خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍جنوری 2009ء

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت قرآنی معیاروں اور خداکی تائید سے ثابت ہے۔
جماعت احمدیہ پر طلوع ہونے والا ہر دن اس با ت کی گواہی دیتاہے کہ آپ یقینا سچے ہیں
قرآنی اصول
’’لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا‘‘
کی پُرمعارف تشریح
اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الکافی‘‘ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تائید و حفاظت کے خدائی نشانوں کا ایمان افروز تذکرہ
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 30؍جنوری 2009ء بمطابق30؍صلح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ ہر احمدی پر بڑا واضح اور عیاں ہے۔ جیساکہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت کَافِیْ کے حوالہ سے ذکر کیا تھا کہ عشق و محبت کے اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے جو آپؑ کو آنحضرت ﷺ سے تھا، آپؑ اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے بن گئے اور آپ کے بے شمار الہامات جن میں عربی، اُردو وغیرہ کے الہامات شامل ہیں، اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض قرآنی آیات کے حصے جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا آپؑ کو الہاماً بتائے اور جماعت احمدیہ پر طلوع ہونے والا ہر دن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے الہامات یقینا سچے اور آپؑ کا دعویٰ یقینا سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا، خاص طور پرنبوت کا جھوٹ منسوب کرنے والا کبھی بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ اصول قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الحاقہ کی آیات میں فرماتا ہے

وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْا َقَاوِیْلِ۔ لَا َخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنِ۔ وَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِیْنَ(الحاقۃ:48-45)

یعنی اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم ضرور اسے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم یقینا اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی ایک بھی(ہمیں)اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
پس یہ ایک اصولی معیار ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس معیار کو اپنی سچائی کے طورپر پیش فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’صادق کے لئے خداتعالیٰ نے ایک اور نشان بھی قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ اگر تُو مجھ پر تَقَوَّل کرے تو مَیں تیرا داہنا ہاتھ پکڑ لوں۔ اللہ تعالیٰ پر تَقَوَّل کرنے والا مفتری فلاح نہیں پا سکتا بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے اور اب پچیس سال کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ خداتعالیٰ کی وحی کو مَیں شائع کر رہا ہوں۔ اگر افتراء تھا تو اس تقول کی پاداش میں ضروری نہ تھا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرتا ؟بجائے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صد ہا نشان میری تائید میں ظاہر کئے اور نصرت پر نصرت مجھے دی۔ کیا مفتریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ اور دجالوں کو ایسی ہی نصرت ملا کرتی ہے؟ کچھ تو سوچو۔ ایسی نظیر کوئی پیش کرو اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہرگز نہ ملے گی‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم صفحہ 456۔ الحکم جلد 7مورخہ 21؍فروری 1903ء صفحہ 8)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تُو ایک افتراء مجھ پر باندھتا تو مَیں تیری رگ گردن کاٹ دیتا۔ جیسا کہ آیت

وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْا َقَاوِیْلِ۔ لَا َخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْن

سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتراء خداتعالیٰ پر ہو اور خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کو نہ برتے۔ بدی کرنے میں اور جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی۔ آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے۔ لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ مَیں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خداتعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے اور بالمقابل ہمیشہ تائید ات پر تائیدات کر رہا ہے۔ پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں۔ یہ نعمت اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم صفحہ 456۔ الحکم جلد 8مورخہ 17-10؍جون 1904ء صفحہ 6)
پھر فرمایا:’’اگر کوئی شخص تَقَوَّلْ عَلَی اللّٰہ کرے تو وہ ہلاک کر دیا جاوے گا۔ خبر نہیں کیوں اس میں آنحضرت ﷺ ہی کی خصوصیت رکھی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر تَقَوَّلْ عَلَی اللّٰہ کرے تو ان کو توگرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پرواہ نہ کی جاوے۔ نعوذباللہ اس طرح سے تو امان اٹھ جاتی ہے۔ صادق اور مفتری میں مابہ الامتیاز ہی نہیں رہتا‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم صفحہ 457۔ الحکم جلد 12۔ نمبر 18۔ مورخہ 10؍مارچ 1908ء صفحہ 5)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ آیات تو صرف آنحضرت ﷺ کے لئے تھیں۔ کسی اور کے لئے نہیں تھیں۔ تو اس کی وضاحت فرمائی کہ کیا صرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو پکڑنا تھا؟ اور جو چاہے اللہ تعالیٰ کی طرف جومرضی جھوٹ منسوب کرتا رہے اس کے لئے کوئی پکڑ نہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا معیار رکھا ہے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا۔ جو معیار خود اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے۔ پس اس معیار پر ہر سچے کو پرکھنا چاہئے۔ اسود عنسی یا مسیلمہ کذّاب کا انجام تاریخ اسلام میں محفوظ ہے۔ کیا پھر بھی مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب پر تلے بیٹھے رہیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہنسی ٹھٹھا کرنے سے کم از کم وہ لوگ تو باز رہیں جو اس قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن لوگوں سے جونہ صرف مسلمان ہونے کا دعویٰ کرکے بلکہ اس کلام پہ اپنا عبور حاصل کرنے کا دعویٰ کرکے، اس کی باریکیوں کو سمجھنے کا دعویٰ کرکے پھر اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہ خود سمجھنا چاہتے ہیں نہ ہی عوام الناس کو سمجھنے دینا چاہتے ہیں، اس موقع پر بائبل کے حوالے سے بھی یہ ثابت کرتے ہوئے کہ جھوٹا نبی مارا جاتا ہے، یہ بائبل میں بھی ہے، فرماتے ہیں کہ:
‘’اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔ اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا روشن دین جالندھری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیااور وہ ہلاک نہ ہوئے۔ یہ ایک د وسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے۔ بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور 23 برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے اور وہ الہام پیش کرنا چاہئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں۔ اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبو ت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں کیونکہ ہماری تمام بحث وحی ٔ نبوت میں ہے۔ جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کرکے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے’‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ کون سا کلام الٰہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہئے کہ جو 23برس تک کلام الٰہی اس پر نازل ہوتا رہا وہ کیا ہے۔ یعنی کل وہ کلام جو کلام الٰہی کے دعوے پر لوگوں کو سنایا گیا ہے پیش کرنا چاہئے جس سے پتہ لگ سکے کہ 23برس تک متفرق وقتوں میں وہ کلام اس غرض سے پیش کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا کلام ہے یا ایک مجموعی کتاب کے طور پر قرآن شریف کی طرح اس دعویٰ سے شائع کیا گیا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے۔ جب تک ایسا ثبوت نہ ہو۔ تب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا اور آیت

لَوْتَقَوَّلَ

کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا ان شریر لوگوں کا کام ہے جن کو خداتعالیٰ پر بھی ایمان نہیں اور صرف زبان سے کلمہ پڑھتے اور باطن میں اسلام سے بھی منکر ہیں ‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد چہارم صفحہ 454۔ ضمیمہ اربعین نمبر 4-3 صفحہ 12-11)
پس مسلمانوں کو سوچنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ یہ معیار ہے۔ یہ پرکھ ہے جو ایک سچے اور جھوٹے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور دشمنوں کے حملوں کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے آپؑ کے لئے کافی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بڑی شان سے ایک جگہ آپؑ نے پہلے آنحضرت ﷺ کا اور پھر اس کے بعد ساتھ ہی اپنا ذکر کیا۔
آپ فرماتے ہیں :
‘’یاد رہے پانچ موقعے آنحضرت ﷺ کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے۔ جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا۔ اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے۔ ایک تو وہ موقع تھا جب کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔
دوسرا وہ موقع تھا کہ جب کافر لوگ اس غار پر مع ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت ﷺ مع حضرت ابوبکر ؓ کے چھپے ہوئے تھے۔
تیسرا وہ نازک موقع تھا جبکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپؐ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپؐ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کار گر نہ ہوئی۔ یہ ایک معجزہ تھا۔
چوتھا وہ موقع تھا جبکہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا)۔
پانچواں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت ﷺ کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔
پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخرکار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپؐ کے ساتھ تھا۔ (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23۔ صفحہ 264-263حاشیہ)
اس کے آگے وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپؑ سے بھی تائیدات کا سلوک فرماتا رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
یہ عجیب بات ہے کہ میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اول وہ موقع جبکہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلاک نے خون کا مقدمہ کیا تھا۔
دوسرے وہ موقع جبکہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا۔ تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا۔ (4) وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپورمیں میرے پر کیا تھا۔
پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی، اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا مَیں قاتل قرار دیا جاؤں۔ مگر وہ تمام مقدمات میں نامراد رہے۔ (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23۔ صفحہ263۔ حاشیہ د ر حاشیہ)
یہ دیکھیں کہ فرمایا کہ اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں جو میرا مسیحیت، نبوت اور مہدویت کا دعویٰ ہے۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کئی لحاظ سے فرما رہا ہے اور یہ مشابہت کرکے بھی فرماتا ہے۔ گو آقا کی شان بہت بلند ہے لیکن اس کی غلامی کے صدقے غلام صادق کے لئے ہے بھی اللہ تعالیٰ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ بعض اور واقعات بھی ہیں۔ پچھلی دفعہ مَیں نے کہا تھا وقت نہیں ہے۔ اس لئے پیش نہیں کئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے آپ کے سامنے خلاصتہً رکھتا ہوں۔
یہی جو ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کا ذکر ہوا ہے۔ یہ جماعت کی تاریخ میں بڑا مشہور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ مقدمہ کیا گیا تھا۔ جس میں ہندو، عیسائی مسلمان سب آپؑ کے خلاف ایک ہو گئے تھے۔ اس کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی بریت فرمائی۔ لیکن اللہ تعالیٰ استہزاء کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے یا جو آپؑ کے استہزاء کی خواہش رکھتے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے اس مقدمے میں اس کی ایک مثال مَیں پیش کرتا ہوں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاند کے ساتھ کیا سلوک فرمایا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’درحقیقت وہ خدا بڑا زبردست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے۔ دشمن کہتا ہے کہ مَیں اپنے منصوبوں سے ان کو ہلاک کر دوں اور بد اندیش ارادہ کرتا ہے کہ مَیں ان کو کچل ڈالوں مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان !کیا تُو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ درحقیقت زمین پر کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیاہے‘‘۔
اسی مقدمہ کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے مخالف کی استہزاء اور سبکی کا سامان کیا جو آپؑ کی استہزاء چاہتا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’جب مَیں صاحب ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں گیا۔ (اس مقدمے میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پیش ہوا) تو پہلے سے میرے لئے کرسی بچھائی گئی تھی۔ جب مَیں حاضر ہوا تو صاحب ضلع نے بڑے لطف اور مہربانی سے اشارہ کیا کہ تا مَیں کرسی پر بیٹھ جاؤں۔ تب محمد حسین بٹالوی اور کئی سو آدمی جو میری گرفتاری اور ذلت کے دیکھنے کے لئے آئے تھے ایک حیرت کی حالت میں رہ گئے کہ یہ دن تو اس شخص کی ذلت اور بے عزتی کا سمجھا گیا تھا مگر یہ تو بڑی شفقت اور مہربانی کے ساتھ کرسی پر بٹھایا گیا۔ (فرماتے ہیں کہ) مَیں اس وقت خیال کرتا تھا کہ میرے مخالفوں کو یہ عذاب کچھ تھوڑا نہیں کہ وہ اپنی امیدوں کے مخالف عدالت میں میری عزت دیکھ رہے ہیں لیکن خداتعالیٰ کا ارادہ تھا کہ اس سے بھی زیادہ ان کو رسوا کرے۔ سو ایسا اتفاق ہوا کہ سرگروہ مخالفوں کا محمد حسین بٹالوی جس نے آج تک میری جان اور آبروپر حملے کئے ہیں، ڈاکٹر کلارک کی گواہی کے لئے آیا تا عدالت کو یقین دلائے کہ یہ شخص ضرور ایسا ہی ہے جس سے امید ہو سکتی ہے کہ کلارک کے قتل کے لئے عبدالحمید کو بھیجا ہو۔ اور قبل اس کے کہ وہ شہادت دینے کے لئے عدالت کے سامنے آوے ڈاکٹر کلارک نے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر اس کے لئے بہت سفارش کی کہ یہ غیرمقلد مولویوں میں ایک نامی شخص ہے اس کو کرسی ملنی چاہئے مگر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے اس سفارش کو منظور نہ کیا۔ غالباً محمد حسین کو اس امر کی خبر نہ تھی کہ اس کی کرسی کے لئے پہلے تذکرہ ہو چکا ہے اور کرسی کی درخواست نامنظور ہو چکی ہے اس لئے جب وہ گواہی کے لئے اندر بلایا گیا تو جیساکہ خشک مُلّا جاہ طلب اور خودنما ہوتے ہیں۔ آتے ہی بڑی شوخی سے اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کرسی طلب کی۔ صاحب موصوف نے فرمایا کہ تجھے عدالت میں کرسی نہیں ملتی اس لئے ہم کرسی نہیں دے سکتے۔ پھر اس نے دوبارہ کرسی کی لالچ میں بے خود ہو کر عرض کہ مجھے کرسی ملتی ہے اور میرے باپ رحیم بخش کو بھی کرسی ملتی تھی۔ صاحب بہادر نے فرمایا کہ تو جھوٹا ہے۔ نہ تجھے کرسی ملتی ہے، نہ تیرے باپ رحیم بخش کو ملتی تھی۔ ہمارے پاس تمہاری کرسی کے لئے کوئی تحریر نہیں۔ تب محمد حسین نے کہا کہ میرے پاس چٹھیات ہیں۔ لاٹ صاحب مجھے کرسی دیتے ہیں۔ یہ جھوٹی بات سن کر صاحب بہادر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا‘‘۔ اُس وقت مجھے بھی محمد حسین پر رحم آیا۔ کیونکہ اس کی موت کی سی حالت ہو گئی تھی۔ اگر بدن کا ٹو تو شاید ایک قطرہ لہو کا نہ ہو اور وہ ذلّت پہنچی کہ مجھے تمام عمر میں اس کی نظیر یاد نہیں۔ پس بیچارہ غریب اور خاموش اور ترسان اور لرزان ہو کر پیچھے ہٹ گیا اور سیدھا کھڑا ہو گیا اور پہلے میز کی طرف جھکا ہوا تھا۔ تب فی الفور مجھے خداتعالیٰ کا یہ الہام یاد آیا کہ

اِنِّیْ مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَکَ

یعنی مَیں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت چاہتا ہے۔ یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں۔ مبارک وہ جو ان پر غور کرتے ہیں۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13۔ صفحہ 30-29)
اسی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اورالہام بھی ہے۔

اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِیْن

اس کا بھی خوب نظارہ یہاں نظر آتا ہے۔ وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہانت کی خواہش رکھتا تھا۔ وہ جو اس مقدمے کے فیصلے کے بعد آپؑ کی سُبکی دیکھنا چاہتا تھا اور استہزاء کا موقع تلاش کرنا چاہتا تھا، وہ خود اس بات کا نشانہ بن گیا۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی تائیدات۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایک واقعہ ہے جب آپؑ نے براہین احمدیہ شائع کی، اس وقت مختلف لوگوں کو اس کی اعانت کے لئے خطوط لکھے تو نواب صدیق حسن خان صاحب جو بڑے عالم تھے اُن کو بھی لکھا۔ بھوپال کے رہنے والے تھے اور انہوں نے دین کا علم علماء یمن اور ہندو ستان سے حاصل کیا ہوا تھا۔ پھر ریاست بھوپال کی ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے کرتے وزارت اور نیابت تک فائز ہو گئے۔ پھر ان کا نکاح اور شادی والی ٔ ریاست نواب شاہجہاں بیگم سے ہو گئی۔ پھر پوری ریاست کی باگ ڈور اور حکومت ان کے ہاتھ میں آگئی۔ حکومت برطانیہ نے اس زمانہ میں انہیں نواب والا جاہ اور امیر الملک اور معتمد المہام کے خطابات سے نوازا تھا۔ یہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان خطابات اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود اسلام کی تحریری خدمات سرانجام دیتے تھے۔ بہرحال ان میں کچھ نہ کچھ دین تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی انہیں بہت نیک اور متقی سمجھتے تھے۔ تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی۔ اس کا حصہ اوّل آیا تو آپؑ نے مختلف لوگوں کو اس کی اعانت کے لئے لکھا تھا کہ کتابیں خریدیں تاکہ دوبارہ چھپ سکیں تو ان کو بھی لکھا۔ پہلے تو انہوں نے اخلاقاً لکھ دیا کہ ٹھیک ہے ہم کچھ کتابیں خرید لیں گے لیکن خاموش ہو گئے۔ پھر جب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں یاد دہانی کروائی تو انہوں نے جواب دیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے۔ اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایک الزام لگاتے ہیں کہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے اور خود ان کے علماء اور بڑے مشہور عالم انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر کتاب خرید نہیں رہے، جو اسلام کے دفاع کے لئے لکھی گئی تھی۔ بہرحال حافظ حامد علی صاحب کہتے ہیں کہ جب ان کو پیکٹ بھجوایا گیا تو نہ صرف انہوں نے کتاب خریدی نہیں بلکہ وہ پیکٹ واپس کر دیا اور واپس بھی اس طرح کیا کہ جب انہوں نے وصول کیا تو اس کتاب کو پھاڑا اور وہی پیکٹ واپس کروا دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب کتاب کی یہ حالت دیکھی تو آپؑ کا چہرہ غصّہ سے متغیر ہو گیا اور سرخ ہو گیا۔ یکا یک آپ کی زبان پر یہ جاری ہوا کہ’’اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو’‘اور یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی عزت چاک کر دے۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امیدگاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے۔ خدا کرے کہ گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی ہو۔ (ماخوذ ازحیات طیبہ صفحہ 51)
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میر عباس علی صاحب کے نام ایک خط لکھا۔ اس میں بھی آپؑ لکھتے ہیں کہ’’ابتداء میں جب یہ کتاب (براہین احمدیہ) چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور امدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ سواس میں سے صرف نواب ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود خان صاحب رئیس چھتاری اور مدار المہام جوناگڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اوراگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تواس کا ایفاء نہیں کیا۔ بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے ناامید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘۔

تو اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کو کس طرح قبول فرمایا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس نواب صاحب کی جو انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے عزت چاک ہوئی۔ اُسی گورنمنٹ نے نواب صاحب پر مختلف الزامات لگا دئے اور ایک تحقیقاتی کمیشن ان پر بٹھایا جس نے یہ نتیجہ نکالا کہ انہوں نے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی ہے اور دوسرے بہت سارے الزامات تھے اور پھر ان سے جتنے خطابات تھے وہ سب چھین لئے گئے۔ یہاں تک کہ مسلمان جو ان کو بڑا عالم سمجھتے تھے اور ان کی بڑی عزت افزائی کیا کرتے تھے انہوں نے بھی انگریزی حکومت کو کہا کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہئے یا کیا جائے۔ تو یہ ان کی عزت کا حال تھا۔ پھر آخر میں جب بہت مجبور ہو گئے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں مختلف ذریعوں سے سفارشیں ہوئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کی تو آپؑ کو پھر الہام ہوا۔ ’’سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی‘‘۔ بلکہ لیکھرام نے طنزیہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی لکھا تھا کہ آپ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ آپ کی دعائیں سنتاہے اور آپ کے ساتھ ہے اور یہ نواب صدیق حسن خان صاحب مسلمان ہیں جو آج کل بڑی بُری حالت میں ہیں اور ان کی بڑی بے عزتی ہو رہی ہے۔ اگر آپ کی دعائیں اتنی قبول ہوتی ہیں تو ان کے لئے کیوں دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بچا لے۔ بہرحال حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اس کا تو ایک اور معاملہ ہے لیکن پھر آپؑ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے ذریعہ سے ہی عزت بحال کروائی۔
پھر ایک منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ تھے، یہ شروع میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت زیادہ عقیدتمندوں میں سے تھے اور یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاؤں دبانے کو بھی اپنی عزت سمجھتے تھے۔ لیکن پھر بعد میں یہ مخالف ہو گئے اور نہایت نازیبا الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف استعمال کرنے شروع کئے۔ پھر یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کے الہامات محض جھوٹ ہیں اور منشی صاحب خود اپنے الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں اس لئے شائع نہیں کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے خلاف حکومت میں کوئی مقدمہ نہ کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر ان کو یقین دلایا کہ آپ فکر نہ کریں۔ آپ میرے بارے میں جو بھی الہامات شائع کرنا چاہتے ہیں شائع کریں۔ جو بھی کہنا چاہتے ہیں کہیں۔ مَیں قطعاً آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کروں گا اور فرمایا کہ ’’چونکہ مجھے آسمانی فیصلہ مطلوب ہے یعنی یہ مدعا ہے کہ تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کرکے جس کا وجود حقیقت میں ان کے لئے مفید ہے، راہ راست پر مقیم ہو جائیں اور تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کر لیں جو درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے امام ہے اور ابھی تک یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے۔ صرف خدا کو معلوم ہے یا ان کو جن کو خداتعالیٰ کی طرف سے بصیرت دی گئی ہے۔ اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے۔ (یعنی یہ کہ بابو صاحب اپنے وہ تمام الہامات جو میری تکذیب سے متعلق ہیں شائع کر دیں)۔ پس اگر منشی صاحب کے الہامات درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں تو وہ الہام جو ان کو میری نسبت ہوئے ہیں اپنی سچائی کا کوئی کرشمہ ظاہر کریں گے۔ (یعنی ضرور ان کے بعد میرے پر کوئی تباہی اور ہلاکت آئے گی) اور اس طرح پریہ خلقت جو واجب الرحم ہے وہ مُسرف کذّاب سے نجات پالے گی‘‘۔ (یعنی جبکہ بابو صاحب مجھ کو کذّاب خیال کرتے ہیں کہ گویامَیں نے دعویٰ مسیح موعود کرکے خدا پر افتراء کیا ہے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا) اور اگر خداتعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا امر ہے جو اس بدظنی کے خلاف ہے تو وہ امر روشن ہو جائے گا (یعنی خداتعالیٰ کے علم میں درحقیقت مَیں مسیح موعود ہوں تو خداتعالیٰ میرے لئے گواہی دے گا) اور مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ نعوذباللہ میری طرف سے نہ کوئی آپ پر نالش ہو گی اور نہ کسی قسم کا بے جا حملہ آپ کی وجاہت اور شان پر ہو گا۔ صرف خداتعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا(یعنی یہ چاہوں گا کہ اگر مَیں مفتری نہیں ہوں اور میرے پر یہ جھوٹا اور ظالمانہ حملہ ہے تو میری بریت اور بابوصاحب کی تکذیب کے لئے خدا آپ کوئی امر نازل کرے) کیونکہ بریت کی خواہش کرنا سنت انبیاء ہے، جیسا کہ حضرت یوسفؑ نے خواہش کی تھی‘‘۔ اس پہ منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ نے ایک کتاب 400 صفحات کی لکھی اور اس میں اپنے الہامات درج کئے۔ جن میں سے بعض یہ ہیں۔
کہتے ہیں کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ’’تیرے لئے سلام ہے تم غالب ہو جاؤ گے اور اس پر (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر)غضب نازل ہو گا اور وہ ضرور ہلاک ہو جاوے گا‘‘۔
پھر یہ ہے کہ’’جیسا کہ ہزاروں مخالفین چاہتے ہیں اسی کے موافق مرزا صاحب ہلاک ہو جائیں گے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں ’’طاعون نازل ہو گی اور وہ مع اپنی جماعت کے طاعون میں مبتلا ہو جائے گا اور خدا ان ظالموں پر ہلاکت نازل کرے گا‘‘۔
پھر لکھتے ہیں کہ’’جو خدمت مجھ کو سپرد ہوئی ہے جب تک پوری نہ ہو تب تک مَیں ہرگز نہ مروں گا‘‘۔
تو یہ تھے ان کے الہامات۔ بہرحال یہ کتاب ’عصائے موسیٰ‘ جو انہوں نے لکھی تھی یہ ایک چیلنج تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہامات درج کرکے بھجوایا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کوئی بھی الہام جو انہوں نے کسوٹی مقرر کی تھی اس پر بھی پورا نہ اترا اور وہ خود اپنے ایک دوست کے جنازے میں شریک ہوئے۔ وہیں سے ان کو طاعون کی بیماری لگی۔ وہ دوست طاعون سے مرا تھا اور 1907ء میں ان کی وفات ہو گئی۔ اور پھر اخباروں نے یہ لکھا کہ افسوس مصنّف عصائے موسیٰ بھی طاعون سے شہید ہو گئے اور طاعون کے گیارہ سال تک حملے ہوتے رہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اورآپؑ کی جماعت اور آپؑ کے گھر والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت، حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت اللہ تعالیٰ کی تائید ات کے ساتھ تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اورکروڑوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں۔
پھرآپؑ کے رشتہ دار، مرزا امام دین اور مرزا نظام دین صاحب وغیرہ جو چچا زاد تھے وہ بھی آپؑ کی دشمنی میں، اسلام کی دشمنی میں ہندوؤں کے ساتھ مل گئے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے بارہ میں بڑی دریدہ دہنی کرتے تھے بلکہ لیکھرام کو بھی بلاکر انہوں نے دو مہینے تک رکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تنگ کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو ملنے کے لئے جماعت کے جواحباب آتے تھے ان کو روکنے کے لئے انہوں نے راستہ بند کر دیا۔ ایک دیوار وہاں بنا دی جس سے مسجد کا راستہ بھی رک گیا۔ آنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن بہرحال کسی طرح نہ مانتے تھے تو یہ ایک واحد مقدمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے کسی مخالف پر کیا۔ وہ بھی اس لئے کہ جماعت کے افراد کو تکلیف نہ ہو اور اس کے لئے آپؑ نے دعا بھی بہت کی تو اللہ تعالیٰ نے عربی میں آپؑ کو اس کی خبر بھی دی، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’چکی پھرے گی اور قضاء و قدر ناز ل ہوگی۔ یہ خد اکا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کو رد کر سکے کہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے۔ اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے۔ میرا ربّ اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتاجو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں۔ سو تمہیں اس مقدمے میں کھلی کھلی فتح ہو گی۔ مگر اس فیصلے میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے‘‘۔
آخر کا رباوجود اس کے کہ بظاہر وکلاء بھی شروع میں کیس جیتنے کی امید چھوڑ بیٹھے تھے آخر میں ایک ایسا کاغذ ریکارڈ سے مل گیا جس کے بعد اس مقدمہ کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں ہو گیا اور دیوار گرا دی گئی۔ بلکہ جج نے اجازت بھی دی تھی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اگر چاہیں تو ان پہ مقدمہ کریں اور ہرجانے کا دعویٰ کریں۔ کیس کا سارا خرچہ ان سے لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ نہیں کیا لیکن آپؑ کے وکیل نے وہ مقدمہ کر دیا اور جس دن عدالت کا نوٹس آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دن قادیان سے باہر تھے۔ جب نوٹس پہنچاتو مرزا امام دین تو فوت ہو چکے تھے، مرزا نظام دین کے پاس آیا اور اس وقت ان کی حالت بری ہو چکی تھی بالکل جیسا کہ الہام میں تھا۔ ان کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ جونوٹس آیا 143روپے یا کچھ اس طرح کی رقم تھی وہ ادا کرنے کی ان کی ہمت نہیں تھی۔ اس پہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کچھ تو خیال رکھیں۔ آخر ہم آپ کے رشتہ دار ہیں۔ آپؑ نے فرمایا مَیں نے تو مقدمہ نہیں کیا اوروکیل کو بھی کہہ دیا کہ کوئی ضرورت نہیں اور لکھ کے دے دیا کہ یہ لوگ گو کہ اپنے زعم میں مجھے بے عزت کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اب جبکہ مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے تو جو مقصد تھا ہمارا وہ ہمیں حاصل ہو گیا ہے۔ ہمیں جگہ مل گئی۔ اس لئے اب کسی قسم کا کوئی انتقام ان لوگوں سے نہیں لینا۔ یہ آپؑ کا اس کے مقابلہ پہ کردار تھا۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملے سے اس کو بچاتا ہے۔ اگر بدقسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملے کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22۔ صفحہ 125)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’یہ عجیب بات ہے۔ کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے۔ کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجّال تومَیں ٹھہرا مگر مباہلے کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں۔ کیا نعوذباللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ ؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الٰہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے پھر ذلت اور رسوائی بھی’‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22۔ صفحہ 238)
آپؑ نے فرمایا کہ’’ہر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو۔ یہاں تک کہ مکہ تک سے بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً 200مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دئیے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامرادرہے …۔ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ تم مخالفت کرتے اور میرے ہلاک کرنے کے لئے اس قدر تکلیف اٹھاتے بلکہ میرے مارنے کے لئے خدا ہی کافی تھا**۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22۔ صفحہ 263-262)
آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر، کفایت پر اس قدر یقین تھا جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ہوتا ہے اورصرف اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو بھی اس انتہا تک ہو سکتا ہے کہ کہیں بھی آپ کو شائبہ تک بھی نہیں۔ ذہن میں خیال تک نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری فلاں معاملے میں مدد نہیں کرے گا۔ ہاں دعا ضروری ہے۔ دعا کی طرف توجہ ہوتی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک عرب کی طرف سے ایک خط آیا کہ ’’اگر آپ ایک ہزار روپے مجھے بھیج کر اپنا وکیل یہاں مقرر کر دیویں تو مَیں آپ کے مشن کی اشاعت کروں گا‘‘۔ (کہ مجھے پیسے بھیجیں اپنا نمائندہ یہاں مقرر کر دیں مشن کی اشاعت کروں گا)۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو لکھ دو ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں۔ ایک ہی ہمارا وکیل ہے جو عرصہ 22سال سے اشاعت کر رہا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا ضرورت ہے اور اس نے کہہ بھی رکھا ہے کہ

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ46جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ فرماتے ہیں : ’’بعض ہمارے معزز دوستوں نے جو دین کی محبت میں مثل عاشق زار پائے جاتے ہیں۔ بمقتضائے بشریت کے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جس صورت میں لوگوں کا یہ حال ہے تو اتنی بڑی کتاب تالیف کرنا کہ جس کی چھپوائی پر ہزار ہا روپیہ خرچ آتا ہے بے موقع تھا۔ سو ان کی خدمتِ والا میں یہ عرض ہے کہ اگر ہم ان صد ہا دقائق اور حقائق کو نہ لکھتے کہ جو درحقیقت کتاب کے حجم بڑھ جانے کا موجب ہیں تو پھر خود کتاب کی تالیف ہی غیر مفید ہوتی۔ رہا یہ کہ اس قدر روپیہ کیوں کر میسر آوے گا۔ سو اس سے تو ہمارے دوست ہم کو مت ڈراویں اور یقین کرکے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسہ ہے کہ جو ممسک اور خسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے سو وہی قادر توانا اپنے دین اور اپنی وحدانیت اور اپنے بندے کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا۔

اَلَمْ تعلم اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْی ءقَدِیْرٌ (البقرۃ:107)۔

(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر1صفحہ70)
یہ چند ایک واقعات مَیں نے پیش کئے ہیں آپؑ کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں جو ہمیں جماعت کی تاریخ میں آپؑ کی سیرت میں ملتے ہیں۔ پھر آپؑ کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے جب بھی آپ کی جماعت کے خلاف کوئی فتنہ اٹھا جماعت کی مدد فرمائی۔ اس کے بدنتائج سے جماعت کو محفوظ رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جویہ سلسلہ قائم فرمایا تھا یہ دنیا کے ہر ملک میں ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ بعض ملکوں میں حکومتوں کی پابندیوں کے اور مخالفت کے باوجودآپؑ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے۔ باوجود کمی ٔ وسائل کے، جس کاآج کے دور میں دنیا دار جب دیکھتا ہے تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان وسائل سے کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک تو سب سے پہلے انسان کے لئے بے انتہا وسائل چاہئیں۔ اگر جماعت کا بجٹ دیکھیں تو ہماری جماعت کا ساری دنیا کا جوکُل بجٹ ہے بھی وہ دنیا کے بعض دولت مند افراد کی جو سال کی آمد ہے شاید اس سے بھی کم ہی ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان وسائل میں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائے ہیں اتنی برکت عطا فرمائی ہے، اس قدر بڑھا دیا ہے کہ وہ دنیا کو بہت نظر آتے ہیں۔ جب بھی کسی دنیا دار سے بات کرو تو ان کا یہی تصور ہوتا ہے کہ جماعت شاید مالی لحاظ سے بہت مستحکم ہے اور بے انتہا جائیدادیں اور روپیہ اس کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مستحکم ہے۔ کیونکہ صحیح رقم صحیح جگہ پر خرچ ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ گزشتہ دورے میں مَیں بینن کے صدر صاحب سے ملا۔ آج کل ان کو انویسٹمنٹ کا بڑا شوق ہے کہ میرے ملک میں انویسٹمنٹ کی جائے تو اس لحاظ سے وہ بھی شاید دنیا داری کی نظر سے ملے تھے۔ پہلا سوال انہوں نے مجھے یہی کیا کہ کتنے ملین ڈالرز کی جماعت یہاں انویسٹمنٹ کرنے والی ہے۔ تو یہ تو ان لوگوں کے تصور ہیں۔
اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو ہمارے ساتھ ہے اور ہر کام اور ہر کوشش میں وہ ہی ہماری ہمیشہ کفایت کرتا ہے اور یہ اس زندہ خدا اور اسلام کے زندہ خدا کا نشان ہے جو ہر وقت ظاہر ہوتا ہے اور جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس کو محسوس کرتا ہے بلکہ پوری دنیابھی اس کو محسوس کرتی ہے۔ یہ زمین و آسمان کا وہ مالک خدا ہے جو اپنے بندوں کو جب دنیا میں دین کی اشاعت کے لئے بھیجتا ہے تو انہیں ہر قسم کی تسلی دلاتا ہے، ہر معاملے میں یہ اعلان کرتا ہے کہ

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔

کہیں بھی مشکل آئے تو مَیں تمہاری مشکلات کو دور کرنے والا ہوں۔ مَیں تمہارے لئے کافی ہوں۔ ان کے دشمن جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا استہزا کرنا چاہتے ہیں یا استہزاء کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے بارہ میں ان پیاروں کو یہ تسلی دلاتا ہے کہ

اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِیْنَ۔

پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی اعلان فرماتا ہے کہ

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا (النساء:46)

اور اللہ تمہارے دشمنوں کو سب سے زیادہ جانتا ہے اور اللہ دوست ہونے کے لحاظ سے بھی کافی ہے اور اللہ ہی کافی ہے بطور مدد گار کے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کی، زندہ خدا کی قدرتیں اور مدد اور تائیدات اور نشانات ہیں جو ہر لمحے اور ہر قدم پر ہمیں نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حقیقت میں اس کا حق ادا کرنے والے رہیں تاکہ ہمیشہ ہمیں یہ تائیدات نظر آتی رہیں۔
یہاں مَیں ایک اور بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں گزشتہ خطبہ میں بہاء اللہ کا ذکر ہوا تھا۔ مَیں نے یہ کہا تھا کہ ایک نبوت کا دعویدار اٹھا۔ اصل میں تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایک دعویدار اٹھا اگر اس کا نبوت کا دعویٰ مانا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ نہیں تھیں۔ یہ کہنا کہ بہائی لٹریچر میں یا بہائیوں میں یہ تصور نہیں ہے کہ وہ نبی تھا تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کی اولاد میں سے ہی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ نبی تھا یا قطب تھا یا ولی اللہ تھا اور خدائی کا دعویٰ اس نے نہیں کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہاء اللہ کی اپنی جو شریعت ہے جو شائع نہیں کی گئی، چھُپی ہوئی ہے۔ اس میں اس کے اپنے خدائی کے دعویٰ کی باتیں نظر آتی ہیں۔ اصل میں اس کا نبوت کا دعویٰ بے شک نہیں تھا لیکن کیونکہ ذکر یہ ہو رہا تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ بھی مان لیا جائے تب بھی اللہ تعالیٰ نے وہ تائیدات نہیں دکھائیں کیونکہ آج کل بعض جگہوں پہ احمدیوں کو بھی بہائیوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں لوگ جھوٹے ہیں۔ تو اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ توللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں لیکن دوسری طرف بہائیوں کے ساتھ کوئی تائیدات نظر نہیں آتیں۔ اور پھریہ جو اس کا اصل لٹریچر ہے (اگر دھوکہ نہ دیا جائے تو) اس میں جو اس نے کتاب لکھی۔ اپنی شریعت جو ’اقدس ‘کے نام سے بنائی اس میں تو اس نے اپنے آپ کو الوہیت کا یا خدائی کا دعویدار ہی بنایا۔ اس لئے نبوت کی بات تو نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں اور خوداس کے بعض ماننے والے بھی کہ نبی تھا تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہمیں نظر نہیں آرہیں۔ لیکن مَیں اس کے بارہ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ بعض لا علم لوگ ان کے گھیرے میں آجاتے ہیں۔ افریقہ میں بھی، پاکستان میں بھی بعض لوگ ہیں۔ بعض احمدیوں پر بھی بعض اوقات اثر پڑ جاتا ہے تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ بہاء اللہ کا اپنا دعویٰ خدائی کا دعویٰ تھا نہ کہ نبوت کا۔ اس کا جولٹریچر سامنے آیا ہے اس سے پتہ لگتا ہے اور جو اس کا خاص بیٹا تھا جس کو اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا۔ وہ بھی اس کو خدائی کا دعویدار ہی سمجھتا تھا (خواہ دوسرے بیٹے نہیں بھی سمجھتے ہوں)۔ بہرحال ان لوگوں کا ایک طریق کار ہے۔ ایسے لوگوں کو جو لاعلم ہیں یا زیادہ صلح پسند قسم کے ہیں آہستہ آہستہ اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں اور بے شک پہلے خدائی کا دعویٰ نہیں بتاتے لیکن پھر آہستہ آہستہ جب پکے ہو جاتے ہیں اور شامل ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے اوپر وہی شریعت لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بہاء اللہ نے اپنے خدا ہونے کے لحاظ سے اپنے اوپر اتاری یعنی انسان بھی ہے اور خدا بھی ہے۔ شریعت اتارنے والا بھی وہی ہے اور شریعت وصول کرنے والا بھی خود ہی ہے۔ کیونکہ ان کے بعض لوگ ایسے ہیں بلکہ ان کے بیٹے کا بھی حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے جو فلسطین میں رہے اس کا ذکر کیا ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ان کا ایک بیٹا وہاں پانچ نمازیں پڑھنے مسجد میں آجایا کرتا تھا جبکہ ان کے نزدیک باجماعت نماز پڑھنا فرض نہیں ہے۔ بلکہ پانچ نمازوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ دو یا تین نمازیں ہیں۔
پھر عیسائیوں کی ہمدردی کے لئے جس طرح عیسائی یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کا ظہور تھے اور اس لحاظ سے خداتعالیٰ کے بیٹے تھے اسی طرح انہوں نے کہا کہ بہاء اللہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور خود مجسم شکل میں اللہ تعالیٰ آگیا ہے۔
پھر ان کی ایک تعلیم یہ بھی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں، ان کی حالت خدا ہونے کی حالت دیکھ لیں، ساتھ خدا ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔ بہاء اللہ کیا لکھتے ہیں، کیا کہتے ہیں کہ مَیں قید خانے میں ہوں، بڑا لمبا عرصہ جیل میں رہے ہیں، مَیں مالک الاسماء ہوں، میرے بغیر کوئی خدا نہیں۔ یہ قید خانے میں بیٹھا خدا اور جو مالک الاسماء بھی ہے۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ سوائے میرے جو تنہا قیدی ہوں کوئی خدا نہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی میں مدد کرتا رہوں گا۔ وہ خدا جو قید خانے میں بھی ہے جس میں کوئی طاقت بھی نہیں ہے۔ مر بھی جائے گا اور مدد کرتا رہے گا۔ ایسا خدا ہے جو اپنے آپ کو بھی قید سے نہیں چھڑاسکا اور اپنے آپ کو موت سے بچا نہیں سکا اس نے دوسروں کی رہائی کے کیا سامان پیدا کرنے ہیں۔ کسی کے لئے کیا کافی ہونا ہے اور کیا مدد کرنی ہے؟۔
پھر عبدالبہاء، جو ان کے خاص جانشین تھے وہ بہا ئیوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، بڑا گول مول سا جواب ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی مسیحی بہائی ہو یا یہودی بہائی ہو یا فری مسین بہائی ہو یا مسلمان بہائی ہو۔ یعنی ہر مذہب میں جا کے بہائی بنا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں نفوذ اس طرح کرو کہ آہستہ آہستہ پہلے ان کی تعلیم کے مطابق، ہر مذہب کی اپنی تعلیم کے مطابق ان کو بہاء اللہ کے قریب لانے کے لئے قائل کرو۔ جب وہ پکے ہوجائیں تو پھر اس کی الوہیت اور خدا ہونے کا دعویٰ ان تک پہنچاؤ۔ پھر یہ بھی دیکھیں۔ عجیب خدائی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب انبیاء کو بھیجتا ہے تو یہ فرماتا ہے کہ یہ میرا پیغام ہے دنیا کو پہنچا دو۔ جس قوم کے لئے بھیجا گیا ہے اس قوم کو پہنچا دو۔ آنحضرت ﷺ کو بھیجا تو فرمایا کہ تمام دنیا تک یہ پیغام پہنچا دو۔ آپ کے نائب، عاشق صادق، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تو فرمایاکہ تمام دنیا تک میرا پیغام پہنچا دو۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ یہ پیغام نہیں پہنچانا چاہئے۔ بہائیوں نے خود یہ لکھا ہے کہ بہاء اللہ نے ان ممالک میں تبلیغ کرنا حرام قرار دیا ہے۔ کچھ مدت بکلّی خاموشی اختیار کریں۔ اگر کوئی سوال کرے تو کامل بے خبری کا اظہار کریں۔ فلسطین وغیرہ میں یہ لوگ بڑی خاموشی سے کام کرتے ہیں۔ پھر ہر مزاج کے آدمی کے لحاظ سے ان کی تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسیحی بہائی ہے، یہودی بہائی ہے، مسلمان بہائی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے لکھا کہ ایک انگریز عورت جو بہائی ہو گئی تھی اپنی ایرانی دوست کے ساتھ آئی تو مَیں نے اس سے پوچھا کہ قرآن کریم تو کامل شریعت لے کر آیا ہے۔ کون سی نئی بات ہے جو تمہیں بہاء اللہ نے بتائی ہے۔ اس نے کہا کہ شریعت توکامل نہیں ہے کیونکہ یہ تو فطرت کے خلاف ہے کہ مرد چار شادیاں کرے۔ مغرب میں چار شادیوں پر بڑا اعتراض ہوتا ہے نا۔ تو بہاء اللہ نے کہا ہے کہ ایک شادی کرو۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس سے کہاکہ ٹھیک ہے لیکن بہاء اللہ نے خود تو دو شایاں کی ہوئی تھیں۔ بعض کہتے ہیں تین شادیاں کی تھیں۔ تو اس نے کہا کہ نہیں وہ تو دعویٰ سے پہلے تھی۔ تو حضرت خلیفہ ثانی نے کہاکہ اچھا خدا ہے جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ میں نے دعویٰ کرکے کیا شریعت بنانی ہے اور پہلے ہی کر لیں۔ پھر چلو وہ پہلے کر لی تھیں۔ مگر اپنے بیٹے کی دو شادیاں کروائیں وہ کیوں کروائیں ؟ اس نے اپنی ایرانی سہیلی سے پوچھا تو اس نے بتایاکہ ہاں اس طرح تھا۔ دو شادیاں ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں مَیں نے اس سے کہا پھر اب بتاؤ۔ تو وہ ایرانی کہتی کہ دوسری کو تو اس نے بہن بنا لیا تھا۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں نے اس سے سوال کیا کہ اچھا بہن بنا لیا تھا تو پھر اس سے اولاد کیوں پیدا ہوئی؟ کیا بہن سے اولاد پیدا ہوتی ہے؟ اس پر ساری مجلس نے جب اس کی طرف دیکھا تو بیچاری بہت شرمندہ ہوئی۔ تو یہ تو ان کے دعوے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں اور بچتے رہیں۔ یہ بڑی خاموشی سے حملہ کرتے ہیں۔ اور اپنی شریعت کو تو انہوں نے بتایا ہے کہ یہ شائع کی اور چھُپا کے رکھی ہوئی ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ اس کو ظاہر نہیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ نبیوں کے بارے میں تو یہ فرماتا ہے کہ جب وہ جھوٹا دعویٰ کریں اور میرے پر الزام لگائیں کہ مَیں نے بھیجا ہے، میرا کلام اترا ہے تو مَیں ان کو پکڑتا ہوں۔ رگ جان سے پکڑ لیتا ہوں لیکن جو خدائی کا دعویٰ کرنے والے ہیں ان کے بارہ میں یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کو پکڑوں گا اس دنیا میں تباہ کروں گا۔ فرمایا کہ

وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّیْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ الظَّالِمِیْنَ (انبیاء:30)

کہ جو بھی ان میں سے یہ کہے کہ مَیں خدا کے سوا معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور ظالموں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے یہ جزا مرنے کے بعد رکھی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ جہاں سچے نبیوں کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ ان کے لئے نشانات دکھاتاہے۔ جھوٹے نبیوں کو یا جھوٹے دعوے کرنے والوں کو پکڑتا ہے۔ اس دنیا میں جھوٹے دعویداروں کو رسوا کرتا ہے۔ وہاں مدعیان الوہیت ہیں یا جوخداکا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے اس کافیصلہ مرنے کے بعد ہے۔ جہنم کی آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی موحد بننے اور اپنے بھیجے ہوئے فرستادہ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھے اور اپنا قرب حاصل کرنے والا بناتا چلا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں