خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍نومبر 2007ء

حکیم اور عزیز خدا سے تعلق جوڑ کراور اس کے حکموں پر عمل کرکے ہمارے اندر بھی حکمت اور دانائی پیدا ہوگی۔
ایک مومن اپنے ضرورت مند بھائیوں کی ضرورت کے لئے، دینی ضروریات کے لئے، غلبۂ اسلام کے لئے جو مال خرچ کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے یہ سودا کررہا ہوتا ہے کہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید جذب کرنے والا بنے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جسے اللہ قبول فرماتا ہے پاک کمائی میں سے ہو۔ ایسی کمائی نہ ہو جو دھوکے سے کمائی گئی ہو، جو غریبوں کو لوٹ کر کمائی گئی ہو۔
تحریک جدید کے دفتر اوّل، دوم، سوئم، چہارم اور پنجم کے نئے سال کا اعلان
سال گزشتہ میں جماعت احمدیہ عالمگیر نے مجموعی طورپر تحریک جدید کی مد میں 36لاکھ 12ہزار پاؤنڈزکی ادائیگی کی ہے۔
مجموعی طورپر وصولی کے لحاظ سے پاکستان اوّل، امریکہ دوم اوربرطانیہ تیسرے نمبر پر رہے۔ افریقن ممالک میں نائیجیریا اوّل نمبر پرہے۔
تحریک جدید اوروقف جدید میں نومبائعین کو خاص طور پر ضرور شامل کریں۔
سیرالیون کے مبلغ یوسف خالد ڈوروی (مرحوم)کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 09؍نومبر 2007ء بمطابق09؍نبوت 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءبَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیِْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ اُوْلٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ:71)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اوربُری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ یقینا اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے۔
اس آیت میں، جیسا کہ ترجمہ سے سب نے سن لیا، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خوبصورت نشانیاں یا صفات جس گر وہ یا جماعت میں پیدا ہو جائیں وہ حقیقی ایمان لانے والوں اور ایمان لانے والیوں کی جماعت ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنین کی جماعت کی سات خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔
پہلی خصوصیت یہ کہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ ایسے محبت کرنے والے ہوتے ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کی مدد پر کمر بستہ ہوں۔
دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، نیکیوں کا پرچار کرنے والے ہیں۔ جہاں وہ اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر چاہتے ہیں، دوسروں کے لئے بھی خیر چاہنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیکیاں قائم کرکے اور پیار اور محبت قائم کرکے ایک ایسی جماعت بنا دیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے والی ہو۔
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ بری باتوں سے روکتے ہیں۔ ہر ایسی بات جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نفی ہوتی ہے اس سے روکتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ظالم کو ظلم سے روکنے والے ہیں اور مظلوم کی دادرسی اور مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کے لئے اگر قربانی بھی کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے تاکہ امن، سلامتی، محبت پیار اوربھائی چارے کی فضا قائم ہو۔
اور چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز جو کہ دین کا ستون ہے جس کے بارے میں حکم ہے کہ اس کا خاص خیال رکھو ورنہ مومن ہونے کا دعوٰی بے معنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شمار جگہ پر نماز کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’نمازبڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خداتعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ247مطبوعہ لندن)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف۔ تمام وظائف اور اوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے‘‘۔ جتنے بھی ورد ہیں ان کا مجموعہ یہی نماز ہے’’اور اس سے ہر قسم کے غم ّ وہم ّدُور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ432 مطبوعہ لندن)
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نماز کو سنوار کر پڑھنا، وقت پر پڑھنا، جماعت کے ساتھ پڑھنا، یہ ایک مومن کی خصوصیات ہیں اور ہونی چاہئیں۔
پھر پانچویں بات یہ بتائی کہ مومن زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ اس کی تفصیل میں آگے جا کر بیان کروں گا۔
اور چھٹی بات یہ بیان کی کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر خوشدلی سے عمل کرتے ہیں۔
اور ساتویں بات یہ کہ ایسے مومن جو اِن خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ایمان والوں سے ہمیشہ رحمت اور شفقت کا سلوک فرماتا ہے۔
ہمیشہ یاد رکھو کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی یہ خصوصیات اس خدا نے بیان کی ہیں جو بہت حکمت والا اور کامل غلبہ والا ہے۔ پس اس حکیم اور عزیز خدا سے تعلق جوڑ کر اور اس کے حکموں پر عمل کرکے ہمارے اندر بھی حکمت اور دانائی پیدا ہو گی تبھی ہمارے اندر اس حکمت کی وجہ سے جو خداتعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے سے پیدا ہوئی یا ہو گی، جماعتی مضبوطی، انصاف اور عدل قائم ہو گا۔ اس حکمت کی وجہ سے من حیث الجماعت ہمارے اندر سے جہالت کا خاتمہ ہو گا اور ہم عقل اورحکمت سے چلتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے، آپس میں محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے والے بنیں گے، وہاں اس پُر حکمت پیغام کو، اُس پیغام کو جو خدائے واحد و یگانہ کا فہم و ادراک حاصل کروانے والا پیغام ہے، اس پیغام کو جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور امام الزمان کو دنیا میں ہر بشر تک پہنچانے کے لئے بھیجا ہے اس مسیح و مہدی کی غلامی میں دنیا میں اس پیغام کو ہم پھیلانے والے بنیں گے اور پھر نتیجتاً اس غلبہ کو دیکھنے والے بنیں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرکے ہم اُن انعامات کے وارث بنیں گے جن کا خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔
پس یہ خوشخبری ہے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو کہ اگر تم ان خصوصیات کے حامل ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کے اس عظیم پیغام کو جس کا ہر ہر لفظ اپنے اندر حکمت کے سمندر لئے ہوئے ہے۔ دنیا میں پھیلانے والے اور اسلام کے غلبہ کے دن دیکھنے والے بن سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو بننے اور اس سے فیض اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کم از کم وہ خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی صفت جو عزیز اور حکیم ہے، اس سے فیضیاب ہو سکیں۔ یہ خصوصیات ہم اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی وہ غالب اور حکیم خدا ہماری زبانوں کو وہ طاقت عطا فرمائے گا جس سے اللہ تعالیٰ کا حکیمانہ پیغام دنیا کو پہنچا کر ہم اسلام اور احمدیت کا غلبہ دیکھ سکتے ہیں۔
پس اس اہم مقصد کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا چاہئے تاکہ جو عہد بیعت اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے کہ ہم جان، مال، وقت اور عزت کو اسلام کے پھیلانے کے لئے ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے، اس کو پورا کرنے والے بنیں۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ زکوٰۃ کے بارے میں بعد میں بیان کروں گا اب مَیں اس طرف آتا ہوں جو زکوٰۃ یا مالی قربانی کا مضمون ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جو نومبر کا مہینہ ہے اس میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے۔ اکتوبر میں تحریک جدید کا سال ختم ہوتا ہے اور یکم نومبر سے نیا سال شروع ہو جاتا ہے۔ نومبر کے پہلے جمعہ میں عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن اس دفعہ بوجوہ یہ اعلان نہیں ہو سکا تو آج مَیں اس کا بھی اعلان کروں گا اور اس حوالے سے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اس خصوصیت کا مزید ذکر کروں گا کہ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔
زکوٰۃ کیا چیز ہے اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں مال کا حصہ نکالنا تاکہ وہ مال پاک ہو، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اظہار ہو اورپھر اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈالے اور اسے بڑھاتا رہے۔ پس ایک مومن اپنے ضرورت مند بھائیوں کی ضرورت کے لئے، دینی ضروریات کے لئے، غلبہ اسلام کے لئے جو مال خرچ کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے یہ سودا کررہا ہوتا ہے کہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید جذب کرنے والا بنے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو مزید بڑھائے تاکہ دنیا کی نعمتوں سے بھی فائدہ اٹھائے اور پھر مزید خرچ کرکے اور زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں گھاٹے کا سوداہی نہیں ہے۔ ایک طرف سے ڈالتے جاؤ، دوسری طرف سے کئی گنا بڑھا کر حاصل کرتے چلے جاؤ۔ دنیاوی چیزوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب مال خرچ کرکے کوئی چیز حاصل کرتے ہیں تو اس کی قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ عقلمند انسان ہر ایک چیز کی قدر دیکھ کر ہی اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور اُس کی قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنا کہ جیسا کہ مَیں نے کہا اس پر خرچ کیا گیاہو۔ اس سے استفادہ ایک حد تک کیا جا سکتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس چیز سے استفادہ اور اس کی قدر میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت میں وہ چیز بالکل بے کار ہو جاتی ہے۔ پھر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی صنعت میں پیداوار حاصل کرنے کے لئے جب خام مال کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس خام مال کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور 100فیصد اس پر خرچ کئے گئے مال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ گو کہ ان نقصانات کا اندازہ کرتے ہوئے جو اس طرح ضائع ہوتے ہیں، ایک کارخانہ دار یا اس کو بنانے والا اس کی قیمت اتنی مقرر کر دیتاہے کہ اس کا نقصان بھی پورا ہو جائے اور کچھ منافع بھی ہو جائے۔ پھر اور بہت سے عوامل ہیں، اگر وہ اثر ڈالیں تو بعض دفعہ منافع بھی نقصان میں چلا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ضمانت دی ہے کہ مال بڑھے گا۔ ایک جگہ فرمایا کہ سات سو گنا بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ پس مومنین کو ایسی تجارت کی طرف توجہ دلائی کہ گویہ پیسہ تم دنیاوی ذرائع استعمال کرکے حاصل کرتے ہولیکن جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے جماعت کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہوتے ہو، جہاں اپنی عاقبت سنواررہے ہوتے ہو، وہاں اس بات سے بھی آزاد ہو جاتے ہو کہ بعض عوامل اثر انداز ہو کر تمہاری تجارتوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت 273میں فرماتا ہے کہ

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَ نْفُسِکُمْ۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءوَجْہِ اللّٰہِ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(البقرۃ:273)

کہ جو مال بھی تم خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ میں ہے جبکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضاء جوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گا اور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی، تم پہ ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھرپور کا لفظ استعمال ہو تو وہ ایسا بھرپور ہے جس کا انسانی سوچ احاطہ بھی نہیں کر سکتی۔ ایک انسان اپنا کاروبار کرتا ہے تو کاغذ پنسل لے کر ضربیں تقسیمیں دے کر، آج کل کمپیوٹر کا زمانہ ہے تو کمپیوٹر پر بیٹھ کر بڑی پلاننگ کرکے، بڑی فیزیبیلٹیاں (Feasibilities) بناتا ہے۔ پانچ فیصد، دس فیصد تک منافع نکالنے کی کوشش کرتا ہے، یا کوئی بہت ہی منافع کمانے والا ہے تو اس سے بھی بڑھ جائے گااور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض حالات میں جب کسی چیز کی طلب بڑھ جاتی ہے تو کوئی بلیک مارکیٹ کرنے والا ہو تو وہ بہت ہی زیادہ سوفیصد منافع رکھ لیتا ہے۔ یہ اس کی حد ہوتی ہے اور پھرجب اس نے یہ کچھ کر لیا تو اس نے دنیاوی فائدہ تو اٹھالیا لیکن غلط منافع اور ذخیرہ اندوزی سے گناہگار بھی ہوا اور اس ذریعہ سے کمایا ہوا پیسہ پھر پاک پیسہ کہلانے والا نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس وجہ سے کہ اللہ کی محبت اور اس کے احکامات کی تکمیل مال کی محبت پر حاوی ہے جو تم خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھرپور طور پر واپس لوٹاتا ہے۔ ایسا خرچ بھرپور طور پر واپس لوٹایا جاتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی سنور جاتا ہے۔ مال بھی پاک ہوتا ہے اور ایسا پاک مال کمانے والے پھر لوگوں کی مجبوری سے فائدے اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ غلط طریق پر مال کمانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں امیر لوگ بھی ہیں، اوسط درجہ کے بھی ہیں، غریب بھی ہیں اور کیونکہ یہ مومنین کی جماعت ہے اس لئے ہر طبقہ اس فکر میں ہوتا ہے کہ مَیں جو بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کروں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کا وارث بنوں۔
ایسے لوگ بھی جماعت میں گزرے ہیں، نہ صرف گزرے ہیں بلکہ اب بھی ہیں جو اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے وظیفہ پر گزارہ کرتے ہیں لیکن جب خلیفہ وقت کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک ہو تو اس وظیفہ کی رقم میں سے بھی پس انداز کرکے ایک شوق اور جذبے کے ساتھ چندہ دینے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اپنے پر نظارے دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کئی ممالک میں ہزاروں احمدی ہیں جو اس اصل کو سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کاروبار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرکے بھرپور طورپر لوٹائے جانے کے نظارے دیکھتے ہیں۔
ایک صاحب نے لکھا کہ مَیں نے اپنا تحریک جدید کا وعدہ کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ مَیں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں، توفیق سے بڑھ کر انہوں نے وعدہ کیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی وعدہ انہوں نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دئیے۔ اس سال پھر انہوں نے جو وہ وعدہ کیا تھا اس سے دو گنا وعدہ کر دیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کہ

وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ(الطلاق: 4-3)،

اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہ ہو گا، ایسا انتظام کیا کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہو گئیں اور وعدہ بھی پورا ہوگیا۔ اور لکھتے ہیں کہ اس پر اپنے اس سچے وعدوں والے خدا کی حمد سے دل بھر گیا۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے دل جتنے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جائیں ہم کبھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے دلوں کو حمد سے بھرا رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہا ہے کہ جتنا تم شکرکرو گے اتنا بڑھاؤں گا اور اللہ جب بڑھاتا ہے تو کئی گنا کرکے بڑھاتا ہے۔ تو ہمارا شکر تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں تک اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیتا اور بڑہاوا کرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد کرنے والوں اور اس پر توکل کرنے والوں کے ایمان کو اور بڑھاتا ہے۔ یہی صاحب لکھتے ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدید نے جب کہا کہ اتنا وعدہ کر دیا ہے کہ کس طرح ادا کرو گے تو مَیں نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں فکر ہے تو اس خدا کو میری فکر نہیں ہو گی جس کی رضا چاہنے کے لئے اور جس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے وعدہ کیا اور یہ خرچ کر رہا ہوں۔ تو یہ حوصلے اور یہ توکّل احمدیوں میں اس لئے ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے اور بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان میں بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے۔ ان کو اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے۔ ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر کی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ اُن کا اس بات پر قوی ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالصتاً اپنی خاطر کئے گئے ہر عمل کی بھرپور جزا دیتا ہے، اُن کو اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہر خوف کو امن میں اور ہر غم کو خوشی میں بدل دیتاہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِسِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن- (البقرہ:275)

کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی تو ان کے لئے ان کا اجراُ ن کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔ پس جو خالصتاً اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی رضاحاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا ہر خوف، ہر غم اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے۔ وہ اللہ کے ہو جاتے ہیں اور اللہ اُن کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اُسے اُس کے مالک کے لئے بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی جیسے تم میں کوئی اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے۔ (صحیح بخاری باب الصدقۃ من کسب طیب)
پس یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مال بڑھاتا ہے قرآن کریم میں بھی ہے اور حدیث سے بھی واضح ہوا۔ لیکن اس شرط کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جسے اللہ قبول فرماتا ہے پاک کمائی میں سے ہو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ ایسی کمائی نہ ہو جو دھوکے سے کمائی گئی ہو، جو غریبوں کو لوٹ کر کمائی گئی ہو۔ اللہ تعالیٰ اُس مال کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جو پاک ذریعہ سے کمایا گیا ہو اور پاک دل کے ساتھ پاک کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو ہمارے دلوں اور ہمارے مالوں کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ پس جب تک ہم اپنی پاک کمائیوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا چاہتے ہوئے خرچ کرتے چلے جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجرپاتے چلے جائیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، ہمارا ہر عمل ہمیں جماعتی طور پر مضبوط کرتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہمارے ذرائع بھی وسیع تر ہوتے چلے جائیں گے اور ہم مومنین کی جماعت بن جائیں گے جو بنیان مرصوص کی طرح ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی ہے جس پر کوئی غلبہ نہیں پا سکتا ہے، جس میں کوئی رخنہ نہیں ڈال سکتا۔ ایسے لوگوں کی جماعت ہوتی ہے جو ہمیشہ عزیز خدا کی صفتِ عزیز کے جلوے دیکھنے والے ہوتے ہیں اور یقینا یہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی ہے مومنین کی وہ جماعت ہے جو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرکے مالی قربانیوں میں بڑھ کر پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے بھی دیکھتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تائید سے جو تحریک مخالفین کے حملوں کو روکنے اور دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے جاری کی تھی جو یقینااِس حکیم اور عزیز خدا سے تائید یافتہ تھی اور بڑی حکمت سے پُر تھی اور نظر آرہا تھا کہ اس کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت نے دنیا میں پھیلنا ہے اور غلبہ حاصل کرنا ہے، جس کے تائید یافتہ ہونے کا ثبوت آج کل ہم دیکھتے ہیں تو دنیامیں پھیلے ہوئے جوجماعت کے مشن ہیں، مساجد ہیں اور پھر ہر سال جو سعید روحیں جماعت میں شامل ہوتی ہیں ان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ احرار جو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے اٹھے تھے، یہ دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے تھے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، ان کا توکچھ پتہ نہیں ہے کہ کہاں گئے لیکن جماعت احمدیہ، تحریک جدید کی برکت سے، مالی قربانیوں کی برکت سے، ایک ہونے کی برکت سے، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی برکت سے، خلافت کی آواز پر لبیک کہنے کی برکت سے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مالی قربانیوں کی برکت سے (جیسا کہ مَیں نے کہا) دنیا کے 189ممالک میں پھیل چکی ہے اور ہر ملک کا نیا شامل ہونے والا احمدی، مومنین کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نیک اعمال بجا لانے اور اطاعت میں بڑھنے والا ہے اور مالی قربانیوں کی روح کی طرف توجہ دینے والا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ پس یہ ہیں اس حکیم اور عزیز خدا کی قدرت کے نظارے جو جماعت کے حق میں وہ دکھا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس گروہ میں شامل رکھے جو

اِبْتِغَآء لِوَجْہِ اللّٰہ

کے نمونے دکھانے والے ہوں اور ہم اسلام کے غلبہ کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔
اب مَیں تحریک جدید کے دفتر اوّل، دوئم، سوئم، چہارم اور پنجم کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے روایتاً گزشتہ سال میں جماعت نے جو مالی قربانیاں دی ہیں، مختلف پہلوؤں سے جو جائزہ لیا جاتا ہے، اس کا بھی ذکر کر دیتا ہوں۔
تحریک جدید کا سال جیساکہ مَیں نے بتایا 31؍ اکتوبر کو ختم ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جو رپورٹس آئی ہیں۔ (مکمل رپورٹس بعض اوقات وقت پہ نہیں پہنچتیں) ان کے مطابق جماعت احمدیہ عالمگیر نے مجموعی طور پر تحریک جدید کی مد میں 36لاکھ 12ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کی ہے۔ اس میں پاکستان اور امریکہ کی کرنسیاں بھی گزشتہ سال میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مسلسل گرتی رہی ہیں اور جب کرنسی کا موازنہ کیا جاتا ہے، جب پاؤنڈز سے مقابلہ کیا جائے تو گو کہ ان کی قربانیاں بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہیں لیکن وہ اتنی نظر نہیں آرہی ہوتیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ وصولی گزشتہ سال کی نسبت ایک لاکھ دس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔
مجموعی طور پر وصولی کے لحاظ سے بھی نمبروار جماعتوں کا ذکر کر دوں۔ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی پاکستان ہی پہلے نمبر پر ہے۔ اور پاکستان کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، وہاں اتنی افراتفری اور ڈسٹربنس (Disturbance) ہے کہ کاروباری حضرات کے کاروبار اُس طرح نہیں رہے، بلکہ اکثر جماعتیں تو جب آخری مہینہ رہ جاتا ہے پریشانی کا اظہار ہی کرتی رہی ہیں کہ چندے پورے نہیں ہو رہے۔ پھر اکثریت پاکستان میں غریب لوگوں کی ہے۔ لیکن یہ غریب بھی چندہ دیتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خوف اور غم دور کر دے گا۔ اگر تم میری مرضی کے لئے خرچ کرو گے تو تمہیں بڑھا کر دے گا۔ تو وہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اگلے وقت کی روٹی کس طرح ملے گی اور قربانیاں کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال پہلے نمبر پر پاکستان ہے، پھر نمبر 2 امریکہ ہے، نمبر3 برطانیہ ہے، نمبر 4جرمنی ہے، نمبر 5کینیڈا ہے، (جرمنی اب پیچھے جا رہا ہے، برطانیہ اوپرآ رہا ہے)، نمبر 6 انڈونیشیا ہے نمبر7ہندوستان، نمبر8آسٹریلیا، نمبر9بلجیم، نمبر 10 ماریشس اور افریقن ممالک میں نائیجیریا اوّل نمبر پر ہے۔
تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں بھی بعض ملکوں میں بہت اضافہ ہوا ہے، جن میں پاکستان، ہندوستان، جرمنی، برطانیہ، انڈونیشیا، تنزانیہ، بنین اور نائیجیریا شامل ہیں۔ اس سال چندہ دینے والوں کی تعداد میں جواضافہ ہوا ہے وہ گزشتہ سال کی نسبت 16ہزار زائد ہے۔ اتنے لوگ اس میں شامل ہیں اور کل تعداد 4لاکھ 68ہزار ہے۔ گزشتہ سال جو تعداد پیش کی گئی تھی، کچھ حساب ٹھیک نہیں لگایا گیا تھا، کچھ جمع تفریق میں غلطی ہو گئی، اعداد کچھ غلط تھے، کچھ جماعتوں کی رپورٹس صحیح نہیں تھیں، تو ان کا خیال تھا کہ اس دفعہ ٹوٹل تعداد نہ دی جائے بلکہ یہ بتایا جائے کہ اتنا اضافہ ہوا لیکن ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، دنیا کے لئے تو نہ ہم مالی قربانیاں کرتے ہیں اور نہ کر رہے ہیں، نہ یہ دنیا ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم جب تک اپنی کمزوریوں کو سامنے نہیں رکھیں گے، ان پر نظر نہیں رکھیں گے ترقی کی رفتار کا بھی پتہ نہیں لگا سکتے۔ تو یہ تو بہرحال حتمی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 16ہزار کی تعداد میں ان ملکوں میں زائد اضافہ ہوا ہے، زائد لوگ شامل ہوئے جو باقاعدہ پلاننگ کرکے اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو چندوں میں بڑھائیں، مزید تعداد کو شامل کریں۔ بعض جگہوں کی رپورٹیں گزشتہ سال جب حساب کر رہے تھے ٹھیک نہیں تھیں اس لئے بظاہر لگے گا کہ کم ہیں لیکن مجموعی طور پر اضافہ ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب ہم اپنے جائزے لیں گے، جب ہم اپنی کمزوریوں پر بھی نظر رکھیں گے تو تبھی ہمارے کام میں بھی برکت پڑے گی اور کیونکہ نیک نیتی سے اس طرف توجہ ہو گی اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں گے۔ اصل مقصد تو ہمارا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس لئے کسی بھی قسم کا خوف کرنے کی ضرورت نہیں۔ بندوں سے تو ہم نے اجر نہیں لینا۔ ہمارا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس کی خاطر قربانیاں ہو رہی ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر ان ملکوں میں 16 ہزار نئے افراد بھی شامل ہوئے۔
پھر مَیں نے دفتر اوّل کے مرحومین کی تحریک کی تھی، جن کی کل تعداد تین ہزار سات سو تینتالیس تھی اس میں سے بھی تین ہزار چارسو چوالیس مرحومین کے کھاتے جاری ہو گئے جو ان کے ورثاء نے کروائے اور دو سو ننانوے کھاتہ جات کومجموعی مد سے، مرکز میں جو لوگوں نے مد جمع کروائی تھی، اس میں سے دوبارہ جاری کیا گیا ہے، تو اس لحاظ سے دفتر اوّل کے تمام مرحومین کے کھاتے جاری ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا اپنا بھی ایک موازنہ پیش کیا جاتا ہے کہ کس کس جماعت نے کتنی ادائیگی کی اور اوّل دوئم اور سوئم پوزیشن آئی۔ تو اس لحاظ سے لاہور نمبرایک پر ہے، ربوہ دوسرے نمبر پر اور کراچی تیسرے نمبر پر ہے۔ بعض پاکستان کی جماعتیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی جماعتوں کا ہمیشہ سے موازنہ کیا جاتا ہے، ان کو امید اور توقع ہوتی ہے کہ ان کا بھی نام لیا جائے تو نمایاں قربانی کرنے والی پاکستان میں دس جماعتیں ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد، نمبر 3ملتان، نمبر4کوئٹہ، نمبر 5کنری، نمبر6ساہیوال نمبر 7حید آباد، نمبر8بہاولپور، نمبر9نواب شاہ نمبر10ڈیرہ غازی خان اور پاکستان کے ضلعوں میں سیالکوٹ نمبر1، فیصل آباد نمبر2، گوجرانوالہ نمبر3، میرپور خاص نمبر4، سرگودھا نمبر5شیخوپورہ نمبر6، بہاولنگر نمبر7، نارووال نمبر8، اوکاڑہ نمبر9 اور سانگھڑ اور قصور دسویں نمبر پر ہیں۔ اس کے علاوہ بعض چھوٹی قربانی کرنے والی جماعتوں نے اچھی قربانی کی ہے، واہ کینٹ، کھوکھر غربی، 166مراد ہے، لدھڑ کرم سنگھ ہے، گھٹیالیاں خورد ہے، بشیر آباد سندھ ہے، صابن دستی(بدین)، لودھراں، میانوالی، بہرحال یہ پاکستان کی قربانیوں کے نمونے ہیں، ان غریب لوگوں کے جو غربت کے باوجود پہلے نمبر پر رہے۔
اب انگلستان میں جماعت کی پہلی دس پوزیشنز مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے اس طرح ہیں، حلقہ مسجد فضل پہلے نمبر پر، نمبر 2پرووسٹر پارک، نمبر3پرہے بریڈ فورڈ، نمبر 4پر سکنتھورپ ہے، نمبر 5گلاسگو، نمبر6پہ ٹوٹنگ، نمبر 7پہ مانچسٹر، نمبر8پر ہڈرزفیلڈ، نمبر9پہ برمنگھم ایسٹ اور نمبر 10پہ نیو مولڈن۔
مَیں نے گزشتہ سال چندوں کا بھی حساب دیا تھا کہ فی کس چندہ دینے والی جماعتوں میں سے انگلستان کی کونسی جماعتیں اچھی ہیں۔ اس دفعہ اس لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں کا بھی جائزہ پیش کر دیتا ہوں۔ نمبر 1 سکنتھورپ ہے، یہ پہلے پیچھے تھے، مَیں نے ان کو کہا تھا کہ اکثر ڈاکٹر ہیں اور آگے آسکتے ہیں تو ان کا فی کس چندہ 237 پاؤنڈ ہے، دوسرے نمبر پر مسجد فضل لندن ہے اس کا 100 پاؤنڈ فی کس ہے، تیسرے نمبر پر ووسٹر پارک ہے ان کا 80پاؤنڈ ہے، چوتھے نمبر پر نیو مولڈن ہے ان کا 68پاؤنڈ ہے۔ پانچویں نمبر پر برمنگھم ہے یہ 41پاؤنڈ ہے۔
لیکن یہ تو مَیں نے بڑی جماعتیں لی ہیں، بعض چھوٹی جماعتیں بھی ہیں، جن کی تعداد بھی تھوڑی ہے لیکن وہاں اچھے کمانے والے ہیں اس لئے ان کے فی کس چندے اس لحاظ سے بڑھ گئے ہیں۔ ان کی اگر تعداد کو دیکھیں تو15-10-8 آدمی ہیں۔ شاید ان کو یہ خیال ہو کہ اگرچہ تھوڑے ہیں لیکن ہمارا بھی ذکر ہونا چا ہئے تو اس لحاظ سے مَیں ذکر کر دیتا ہوں کہ سکنتھورپ پھر بھی پہلے نمبر پر ہی ہے، 237کے حساب سے۔ اور ڈیون کارنوال جو ہے 158 پاؤنڈ نمبر 2ہے یہاں تھوڑے سے احمدی ہیں۔ سپن ویلی میں 117 پاؤنڈ اور ساؤتھ ایسٹ لندن میں 102 پاؤنڈ فی کس اور مسجد فضل لندن 100فی کس (جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے) لیکن اگر بڑی تعداد کے حساب سے دیکھیں تو مسجد فضل دوسرے نمبر پر ہے اور مجموعی قربانی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔
امریکہ والوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے نام بھی لے دئیے جائیں تو ان کی وصولی کے لحاظ سے یا ادائیگی کے لحاظ سے نمبر ایک سلی کان ویلی، نمبر2شکاگو ویسٹ، نمبر3 نارتھ ورجینیا، نمبر4لاس اینجلس ایسٹ اور نمبر5ڈیٹرائٹ۔
اللہ تعالیٰ ان سب چندہ دہندگان کو بہترین جزا دے۔ ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ ان کے پاک مالوں کو بڑھاتا چلا جائے اور یہ سب تمام قدرتوں کے مالک خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کرنے والے بنیں۔ اُن خصوصیات کے حامل بنیں جو مومنین کی جماعت کا خاصّہ ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ گزشتہ سال شامل ہونے والوں کے اعداد و شمار میں غلطی سامنے آئی ہے ایک تو جماعتیں، خاص طور پر افریقن ممالک میں اعداد و شمار کو خاص طور پر چیک کیا کریں۔ دوسرے گو کہ زیادہ ادائیگی کرنے والی جماعتوں کے شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن افریقہ کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں بہت ساری گنجائش موجود ہے اور اگر وہاں مبلغین اور عہدیداران کوشش کریں تو یہ تعداد میرے خیال میں اگلے سال دوگنی بھی ہو سکتی ہے۔ اگرسستی ہے تو کام کرنے والوں کی ہے جن کے سپرد ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ جس سعید فطرت نے احمدیت قبول کی ہے اس نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور مومنین کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے احمدیت قبول کی ہے۔ عہدیداران بھی اور مربیان بھی اُسے جب تک ان باتوں کا صحیح ادراک نہیں پیدا کروائیں گے ان کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ان تحریکات کی کیا اہمیت ہے۔ پس جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نومبائعین کو خاص طور پر ضرور شامل کریں۔ چاہے وہ معمولی سی رقم دے کر شامل ہوں اور اُن کو اُن خصوصیات میں سے کسی سے بھی محروم نہ رہنے دیں جو مومنین کی جماعت کا خاصّہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر فرد جماعت اور عہدیداران کو اس روح کو سمجھنے کی توفیق دے اور قربانیوں میں بڑھنے کی توفیق دے۔
ایک افسوسناک خبر بھی ہے، ہمارے سیرالیون کے رہنے والے ایک مبلغ یوسف خالد ڈوروی صاحب گزشتہ دنوں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

انہوں نے پاکستان میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی تعلیم حاصل کی، جامعہ پا س کیا اور اس کے بعد پھر سیرالیون میں مختلف ریجنز میں خدمات بجا لاتے رہے۔ گزشتہ سال بلکہ اس سال ہی جماعت کے نائب امیر اوّل مقرر ہوئے تھے اور وفات کے وقت جامعہ احمدیہ سیرالیون کے پرنسپل تھے۔ جہاں بھی ان کو خدمت کا موقع ملا، ہمیشہ نہایت محنت سے، اخلاص سے اور جانفشانی سے خدمات بجا لاتے رہے۔ پاکستان میں قیام کے دوران ہی ولیہ صاحبہ سے آپ کی شادی ہو گئی تھی۔ ان کا نام حلیمہ بھی ہے۔ یہ وہی بچی ہیں جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ 1970ء میں اپنے دورہ سیرالیون سے واپسی پر پاکستان ساتھ لے کر آئے تھے اور گھر میں ہی بیٹی بنا کر بچوں کی طرح رکھا۔ 28؍ اکتوبر کو، ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی میٹنگ میں آئے ہوئے تھے وہیں اچانک بیہوش ہو گئے اور ٹسٹ (Test) وغیرہ سے پتہ لگا کہ ہیپاٹائٹس ہے۔ بہرحال ایک دن بعد ہی Comaمیں چلے گئے اور 2؍نومبر کو وفات ہوئی ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

اللہ کے فضل سے موصی تھے اوربڑے فدائی، خدمت گزاراحمدی تھے۔ اس سے پہلے بھی ہمارے دو مبلغین وہاں وفات پا چکے ہیں جو جامعہ سے پاس شدہ تھے۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پر چلنے والے اور بہت سارے مبلغین ہمیں عطا فرمائے جو قربانی کا جذبہ رکھنے والے ہوں اور ان لوگوں سے بڑھ کر خدمات دینیہ انجام دینے والے ہوں کیونکہ آئندہ آنے والا بوجھ افریقہ پر بہت بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ انہیں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو اس تربیت کے کام کو سنبھالنے والے بھی ہوں۔ مرحوم کی اہلیہ حلیمہ ولیہ صاحبہ اور چار بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر کی توفیق دے، ان کا کفیل ہو، مرحوم کے درجات بلند فرمائے، ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں میں جگہ دے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا :مجھے یہ کہنا یاد نہیں رہا تھا ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد میں یوسف ڈوروی صاحب کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں