ہروقت سبزرنگ کا کلمہ طیبہ لکھاہوتاہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ مَیں نے انہیں کہا کہ چیف آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺسے محبت ہے اور عشق ہے۔ یہ اس کانتیجہ ہے۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں دو ماہ تک جاتارہا اور وہ یہی کہتے رہے کہ کلمہ طیبہ سبز رنگ کی روشنی سے ہمیشہ لکھا ہوا نظرآتاہے۔
پھر جب آپ ہسپتال میں داخل ہوئے تو نزع کی حالت طاری ہوئی تو ایک احمدی دوست مسٹر کوجی نے ان کا بازو پکڑ کرکہا کہ چیف پڑھو ’لَااِلٰہَ اِلّااللّٰہُ‘۔ آپ نے ’لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ‘ پڑھا۔ پھر مسٹرکوجی نے کہا ’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘ آپ نے ’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘پڑھا اورپڑھتے ہی سر جھک گیا
ساتویں شرط یہ بھی تھی کہ عاجزی اور خوش خلقی اور مسکینی وغیرہ کی طرف توجہ رہے گی۔تو انبیاء کو تو زیادہ تر وہی لوگ مانتے ہیں جو غریب مزاج اور مالی لحاظ سے کم وسعت والے بھی ہوں لیکن قربانیوں میں امراء سے زیادہ حوصلہ کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ جان کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے اور کبھی بھی بڑائی بیان کرنے والے یا تکبر ونخوت کا اظہارکرنے والے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹے بڑے کے سامنے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہتے ہیں اور انکساری اور عاجزی کے بڑے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں-اور الٰہی جماعتوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ عاجزمسکین لوگ جو فروتنی اور عاجزی کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں وہ نظر آئیں اتنی زیادہ ترقی کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے اور نبی کوماننے والے بھی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا۔ تو انبیاء کی نظر جب ایسے دلوں پر پڑتی ہے تو انہیں مزید جلا بخشتی ہے، انہیں مزید چمکا دیتی ہے۔اور وہ جو عاجزی دکھانے والے لوگ ہوتے ہیں ان کو اگر دوسروں کی خاطر اپنی جگہ چھوڑ کر اگر جوتیوں میں بھی بیٹھنا پڑے تو وہ بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں- لیکن مامور زمانہ کی نظر اتنی قیافہ شناس ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہے اور پھر اس عاجزی کا بدلہ دینے کے لئے اور اپنی جماعت کو سمجھانے کے لئے کہ میری جماعت میں عاجز اور مسکین کا مقام ہی سب سے اعلیٰ ہے۔عاجز انسانوں کو وہاں سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں اورکھانے کے وقت بلا کر اپنے ساتھ اپنی پلیٹ میں کھانا کھلاتے ہیں-تو یہ قدر بھی انبیاء ان کی اس لئے کرتے ہیں کہ اس عاجزی کی وجہ سے ایسے لوگ دین کو جلد قبول کرتے ہیں اور دینی تعلیمات پہ مکمل طورپر عمل پیرا ہونے والے ہوتے ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں- فرمایا : مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس سعادت کا عشر عشیر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لو گ کامل طورپر حاصل کر لیتے ہیں-اس لئے آپ نے فرمایا تھاکہ جماعت میں شامل ہونے کے لئے عاجزی شرط ہے۔تاکہ دین کو صحیح طورپر سمجھ سکواور اس پر عمل کرسکو۔ اب یہ تبدیلیاں کس طرح ہوئیں اس کے چند نمونے مَیں پیش کرتاہوں-
حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آسودہ حال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس کے باوجود آپ کی پاکیزگی، انکسار اور سادگی قابل مثال تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دامن سے وابستہ ہو کر اور حضور کی غلامی کا جؤا گردن میں ڈال کر آپ نے دنیا طلبی کی خواہش ہی دل سے نکال دی۔مدرسہ احمدیہ کی ملازمت کا سارا عرصہ ایک مختصر سے مکان میں گزار دیا جو دراصل ایک چپڑاسی کے بھی لائق نہ تھا۔ جب حضور کے در کی غلامی کی خاطر دنیا بھرکو چھوڑ دیا تو دنیوی چیزوں کی راحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۹)
پھر یہاں دوبارہ مثال ہے مولوی برہان الدین صاحب کی، عاجزی کے بارہ میں- ایک دفعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خداجانے کہاں خیال پہنچا کہ رونا ہی شروع کر دیا- حضور نے بہت پیار سے پوچھا کہ مولوی صاحب خیر تو ہے؟ عرض کیا حضورپہلے میں کوٹھیٔ بنا، پھر بولیٔ بنا، پھر غزنی بنا، اب مرزائی بنا ہو ں- رونا تو اس بات کاہے کہ عمر اخیر ہوگئی اور مَیں جھڈّو کا جھڈّو ہی رہ گیا۔ یعنی پہلے مَیں نے کوٹھے والے پیر صاحب کی قدم بوسی حاصل کی۔اس کے بعد باؤلی صاحب والے بزرگ کی خدمت میں رہا۔اس کے بعد مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی خدمت میں پہنچا۔اب مَیں حضور کی خدمت میں آگیاہوں-رونا تو اس بات کاہے کہ مَیں وہی نالائق کا نالائق ہی رہا۔ (یہ عاجزی تھی ان کی )۔
اس پر حضور نے مولوی صاحب کو بہت محبت پیار کیا۔ اور تسلی دی۔ فرمایا : مولوی صاحب!گھبرائیں نہیں-جہاں آپ نے پہنچنا تھا وہاں آپ پہنچ گئے۔اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تب جاکر سکون اور قرار ہوا۔(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۱۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’حبی فی اللہ سید فضل شاہ صاحب لاہور ی اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں اور مال وجان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایا جاتا ہے وہ تہ دل سے سچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور للّہی تعلق اورحُب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اوریکرنگی اور وفاداری کی صفت ان میں صاف طورپر نمایاں ہے اور اُن کے برادر حقیقی ناصر شاہ بھی اس عاجز سے تعلق بیعت رکھتے ہیں اور ان کے ماموں منشی کرم الٰہی صاحب بھی اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں-(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۳۲)
پھر حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’حبی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے۔(ہمارے ملکوں میں پولیس کا محکمہ بہت بدنا م ہے۔اس لحاظ سے اگر اس پس منظر میں دیکھیں تو پھر سمجھ آتی ہے)۔کہ یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اول درجہ کے دوستوں میں سے ہے۔ ان کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں-کسی ابتلاء کے وقت مَیں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا۔ اورجس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے‘‘۔یعنی ترقی کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں-
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۳۶)
پھر اس میں تھا کہ’ تکبر سے پرہیز کریں گے‘۔ اس بارہ میں سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کی مثال دیتاہوں-
’’باوجود علم وفضل میں بہت بلند مقام رکھنے کے اس زمانہ کے دیگر نام نہاد علماء کے برعکس آپ کی طبیعت میں سادگی اور تواضع اس قدر تھی کہ اگر کسی وقت چھوٹے بچے نے بھی آپ سے بات کرنا چاہی تو بلاجھجک آپ سے ہمکلام ہو سکتاتھا۔ آپ بڑی محبت سے اس کی بات سنتے اور تسلی بخش طریق پر اس کے سوال کا جواب دیتے- تو مولوی محمد حفیظ بقاپوری اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہیں کہ اس عاجز کے کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں بچہ پیداہوا۔ خط کے ذریعہ ایسی اطلاع ملنے پر مَیں نے حضرت مولوی صاحبؓ سے نومولود کا نام تجویز کرانے کا ارادہ کیا۔آپ شاید مسجد اقصیٰ میں درس دینے کے لئے جا رہے تھے یاواپس تشریف لارہے تھے۔مَیں آگے بڑھا۔اس عاجز کو اپنی طرف آتا دیکھ کررُک گئے۔ بڑی محبت سے التفات فرمایا اورمیری درخواست پر نومولود کا نام تجویز فرما کر اس کے حق میں دعا فرمائی۔
(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۳۵)
پھر اس بارہ میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا ایک واقعہ ذکر کرتاہوں- پہلے بھی مثالوں سے ظاہر ہوگیا ہے آپ میں نام ونمود اور ریا جبر ظاہر داری وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر علمی گھمنڈ اور تکبر بھی ہرگز نہیں تھا باوجودیکہ بڑے عالم آدمی تھے۔ دوران قیام قادیان جب بھی کوئی کہتا’ مولوی صاحب‘ تو فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو۔مَیں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے۔ یعنی الف ب پڑھنی شروع کی ہے۔ (ماہنامہ انصاراللہ ربوہ ستمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۱۲)
پھرفروتنی اور عاجزی کا ایک اور نمونہ جو سب نمونوں سے بڑھ کر ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت صاحبزادہ سیّدعبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:بے نفسی اور انکسارمیں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پا سکتا۔ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتاہے۔اور اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگتاہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے۔( یعنی حق کو پہچاننے میں روک بنتی ہے)۔مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھاکہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے میں اس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی۔ اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کاہے۔ ( تذکرۃالشہادتین۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۷)
پھردین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے آٹھویں شرط میں یہ ہے کہ اپنی جان،مال،عزت ہر چیزکو قربان کرے گا۔ اور جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کو دنیا پرمقدم کرنے کے نظارے ہمیں نظر آتے رہتے ہیں-مائیں اپنے بچے پیش کرتی ہیں ، باپ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر لا رہے ہوتے ہیں کہ یہ اب جماعت کا ہے اورجہاں چاہے جماعت اس کی قربانی لے لے۔ بچے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کررہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی حضرت اسماعیل کی طرح اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں- اور یہ نظارے پہلے بھی تھے اور اب بھی قائم ہیں اس کی ایک مثال دیتاہوں-
۱۹۲۳ء میں ہندوؤں نے شدھی تحریک شروع کی تو اس کے خلاف احمدیہ جماعت کی کوششوں میں بچے بھی بڑوں سے پیچھے نہیں رہے۔ پانچ سالہ بچے بھی ملکانہ کے علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ایک بارہ سالہ بچے نے اپنے والد کو لکھا کہ دین حق کی خدمت کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے۔اس لئے جب آپ دعوت الی اللہ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں-
(تاریخ احمدیت جلد نمبر۵صفحہ۳۳۶)
تو یہ باتیں جیساکہ مَیں نے پہلے کہا کوئی پرانے قصے ہی نہیں اب بھی یہ نظارے نظر آتے ہیں اور آج بھی واقفین نوبچے جب مجھے ملنے آتے ہیں اس ماحول میں بھی جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ بڑے ہو کرکیاکرناہے، کیا بنناہے۔یہی جوا ب ان کا ہوتاہے کہ جو آپ کہیں گے ہم وہی بننے کی کوشش کریں گے۔ اور جماعت بتائے کہ ہم نے کیاکرناہے۔ یہ جذبہ ہے احمدی بچے کا۔ اور جب تک یہ جذبہ قائم رہے گا اور انشاء اللہ قیامت تک یہ جذبہ قائم رہے گا۔تو جماعت کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیاہے اور اپنے ہم وطنوں سے ہجر ت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آ کر آباد ہوئے ہیں-
(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۱۳۰)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’حبی فی اللہ مولوی حکیم نوردین صاحب بھیروی۔ …ان کے ما ل سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے مَیں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پربیان کر سکوں- مَیں نے ان کو طبعی طورپر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا ہے۔ اگرچہ ان کی روزمرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے‘‘۔(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۲۰)
پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں :’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کے عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑی تھی اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں میں ان کو ایک نوکری دو سو روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاردی۔ صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کر دی۔ باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔(سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ صفحہ ۱۰۸)
حضرت نوا ب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے بھائی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:’’جن امور کے لئے مَیں نے قادیان میں سکونت اختیار کی مَیں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بار ہ سال ہوگئے اور مَیں اپنی شومئی طالع سے گیارہ سال گھر میں ہی رہتاتھا اور قادیان سے مہجور تھا صرف چند دنوں گاہ گاہ یہاں آتارہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی اپنی عمر ضائع کی۔ آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا۔
یہا ں مَیں چھ ماہ کے ا رادہ سے آیا تھا (یعنی قادیان )مگر یہاں آ کر مَیں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتاہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہوجاتاہے اور مَیں نے خوب غور کیا تو مَیں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ مَیں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا۔ اور دن بدن ہم باوجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں-آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نہ کرد، کوٹلہ کو الوداع کہا اور مَیں نے مصمم ارادہ کر لیاکہ مَیں ہجرت کرلوں-سو الحمدللہ مَیں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتاہوں کہ مَیں نے کوٹلہ سے ہجرت کرلی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آسکتا۔ یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا۔ ویسے مسافرانہ وہ آئے تو آئے۔ پس اس حالت میں میراآنامحال ہے۔مَیں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں- ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں ……۔
میرے پیارے بزرگ بھائی مَیں یہاں خدا کے لئے آیاہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا ہی کے لئے ہے۔ مَیں کوٹلہ سے الگ ہوں- مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتاہے۔خداوندتعالیٰ آپ کو ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو۔ ہم خداوند تعالیٰ کے پورے فرمانبردار مسلم بن جائیں- … ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکرگزار ہوں ، اس کی پوری اطاعت کریں- یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتاہے اسی قدر دنیا ہیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اوردین مقدم ہوتا جاتاہے۔ خداوند تعالیٰ اور انسان کے احسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتاہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اورشکرگزاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے۔ (اصحاب احمد جلد ۲ صفحہ ۱۲۶تا ۱۲۹)
پھر حکیم فضل دین صاحب کانمونہ ہمدردی ٔاسلام کے بارہ میں-حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’حبی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے دوستوں میں سے اور ا ن کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں- مَیں جانتاہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حُبّ لِلّٰہ کی شرط کو بجا لارہے ہیں-معلوم ہوتاہے کہ انہیں دین اسلام کی حقانیت کے پھیلانے میں اُسی عشق کا وافر حصہ ملاہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین صاحب کو دیا گیاہے۔ وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پرکوئی ان کو احسن انتظام ہو جائے‘‘۔(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۲۲)
جب۱۹۲۳ء میں کارزار شدھی گرم کیا گیا تو احمدی ’’مربیان‘‘ کا یہ حال تھا کہ وہ تیز چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کرتے۔بعض اوقات کھانا توکیاپانی بھی نہیں ملتا تھا۔ اکثر اوقات کچا پکا باسی کھانا کھاتے یا بھنے ہوئے چنے کھا لیتے اور پانی پی کر گزارہ کرتے۔بعض اوقات ستو رکھے ہوئے ہوتے تھے۔اور انہیں پر گزارہ کرتے۔صوفی عبدالقدیر صاحب کہتے ہیں کہ سولہ میل روزانہ کی اوسط سے چالیس دیہاتوں کے مابین سفر کرتے رہے۔ (تاریخ احمدیت جلد نمبر ۴ص (۳۵۴
امریکہ میں ایک صاحب احمدی ہوئے جو بہت بڑے موسیقار تھے اور اپنے وقت میں اس تیزی کے ساتھ میوزک میں ترقی کر رہے تھے کہ بہت جلد انہوں نے امریکہ کی سطح پر شہرت حاصل کرلی اور ان کے متعلق ماہرین کا خیال تھا کہ یہ ایسے عظیم الشان میوزیشن بنیں گے کہ گویا ان کو یاد کیا جائے گا کہ یہ اپنے زمانے کے بہت بڑے میوزیشن تھے۔ احمدی ہوئے تو نہ میوزک کی پرواہ کی۔ نہ میوزک کے ذریعے آنے والی دولت کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھا سب کچھ یک قلم منطقع کردیا اور اب وہ درویشانہ زندگی گزارتے ہیں اور با قا عدگی کے ساتھ نماز تہجد ادا کرتے ہیں-آنحضرتؐ کا نام لیتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں-(ماہنامہ خالد۔ جنوری ۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں اپنی خلافت سے پہلے کاواقعہ لکھتے ہیں کہ:’’مَیں یہاں کس لئے آیاہوں-دیکھو بھیرہ میں میرا پختہ مکان ہے اور یہاں مَیں نے کچے مکان بنوائے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی مگر مَیں نے دیکھا کہ مَیں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں ، محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں ، لاچار ہوں اور بہت لاچار ہوں- پس مَیں اپنے ان دکھوں کے دور کرنے کے لئے یہاں آیاہوں-اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتاہے کہ وہ میرا نمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی نظر دھوکہ کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتاہے۔ یہاں کی دوستی اور تعلقات، یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بودوباش سب کچھ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے ماتحت ہونی چاہئے۔ورنہ اگر روٹیوں اور چارپائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا تم میں سے اکثر کے گھر میں ایسی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیاہے؟۔ تم اس اقرار کے قائل اسی وقت ہو سکتے ہو جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍جنوری ۱۹۰۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں کہ :
’’اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پرمقدم رکھتاتھا۔ اور درحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈرکر اپنے تقویٰ اور اطاعت الٰہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں- اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں- اس کی ا یمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتاہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔ اکثر لوگ باوجود …بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتاہے۔اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ مَیں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتارہتاہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے۔ اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کراپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں- لیکن مَیں کن ا لفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے۔ اکثر لوگوں کو مَیں دیکھتاہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اورادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں- مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل مَیں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نور یقین میں دم بدم ترقی کرتا گیا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۰)
پھر آپ نے فرمایا:’’ شہید مرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور در حقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی- اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنیٰ خدمت بجا لاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے- اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے- حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی- بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے- اور جس قوت ایمان اور انتہا درجہ کے صدق و صفا کا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے- اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے- خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی- لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا- اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے طیار ہیں- لیکن جس نمونہ کو اس جواں مرد نے ظاہر کر دیا- اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں- خدا سب کو وہ ایمان سکھاوے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے- یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کیساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے- اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۷۔۵۸)
پھر آپ فرماتے ہیں :-
’’شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہوچکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے۔

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَایَحْيٰ (سورۃ طٰہٰ:۷۵)

افسوس کہ یہ امیر زیر آیت

مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا (النساء :۹۴)

داخل ہوگیا۔ اور ایک ذرہ خداتعالیٰ کا خوف نہ کیا۔ اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اُس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنالاحاصل ہے۔ ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں- جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں- اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اے عبداللطیف تیرے پرہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا۔ اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے۔ مَیں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے۔‘‘(تذکرۃ الشھادتین۔روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ۶۰)
پھر فرماتے ہیں :’’جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کرگئے اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتاہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودا ہوں-‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۷۵)
آج سے ٹھیک سو سال پہلے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو شہید کیا گیاتھا۔
اے مسیح آخرالزمان ! آپ کومبارک ہو کہ آپ کی پیاری جماعت نے آپ کی اپنی جماعت سے امیدوں کو پورا کیا۔آپ کو جو امیدیں اپنی جماعت سے تھیں ان کو پورا کیا۔اور مال،وقت اور جان کی قربانی میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اور اس کے نظارے ہمیں آج بھی نظر آرہے ہیں- آپ کے بعد بھی جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوئے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو فکر تھی کہ پتہ نہیں میرے بعد کیاہو۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے بعد بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں جنہوں نے دنیاوی لالچوں کی پروا نہیں کی اور اپنی جانیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔باپ نے بیٹے کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا اور بیٹے نے باپ کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا لیکن پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔اور پھر خود بھی جان قربان کردی۔
اے مسیح پاک آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی نسل میں سے بھی، آپ کے خون میں بھی جان کی قربانی دیتے ہوئے جماعت کو بہت بڑے فتنہ سے بچالیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات کو بلند کرتا چلاجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں اوراپنی نسلوں میں بھی یہ جذبہ زندہ رکھیں ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں یہ توفیق دیتا رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں