خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 13؍ جنوری 2006ء

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کے بعد صحابہ کرام کے اپنی زندگیوں میں عظیم الشان روحانی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے،دین کو دنیا پر مقدم کرنے، عبادت کے قیام، تعلق باللہ، تقویٰ، راستی، صبر واستقامت، امانت و دیانت، للہی محبت واخوت اور راہ مولا میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے نہایت درجہ ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان۔
تم بھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تواپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلو-
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 13؍ جنوری 2006ء (13؍صلح 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد اقصیٰ،قادیان دارالامان (بھارت)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (سورۃ الجمعۃ آیت ۴)

اس آیت کا ترجمہ ہے: اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کیاہے جو ابھی ایمان نہیں لائے۔(جو نبی کا ذکرچل رہا ہے)۔ وہ کامل غلبے والا اورحکمت والاہے۔
یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس شخص نے یہ سوال تین دفعہ دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ ہم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی زمین سے ایمان بالکل ختم ہو گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا، دوسری جگہ رِجَالٌ کا لفظ بھی ہے یعنی اشخاص واپس لائیں گے۔
تو یہ آیت اور یہ حدیث ہم میں سے اکثر نے سنی ہوئی ہے، پڑھتے بھی ہیں۔لیکن آج میں اس حوالے سے نمونے کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند صحابہؓ کا ذکر کروں گا۔ جنہوں نے بیعت کے بعد اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کیں جن کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں نظر آتے ہیں۔ جب صحابہؓ نے اُس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی وجہ سے تمام برائیوں اور گھٹیا اخلاق سے توبہ کی۔ فسق و فجور، زنا، چوری، جھوٹ، قماربازی، شراب نوشی، قتل و غارت وغیرہ کی عادتیں اُن میں سے اس طرح غائب ہوئیں، جس طرح کبھی تھیں ہی نہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ عادتیں ختم ہو گئیں، بلکہ اعلیٰ اخلاق اور نیکیاں بجا لانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ عبادات میں مشغولیت اور قربانی کی ایسی روح پیدا ہو گئی کہ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کچھ عرصہ پہلے اس سے بالکل الٹ تھے۔ اُن لوگوں کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان سے عشق و محبت میں فنا ہونا رہ گیا تھا۔ ان کے عشق و محبت کی ایسی مثالیں بھی تھیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو بھی نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وعدے کے مطابق کہ رہتی دنیا تک اب تیرا نام ہی روشن رہنا ہے، تیرے ذریعے سے ہی بندوں نے مجھ تک پہنچنا ہے، اگر زمین میں ایسا دور بھی آیا کہ ایمان دنیا سے بالکل مفقود ہو گیا تو تب بھی مَیں تیرے عاشق صادق کے ذریعہ سے اسے دوبارہ دنیا میں قائم کروں گا۔ اس مسیح محمدی کے ذریعہ سے ایک انقلاب برپا کروں گا جس پر تیری قوت قدسی کا اثر ہو گا اور وہ اس کے ذریعہ پھر وہ مثالیں قائم کروائے گا جو تُو نے صحابہ میں پیدا کیں۔ حضرت امام مہدی کا ظہور ہوا۔
اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ان مثالوں کے چندنمونے پیش کروں گا جن سے پتہ چلتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس نور سے فیض پا کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا، اپنے صحابہ میں، اپنے ماننے والوں میں، اپنے بیعت کرنے والوں میں کیا انقلاب عظیم پیدا کیا تھا۔اس بارے میں میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں کہ آپؑ نے اپنے صحابہ کو کیسا پایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیاہے۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ‘‘۔(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
اب مَیں ان پاک نمونوں کی چند مثالیں دیتا ہوں۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب جو مالیر کوٹلے کے نواب خاندان سے تھے، رئیس خاندان کے تھے، نوجوان تھے، ان میں گونیکی تو پہلے بھی تھی۔ لہو و لعب کی بجائے، اوٹ پٹانگ مشغلوں کی بجائے جو نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں، اُن میں اللہ کی طرف رغبت تھی، اچھی عادتیں تھیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت نے اس کو مزید صیقل کیا اور چمکایا۔ انہوں نے خود ذکر کیا ہے کہ پہلے میں کئی دفعہ نمازیں چھوڑ دیا کرتا تھا۔ اور دنیاداری میں پڑا ہوا تھا۔ لیکن بیعت کے بعد ایک تبدیلی پیدا ہوگئی۔
ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ حبی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ (ازالہ اوھام میں یہ ذکر ہے) قادیان میں جب وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے، پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نما زپڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بالکل مجتنب ہیں ‘‘۔
(ازالہ اوھام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ526)
حضرت نواب محمد علی خان صاحب خود اپنے بھائی کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ جن امور کے لئے میں نے قادیان میں سکونت اختیارکی میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور مَیں اپنی شو مئی طالع سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا‘‘، بدنصیبی سے، بدقسمتی سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا۔’’ اور قادیان سے مہجور تھا۔ صرف چند دن گاہ بگاہ یہاں آتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی عمر ضائع کی۔ آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا۔ اور آخر مجھ کو یہ شعر یاد آیا کہ ؎

ہم خداخواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است ومحال است و جنوں‘‘

(خدا کو بھی چاہنا اور گھٹیا دنیا کو بھی چاہنا یہ صرف ایک خیال ہے اور یہ ناممکن ہے اور پاگل پن ہے۔)
لکھتے ہیں کہ:
’’یہاں میں چھ ماہ کے ارادے سے آیا تھا مگر یہاں آ کر مَیں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتا ہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہو جاتا ہے۔اور میں نے خوب غور کیا تو مَیں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ مَیں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا۔ اور دن بدن ہم باوجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں۔ آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نکرد، کوٹلہ کو الوداع کہا اور مَیں نے مصمّم ارادہ کر لیا کہ مَیں ہجرت کر لوں۔ سو الحمدللہ میں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ مَیں نے کوٹلہ سے ہجرت کر لی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن واپس اپنے ارادہ سے نہیں آ سکتا‘‘۔ یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا۔ ’’ویسے وہ مسافرانہ آئے تو آئے۔ پس اس حالت میں میرا آنا محال ہے۔مَیں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں، ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں۔…… میرے پیارے بزرگ بھائی مَیں یہاں خدا کے لئے آیا ہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا کے لئے ہے۔مَیں کوٹلہ سے الگ ہوں مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ آپ کو اور ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو۔ ہم خداوندتعالیٰ کے پورے فرمانبردار مسلم بن جائیں۔……ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیاپر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں، اس کی پوری اطاعت کریں یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتا ہے، اسی قدر دنیاہیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اور دین مقدم ہوتا جاتا ہے۔ اور خداوند تعالیٰ اور انسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اور شکر گزاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے‘‘۔(اصحاب احمد۔ جلد نمبر2صفحہ129-126)
تو دیکھیں یہ تبدیلی ہے جو نواب صاحب میں پیدا ہوئی۔ پھر بعد میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے داماد بھی بنے۔ اُن کی نسل کو بھی چاہئے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں جنہوں نے دنیا کو دین کی خاطر چھوڑ دیا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا۔
پھر ایک ذکر آتا ہے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں ہی ہے، آپؑ فرماتے ہیں :
’’ حبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب۔ یہ جوان صالح، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار و انوار اُس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات اور امارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار اصولِ فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مَرکَب ہے دونوں سیرتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ جزاھم اللہ خیرالجزائ‘‘۔(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ533-532)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ رقم کی ایک تحریک فرمائی تھی، چندہ کی ضرورت تھی کہ وہاں کی جماعت سے لے کر آئیں۔ تو یہ خود ہی اہلیہ کا زیور بیچ کر لے آئے تھے اور جماعت کو پتہ بھی نہیں لگنے دیا اور بعد میں لوگ ان سے ناراض بھی ہوئے تھے۔ اس طرح اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے۔
پھر حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں تحریرفرماتے ہیں کہ:
’’ اے میرے آقا!میں اپنے دل میں متضاد خیالات موجزن پاتا ہوں، ایک طرف تو مَیں بہت اخلاص سے اس امر کا خواہاں ہوں کہ حضورؑ کی صداقت اور روحانی انوار سے بیرونی دنیا جلد واقف ہو جائے اور تمام اقوام و عقائد کے لوگ آئیں اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوں جو اللہ تعالیٰ نے یہاں جاری کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس خواہش کے عین ساتھ ہی اس خیال سے میرا دل اندوہ گیر ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی حضور سے واقف ہو جائیں گے اور بڑی تعداد میں یہاں آنے لگیں گے۔ تو اس وقت مجھے آپ کی صحبت اور قرب جس طرح میسر ہے اس سے لطف اندوز ہونے کی مسرت سے محروم ہو جاؤں گا۔ ایسی صورت میں حضورؑدوسروں میں گھِر جائیں گے۔ حضور والا مجھے اپنے پیارے آقا کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا جو مسرت بخش شرف حاصل ہے اس سے مجھے محرومی ہو جائے گی ایسی متضاد خواہشات یکے بعد دیگرے میرے دل میں رونما ہوتی ہیں ‘‘۔ قاضی صاحب نے مزید کہا کہ:’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام میری بات سن کر مسکرا دئیے‘‘۔(اصحاب احمد جلد نمبر6 صفحہ10)
دیکھیں کیا عشق و محبت کے پاک نظارے ہیں۔
پھر حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب روایت کرتے ہیں کہ صحابی موصوف چوہدری نذر محمود صاحب تھے جو اصل متوطن ادرحمہ ضلع شاہ پور تھے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے وہ ڈیرہ غازی خان میں ملازم تھے۔جہاں تک کہ اس عاجز کو یاد ہے وہ روایت کرتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی اور وہ اپنی اہلیہ کو پوچھتے تک نہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک زمانے میں ہدایت بخشی اور شناخت حق کی توفیق دی جس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہوا چنانچہ وہ قادیان دارالامان گئے مگر وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ حضور کسی مقدمے کی وجہ سے گورداسپور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ گورداسپورگئے اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے۔ اور چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضور کو دبانا شروع کردیا اور دعا کی درخواست کی۔ اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لئے آیاجنہوں نے حضورکے سامنے ذکر کیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے(یعنی واپس بھجوائی ہے)، اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ اُن کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا۔(شاید آپس میں شادیاں ہوئی ہوں گی)۔ جو نہی حضورؑ نے اس کے ایسے کلمات سنے حضور کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضور نے غصے سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آ جاوے۔ چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ توبہ کرتا ہے، اسے معاف فرمایا جائے۔ جس پر حضور نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی۔
چوہدری نذر محمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ انہوں نے دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے کہ اتنی سی بات پر حضور نے اتنا غصہ منایا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے۔یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے توبہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلوکی نہ کروں گا۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہ وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لئے بہت سے تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر پچھلی بدسلوکی کی ان سے منت کرکے معافی مانگی۔ وہ حیران ہو گئی کی ایسی تبدیلی ان میں کس طرح پیدا ہو گئی۔ جب اس کو معلوم ہوا یہ سب کچھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور کو بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ7-6)
اصل میں تو یہ عورت کا وہ حق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمان اس کو بھول چکے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ اسے قائم فرمایا۔ پس سب سے زیادہ اسلام میں عورت کا مقام ہے جس کی قدر کی گئی ہے۔ مغرب توصرف عورت کے حقوق کا شور مچاتا ہے۔
پھر حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کا نمونہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی بعض کمزوریوں یا کم بصری کی وجہ سے کم از کم اپنے علاقے اور نواح میں خاص عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ حافظ صاحب ایک زمیندار خاندان کے فرد تھے اور دولت و مال کے لحاظ سے آپ کا مرتبہ بلند نہ تھا بلکہ وہ غریب تھے۔ مگر اس کے باوجود اپنی نیکی اور دینداری کی وجہ سے اپنے گاؤں اور نواح میں ہمیشہ عزت و محبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اور آج ہم جو فیض اللہ چک اور تھہہ غلام نبی وغیرہ دیہات میں احمدیت کی رونق اور اثر کو دیکھتے ہیں اس میں حافظ صاحب کی عملی زندگی کا بہت بڑا دخل ہے۔ وہ ایک خاموش واعظ تھے اور مجسم تبلیغ تھے۔ انہیں دیکھ کر خواہ مخواہ حضور کی صداقت کا یقین ہوتا تھا اور اندر ہی اندر محبت کا جذبہ بڑھتا تھا۔ آپ نہایت ملنسار اور وفادار اور ہمدرد طبع تھے، دوسروں کی بھلائی چاہتے تھے۔ حضرت کی صحبت اور قرب نے آپ میں ایک خاص رنگ پیدا کر دیا تھا۔ آپ دعاؤں کی قوت کو جانتے اور دعائیں کرنے کے عادی اور آداب دعا سے واقف تھے۔آپ کی زندگی ایک مخلص مومن اور خدا رسیدہ انسان کی زندگی تھی۔ حق کی اشاعت کے لئے آپ میں جوش اور غیرت تھی۔ دینی معاملے میں کبھی کسی سے نہ دبتے تھے۔ حق کہنے میں ہمیشہ دلیر تھے۔ اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عامل تھے۔ غرض بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور یہ جو کچھ تھا حضرت اقدس کی پاک صحبت کا اثر تھا۔ مرحوم اپنی زندگی کے بے شمار حالات و واقعات سے واقف تھے۔ مگر آپ کی عادت میں تھا کہ بہت کم روایت کرتے اور جب حضرت اقدس کے حالات کے متعلق کوئی سوال ہوتا تو چشم پُرآب ہو جاتے اور فرماتے کہ سراسر نور کی میں کیا حقیقت بیان کروں، کوئی ایک بات ہو توکہوں۔ (اصحاب احمد جلد نمبر13صفحہ72)
توصحابہ جو واعظ تھے ان کے اپنے عمل تھے، وہ عملی نمونے قائم کرتے تھے۔ یہ نمونے ہیں جو آج ہمارے ہر واقف زندگی کے لئے، ہر مربی کے لئے، مبلغ کے لئے، معلّمین کے لئے مشعل راہ ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہئے۔
پھر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ کا ذکر ہے۔ آپ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے۔ قادیان آئے مگر آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعودؑ سے واپس بھیجنے کا وعدہ کرکے بھائی جی کو ساتھ لے گئے۔ گھر جا کر آپ پہ بہت سختیاں کی گئیں۔ اور ادائیگی نماز سے بھی روکا گیا۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانے میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتیں۔ اس زمانے میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملاکر یا اشاروں سے پڑھتا تھا۔ ایک روز علی الصبح مَیں گھرسے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا۔گیہوں کہ کھیت کے اندر وضو کرکے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کدال لئے میر ے سر پر کھڑا رہا۔نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لئے آیا ہے لہٰذا مَیں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعاؤں میں لگا رہا۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک مزدور تھا کشمیری قوم کا۔جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا منشی جی! کیا یہ بات پکی ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لئے گواہ بنا کر بھیجا ہے اور کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے۔(اصحاب احمد جلد نمبر4صفحہ64)
مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرکے بیعت کے فوائد بیان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے‘‘۔(اصحاب احمد جلد نمبر14 صفحہ56)
پھرمولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کا نمونہ ہے۔ آپ نے اپنے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کیا۔ …… اس پر قصبے میں شور برپا ہو گیا۔ اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا۔ اہل حدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا گیا۔ لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے تھے۔ ایسے کٹھن مرحلے پر مولانا صاحب آستانہ الٰہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ و زاری میں مصروف ہونے لگے اور خداتعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا۔ اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے۔ ……سو اب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں لگ گئے۔ جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارے میں استمداد کی بھی دھمکی دی۔اس لئے آپ موضع بقاپور چلے آئے جہاں آپ کی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی۔ عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرہ مخالفین میں شامل تھے البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے۔ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیونکر بُراکہتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے۔ والد صاحب نے کہامرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے۔ والدہ صاحبہ نے کہا امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں۔ ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا۔ آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر پھروالد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھابھیوں نے بھی بیعت کر لی۔ اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمدیہ اولیٰ میں بیعت کر لی۔(اصحاب احمد جلد نمبر10صفحہ 215)
حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے بارے میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب لکھتے ہیں کہ:’’ نام اور نمود، ریا، ظاہرداری، علمی گھمنڈ، تکبر ہرگز نہیں تھا۔ دوران قیام قادیان میں جب بھی کوئی کہتا مولوی صاحب! فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو، مَیں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے، الف ب شروع کی ہے‘‘۔(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ستمبر 1977صفحہ12) اور یہ ایسے بڑے عالم تھے ان کے علم کی عظمت کی حضرت مسیح موعودؑ نے مثال دی ہے۔ مدرسہ احمدیہ کے جاری کرنے کی بھی وجہ بنے تھے۔
حضرت میاں محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ حبی فی اللہ میاں محمد خان صاحب ریاست کپور تھلے میں نوکر ہیں، نہایت درجہ کے غریب طبع، صاف باطن، دقیق فہم، حق پسند ہیں۔ اور جس قدر انہیں میری نسبت عقیدت و ارادت و محبت اور نیک ظن ہے مَیں اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے ان کی نسبت تردد نہیں کہ ان کے اس درجہ ارادت میں کبھی کچھ ظن پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔ وہ سچے وفادار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں۔ خدا ان کے ساتھ ہو۔ان کا نوجوان بھائی سردار علی خان بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے۔ یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید و رشید ہے۔ خداتعالیٰ ان کا محافظ ہو‘‘۔
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 532)
پھر قاضی ضیاء الدین صاحب کا نمونہ ہے۔ قاضی عبدالرحیم صاحب سناتے تھے کہ ایک دفعہ والد صاحب یعنی قاضی ضیاء الدین صاحب نے خوشی سے بیان کیا کہ مَیں وضو کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے آپ کے ایک خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب نے میرے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ تو حضورؑ نے میرا نام اور پتہ بتاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے سے عشق ہے۔ چنانچہ قاضی صاحب اس بات پر فخر کیا کرتے تھے۔ اور(تعجب سے) کہا کرتے تھے کہ حضور کو میرے دل کی کیفیت کا کیونکر علم ہو گیا۔ یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت قاضی صاحب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ مَیں بڑی مشکل سے تمہیں حضرت مسیح موعودؑ کے درپر لے آیا ہوں اب میرے بعد اس دروازے کو کبھی نہ چھوڑنا۔ (اصحاب احمد جلد نمبر6صفحہ9-8)
حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوریؓ کا نمونہ ہے۔ بیان اس طرح ہوا ہے کہ 13جنوری 1894ء مَیں اپنے امام سے رخصت ہو کر لاہور میں آیا اور ایک بڑی دھوم دھام کا لیکچر انگریزی میں دیا جس میں حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو بھی روحانی فائدہ ہوا تھا اس کا بیان کیا۔ جب میں سفر پنجاب سے ہو کر مدراس پہنچا تو میرے ساتھ وہ معاملات پیش آئے جو صداقتوں کے عاشق کو ہر زمانے اور ہر ملک میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ مسجد میں وعظ کہنے سے روکا گیا۔ ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنت و جماعت سے خارج ہے کوئی اس کا وعظ نہ سنے۔ پولیس میں اطلاع دی گئی کہ مَیں فساد پھیلانے والا ہوں۔وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین تھا۔ جناب مولانا مولوی حسن علی صاحب، واعظ اسلام کہلاتا تھا۔ صرف حسن علی لیکچرر کے نام سے پکارا جانے لگا۔ پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا۔جدھر جاتا انگلیاں اٹھتیں۔ سلام کرتا جو اب نہ ملتا۔ مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے۔مَیں ایک خوفناک جانور بن گیا۔ جب مدراس میں مسجد یں میرے ہاتھوں سے نکل گئیں تو ہندوؤں سے پچھیا ہال لے کر ایک دن انگریزی میں اور دوسرے دن اُردو میں حضرت اقدس امام الزمان کے حال کو بیان کیا جس کا ا ثر لوگوں پر پڑا۔ (تائید حق صفحہ71-70)
تو یہ تھے قربانی کرنے اور تبلیغ کرنے کے طریقے۔ اور یہ تھے وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعودؑ نے پیدا فرمائے۔
پھر حضرت منشی عبدالرحمنؓ صاحب کپور تھلوی کا ذکر ہے۔ پنشن پانے کے بعد حضرت منشی صاحب نے اپنی ملازمت کا محاسبہ کیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ سرکاری سٹیشنری میں غریب طلباء یا بعض احباب کو وقتاً فوقتاً کوئی کاغذ، قلم اور دوات یا پنسل دیتے رہے ہیں۔ بات یہ تھی کہ محلے کے طلباء بچے یا دوست احباب منشی صاحب سے کوئی چیز مانگ لیتے اور لحاظ کے طور پر منشی صاحب دے دیتے تھے۔یہ ایک بہت ہی ناقابل ذکر شے ہوتی تھی اور کئی سالوں میں بھی پانچ سات روپے سے زیادہ قیمت نہ رکھتی ہو گی۔ لیکن منشی صاحب نے محسوس کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا دراصل حق نہیں تھا۔ اعلیٰ ایمانداری کا تقاضا یہی تھا۔پس آپ نے کپورتھلے کے وزیراعظم کو لکھا کہ میں نے اس طریق پر بعض دفعہ سٹیشنری صَرف کی ہے آپ صدر ریاست ہونے کی وجہ سے مجھے معاف کر دیں تاکہ مَیں خداتعالیٰ کے روبرو جوابدہی سے بچ جاؤں۔ ظاہر ہے کہ صدر ریاست نے پھر درگزر کیا‘‘۔ (اصحاب احمد جلد 4صفحہ12)۔ تو یہ تھے اعلیٰ معیار تقویٰ کے جو پیدا ہوئے۔
پھر منشی صاحب بوڑھے ہو گئے ان کو ہمیشہ سے، جوانی سے ہی روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ جب بوڑھے ہو گئے تو آپ نے یہ دیکھنا چاہا کہ میرے ذمّہ کسی کا قرضہ تو نہیں ہے۔ روزنامچے کی پڑتال کرتے ہوئے کوئی 40سال قبل کا ایک واقعہ درج تھا منشی صاحب نے ایک غیراحمدی سے مل کر ایک معمولی سی تجارت کی تھی اس کے نفع میں سے برروئے حساب 40روپے کے قریب منشی صاحب کے ذمہ نکلتے تھے۔ آپ نے یہ رقم حقدار کے نام بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی تا رسید بھی حاصل ہو جائے۔ وہ شخص کپورتھلہ کا رہنے والا تھا۔ اور عجب خان اس کا نام تھا۔ منی آرڈر وصول ہونے کے بعد وہ اپنی مسجد میں گیا (غیرازجماعت تھا) اور لوگوں سے کہا تم احمدیوں کو برا تو کہتے ہو لیکن یہ نمونے بھی تو دکھاؤ۔ 40سال کا واقعہ ہے اور خود مجھے بھی یاد نہیں کہ میری کوئی رقم ان کے ذمے نکلتی ہے۔ غرض منشی صاحب کا یہ عمل مصدق ہے جو

حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا

کا۔(اصحاب احمد جلد 4صفحہ12)
حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام فرماتے ہیں کہ: ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک احمدی اور ایک غیر احمدی نمبردار ایک گاؤں کو جا رہے تھے۔ یہ پرانی بات ہے۔ موسم بہار تھا۔ چنے کے کھیت پکے تھے۔ احمدی نے راستے میں ایک ٹہنی توڑ کر منہ میں چنا ڈالا۔ پھرمعاً یہ خیال آنے پر تھوک دیا اور توبہ توبہ پکارنے لگا کہ پرایا مال منہ میں کیوں ڈال لیا۔ اس کے اس فعل سے نمبردار مذکور پر بہت اثر ہوا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ احمدی احمدیت سے پہلے ایک مشہور مقدمے باز، جھوٹی گواہیاں دینے والا، رشوت خور تھا۔ بیعت کے بعد اس کے اندر اتنی جلدی تبدیلی دیکھ کر کہ وہ پابند نماز، قرآن کی تلاوت کرنے والا اور جھوٹ سے مجتنب رہنے والا بن گیا ہے، نمبردار مذکور نے بیعت کر لی اور اس کے خاندان کے لوگ بھی احمدی ہو گئے۔ (اصحاب احمد جلد 10صفحہ85)
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وطن مالوف موضع راجیکی پہنچتے ہی خداوند کریم کی نوازش از لی نے میرے اندر تبلیغ کا ایسا بے پناہ جوش بھر دیا کہ مَیں شب و روز دیوانہ وار اپنوں اور بیگانوں کی محفل میں جاتا اور سلام تسلیم کے بعد امام الزمان علیہ السلام کے آنے کی مبارکباد عرض کرتے ہوئے تبلیغ شروع کر دیتا۔ جب گردو نواح کے دیہات میں میری تبلیغ اور احمدی ہونے کا چرچا ہوا تو اکثر لوگ جو ہمارے خاندان کو پشت ہا پشت سے ولیوں کا خاندان سمجھتے تھے مجھے اپنے خاندان کے لئے باعث ننگ خیال کرنے لگے۔ اور میرے والد صاحب محترم اور میرے چچاؤں کی خدمت میں حاضر ہو کر میرے متعلق طعن و تشنیع شروع کر دی۔ میرے خاندان کے لوگوں نے جب ان کی باتوں کو سنا اور میرے عقائد کو اپنے آبائی وجاہت اور دنیوی عزت کے منافی پایا تومجھے خلوت وجلوت میں کوسنا شروع کردیا۔آخر ہمارے ان بزرگوں اوردوسرے لوگوں کا یہ جذبۂ تنافریہاں تک پہنچا کہ ایک روزلوگ مولوی شیخ احمد ساکن دھریکاں تحصیل پھالیہ اور بعض دیگرعلماء کوہمارے گاؤں میں لے آئے۔ یہاں پہنچتے ہی ان علماء نے مجھے سینکڑوں آدمیوں کے مجمع میں بلایا اور احمدیت سے توبہ کرنے کے لئے کہا۔ میری عمر اگرچہ اس وقت اٹھارہ انیس سال کے قریب ہو گی مگر اس روحانی جرأت کی وجہ سے جو محبوب ایزدی نے مجھے مرحمت فرمائی تھی میں نے ان مولویوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس بھرے مجمع میں جہاں ہمارے علاقے کے زمیندار اور نمبردار اورذیلدار وغیرہ جمع تھے ان لوگوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل سنانے کی کوشش کی۔ لیکن مولوی شیخ احمد اور ان کے ہمراہیوں نے میرے دلائل سننے کے بغیر ہی مجھے کافر ٹھہرا دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اس لڑکے نے ایک ایسے خاندان کو بٹہ لگایا ہے جس میں پشت ہا پشت سے ولی پیدا ہوتے رہے ہیں اور جس کی بعض خواتین بھی صاحب کرامات و کشوف گزری ہیں تمام لوگوں کا میرے ساتھ مقاطعہ کرا دیا۔ اس موقع پر میرے بڑے چچا حافظ برخوردار صاحب کے لڑکے حافظ غلام حسین جو بڑے دبدبے کے آدمی تھے کھڑے ہوئے اور میری حمایت کرتے ہوئے مولویوں اور ذیلداروں کو خوب ڈانٹا۔ لوگوں نے جب ان کی خاندانی عصبیت کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہاں ضرور فساد ہو جائے گا اس لئے منتشر ہو کر ہمارے گاؤں سے چلے گئے……۔ اس فتویٰ تکفیر کے بعد مجھے

لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ

کی خاص توحید کا وہ سبق جو ہزارہا مجاہدات اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا ان علماء کی آشوب کاری اور رشتہ داروں کی بے اعتنائی نے پڑھا دیا اور وہ خدا جو صدیوں سے ہماکی طرح لوگوں کے وہم و گمان میں تھا، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے…… توسط سے اپنی یقینی تجلیات کے ساتھ مجھ ذرّہ حقیر پر ظاہر ہوا۔ چنانچہ اس ابتدائی زمانے میں جبکہ یہ علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کر رہے تھے مجھے میرے خدا نے الہام کے ذریعہ سے بشارت دی۔ مولوی غلام رسول جوان، صالح، کراماتی۔ چنانچہ اس الہام الٰہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہے وہاں میرے ذریعے سیدنا حضرت امام الزمان علیہ السلام کی برکت سے انذاری اور تبشیری کرامتوں کا اظہار بھی فرمایاہے جن کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ (حیات قدسی حصہ اوّل صفحہ23-21)
مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری کا ہی ذکر چل رہا تھا۔کہتے ہیں کہ پوچھو کہ مرزا صاحب سے مل کر کیا نفع ہوا۔اجی بے نفع ہوئے، کیا مَیں دیوانہ ہو گیا تھا کہ ناحق بدنامی کا ٹوکرا سر پراٹھا لیا اور مالی حالت کو سخت پریشانی میں ڈالتا۔ کیا کہوں کیا ہوا۔ مردہ تھا زندہ ہو چلا ہوں، گناہوں کا اعلانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں۔ ایک چھوٹی سی بات سناتا ہوں۔ اس نالائق کو 30برس سے یہ قابل نفرت بات تھی کہ حقہ پیا کرتا تھا۔ بار ہا دوستوں نے سمجھایا خود بھی کئی بار قصد کیا لیکن روحانی قویٰ کمزور ہونے کی وجہ سے اس پرانی زبردست عادت پر قابو نہ ہو سکا۔ الحمدللہ مرزا صاحب کی باطنی توجہ کایہ اثر ہوا کہ آج قریب ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے کہ پھر اس کمبخت کو منہ نہیں لگایا۔(اصحاب احمد جلد 14 صفحہ56)
حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کو بھی افیون کی عادت تھی انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد افیون کو ترک کر دیا۔ گو ڈاکٹری نقطہ نظر سے اس کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہئے کیونکہ اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔حضرت اقدس آپ سے بوجہ آپ کے علم کے بہت محبت رکھتے تھے۔ جب آپ نے افیون ترک کی تو آپ سخت بیمار ہو گئے۔ ابھی نقاہت شامل حال ہی تھی کہ مسجد مبارک میں نماز کے لئے تشریف لائے۔حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ آپ آہستہ آہستہ چھوڑتے یکدم ایسا کیوں کیا۔ شاہ صاحب نے عرض کیا کہ:’’ حضور جب ارادہ کر لیا تو یکدم ہی چھوڑ دی‘‘۔ (اصحاب احمد جلد پنجم صفحہ5)
وہ نظارے یاد کریں جب شراب کی ممانعت کا اعلان ہوا تو مٹکوں کے مٹکے ٹوٹنے لگے۔
حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوریؓ بیعت سے پہلیقادیان آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ مَیں نے یہاں کے علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا ہے اور خود مدعی مسیحیت اور مہدویت کی بھی زیارت کی۔ اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہئے۔چنانچہ اس امتحان کے لئے کہتے ہیں کہ میں لنگر خانے چلا گیا` اس وقت ابھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ تو اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنویں کے مشرقی طرف تھا۔ لنگر خانے میں ایک چھوٹا سا دیگچہ تھا جس میں دال تھی اور ایک چھوٹی سی دیگچی میں شوربہ تھا۔ میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اس کے منتظم تھے۔ مَیں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا۔ انہوں نے مجھ کو روٹی اور دال دی۔ مَیں نے کہا مَیں دال نہیں لیتا گوشت دو۔ میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال الٹ کر گوشت دے دیا۔ لیکن مَیں نے پھر کہا نہیں نہیں دال ہی رہنے دو۔ تب انہوں نے گوشت الٹ کر دال ڈال دی۔ دال اور گوشت کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تامَیں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں۔ الغرض مَیں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں۔منتظمین لنگر کی ہر ایک بات خداتعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی۔اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا۔ دوسرے دن صبح کو تقریباً تمام کمروں سے قرآن شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی۔ فجرکی نماز میں مَیں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھتے دیکھا اور یہ نظارہ بھی میرے لئے بڑا دلکش اور جاذب نظر تھا۔ (رجسٹر روایات نمبر 8صفحہ11-10)
تو یہ نظارے قادیان کے اس زمانے کے تھے جو انقلاب لائے جو آج بھی نظر آنے چاہئیں۔
حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کا ذکر ہے۔ مولوی محمد علی صاحب بھوپڑی غیر احمدی یہاں آیا کرتے تھے۔خوش الحان تھے۔ ان کے وعظ میں بے شمار عورتیں جایا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ دو دو تین تین ماہ یہاں رہا کرتے تھے۔ اس نے آ کر حضرت کی مخالفت شروع کر دی،بدزبانی بھی کرتا تھا۔ اس کے ساتھ بھی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ شیخ عبدالرشید صاحب واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ میرے والدین نے مجھے جواب دے دیا۔ والدہ زیادہ سختی کیا کرتی تھیں۔ کیونکہ مولوی بھوپڑی کا بڑا اثر تھا۔ والدین نے کہا ہم عاق کر دیں گے۔ کئی کئی ماہ مجھے گھر سے باہر رہنا پڑا۔ یعنی شیخ عبدالرشید صاحب کو۔کہتے کہ میرے والدصاحب میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ پہلے یہ دین سے بے بہرہ تھا، سویا رہتا تھا،اب نماز پڑھتا ہے، تہجد پڑھتا ہے، اسے میں کس بات پر عاق کروں۔ لیکن پھر بھی دنیاوی باتوں کو مدنظر رکھ کر مجھے کہا کرتے تھے کہ مرزائیت چھوڑ دو۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 12صفحہ29)
دو اور صحابہ کا ذکر ہے۔ قیام نماز کا اہتمام بیعت کرنے کے بعد۔ حضرت محمد رحیم الدین صاحب اور کریم الدین صاحب کہتے ہیں جون 1894ء میں جب مَیں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بیعت کی اس وقت گرمی کے دن تھے۔ میری صبح کی نماز قضاء ہو جاتی تھی۔مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں عریضہ لکھا کہ میری صبح کی نماز قضا ہو جاتی ہے میرے واسطے دعا فرماویں۔اس کے جواب میں حضرت صاحب نے لکھا کہ ہم نے دعا کی ہے تم برابر استغفار اور درود کثرت سے پڑھتے رہا کرو۔ اس دن سے ہمیشہ وقت پر آنکھ کھل جاتی رہی۔ آج تک صبح کی نماز قضا نہیں ہوئی سوائے شاذ و نادر سفر یا بیماری کے وقت کوئی نماز قضا ہو گئی ہو۔ یہ استجابت دعا کا نشان ہے اور میرے لئے ایک معجزہ ہے۔ الحمدللہ۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6صفحہ43)
کئی لوگوں سے مَیں پوچھتا رہتا ہوں کہتے ہیں کہ آنکھ نہیں کھلتی وہ اس نسخے کو آزمائیں۔
حضرت بدرالدین صاحب کی بیعت کے بعد حالت کا ذکر ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ خاکسار بہت چھوٹی عمر سے صراط مستقیم کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتا ہوا اہل حدیث اور شیعیت سے چل کر آریہ اور دہریہ تالابوں میں غوطے کھا رہا تھا۔ قریب تھا کہ بحر ضلالت و گمراہی میں غرق ہو جائے۔ پیارے رب اکبر نے جس کی صفت و ثناء توحید کرنا میری طاقت و لیاقت سے بہت ہی بالا ہے اپنے فضل اور رحم کا ہاتھ بڑھا کر ڈوبتے کو تھام لیا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور لیکھرام آریہ کا مباہلہ میرے تک پہنچا دیا۔ قریباً 1903ء ہو گا مَیں نے جس وقت حضرت ابر رحمت کا مضمون پڑھا۔ میرے مردہ جسم کے اندر بجلی کی طرح روح داخل ہو گئی۔ اسی روز سے سارے خیالات ترک کرکے حضور کی تحریر و تقریر کا شیدائی بن گیا۔ اس کے بعد ایک عرصہ تحصیل میں صرف کرکے اور معاملے کے ہر پہلو پر غور کرکے صداقت کا قائل ہو گیا۔ عملی قدم اٹھاتے وقت قسم قسم کے خطرات اور مشکلات کا بھیانک منظر سامنے آیا۔ کمزوری سے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ صداقت کو معلوم کر لیا ہے اب خاموش ہو جانا چاہئے۔ لوگوں پر ظاہر کرکے مشکلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اور خاموش ہو گیا۔ خاموش ہو جانے کے بعد جن کاموں کے خراب ہو جانے سے خاموشی اختیار کی تھی وہ خراب ہونے شروع ہو گئے۔ اور ایک کے سوا سب کے سب خراب ہو گئے۔ وہ ایک کام جو ابھی خراب نہیں ہوا تھا وہ میرے والد مرحوم کا سود در سود کا قرضہ تھا۔ اس کے متعلق یہ ڈر تھا کہ احمدی ہو جانے کے بعد ساہوکار مجھے بہت ذلیل کرے گا۔(لیکن کہتے ہیں کہ ساہوکار مع تمام افراد خاندان طاعون سے ہلاک ہو گیا اور اس کا تمام مال و اسباب سرکار میں داخل ہوا اور مَیں اس کے شر سے محفوظ رہا)۔ تو کہتے ہیں کہ جب صرف یہی کام خراب ہونے سے باقی رہ گیا تو مجھے یہ یقین ہو گیا کہ عنقریب یہ بھی خراب ہو گا۔ مَیں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر بیعت کا خط لکھ دیااور اعلان کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل کے دامن میں چھپا لیا اور مسیح موعود کے حضور حاضر ہو کر بیعت کر لی۔ اور مکرمی شیخ عرفانی صاحب کے ذریعہ حضرت سے خاص ملاقات کرکے استقلال کی خاص دعا کی۔ حضرت ابر رحمت نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا:’’ اچھا بھئی دعا کریں گے‘‘۔(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7صفحہ98)
میاں محمد الدین صاحب آف کھاریاں لکھتے ہیں کہ:’’ مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ آریہ برہمو دہریہ لیکچروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور افسروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب مَیں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتاہوں، صفحہ 90کے حاشیہ نمبر3اور صفحہ نمبر149کے حاشیہ نمبر11پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہو گئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کہ کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے۔ سردی کا موسم تھا جنوری 1893ء کی 19؍تاریخ تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ جب یہی ہونا چاہئے اور ہے کہ مقام پر پہنچا۔ پڑھتے ہی معاً توبہ کی، کورا گھڑا پانی کا بھراہو ا باہر صحن میں پڑا تھا۔تختہ چوپائی پیمائش کی میرے پاس رکھی ہوئی تھی۔سرد پانی سے لاچا تہ بند پاک کیا۔میراملازم مسمی منگتو سو رہا تھا۔ وہ جاگ پڑااور مجھ سے پوچھاکیا ہوا، کیاہوا، لاچا مجھ کودو مَیں دھوتاہوں۔ مگر مَیں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔آخرمنگتو اپناسارا زورلگاکرخاموش ہوگیا۔ اورگیلا لاچا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی اورمنگتو دیکھتاگیا۔محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتو تھک کر سو گیا اور مَیں نماز میں مشغول رہا۔پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں اب تک مَیں نے نماز نہیں چھوڑی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے مذکورہ بالا طوطیہ تمہید مَیں نے باندھا تھا۔عین جوانی میں بحالت ناکتخدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ایمان جو ثریاسے شاید اوپر ہی گیاہوا تھا اتار کرمیرے دل میں داخل کیا۔ اورمسلماں را مسلماں باز کردن کا مصداق بنایا۔جس رات مَیں بحالت کفرداخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7صفحہ47-46)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنا بھی ایک انقلاب پیدا کرنے والی چیز ہے۔ احباب جماعت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کی روایت ہے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے بچپن کے دوست تھے۔مَیں ان کوملنے کے لئے ان کے ہاں گیا۔ راستے میں مَیں نے دو لڑکوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا۔ میری حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے یہ دیکھاکہ دونوں قرآن کریم کی ایک آیت کے معنی پر بحث کررہے ہیں۔ مجھ کو ایسامعلوم ہوتاتھا کہ گویا ان کے دلوں میں قرآ ن کریم کی محبت رچا دی گئی ہے۔(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 8 صفحہ11)
یہ محبت ہے جوہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے۔اور یہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں پیدا کیا اورجس کوجاری رہنا چاہئے۔
منشی اروڑے خان صاحبؓ کی نوکری میں دیانت داری کے بارہ میں واقعہ ہے۔ ایک دفعہ کسی نے ہنس کر کہا: بابا کبھی رشوت تو نہیں لی تھی؟ منشی صاحب پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی جوجوش صداقت سے مغلوب تھی طاری ہوئی اورسائل کی طرف دیکھ کرفرمایاکہ مَیں نے جب تک نوکری کی اورجس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے اورجس دیانت سے کیا ہے اور جو فیصلے کئے ہیں اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے ہیں اور پھرجس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کوبچا یا ہے سب باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان سب کو سامنے رکھ کر مَیں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیراندازکا تیر خطا کرسکتاہے لیکن میر ی وہ دعا ہرگز خطا نہیں کرسکتی۔(بحوالہ روزنامہ الفضل 22؍ستمبر 2003ء)
دیکھیں کتنا خدا پر ایمان اور یقین تھا۔
حضرت شیخ محمداسماعیل صاحب ولدشیخ مسیتا صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی کے بار ہ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دوستوں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثرپیدا کردیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کوکارساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کرجھوٹ جیسی نجاست اختیار نہیں کرتے تھے۔اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے۔اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے۔ اوراخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہوگئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہماراخداہمارے ساتھ ہے۔یہ یقین ہی تھاکہ آپ کے دوستوں کے دشمن ذلیل وخوار ہوجاتے تھے اور آپ کے دوست ہر وقت خداتعالیٰ کا شکرگزار ہی ر ہتے تھے۔اورخداتعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔اور آپ کے دوستوں میں غنا تھا اورخدائے تعالیٰ پربھروسہ رکھتے تھے۔اور حق کہنے سے نہ رکتے تھے اورکسی کاخوف نہ کرتے تھے۔اعمال صالحہ کا یہ حال تھاکہ ان کے دل محبت الٰہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالصتاً للہی سے کرتے تھے۔ریاجیسی ناپاکی سے بالکل متنفر رہتے تھے کیونکہ ریاکاری کوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خطرناک بداخلاقی فرمایا کرتے تھے۔اورفرمایا کرتے تھے کہ اس میں انسان منافق بن جاتا ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6صفحہ66)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں فرماتے ہیں :
’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اس واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دو سو روپیہ ماہوارکی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کردیا‘‘۔اس زمانہ کے دو سو روپیہ ماہوارہزاروں ہوں گے آج کل، شاید لاکھ بھی ہوں۔ ’’خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزار دی۔ صرف عربی کتابوں کودیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔اسلام پرجو اندرونی اور بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کردی۔باوجود اس قدر بیماری اورضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی‘‘۔ (سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ مرتبہ محمود مجیب اصغر صاحب صفحہ108)
یہ تھے مجاہد جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمائے۔اور جیساکہ پہلے ذکرہوچکاہے ان کی وفات پرہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھاکہ بزرگ جا رہے ہیں اس لئے ہمیں جماعت میں علماء پیدا کرنے کے لئے مدرسہ قائم کرنا چاہئے اور پھروہ قائم فرمایا تھا۔توجودینی علم حاصل کرنے والے ہیں ،تمام دنیا میں جہاں جہاں جامعہ احمدیہ ہیں ، جامعہ میں پڑھنے والے لوگ ہیں وہ ان بزرگوں کو اپنے سامنے نمونے کے طورپر رکھیں۔
حضر ت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ جنہوں نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ ان کے بارہ میں فرماتے ہیں :۔
’’اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا۔اوردرحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈرکراپنے تقویٰ اوراطاعت الٰہی کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں۔اورخدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس وخاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کوتیار ہوتے ہیں۔اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتاہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔ اکثرلوگ باوجود…… بیعت کے اورباوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھربھی دنیا کودین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے۔اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہوخواہ آبرو کے متعلق ہو خواہ مال کے اورخواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق،ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتاہے۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ مَیں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتاہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے۔ اور ان خدمتوں کواپنے اوپر بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں۔ لیکن مَیں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور اپنی آبرو اور اپنی جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے۔ اکثر لوگوں کومَیں دیکھتاہوں کہ ان کا اول اور آخر برابر نہیں ہوتا اورادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں۔مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل مَیں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نور یقین میں دمبدم ترقی کرتاگیا‘‘۔ (تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ10)
پھر فرمایا کہ:’’ بے نفسی اور انکسار میں وہ اس مرتبہ تک پہنچ گیا کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاتا۔ہر ایک شخص کسی قدرشہرت اور علم سے محجوب ہوجاتاہے۔اور اپنے تئیں کوئی چیز سمجھنے لگتاہے اور وہی علم اورشہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہوجاتی ہے۔مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجودیکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنے علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہوسکتی تھی۔ اورآخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کا ہے‘‘۔ (تذکرۃ ا لشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ47)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مثال میں آخر پر دیتاہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ اس جگہ میں اس بات کے اظہار کے شکر ادا کرنے کے بغیر نہیں رک سکتا کہ خداتعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبت و اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرزپر رنگین ہیں۔ نہ مَیں نے اپنی محنت سے بلکہ خداتعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں ‘‘۔ بعضوں کا ذکر کیا کہ شاید وہ قربانی نہ کر سکیں لیکن اکثریت قربانی کرنے والی تھی۔ ان کا ذکر فرما رہے ہیں کہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔’’ سب سے پہلے مَیں اپنے روحانی بھائی کا ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نورالدین ہے۔ مَیں ان کی بعض دینی خدمتوں کا جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی اد اہو سکتیں ‘‘۔اتنی خدمت کرنے کے باوجودکتنا زبردست خراج تحسین ہے۔’’ ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے اس کے تصور سے ہی قدرت الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہیں ہر وقت اللہ اور رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں۔ اورمَیں تجربے سے،نہ صرف حسن ظن سے، یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں۔ اور اگر مَیں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرکے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کر تے‘‘ اور بعد میں ادا کیا بھی۔’’ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطورنمونہ ناظرین کودکھلاتاہوں تا انہیں معلوم ہوکہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت واخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں۔
مولانا،مرشدنا،امامنا،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عالی جناب! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں۔ اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیاہے وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہوتو مَیں نوکری سے استعفیٰ دے دو ں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں۔یا ا گر حکم ہوتواس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کودین حق کی طرف بلاؤں۔ اور اسی راہ میں جان دوں۔ مَیں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔میر اجوکچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد مَیں کمال راستی سے عرض کرتاہوں کہ میرا سارامال ودولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تومَیں مراد کوپہنچ گیا۔مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے۔ اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیارہوں۔ دعا فرماویں کہ میر ی موت صدیقوں کی موت ہو‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مولوی صاحب ممدو ح کا صدق اور ہمت اور ان کی غم خواری اور جانثاری جیسے ان کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔اور وہ محبت و اخلاص کے جذبہ ٔ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ پہ فدا کردیں۔ ان کی روح محبت کے جوش اور ہستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے۔اور ہر دم ہرآن خدمت میں لگے ہوئے ہیں ‘‘۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ37-35)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود؈ کے زمانے میں اللہ میاں نے وہ جماعت دکھادی)۔فرمایا:’’ اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خوددین کو دنیا پرمقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہوکرہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آ کر آباد ہوئے ہیں ‘‘۔(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ130)
پس یہ جو چند حالات میں نے بیان کئے ہیں کچھ ان بزرگوں کے خود بیان کردہ ہیں کچھ ان کے بارے میں دوسروں نے بیان کئے ہیں۔ کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں۔ یہ تمام واقعات تاریخ میں اس لئے محفوظ کئے گئے ہیں کہ ہمیں توجہ دلاتے رہیں کہ تمہارے بزرگ اپنی اصلاح نفس کرتے رہے ہیں اور اس طرح انہوں نے یہ معیارحاصل کئے ہیں۔ یا بیعت میں آنے کے بعد محبت و اخلاص کے اور وفا کے یہ معیار وہ دکھاتے رہے ہیں۔ تم بھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو اپنے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلو تاکہ یہ آخرین کے اخلاص و وفا کا زمانہ تا قیامت چلتا رہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ چلتا رہنا ہے کیونکہ اسی مسیح محمدی کے ذریعے اسلام کی شان و شوکت کو قائم رکھنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس کہیں ہمارے اپنے عمل اس برکت سے ہمیں محروم نہ کر دیں، بے فیض نہ کر دیں۔ پس قادیان کے رہنے والے بھی اور دنیا میں بسنے والے بھی تمام احمدیوں کو اس لحاظ سے ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ سب کے ایمان و اخلاص و وفا میں ہمیشہ مضبوطی عطا فرماتا چلا جائے۔
حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان میں فرمایا :انشاء اللہ ایک دو دن تک قادیان سے اور تین چار دن تک بھارت سے روانگی ہو گی۔ آپ لوگ بھی دعا کریں، دنیا میں باقی جگہ بھی احمدی دعا کریں، اللہ تعالیٰ خیرو عافیت سے یہ سفر گزارے اور قادیان میں رہنے کے دوران یہ برکات جو ہم نے حاصل کی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہم نے دیکھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کو جاری رکھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں