خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 13؍فروری 2004ء

اللہ تعالیٰ ہم سب کو امانتوں کو نیک نیتی سے ادا کرنے اور ہر قسم کی خیانت سے بچنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرنا اللہ کے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے
محنت کی کمائی فرض ہے ۔ مانگنے کی عادت کبھی نہ پیدا کرو۔
بدی کا جواب نیکی سے دو۔ ابتلاؤں پرحوصلہ اور صبر سے کام لینا چاہئے۔
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
13؍فروری2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرہ :۱۵۴)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبرکرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور مشکل کو دور کرنے کی التجا کرتا ہوں- میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا۔ یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نافرمان نہیں ہوتا،نہ ہونا چاہتا ہوں ، اس کو دور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں ، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیراللہ کے درپر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو۔ اور یہ صبر اور یہ تیر ے در پہ جھکنا اے اللہ! تیرے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور اے اللہ! کبھی اپنے نافرمانوں میں سے مجھے نہ بنانا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رویّہ تمہارا ہو گا اور اس فکر اور کوشش سے تم میرے در پر آؤ گے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پھر ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایسے ایسے راستوں سے اس کی مدد کرتا ہے جہاں تک انسان کی سوچ بھی نہیں جا سکتی۔
حضرت مصلح موعود ؓنے صبر کے معانی اور اس کی کیا کیا صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے یہاں میں مختصراً کچھ عرض کر دیتاہوں-
پہلی بات تو یہ ہے کہ صبر کے معنی کیا ہیں ، الصَّبْرُ، صبر کے اصل معنی تو رکنے کے ہیں- مگر اس لفظ کے استعمال کے لحاظ سے اس کے مختلف معانی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنی

تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰی لِغَیْرِاللّٰہِ

یعنی جب کوئی مصیبت اور ابتلاء وغیرہ انسان کو پہنچے اور اس سے تکلیف ہو تو خداتعالیٰ کے سوا دوسروں کے پاس اس کی شکایت نہ کرنا صبر کہلاتا ہے، ہاں اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور اپنی بے کسی کی شکایت کرتا ہے تو یہ صبر کے منافی نہیں چنانچہ لغت کی کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے

اِذَا دَعَااللّٰہَ الْعَبْدُ فِی کَشْفِ الضُّرِّعَنْہُ لَایُقْدَحُ فِی صَبْرِہٖ

جب بندہ خداتعالیٰ سے اپنی مصیبت کے دور کرنے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بے صبری دکھائی ہے۔ چونکہ صبر کے اصل معنی رکنے کے ہوتے ہیں اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ

اَلصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عَلٰی مَا تَھْوِیْ وَ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَکْرَہُ

یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آ جائے اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔
قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے۔ قرآن کریم میں آتا ہے

وَاصْبِرْ عَلٰی مَآاَصَابَکَ (لقمان:۱۸)

تجھے جو بھی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر سے کام لے یعنی جزع فزع نہ کر۔ دوسرے یہ ہے کہ نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا۔ ان معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہوئے ہیں-

فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا (الدھر:۲۵)

اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہگار اور ناشکرگزار کی اطاعت نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر احکام قرب الٰہی کے حصول کے لئے دئیے گئے ہیں ان پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اور تیسرے معنے اس کے بدی سے رکے رہنے کے ہیں یعنی برائی سے رکے رہنے کے ہیں- ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کہ

وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ-

یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے لئے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کر لیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (تفسیر کبیر)
یہ جو تیسری مثال دی گئی ہے آیت کی اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ لوگ آنحضرتﷺ کو گھر سے بلانے کے لئے اونچی آواز سے گھر سے باہر کھڑے ہو کر بلاتے تھے تو اس پر یہ فرمایاکہ جب ان کے پاس وقت ہو گا کوئی ایسی ایمرجنسی نہیں ہے باہر آ جائیں گے، تم بلاوجہ نبی کا وقت ضائع نہ کیا کرو۔ یہ بے ادبی کی بات ہے کہ باہر کھڑے ہو کے آوازیں دینا اور انتہائی نامناسب ہے موقع محل کے لحاظ سے بات کرنا بھی صبر میں شمار ہوتا ہے اور بے موقع اور بے محل بات کرنا بے صبری ہے اور گناہ ہے۔
حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن قیس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی کسی تکلیف دہ بات کو سن کر صبر کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں- کیوں؟ وہ اس طرح کہ لوگ اللہ کا شریک بناتے ہیں اور اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں رزق دئیے جاتا ہے اور عافیت دئیے جاتا ہے اور عطا کئے جاتا ہے۔ (مسلم کتاب صفۃ القیامۃ)
تو دیکھیں کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام گناہ معاف کر سکتا ہوں لیکن شرک کا گناہ معاف نہیں کروں گا۔ اور اس کے باوجود وہ مشرکوں کو بھی، عیسائیوں کو بھی جنہوں نے خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے، رزق بھی دیتا ہے اور دوسری نعمتیں بھی ان کو عطا فرما رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ صبر کرنے والی ذات تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
حضرت صہیب ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا تمام معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجا لاتا ہے، الحمدللہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب ہوتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے۔(مسلم کتاب الزھد باب المؤمن امرہ کلہ خیر)
توجس طرح خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اس کا شکر کرنا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انسان کو وارث بناتا ہے۔ اسی طرح تکلیف میں صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتا ہے۔ اس لئے ہر تکلیف جو مومن کو پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اگر صابر ہے، صبر کرنے والا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بن جاتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، بے چینی، تکلیف اور غم پہنچتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی لگتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی بعض خطائیں معاف کر دیتا ہے۔(بخاری کتاب المرضی باب ما جاء فی کفارۃ المرض)
تو ان لوگوں کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں ، ان کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم بے صبری کا مظاہرہ کرو گے، جزع فزع کرو گے تو اپنی خطائیں معاف کروانے کے موقع کو ضائع کر رہے ہو گے۔ دوسری طرف صبر کرنے والوں کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہلکی سی بھی تکلیف پر صبر کرنے والے کے صبر کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا، بغیر اجر دئیے نہیں جانے دیتا۔ اور خطائیں اور غلطیاں معاف فرماتا ہے۔ بعض لوگ بعض دفعہ کسی سے کوئی معمولی سی بات سن کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں- بعض دفعہ اس طرح بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ اجلاسوں میں بیٹھے ہوئے توُتوُ مَیں مَیں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور اس اجلاس کے ماحول کے تقدس کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں- حوصلہ اور صبر ذرا بھی نہیں ہوتا جبکہ مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ، پھر ہمسائے ہیں ، ہمسائے نے اگر کوئی بات کہہ دی تو اس سے ذرا سی بات پر لڑائی شروع ہوگئی۔ یہاں سے اینٹ اٹھا کے وہاں کیوں رکھ دی، وہاں کوئی پتھر کیوں رکھ دیا گیٹ کیوں کھلا رہ گیا۔ کار کیوں میرے گھر کے گیٹ کے سامنے آ گئی۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو لڑائی جھگڑے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور دونوں ہمسائے پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے، لڑنے کے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور انتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں- بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مکان کی دیوار بنائی ہے۔ تمہاری دیوار میری زمین میں چند انچ سے بھی زائد آگئی ہے۔ خالی کر و،یا تمہارے درخت کے پتے میرے گھر میں گرتے ہیں اس درخت کو وہاں سے کاٹو تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قضاء میں مقدمے بھی چل رہے ہوتے ہیں- جو میں باتیں کررہا ہوں یہ عملاً ایسا ہوتا ہے۔ شرم آتی ہے ایسی باتیں سن کر اور یہ باتیں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح ہر جگہ ہو رہا ہے، یہاں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بعض دفعہ لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں- ہمسائے کو کچھ تعمیر نہیں کرنے دے رہے ہوتے حالانکہ دوسرے ہمسائے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ذرا ذرا سی بات پہ شکایتیں ہو رہی ہوتی ہیں- تو احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا بھی ہے تو اس کو معاف کرنا چاہئے۔ اور غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے۔
حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہنے والا قطرہ خون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجے میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں- اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کرکے پیتا ہے اور اسی طرح اللہ کو غصے کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں وہ پیتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ۷ صفحہ ۸۸)
پھر ایک روایت حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضورؐ نے اس کو فرمایا کہ جا اور صبر کر۔ یہ شخص دو یا تین بار حضور ؐ کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضرت ﷺ نے اس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال ومتاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پہ لے آ۔ چنانچہ اس نے اپنا مال راستے میں رکھ دیا۔ اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتاتا رہا کہ کس وجہ سے کر رہا ہوں- تب لوگوں نے اس ہمسائے پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اس سے یوں کرے یوں کرے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا۔ اب تو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا۔ (ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا قبل اربعۃ نفر)۔تو یہاں بھی صبر کی وجہ سے ہی معاملہ حل ہو گیا۔
حضرت کبشہ انماریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں میں قسم کھا کے بتا تا ہوں کہ انہیں اچھی طرح یاد رکھو، صدقہ بندے کے مال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔ جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اور عزت بخشتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ صدقہ دو کیونکہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی پہ ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے اور تیسری بات یہ کہ جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا مثلُ اربعۃُ نَفَرٍ)
زیادہ مانگنے والے ہوں تو ان کی محتاجی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک تو خود ان میں بیٹھے رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔پھر خواہشات بھی بڑھتی رہتی ہیں- تو اس میں ایک تو صبر کرنے والے کے لئے خوشخبری ہے کہ صبر سے کام لو اگر تنگ بھی کئے جاؤ تو اپنے خدا کی رضا کی خاطر صبر کرو اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ جو دینے سے کبھی نہیں تھکتا وہ تمہیں نہ صرف اس مشکل اور تکلیف سے نکالے گا بلکہ صبر کی وجہ سے تمہیں عزت بھی دے گا۔ پھر ایک اہم بات یہ یہاں بیان فرمائی کہ مانگنے کی عادت اپنے اندر کبھی نہ پیدا کرو۔ جیسے مرضی حالات ہوں صبر شکر کے ساتھ گزارا کرو ا ور اسی طرح گزارا کرنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر ایک دفعہ مانگنے کی عادت پڑ گئی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائے گی۔ قناعت پھر بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ تن آسانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے، پتہ ہے کہ کھانے کو مل رہا ہے، کسی قسم کا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا، اور صرف اس لئے کہ میری ساری ضروریات پوری ہو رہی ہیں مدد کے ذریعے سے تو ایسے نکمے مرد بیٹھے رہتے ہیں اور بیوی بچوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اگر جماعتی وسائل کے مطابق محدود پیمانے پر ضروریات پوری ہو رہی ہوں تو بیوی بچوں کی بہت سی ایسی ضروریات بھی ہیں جو ان وسائل کے ساتھ پوری نہیں ہو سکتیں ، ایک محدود مدد ہوتی ہے۔ تو بہرحال ہر انسان کو اگر مدد ہو بھی رہی ہو تو کام کرنا چاہئے، اپنی ذمہ داری خود اٹھانی چاہئے اس لئے جس قسم کا بھی کام ملتا ہو کرنا چاہئے اور ہر ایک کواپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ اگر تم سوال کرنے کی عادت جاری رکھو گے توپھر اللہ تعالیٰ محتاجی میں بھی اضافہ کرتا چلا جائے گا اور اس وجہ سے پھر گھر سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لیں ایسے گھروں میں میاں بیوی کی لڑائیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں- بچے الگ پریشان ہو رہے ہوتے ہیں ، نفسیاتی مریض بن رہے ہوتے ہیں- اس بات کو کوئی معمولی بات نہ سمجھیں- عزت اور وقار اسی میں ہے کہ خود محنت کرکے کمایا جائے۔ اور امدادوں یا وظیفوں کو کبھی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے فرائض ہیں ان میں یہ بھی فرض ہے کہ محنت کرکے کماؤ او رکھاؤ۔
میں نے دیکھا ہے کہ جن کو اپنی عزت نفس کا خیال ہو مانگنے سے گھبراتے ہیں- یہ مجھے پاکستان کا تجربہ ہے۔ ایسے خاندان بھی میری نظر سے گزرے ہیں جن کے وسائل اتنے بھی نہیں تھے کہ پورا مہینہ کھانا کھا سکیں تو بعض دن ایسے بھی آ جاتے تھے کہ لنگر خانے سے آکے سوکھے ٹکڑے لے جاتے تھے اور ان کو پانی میں بھگو کر کھاتے رہے۔ لیکن کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ گو بعد میں پتہ لگ گیا اور ان کی مدد کی گئی اور ضرورت پوری کی گئی، لیکن انہوں نے خود کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا، ایسے سفید پوش بھی ہوتے ہیں- لیکن بعض ایسے ہیں کہ اچھی بھلی آمدنی ہو جس سے بہت اچھا نہ سہی لیکن غریبانہ گزارا چل رہا ہوتا ہے پھر بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں وظیفہ دیا جائے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے گھروں سے اللہ تعالیٰ برکت اٹھا لیتا ہے۔ اگر ہمت ہو اور نیک نیتی ہو توبہت معمولی رقم قرضہ حسنہ کے طور پر لے کر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ مَیں نے بعض لوگوں کو اس طرح معمولی رقم سے کاروبار وسیع کرتے بھی دیکھا ہے۔ تو جب انسان ہمت کرے تو خدا تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے۔ یہاں یورپ میں بھی بعض لوگ جو جوان ہیں بعض فارغ بیٹھے رہتے ہیں کہ ضروریات تو پوری ہو رہی ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ چاہے چھوٹے سے چھوٹا کام ملے اپنی تعلیم کے مطابق نہ بھی کام ملے تب بھی کام کرنا چاہئے فارغ بہرحال نہیں بیٹھنا چاہئے۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے بعض افراد نے رسول اللہﷺ سے کچھ مال طلب کیا جس شخص نے بھی آنحضورﷺ سے مانگا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نواز دیا حتی کہ آپ کے پاس جمع شدہ مال ختم ہوگیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے جب تک وہ میرے پاس ہوتا ہے تومیں اسے دونوں ہاتھوں سے خرچ کرتا رہتا ہوں- میں اسے تم سے بچا کر تو نہیں رکھتا لیکن تم میں سے جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ بھی اس سے عفو کا سلوک فرمائے گا، اور جو کوئی صبر کا مظاہرہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کر دے گا۔ اور جوکوئی استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا۔ اور تمہیں کوئی عطا صبر سے بہتر اور وسیع تر نہیں دی گئی۔ (بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن محارم اللہ )
پھر حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے دنیا میں اپنی بھوک مٹا لی قیامت کے دن یہ اس کی امیدوں کے درمیان روک ہو گی۔ اور جس نے حالت فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا وہ رسوا ہو گا اور جس نے حالت فقرمیں صبر سے کام لیا اللہ تعالیٰ اسے جنت فردوس میں جہاں وہ شخص چاہے گا اسے ٹھہرائے گا۔ (مجمع الزوائد جلد ۱۰ صفحہ ۲۴۸)
پھر ہمارے معاشرے کی ایک یہ بھی بیماری ہے کہ جس کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہو جائیں یا زیادہ بیٹیاں پیدا ہو جائیں وہ بیٹیوں کے حقوق اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح اولاد کے کرنے چاہئیں- بلکہ بعض تو باقاعدہ اپنی بیٹیوں کو کوسنے بھی دیتے رہتے ہیں اور بعض بچیاں تو اتنی تنگ آ جاتی ہیں کہ لکھتی ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم ماں باپ پر بوجھ بن گئے ہیں ، ہمیں تواب اپنی موت کی خواہش ہونے لگ گئی ہے۔ تو ایسے ماں باپ کو جو بیٹیوں سے اس قسم کا سلوک کرتے ہیں خوف کرنا چاہئے۔ ان کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچیاں دے کر ان کے لئے آگ سے بچنے کے لئے انتظام کر دیا ہے۔
حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ جسے زیادہ بیٹیوں سے آزمایا گیا اور اس نے ان پر صبر کیا تو اس کی بیٹیاں اس کے لئے آگ سے پردے یاڈھال کا باعث ہوں گی۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والأخوات)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک یتیم یا دو یتیموں کو پناہ دی اور پھر اس پر ثواب کی نیت سے صبر کیا تو آ پ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ میں اور وہ جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں- (المجمع الاوسط جلد ۸ صفحہ ۲۲۷)
تو یتیموں کی پرورش کرنا اور ان کو حوصلے اور ہمت سے اپنے گھروں میں رکھنا اور اپنے بچوں کی طرح ان سے سلوک کرنا، یہ بڑی نیکی کا کام ہے اور اس حدیث میں ایسا کام کرنے والوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے جو یتیموں کو پا لتے ہیں کیونکہ پیار اور محبت سے کسی کے بچے کو پالنا اور پھر اس کی سب باتوں کو حوصلے اورصبر سے برداشت کرنا اور ان کی تربیت کرنا اور اپنی کمائی میں سے حوصلے اور ہمت سے خرچ کرنا اپنی بعض خواہشات پر صبر کرتے ہوئے ان کو دبانا اور یتیم بچوں کے اخراجات پورے کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ بہت بڑی نیکی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بہت بڑی خوشخبری فرمائی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو ہ بلکہ وہ فرماتا ہے

تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ

کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں- مَرْحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے۔ اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو۔ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۰۔۶۱۔ جدید ایڈیشن)
اگر اس اصول پہ عمل کریں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی کسی کا عیب بیان کرے۔ نہ آپ چالیس دن دعا کریں گے اور نہ عیب بیان ہو گا۔ یہ بہت اہم نصیحت ہے کہ اگر کسی سے کوئی تکلیف بھی پہنچے اس میں کوئی عیب بھی دیکھو تو بجائے لوگوں میں پھیلانے کے ان کے لئے دل میں رحم پیدا کرو، ان کے لئے دعا کرو، اس پر صبرکرو اور صبر اور مستقل مزاجی سے اس کے لئے دعا کرو، اگر یہ باتیں کسی معا شرے میں پیدا ہو جائیں تو کیا اس معاشرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے؟ بہت ساری برائیاں معاشرے سے ختم ہو جائیں-
اب جماعتی زندگی میں انسان کو صبر کا کس طرح مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یعنی ہمارے اندر جو نظام ہے اس کے اندر وہ یہی ہے کہ امیرکی یا کسی عہدیدار کی طرف سے اگر زیادتی بھی ہو جائے تو برداشت کریں ، صبر کریں ، حوصلہ دکھائیں- زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت تک اس کی شکایت پہنچا دیں لیکن اپنی اطاعت میں کبھی فرق نہ آنے دیں-
حدیث میں آیا ہے، حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے امیر میں ایسی بات دیکھی جسے وہ ناپسند کرتاہے تو اسے چاہئے کہ وہ صبر کرے یاد رکھو کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی انحراف کیا اور وہ اسی حالت میں مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن)
ہمیں ان حدیثوں میں مختلف صورتوں میں اور مختلف موقعوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہ اگر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا قرب پاؤ گے، میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔ لیکن جب دعا کرنے کے طریقے اور سیلقے سکھائے تو یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے صبر مانگو بلکہ فرمایا کہ مجھ سے میرا فضل مانگو اور ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعا مانگو۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔
ترمذی میں روایت ہے حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کی انتہا کا طلب گار ہوں- آپؐ نے اس سے فرمایا نعمت کی انتہا سے کیا مراد ہے اس شخص نے جواب دیا میری اس سے مراد ایک دعا ہے جو میں نے کی ہوئی ہے اور جس کے ذریعے میں خیر کا امیدوار ہوں- آپؐ نے فرمایا نعمت کی ایک انتہاء یہ ہے کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے اور آگ سے نجات عطا ہو۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کی دعا سنی جو کہہ رہا تھا

یٰٓا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام

تو آپ ؐ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو گئی اب مانگ جو مانگنا ہے۔ تو اس طرح اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کو سنا جو دعا کر رہا تھا۔ اے میرے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں آپؐ نے فرمایا تم نے اللہ تعالیٰ سے ابتلاء مانگا ہے۔(صبر مانگنے کا مطلب یہی ہے کہ ابتلا مانگا ہے ) یعنی کوئی ابتلاء آئے گا تو صبر کرو گے۔ خدا سے عافیت کی دعا کرو۔(ترمذی کتاب الدعوات)۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اگر مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں-
یہ تو بعض ذاتی معاملات کے بارے میں بتایا۔ اب جماعتی ابتلاء ہے، مخالفین کی طرف سے جماعت پر مختلف وقتوں میں آتے رہتے ہیں- ان میں بھی ہر احمدی کو ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی چاہئے، پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے۔ اور کبھی اپنے ملک سے وفا میں کمی نہیں آنے دی،یا اس وجہ سے ایک قدم بھی وفا میں پیچھے نہیں ہٹے۔ اور جب بھی ملک کو ضرورت پڑی۔ سب سے پہلے احمدیوں کی گردنیں کٹیں- اور گردن کٹوانے کے لئے سب سے پہلے یہی آگے ہوئے۔ اور آئندہ بھی ملک کو ضرورت پڑے گی تو احمدی ہی صف اول میں شمار ہوں گے
انشاء اللہ تعالیٰ۔اسی طرح آج کل بنگلہ دیش میں بھی احمدیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی فتنہ و فساد اٹھتا رہتا ہے۔ چند سال پہلے مسجد میں بم پھٹا وہاں بھی چند احمدی شہید ہوئے اور گزشتہ سال بھی مخلص احمدی شاہ عالم صاحب کو شہید کیا گیا۔ تو ایک مستقل تلوار یہاں بھی احمدیوں پر لٹکی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے حوصلے اور صبر سے کام لے رہے ہیں- اللہ تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل فرمائے۔ جتنا چاہیں یہ ہم پر ظلم کرلیں اور جہاں جہاں بھی اور جس جس ملک میں ظلم کرنا چاہتے ہیں کر لیں لیکن احمدی ہر جگہ اپنے ملک کے ہمیشہ وفادار ہی ہوں گے۔ اور جتنا دعویٰ کرنے والے یہ مخالفین ہیں اپنی وفاؤں کے ان سے زیادہ وفادار ہوں گے۔ اور الٰہی جماعتوں سے دشمنی اور مخالفت کا سلوک ہمیشہ رہا ہے۔ سب سے زیادہ تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سلوک ہوا اور آپؐ نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا، طائف کا واقعہ اس کی یاد دلاتا ہے کس طرح پتھر برسائے گئے لیکن آپؐ کا سلوک اس کے بعدکیا تھا۔
ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ ؓ نے بتایا کہ انہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپؐ پر جنگ احد سے سخت دن بھی کبھی آیا ہے۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا مجھے تیری قوم سے بڑے مصائب پہنچے ہیں اور عقبہ والے دن مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی۔ جب میں نے اپنا دعویٰ عبد یالیل بن کلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میری خواہش کے مطابق مجھے جواب نہ دیا اور لڑکوں کو میرے پیچھے لگا دیا پھرمیں غمزدہ چہرے کے سا تھ قرن الثعالب نامی مقام تک آیا میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھا کہ میرے اوپر ایک بادل سایہ فگن ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تواس میں جبرئیل تھے۔ اس نے مجھے پکارا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کے تیرے بارے میں تبصرے اور جواب سن لئے ہیں- اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ تو ان کے بارے میں اسے جو چاہے حکم دے۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا، مجھے سلام کہا پھر کہا اے محمد! آپ کو ان کے بارے میں اختیار ہے آپ چاہتے ہیں کہ میں ان پر یہ دونوں پہاڑ گرا دوں؟ تو میں ایسا کرنے پر تیار ہوں- مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، میں ان کو تباہ کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ میں تو یہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور اس کا کسی کوبھی شریک قرار نہ دیں-(بخاری کتاب المغازی باب مرجَعُ النبیؐ من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ ومحاصرتہ ایاھم)۔ ہمیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں- تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا اس عرصہ میں آپؐ نے (یعنی آنحضرت ﷺ نے ) جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑ ی جاتی تھی۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر و استقلال کی ہدایت ہوتی اور بار بار حکم ہوتا تھاکہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرت ﷺ کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے۔ بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صبر پہلے نبیوں جیسا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لئے ان کی تکالیف اور ایذا رسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں لیکن اس کے مقابلے میں آنحضرتؐ کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپﷺ کی مخالف ہو گئی اور ایذا رسانی کے در پہ ہوئی اور عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۱۵۳۔ جدید ایڈیشن)
پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ:’’ ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست،رشتہ دار، اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بہن بھائی مخالف ہو جاتے ہیں- السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں- میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو، ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئے اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خداتعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو، پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء اور رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیارکرو، تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو، بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ توخود اسے شرم آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۱۵۶۔۱۵۷۔ جدید ایڈیشن)
پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ فتنہ کی بات نہ کرو، شر نہ کرو، گالی پر صبر کرو کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر حکم کی اطاعت کرو کہ خداتعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلے میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۲۰۔۶۲۱۔ جدید ایڈیشن)۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں