خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 15؍ستمبر 2006ء

پوپ نے بعض ایسی باتیں کہہ کر، جن کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے، قرآن کریم،اسلام اور بانیٔ اسلام ﷺ کے بارہ میں غلط تأثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے ان کے اسلام کے خلاف اپنے دلی جذبات کا بھی اظہار ہوتاہے۔
(جرمنی میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران پوپ کے اسلام کے خلاف معترضانہ بیان پر جامع اور بھرپور تبصرہ)
اسلام کے خلاف پھر محاذ کھڑے ہورہے ہیں اس سے ہم کامیابی سے صرف خدا کے حضور جھکتے ہوئے اور اس سے مدد طلب کرتے ہوئے گزر سکتے ہیں۔ پس خدا کو پہلے سے بڑھ کر پکاریں کہ وہ اپنی قدرت کے جلوے دکھائے۔ جھوٹے خداؤں سے اس دنیا کو نجات ملے۔
مسلمان ملکوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے فروعی اختلافات کو ختم کریں۔ آپس کی لڑائیوں اور دشمنیوں کو ختم کریں۔ ایک ہو کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اور ایسے عمل سے باز آجائیں جن سے غیروں کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہو۔
(بعض مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ 15؍ستمبر 2006ء (15؍تبوک 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

کل ایک خبر آئی تھی کہ پوپ نے جرمنی میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران بعض اسلامی تعلیمات کا ذکر کیا اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی دوسرے لکھنے والے کے حوالے سے ایسی باتیں کی ہیں جن کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ ان کا ایک طریقہ ہے، بڑی ہوشیاری سے دوسرے کا حوالہ دے کر اپنی جان بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور بات بھی کہہ جاتے ہیں۔ پوپ صاحب نے بعض ایسی باتیں کہہ کر قرآن کریم، اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ایسا غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے مسلمانوں میں تو ایک بے چینی پیدا ہو گئی ہو گی، اِس سے اُن کے اسلام کے خلاف اپنے دلی جذبات کا بھی اظہار ہو جاتا ہے۔ پوپ کاایسا مقام ہے کہ وہ چاہے کسی حوالے سے بھی بات کہتے، ان کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ایسی بات کا اظہار کیا جاتا۔
اس وقت جبکہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف مغرب میں کسی نہ کسی حوالے سے نفرت کے جذبات پیدا کئے جا رہے ہیں، پوپ کا ایسی بات کرنا جلتی پر تیل ڈالنے والی بات تھی۔ چاہئے تویہ تھا کہ وہ کہتے کہ گو آج بعض شرپسند اسلامی تنظیموں نے متشددانہ طریق اپنایا ہوا ہے لیکن اسلام کی تعلیم اس کے خلاف نظر آتی ہے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہئے تاکہ معصوم انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچایا جا سکے۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو اس راستے پر لگانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی تعلیم تو ہے ہی یہ۔میرا خیال تھا کہ پوپ سلجھے ہوئے انسان ہیں اور عالم آدمی ہیں اور اسلام کے بارے میں بھی کچھ علم رکھتے ہوں گے لیکن یہ بات کرکے انہوں نے بالکل ہی اپنی کم علمی کا اظہار کیا ہے۔ جس مسیح کی خلافت کے وہ دعویدار ہیں اس کی تعلیم پر چلتے ہوئے ان کو تو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی، اس نے تو دشمن سے بھی نیک سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے ایک طرف تو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا ہے(جیسا کہ مَیں نے کہا ہے) اور پھر ردّعمل کے طور پر جن کو جذبا ت پر کنٹرول نہیں ہے وہ ایسی حرکتیں کر جائیں گے جس سے مسلمانوں کے خلاف ان کو مزیدPropagandaکا موقع مل جائے گا۔ دوسرے پوپ کے پیروکار اور مغرب میں رہنے والے لوگ جو اسلام کو شدت پسند مذہب سمجھتے ہیں ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف مزید نفرت پھیلے گی۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور دنیا کو فتنے اور فساد سے بچائے۔ احمدیوں کو تو ہمیشہ ہی یہ دعاکرنی چاہئے اور یہ جو سوال اٹھائے گئے اور آگے اپنا لیکچر دیا دعا کے ساتھ ہر ملک میں اس کے جواب بھی دینے چاہئیں۔ ہمارے تو یہی دو ہتھیار ہیں جن سے ہم نے کام لینا ہے، کسی اور ردّعمل کا نہ کبھی احمدی سے اظہار ہوا ہے اور نہ انشاء اللہ ہو گا۔
مَیں پوپ کے اعتراضات کا خلاصہ پڑھ دیتا ہوں جو انہوں نے قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے۔ جرمنی سے یہ تفصیل منگوائی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک مکالمہ پڑھا تھا جس کا متن ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے شائع کیا ہے اور یہ پرانا مکالمہ ایک علم دوست قیصر مینوئیل اور ایک فارسی عالم کے درمیان 1391ء میں انقرہ میں ہوا تھا اور پھر وہی عیسائی عالم اس کو تحریر میں لایا۔ لیکن ساتھ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کیونکہ یہ مکالمہ عیسائی عالم کی طرف سے شائع ہوا ہے اس لئے انہوں نے اپنی زیادہ بات کی ہے۔ اپنی ایمانداری کا تو یہیں پتہ لگ گیا کہ مسلمان عالم کی باتوں کا ذکر بہت کم ہے اور اپنی باتیں زیادہ کی ہیں۔ بہرحال (جو سوال اٹھائے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ مَیں اپنے اس لیکچر میں ایک نکتے پر بات کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ اس میں قیصر جہاد کا ذکر کرتا ہے اور قیصر کو یقینا علم تھاکہ مذہب کے معاملے میں اسلام میں جبر نہیں ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت256کا حوالہ دے رہے ہیں۔ آگے کہتے ہیں قیصر یقینا قرآن میں مقدس جنگ یا جہاد سے متعلق بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا۔ قرآن میں اس حوالے سے جو تفصیلات درج ہیں مثلاً اہل کتاب سے اور کفار سے مختلف قسم کا سلوک کیا جانا چاہئے(یہ انہوں نے اپنی طرف سے حوالہ دے دیاہے) اور یہ کہتے ہیں کہ قیصر حیران کن تُرش الفاظ میں اپنے شریک گفتگو سے بنیادی سوال کرتا ہے اوراس پر مزید کہتا ہے کہ مذہب اور جبرکا آپس میں کیا تعلق ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مجھے دکھاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون سی نئی چیزلے کر آئے ہیں۔ تمہیں صرف بُری اور غیر انسانی تعلیمات ہی ملی ہیں جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ ان کے لائے ہوئے مذہب کو تلوار کے زور سے پھیلایا جائے۔ اِنَّا لِلہ۔ اس کے بعد کہتے ہیں قیصر تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ کیوں مذہب کو طاقت کے زور سے پھیلانا عقل کے خلاف ہے۔ یہ تعلیم خدا کی ذات اور روح کی ماہیت سے متصادم ہے۔ کہتا ہے کہ خدا کو خونریزی پسند نہیں اور عقل و عمل خدا کی ذات سے متصادم ہے۔ایمان روح کا پھل ہے جسم کا نہیں۔
پھر آگے کہتے ہیں کہ قیصر جس کی تربیت یونانی فلسفے کے تحت ہوئی تھی اس کے لئے مذکورہ بالا جملہ ایک واضح حقیقت ہے جب کہ اسلامی تعلیم کے مطابق خدا ایک مطلقاً ماورائیت کا حامل وجود ہے اور کسی ارضی کیٹیگری (Category) کا پابند نہیں حتیٰ کہ معقولیت کا بھی نہیں۔ اور پھر آگے فرانسیسی ماہر اسلامیات کے حوالے سے ابن حزم کی ایک باتquote کی ہے کہ کوئی شے خدا کو ہم پر سچ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔اگر وہ چاہے تو انسان کو بت پرستی بھی کرنی پڑے گی۔(پتہ نہیں ابن حزم نے کہا بھی تھا کہ نہیں، کوئی حوالہ آگے نہیں ہے)۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ کیا یہ عقیدہ کہ خدا خلاف عقل کام نہیں کر سکتا یہ یونانی عقیدہ ہے یا یہ ازلی اور فی ذاتہ ایک حقیقت ہے۔ میرے خیال میں یہاں یونانی فکر کی یا خدا پر ایسے ایمان کی جو بائبل پر مبنی ہو آپس میں گہری مطابقت نظر آتی ہے۔(خیر باقی تو لمبا لیکچر ہے)۔
اس میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک تو خود ہی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ قیصر کے اپنے الفاظ فارسی عالم کے جوابات کے مقابلے میں مفصّل ہیں اور جس عیسائی نے اپنی یہ داستان لکھی ہے، ظاہر ہے کہ اس نے اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے اپنی دلیلوں کو مضبوط کرنا تھا، دوسری طرف کی دلیلیں تودی نہیں گئیں، یقینا انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہو گا۔ بہرحال یہ جو کچھ بھی تھا، ہم مسلمان کیا سمجھتے ہیں، ہم احمدی کیا سمجھتے ہیں اس بارہ میں مَیں قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے مختصراً بیان کرتا ہوں۔ زیادہ تو بیان نہیں ہو سکتا لیکن پوپ کے لئے ان سوالوں کے انشاء اللہ جوابات تیار کئے جائیں گے اور انہیں پہنچانے کی کوشش بھی کی جائے گی تاکہ وہ اسلام کی صحیح تعلیم سے اگر ابھی تک بے بہرہ تھے، ناواقف تھے تو اب ان کو کچھ پتہ لگ جائے، بشرطیکہ اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے انصاف سے اس کو پڑھیں اور غور کریں۔
ہمارے دل میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بہت احترام ہے۔ ہم انہیں اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں بلکہ ہر قوم میں جتنے بھی انبیاء آئے سب کو مانتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ عیسائیوں کو بھی مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام کرنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قیصر کا حوالہ دے کر پوپ صاحب یہ کہتے ہیں کہ سورۃ بقرہ کی آیت 256 کا قیصر کو یقینا علم تھا۔ اور یہ آیت

لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ:257)

ہے۔ یعنی دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ کہتے ہیں یہ سور ۃ ابتدائی سورتوں میں سے تھی۔ اتنی ابتدائی بھی نہیں، یہ مدینہ کے ابتدائی ایک دو سال کی ہے۔ لیکن قیصر کو بعد کی سورتوں کا بھی علم تھا اور جہاد سے متعلق بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا۔ واقف تو پتہ نہیں وہ تھا یا نہیں لیکن تعصّب کی نظر ضرور رکھتا تھا۔ کہتے ہیں کہ قرآن میں کفار اور اہل کتاب کے بارے میں مختلف سلوک کرنے کی ہدایت ہے جبکہ مذہب میں جبر کا کوئی تصور نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں نعوذ باللہ بُری اور غیر انسانی تعلیمات ہی ملیں گی اس کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔جیسا کہ آپ نے فرمایا (بقول اُن کے، نعوذ باللہ) کہ اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ خود ہی ایک بات غلط طور پر منسوب کرکے جس کا اسلام کی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے،خود ہی یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ یہ خلاف عقل باتیں ہیں جو خدا کے انصاف سے متصادم ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک ذی عقل کو قوت یا زور اور ہتھیار درکار نہیں ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ایک ذی عقل کو ہتھیار اور طاقت کی ضرورت نہیں۔ یہ تو انہوں نے بالکل ٹھیک بات کی ہے۔ بالکل ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آجکل کی جو اِن کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں یہ ہزاروں میل دور بیٹھی ہوئی قوموں کے معاملات میں دخل اندازی کرکے طاقت کا استعمال کیوں کر رہی ہیں ؟ اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔پہلے یہ لوگ اپنے لوگوں کو سمجھائیں کہ کیا صحیح کر رہے ہیں ،کیا غلط کر رہے ہیں۔
پھر عیسائیت کی تاریخ میں جو آپس کی جنگیں ہیں وہ نظر نہیں آتیں ؟ وہ کس کھاتے میں ڈالتے ہیں ؟ پھر سپین میں جو کچھ ہوا وہ کس کھاتے میں ہے؟ جو انکیوئزیشن (Inquisition) ہوئی اس کی تفصیل تو مَیں یہاں بیان نہیں کرتا، ان سب کو علم ہے۔ اب جو یہ فرماتے ہیں کہ وہ بعد کی تعلیمات سے بھی واقف تھا۔ مذہب پھیلانے کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیا تھا، اس واقف کار کو تو اس کا پتہ نہیں تھا لیکن وہ عمل کیا تھا، وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس نے یہ تعلیم تو یقینا نہیں دی کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تودوسرا بھی آگے کر دو۔ جن کو تعلیم دی گئی ہے وہ بتائیں کہ کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ان کی تعلیم کے یہی سقم ہیں جنہوں نے اس زمانے میں عیسائیوں کو عیسائیت سے دور کر دیا ہے۔اتوار کے اتوار جو ایک ہفتے کے بعد چرچ میں جانا ہوتا ہے اس میں بھی اب کوئی نہیں جاتا سوائے بوڑھوں اور بوڑھیوں کے۔ چرچوں کو انہوں نے دوسرے فنکشنز کے لئے کرائے پر دینا شروع کر دیا ہے۔ مغربی دنیا میں بے شمار جگہوں پر چرچوں پرFor Saleکے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ کے ایک پروفیسر ایڈون لوئیس(Edwin Lewis) نے لکھا کہ بیسویں صدی کے لوگ مسیح کو خدا ماننے کے لئے تیار نہیں۔
پھر سینٹ جونز کالج آکسفورڈ کے پریذیڈنٹ سرسائرل لکھتے ہیں کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا حصہ اب عیسائی نہیں رہا۔ اور شاید یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ ان کی اکثریت اب ایسی ہے۔
اسی طرح افریقہ کے بارہ میں ان لوگوں کے مختلف بیانات ہیں، خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اب ختم ہو رہی ہے تو ان کو پتہ ہے اس لئے ایک ہی حل رہ گیا کہ اسلام کے خلاف غلط قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں۔
جبر کے بارہ میں اسلام کاجو نظریہ غیر مسلم پیش کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ کہتے ہیں کہ قیصر کو قرآن کے احکامات کا علم تھا۔ تو دیکھ لیں قرآن کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآء فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآء فَلْیَکْفُرْ (الکہف:30)

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروا دیا کہ تم دنیا کو بتا دو کہ اسلام حق ہے اور تمہارے رب کی طرف سے ہے۔ پس جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے کیونکہ

لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ:257)

کا حکم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآء کُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَمَا اَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ (یونس:۱۰۹)

یعنی اے رسول! تولوگوں سے کہہ دے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا ہے پس جو شخص ہدایت کو قبول کرے گا اس کا فائدہ اسی کے نفس کو ہو گا اور جو غلط راستے پر چلے گا اس کا وبال بھی اس کی جان پر ہے۔ میں کوئی تمہاری ہدایت کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اس کا عملی نمونہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔ چنانچہ جب بنو نضیر کو اپنی بعض زیادتیوں اور حرکتوں کی سے جلاوطنی کی سزا ملی تو انصار نے اپنی اولاد کو جو انصار نے پیدائش کے وقت بنو نضیر کو دے دی تھی، ان سے واپس لینا چاہاتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں جو تم دے چکے وہ دے چکے اب دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں، یہ اب ان کے پاس ہی رہیں گے۔
یہ آپؐ کی تعلیم ہی تھی جس کی وجہ سے آپؐ کے خلفاء اور صحابہؓ اس بات کو سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ کے ایک غلام خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ مسلمان ہو جاؤ لیکن میرے انکار پر آپؓ یہ کہتے کہ ٹھیک ہے، اسلام میں جبر نہیں ہے۔ اور جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا کہ مَیں تمہیں آزاد کرتا ہوں، جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ۔ تو اسلام میں آزادیٔ مذہب کی یہ تعلیم ا وریہ عمل ہیں۔ ایک غلام پر بھی سختی نہیں کی گئی۔ اور پوپ صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کے مذہب میں ظلم اور سختی رکھی گئی ہے۔
پھر قرآن کریم فرماتا ہے۔

وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ وَالْا ُمِّیّٖنَء اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَاللہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران:21)

اے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو کہہ دے کہ جنہیں کتاب دی گئی ہے اور جو اُمّی ہیں یعنی بے علم ہیں کہ کیا تم اسلام کو قبول کرتے ہو۔ پس اگر وہ فرمانبرداری اختیار کریں، اسلام قبول کرلیں تو وہ ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ یعنی اب یہ خدا کا کام ہے وہ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کو پکڑنا ہے، کس کو سزا دینی ہے، کس سے کیا سلوک کرنا ہے۔ پس یہ احکام ہیں۔ اور یہ آخری آیت جو مَیں نے پڑھی ہے، یہ فتح مکّہ کے بعد کی ہے جب طاقت تھی۔ پس بودے اعتراضات کی بجائے ان کو عقل اور انصاف سے کام لینا چاہئے۔ اسلام میں جبر کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپؐ نے جبر کیا۔ آپؐ کو تو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی منافقت سے اسلام قبول کرے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک کافر قیدی پیش ہوا اور اس نے آپؐ سے عرض کی کہ مجھے قید کیوں کیا گیا ہے، مَیں تو مسلمان ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اب نہیں پہلے اسلام لاتے تو ٹھیک تھا، اب تم جنگی قیدی ہو اور رہائی حاصل کرنے کے لئے مسلمان بن رہے ہو۔ آپؐ نے اس کو جبر سے مسلمان بنانا نہیں چاہا۔ آپ تو چاہتے تھے کہ دل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں۔ چنانچہ بعد میں اس قیدی کو دو مسلمانوں کی آزادی پر آزاد کر دیا گیا۔
اسلام میں جنگوں کا حکم صرف اُس وقت تک ہے جب تک دشمن جنگ کر رہا ہے یا فتنے کے حالات پیدا کر رہا ہے۔ جب حالات ٹھیک ہو جائیں اور فتنہ ختم ہو جائے تو فرمایا تمہیں کوئی حق نہیں کہ جنگ کرو۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ۔ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّاعَلَی الظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ:194)

یعنی اے مسلمانو! تم اُن کفار سے جنگ کروجو جنگ کرتے ہیں، اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اور ہر شخص اپنے خدا کے لئے(نہ کسی ڈر اور تشدد کی وجہ سے) جو دین بھی چاہے رکھ سکے۔ اور اگر یہ کفار اپنے ظلموں سے باز آ جائیں تو تم بھی رک جاؤ کیونکہ تمہیں ظالموں کے سوا کسی کے خلاف جنگی کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے۔
یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اُن کفار سے جو تم سے لڑتے ہیں،اُس وقت تک لڑو کہ ملک میں فتنہ نہ رہے۔ اس کے بارے میں ایک جگہ ذکر آیا ہے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حکمِ الٰہی کی تعمیل یوں کی
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب مسلمان بہت تھوڑے تھے اور جو شخص اسلام لاتا تھا اس کو کفار کی طرف سے اسلام کے راستے میں دکھ دیا جاتا تھا۔ بعض کو قتل کر دیاجاتا تھا اور بعض کو قید کردیا جاتا تھا۔پس ہم نے اس وقت تک جنگ کی کہ مسلمانوں کی تعداد اور طاقت زیادہ ہو گئی اور نو مسلموں کے لئے فتنہ نہ رہا۔ اس کے بعد جب کفار کی طرف سے فتنہ ختم ہو گیا تو بات ختم ہو گئی۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلہِ شُھَدَٓاء بِالْقِسْط۔ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر ٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورۃ المائدۃ آیت ۹)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کی خاطر مضبوطی سے نگر انی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو،یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ اللہ یقینا اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
پس یہ انصاف تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک انقلا ب پیدا کیا اور بعد میں بھی یہ انقلاب پیدا ہوا۔ اگر صحابہ کی زندگیوں کو دیکھیں ،ان کے جائزے لیں تو پتہ لگتا ہے کہ جو انقلاب ان میں آیا وہ زبردستی دین بدلنے سے نہیں آتا بلکہ اس وقت آتا ہے جب دل تبدیل ہو جائیں۔ اس وقت آتا ہے جب دشمنوں سے بھی ایسا حسن سلوک ہو کہ دشمن بھی گرویدہ ہو جائے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ جو شدید ترین مخالف اسلام تھا اورجو فرار ہو گیا۔جب اس کی بیوی نے اس کو واپس لانے کے لئے آپؐ سے معافی کی درخواست کی اورآپؐ نے معاف فرما دیاتو پھر ان میں ایسا انقلاب آیا جو تلوار کے زور سے نہیں لایاجاسکتا۔ ایمان میں وہ ترقی ہوئی جو بغیر محبت کے نہیں ہوسکتی۔اخلاص سے اس طرح دل پر ہوئے جوبغیر محبت کے نہیں ہوسکتے۔ قربانی کے معیار اس طرح بڑھے جودلوں کے بدلنے کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتے۔انہوں نے اسلام کی خاطر جو غیرت دکھائی وہ اس تعلیم کو سمجھنے سے ہی پید ا ہوسکتی ہے۔اور پھر صحابہ نے محبت اور اسلام کی غیرت کے ایسے ایسے نمونے دکھائے کہ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔یہی عکرمہ جن کا مَیں ذکر کررہاہوں،ان کے بارہ میں آتاہے کہ پہلے ہر لڑائی میں وہ آنحضرت ﷺکے خلاف لڑا اور اپنی کوششیں اسلام کو مٹانے کے لئے صرف کردیں بالآخر جب مکّہ فتح ہواتو جیساکہ مَیں نے بتایا ہے آنحضرت ﷺکی ماتحتی کو اپنے لئے موجب ذلت سمجھ کرمکہ سے بھاگ گیا۔ اور جب وہ مسلمان ہوگئے تو اخلاص کا یہ حال تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں انہوں نے باغیوں کا قلع قمع کرنے میں بے نظیر جانثاریاں دکھائیں۔ اور کہتے ہیں کہ جب ایک جنگ میں سخت گھمسان کا رَن پڑا اور لوگ اس طرح کٹ کٹ کر گررہے تھے جیسے درانتی کے سامنے گھاس کٹتاہے،اُس وقت عکرمہ ساتھیوں کو لے کر عین قلب لشکر میں جا گھسے۔ بعض لوگوں نے منع کیا کہ اس وقت لڑائی کی حالت سخت خطرناک ہورہی ہے اور اس طرح دشمن کی فوج میں گھسنا ٹھیک نہیں ہے۔لیکن عکرمہ نہیں مانے اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ مَیں لات اورعزی ٰکی خاطر محمد رسول اللہﷺسے لڑا ہوں۔ آج خدا کے رستہ میں لڑتے ہوئے پیچھے نہیں رہوں گا۔اورجب لڑائی کے خاتمہ پر دیکھا گیا تو ان کی لاش نیزوں اور تلوار کے زخموں سے چھلنی تھی۔
ان کی مالی قربانی کے بارہ میں آتاہے کہ غنیمت کا جتنامال عکرمہ کو ملتا تھا وہ صدقہ دے دیا کرتے تھے۔ خدمت دین میں بے دریغ خرچ کرتے تھے۔تویہ تبدیلیا ں جو دلوں میں پیدا ہوتی ہیں یہ تلوار کے زورسے پیدا نہیں ہوتیں۔ (اصابہ واسد الغابہ واستیعاب)
غیر مسلموں کا الزام ہے کہ زبردستی مذہب تبدیل کرتے تھے تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جوان باتوں کوجھٹلاتے ہیں۔ ہم دیکھ ہی آئے ہیں کہ آنحضرتﷺکی تعلیم کیا تھی۔ایک واقعہ کا ذکر ہے، آنحضرت ﷺفرماتے ہیں

مَنْ قَتَلَ مُعَاہِدًا لَمْ یَرَحْ رَآئِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔

یعنی جو مسلمان کسی ایسے غیرمسلم کے قتل کا مرتکب ہوگا جو کسی لفظی یا عملی معاہدہ کے نتیجہ میں اسلامی حکومت میں داخل ہو چکاہیوہ علاوہ اس دنیا کی سزا کے، قیامت کے دن بھی جنت کی ہواسے محروم رہے گا۔
پھر آپ کے خلفاء کا کیا طریق تھا۔ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں غیرمسلموں سے جزیہ وصول کرنے میں سختی کی جارہی تھی۔یہ دیکھ کر حضر ت عمرؓ فوراً رک گئے اور غصہ کی حالت میں دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے۔ عرض کیا گیاکہ یہ لوگ جزیہ ادا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان پر وہ بوجھ ڈالا جائے جس کی یہ طاقت نہیں رکھتے، انہیں چھوڑ دو۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺسے سناہے کہ جوشخص دنیا میں لوگوں کو تکلیف دیتاہے وہ قیامت کے دن خدا کے عذاب کے نیچے ہوگا۔ چنانچہ ان لوگوں کوجزیہ معاف کردیاگیا۔ (کتاب ا لخراج فضل فی من تجب علیہ الجزیۃ)
حضرت عمرؓ کو آنحضرت ﷺکے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیرمسلم رعایا کا اس قدر خیا ل تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے وقت خاص طورپر ایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے کہ مَیں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا سے بہت نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے،ان کے معاہدات کو پورا کرے، ان کی حفاظت کرے،ان کے لئے ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان پر قطعاً کوئی ایسا بوجھ یا ذمہ داری نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔(کتاب الخراج صفحہ72)
اگر زبردستی مسلمان کیا جاتا تو پھر یہ صورت کیوں ہوتی۔پھر خیبرکے یہودیوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا معاہدہ ہواتھا۔ آنحضرت ﷺان سے محاصل کی وصولی کے لئے اپنے صحابی عبداللہ بن رواحہؓ کو بھیجا کرتے تھے۔ آپ کی تعلیم کے ماتحت عبداللہ بن رواحہ فصل کی بٹائی میں اس قدر نرمی سے کام لیتے تھے کہ فصل کے دو حصے کرکے یہودیوں کو اختیار دے دیتے تھے کہ ان حصوں میں سے جو حصہ تم پسند کرو لے لو اور پھر جو حصہ پیچھے رہ جاتا تھا وہ خود لے لیتے تھے۔(ابوداؤد کتاب البیوع باب فی المساقاۃ)
جیسا کہ مَیں نے کہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل کے ماتحت حضرت عمرؓ کو اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کے حقوق اور آرام کا بہت خیال تھا۔ وہ اپنے گورنروں کو تاکید کرتے رہتے تھے کہ ذمیوں کا خاص خیال رکھیں اور خود بھی پوچھتے رہتے تھے کہ تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ذمیوں کا ایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مسلمانوں کی طرف سے حسنِ وفا اور حسنِ سلوک کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔(طبری جلد 5صفحہ2560)
جب شام فتح ہوا تو مسلمانوں نے شام کی عیسائی آبادی سے ٹیکس وصول کیا لیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابو عبیدہؓ نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جنگ کی وجہ سے جب ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پا س رکھیں۔ عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعا دی اور کہا خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو۔ (کتاب الخراج ابویوسف صفحہ 82-80۔ فتوح البلدان بلاذری صفحہ 146)
مسلمانوں کایہ سلوک تھا۔ چنانچہ جب دوبارہ فتح ہوئی اور مسلمان پھر واپس آئے تو پھر اسی طرح ٹیکس وصول ہونا شروع ہو گیا۔ اب یہ بتائیں کہ کیا اس کو زبردستی کہتے ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر الزام لگانے والے اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں، تاریخ پڑھیں تو ان کو نظر آئے گا کہ آپؐ غیر مسلموں کا کتنا درد رکھتے تھے۔ اسلام کی دعوت دیتے تھے تو پیار او رنرمی کے ساتھ کہ اس شخص کی جان کے لئے فائدہ ہے۔
ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ اپنے غلبہ اور حکومت کے زمانے میں بھی غیر مسلموں کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مدینے میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اور اس کی حالت کو نازک پا کر آپؐ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی۔ وہ آپؐ کی تبلیغ سے متاثر ہوا مگر چونکہ اس کا باپ زندہ تھا اور اس وقت پاس ہی کھڑا تھا وہ ایک سوالیہ شکل بنا کے اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔ باپ نے بیٹے سے کہاکہ اگر تم قبول کرنا چاہتے ہو توکر لو۔چنانچہ لڑکے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے بچ گئی۔ (بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی)
اب اس قرآنی تعلیم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی چند مثالوں سے جو مَیں نے بیان کی ہیں ظلم کی اور جو الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اس کی حقیقت تو واضح ہو گئی۔ یہ تو پتہ چل گیا کہ اسلام کس طرح پھیلا ہے۔ اور شروع میں جو مَیں نے بتایا تھا کہ سپین میں کیا سلوک ہوا اس سے ان لوگوں کی حقیقت بھی واضح ہو گئی۔
انصاف پسند عیسائی مستشرقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس کی بھی مَیں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
کارلائل صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ہم لوگوں (یعنی عیسائیوں) میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک پرُ فن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدار نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تودہ ہے۔ اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی جاتی ہیں۔ جو جھوٹی باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری روسیاہی کا باعث ہیں۔ اور جو باتیں اس انسان(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنی زبان سے نکالی تھیں 1200برس سے 18کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں۔(اُس وقت 18کروڑ تھیجب انہوں نے لکھا تھا)۔اس وقت جتنے آدمی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے کلام پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اَ ور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے۔میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور ناخدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا۔
(Thomas Carlyle,’On Heros-Worship and the Heroic in History’ Pages 43&44 U of Nebraska Press(1966)
پھر سرولیم میور (یہ کافی متعصب بھی ہیں ،بعض باتیں غلط بھی لکھی ہوئی ہیں) یہ بھی لکھتے ہیں کہ’’ ہم بلاتامل اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ کے واسطے اکثر توہمات باطلہ کو جن کی تاریکی مدتوں سے جزیرہ نما ئے عرب پر چھا رہی تھی کالعدم کر دیا۔ بلحاظ معاشر ت کے بھی اسلام میں کچھ کم خوبیاں نہیں ہیں۔ مذہب اسلام اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ اس میں پرہیزگاری کا ایک ایسا درجہ موجود ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں ہے‘‘۔
(Sir William Muir ‘The Life of Muhammad’ Vol.IV.Page 534.Kessinger Publishing.(1st published 1878, this edition 2003)
پھر ایڈورڈ گبن لکھتے ہیں ’’ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت میں سب سے آخری بات جو غور کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ ان کی رسالت لوگوں کے حق میں مفید ہوئی یا مضر؟ جو لوگ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت دشمن ہیں وہ بھی اور عیسائی اور یہودی بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو باوجود پیغمبر برحق نہ ماننے کے اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعویٰ نبوت ایک نہایت مفید مسئلے کی تلقین کے لئے کیا تھا۔ گو وہ یہ کہیں کہ صرف ہمارے ہی مذہب کا مسئلہ اس سے اچھا ہے۔ گویا وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے مذہب کے تمام دنیا کے اَورمذاہب سے مذہب اسلام اچھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے خون کے کفار ے کو نماز و روزہ و خیرات سے بدل دیا جو ایک پسندیدہ اور سیدھی سادی عبادت ہے۔ یعنی جو انسان کی قربانی بتوں پر ہوتی تھی اس کو معدوم کر دیا۔ آنحضرت ؐ نے مسلمانوں میں نیکی اور محبت کی ایک روح پھونک دی، آپس میں بھلائی کرنے کی ہدایت کی اور اپنے احکام اور نصیحتوں سے انتقام کی خواہش اور بیوہ عورتوں اور یتیموں پر ظلم و ستم کو روک دیا۔ قومیں جو ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں وہ اعتقاد و فرمانبرداری میں متفق ہو گئیں اور خانگی جھگڑوں میں جو بہادری بیہودہ طور سے صرف ہوتی تھی وہ نہایت مستعدی سے غیرملک کے دشمن کے مقابلے پر مائل ہو گئی‘‘۔
(Edward Gibbon’The History of the Decline and Fall of the Roman Empire’ Vol.V.Page 231.Penguins Classics(1st published 1788.this edition 1996)
پھر جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں ’’اِس بات کا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہے کہ قرآن میں جس عقیدے کی تلقین کی گئی ہے اس کی اشاعت بزور شمشیر ہوئی۔ کیونکہ جن لوگوں کی طبیعتیں تعصب سے مبرّاء ہیں وہ بلاتامل اس بات کو تسلیم کریں گے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین جس کے ذریعہ سے انسانوں کی قربانی کے بدلے نماز اور خیرات جاری ہوئی اور جس نے عداوت اور دائمی جھگڑوں کی جگہ فیاضی اور حسن معاشرت کی ایک روح لوگوں میں پھونک دی۔ وہ مشرقی دنیا کے لئے ایک حقیقی برکت تھا اور اسی وجہ سے خاص کر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان خونریز تدبیروں کی ضرورت نہ ہوئی جن کا استعمال بلا استثناء اور بلا امتیاز حضرت موسیٰ ؑنے بت پرستی کے نیست و نابود کرنے کے لئے کیا تھا۔ پس ایسے اعلیٰ وسیلہ کی نسبت جس کو قدرت نے بنی نوع انسان کے خیالات و مسائل پر مدت دراز تک اثر ڈالنے کے لئے پیدا کیا ہے گستاخانہ پیش آنا اور جاہلانہ مذمت کرنا کیسی لغو بات ہے‘‘۔ (John Devonport ‘An Apology for Muhammad and the Quran’.(1st published 1869)
ایڈورڈ گبن صاحب لکھتے ہیں ’’ مسلمانوں کی لڑائیوں کو ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مقدس قرار دیا تھا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی حیات میں جو مختلف نصیحتیں کیں او رنظیریں قائم کیں ان سے خلفاء نے دوسرے مذاہب کو آزادی دینے کا سبق حاصل کیا۔ ملک عرب میں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خدا کی عبادت گاہ اور ان کا مفتوحہ ملک تھا۔ اگر وہ چاہتے تو وہاں کے بہت سے دیوتاؤں کے ماننے والوں اور بت پرستوں کو شرعاً نیست و نابود کر سکتے تھے، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انصاف کو قائم فرماکر نہایت عاقلانہ تدبیریں اختیار کیں ‘‘۔
(Edward Gibbon’The History of the Decline and Fall of the Roman Empire’ Vol.V.Page 315.Penguins Classics(1st published 1788.this edition 1996)
کاؤنٹ ٹالسٹائے لکھتے ہیں کہ’’ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم المرتبت مصلح تھے جنہوں نے انسانوں کی خدمت کی۔ آپؐ کے لئے یہ فخر کیا کم ہے کہ آپؐ امت کو نورِ حق کی طرف لے گئے اور اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ امن و سلامتی کی دلدادہ ہو جائے۔ زہد وتقویٰ کی زندگی کو ترجیح دینے لگے۔ آپ نے اسے انسانی خونریزی سے منع فرمایا۔ اس کے لئے حقیقی ترقی اور تمدن کی راہیں کھول دیں۔ اور یہ ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو اس شخص سے انجام پا سکتا ہے جس کے ساتھ کوئی مخفی قوت ہو اور ایسا شخص یقینا عام اکرام و احترام کا مستحق ہے۔
(Count Tolstoy.Islamic Network.accessed via http://www.islaam.net/main/)
پھر برنارڈ شا لکھتے ہیں کہ ’’ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی راہبوں نے جہالت اور تعصب کی وجہ سے مذہب اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے تو حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا۔مَیں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے اور مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم ہستی اورصحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ ہیں ‘‘۔
(George Bernard Shaw ‘The Genuine Islam’ Vol.1 No.8 (1936) accessed from Wikipedia via:http:// en.wikipedia.org/wiki/Non-Islamic-views-of- Muhammad)
پھر ایک عیسائی مؤرخ ریورنڈ با سورتھ سمتھ کہتے ہیں کہ’’ مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک وجود میں جمع تھیں۔ آپ پو پ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک۔ آپ قیصر تھے لیکن قیصر کے جاہ و حشم سے بے نیاز۔ اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اس نے باقاعدہ فوج کے بغیر، محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن و انتظام قائم رکھا تو وہ صرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ آپ کو اس سازوسامان کے بغیرہی سب کی سب طاقتیں حاصل تھیں ‘‘۔
(R.Bosworth Smith ‘Muhammad and Muhammadanism’ pade 262.Book Tree.(1st published 1876,this edition 2002)
پھر پرنگل کینیڈی صاحب لکھتے ہیں کہ’’ کھلے لفظوں میں (کہا جائے تو) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) زمانے کے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی حیران کن کامیابی کے لئے ہمیں لازماً ان کے حالات زمانہ کو سمجھنا چاہئے۔حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے ساڑھے پانچ سو سال بعد آپؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔ اس ز مانے میں یونان، روم اور بحیرئہ عرب کی ایک سو ایک ریاستوں کے تمام قدیم مذاہب اپنی افادیت کھو چکے تھے۔ اس کی جگہ رومن حکومت کا دبدبہ ایک زندہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا اور شہنشاہ قیصر روم کے مطابق حکومت وقت کی پرستش اور اطاعت گویا رومی حکومت کا مذہب بن چکا تھا۔ یہ بجا کہ دیگر مذاہب بھی موجود تھے مگر وہ اپنے مذہب کے باوجود اس نئی عوامی روش کے پابند ہو چکے تھے۔ لیکن شہنشاہیت روما دنیا کو سکون نہ دے سکی۔ چنانچہ مشرقی مذاہب اور مصر، شام اور ایران کی توہم پرستی نے رومی سلطنت میں نفوذ شروع کیا اور مذہبی لوگوں کی اکثریت کو زیر اثر کر لیا۔ ان تمام مذاہب کی مہلک خرابی یہ تھی کہ وہ کئی پہلوؤں سے قابل شرم حد تک گر چکے تھے۔عیسائیت جس نے چوتھی صدی میں سلطنت روما کو فتح کیا تھا، رومن اقتدار اپنا چکی تھی۔ اب عیسائیت وہ خالص فرقہ نہ رہا تھا جس کی تعلیم اسے تین صدیاں قبل دی گئی تھی، وہ سراسر غیر روحانی، تموّل پسند اور مادیت زدہ ہو چکی تھی۔ پھر کیسے چند ہی سالوں میں اس حالت میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا؟ ہاں یہ کیسے ہوا کہ 650ء میں (محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد) دنیا کا ایک بہت بڑا خطہ پہلے کے مقابل پر ایک مختلف دنیا میں تبدیل ہو گیا۔ بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا ایک نہایت شاندار باب ہے۔ پھر یہ انقلاب آگے بڑھا…… انتہا پرست عیسائیوں اور مستشرقین کی مخالفانہ رائے کے باوجود ان گہرے اثرات میں کوئی کمی نہیں آ سکتی جو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی نے تاریخ عالم پر ثبت کئے۔ ماننا پڑتا ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) انسان کے برپا کردہ انقلاب کی اعلیٰ ترین مثال ہیں ‘‘۔
(Pringle Kennedy .’Arabian Society at the time of Muhammad’. pages 8,10,18,21)
ایس پی سکاٹ لکھتے ہیں کہ’’ اگر مذہب کا مقصد اخلاق کی ترویج، برائی کا خاتمہ، انسانی خوشی و خوشحالی کی ترقی اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا جلا ہے اور اگر نیک اعمال کی جزا اسی بڑے دن ملنی ہے جب تمام بنی نوع انسان قیامت کے دن خدا کے حضور پیش کئے جائیں گے تو پھر یہ تسلیم کرناپڑتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بلاشبہ خدا کے رسول تھے، ہرگز بے بنیاد اور بے دلیل (دعویٰ) نہیں ہے‘‘۔
(S.P.Scott, ‘History of The Moorish Empire in Europe.’ Page 126)
کافی حوالے ہیں لیکن میں مختصر کرتا ہوں۔
Ruth Cranston ‘World Faith’ میں لکھتے ہیں کہ محمد عربی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو انہوں نے لڑی مدافعانہ تھی۔ وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحہ اور طریق سے لڑے جو اس زمانے کا رواج تھا۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چودہ کروڑ (یہ 1950ء کے قریب کی پرانی بات ہے) عیسائیوں میں سے جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کردیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو ہلاک کیا ہو۔ ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہوں، عرب کے نبی کے ہاتھوں ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جو قتل انکیوئزیشن (Inquisition)اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے اس کے بیان کی تو حاجت ہی نہیں جب عیسائی جنگجو ؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ’’ ان مسلمان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں لت پت تھے‘‘۔
(Ruth Cranston ‘ World Faith’, p:155 Ayer publishing (1949)
پھر ڈیون پورٹ لکھتے ہیں ’’یہ بات یقینی طور پر کامل سچائی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگرمسلمان مجاہدین اور ترکوں کی جگہ ایشیا کے حکمران مغربی شہزادے ہو گئے ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ اس مذہبی رواداری کا سلوک نہ کرتے جو مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا۔ کیونکہ عیسائیت نے تو اپنے ان ہم مذہبوں کو نہایت تعصب اور ظلم کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ ان کے مذہبی اختلافات تھے‘‘۔
(John Davonport ,’An Apology for Muhammad and the Qoran’ (1st published 1869)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ مضمون پڑھنے والے نے ایک یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن شریف میں لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا حکم ہے۔(فرماتے ہیں کہ) معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو نہ اپنی ذاتی کچھ عقل ہے اور نہ علم۔ صرف پادریوں کا کاسہ لیس ہے۔ کیونکہ پادریوں نے اپنے نہایت کینہ اور بغض سے جیسا کہ ان کی عادت ہے، محض افتراء کے طور پر اپنی کتابوں میں یہ لکھ دیا ہے کہ اسلام میں جبراً مسلمان بنانے کا حکم ہے۔سو اس نے اور اس کے دوسرے بھائیوں نے بغیر تحقیق اور تفتیش کے وہی پادریوں کے مفتریانہ الزام کو پیش کر دیا۔ قرآن شریف میں تو کھلے کھلے طور پر یہ آیت موجود ہے

لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ:257)

یعنی دین میں کوئی جبر نہیں، تحقیق ہدایت اور گمراہی میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو گیا ہے۔ پھر بھی جبر کی کیا حاجت ہے۔ تعجب کہ باوجود یکہ قرآن شریف میں اس قدر تصریح سے بیان فرمایا ہے کہ دین کے بارے میں جبر نہیں کرنا چاہئے پھر بھی جن کے دل بغض اور دشمنی سے سیاہ ہو رہے ہیں۔ ناحق خدا کے کلام پر جبر کا الزام دیتے ہیں۔
اب ہم ایک اور آیت لے کر منصفین سے انصاف چاہتے ہیں کہ وہ خدا سے ڈر کر ہمیں بتلاویں کہ کیا اس آیت سے جبر کی تعلیم ثابت ہوتی ہے یا برخلاف اس کے ممانعت جبر کا حکم بپا یہ ثبوت پہنچتا ہے۔ اور وہ آیت یہ ہے کہ

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّایَعْلَمُوْنَ (الجزنمبر 10سورۃالتوبہ)

اگر تجھ سے اے رسول! کوئی مشرکوں میں سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دے دو اور اس وقت تک اس کو اپنی پناہ میں رکھو کہ وہ اطمینان سے خدا کے کلام کو سن سمجھ لے اور پھر اُس کو اس کی امن کی جگہ پرواپس پہنچا دو۔ یہ رعایت ان لوگوں کے حق میں اس وجہ سے کرنی ضرور ہے کہ یہ لوگ اسلام کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر قرآن شریف جبر کی تعلیم کرتا تویہ حکم نہ دیتاکہ جو کافر قرآن شریف کو سننا چاہے تو جب وہ سن چکے اور مسلمان نہ ہو تو اُس کو اُس کی امن کی جگہ پہنچا دینا چاہئے بلکہ یہ حکم دیتا کہ جب ایسا کافر قابو میں آ جاوے تو وہیں اُس کو مسلمان کرلو‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد 23صفحہ233-232)
اگلا سوا ل جو انہوں نے اٹھایا ہواہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جس کوعقل تسلیم نہیں کرتی۔اسلام کا خدا توایسا خدا ہے جو ا پنے وجود کو تسلیم کرانے کے لئے انسانوں کو عقل کی طرف بلاتاہے۔اگر یہ تصور ہر ا یک میں ہے کہ خدا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والاہے اور اس کا مالک ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے۔اسلام کے خدا کے نظریہ استہزاء اڑانے کی بجائے عقل اور تدبر کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ ٔ فطرت سے نظر آ رہاہے۔ اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیاہے جو انسان کا نورِ قلب اور انسان کا کانشنس اورزمین وآسمان پیش کررہاہے ‘‘۔(تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ15)
پھر آپ ؑفرماتے ہیں کہ’’ جاننا چاہئے کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اس کی اس نے یہ صفات لکھی ہیں۔

ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّاھُوَ۔عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ۔ ھُوَا لرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ۔ ھُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْا َسْمَآء الْحُسْنٰی۔یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَھُوَا لْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ عَلٰی کُلِّ شَیْء قَدِیْرٌ۔ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم۔ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ۔ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔

یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے، جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے۔ اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی۔ اور یہ جوفرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ، اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو وہ سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا، وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے‘‘۔
پس اسلام تو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ یہ ظلم اور شرک تو عیسائی کر رہے ہیں جو اللہ کے ایک نبی کو خدا بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔
’’ پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے۔یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے۔ اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں۔ مگر خدا کا سراپا دیکھنے سے قاصر ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے۔ یعنی کوئی چیز اس کی نظرسے پردہ میں نہیں ہے۔ یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو۔ وہ اس عالم کے ذرّہ ذرّہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا۔وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا۔ اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا۔ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے۔ پھر فرمایا

ھُوَالرَّحْمٰنُ

یعنی وہ جانداروں کی ہستی اوران کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے، نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسّر کرتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا۔ اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خداتعالیٰ رحمن کہلاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ

الرَّحِیْم

یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے۔ اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ اور پھر فرمایا

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

یعنی وہ خداہر ایک کی جز ا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا کارپرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہوبیٹھا ہو۔ اور آپ کچھ نہ کرتا ہو۔ و ہی کارپرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو‘‘۔ اس کو ضرورت تو کوئی نہیں۔ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے۔ اس کو یہ ضرورت نہیں کہ خدا ان کی کونسل بنائے۔ اورپھر وہ کونسل ان کی مدد کرے۔ تو اگر عقل کی بات کا سوال ہے کہ اسلام کے خدا کا ایسا تصور ہے جس کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ عقل تو اُن کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی کہ تین خدا بنائے ہوئے ہیں کہ خداتعالیٰ کی جمہوری طور پر حکومت چلے گی اگر ایک بھی ان میں سے راضی نہ ہو تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔
فرماتے ہیں کہ’’ اور پھرفرمایا

اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْس

یعنی وہ خدا بادشا ہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں۔ اگر مثلاً تمام رعیّت جلاوطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی۔ یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے۔ اور اگر رعیّت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے۔ پس خداتعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے۔ وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کرکے اَور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو بجز ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر اور دوسری دنیا کہاں سے لاتا۔ کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا او رظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا۔ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا۔ اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیرمادر سمجھ لیتے ہیں ‘‘۔ ماں کے دودھ کی طرح پیتے ہیں۔ پس یہ اسلام کا خدا ہے جو ہر ظلم سے پاک ہے۔ ’’مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیاجائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے۔ پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدا ئی کو ہی الوداع کہتا۔ بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ سچے انصاف پر چل رہا ہے۔ پھر فرمایا

اَلسَّلَامُ

یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے، اس کے معنے بھی ظاہر ہیں۔ کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا، لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو اس کے بدنمونے کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ۔ وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۔مَا قَدَرُوااللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج:75-74)

جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھّی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔ بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں۔ ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں۔ کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں ؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے۔ نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے۔ ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے۔
اور پھر فرمایاکہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا۔ کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں۔لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے۔ وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ

اَلْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ

یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کام بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے اور فرمایا

ھُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْا َسْمَآء الْحُسْنٰی

یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا، رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے۔ تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اُسی کے نام ہیں اور پھرفرمایا

یُسَبِّحُ لَہٗ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْض وَ ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ

یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں ا ور زمین کے لوگ بھی۔ اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں۔ اور پھر فرمایا

عَلٰی کُلِّ شَیْء قَدِیْر

یعنی خدا بڑا قادر ہے۔ یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا امید رکھیں۔او ر پھر فرمایا

رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّآعِ اِذَا دَعَانِ

یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالَموں کا پرورش کرنے والا، رحمن، رحیم اور جزاء کے دن کا آپ مالک ہے۔اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا۔ اور پھر فرمایا

اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم

یعنی ہمیشہ رہنے والا اورتمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا۔یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو، تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑکا رہے گا شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے۔ اور پھر فرمایاکہ وہ خدا اکیلا خدا ہے۔ نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی جلد نمبر10صفحہ376-372)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے دراصل پولوسی مذہب ہے، نہ مسیحی۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی۔ اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد ان کی وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جو اُن کا جانشین تھا اور ایک بزرگ انسان تھا، توحید کی تعلیم دیتا رہا۔ اور پولوس نے خوامخواہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کر دی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مخالف تعلیم دینا شروع کیا۔اور انجام کار پولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑھا کہ ایک نیا مذہب قائم کیا اور توریت کی پیروی سے اپنی جماعت کو بکلی علیحدہ کر دیا اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفّارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خون مسیح گناہوں کے دور کرنے کے لئے کافی ہے، توریت کی پیروی ضروری نہیں۔ اور پھر ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ ان کے لئے سؤر کھانا حلال کر دیا۔ حالانکہ حضرت مسیح انجیل میں سؤر کو ناپاک قرار دیتے ہیں۔ تبھی توانجیل میں ان کاقول ہے کہ اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ پس جب پاک تعلیم کا نام حضرت مسیحؑ نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سؤر رکھا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ یونانی سؤر کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آجکل تمام یورپ کے لوگ سؤر کھاتے ہیں۔ اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سؤر بھی اپنی جماعت کے لئے حلال کر دیا۔ حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چھونا بھی ناجائز ہے۔ غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں ‘‘۔ (چشمۂ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ375-374)
پوپ صاحب نے جو یہ کہا کہ یونانی فکر اور خدا پر ایسے ایمان کی جو کہ بائبل پر مبنی ہے گہری مطابقت ہے اصل میں یہ حضرت عیسیٰؑ کا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ یونانیوں کو خوش کرنے کے لئے کوشش تھی۔
جو انصاف پسند عیسائی ہیں ان کو پتہ ہے، وہ کہتے ہیں اسلام کا خدا کیا ہے۔
ایڈورڈ گبن صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب شکوک و شبہات سے پاک و صاف ہے۔قرآن خدا کی وحدانیت پر ایک عمدہ شہادت ہے۔ مکّہ کے پیغمبر نے بتوں کی، انسانوں کی اور ستاروں کی پرستش کو معقول دلائل سے ردّ کر دیا۔ وہ اصول اوّل یعنی ذات باری تعالیٰ جس کی بنا عقل و وحی پر ہے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت سے استحکام کو پہنچی۔ چنانچہ اس کے معتقد ہندوستان سے لے کر مرا کو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں ‘‘۔(Edward Gibbon ‘The History of the Decline and Fall of the Roman Empire’ Vol.V.Pages 177-178.Penguins Classics(1st published 1788,this edition 1996)
پس یہ اسلام کا خدا ہے جو عقل سے غور کرنے والے کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ معقول عقلی دلائل اسلام کے خدامیں ملتے ہیں۔
آخر میں مَیں ہر احمدی سے یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے خلاف جو محاذ کھڑے ہو رہے ہیں اُن سے ہم کامیابی سے صرف خدا کے حضور جھکتے ہوئے اور اس سے مدد طلب کرتے ہوئے گزر سکتے ہیں۔ پس خدا کو پہلے سے بڑھ کر پکاریں کہ وہ اپنی قدرت کے جلوے دکھائے۔ جھوٹے خداؤں سے اس دنیا کو نجات ملے۔ آج اگر یہ لوگ اپنی امارت اورطاقت کے گھمنڈ میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں تو ہماری دعاؤں کے تیروں سے انشاء اللہ تعالیٰ ان کے گھمنڈ ٹوٹیں گے۔ پس اُس خدا کو پکاریں جو کائنات کا خدا ہے۔ جو رب العالمین ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہے تاکہ جلد تر اس واحد ولاشریک خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے۔ مسلمان ملکوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے فروعی اختلافات کو ختم کریں، آپس کی لڑائیوں اور دشمنیوں کو ختم کریں۔ ایک ہو کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اور ایسے عمل سے باز آ جائیں جن سے غیروں کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرأ ت ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔
آج بھی مَیں کچھ لوگوں کے جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ایک تو مکرم پیر معین الدین صاحب کا جنازہ ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے داماد تھے، اس لحاظ سے میرے خالو بھی تھے۔ انہوں نے جامعہ میں پڑھایا، فضل عمر ریسرچ میں کام کیا۔ علمی آدمی تھے، علمی ذوق رکھتے تھے، واقف زندگی تھے۔
دوسرا جنازہ مکرمہ آمنہ خاتون صاحبہ کا ہے جو رہ گیا تھا۔یہ حضرت مولانا نذیراحمد صاحب مبشر کی اہلیہ تھیں۔ انہوں نے بھی غانا میں حضرت مولوی نذیر احمدصاحب مبشر کے ساتھ بڑی قربانی سے بڑا لمبا عرصہ گزارا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
ایک جنازہ میجر سعید احمد صاحب کا ہے۔ یہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے داماد تھے۔ ان کے دو بیٹے واقف زندگی ہیں ایک مربی ہیں اور ایک نائب وکیل التعلیم ہیں۔ سید حسین احمد اور سید جلید احمد۔
اور ایک ہمارے ماریشس کے مربی ہیں، مظفر احمد سدھن صاحب، ان کی والدہ وفات پا گئی ہیں، ان کا جنازہ غائب بھی ہم ابھی پڑھیں گے۔
اور ایک محمد نگر کے ہمارے مربی عبدالناصر منصور صاحب کی والدہ سرور بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر ریاض احمد صاحب بھی وفات پا گئی ہیں۔۔ انہوں نے ساتھ خط لگایا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ سب کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کاسلوک فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں