خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 04؍ اگست 2006ء

اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر اتنے غیر معمولی انعامات اور افضال نازل ہو رہے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں۔
ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے شکرگزاری میں بڑھتے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔
(اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں سے معمور جلسہ سالانہ U.Kکے نہایت کامیاب وبا برکت انعقاد پر احباب جماعت کو شکر گزاری کے مضمون کو اپنانے کی تاکیدی نصیحت)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ 04؍ اگست 2006ء (04؍ ظہور 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کَمَآ اَرْسَلْنَافِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَاْلحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(سورۃ البقرہ آیت نمبر152، 153)

جلسے کے بعد جو پہلا جمعہ آتا ہے اس کے خطبے میں، جلسہ سالانہ جو بخیروخوبی اختتام تک پہنچتاہے اور اس میں جو اللہ تعالیٰ کی برکات شامل ہوتی ہیں، اس میں جو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے نوازتا ہے، اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شکر کے مضمون پر کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ سو اس لحاظ سے آج کا خطبہ بھی اسی شکر کے مضمون پر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر اتنے غیر معمولی انعامات اور افضال نازل ہو رہے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں، ہر لمحہ، ہر قدم پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آتے ہیں۔ جلسے کے دوسرے دن کی تقریر میں میں نے کچھ کا ذکر کیا تھا کیونکہ سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں تھا، بہرحال وہ ذکر اور واقعات آہستہ آہستہ چَھپتے رہیں گے۔ اس وقت میں صرف ان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ بندوں کا شکریہ ادا کرنے سے بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کا یہ ارشاد ہمیشہ ہر ایک کو پیش نظر رکھنا چاہئے، ہر اس شخص کو جسے آپﷺ کے حکموں پر عمل کرنے کی سچی تڑپ ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ میری دنیا و عاقبت سنور جائے، جو اس یقین پر قائم ہے کہ آپﷺ کی باتیں دراصل خدا کے منہ کی باتیں ہیں۔آپ ؐ فرماتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ

مَنْ لَایَشْکُرُالنَّاسَ لَایَشْکُرُاللّٰہَ

یعنی جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔(سنن ترمذی کتاب البر و الصلہ باب فی الشکر لمن احسن الیک)
پس اس لحاظ سے سب سے پہلے تو میں اس علاقے کے لوگوں اور لوکل کونسل کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ان حالات کے باوجود اور ان خبروں کے باوجود جو اُن کو ہمارے بارے میں غلط رنگ میں پہنچائی گئی تھیں اور جس کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے لوگ بڑے پریشان تھے کہ احمدی آ رہے ہیں تو پتہ نہیں کس قسم کا گند یہاں ہو جائے گا۔ اور اسلام کے خلاف جو غلط پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے عام طور پر عوام کے ذہنوں میں ان مغربی ممالک میں یہ تصور قائم ہے کہ مسلمان کا مطلب ہی دہشت گردی ہے یہ لوگ بہت زیادہ خوفزدہ تھے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کی حالت بدلی اور کچھ رابطوں اور تعلقات اور میٹنگز، اور جیسا کہ میں نے جلسہ سے پہلے بھی بتایا، تھا چیریٹی واک وغیرہ کی وجہ سے ان کے شبہات دور ہوئے اور پھر انہوں نے بلاوجہ سختی اور ضد نہیں دکھائی اور اس علاقے کی تقریباً تمام آبادی اگر ہمارے حق میں نہیں ہوئی تو کم از کم مخالفت چھوڑ دی اور یہ دیکھنے پر آمادہ ہو گئے کہ دیکھیں یہ لوگ کس طرح اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو بھی جلسہ کے ماحول میں آئے یا اس سڑک سے بھی گزرے جو ہمارے جلسہ گاہ کے سامنے سے گزرتی ہے تو اس بات کا برملااظہار کیا کہ ہم جس بات سے ڈرتے تھے اور کونسل کی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت کے بعد بھی ہمیں بعض لوگوں نے آپ لوگوں کے بارے میں جن باتوں سے ڈرایا ہوا تھا آپ لوگ تو اس سے بالکل مختلف نکلے۔ پس یہ لوگ حقیقت پسند بھی ہیں اچھی بات کی تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کھل کر تعریف بھی کی اس لئے ہم بھی شکر گزاری کے جذبات کی وجہ سے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس جگہ میں جلسہ منعقد کرنے میں نہ صرف روک بننے سے پرہیز کیا بلکہ جب حقیقت کھل گئی تو تعریف بھی کی۔ اس لئے ایک تو ہماری انتظامیہ کو چاہئے کہ کونسل کو اور لوگوں کے نمائندوں کو بھی اس تعاون پر تحریراً شکریہ ادا کریں، خط لکھیں ویسے تو مجھے امید ہے کہ لکھ دیا ہو گا اگر نہیں تو اب لکھ دیں گے۔
پھر جیسا کہ میں نے جلسے پر بھی ذکر کیا تھا یہ زمین ہم نے جس مالک سے لی ہے اس کے سابقہ مالک نے بھی ہمارے ساتھ خوب تعاون کیا اور نہ صرف انہوں نے بلکہ ان کے پورے خاندان نے، مثلاً جو بجری والی سڑک کے کچھ تھوڑے سے حصہ پر بجری ڈال کر سڑک پکی کی گئی تھی اس کو بنانے اور اس پر رولر وغیرہ پھیرنے کے لئے(کافی ہیوی رولر مشینری تھی تاکہ اچھی طرح بجری دبا کر مضبوط سڑک ہو جائے)۔ اس میں ان کی 19سالہ ایک بیٹی نے بڑا کام کیا اور کئی کئی گھنٹے وہ یہ بھاری مشینری چلاتی رہی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔ بلکہ میں تو اس کو کہہ رہا تھا کہ یہ کام ایسا ہے جو بڑا مشکل اور سخت کام تھا کہ شاید بعض مرد بھی نہ کر سکیں۔ غرض کہ یہ سارا خاندان بیوی بچے اور سابق مالک کِیتھ، ان کے بوڑھے والد جن کی شاید 70سال سے زائد عمر ہے اس طرح ایک جذبے سے اور ہم میں گھل مل کر کام کر رہے تھے جیسے کوئی پرانے احمدی بڑے اخلاص سے بھرے ہوئے کام کرتے ہیں۔ تو جہاں تک دوستی نبھانے کا تعلق ہے اور اخلاق کا تعلق ہے، اچھے اخلاق دکھانے کا تعلق ہے اس میں واقعی ان کا عمل متاثر کن تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی دین کی آنکھ بھی روشن کرے اور سچائی کو پہچان کر وہ اپنے اخلاص میں بھی بڑھ جائیں۔ دینی اخلا ص میں بھی بڑھ جائیں۔ تو یہ دعا بھی ان لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ بھی شکر گزاری کے جذبات کا ایک عمدہ اور اعلیٰ اظہار ہے۔
پھر مسٹر کِیتھ نے علاقے کے لوگوں اور کونسل کو ہمارا جلسہ منعقد کرنے کی اجازت اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایک ایک ہمسائے کے پا س گئے، ان کو بتایا کہ جو مختصر عرصے میں میں نے ان لوگوں کو سمجھا ہے یہ وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ لوگ تو کچھ اور ہی چیز ہیں۔ تو ان لوگوں اور اس فیملی کے ہم بہرحال شکر گزار ہیں ورنہ ان کو کیا پڑی تھی، زمین بیچ کر ایک طرف بیٹھ جاتے کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے ہم نے تمہاری وکالت کرنے اور راہ ہموار کرنے کی کوئی ذمہ داری تو نہیں لی ہوئی، زمین بیچنی تھی بیچ دی۔ تو یہ ان کا بہت بڑا خلق ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔
اور اللہ کے فضل سے ایسا پُر امن ماحول رہا کہ پولیس جو ٹریفک کے لئے آئی ہوئی تھی وہ بھی دیکھ کر حیران تھی کہ کس طرح ٹریفک کنٹرول ہو رہا ہے۔ بلکہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ تمہارے خدام تو اس طرح ٹریفک کنٹرول کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے پولیس کی ٹریننگ لی ہوتی ہے۔ چند گھنٹے کے بعد وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ بہرحال ہر جگہ سے ان کو اچھا تاثر ملا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کامیاب ہوا۔
پھر ہمارے والنٹیٔرز شکریہ کے مستحق ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ دنیائے احمدیت میں جہاں بھی چلے جائیں یہ کام کرنے والے کارکن میسر آ جاتے ہیں جو لگاتار کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں اور یہی حال یہاں اس جلسہ میں بھی ہم نے دیکھا۔ اگر تھکتے بھی ہیں تو اظہار نہیں کرتے۔ اکثر کی ڈیوٹیاں ان کے پیشوں اور بعض کی ان کے مزاج سے بھی مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن مجال ہے جو ماتھے پر بل آئے۔ بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں، جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، بچیاں بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر مجھے ان کارکنان کے اچھے کام کی تعریف ہی لوگوں نے لکھی ہے، جو شامل بھی ہوئے تھے اور جو کام کرنے والے بھی تھے۔ بعض سرپھروں کی وجہ سے اِکَّا دُکَّا واقعات ہو جاتے ہیں، جہاں اپنے مزاج کی وجہ سے بعض کارکن ماحول کو خراب کر دیتے ہیں اور باوجود سمجھانے کے اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں، تو انتظامیہ کو چاہئے کہ ایسے کارکن یا کارکنات جو ہیں ان کی ڈیوٹی ایسی جگہوں پر نہ لگائیں جو پبلک ڈیلنگ(Public dealing) کی جگہ ہو۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا عمومی طور پر ڈیوٹیوں کے معیار لڑکیوں کے، لڑکوں کے، عورتوں مردوں کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے رہے اور یقینا وہ سب شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے، ان کے اخلاص و وفا کو بڑھائے، ان میں یہ روح مزید بڑھاتا چلا جائے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی یہ ڈیوٹیاں ہمیشہ سر انجام دینی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر احکامات پر بھی عمل کرتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جو خطوط اور فیکسیں مجھے آئی ہیں، تمام دنیا نے ان سب کام کرنے والوں کو بڑی دعائیں دی ہیں۔ اس نئی جگہ پر جو پہلے جلسے کا انعقاد ہوا ہے، بہت سی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ فوری طور پر تھوڑے وقت میں کام شروع کیا گیا اور شروع میں کام کرنے والی ٹیموں نے بڑی محنت سے اس جگہ کو اس قابل بنایا جس میں پانی کی سپلائی اور سیوریج وغیرہ کے پائپ ڈالنے کا کام تھا اور ایک کافی بڑی جگہ پر وسیع رقبے پر اب تقریباً مستقل یہ سہولت مہیا ہو گئی ہے جو آئندہ بھی انشاء اللہ کام آتی رہے گی۔ ان سب کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا دے جنہوں نے یہ کام کیا۔ یہ سب کارکنان جیسا کہ میں نے کہا سب دنیا کے احمدیوں کی دعائیں لے رہے ہیں۔
پھر تمام دنیا کے احمدیوں کو جلسہ میں براہ راست شامل کرنے میں جو کردار ایم ٹی اے کے کارکنان ادا کرتے ہیں وہ سب پر ظاہر ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اپنے والنٹیٔرز بھی اس قابل ہو گئے ہیں کہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ تمام نظارے دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور سوائے اس کے جو براہ راست شامل ہونے کی برکت ہے اور ایسے جذبات ابھرتے ہیں جو ٹیلیویژن پر دیکھ کر شاید نہ ابھرتے ہوں، اس کے علاوہ جہاں تک انسانی کوششوں کے اندر رہتے ہوئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جلسے کے ماحول کو دکھانے اور اس میں جذب کرنے کا سوال ہے، میرے خیال میں شاید19،20 کی کوئی کمی رہتی ہو تو رہتی ہو ورنہ دنیا کا ہر احمدی گھر جلسہ گاہ کی تصویر بنا ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو اپنے خاندان کو اکٹھا کر لیتے ہیں اور جلسے کا سماں ان کے گھروں میں بندھا ہوتا ہے۔ اور بعض لوگ ان دنوں میں یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کھانا بھی وہی پکائیں جو ہمارے جلسہ کے دنوں میں لنگر خانہ میں پک رہا ہوتا ہے۔ بہرحال ان ایم ٹی اے کے کارکنوں کے تمام دنیا کے احمدی شکر گزار ہیں۔ سامنے سکرین پرآنے والے کارکنوں کے علاوہ بے شمار کارکنات، بچیاں، عورتیں اوردوسرے رضا کار ہیں جو بڑے اخلاص و وفا سے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ سب دیکھنے والے ان کے لئے دعا تو کر رہے ہیں اور کرتے ہوں گے، ان کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا اور طاقتوں اور صلاحیتوں کو ہمیشہ بڑھاتا چلاجائے اور ان سب لوگوں کے لئے شکریہ کے جذبات کے ساتھ ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ ہم بھی حقیقی شکر گزار اس ذات کے بنیں جو اپنے مسیح و مہدی سے کئے گئے وعدوں کے مطابق خود وہ حالات پیدا کر رہا ہے جن میں اگر ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ کسی انسانی کوشش کا عمل دخل نہیں۔ ایسے حالات جس سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہر لمحہ نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے بلکہ اعلان فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تم پر ہمیشہ پڑتی رہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر پڑے تو ہمیشہ اس کے لئے یہ نسخہ یاد رکھو کہ میرے شکر گزار بنو۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُم (سورۃ ابراھیم:8)

یعنی اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور بڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں توفیق دیتا چلا جائے کہ ہم اس کے شکر گزار بنیں اور اس کی نعمتوں سے حصہ پاتے چلے جائیں اور شکر صرف منہ زبانی کا شکر نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرکے جو ہمارے شکر کی عملی تصویر ہے وہ سامنے آئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے کہ شکر گزار بنو، کہیں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو معاف کرتا ہے اس بات کو تمہیں شکر گزاری میں بڑھانا چاہئے، کہیں اپنے فضلوں کی طرف توجہ دلا کر شکر گزار بننے کی طرف توجہ دلائی، کہیں تنگیوں کو دور کرنے کی وجہ سے شکر گزاری کی طرف توجہ دلاتا ہے، کہیں فرماتا ہے کہ میں نے تم پر جو تعلیم اتاری ہے اس کی وجہ سے بھی تم شکر گزاری میں بڑھو، کہیں فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں طوفانوں اور تکلیفوں سے آزاد کیا ہے اس پرشکر گزار بندے بنو، میرے انعاموں کی اگر صحیح قدر ہے تو شکر گزار بنو۔ غرض کہ مختلف حالات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرے صحیح عبد بننا چاہتے ہو تو شکر گزار بنو تاکہ مزید فضل بڑھاؤں۔ اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کیا ہے؟ کہ اس کے عبادت گزار بندے بنیں،اس کے حکموں پر عمل کریں۔ جیسا کہ فرماتا ہے

بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْن (سورۃ الزمر:67)

یعنی بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔ پس شکر گزاری کی جو معراج ہے، یہی ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس عبادت کے طریقے ہمیں اس نبی ﷺ نے سکھائے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ تعلیم اتاری ہے۔ آپؐ کا عمل کیا تھا؟ یہ کہ ساری ساری رات اس مچھلی کی طرح تڑپتے رہتے تھے جو پانی سے باہرہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے ہیں، اس کی بخشش طلب کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کر رہے ہیں، جب پوچھا جاتا ہے کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہو چکے ہیں۔ پھرآپؐ کیوں اتنا تڑپتے ہیں،تو جواب ملتا ہے کہ میں اس انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:۔
’’احمق حقیقت سے ناآشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جس قدر یہ لفظ پیارا ہے اور آنحضرت ﷺ کی اندرونی پاکیزگی پر دلیل ہے، وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ عاشق رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کر رہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرتے ہیں اور اظہار شکر سے قاصر پا کرتدارک کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجذوم القلب لوگوں کو سمجھائیں، ان پر وارد ہو تو وہ سمجھیں۔ جب ایسی حالت ہوتی ہے احسانات الٰہیہ کی کثرت آ کر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پُر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر استغفار کے ذریعہ اپنے قصور شکرکا تدارک کرتی ہے۔ یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قویٰ جن سے کوئی کمزوری یا غفلت صادر ہو سکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں۔ نہیں وہ ان قویٰ پر تو فتح حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرکے استغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کر سکتے۔ یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ ناآشنا ہیں، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حیوانات، گدھے وغیرہ انسانیت کی حقیقت سے بے خبر اور ناواقف ہیں ‘‘۔ یعنی وہ لوگ جن کو اس مقام کا نہیں پتہ۔’’ اسی طرح پر انبیاء ورسل کے تعلقات اور ان کے مقام کی حقیقت سے دوسرے لوگ کیا اطلاع رکھ سکتے ہیں۔ یہ بڑے ہی لطیف ہوتے ہیں اور جس جس قدر محبت ذاتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر یہ اور بھی لطیف ہوتے جاتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ632،633، جدید ایڈیشن)
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لَکَ شَاکِرًا لَّکَ ذَاکِرًا

یعنی اے میرے اللہ تو مجھے اپنے شکریہ بجا لانے والا اور بکثرت ذکرکرنے والا بنا۔(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب ما یقول الرجل اذا سلم)
پھر آپؐ کے بارے میں ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی خوشی پہنچتی تو آپؐ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر)
پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپﷺ فرماتے ہیں، یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ دعا میں بہت ہی کوشش سے کام لو تو تم یہ کہو کہ اے اللہ اپنے شکر اور اپنے ذکر اور اپنے اچھے طریق سے عبادت کرنے میں ہماری مدد فرما۔

اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا عَلٰی شُکْرِکَ وَذِکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ (مسند احمد بن حبنل جلد نمبر 3حدیث نمبر7969)

ایک دوسری روایت میں حضرت معاذ بن جبلؓ سے یہ روایت ہے کہ ان سے بہت محبت کا اظہار کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے آخرمیں ان کلمات کو ادا کرنا کبھی ترک نہ کرنا یعنی

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِک

ایک روایت میں مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملہ کے بارے میں آپؐ فرماتے ہیں، یہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے تمام معاملے خیر پرمشتمل ہیں اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجا لاتا ہے، الحمدللہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبرکرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد باب المومن امرہ کلہ خیر)
پس جلسے میں شامل ہونے والے اور کام کرنے والے دونوں اس بات کو یاد رکھیں کہ جہاں وہ یہ دعا کرکے اور صبرکرکے اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل کر رہے ہوں گے،کوئی خوشی پہنچے تو الحمدللہ پڑھتے ہیں، تکلیف پہنچے تو صبر کرتے ہیں، آپس میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنا چاہئے اوراس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے آپس کے تعلقا ت میں بھی مضبوط بندھن قائم کررہے ہوتے ہیں۔ تو اس جلسے میں بھی اگر کوئی جیسا کہ میں نے کہا کہ واقعات ہو گئے ہیں تو اسی طرح عمل کرنا چاہئے، یہی رد عمل ظاہر ہونا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے اور ہر ایک آنحضرت ﷺ کی ان پُر حکمت باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے ہوئے ہمیشہ ان پر عمل کرنے والا ہو تاکہ یہ باتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں اور اس کا شکر گزار بندہ بنانے والی ہوں۔
جو آیات میں نے تلاوت کی تھیں ان کا ترجمہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ

کہ پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔ پس جب اللہ تعالیٰ اس قدر فضل کرنے والا ہے تو جہاں ہم اس بات کا ہمیشہ شکر کریں کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم آنحضرت ﷺ کی امت میں شامل ہیں اور اس میں شامل ہو کر ان برکات میں شامل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری ہیں، اس تعلیم سے حصہ لے رہے ہیں اور لینے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں، وہ پر حکمت اور پر معارف باتیں سیکھ رہے ہیں جس سے عرفان الٰہی حاصل ہو، وہاں ہم اس بات پر بھی شکر گزار ہیں کہ ہمیں اس زمانے میں اس بات کی بھی توفیق دی کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جس نے درحقیقت ان پر حکمت باتوں کو ہم پر واضح کیا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے طریقے سکھائے۔ دنیا کو یہ باتیں اب صرف اور صرف آخرین کے اس امام کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان حکمت اور عرفان کی باتوں کو سیکھنے کے لئے ہی جلسے کا آغاز فرمایا تھا۔ پس ان جلسوں کو بھی ہم میں شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بننا چاہئے کیونکہ اس ماحول نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننے کا صحیح فہم اور ادراک عطا کیا۔
ہمیں ان مقررین کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اس طرف ہماری راہنمائی کی۔ ان کے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عرفان کو مزید بڑھائے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے ہوئے اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ان تمام احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعے ہمیں دیئے۔ اور جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے تو وہ سچے وعدوں والا خدا فرماتا ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا اور تمہیں انعامات سے نوازتا رہوں گا اور جن نعمتوں کو ہم آج بہت سمجھ رہے ہیں ،اس سے بھی زیادہ نعمتیں عطا کروں گا۔
پس ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے شکر گزاری میں بڑھتے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر شکر گزاری کے جذبات پیدا نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے حضور جھکے رہنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے اس کے حضور جھکتے ہوئے یہ د عائیں مانگنے کی طرف ہر احمدی کو توجہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ مجھے تقویٰ اور پرہیز گاری میں بڑھا تاکہ میں تیرا حقیقی عبادت گزار بن جاؤں اور ہمیشہ تیرے فضلوں اور انعاموں کا وارث ٹھہروں۔ اے اللہ! مجھے ہمیشہ قناعت سے رہنے اور ہرحال میں اپنی نعمتوں اور فضلوں کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھنے کی توفیق عطا فرما تاکہ میں تیرا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بن جاؤں۔ اے اللہ! میرے دل میں دوسروں کے لئے وہی جذبات پیدا کر جن کی میں اپنے لئے دوسروں سے توقع رکھتا ہوں تاکہ حقیقت میں ان لوگوں میں شمار کیا جاؤں جو تیرے مومن بندے ہیں۔ اے اللہ مجھے ہمیشہ اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرما تاکہ اس عمل سے تیری رضا کو حاصل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بن سکوں۔ اے اللہ! میرے دل و دماغ میں حکمت اور دانائی کی باتیں پیدا کر، مجھے اپنا عرفان عطا فرما، میرے دل کو مردہ ہونے سے بچا اور پھر مجھے اس بات کی بھی توفیق عطا فرما کہ یہ باتیں مجھے تیرا شکر گزار بندہ بننے میں اور زیادہ بڑھانے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں