خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15فروری 2008ء

اللہ تعالیٰ نے تزکیہ نفس کے لئے، برائیوں سے بچنے کے لئے نماز کو ایک بہت بڑا ذریعہ قرار دیا ہے
ہر احمدی کی اپنی ذات کے بارے میں بھی اور بحیثیت نگران اپنے بیوی بچوں کے بار ے میں بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس تزکیہ کی طرف توجہ دے۔
پانچ نمازیں تو نیکی کا وہ بیج ہے جس نے پھلدار درخت بننا ہے۔ نمازیں روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے ایک بنیادی چیز ہیں جس کے بغیر انسان کا مقصد پیدائش پورا نہیں ہوتا۔
ہر احمدی کوکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرے اور اس کے لئے بھرپور کوشش کرے کیونکہ ایک مومن پر ان کا وقت پر ادا کرنا بھی فرض ہے جو اللّہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے
ڈنمارک کے ایک اخبارمیں آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرکے توہین آمیزاور ظالمانہ کارٹونوں کی اشاعت پر ایک زبردست انذار
ایک اصولی بات اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ جو بار بارایک جرم کرنے والے ہوں اور باز نہ آتے ہوں پھر وہ ان سے انتقام بھی لے سکتا ہے۔ ان کے لئے جو اس قسم کے گھناؤنے فعل کرنے والے ہیں، غلط حرکات کرنے والے ہیں ان کے لئے تو وہ کافی ہے۔ کس طرح اس نے پکڑنا ہے وہ خدا بہتر جانتا ہے۔ ہمارا کام انہیں سمجھانا تھا۔ اتمام حجت کرنا تھی جو ہم نے کر دی اور خوب اچھی طرح کر دی۔ مضمون بھی لکھے۔ اخباروں میں خط بھی لکھے، ان لوگوں کو ملے بھی، ان سے میٹنگز بھی کیں۔ تب بھی اگر ان لوگوں نے باز نہیں آنا تو ہمیں اب معاملہ خداتعالیٰ پہ چھوڑنا چاہئے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ خدا کے آگے جھکیں اور پہلے سے بڑھ کر اس رسولؐ کے پاک اسوہ کو قائم کرنے کی اور اپنی زندگیوں پرلاگو کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے لئے آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 15فروری 2008ء بمطابق 15 تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءوَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُوْنَ (العنکبوت:46)

جیسا کہ ہراحمدی جانتا ہے کہ چودھویں صدی میں آنحضرت ﷺ کے ایک غلام صادق کا ظہور ہونا تھا جس نے ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا۔ اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کا ظہور ہوا اور ہم ان خوش قسمتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اس مسیح و مہدی کی بیعت میں آکر اس کی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ لیکن کیا ہم اس بیعت میں آنے سے وہ مقصد پورا کرنے والے بن جاتے ہیں جس کے لئے آپؑ مبعوث ہوئے تھے یا جو یہ بیعت ہم پر ذمہ د اری ڈالتی ہے۔ وہ ذمہ داریاں جن کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ملنے والے، آپ کے حلقہء بیعت میں آنے والے، آپ کی امت بننے والے پہلوں نے نبھایا تھا؟ یقینا ہر احمدی کا یہ جواب ہو گا کہ ہاں اس مسیح و مہدی کی بیعت کرنے والے، آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے والوں پر بھی وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اولین کی ذمہ داریاں تھیں جنہیں ان لوگوں نے نبھایا اور خوب نبھایا۔ جنہوں نے آیات کو بھی سنا اور اپنا تزکیہ بھی کیا اور جب تزکیہ ہوا تو انہیں وہ مقام عطا ہوا جو انہیں باخدا انسان بنا گیا۔ جنہوں نے پھر آگے لاکھوں لوگوں کو پاک کیا۔ اگر ہماری یہ سوچ نہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام اور مقام کو سمجھنے والے نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

‘’وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)

یعنی نبی کریم ﷺ اپنی امت کے آخَرِیْنَ کا اپنی باطنی توجہات کے ذریعہ اسی طرح تزکیہ فرمائیں گے جیسا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ (عربی عبارت کا اردو ترجمہ از حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد نمبر 7صفحہ 244 مطبوعہ لندن)
پس یہ باطنی توجہات اس عاشق صادق کے ذریعہ سے، اس مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ظاہر ہونی تھیں جس نے ایک جماعت قائم کرنی تھی اور اس آخَرِیْنَ کی جماعت کو پہلوں سے ملانا تھا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں لاکھوں کا تزکیہ ہوا۔ اور ان تزکیہ شدوں نے پھر آگے ایک جماعت بنائی اور ان کی جماعت بڑھتی چلی گئی۔
اللہ تعالیٰ کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جماعت کی ترقیات کاو عدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا خدا ہے اور اس کے وعدے پورے ہوتے ہوئے ہم نے ماضی میں بھی دیکھے، آج بھی دیکھ رہے ہیں اور آئندہ بھی انشاء اللہ دیکھیں گے۔ لیکن ہر فرد جماعت کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کی ذات وعدوں کے پورا ہونے کی مصداق تب بنے گی جب اپنے تزکیہ کی طرف توجہ دے گا۔ پس ہر احمدی کی اپنی ذات کے بارے میں بھی اور بحیثیت نگران اپنے بیوی بچوں کے بار ے میں بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس تزکیہ کی طرف توجہ دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آخَرِیْنَ مِنْھُمْ کے الفاظ کے متعلق کہ کیوں یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
‘’اس آیت میں اس تفہیم کی غرض سے بھی یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ تا ظاہر کیا جائے کہ وہ آنے والا ایک نہیں رہے گا بلکہ وہ ایک جماعت ہو جائے گی جن کو خداتعالیٰ پر سچا ایمان ہو گا اور وہ اس ایمان کے رنگ و بو پائے گی جو صحابہ ؓ کا ایمان تھا۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ نمبر 220مطبوعہ لندن)
پس یہ وہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اور آپؑ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ جس کے حصول کے لئے، جس کے قائم رکھنے کے لئے اور نہ صرف اپنے اندر قائم رکھنے کے لئے بلکہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے ماحول میں بھی قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کے حصول کے لئے وہ طریق اپنانے ہوں گے جن کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے وہ اسلوب سیکھنے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں سکھائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تزکیہ نفس کے لئے ,برائیوں سے بچنے کے لئے نماز کو ایک بہت بڑا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں وہ فرماتا ہے کہ

اُتْلُ مَااُوْحِیَ اِلَیْک مِنَ الْکِتَابِ

کہ جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے پڑھ۔ اور نہ صرف پڑھ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ

اُتْلُ مَااُوْحِیَ اِلَیْک مِنَ الْکِتَاب

جوکتاب میں سے تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے پڑھ اور پڑھ کر سنا۔ وَاَقِمِ الصَّلوٰۃ اور نمازکو قائم کر۔

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءوَالْمُنْکَر

یقینا نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے

وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ۔

اور اللہ کا ذکر یقینا سب ذکروں سے بڑا ہے۔

وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُون

اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
اس آیت میں جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں دیکھا کہ جہاں تلاوت کرنے کا حکم ہے، اس پیغام کو پہنچانے کا حکم ہے وہاں ساتھ ہی فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوٰۃ کہ نماز قائم کر کیونکہ اس کو تمام لوازمات کے ساتھ قائم کرنا اور خالص ہو کر پڑھنا، پاک کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ یہ قرآن جو تزکیہ کرنے کی تعلیم سے پُر ہے اس پرعمل کرنے کی توفیق خدا کی مددسے ملے گی۔ پس جب ایک مومن بندہ خالص ہو کر اس کے آگے جھکے گا اور اس پر اس تعلیم کا اثر ہو گا اور برائیوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوگا اور پھر خالص ہو کرادا کی گئی نمازیں بعد میں بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبانوں کو تر رکھنے کی طرف توجہ دلائیں گی تو ایسا شخص یقینا اپنے نفس کا تزکیہ کرنے والا ہو گا۔
پس نماز کی طرف توجہ ہر احمدی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن کس طرح؟ کیا صرف ایک دو نمازیں ؟ نہیں، بلکہ پانچ وقت کی نمازیں۔ اگر یہ نہیں تو عبادت کے معیار حاصل کرنے کا ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ پہلوں سے ملنے کے لئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ پانچ فرض نمازیں تو وہ سنگ میل ہے جہاں سے معیاروں کے حصول کا سفر شروع ہونا ہے۔ پانچ نمازیں تو نیکی کا وہ بیج ہے جس نے پھلدار درخت بننا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے، اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ ‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم۔ بحوالہ مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رُو سے جلد اول صفحہ 143)
جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس بیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہو گا اور اس کی پرورش کرنی ہو گی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے۔ اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر، ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہو اور پھل پھول بھی دیتا ہو، ہر برائی سے ہماری حفاظت کر ے۔ پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہوگی۔ پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے۔
پس ہر احمدی خود اپنے جائزے لے، اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا ہم اپنی اس شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیاہم اس طرح پہچانے جاتے ہیں کہ عابد بھی ہیں اور اعلیٰ اخلاق بھی اپنے اندر رکھے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہیں۔ یہ جائزے جو ہم لیں گے تو یہ جائزے یقینا ہمارے تزکیہ کے معیار کو اونچا کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:
‘’نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔ پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے۔ … جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اُس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (البدر جلد 2نمبر4 مورخہ13 فروری1903ء صفحہ27)
پھر فرماتے ہیں :
’’اپنے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت و عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر کوئی شیٔ نہیں ہے کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک (حیثیت کے آدمی کو) پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے باربار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں۔ کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خداتعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے کہ اسے اس امر پریقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں۔ اگر اسے لہر آجاوے تو ابھی دے دیوے۔ بڑی تضرّع سے دعا کرے۔ ناامیداور بدظن ہرگز نہ ہو وے۔ اور اگر اس طرح کرے تو(اس راحت کو)جلدی دیکھ لے گا اور خداتعالیٰ کے اَوراَورفضل بھی شاملِ حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا۔ تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہئے۔ مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے لاپرواہ ہے اور خداتعالیٰ بھی اس سے لاپرواہ ہے۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کوبھی پرواہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو‘‘۔
(البدر جلد 2نمبر4 مورخہ13 فروری1903ء صفحہ28)
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جس ہتھیار کی ضرورت ہے وہ نماز ہے۔ اور شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہے گا کہ یہ ہتھیار مومن سے چھن جائے۔ پس جس طرح ایک اچھا سپاہی کبھی اپنا ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے نہیں دیتا۔ ایک حقیقی مومن بھی کبھی اپنے اس ہتھیار کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت ہے کہ برائیوں کی طرف بار بار توجہ جاتی ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی ایک مستقل عمل چاہتی ہے اور اس کی مستقل حفاظت کے لئے، اس مستقل عمل کو جاری رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔ فرمایا ہے

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْن (البقرۃ:239)

کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔ تو یہ ایک اصولی بات بتا دی کہ نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر درمیانی نماز کا خیال کرو۔ مختلف مفسرین نے درمیانی نماز کی اپنے اپنے ذوق یا علم کے مطابق تفسیر کی ہے۔ کسی نے تہجد کی نماز، کسی نے فجر کی نماز، کسی نے ظہر و عصر کی نماز مراد لی ہے۔ بہرحال یہاں ایک اصولی ہدایت آگئی کہ صَلٰوۃُ الْوُسطی کی حفاظت کرو اور ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے درمیانی نماز وہ ہے جس میں دنیاداری یا سستی اسے نماز قائم کرنے سے روکتی ہے یا نماز سے غافل کرتی ہے، جب شیطان اس کی توجہ نماز کی بجائے اور دوسری چیزوں کی طرف کروا رہا ہوتا ہے۔ پس اس وقت اگر ہم شیطان سے بچ گئے اور اس کواپنے اوپرحاوی نہ ہونے دیا تو سمجھو کہ ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جب یہ صورت ہو گی توجیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے پھر نماز ہماری حفاظت کرے گی۔ فرضوں کی حفاظت سنتیں کریں گی اور سنتوں کی حفاظت نوافل کریں گے اور یہی ایک مومن کی پہچان ہے۔ اور جب یہ حالت ہو گی تو پھر شیطان کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا۔ ایسے لوگوں کے قریب بھی شیطان پھٹکا نہیں کرتا۔ پس یہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہی حالت ہے جو حقیقی فرمانبرداری کی حالت ہے اور یہی حالت ہے جو بیعت کرنے کے بعد پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والی حالت ہے۔
پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی مسلمان پر خاص طور پر فرض ہے کیونکہ اس نے اپنے اس عہد کی تجدید کی ہے کہ میں اپنی پرانی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔ جب یہ عہد باندھا ہے تو اس عہد کو مضبوط تر کرنے کے لئے، فرمانبرداری کے کامل نمونے دکھانے کے لئے ان راستوں پر بھی چلنے کی کوشش کرنی ہو گی جن سے یہ عہد بیعت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے اور جس سے شیطان سے جنگ کرنے کی قوت ملتی ہے۔ جس سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے راستے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور جس سے ایک مومن فَرْعُھَافِی السَّمَاءکے نظارے دیکھتے ہوئے اپنی دعاؤں کو عرش تک پہنچتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جس سے ایک مومن نیکیوں کے معیار بلند ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جس سے قبولیت دعا کے نشان مومن پر ظاہرہوتے ہیں۔ پس جبکہ یہ معیار حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی اپنے دل میں شدید خواہش اور تڑپ رکھتا ہے تو پھر نمازوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ایک تڑپ کے ساتھ ضرورت ہے۔ یعنی ہماری نمازوں کے معیار بھی بلند ہوں اس کے لئے بھی ایک تڑپ پیدا کرنی ہو گی۔ آج کی دنیا میں مصروفیت کے نام پر بعض نمازیں جمع کر لی جاتی ہیں۔ بعض جائز مجبوریاں ہوں تو ٹھیک ہے لیکن بغیر مجبوری کے بھی بعض لوگوں کا معمول ہوتا ہے کہ نمازیں جمع کر لیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نماز کا وقت مقرر فرمایا ہے اور دن کی پانچ نمازیں مقرر فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْھُوْدًا (بنی اسرائیل:79)

کہ سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اورفجر کی تلاوت کو بھی اہمیت دے یقینا فجر کے وقت قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے۔
اس آیت میں صلوٰۃ کے مختلف اوقات کا ذکر ہے۔ ظہر کی نماز سے شروع کیا گیا ہے اور فجر تک کے اوقات بیان فرما دئیے ہیں اور نمازکے یہ پانچ اوقات رکھنے کی حکمت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں وضاحت فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘’خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں۔ اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا’‘۔ پہلی بات یہ یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا۔ ’’اورپھر ایسی حالت جب نومیدی… پیدا ہوتی ہے اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا۔ اور پھر صبح رحمت الٰہی کی یہ پانچ وقت ہیں جن کا نمونہ پانچ نمازیں ہیں ‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم (یاداشتیں صفحہ7) روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 422مطبوعہ لندن)
پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘’یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں۔ یہ کوئی تحکُّم اور جبر کے طور پر نہیں ‘‘۔ جبر نہیں کیا گیا کہ ضرور پڑھو۔ ’’بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْس

یعنی قائم کرو نماز کو دُلُوْکِ الشَّمْس سے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوٰۃ کو دُلُوْکِ شَمْس سے لیا ہے۔ دُلُوْک کے معنوں میں گو اختلاف ہے۔ لیکن دوپہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام دُلُوْک ہے۔ اب دُلُوْک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں۔ اس میں حکمت اور سر کیا ہے؟ قانون قدرت دکھاتاہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی دُلُوْک ہی سے شروع ہوتے ہیں۔ اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں۔ پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حزن اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں۔ اس وقت جبکہ انسان پہ کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے۔ اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر نالش ہو‘‘۔ کوئی کیس ہو جائے’’تو سمن یا ورانٹ آنے پر اس کو معلوم ہو گا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے۔ اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا۔ کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو اس قسم کے تردُّ دات اور تفکرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دُلُوْک ہے۔ اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے۔ اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہو۔ فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہو رہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے۔ یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے۔ کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں۔ جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرار داد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور ناامیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی۔ یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے۔ پھر جب حکم سنایا گیا اور کنسٹبل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے۔ یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہرہوئی۔ اور

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً

کے حالات کا وقت آگیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے‘‘۔
(رپورٹ جلسہ سالانہ1897 ء صفحہ166-167)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو اقتباس میں نے پڑھا اس میں انسان کی دنیاوی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مثال دے کر آپؑ نے سمجھایا کہ دُلُوْک کے مختلف معانی ہیں۔ دُلُوْک کے تین معانی لغت میں ملتے ہیں۔ بعض لغات ان تینوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ سورج کا زوال۔ دوسر ے اس کے معنی یہ ہیں جب سورج پر زردی آنی شروع ہوتی ہے۔ اس وقت کو بھی دُلُوْک کہتے ہیں۔ اور اس کے تیسرے معنی سورج کے غروب ہونے کے بھی ہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو سامنے رکھتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ دُلُوْک یعنی سورج کا سایہ بڑھنے سے شروع کر کے نماز کے اوقات رکھے گئے ہیں۔ اور اس میں کیا حکمت ہے اور کیا وجہ ہے؟ پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ اگر دنیاوی مثال سے اس کو دیکھا جائے تو ایک انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کی کیسی عاجزی اور پریشانی کی حالت ہوتی ہے مثلاً کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہو جائے تو اسے بہت سی فکریں دامنگیر ہو جاتی ہیں۔ وکیل کرنے کی فکر ہوتی ہے پھر پتہ نہیں لگتا کہ وکیل ملے یا نہ ملے۔ اگر ملے تو کیا ہو؟ مقدمہ بھی صحیح طریقے پر لڑ سکے یا نہ لڑسکے۔ پھر فیصلہ کیا ہو۔ تو اس کی ایک عجیب حالت ہوتی ہے۔ عجیب مایوسی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور اس میں پھر وہ بے چین ہو کر اس حالت سے بچنے کی کوشش کرتاہے۔ ہاتھ پیر مارتا ہے۔ جو جو خیالات آتے ہیں ان کے حل کی تلاش کی کوشش کرتاہے۔ تو سورج کے زوال کے ساتھ اس دنیاوی مثال کے مقابلے پر ظہر کی نماز ہے جس میں ایک انسان کو اپنی روحانی حالت پر غور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے اور اس سے مدد مانگنی چاہئے۔ پھر دنیاوی مقدمات میں وارنٹ آنے کے بعد اسے کمرہ عدالت میں کھڑاہونا پڑتا ہے۔ کورٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے جہاں جج اس کا مقدمہ سنتا ہے، جہاں اسے سوال جواب ہوتے ہیں، جرح ہوتی ہے، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ایک انسان کوشش کرتاہے یا معافی مانگ رہا ہوتاہے۔ پس عصر کی نماز کی یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں سے بچائے اور معاف فرمائے۔ سارے دن میں جو شام تک غلطیاں ہوئی ہیں ان سے معاف فرمائے۔ روحانی حالت کو قائم رکھے۔ پھر مثال دی کہ عدالت میں فرد جرم لگ گئی ہے۔ عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ تو اس وقت میں یہ خیال آجاتا ہے کہ جب خلاف فیصلہ کر دیا تو اب سزا ملے گی۔ بے چینی اور مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ پس مغرب کی نماز اس کے مقابلے پر رکھی ہے کہ ایک مومن جب اپنے دن کو دیکھتا ہے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنے اعمال کو دیکھتا ہے تو کچھ نہیں لگتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور اس کی مغفرت اور پناہ کا طلبگار ہوتا ہے۔ تو یہ مغرب کی نماز ہے۔ پھر فرمایا آخر فرد جرم لگنے کے بعد عدالت ثابت کر دیتی ہے کہ ہاں تم ملزم ہوتو پولیس کے حوالے کر دیتی ہے۔ سزا شروع ہو جاتی ہے تو اس کے مقابلے پر عشاء کاو قت ہے۔ رات اندھیری ہے۔ اس کو اب کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا۔ کال کوٹھڑی میں ایک ملزم ڈال دیاجاتا ہے۔ تو سارے دن کے اعمال ایک مومن کی نظروں کے سامنے گھومنے چاہئیں۔ اس کی ایسی حالت میں جو عشاء کی نماز پڑھ رہا ہے۔ جس طرح جیل کی کوٹھڑی میں بند ایک مجرم بے چین ہو ہو کر اپنی رہائی اور رحم مانگ رہا ہوتا ہے۔ رات کو ایک مومن کو بھی یہ احساس دلانا چاہئے کہ یہ جو راتیں ظاہری طور پر آرہی ہیں۔ کہیں ایسی راتیں میری روحانی زندگی پر نہ آجائیں۔ کہیں یہ راتیں لمبی نہ ہو جائیں۔ میرے پنہانی گناہ اور ظلم کہیں مجھے شیطان کی گود میں مستقل نہ پھینک دیں۔ وہ بے چین ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے اللہ! اس ظاہری اندھیرے کی طرح میری روحانی زندگی بھی کہیں مستقل اندھیروں کی نظر نہ ہو جائے۔ مجھے اپنی پناہ میں لے لے اور مجھ پرہمیشہ وہ سورج طلوع رکھ جو میری روحانی زندگی پر نہ کبھی زوال آنے دے، نہ اندھیروں میں بھٹکوں۔ پس اس کے لئے عشاء کی نماز ہے۔ اس میں وہ یہ دعائیں کرتا ہے اور آخر کو جس طرح قیدی آزاد ہو کر باہر کی دنیا کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ ایک مومن فجر کی نماز کو دیکھ کر اسی طرح خوشی کا اظہار کرتا ہے کہ اے اللہ! جس طرح یہ دن چڑھ رہا ہے میری روحانی زندگی پر بھی ہمیشہ دن چڑھا رہے اور کبھی اندھیروں میں نہ بھٹکوں۔
پس نماز کے پانچ اوقات روحانی حالت کا جائزہ ایک مومن کے سامنے رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً کی حالت کا وقت آگیا تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مومن کو فجر کی نماز میں سست نہیں ہونا چاہئے۔ یہ یُسر اور آسانی پیدا کرنے کا وقت ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے بستروں کو اپنی آرام کی جگہ نہ سمجھو۔ اب اگر آرام دیکھنا ہے، اپنی روحانی حالت سنوارنی ہے، اللہ تعالیٰ کے پیارکوجذب کرناہے تو فجر کی نماز کی بھی حفاظت کرواور جب ہر دن کا سفر اسی سوچ کے ساتھ شروع ہوگا اور اسی سوچ پہ ختم ہوگا تو پھر وہ حالت ہو گی جب ہر صبح یہ گواہی دے گی کہ تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام یہ گواہی دے گی کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ اور یہی حالت ہے جو ایک مومن میں انقلاب لانے کا باعث بنتی ہے۔
پس اس بات کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ نمازیں روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے ایک بنیادی چیز ہیں جس کے بغیر انسان کا مقصد پیدائش پورا نہیں ہوتا۔ پس ہر احمدی کوکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرے اور اس کے لئے بھرپور کوشش کرے کیونکہ ایک مومن پر ان کا وقت پر ادا کرنا بھی فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَوْقُوْتًا (النساء:104)

کہ یقینا نماز مومنوں پرایک وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس اہم رکن کی ادائیگی کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں۔ آنحضرت ﷺ کے جس کام کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اس کو پورا کرنے میں آپ کاہاتھ بٹانے والے ہوں۔ اور ہم آپ کے مددگار اور ہاتھ بٹانے والے اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک ہم اپنا تزکیہ کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اور تزکیہ نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے اورا نہیں وقت پر ادا کرنے والے نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ بڑے درد کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔ اگرسارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے۔ نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے۔ جیسے بیمار کو شرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا۔ یہ دین کو درست کرتی ہے۔ اخلاق کو درست کرتی ہے۔ دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے اور لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہو تے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے۔ ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔ نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے۔ اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے نماز بنائی ہے‘‘۔ کہ ایک بندے کا اور خدا کا جو ہمیشہ کا تعلق ہے اس کو قائم رکھنے کے لئے نماز بنائی ہے۔ ’’اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے۔ جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے۔ جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہو تی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے۔ ایسا ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دروازہ بند کرکے دعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی۔ جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ591-592 جدید ایڈیشن)
یعنی اگر بندے اور رب کا تعلق نہیں ہے تو انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
دوسری بات، یہ افسوسناک خبر بھی ہر احمدی کے علم میں ہے جو ہمارے دلوں کو زخمی کرنے والی بھی ہے۔ اکثر نے سنی ہو گی، اخباروں میں بھی پڑھی ہو گی۔ ڈنمارک کی اخبار نے ایک ظالمانہ اور گھٹیا سوچ کا پھر مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے دل کا گند اور اندرونی کینے اور بغض کا پھر اظہار کیا ہے اور بہانہ یہ کیا کہ ہم یہ بدلے لے رہے ہیں کہ پولیس نے ان تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ایک کارٹون بنانے والے کو مارنا چاہتے تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرکے جو عجیب شکلیں بنائی تھیں۔ جب پولیس نے پکڑ لیا ہے، اگر یہ الزام صحیح ہے تو پھر قانون سزا دے رہا ہے۔ پھر ان کاکیا جواز ہے کہ باقی مسلمان امت کا بھی دل دکھائیں، دوسرے مسلمانوں کا بھی دل دکھائیں ؟کہتے ہیں کہ ہم بڑے انصاف کے علمبردار ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا دوسروں کو دی جائے؟ اگر ان کا یہی انصاف ہے تو پھر ایک منصف احکم الحاکمین آسمان پر بھی بیٹھا ہے جو اس کائنات کا مالک ہے۔ وہ بھی پھر اپنا انصاف کرے گا جو غالب بھی ہے، ذوانتقام بھی ہے۔ یہ ایک اصولی بات اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ جو بار بارایک جرم کرنے والے ہوں اور باز نہ آتے ہوں پھر وہ ان سے انتقام بھی لے سکتا ہے۔ ۔ ان کے لئے جو اس قسم کے گھناؤنے فعل کرنے والے ہیں، غلط حرکات کرنے والے ہیں ان کے لئے تو وہ کافی ہے۔ کس طرح اس نے پکڑنا ہے وہ خدا بہتر جانتا ہے۔ ہمارا کام انہیں سمجھانا تھا۔ اتمام حجت کرنا تھی جو ہم نے کر دی اور خوب اچھی طرح کر دی۔ مضمون بھی لکھے۔ اخباروں میں خط بھی لکھے، ان لوگوں کو ملے بھی۔ ان سے میٹنگز بھی کیں۔ تب بھی اگر ان لوگوں نے باز نہیں آنا تو ہمیں اب معاملہ خداتعالیٰ پہ چھوڑنا چاہئے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ خدا کے آگے جھکیں اور پہلے سے بڑھ کر اس رسولؐ کے پاک اسوہ کو قائم کرنے کی اور اپنی زندگیوں پرلاگو کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے لئے آنحضرت ﷺ نے قائم فرمایا۔ ہمارا ایک مولیٰ ہے وہ مولیٰ جس کی پہچان ہمیں آنحضرت ﷺ نے کروائی ہے۔ وہ مولیٰ جس کو سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ پیارے ہیں۔ وہ سب قدرتوں والا ہے۔ وہ خود اپنی قدرت دکھائے گا انشاء اللہ۔ ہمارا کام اپنے دل کے زخم اس کے حضور پیش کرنا ہے۔ اس کے آگے گڑ گڑانا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے۔ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا ہے۔ اور یہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر کرنا چاہئے اور ہر احمدی کی اب مزید ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوں تو پہلے سے بڑھ کر اس پر قائم ہو جائیں۔ پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں، پہلے سے بڑھ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجیں اور یہی چیزیں ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناکامی دکھانے والی بنیں گی اور ہماری فتح ہو گی۔
اپنے جذبات کے اظہار کے لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریمؐ کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت توہین سے ان کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ میں ان کو یاد کرتے ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔ اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کرلیں تو یہ ممکن ہے مگرہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کرسکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے‘‘۔ (مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمۂ معرفت صفحہ14)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’اوراس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے۔ اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگریہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریمؐ کی گئی، دکھا‘‘۔
(آئینہ کمالات ِ اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ51-52)
اے اللہ! یہ جو اپنی طاقت کے زعم میں ہمارے دل دکھا رہے ہیں تُو اس کا مداوا کر کیونکہ تو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں