خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 17؍مارچ 2006ء

مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے ان مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں جو انہیں مزید اپنے شکنجہ میں جکڑتے چلے جارہے ہیں۔
اگرمسلم اُمّہ تقویٰ پر چلے تو پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق رحم ہوگا اور آئے دن کی زیادتیوں اور ظلموں سے ان کی جان بچے گی۔ اس تقویٰ کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس زمانے کے امام کو مان لیں
عرب دنیا میں عیسائیت نے بھرپور حملہ کیا ہواہے۔ صرف جماعت احمدیہ ہے جو اُن کے اعتراضات کے جواب دے رہی ہے۔احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو سمجھائیں بھی اور ان کے لئے دعا بھی کریں کیونکہ اُمّت اس وقت بہت بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔
(عالم اسلام کے بگڑتے ہوئے نہایت ہی خوفناک اور دردناک حالات پرگہرے دکھ اورکرب کا اظہار اور دعاؤں کی خاص تحریک)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 17؍مارچ 2006ء (17؍امان 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج سے تقریباً 16-15سال پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کی حالت کانقشہ کھینچا تھا کہ اپنوں اور غیروں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا ہے، یا اُس وقت پہنچا رہے تھے اور جو اَب تک پہنچا رہے ہیں۔ اور خاص طور پر عرب دنیا کی جو حالت ہے اور جس میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور مغرب کے بعض ممالک اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے ان عرب ممالک کی جو حالت بنا رہے ہیں یا جواُس وقت بنارہے تھے، ابھی تک وہی حالت چل رہی ہے۔ اس کا نقشہ جیسا کہ مَیں نے کہا آپ نے اپنے خطبات میں کھینچا تھا اور کئی خطبات اس بارے میں ارشاد فرمائے تھے جس میں مسلمانوں کو بھی اس خوفناک حالت سے باہر نکلنے کے مشورے دئیے تھے اور جماعت کو بھی توجہ دلائی تھی کہ عالم اسلام کے لئے دعا کریں کیونکہ بہت ہی خوفناک حالات اسلامی دنیا اور خاص طور پر عرب دنیا کے نظر آ رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کو جو مشورے آپ نے دئیے تھے اُن پر تو ظاہر ہے ہمیشہ کی طرح اسلامی دنیا کے لیڈروں نے نہ توجہ دینی تھی اور نہ دی۔ اور جو تجزیہ آپ نے کیا تھا اور جو نتائج اخذ کئے تھے عین اسی کے مطابق ہم نے نتائج دیکھے۔
دس بارہ سال کی انتہائی سختیوں کے بعد عراق کو جس طرح تہس نہس کیا گیا وہ تمام حالات ہمارے سامنے ہیں۔ آج بھی بظاہر پرانی حکومت کو اُلٹانے اور بظاہر نئی جمہوری حکومت لانے کے باوجود جوآگ لگی ہوئی ہے یا جو آگ اس وقت لگی تھی اس میں روز بروز شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اب اخباروں میں ہر جگہ یہ شور ہے کہ عراق میں سول وار (Civil War) کا خطرہ ہے۔ کل پھر ایک بڑا خوفناک ہوائی حملہ ہوا ہے، انہوں نے یہ حملہ ریگستان میں کیا ہے، کہتے یہی ہیں کہ یہاں کچھ لوگ چھپے ہوئے تھے، اور کچھ اسلحہ کے ڈپو تھے ان کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ تو بہرحال جو آگ بھڑکی تھی وہ اب تک بھڑکتی چلی جا رہی ہے۔اس سے یقینا ایک احمدی کا دل دکھتا ہے کیونکہ مسلمان کہلانے والوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کی یہ حالت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس لئے ہمیں انتہائی درد سے مسلم اُمّہ کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں آپس کی دشمنیوں سے بھی بچائے اور بیرونی دشمنوں سے بھی بچائے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی لیڈر شپ اور رہنمائی کو ہوش مند ہاتھوں میں دے جن کے اپنے ذاتی مفاد نہ ہوں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کو جو بھی قیادت اب تک ملی ہے، اِلاَّماشاء اللہ، تمام اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور جو ملکی مفاد کی خاطر کام کرنے والے تھے انہیں اندرونی اور بیرونی سازشوں نے ناکام کر دیا۔
گزشتہ دنوں ایک کتاب نظر سے گزری۔ یہ کتاب ایک امریکن کی ہے اس نے اپنے ہی ملک کی حکومت کا مختصر طور پر نقشہ کھینچا ہے کہ وہ ان ملکوں میں کیاطریقہ واردا ت اختیار کرتے ہیں۔ وہ بھی اس میں ایک عرصہ تک کام کرتا رہاہے۔ پہلے بھی یہ لوگ لکھتے رہے ہیں لیکن یہ نئی کتاب ہے کہ کس طرح مختلف کمپنیوں کے ذریعے سے یہ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے قابومیں کرتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے انہیں اپنے زیر نگیں کر لیتے ہیں۔اس کے مطابق اگر مختلف مالی اداروں کے ذریعے سے ان غریب ممالک کو یا ترقی پذیر ممالک کو انڈسٹری وغیرہ لگانے کے لئے کوئی امداد دی جاتی ہے یا کوئی پروجیکٹ شروع کیا جاتا ہے تو اگر سو ڈالر کی امداد دی جاتی ہے تو حقیقتاً صرف تین ڈالر اس قوم کے مفاد میں استعمال ہو رہے ہوتے ہیں جسے امداد دی جاتی ہے اور باقی صرف احسان ہوتا ہے۔
اس نے لکھا ہے کہ عرب ممالک اور ایران وغیرہ کی ہمارے نزدیک ایک خاص اہمیت ہے یعنی امریکہ یا مغربی ممالک کے نزدیک، اس لئے ان کو اپنے زیر نگیں رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ عراق کے تیل کے ذخائر جہاں ہیں ان کی اہمیت کے علاوہ اس کے دو دریاؤں دجلہ اور فرات کی وجہ سے جو پانی کے وسائل ہیں ان کی بھی اہمیت ہے۔کہتا ہے اس وجہ سے خطے کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے مطابق، بعض اندازے جو لگائے گئے ہیں، عراق میں سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل کے ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ جغرافیائی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت ہے اس لئے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کتاب لکھنے والے جان پرکنز(John Perkins) ہیں انہوں نے یہ ساری صورتحال لکھی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غلط لکھی ہے لیکن بعد کے جو حالات ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ جو باتیں بھی لکھیں صحیح لکھتے رہے۔کیونکہ یہ کم و بیش باتیں ایسی ہیں جو اس کتاب کے لکھے جانے سے 12-10 سال پہلے ہی جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے خطبات کے سلسلے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت کی خبروں کے حساب سے یعنی جب پہلی دفعہ 1991ء میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا مغربی رہنماؤں نے یہ بیان دئیے تھے کہ ہمیں عراق کے تیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہمیں اگر دلچسپی ہے تو دنیا میں امن قائم کرنے میں دلچسپی ہے۔ اس لئے جو بھی امن کو نقصان پہنچاتا ہے اسے سزا دینی ضروری ہے اور دیکھیں اب یہ سزا اتنی سخت ہے اور اتنی لمبی ہو گئی ہے کہ 17-16سال ہو گئے ہیں مگر وہ سزا دیتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ بھی مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے ان مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں، ان کے آلہ کار بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ان مغربی رہنماؤں کے عراق کے تیل سے عدم دلچسپی کے دعوی کی اس کتاب نے قلعی کھولی ہے۔ ایران سے بھی ان لوگوں کو اس لئے دلچسپی ہے اور اس پر ان مغربی ملکوں کی بات نہ ماننے پر پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں غور شروع بھی ہو چکا ہے، بلکہ کارروائی بھی شروع ہو چکی ہے کہ وہاں بھی تیل کے ذخائر ہیں کیونکہ وہاں ایک لمبے عرصے سے جو ایران کی حکومت ہے اس کو ختم کرکے اپنی مرضی کی جمہوری حکومت قائم کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔
اس کتاب والے نے یہ بھی لکھا ہے کہ شاہ ایران کے وقت میں بھی 1951-52ء کی بات ہے جب ایک مغربی آئل کمپنی کے خلاف بعض وجوہ کی بنا پر اس وقت کے وزیراعظم نے کارروائی کی تو ایران میں ان ملکوں کی طرف سے ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے کہ عوام میں حکومت اور وزیراعظم کے خلاف جلسے جلوس نکالے جانے شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں اس کی حکومت ختم ہو گئی۔ اور پھر شاہ ایران کے ذریعے سے اپنی من مانی کے کام کروائے گئے۔ تو اب گزشتہ دنوں (4-3 دن پہلے) پھر اخبارمیں تھا کہ آج کل امریکہ ایران کے خلاف، اس کی ایٹمی توانائی کے خلاف جو پابندیاں لگانا چاہتا ہے اگر ایران نے بات نہ مانی تو ایسے حالات پیدا کر دئیے جائیں گے کہ عوام کو ایرانی رہنماؤں سے علیحدہ کیا جائے، ان کے اندر ایسی صورت حال اور بے چینی پیدا کی جائے کہ اندر سے عوام اٹھ کھڑے ہوں اور پھر یہ ہے کہ ساتھ بیرونی پابندیاں بھی لگانی شروع کی جائیں گی۔ تو یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں، چاہے وہ عراق ہو، ایران ہو یا کوئی اور اسلامی ملک ہو کہ اسلامی دنیا کے خلاف یہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور خاص طور پر ایسے ممالک جن کے پاس وسائل بھی ہیں، بعض قدرتی وسائل ہیں اور امکانات ہیں کہ وہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ یا جن کے بارے میں مغرب کے بعض ملکوں کو یہ شک ہے کہ ان کے مقابل پر کھڑے ہو کر یہ ملک ان کی پالیسیوں سے اختلاف کر سکتے ہیں،تو ان کے خلاف بہرحال کارروائیاں ہوتی ہیں۔
پس اسلامی ملکوں کے لئے یہ غور کا مقام ہے کہ اب بھی سبق حاصل کرلیں۔ جو نصیحت آج سے 16سال پہلے ان کو کی گئی تھی اس سے انہوں نے سبق حاصل نہیں کیا تھا، اس کو دوبارہ دیکھیں۔ ایک ملک تو راکھ کا ڈھیر ہو گیا لیکن بدقسمتی سے وہاں کے عوام کو اب بھی عقل اور سمجھ نہیں آ رہی۔ غلط رہنماؤں کے ہاتھوں میں جو رہنما اپنے ذاتی مفاد رکھتے ہیں یا جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں، عوام بھی ان کی باتوں میں آ کر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وہاں پچھلے دنوں مزاروں پہ حملہ ہوا۔ اس کے علاوہ خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں تو اپنے ہی لوگ تھے جو مرے۔ فرقہ واریت نے ان لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ ہر خود کش حملہ میں اپنی قوم کے لوگ مارے جاتے ہیں، شاید ایک آدھ ان میں غیر ملکی فوجی مرتا ہو۔ باقی دسیوں ان کے اپنے لوگ مارے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے، اور کون سا انصاف ہے یا کونسا اسلام ہے؟ جو عراق میں آجکل ظاہر ہو رہا ہے۔ ان ملکوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے جو مغربی طاقتیں اپنے خیال میں وہاں انصاف اور جمہوریت قائم کرنے آئی ہیں وہ فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہر خود کش حملہ جو روزانہ وہاں ہوتا ہے ان کو وہاں سے نکالنے کی بجائے وہاں رکھنے کا جواز مہیا کر رہا ہے۔ گو وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم اپنے پروگرام کے مطابق چلے جائیں گے اور انخلاء شروع ہو چکا ہے اور یہ مکمل ہو جائے گا۔ لیکن یہ حرکتیں، جواز بہرحال مہیا کر رہی ہیں۔ ٹھیک ہے اس وجہ سے ان بیرونی ملکوں کی فوجوں میں کچھ خوف کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن جن حکومتوں کو اپنی انا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو ان کو کسی جانی نقصان کی پرواہ نہیں ہوتی۔تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، ان مغربی ملکوں کے جو عراق کی جنگ میں ملوث ہیں مالی اور اقتصادی فوائد ہیں اس لئے بہرحال یہ کوشش کریں گے کہ اس ملک میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے تاکہ اس راکھ کے ڈھیر ملک کی بحالی کے کام میں اس ملک کے تیل کی دولت سے یہ خزانے بھر سکیں۔
گزشتہ دنوں (3-2دن ہوئے) اخبار میں ایک خبر تھی کہ ان مغربی ملکوں نے بحالی کے کام میں اب تک کئی بلین ڈالرز کمائے ہیں۔ انہی کا پیسہ انہی پر خرچ کرکے ان پر احسان بھی جتا رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارے لئے بحالی کے منصوبے کتنی جلدی بنا کر دئیے ہیں۔ پانی مہیا کر دیا، بجلی مہیا کر دی، سڑکیں بنا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بنا تو رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے خزانے بھی بھر رہے ہیں۔ تو یہ نہایت ہی پریشان کن حالت ہے۔
خلیج کے بحران کے خطبات میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ مسلمان ممالک ہوش میں آئیں اور ان طاقتوں سے کہیں کہ ہم ان ممالک کو جو آپس میں لڑنے والے ہیں خود ہی سنبھال لیں گے تم دخل نہ دو۔ لیکن یہ مسلمان ممالک بھی ان کے مدد گار بنے رہے۔ اور ابھی تک بنے ہوئے ہیں۔ اب بھی اگر یہ مسلمان ملک مل کر کہیں کہ ہم مل کر امن قائم کروا دیں گے اگر مغربی طاقتیں نکل جائیں، تو شاید عراق میں کوئی امن کی صورت پیدا ہو جائے اور باقی ان ملکوں میں بھی امن کی صورت پیدا ہو جائے۔افغانستان کا بھی یہی حال ہے۔ ایران بھی ان ملکوں کے خطرناک عزائم کی لپیٹ میں آنے والا ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ یہاں سے نکل جائیں اور یہ بھی آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں اوراس حدیث پر عمل کرنے والے ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنے والے ہوں کہ

اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ۔وَاتَّقُوْاللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات:11)

کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ تو شاید بچ جائے۔
ایک تو عراق کے اندر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے صلح کی کوشش ہو تو شاید کامیابی ہو جائے ورنہ یہ بدامنی اور آگیں اور خود کش حملے اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل، پتہ نہیں پھر کب تک چلتا چلا جائے گا۔
پھر بعض طاقتوں کی ایران کے اوپر نظر ہے اور زور یہ دے رہے ہیں کہ جو ایران اپنی ایٹمی توانائی پر امن مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جو ہری توانائی استعمال کر رہے ہیں وہ بھی استعمال نہیں کرنا۔ کیونکہ اس سے پھر آگے نکل کر وہ اس کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کریں گے۔ یہ حکومتیں اپنے لئے ہر حق رکھتی ہیں کہ ہم جو چاہیں کریں لیکن دوسرا نہیں کر سکتا۔تو مسلمان ممالک اگر مل کر یہ جائزہ لے لیں، ایران کو بھی سمجھائیں، بھائی بھائی بن کے بیٹھیں اور اس بات کی تسلی کرلیں اور دنیا کو پھر اس بات کی ضمانت دے دیں کہ ہم جو مسلمان ممالک ہیں ہر چیز انسانی فلاح و بہبود کے لئے کرنے والے ہیں، غلط کام نہیں کریں گے تو سارے معاملات سلجھ جائیں گے اور سلجھ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ پھر تم بھی ہمیں یہ ضمانت دو گے کہ آئندہ ہمارے معاملات میں تم کبھی دخل نہیں دوگے۔ تعمیری منصوبوں کے لئے اگر ہمیں مدد چاہئے ہو گی تو لے لیں گے، فوجی کارروائیاں ہمارے ملکوں کے خلاف نہیں ہوں گی۔ اگر اس طرح ہو تو معاملے سلجھ سکتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے مسلمان ممالک بظاہر یہ کوشش کر نہیں سکتے اور ضمانت دے نہیں سکتے کیونکہ تقویٰ کی کمی کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی مثال ہے، یہ مثال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بھی اپنے خطبات میں دی تھی کہ اس کی اسلامی دنیا سے غدّاریاں تاریخی نوعیت کی ہیں اور ہمیشہ دھوکہ دیتا رہا ہے۔ اس بات کو یہ امریکن جس کی کتاب کا مَیں نے ذکر کیا ہے اس نے بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب تو اب اس طرح مغرب اور امریکہ کے شکنجے میں ہے کہ اس سے نکل نہیں سکتا۔ اس نے لکھا کہ موجودہ حکومت کو قائم رکھنے کی ضمانت امریکہ نے اس شرط پر دی ہے کہ ہمارے مفادات کی حفاظت کرو گے۔ تو اللہ تعالیٰ کا جو یہ حکم ہے کہ تقویٰ اختیار کرو، وہی ان میں ختم ہو گیا ہے تو امن کس طرح قائم کروا سکتے ہیں۔ حالانکہ مکّہ اور مدینہ کی وجہ سے اس خاندان کا اور سعودی عرب کا مسلمانوں پر بڑا اثر ہو سکتا ہے، اگر تقویٰ سے کام لیں۔ اور امریکہ کا خوف رکھنے یا مغرب کا خوف رکھنے کی بجائے خدا کا خوف رکھنا ثابت کر دیں۔ تو تمام مسلمان ممالک جن کو ان سے شکوے بھی ہیں وہ بھی ان کی بات ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ لیکن یہ اتنے بدنام ہو چکے ہیں کہ اب اگر نیک نیت ہو بھی جائیں اور یہ کوشش بھی کریں تو پھر بھی اپنی ساکھ قائم کرنے میں ان کو کئی سال لگیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی فلاح کا جو وعدہ کیا ہے، یہ تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے۔ تو اگر اپنی دنیاوی ہو ا وہوس نہ چھوڑی تو جیسا کہ آثار ہیں عراق کے بعد اب ایران پر بھی پابندیاں ہیں اور ہو سکتا ہے اور بھی سختیاں ہوں۔ پھر کہتے تو یہی ہیں کہ حملہ نہیں کریں گے لیکن کوئی بعید نہیں۔ پھر کسی اور ملک پرپابندیاں ہوں گی اور اس کی تباہی ہو گی۔ پھر ایک ایک کرکے تمام مسلمان ملک اپنی ابتری اور تباہی کی طرف قدم بڑھا رہے ہوں گے یا کم از کم ان کی لسٹ میں ہوں گے۔ اور اگر کوئی بچنے کی صورت ہو گی تو جن کے قدرتی وسائل ہیں وہ اپنے قدرتی وسائل اپنی اقتصادیات ان لوگوں کے قبضے میں دے رہے ہوں گے۔
تو اسلامی دنیا کو اس طرف کسی طرح توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ جماعت کے خلفاء نے ان کو ماضی میں بھی اس بارے میں سمجھانے کی کوشش کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بڑی تفصیل سے سمجھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 17-16سال پہلے سمجھایا لیکن ان لوگوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، کوئی وقعت نہیں دی۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک میں احمدیت کی مخالفت پہلے سے زیادہ بڑھ کے ہونے لگی۔ اگر ہم کوشش کریں بھی تو اب بھی شاید ہماری آواز پر کوئی توجہ نہ دے۔ لیکن ہر احمدی کو دعا کے ساتھ ساتھ مسلمان اُمّت کو سمجھانا چاہئے کہ اُمّت کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے آپس میں ایک ہونے کی کوشش کرو۔ جو بھی زرخیز ذہن کے رہنما ہیں وہ مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ مختلف وقتوں میں جو کوششیں ہوتی رہیں کہ مسلم اُمّہ ایک ہو جائے اور مسلمان ممالک کا خیال رکھے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھی قائم کی گئی لیکن پھر بھی ہر معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ نہ عرب ایک قوم بن کر عربوں کو اکٹھا کر سکے یعنی اس طرح اکٹھا ہونا جس سے ایک طاقت کا اظہار ہو۔ نہ پھر بڑے دائرے میں مسلمان ممالک ایک ہو کر اپنی حیثیت منو ا سکے۔اس کی کیا وجوہات ہیں۔ کئی وجوہات تو پہلے بیان ہوچکی ہیں جن کا مَیں ذکر کر چکا ہوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بیان کی تھیں۔ لیکن اہم وجہ جو ہے اُس طرف یہ لوگ آنا نہیں چاہتے یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ اور یہ راہ اب اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر ان کو مل نہیں سکتی۔ اس لئے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر مسلم اُمّہ تقویٰ پر چلے تو پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق رحم ہو گا اور آئے دن کی زیادتیوں اور ظلموں سے ان کی جان بچے گی۔ لیکن یہ اگر، بہت بڑا اَگر ہے جس کی طرف جیسا کہ مَیں نے کہا یہ لوگ آنا نہیں چاہتے، زمانے کے امام کو ماننے کی طرف سوچنا نہیں چاہتے۔
تو احمدی کی ذمہ داری صرف اتنی نہیں ہے کہ جہاں تک بس چلے ان کو سمجھائے کہ مسلمان ایک قوم ہونے کی کوشش کریں تاکہ ان کی دنیاوی طاقت اور ساکھ قائم ہو۔ دشمن کو ان کی طرف آنکھ اٹھانے سے پہلے کئی دفعہ سوچنا پڑے کیونکہ یہ ایک طاقت ہیں۔ یہ اظہارہو کہ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں۔ یا پھراحمدی ان کے لئے دعا کریں۔ یہ دعا بھی بہت اہم چیز ہے بلکہ سب سے اہم چیز دعا ہی ہے اور بڑا ضروری ہتھیار ہے۔ اور ساتھ ہی ایک مہم کے ساتھ ان لوگوں کو، مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی جائے کہ اس زمانے کے امام کو مانے بغیر نہ تمہاری طاقت قائم ہو سکتی ہے، نہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکتا ہے۔ ملکوں ملکوں میں فرقہ بندی ہے،یعنی اس وجہ سے اندرونی بٹوارے ہوئے ہوئے ہیں۔ پھر ایک ملک دوسر ے ملک سے اس فرقہ بندی کی وجہ سے خار کھاتا ہے۔غیروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور یہ اسی حالت زار کا نتیجہ ہے کہ عرب دنیا میں عیسائیت نے بھرپور حملہ کیا ہوا ہے۔ مَیں نے بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب دیکھی۔اس میں حضرت عیسیٰؑ کے ماننے والوں کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں پر کہانی کہانی میں فوقیت ظاہر کی گئی ہے۔ اور آخر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان بچہ مایوس ہو کر عیسائیت کے بارے میں سوچتا ہے۔ اور آج کل کیونکہ ترقی کے لئے،دنیا کے علوم سمجھنے کے لئے انگریزی زبان کو ضروری سمجھا جاتا ہے اس لئے انگریزی زبان سکھانے کے بہانے ا س قسم کی کہانیاں بچوں میں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ تو یہ بھی ایک لمبے عرصے کی منصوبہ بندی ہے۔ عیسائیت خود تو ان ممالک میں مذہب کے لحاظ سے آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے۔ لوگ مذہب سے لاتعلق ہیں۔ نام کے عیسائی ہیں، عمل تو کوئی نہیں۔ تو ان کے خیال میں چند نسلوں کے بعد اس طریقے سے، جو اَب بچوں میں اختیار کیا گیا ہے اسلام پر عمل کرنے والے بھی نہیں رہیں گے۔ اور یوں اِن تیل پیدا کرنے والے اور قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک کی اقتصادیات پر بلا کسی خطرے کے ان کا قبضہ ہو جائے گا۔
پھرعرب دنیامیں آج کل اسلام پر پادریوں کے ذریعے سے بھی بڑے اعتراض ہو رہے ہیں۔ اور مصر تک کے علماء جو اپنے آپ کو اسلام کا بڑا علمبردار سمجھتے ہیں ان کو جواب نہیں دیتے۔ اور سنا یہ ہے کہ باقاعدہ یہ پالیسی ہے اور کہا گیا ہے کہ جواب نہیں دینا۔ تو یہ ان کا حال ہے۔ اور آج اگر ان کو جواب دینے کی جرأت پیدا ہوئی ہے تو جماعت احمدیہ کو۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرب دنیا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے مصطفی ثابت صاحب کا جو پر وگرام چلایا گیا تھا یہ کافی اثر پیدا کر رہا ہے۔ کئی عربوں نے بڑا سراہا ہے۔
توجس طرح ان مغربی ملکوں کے اپنے ہی لوگ اپنے اندر کی باتیں بعض دفعہ بتا دیتے ہیں کہ ان کو قابو کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں، ان پر قبضہ کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں۔ تجارت کے ذریعے سے، حکومتوں میں جوڑ توڑ کے ذریعے سے۔ اور بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں بڑی جلدی اس جوڑ توڑ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ پھر جو نہ مانے پھر طاقت کے ذریعے سے حملہ ہوتا ہے۔ اور اب جیسا کہ مَیں نے بتایا انہوں نے یہ نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔دوبارہ عیسائیت کی تعلیم کے ذریعہ سے بڑی تیزی سے اسلام پر حملے کا یہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے کہ عیسائیت کی خوبیاں بیان کرو اور مسلمانوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیداکرو۔ ان کو پتہ ہے کہ عیسائیت کی خوبیاں بیان کریں گے تو یہ اس کا جواب دے نہیں سکتے، کیونکہ آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے علاوہ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پروگرام بڑے کامیاب چل رہے ہیں۔ ان لوگوں کی تو سوچنے کی صلاحیتیں ہی ختم ہو چکی ہیں کہ کس کس طریقے سے ان پر حملے ہو رہے ہیں اور کس طرح اسلام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اسلامی ممالک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اور یہ عقل جس طرح کہ مَیں نے کہا ماری جانی تھی کیونکہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر اس کا جواب نہیں تھا اور آپؑ کو مان کر ہی دنیا میں اسلام کی عظمت بحال ہونی تھی۔ کیونکہ للہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے لوگوں کو پاک کیا تھا، شریعت کے احکامات پر عمل کرنے والا بنایا تھا، حکمت کی باتیں سکھائی تھیں، اور ایک قوم بنا کر ایک طاقت بخشی تھی اسی طرح آج بھی یہ سب کچھ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہونا ہے۔ کیونکہ پیشگوئیوں کے مطابق جو اندھیرا زمانہ تھا ایک ہزار سال کے عرصہ کاجس کے بعد مسیح موعود و مہدی موعود کا ظہور ہونا تھا تو اس کے بعد خود بخود یہ علم و حکمت اور دین کی باتیں تو دلوں میں بیٹھنی شروع ہو جانی تھیں۔ بلکہ اس چیز سے انہیں لوگوں نے فائدہ اٹھانا تھا جنہوں نے اس مسیح و مہدی کو ماننا تھا۔ پس اب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ تقویٰ اور یہ علم و حکمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہونی ہے اور اسلام کا غلبہ اور اس کی ساکھ دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں نے ہی قائم کرنی ہے انشاء اللہ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَاالْعَزِیْزُ الْحَکِیْم (الجمعۃ:4)

تو یہ لوگ جو مسیح محمدی کے ذریعے سے اس پاک نبی کی امت سے جوڑے گئے ہیں ان لوگوں نے ہی وہ کھوئی ہوئی حکمت اور دانائی کی باتیں دوبارہ دنیا میں پھیلانی ہیں۔ اور تقویٰ کا سبق دینا ہے۔ اور یہ اس خدا کی تقدیر ہے اور اس کا فیصلہ ہے جو غالب اور حکمت والا خدا ہے۔ پس یہ غلبہ اور حکمت کسی کی ظاہری ہوشیاری اور چالاکی سے نہیں ملے گی بلکہ یہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ملے گی اور تقویٰ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے نمائندے کے ذریعہ سے جو احکامات دئیے ہیں، اس نمائندے کے ذریعہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہو کر خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بنا ہے اس کے ذریعہ سے ہی اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا ظہور ہونا ہے۔ پس اس لحاظ سے مسلمانوں کو سمجھانے اور تبلیغ کی ضرورت ہے ورنہ یہ جتنی مرضی چالاکیاں اور ہوشیاریاں دکھا دیں، طاقت کے مظاہرے کر لیں، جلسے جلوس نکال لیں، ان قوموں کے دجل کے سامنے ان کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی۔
اس کے لئے احمدیوں کو دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے اور امت کے لئے دعا کرنا سب دعاؤں سے افضل ہے۔کیونکہ اس وقت یہ اُمّت بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔ پہلے ملک شام کے بارے میں یہ خبر تھی کہ اس پر سختی کے دن آنے والے ہیں لیکن بہرحال وہ بات ٹل گئی شاید انہوں نے کچھ شرائط مان لی ہوں اس لئے، لیکن خطرہ بہرحال قائم ہے۔ اب جیسا کہ مَیں نے کہا ایران کے گرد گھیرا ڈالا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ یہ گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور یہی انہیں ملکوں پر سختیاں عالمی جنگ کا بھی باعث بن سکتی ہیں اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ایک احمدی کی تو آخری وقت تک یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ بلائیں ٹل جائیں۔ اور ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے کہ دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے الہاماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اُمّت کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ایک دعا کا ذکر میں کرتا ہوں کہ

’’رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ‘‘

کہ اے میرے رب! امت محمدیہ کی اصلاح کر۔ پس ان کی اصلاح کے لئے بہت دعا کی ضرورت ہے اور اصلاح کا نتیجہ ایک ہی صورت میں نظر آسکتا ہے اور وہ ہے کہ وقت کے امام کو مان لینا تاکہ ان آفات سے بچ جائیں جو زمینی بھی ہیں اور آسمانی بھی۔ ورنہ کوئی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی،کوئی ایسی کوشش جو امام الزمان کی تعلیم سے ہٹ کر کی جائے نہ ذاتی طورپر، نہ قومی طور پر کسی کو بچا سکتی ہے اور نہ ذاتی کوششوں سے اب تقویٰ پر کوئی قائم ہو سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ اصلاح تمہیں کہاں تک لے جائے گی اس سے کسی بہتری کی امیدرکھنا خطرناک غلطی ہے‘‘۔ (یعنی کہ جس میں آسمانی رہنمائی نہ ہو،)کیا تم نہیں دیکھتے کہ خداتعالیٰ نے یہی سنت رکھی ہے کہ اصلاح کے واسطے نبیوں کو مامور کرکے بھیجاہے، انبیاء علیہم السلام جب آتے ہیں تو بظاہر دنیا میں ایک فساد عظیم نظرآتا ہے۔ بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے جدا ہو جاتا ہے۔ ہزاروں ہزار جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے وقت طوفان سے ان کے مخالفوں کو تباہ کر دیا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اور دوسرے کئی عذاب وارد ہوئے اور فرعون کے لشکرکو غرق کیا گیا۔
غرض خوب یاد رکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیاہے۔ نرے کلمات اور چرب زبانیں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں۔ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہئے۔ پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا؟‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ345-344 جدید ایڈیشن)
پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے اور ہمیں ان کو بتانا چاہئے کہ یہ تمام احکامات اور یہ تمام خوشخبریاں اسلام کی ترقی کی قرآن کریم میں موجود ہیں اور اسلام کے ذریعہ سے ہی مقدر ہیں اور انشاء اللہ اسلام نے غالب آنا ہے یہ ہمارا ایمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود کیونکہ امام کو نہیں مان رہے، مسلمانوں کی حالت بحیثیت مجموعی (جن کے پاس طاقت ہے۔ جو مسلمان ملک ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا) روز بروز خراب ہی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ زمانے کے امام کا انکار ہے اور اس انکار کی وجہ سے تقویٰ کی راہ بھی گم ہو چکی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ تقویٰ کی راہ گم ہو چکی ہے اور جب تقویٰ کی راہ گم ہو جائے تو پھر اصلاح کی کوششیں بھی اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے والی بات بن جاتی ہیں۔
اللہ کرے کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے والے بن جائیں۔ اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں تاکہ تقویٰ کی راہ پر قدم مارتے ہوئے اپنے اندرونی مسائل بھی حل کرنے والے ہوں اور بیرونی حملہ آوروں سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کیونکہ تمام دنیا کے لئے ہے، صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے اس لئے غیرمسلموں کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے۔ یہ امیر ملک بھی اگر غریب ملکوں کو اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لئے یا اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لئے اپنا زیر نگیں کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں تو یہ ظلم ہے۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ ظالم کی بھی مدد کرو۔ اور ظالم کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کی جاتی ہے۔ تو ہاتھ سے تو ہم روک نہیں سکتے، دعا کاہی ذریعہ ہے۔ اور دعا کی طاقت ہمارے پاس ہے لیکن یہ دعا کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور اس کو ہمیں استعمال کرنا چاہئے اورجہاں تک ہو سکتا ہے ہمیں استعمال کرنا چاہئے۔ تمام انسانیت کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ پھر رابطوں سے، تبلیغ سے اور اس کے بھی آج کل کے زمانے میں مختلف ذرائع ہیں ان لوگوں کو بتائیں کہ جن راستوں کی طرف تم جا رہے ہو۔ تمہاری حکومتیں تمہیں لے کر جا رہی ہیں یہ تباہی کے راستے ہیں۔ جتنے اخراجات گولوں اور تباہی پھیلانے پر کئے جاتے ہیں اگر غریب ملکوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور صلح صفائی کی کوشش کے لئے کئے جائیں تو اگر تمہاری نیت نیک ہے اور حقیقت میں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو جیسا کہ دعویٰ ہے تو اس سے آدھے اخراجات میں بھی شاید تم اپنے مقاصد حاصل کر لو۔ امن کانفرنسیں ذاتی مفاد کے لئے نہ ہوں بلکہ اصلاح کے لئے اور حقیقی امن قائم کرنے کے لئے ہوں۔ خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آ جائے اور ان ملکوں کے عوام میں یہ احساس قائم ہو جائے کہ وہ اپنے ملکوں کے سربراہوں کو، سیاستدانوں کو ان ظلموں سے روکیں، باز رکھیں جو انہوں نے غیر ترقی یافتہ ملکوں سے،چھوٹے ملکوں سے روا رکھا ہوا ہے۔
امن قائم کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بڑا خوبصورت نکتہ بیان فرمایا ہے۔ دنیا جب تک حُبّ الوطنی اور حُبّ الانسانیت کے گُر کو نہیں سمجھے گی اور یہ دونوں جذبات ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا۔ تو جب انسانیت کی فکر ہو گی اور صرف اپنے ملک کے مفاد نہیں ہوں گے بلکہ کُل انسانیت کی فکر ہو گی تبھی امن قائم ہو گا اور اس کے لئے نیک نیت ہونا ضروری ہے۔
اللہ کرے کہ ان کو اس کی توفیق ملے ورنہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خداتعالیٰ کی لاٹھی چلتی ہے اور آفتوں اور طوفانوں اور بلاؤں کی صورت میں پھر اپنا کام دکھاتی ہے۔ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ وارننگ تمام دنیا کو دی ہوئی ہے جو بھی خداتعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کی پکڑ میں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں یہ آفتوں کے نظارے نہ دکھائے بلکہ ہمیں وہ دن دکھائے جب تمام ملک، تمام قومیں ایک ہو کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کرتے ہوئے ایک جھنڈے کے نیچے آ جائیں جو اسلام کا جھنڈاہو۔ اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنے عمل اور دعا سے اس بارے میں بھرپور کوشش کرنے والے ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں