خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 3؍مارچ 2006ء

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جہاد کو منسوخ کرنے، اسلامی احکامات کو تبدیل کرنے اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات اور آپؐ کے عہد کے خاتمہ کا الزام سراسر تہمت اور انتہائی گھناؤنا الزام ہے۔
ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسولﷺ ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں۔
ڈنمارک کے اخبار میں آنحضرتﷺ کی توہین پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کے حوالہ سے روزنامہ جنگ میں جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹی اور خلاف حقیقت خبر کی ا شاعت محض شرارت اور شرانگیزی ہے۔
ایسی جھوٹی خبر پھیلانے والے کے متعلق مَیں یہی کہتاہوں کہ
لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
اللہ تعالیٰ اب ان بدفطرتوں کو عبرت کا نشان بنادے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 03؍مارچ 2006ء (03؍ امان 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

کل لندن سے شائع ہونے والے جنگ اخبار نے ایک ایسی خبر شائع کی ہے جس کا جماعت احمدیہ کے عقائد سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور خالصتاً شرارت سے یہ خبر شائع کی گئی ہے۔ نہ صرف عقائد کے خلاف ہے بلکہ جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ خبر شائد یہاں کے حوالے سے پاکستان وغیرہ میں بھی چھپی ہو گی، کل نہیں تو آج چھپ گئی ہو گی، کیونکہ یہ اخبار اپنی بِکری بڑھانے کے لئے ایسی خبریں شائع کرنے میں بڑی جلدی کرتے ہیں۔ سرکولیشن بڑھانے کے لئے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنے اور جھوٹ کے پلندے شائع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کا جو پاکستان کا ایڈیشن ہے اس کے بارے میں ہم سب کو پتہ ہے، سب کے علم میں ہے کہ آئے دن ہمارے بارہ میں ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں میں ڈنمارک کے اخبار میں جولغو اور بیہودہ خاکے بنائے گئے تھے اور پھر دوسری دنیامیں بھی بنائے تھے، ان کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک انتہائی غم و غصے کی لہر پیدا ہوئی ہوئی ہے۔ ہڑتالیں ہو رہی ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں۔بہرحال جو بھی غصے کا اظہار ہے، جب اس کوکوئی سنبھالنے والا نہ ہو، اس بہاؤ کو کوئی روکنے والا نہ ہو، اس کو صحیح سمت دینے والا نہ ہو تو پھر اسی طرح ہی ردّ عمل ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان جیسا بھی ہو، نمازیں پڑھنے والا ہے یا نہیں، اعمال بجا لانے والا ہے یا نہیں لیکن ناموس رسالت کا سوال آتا ہے تو بڑی غیرت رکھنے والا ہے، مر مٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ان حالات میں اس خبر کو شائع کرنا اور پھر کل جمعرات کے دن شائع کرنا جبکہ آج جمعہ کے روز اکثر جگہوں پر پھر جلوس نکالنے اور ہڑتالیں کرنے اور اس طرح کے کے ردّ عمل کا پروگرام ہے تو یہ چیز خالصتاً اس لئے کی گئی تھی کہ احمدیوں کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ انتہائی ظالمانہ اور فتنہ پردازی کی کوشش ہے تاکہ اس خبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم علم مسلمانوں کو بھڑکا کر احمدیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جائے۔ بہرحال یہ ان کی کوششیں ہیں کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے جب احمدیوں کے خلاف لاعلم، کم علم مسلمانوں کو بھڑکایا نہ جائے۔
آپ میں سے کئی لوگوں نے یہ خبر پڑھی ہو گی لیکن چونکہ سب پڑھتے نہیں ہیں اس لئے مَیں یہ خبر پڑھ دیتا ہوں۔
کوپن ہیگن کے حوالے سے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے۔ان کے رپورٹر ہیں ڈاکٹر جاوید کنول صاحب، وہ کہتے ہیں کہ ’’ڈنمارک کے خفیہ ادارے کے ایک ذمہ دار افسر نے اپنا نام اور عہدہ صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر کارٹون ایشو پر گفتگو کرتے ہوئے جنگ اخبار کو بتایا کہ ستمبر 2005ء میں قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ڈنمارک میں ہوا جس میں قادیانیوں کے مرکزی ذمہ داران نے شرکت کی، اس موقع پر قادیانیوں کے ایک وفد نے ایک ڈینش وزیر سے ملاقات کے دوران جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے علمبردار ہیں‘‘۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، ہم نے انہیں خاص طور پر تو نہیں بتایا مگر ہمارا دعویٰ یہی ہے کہ جماعت احمدیہ ہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کی علمبردار ہے۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’ان کے نبی مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے‘۔ٹھیک ہے لیکن شرائط کے ساتھ منسوخ قرار دے دیا ہے۔
پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلامی احکامات (نعوذ باللہ) تبدیل کر دئیے ہیں‘۔ یہ سراسر اتہام اور الزام ہے۔’اس لئے‘ (آگے ذرا دیکھیں اس کی شرارت) کہ’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کا عہد ختم ہو چکا ہے‘۔
نعوذ باللہ۔ اخبار لکھتا ہے کہ قادیانیوں کی اس یقین دہانی پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار صرف سعودی عرب تک محدود ہیں، 30 ؍ستمبر کو ڈینش اخبار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے 12کارٹون شائع کئے جن کا مرکزی نکتہ فلسفہ جہاد پر حملہ کرنا تھا۔ اعلیٰ ڈینش افسر نے کہا کہ ہمیں جنوری کے آغاز تک اس بات کا یقین تھا کہ قادیانیوں کا دعویٰ سچا تھا کیونکہ جنوری تک سوائے سعودی عرب کے کسی اسلامی ملک نے ہم سے باقاعدہ احتجاج نہیں کیا تھا۔ او آئی سی کی خاموشی ہمارے یقین کو پختہ کر رہی تھی۔ اس ذمہ دار افسر نے اس نمائندے کو اس ملاقات کی ویڈیو ٹیپ بھی سنائی۔ جس میں ڈینش اردو اور انگریزی زبان میں گفتگو ریکارڈ تھی۔ (روزنامہ جنگ لندن، 02؍مارچ 2006ء صفحہ1و 3)
گویا اس سے باتیں تینوں زبانوں میں ہو رہی تھیں۔
جھوٹ کے تو کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ ایسی بے بنیاد خبر ہے کہ انتہا ہی نہیں ہے، یہ ڈاکٹر جاوید کنول صاحب شاید جنگ کے کوئی خاص نمائندے ہیں۔ پہلے تو خیال تھا کہ ڈنمارک میں ہے لیکن اب پتہ لگا ہے کہ یہ صاحب اٹلی میں ہیں اور وہاں سے جنگ کی اور جیو کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور قانوناً یہ ویسے بھی جو ابھی تک مجھے پتہ لگا ہے کہ ڈنمارک کے حوالے سے یہ خبر کسی اخبار میں نہیں دے سکتے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ الزام لگایا ہے کہ جماعت کا ستمبر میں جلسہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کا گزشتہ سال کا جلسہ ستمبر میں تو وہاں ہوا ہی نہیں تھا۔ میرے جانے کی وجہ سے سکنڈے نیوین ممالک کا اکٹھا جلسہ ہوا تھا اور وہ سویڈن میں ہوا تھا۔ اور ایم ٹی اے پر ساروں نے دیکھا کہ کیا ہم نے باتیں کیں اور کیا نہیں کیں۔
ڈنمارک میں میرے جانے پر ایک ہوٹل میں ایک ریسیپشن (Reception) ہوئی تھی جس میں کچھ اخباری نمائندے، پریس کے نمائندے بھی تھے اور دوسرے پڑھے لکھے دوست بھی اس میں تھے۔ سرکاری افسران بھی تھے، ایک وزیر صاحبہ بھی آئی ہوئی تھیں اور وہاں قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کا ذکر ہوا تھا۔ اور جو کچھ بھی وہاں کہا گیا تھا وہ صاف تھا، کھلا تھا۔ کوئی چھپ کے بات نہیں ہوئی تھی۔ اور اخباروں نے وہاں شائع بھی کیا تھا بلکہ تھوڑا سا ان کے ٹی وی پروگرام میں بھی آیا تھا۔ اور کوئی علیحدہ ملاقات نہیں تھی اور وہی جو ریسیپشن میں میری تقریر تھی میرے خیال میں ایم ٹی اے نے بھی دکھا دی ہے، نہیں دکھائی تو اب دکھا دیں۔
بہرحال یہ ٹھیک ہے کہ شاید وہاں تقریرمیں ہی ان لکھنے والے صاحب کی طرح لوگوں کاذکر ہوا ہو کہ یہ چند لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں ورنہ مسلمان اکثریت اس طرح کے جہاد اور دہشت گرد ی کو ناپسند کرتی ہے۔ بہرحال ہماری طرف منسوب کرکے بہت بڑا جھوٹ بولا گیا ہے۔ شاید کوئی جھوٹا ترین شخص بھی یہ بات کہتے ہوئے کچھ سوچے کیونکہ آج کل تو ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے۔ اور ان صاحب کے بقول اردو انگریزی اور ڈینش میں ویڈیو ٹیپ بھی موجود ہیں۔ تو اگر سچے ہیں تو یہ ٹیپیں دکھا دیں، ہمیں بھی دکھا دیں۔ پتہ چل جائے گا کہ کون بولنے والے ہیں، کیا ہیں۔
بہرحال اس جھوٹی خبر پھیلانے والے کو پہلی بات تو مَیں یہ ہی کہتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور

لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔

اگر تم سچے ہو تو تم بھی یہی الفاظ دوہرادو۔ لیکن کبھی بھی نہیں دوہرا سکتے اگر رتی بھر بھی اللہ کا خوف ہوگا۔ ویسے تو ان لوگوں میں خدا کا خوف کم ہی ہے۔ لیکن اگر نہیں بھی دوہراتے تب بھی اس شدت کا جھوٹ بول کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس دعا کے نیچے یہ لوگ آچکے ہیں۔ بہرحال جماعت احمدیہ کے خلاف ایسی مذموم حرکتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور مسلسل ہو رہی ہیں۔ اور جب بھی اپنے زعم میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ناکامی کا منہ دکھاتا ہے اور جماعت احمدیہ سے اپنے پیار کا وہ اظہار کرتا ہے جوپہلے سے بڑھ کر اس کافضل لے کر آتا ہے۔
جب سے یہ کارٹون کا فتنہ اٹھا ہے سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے یہ بات اٹھائی تھی اور اس اخبار کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ پھر دسمبر، جنوری میں ہم نے دوبارہ ان اخباروں کو لکھا تھا اور بڑا کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا ان دنوں میں مَیں قادیان میں تھا جب ہمارے مبلغ نے وہاں اخبار کو لکھا تھا۔ ہمارے مبلغ کا اخبار میں انٹرویو شائع ہوا تھا۔ تو اس اخبارنے یہ لکھنے کے بعد کہ جماعت احمدیہ کا ردّ عمل اس بارے میں کیا ہے اور یہ لوگ توڑ پھوڑ کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنی زندگی میں ڈھال کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آگے وہ لکھتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں (امام صاحب کا انٹرویو تھانا) کہ امام کو ان کارٹونوں سے تکلیف نہیں پہنچی بلکہ ان کا دل کارٹونوں کے زخم سے چُور ہے۔ بلکہ اس تکلیف نے انہیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ فوری طورپر ان کارٹونوں کے بارے میں ایک مضمون لکھیں چنانچہ انہوں نے وہ مضمون لکھا اور وہاں ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہوا۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہی ہے جس نے جماعت میں بھی ا س محبت کی اس قدر آگ لگا دی ہے کہ یورپ میں عیسائیت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں آنے والے یورپین باشندے بھی اس عشق و محبت سے سرشارہیں۔
چنانچہ ڈنمارک کے ہمارے ایک احمدی مسلمان عبدالسلام میڈسن صاحب کا انٹرویو بھی اخبارVenster Bladet نے 16؍فروری 2006ء کو شائع کیا ہے۔ایک لمبا انٹرویو ہے۔ اس کا کچھ حصہ میں آپ کو سناتا ہوں۔
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میڈسن صاحب نے مزید کہا کہ ڈنمارک کے وزیراعظم کو مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کرنی چاہئے تھی کیونکہ لوگ ان خاکوں کو دیکھ کر غصہ میں آتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم تھا اور اس کے کیا نتائج پیدا ہو سکتے تھے۔ اور یہ جو ردّ عمل سامنے آیا ہے یہ بالکل وہی ہے جو میں ان خاکوں کی اشاعت پر محسوس کر رہا تھا کہ ردّ عمل ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لئے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں مثال ہیں۔جب ایسی ذات پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو یہ ہر ایک مسلمان کے لئے تکلیف دہ امر ہے۔ اور وہ اس پر دکھ محسوس کرتا ہے۔
عبدالسلام میڈسن صاحب یہ کہتے ہیں کہ یولنڈ پوسٹن جوو ہاں کا اخبار تھا اس کو ان خاکوں کی اشاعت سے کیا حاصل ہوا ہے۔ پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ میڈسن صاحب کو بھی اس امر کی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کئے گئے ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ میڈسن صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کے بارے میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے کہ ان کا حلیہ مبارک کیا تھا، کیسا تھا۔ پھر انہوں نے لکھا کہ یہ ایک گندی بچگانہ حرکت ہے۔
پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ڈنمارک میں قانون توہین موجود ہے، پہلے میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی مگر اب میرے خیال میں فساد کو روکنے کے لئے اس قانون کو اپلائی (Apply) کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فساد نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تو خداتعالیٰ کا معاملہ ہے وہ خود ہی اس کی سزا دے گا۔ تو یہ دیکھیں ایک یورپین احمدی مسلمان کا کتنا پکا ایمان ہے۔
توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس گھناؤنی حرکت کرنے پر یہ ہمارے ردّعمل تھے۔
ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے ہے جس کی تصویرکشی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے۔ جس کو خوبصورت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں دکھایا ہے۔ کوئی بھی احمدی کبھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں یہ حال تھاکہ حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ کر آپؑ کی آنکھیں آنسو بہایا کرتی تھیں۔وہ شعر یہ ہے کہ ؎

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآء بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

تُوتو میری آنکھ کی پتلی تھا جو تیرے وفات پا جانے کے بعد اندھی ہو گئی۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا خوف تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ کاش یہ شعر مَیں نے کہا ہوتا۔ تو ایسے شخص کے متعلق کہنا کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتا ہے یا اس کے ماننے والے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقام دیتے ہیں۔ بہت گھناؤنا الزام ہے۔ ہمیں توقدم قدم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہونے کے نظارے آپؑ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ ؎

اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

تو جو اپنا سب کچھ اس نور پر فدا کر رہاہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اب نہیں رہا اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقام زیادہ اونچا ہو گیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام آخری نبی ہیں اور پھر یہ کہ ہم نے ان کو یہ کہہ دیا کہ ٹھیک ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ آخری نبی ہیں اب ہم اخبار کوکھلی چھٹی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناؤ۔

اِنّا لِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔

انتہائی بچگانہ بات ہے کہ ہمارے کہنے پر، صرف اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ ہم اجازت دیں اور وہ کارٹون شائع کر دیں جن کی ڈنمارک میں تعداد ہی چند سو ہے۔خبرلگاتے ہوئے یہ اُردو اخبار کچھ آگے پیچھے بھی غور کر لیاکرے۔
ڈنمارک کی حکومت بیچاری تو شاید اتنی عقل سے عاری نہ ہو لیکن یہ خبر لکھنے والے اور شائع کرنے والے بہرحال عقل سے عاری لگتے ہیں۔ اور سوائے اِن کے دلوں میں فتنے کے کچھ نظر نہیں آتا۔ سوائے مسلمانوں کو انگیخت کرنے کے، بھڑکانے کے کوئی اس خبر کا مقصد نظر نہیں آتا کہ اس نام پر مسلمان جوش میں آ جاتے ہیں۔ اس لئے جن مسلمان ملکوں میں ،بنگلہ دیش میں، انڈونیشیا میں یا پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فضا ہے وہاں اور فساد پیدا کیا جائے۔ اور کوئی بعید نہیں ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر نے اس بہانے ان ملکوں میں یہ تحریک شروع کی ہو کہ حکومتوں کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ کیونکہ ہم نے ابھی تک عموماً یہی دیکھا ہے کہ احمدیوں کے خلاف چلی ہوئی تحریک آخر میں حکومتوں کے خلاف اُلٹ جاتی ہے۔ اس لئے ان ملکوں کی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہئے اور مفاد پرست مُلّاں یا ان عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے۔ جہاں تک ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جوشعر پڑھے تھے اس سے ہم نے دیکھ لیا، کچھ اندازہ ہو گیا اور ہر احمدی کے دل میں جو مقام ہے وہ ہر احمدی جانتا ہے۔ گزشتہ خطبات میں مَیں اس کاذکر بھی کر چکا ہوں۔ اس تعلق میں خطبات دے چکاہوں۔ تکلیف کا اظہار ہم کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ تمام دنیا میں ہماری طرف سے احتجاجی بیان بھی شائع ہوئے ہیں، پریس ریلیز بھی شائع ہوئی ہیں۔ اور یہ سب بیان ہم نے کوئی کسی کو دکھانے کے لئے یا کسی کی خاطر یا مسلمانوں کے خوف یا ڈر کی وجہ سے نہیں دئیے۔ بلکہ یہ ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق توڑکرہماری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند حوالے میں پڑھوں گا۔اس سے بات مزید کھولتا ہوں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

ہمارا عتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے‘‘۔ یعنی کہ اسی ایمان کے ساتھ ہم اس دنیا سے جائیں گے۔ ’’یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کرکے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 170-169)
تو یہ ہے ہمارے ایمان کا حصہ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ تو جس کا یہ ایمان ہو اس کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کے واسطے کے بغیر وہ خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے یا نبوت مل گئی۔
پھرآپؑ فرماتے ہیں :’’صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اوراب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں جن کی پیروی سے خدا ئے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے، اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3روحانی خزائن جلد 1صفحہ558-557)
یعنی کہ اب جو کچھ بھی ملنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملنا ہے۔ اور آپؐ پر ہی نبوت کامل ہوتی ہے آپؐ کی تعلیم سے ہی جو اندھیرے ہیں وہ دُور ہوتے ہیں اور روشنی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی اسی سے ملنا ہے۔ حقیقی نجات بھی اسی سے ملنی ہے اور دل کی گندگیاں اسی سے صاف ہونی ہیں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپؑ کے ظہور سے وہ تاریکی نُور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے، آپؐ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کاجامہ نہ پہن لیا۔ اور نہ صرف ا س قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جن کی نظیر دنیاکے کسی حصے میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانے میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا۔ اور پھر آپؐ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی آداب سکھلائے ‘‘۔جو وحشی قوم تھی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے تھے ان کو انسانی آداب سکھلائے۔
’’یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا‘‘ یعنی جانور کو انسان بنایا ’’اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعے اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی۔ اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانے کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت پر آپ پر ختم ہو گئے۔ اور چونکہ آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپؐ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی۔ اور آپؐ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں۔ اور آپؐ کی نبوت عامہ کا کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتداء سے تمام دنیا کے لئے ہے‘‘۔(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ207-206)
یہ ہے جماعت احمدیہ کی تعلیم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان آج تک قائم ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت، نئی کتاب نہ آئے گی، نئے احکام نہ آئیں گے‘‘۔ اور یہ کہتے ہیں کہ نئی شریعت لے آئے اور مرزا غلام احمد کو بالا سمجھتے ہیں۔
’’ یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے۔ جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الٰہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے‘‘۔ یعنی اس سے بولتا ہے۔’’اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پرنبی کا لفظ بولا جاتا ہے‘‘۔ جس سے بھی زیادہ تر اللہ تعالیٰ بولے گا، کلام کرے گا اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے۔’’ اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے‘‘۔ یہ الزم ہم پر لگا رہے ہیں۔’’ بلکہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں ‘‘۔(الحکم 10؍جنوری 1904ء صفحہ2)
پس جب دعویٰ کرنے و الا دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ میں سب کچھ اس سے حاصل کر رہا ہوں اور اس کے بغیر کچھ بھی مل نہیں سکتا۔ اور اس کے ماننے والے بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاغلام صادق ہے توپھر افتراء اور جھوٹ پر مبنی باتیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی جائے۔ اور ایسے لوگ ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں۔ فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ شیطانی قوتوں کو (شیطان تو ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے) حسد کی آگ ان کو جلاتی رہتی ہے۔ یہ جماعت کی ترقی دیکھ نہیں سکتے ان کی آنکھوں میں جماعت کی ترقی کھٹکتی ہے۔ اور چاہے یہ جتنی مرضی گھٹیا حرکتیں کر لیں پہلے بھی یہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی شاید کرتے رہیں گے اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، شیطان نے تو قائم رہنا ہے یہ ترقی ان کی گھٹیا حرکتوں سے رکنے والی نہیں ہے۔ انشاء اللہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ:
’’ وہ اعلیٰ درجہ کانور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملا ئک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا‘‘۔ نہ زمینی چیز میں تھا اور نہ آسمان میں تھا۔ ’’صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں ‘‘۔ ان ماننے والوں کو جتنا جتنا کسی کا ایمان تھا اس کے مطابق دیا گیا۔ ’’اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی اور جسمانی ہیں جوخداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے‘‘۔ کہ تمام جو انسان کے حصے ہیں عقل ہے، علم ہے اور دوسرے حواس ہیں ان کی جو اعلیٰ طاقت ہے، اعلیٰ معیار ہے وہ انسان کامل کو ملا۔ ’’اور پھر انسان کامل بر طبق آیت

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْاالْا َمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا۔ (سورۃ النساء آیت 59:)۔‘‘

یعنی اس انسان کامل نے اس آیت کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔’’ اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔
اور فرماتے ہیں کہ :’’…… یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی نبی امی، صادق و مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ162-160)
پس یہ لوگ جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق سمجھتے ہیں اور ہم پرالزام لگاتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان سے بالا سمجھتے ہیں۔ یہ بتائیں،ان کے تو مقصدہی صرف یہ ہیں کہ ذاتی مفاد حاصل کئے جائیں ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یہ اپنے علماء میں سے کسی ایک کے منہ سے بھی اس شان کیا، اس شان کے لاکھویں حصے کے برابر بھی کوئی الفاظ ادا کئے ہوئے دکھا سکیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے ہیں۔ یہ اس عاشق صادق کے الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے بارے میں جسے تم لوگ جھوٹا کہتے ہو۔ اس شخص کی تو ہر حرکت و سکون اپنے آقا ومطاع حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھا۔ یہ گہرائی یہ فہم، یہ ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کبھی کہیں اپنے لٹریچر میں تو دکھاؤ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کیا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور جماعت کی ہمیشہ یہی تعلیم ہے اور اس پر چلتی ہے کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے برداشت کرلیتے ہیں۔
آپؑ فرمایا کہ:’’ ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے۔ مگر جولوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کرہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پرجو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘۔ (پیغا م صلح،روحانی خزائن جلد 23صفحہ459)
تو یہ ہے ہماری تعلیم۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دی ہوئی تعلیم ہے اور یہ ہے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی بھڑکائی ہوئی آگ اور اس کا صحیح فہم ا ور ادراک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دیا۔ اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ نعوذ باللہ خاکے بنانے کے سلسلے میں اخبار اور حکومت ڈنمارک کو احمدیوں نے Encourage کیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے خاکے شائع کئے۔ تو ان لوگوں پرسوائے اللہ تعالیٰ کی لعنت کے اور کچھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
اب دوسری بات یہ ہے کہ جہاد کو منسوخ کر دیا ہے۔ اُس نے پہلی بات یہ لکھی ہے لیکن اہم وہ بات تھی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ نبی نہیں مانتے یا ان کی تعلیم اب منسوخ ہو گئی ہے۔ دوسری بات اس نے جہاد کی منسوخی کی لکھی ہے اس بارے میں مسلمانوں کے اپنے لیڈر گزشتہ دنوں میں جب اُن پر پڑی ہے اور جن طاقتوں کے یہ طفیلی ہیں اور جن سے لے کر کھاتے ہیں انہوں نے جب ان کو دبایا تو انہیں کے کہنے پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ جو آج کل جہاد کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ کہ بعض مسلمان تنظیمیں آئے دن حرکتیں کرتی رہتی ہیں یہ جہاد نہیں ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اخباروں میں ان لوگوں کے بیان چھپ چکے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا تو پہلے دن سے ہی یہ مؤقف ہے اور یہ نظریہ ہے اور یہ تعلیم ہے کہ فی زمانہ ان حالات میں جہاد بند ہے اور یہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے۔ اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے۔ مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے۔ او رمسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے اور مساجد میں بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے ‘‘۔ (حوالہ)
یعنی اذان دینے سے کون منع کرتا ہے۔ صرف پاکستان میں احمدیوں کو ہی منع کیا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود ہم خاموش ہیں، ہم نے تو کوئی شور نہیں مچایا۔ بغیر اذان کے نماز پڑھ لیتے ہیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود ہے کہ یَضَعُ الْحَرْب یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا۔ تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اصح الکتب ہے، اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں جو صریح بخاری کی حدیث کی منافی پڑی ہے‘‘۔(حوالہ)
پس یہ جماعت احمدیہ کا نظریہ ہے اور قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ اور ببانگ دہل کھلے طورپر ہم یہ اعلان کرتے ہیں،کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اب یہ لوگ جو جہاد جہاد کرتے پھر رہے ہیں جس کی آڑ میں سوائے دہشت گردی کے کچھ نہیں ہوتا یہ جہاد نہیں ہے اور سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
ابھی کل ہی کراچی میں جو خود کش حملہ ہوا ہے یہی لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ پھر ایسے حملے میں اپنے ملک کی معصوم جانیں بھی یہ لوگ لے لیتے ہیں۔ یہ غلط حرکتیں کرکے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے انکاری تو یہ لوگ خود ہو رہے ہیں۔ احمد ی تو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچانے کا جہاد کر رہے ہیں۔ کون ہے ان لوگوں میں سے جو اسلام کے پیغام کو اس طرح دنیا کے کونے کونے میں پہنچا رہا ہو۔ ہاں تمہاری اس دہشت گردی اور اسلام کو بدنام کرنے والی جو جہادی کوششیں ہیں ان میں احمدی نہ کبھی پہلے شامل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں گے۔ بہرحال یہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں ہیں، ہوتی رہی ہیں۔
تو اس اخبار کو بھی میں کہتا ہوں، ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو، پاکستان کی طرح کہ اگرمُلّاں کی مرضی ہو گی یا ان کی مرضی ہو گی قانون پہ عملدرآمد ہو جائے گا اور انصاف نہیں ہو گا۔ بہرحال کچھ نہ کچھ حد تک ان لوگوں میں انصاف ہے۔ ہم سارے کوائف اکٹھے کر رہے ہیں، رپورٹس منگوا رہے ہیں۔ یہ خبر دے کر اس افسر کے حوالے سے کہ ڈنمارک کے افسر نے کہا ہے کہ احمدیوں کی یقین دہانی پر کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم منسوخ ہو گئی ہے ہم نے یہ کارٹون شائع کئے تھے گویا ڈنمارک کی حکومت پر بھی اس سے الزام ثابت ہو رہا ہے کہ وہاں کی حکومت بھی اس کام میں ملوث ہے۔جبکہ وہاں کے وزیراعظم شور مچا رہے ہیں، کئی دفعہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ اخبار کا کام ہے ہم اس کو ناپسند کرتے ہیں لیکن آزادی صحافت کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ آزادی صحافت کیا چیز ہے، کیا نہیں وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ لیکن بہرحال وہ اس چیز سے انکاری ہیں اور یہ اخبار کہہ رہا ہے کہ نہیں حکومت اس میں شامل ہے۔ تو اس خبر کے خلاف تو ڈنمارک کی حکومت بھی کارروائی کا حق رکھتی ہے۔ آج کل جبکہ مسلمان دنیا میں ڈنمارک کے خلاف آگ بھڑکی ہوئی ہے اس اخبار نے ایک من گھڑت خبر شائع کرکے ان کے حوالے سے شائع کی ہے یہ تو مزید اس آگ کو تیل دینے والی بات ہے، ہوا دینے والی بات ہے۔ ہم نے جو ان سے رابطے کئے ہیں ڈنمارک کی اعلیٰ سیکیورٹی ایجنسی کے افسر نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے، تردید کی ہے کہ بالکل کبھی اس طرح نہیں ہو ااور نہ کوئی ہمارے پاس ایسی خبر ہے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں ہم مزید تحقیق کریں گے اس سے مزید باتیں کھل جائیں گی۔ پہلے انہوں نے اخبار میں یہ خبر لکھی کہ اس کی ویڈیو ٹیپ ہمارے پاس ہے لیکن ہم نے جو اپنے رابطے کئے تو اب یہ کہنے لگے ہیں کہ نہیں ویڈیو ٹیپ نہیں آڈیو ٹیپ ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ یہ اپنے بیان بدلتے رہیں گے۔ اور یہی پاکستانی صحافت کا یا اس صحافت کا جس پر پاکستانی اثر ہے، حال ہے۔
لیکن بہرحال میں یہ بتا دوں کہ بات اب یہاں اس طرح ختم نہیں ہو گی۔ ہم پر یہ جو اتنا گھناؤنا الزام لگایا ہے اور ان حالات میں احمدیوں کے خلاف جوسازش کی گئی ہے ہم اس کو جہاں تک یہاں کا قانون ہمیں اجازت دیتا ہے انشاء اللہ انجام تک لے کر جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو، کم از کم ان مسلمانوں کو جو شریف فطرت لوگ ہیں، ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کے اخلاقی معیار کا پتہ لگ سکے۔ ہم پر تو ہمیشہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا گھناؤنے الزام لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم ہمیشہ صبر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد، اس تعلیم کو سامنے رکھتے رہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اس حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں۔ قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں۔ نہ صرف قال سے۔ اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقینا یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے۔ اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو گا‘‘۔ (الحکم 24؍ستمبر 1904ء صفحہ نمبر4) انشاءاللہ
اللہ ہمیں ہمیشہ اس نصیحت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیتا رہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمار ے ساتھ رہے اور ان بدفطرتوں کو اب عبرت کا نشان بنائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں