خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 05؍جنوری 2007ء

ہر احمدی بیعت کرنے کے بعد،حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح ومہدی تسلیم کرنے کے بعد تبھی اس عہد بیعت کو پورا کرنے والا کہلا سکتا ہے جب وہ توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش کرے کیونکہ یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا حقیقی مقصد ہے۔
تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں۔ دنیا میں ہر جگہ اس طرف توجہ پیدا ہوچکی ہے اس لئے ہالینڈ کی جماعت کو بھی اب پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔
آپ لوگ جو یہاں کے احمدی ہیں، پرانے احمدی ہیں یا نئے احمدی ہیں مل کر ایسے پروگرام بنائیں جس سے آپ کی نسل کی تربیت بھی ہو رہی ہو اور ہر احمدی بچہ اس تربیت کی وجہ سے خیر اُمّت کی منہ بولتی تصویر بن جائے۔
بعض جگہ عادت ہوتی ہے صرف بیعتیں کروانے لگ جاتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ تقویٰ کے معیار بڑھنے والے احمدی حاصل ہوں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 05؍جنوری 2007ء (05؍صلح 1386ہجری شمسی) بمقا م ننسپیٹ (ہالینڈ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔ (سورۃ ال عمران آیت نمبر111)

یہاں ہالینڈ میں بھی دنیا کے اکثر مغربی ممالک کی طرح تین قسم کے احمدی آباد ہیں ، ایک وہ جو پاکستان سے آئے ہیں یا شاید ایک آدھ ہندوستان سے بھی آئے ہوں ، یہاں آکر آباد ہوئے اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں تین چار نسلوں سے احمدیت چل رہی ہے، ان کے آباؤ اجداد نے، باپ دادا نے احمدیت قبول کی۔ دوسرے چند ایک وہ لوگ ہیں جو بعض مسلمان ممالک کے ہیں ، جس میں عرب دنیا کے لوگ بھی ہیں ، جنہوں نے حق کو پہچانا، اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ کر آپؐ کے مسیح و مہدی کو آپؐ کا سلام پہنچائیں اور اس کی جماعت میں شامل ہوں۔ اور تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور فراست عطا فرمایا اور انہیں مسیح محمدی کے ماننے کی توفیق ہوئی اور یہ لوگ بھی چند ایک ہیں جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رؤیا کی تعبیر بنتے ہوئے ان سفید پرندوں میں شامل ہوئے جنہیں آپؑ نے پکڑا تھا۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے، ابھی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم نے وہ نظارے دیکھنے ہیں جب یہ پرندے ڈاروں کی شکل میں غولوں کے غول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آغوش میں آنے ہیں۔
پس احمدیوں کی جو پہلی قسم مَیں نے بتائی ہے جس میں پاکستانی احمدی بھی ہیں یا شاید ہندوستانی بھی ہوں ، ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان پرندوں کو پکڑنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ بٹانے اور پھر ان کو اپنے ساتھ سدھا لینے کے لئے بھرپور مدد کریں۔ ورنہ پرانے احمدی ہونے کے دعوے، آپ کی صحابی کی نسل ہونے کی باتیں ، صرف باتیں رہ جائیں گی، اُن صحابہ یا آپ کے بزرگوں کے جو نیک اعمال تھے، اُن کا اجر تو اُن کو ملے گا، آپ کو تو اپنے اعمال کا اجر ملنا ہے۔ اگر نیکیوں پر چلتے ہوئے آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن میں آپ کا ہاتھ بٹائیں گے تو آپ اپنے بہترین اجر حاصل کرنے کے ساتھ ان بزرگوں کے درجات بلند کرنے میں بھی مدد گار ہو رہے ہوں گے کہ انہوں نے ایک نیک نسل چھوڑی اور آپ پھر اس نیکی کی وجہ سے ان بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے جنہوں نے ہمیں ان نیکیوں پر قائم کیا۔ آپ کی نیکیاں ان بزرگوں کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوں گی۔ پس یہ ایک بہت بڑا نیکی کا موقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے، اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اپنے ماضی پر نظر ڈالتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے صدقے، اپنی صفت رحمانیت کے تحت آپ کے لئے اس ملک میں آنے کا موقع بہم پہنچایا جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ شکرگزاری کس طرح ہوسکتی ہے؟ یہ شکر گزاری نیکیوں پر قائم ہوتے ہوئے ہوسکتی ہے۔ یہ شکرگزاری احمدیت کے پیغام کو اس ملک کے ہر فرد تک پہنچانے سے ہوسکتی ہے۔ یہ شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے گھروں کی تعمیر سے ہوسکتی ہے جسے مسجد کہتے ہیں۔ یہ شکرگزاری ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے ہوگی۔ یہ شکرگزاری نظام جماعت کی اطاعت سے ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ شکرگزاری آپ کے عبادت کے معیار بڑھنے سے ہوگی۔ پس اس بات کو سمجھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں تو آپؑ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟
آپؑ فرماتے ہیں ’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں ، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہوگئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے، اور جیسا کہ بھروسہ اس کا دنیاوی اسباب پر ہے، یہ یقین اور بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں ، زبانوں پر بہت کچھ ہے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے‘‘۔منہ سے تو بہت کچھ کہتے ہیں مگر دل وہ نہیں کہتے۔ …… فرمایا کہ’’مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آئے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ293-291 حاشیہ)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ اپنے دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے جس سچائی کو ماننے کی آپ کو توفیق ملی اس کو اپنے پر بھی لاگو کریں، اللہ تعالیٰ کی محبت سے دلوں کو بھرنے والے ہوں اور اس محبت کا شربت دوسروں کو بھی پلائیں تا کہ اس توحید کے مزے سے دوسرے بھی روشناس ہوں ، ان کو بھی پتہ لگے کہ کیا مزا ہے۔
دوسری قسم کے احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق دی جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے یعنی مسلمانوں سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہونے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پورا کرنے والے بننے والے اور پھر یہاں کے مقامی لوگ جن کا مَیں نے ذکر کیا تھا جو عیسائیت سے اسلام میں شامل ہوئے ہیں اور مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بنے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلتے ہوئے اس سے براہ راست تعلق پیدا ہو اور اس نظریہ کو ردّ کرنے والے بنیں جو ایک بندے کو خدا کے مقابل پر کھڑا کرکے شرک کی تعلیم دیتا ہے۔
پس آپ لوگوں کو اللہ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کے معیار بڑھاتے ہوئے، احمدیت کے پیغام کو آگے پہنچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے لئے جماعت کو مل کر بہت وسیع پیمانے پر ایک پروگرام بنانا چاہئے جس میں باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی شامل ہوں ، مقامی احمدی بھی شامل ہوں تا کہ ہر باشندے تک یہ پیغام پہنچ جائے۔ اللہ کے اُس پہلوان کی مدد کریں جس کو خود اللہ تعالیٰ نے ’’جری اللہ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی اس کام پر مقرر کیا ہے کہ تمام ادیان کے ماننے والوں کو اُمّت واحدہ بنا کر ایک ہاتھ پر جمع کریں۔ پس جس نیکی کو آپ لوگوں نے، ہم نے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے پا لیا ہے اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے پہلے سے بہت بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔ بعض دفعہ نئے آنے والے لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جس کے ذ ریعہ سے بیعت کی اس کی عملی حالت کیا ہے، یہ نہ دیکھیں۔ احمدی بنانے والوں کی عملی حالت کو نہ دیکھیں کہ کیا ہوئی ہے اگر کسی میں کمزوری ہے تو وہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو نیکیوں میں بڑھنے والے اور نیکیوں کو قائم کرنے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ بہر حال اسلام میں ہر ایک، ہر شخص اپنے فعل کا انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔ کسی کی ذاتی کمزوری کو کسی دوسرے کے لئے ابتلاء کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ پرانے احمدیوں میں اگر کسی کو بگڑتا ہوا دیکھیں تو اس کے لئے بھی وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستے پر چلائے اور استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی کوشش کریں اور اس میں جتنی زیادہ استغفار کریں گے جتنی زیادہ کوشش کریں گے اتنے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔
جب نئے اور پرانے احمدی اس مقصد کی ادائیگی کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار بڑھنے شروع ہوں گے۔ اور جب معیار بڑھیں گے تو ڈچ قوم میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف آپ لوگوں کو خود مزید توجہ پیدا ہوگی تا کہ یہ لوگ بھی ہدایت پانے والے بن جائیں۔ ان لوگوں کو علم ہی نہیں ہے کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے۔ اسی لئے اس نا واقفیت کی وجہ سے یہ لوگ اسلام پر حملے کرتے ہیں ، اسلام کی تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں ، استہزاء کرتے ہیں ، اس کی خوبصورت تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔ بعض بڑے شدید ردّ عمل ہیں مثلاً پردے پر یہاں بہت شور اٹھتا ہے اور اس کے Ban کرنے کے لئے قانون سازی کا بھی سوچا جا رہا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام کی بھیانک تصویر ان کو دکھائی گئی ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم ان لوگوں کے سامنے اس طرح پیش ہی نہیں کی گئی جو اس کے پیش کرنے کا حق ہے۔ اگر احمدی مرد عورت، جو یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ، بڑے چھوٹے سب، شروع میں ہی اس طرف توجہ دیتے، بہت پہلے سے اس طرف توجہ ہوتی، اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور احمدیت اور حقیقی اسلام سے لوگوں کو متعارف کرواتے تو مَیں نہیں سمجھتا کہ یہ صورتحال پیدا ہوتی۔ بہر حال اب بھی وقت ہے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کو بتانے کے لئے ایک مہم کی صورت میں کوشش کرنی چاہئے۔ پہلے بھی میرا خیال ہے یہاں مَیں دو دفعہ اس بات کا اظہار کر چکا ہوں ، اس طرف توجہ دلا چکا ہوں لیکن جس طرح کوشش ہونی چاہئے اس طرح کوشش نہیں ہوئی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہترین امت قرار دیا ہے جن کو دنیا کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری نظر ہمیشہ دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے کی طرف رہے اور سب سے زیادہ بڑی خیر اور بھلائی کیا ہے، وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے۔دنیا کو فائدہ پہنچانے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ نیکی کی ہدایت کرو اور اسلام کی تعلیم نے نیکیاں بھی ساری گِنوادی ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ جب آپ نیکی کی تلقین کریں گے نیکی کی تعلیم پھیلائیں گے توسب سے پہلے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو قائم کرنا ہوگا۔ اپنے اندر، اپنے بچوں کے اندر ان نیکیوں کو رائج کرنا ہوگا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں۔ اس میں سب سے بڑھ کر جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں۔ جب حقیقی معنوں میں عبادت کے معیار بلند ہوں گے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور ذاتی رشتہ داریاں یا تعلق داریاں اس بات کی طرف نہیں لے جائیں گی کہ نیکی کے معیار ہر ایک کے لئے الگ بن جائیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیکیوں کو رائج کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہوں گے۔ اور یہ باتیں ، نیکیاں قائم کرنا اور بدی سے روکنا،ہم اس لئے کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان کامل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا ہے۔ پس جب ہم اپنے اندر یہ پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدیوں سے روکنے والے بن جائیں گے تو غیر کو بھی ہماری طرف توجہ پیدا ہوگی کہ یہ لوگ نیکیاں اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اللہ کی خاطر یہ تمام کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ہر احمدی اپنے ماحول میں جہاں وہ کام کر رہا ہے یا رہائش رکھتا ہے، کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا ہے۔ تو جب آپ کے چہروں سے آپ کی حرکات و سکنات سے یہ ظاہر ہورہا ہوگا کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت ہے اور برائی کی محفلوں سے سلام کرکے اٹھ جانے والوں میں شامل ہیں تو ان کو توجہ پیدا ہوگی کہ پتہ کریں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اور اس طرح آپ میں سے ہر ایک کی شخصیت سے یہ اظہار ہورہا ہوگا کہ یہ نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اور جب لوگ قریب ہو کر دیکھیں گے تو پھر اللہ تعا لیٰ سعید فطرت لوگوں کے سینے یقینًا کھولے گا۔ ہر قوم میں سعید فطرت ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔
پس تبلیغ کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔ صرف اس ماحول میں ہی نہ رچ بس جائیں۔ اس کی خوبیاں بے شک اختیار کریں لیکن ان کی برائیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ آپ لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم خیر امت ہیں ، ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہم اس مقصد کو جاننے والے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور یوں عبادت کرنے والوں کے پھل بھی پھر عبادت کی طرف توجہ دینے والے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی صورت میں ملیں گے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ عارضی تبدیلیاں یا دوہرے معیار یا ایمانی حالتوں میں بڑھنے میں کمی ایسے لوگوں کو اگر پھل ملیں گے بھی، وہ بیعتیں کروائیں گے بھی تو یا تو وہ عارضی ہوں گی، کچھ دیر کے لئے آئے اور پھر چلے گئے، یا اس معیار کی نہیں ہوں گی جو ایک احمدی کا ہونا چاہئے۔ یہ باتیں سن کر صرف تعداد کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ بعض جگہ عادت ہوتی ہے صرف بیعتیں کروانے لگ جاتے ہیں۔ یہ دیکھیں اور یہ دیکھنا چاہئے کہ تقویٰ کے معیار بڑھنے والے احمدی حاصل ہوں۔
پس یاد رکھیں چاہے آپ جو موجودہ احمدی ہیں ان کی نسلوں میں ترقی ہے یا نئے آنے والے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہے، اگروہ نیکیوں کے معیار بلند کرنے، تقویٰ پر چلنے اور عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں اور ایسے لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں۔ پس آپ لوگ جو یہاں کے احمدی ہیں ، پرانے احمدی ہیں یا نئے احمدی ہیں ، مل کر ایسے پروگرام بنائیں جس سے آپ کی نسل کی تربیت بھی ہورہی ہو۔ بہت سارے لوگ پریشانی میں لکھتے ہیں تو نسلوں کی تربیت کے لئے خود بھی تو کچھ کوشش کرنی پڑے گی۔تا کہ ہر احمدی بچہ اس تربیت کی وجہ سے خیر اُمّت کی منہ بولتی تصویر بن جائے۔ تبلیغ کے میدان میں نیکیاں پھیلاتے اور برائیوں سے روکتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچا کر اس طرح ان لوگوں کو اپنے اندر سموئیں کہ وہ بھی خیر اُمّت کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔
یاد رکھیں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ مسجدیں بھی ہیں اس طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ(Hague) میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید اندازاً 50 سال سے زائد عرصہ ہی ہوگیا ہے۔ اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ کی تھی۔ پھر یہ نن سپیٹ کا سینٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کر دیا ہے۔ ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی۔ اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اورقربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کرکے اب مسجدیں بنا سکتے ہیں۔ جب کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ مدد بھی فرمائے گا انشاء اللہ۔ خیر اُمّت ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے تو پھر اس پر توکل بھی کریں۔ اور یہ کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ مدد بھی فرمائے گا جیسا کہ مَیں نے کہا۔
کل مَیں امیر صاحب سے اور مربی صاحبان سے، مبلغین سے میٹنگ میں کہہ رہا تھا کہ مسجد شروع کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بن بھی جائے گی۔ اگر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے رہیں گے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے، پیسے اکٹھے ہوں تو مسجد بنے تو پھر نہیں بنا کرتی۔ ارادہ کریں اللہ تعالیٰ مدد کرے گا انشاء اللہ۔ احمدی جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پھر وہ پورا بھی کرتا ہے، جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے فکر نہ کریں ، اپنے آپ کو انڈر اسٹیمیٹ (Underestimate) نہ کریں۔ اپنے لئے غلط اندازے نہ لگائیں۔ اور (ایسا کر کے آپ) اپنے لئے غلط اندازے نہیں لگا رہے ہوتے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے غلط اندازے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھیں۔ اگر یہ ٹارگٹ رکھیں کہ ہر دو سال میں کم از کم ایک شہر میں جہاں جماعت کی تعداد اچھی ہے مسجد بنانی ہے (یہاں دو تین تو شہر ہیں ) تو پھر اس کے بعد مزید جماعت پھیلے گی انشاء اللہ۔ جس طرح مَیں نے کہا تبلیغ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مسجدیں بناتے چلے جائیں تو یہ چھوٹا سا ملک ہے اس میں جب مسجدیں بنائیں گے، ان کے مناروں سے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آواز گونجے گی اور آپ لوگوں کے عمل اور عبادتوں کے معیار بڑھیں گے تو یقینا ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور آپ لوگ ان کی غلط فہمیاں دور کرنے والے بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے۔ ان لوگوں کو بھی حقیقت کا علم ہوگا۔ ان کو بھی پتہ چلے گا کہ ہم اسلام کو جو سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے ہیں حقیقت میں یہ وہ نہیں ہے بلکہ یہ تو حُسن پھیلانے والا اور امن پھیلانے والے لوگوں کا مذہب ہے۔ پس تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں۔ دنیا میں ہر جگہ اس طرف توجہ پیدا ہوچکی ہے اس لئے ہالینڈ کی جماعت کو بھی اب پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس چیلنج کو اب قبول کریں تو جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جماعت کو متعارف کروانا ہے، اسلام کو متعارف کروانا ہے تو مسجدیں بناؤ۔ پھر تبلیغ کے راستوں سے ان تثلیث کے شرک میں مبتلا لوگوں کو پتہ چلے گا کہ توحید کیا ہے اور صحیح مذہب کیا ہے۔ ہر احمدی بیعت کرنے کے بعد،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی تسلیم کرنے کے بعد اس عہد بیعت کو پورا کرنے والا تبھی کہلا سکتا ہے جب وہ توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش کرے کیونکہ یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا حقیقی مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’میرا یہ کام ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدا کی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے۔ جب آپ نیک نیتی سے اس مقصد کو سمجھتے ہوئے توحید کے قیام کی کوشش کریں گے تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں نشانات کا وعدہ نہیں تھا۔ آپ کے دور کے لئے آپ کے زمانے کے لئے نشانات کا وعدہ ہے۔ اور اس کی توحید کے قیام کے لئے آپ اپنی کوششوں سے جو کریں گے آپ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نشانات دیکھتے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو اور اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے مقصد کو سمجھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کریں گے، انشاء اللہ، اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان انعامات اور فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
‘’تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہٰی اور تزکیہ اور تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ۔ اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ (اپنے آپ کو اس کا مستحق بناؤ) خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔
تو یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے اپنے ماننے والوں کے لئے وعدہ فرمایا ہے۔ یہ چیزیں اپنائیں گے تو اس کے مستحق ٹھہریں گے۔ اور کوشش کریں اور ایک نئے جوش سے ایک نئے جذبے سے اس طرف توجہ کرتے ہوئے تبلیغی میدان میں بھی، عبادتوں کے معیار میں بھی آگے بڑھتے چلے جائیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حقیقی عبادت گزاروں میں سے بنائے اور اپنے انعامات کا وارث بنائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں