خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 2؍ مارچ 2007ء

اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے کامل پرتَو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے اپنوں اور غیروں کے لئے بے انتہا رحم کی بعض روشن مثالوں کا حسین تذکرہ۔
اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر چلتے ہوئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا سینہ و دل بھی لوگوں کے لئے ہمدردی اور رحم کے جذبات سے پُر تھا۔ آپؑ کی زندگی کے بعض واقعات کا تذکرہ۔
منڈی بہاؤالدین کے قریب ایک گاؤں میں ایک احمدی کی شہادت کا دلگداز تذکرہ
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 2؍ مارچ 2007ء بمطابق2؍امان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبے میں مَیں نے آنحضرت ﷺ کے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے کامل پر تَو ہونے کا کچھ ذکر کیا تھا کہ وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم کہہ کر پکارا ہے، جو اپنوں اور غیروں کے لئے بے انتہا رحم کے جذبات لئے ہوئے تھا، آپؐ کی زندگی ان واقعات سے بھری پڑی ہے جب معمولی سے معمولی بات پر بھی آپؐ کا جذبہ رحم موجزن نظر آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد دل میں محسوس کرتے ہوئے یہ رحمۃٌ للعالمین اور رؤف و رحیم مخلوق کا درد دُور کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے۔ گزشتہ خطبہ میں،مَیں نے احادیث سے چند مثالیں پیش کی تھیں۔ آج چند اور احادیث پیش کروں گا۔ یہ مختلف مثالیں ہیں جو آپؐ کی سیرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں۔ لیکن عقل کے اندھے پھربھی یہی کہتے ہیں کہ نعوذباللہ آپؐ میں رحم کا جذبہ نہیں تھا۔ ہم دیکھیں گے کہ بعض ایسی معمولی باتیں ہیں جن پر دنیا کی نظر میں ایسے شخص کو جو اس مقام پر پہنچا ہو جہاں اس کے ماننے والے دیوانوں کی طرح سب کچھ اس پر قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوں، ان باتوں کے کرنے کا کبھی خیال آہی نہیں سکتا۔ آپؐ کے ماننے والوں کا، مومنین کا آپؐ کے لئے جو جذبہ تھا وہ دنیا کی نظر میں شاید دیوانگی ہو لیکن عشق و محبت کی دنیا میں یہ عشق و محبت کی انتہا ہے۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں جس کو غیر نے بھی محسوس کیا اور اپنے لوگوں کو جا کر کہا کہ ان لوگوں کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے جو اس دیوانگی کی حد تک آپؐ سے عشق کرتے ہیں کہ آپؐ کے وضو کے پانی کے قطروں کو زمین پر پڑنے سے پہلے ہی اُچک لیتے ہیں۔ اگر کوئی دنیا دار ہو تو اس اظہار کے بعد دوسروں کے لئے محبت و نرمی اور رحمت کے جذبات رکھنے کی بجائے خود سری اور خود پسندی میں بڑھ جائے۔ لیکن ہم قربان جائیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفیا کے کہ آپؐ اس کے باوجو د رحمت کے جذبے کے ساتھ اپنے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لئے قربانیوں پر قربانیاں کر رہے ہیں، ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا رہے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ اس خیال سے بے چین ہو رہے ہیں کہ کہیں مجھ سے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے میرا نام رحمۃ للعالمین رکھا ہے تورحمتیں اور شفقتیں مجھ سے نکلنی چاہئیں اور دوسروں کو پہنچنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے مومنوں کے لئے رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگ رہے ہیں، ان کی تکلیفوں پر پریشان ہو رہے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جو اس نبیﷺ کی رأفت اور رحمت کا رہتی دنیا تک مقابلہ کر سکے بلکہ اس کا عشر عشیر کیا،ہزارواں، لاکھواں حصہ بھی دکھا سکے۔ اس سرا پا رحمت کا ایک واقعہ جو بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن اپنے ایک معمولی چاکر کے لئے نرمی و رحمت کے جذبات کی ایک ایسی تصویر کھینچتا ہے جو بڑے بڑے نرم دل اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنے والوں میں ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آسکتا۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہما ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ حنین کے روز ایک مرتبہ میری وجہ سے نبی کریمﷺ کا راستہ تنگ ہو گیا۔اس وقت مَیں نے موٹے چمڑے کا جوتا پہنا ہوا تھا۔ میرا پاؤں رسول اللہ ﷺ کے پاؤں پر آگیا تو آپؐ نے اس کوڑے کے ساتھ جو آپؐ نے پکڑا ہوا تھا مجھے جلدی سے پیچھے ہٹایا اور کہا بسم اللہ۔ تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے وہ رات اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے گزار دی۔ مَیں اپنے دل میں بار بار سوچتا تھا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو تکلیف دی ہے۔ جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور پوچھا کہ فلاں کہاں ہے؟۔ مَیں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ مَیں یہاں ہوں اور ان کے ساتھ چل پڑا۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ انے مجھے مخاطب کرکے فرمایا تم نے کل اپنی جوتی سے میرے پاؤں کو لتاڑ ہی دیا تھا اور تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی لیکن مَیں نے تمہیں کوڑے کے ساتھ اپنے پاؤں سے پیچھے کیا تھا۔ تو یہ جو ہلکا سا کوڑا مَیں نے تمہیں مارا تھایہ،اسّی (80) دُنبیاں ہیں، بکریاں ہیں، بھیڑیں ہیں انہیں اس کے بدلہ میں لے لو۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ336باب ما یذکر فھہ صفۃ ﷺ الباطنۃ وان شارکہ فیھاغیرہ۔ المکتبۃ الاسلامیہ بیروت)
تو دیکھیں اس رحمۃ للعالمین کا اپنے چاکروں سے کیا حسن سلوک ہے۔ تکلیف بھی آپؐ کو پہنچی ہے۔ اس تکلیف سے اپنے پاؤں کو آزاد کروانے کے لئے ہلکے سے کوڑے کے اشارے سے دوسرے کا پاؤں پیچھے ہٹایا ہے تو ساری رات آپؐ کے دل میں یہ خیال رہا کہ چاہے یہ ہلکا سا کوڑا ہی سہی۔ مَیں نے یہ کیوں مارا۔ اس سے اس کو تکلیف پہنچی ہو گی۔ اپنی تکلیف کا کوئی احساس نہیں رہا۔ جس کو کوڑا مارا وہ اپنی غلطی پر شرمند ہ ہے۔وہ ساری رات سو نہیں سکا کہ مَیں نے آنحضرت ﷺ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ لیکن یہ سراپا رحمت صبح اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہیں میرے ذریعہ سے تھوڑی سی جو تکلیف پہنچی تھی یہ اس کا بدلہ ہے۔ یہ اسّی (80) بھیڑیں ہیں یہ لے لو۔
پھر دیکھیں آپؐ کی مجلس میں آنے والے ایک بدّو کا رویّہ جو ادب آداب سے بالکل نابلد تھا بلکہ لگتا ہے لوگ سیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ان لوگوں کو اپنے اکھڑ پن پر بہت زیادہ فخر تھا۔ لیکن اس رویّہ کے باوجود کیا شفقت کا سلوک تھا جو آپ ؐ نے اس سے فرمایا اور اس کی حاجت براری فرمائی۔ روایت میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبیﷺ کی معیت میں تھا۔ آپؐ نے ایک موٹے کنار ے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدّو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپؐ کی گردن پر پڑ گئے۔پھر اُس نے کہا اے محمد! ( ا) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپؐ کو عنایت فرمایا ہے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپؐ نہ تو مجھے اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے۔ پہلے تو نبی کریمﷺ خاموش رہے۔ پھر فرمایا۔ اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہ‘۔مال تو اللہ ہی کا ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔ بدّو نے کہا: نہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ کیوں ؟ تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا۔ اس بدّو نے کہا اس لئے کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر نبی کریمﷺ ہنس پڑے۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔(الشفاء لقاضی عیاض۔الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ … الفصل واماالحلم صفحہ 74۔جلد اول دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) تو دونوں لاد دئیے۔ یہ بدّو بھی کوئی بے وقوف نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا کہ جو چاہے آپؐ کے سامنے بول لوں۔ جیسا بھی سلوک کر لوں اس سراپا رحمت کی طرف سے صرف عفو اور درگزر اور رحمت کا اظہار ہی ہونا ہے۔
پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف ہر وقت متوجہ رکھنے کے لئے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لیتے رہیں آپ ؐ مختلف طریقوں سے توجہ دلاتے تھے۔ پہلی قوموں پر جو سماوی آفات کے ذریعہ سے عذاب آتے رہے اور جس کے ذریعہ سے ان کے نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گئے ان کا کیونکہ آپؐ کو سب سے زیادہ احساس تھا اور خیال فرماتے تھے کہ مجھے ماننے والے یا اردگردکے رہنے والے آج بھی کسی غلطی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے نہ آجائیں۔ اس لئے جب بھی کبھی ہوا یا آندھی یا بارش کو دیکھتے تو خود بھی اللہ تعالیٰ کا رحم طلب کرتے، دعاؤں میں لگ جاتے اور مسلمانوں کو بھی نصیحت فرماتے کہ اس کا رحم طلب کروکہ یہ ہوا،آندھی یا بارش جو آرہی ہے یہ کہیں اللہ تعالیٰ کا غضب لانے والی، عذاب لانے والی نہ ہو۔ پس جب بھی ہوایا بارش دیکھتے تو اللہ تعالیٰ کا رحم طلب فرماتے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم ہوا کو بُرا بھلا نہ کہا کرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو کہ رحمت اور عذاب دونوں کو لاتی ہے۔ لیکن اللہ سے اس کی خیر چاہا کرو اورجب اسے دیکھو اللہ سے اس کی خیر چاہا کرو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔
(سنن ابن ماجہ۔کتاب الادب باب النہی عن سبّ الریح حدیث نمبر 3727)
عطاء ؓبن ابی رباح نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس دن میں ہوا چلتی، بادل آتے تو آپؐ کے چہرے پر اس کے آثار نظر آتے اور آپؐ کبھی تشریف لاتے اور کبھی چلے جاتے۔ یعنی پریشانی میں ٹہلتے رہتے۔ جب بارش ہوتی تو اس کی وجہ سے آپؐ خوش ہو جاتے اور پریشانی آپؐ سے جاتی رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:مجھے اس بات کا ڈررہتا ہے کہ یہ کوئی عذاب نہ ہو جو میری امّت پر مسلّط کر دیا جائے۔ اور آپؐ بارش کو دیکھ کر کہتے کہ اب رحمت ہے۔
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ الأستسقاء باب التعوذ عند رؤیۃ الریح والغیم۔حدیث نمبر 1968)
اس سراپا رحمت نے اس موقع پر خود بھی دعائیں کیں اورجو دعائیں سکھائیں۔ وہ ایک دو میں یہاں نمونۃً پیش کرتا ہوں۔ ایک دعا آپؐ نے آندھی، ہوا، بارش اور طوفانوں کو دیکھ کر یہ سکھائی کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَمَا فِیْہَا وَخَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّمَا فِیْہَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔

(صحیح مسلم کتاب صلاۃ الاستسقاء باب التعوذ عند رؤیۃ الریح والغیم والفرح بالمطر) کہ اے اللہ مَیں تجھ سے اس کی ظاہری و باطنی خیر و بھلائی چاہتا ہوں اور وہ خیر بھی چاہتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اور مَیں اس کے ظاہری و باطنی شر سے اور اس شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے۔
پھر ایک دعا آپ نے یہ سکھائی کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجْأۃِ نِقْمَتِکَ وَ جَمِیْعِ سُخْطِکَ۔

(صحیح مسلم کتاب الرقاق باب اکثراھل الجنۃ الفقراء واکثر اھل النار النساء و بیان الفتنۃ بالنساء)
کہ اے اللہ میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے، تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تو ناراض ہو۔
پھر دیکھیں اِس سراپا رحمت نے ایک غریب عورت کو جو قریب المرگ تھی، اپنی رحمت اور دعاؤں سے نوازنے کے لئے کیا سلوک فرمایا اور پھر وفات کے بعد بھی اس کے لئے مغفرت کی دعا کی اور رحمت کے جذبات کا اظہار فرمایا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو امامہؓ نے بتایا کہ مدینہ کی بیرونی بستیوں کی غریب عورت بہت بیمار پڑ گئی۔ نبی کریمﷺ اس کی صحت کے بارے میں صحابہ ؓ سے دریافت فرمایاکرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خاتون فوت ہو جائے تو اُس وقت تک اس کو دفن نہ کرنا جب تک مَیں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھ لوں۔ چنانچہ وہ فوت ہو گئی۔ رات کے وقت فوت ہوئی اور صحابہ اس کا جنازہ رات گئے مدینہ لائے تو انہوں نے رسول اللہﷺ کو سویا ہوا پایا۔ انہوں نے آپؐ کو جگانا پسند نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی نماز جنازہ خود ہی پڑھی اور جنت البقیع میں دفن کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو
رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔اس پر رسول اللہانے اس خاتون کے بارے میں دریافت فرمایا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ اسے تو دفن کر دیا، وہ رات فوت ہو گئی تھی۔ ہم آپؐ کے پاس آئے تھے مگر آپؐ کو سوئے ہوئے پایا تو ہم نے آپؐ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔اس پر آپ ؐ نے فرمایا مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔چنانچہ آپؐ وہاں گئے اور قبرستان میں جا کر اس کی قبر جو آپؐ کو دکھائی گئی تورسول اللہﷺ وہاں کھڑے ہو گئے۔ صحابہ ؓ آپؐ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ اور آپؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔
(سنن النسائی کتاب الجنائز باب الصلاۃعلی الجنازۃ باللیل حدیث نمبر 1969)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا اگرکسی کے بارے میں کہوں کہ مَیں جنازہ پڑھاؤں گا۔ مجھے بتا دینا تو بتادیا کرو۔ ویسے بھی بتانا چاہئے کہ اگر تم میں سے کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو جب تک مجھے آگاہ نہ کرو گے مَیں اس وقت تک کیسے آسکوں گا۔ میری دعا فوت شدہ کے لئے باعث رحمت ہے۔ پھر آپؐ قبر پر تشریف لے گئے اور چار تکبیریں کہیں اور نماز جنازہ پڑھائی۔
(سنن ابن ماجہ۔کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی القبر)
پھر بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا ذکر کرکے اپنی اُمّت کو ان نیکیوں کے بجا لانے کی طرف توجہ دلاتے تھے تاکہ وہ جس ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر سکیں اور اس کی رحمت سے حصہ لے سکیں، لے لیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہا نے فرمایا کہ ایک شخص نے راستہ میں ایک درخت کی شاخ پڑی دیکھی تو اس نے کہا اللہ کی قسم! مَیں اس کو ضرور ہٹا دوں گاتا اس سے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس پر اس کو جنت میں داخل کر دیا گیا۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃباب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق حدیث نمبر 6565)
اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کے اجر کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے رحمت کا سلوک فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ مَیں ہر عمل کی جزا دوں گا تو اس عمل کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی یا بڑی سے بڑی نیکی بغیر جزا کے نہیں چھوڑتا۔
پھر ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ انے فرمایا: ایک آدمی راستے پر چلاجا رہا تھا اس کوشدید پیاس محسوس ہوئی اسے ایک کنواں نظر آیا۔ اس نے اُس میں اتر کر پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو اس نے ایک کتّے کو دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ اس کتیّ کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی ہے۔ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھر کر اپنے منہ کے ذریعہ سے اس کو پکڑا اور کتّے کو اس سے پانی بلایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہمارے لئے جانوروں میں بھی اجر ہے؟ توآپؐ نے فرمایا ہر جاندار میں اجر مقدر ہے۔
(بخاری کتاب الادب۔ باب رحمۃ الناس والبہائم)
پس کوئی بھی عمل ضائع نہیں ہوتا۔ ہر عمل جو نیک نیتی سے کیاجائے اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت کے صدقے ضروراس کا بدلہ دیتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ مختلف طریقوں میں مجالس میں جب بیٹھے ہوتے تھے،آپؐ تشریف فرما ہوتے تھے،لوگ سوال کرتے تھے آپؐ جواب دیتے تھے اور تربیتی نصیحت بھی فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حسن بن علی ؓ کا بوسہ لیا اور آپؐ کے پاس اقرع بن حابس التمیمی بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اقرع نے کہا میرے دس بچے ہیں مَیں نے کبھی بھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔ تو رسول اللہﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا جو رحم نہیں کرتا، اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
(بخاری کتاب الأدب باب رحمۃ الولد وتقبلہ ومعانقتہ۔ حدیث نمبر 5997)
بچوں کو پیار کرنا، ان کی تربیت کرنا یہ بھی ایک رحم کے جذبے کے تحت ہونا چاہئے۔ اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کے رحم کو سمیٹنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے والی ہے۔
عبداللہؓ بن بُسْر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے والد کے ہاں بطور مہمان تشریف لائے ہم نے آپؐ کی خدمت میں کھانا پیش کیاجسے آپؐ نے تناول فرمایا۔ پھر آپؐ کے پاس کھجوریں لائی گئیں آپؐ انہیں کھاتے جاتے تھے اور اپنی دو انگلیوں سے (شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے) گٹھلیاں ایک طرف رکھتے جاتے تھے۔ پھر آپؐ کے پاس مشروب لایا گیا۔ جسے آپؐ نے پینے کے بعداپنے داہنے ہاتھ بیٹھے ہوئے شخص کو دیا۔ میرے والد نے آپؐ کی سواری کی لگامیں پکڑ ے ہوئے عرض کیا کہ ہمارے لئے دعاکریں۔ آپؐ نے یہ دعا کی: اے اللہ! جو تو نے انہیں رزق عطا کیا ہے اس میں ان کے لئے برکت ڈال دے اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔
(ترمذی کتاب الدعوات۔باب فی دعاء الضیف۔ حدیث نمبر 3576)
آپؐ کو علم تھا کہ آپ ؐ کی دعا ان لوگوں کی زندگیاں بھی سنوارنے والی ہے اور عاقبت سنوارنے کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ اور شکر گزاری کے جذبات سے بھی آپؐ کا دل بھرا ہوا تھا۔ جو خدمت انہوں نے اس وقت کی اس کا تقاضا تھا کہ ان کو اس سے بہت بڑھ کر دیا جائے۔ اور آپؐ کی دعاؤں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل کو اور رحم کو سمیٹنے والی اور کیا چیز ہو سکتی تھی جس کی برکتیں ان کے بھی اور ان کی نسلوں کے بھی ہمیشہ کام آنے والی تھیں۔
وَضِیْن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! ہم جاہل تھے اور بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ہم اپنے بچوں کو قتل کیا کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی۔ جب وہ جواب دینے کی عمر کو پہنچی اور جب مَیں اُسے بلاتا تو وہ بڑی خوش ہوتی۔ ایک دن مَیں نے اسے بلایا تووہ میرے پیچھے ہو لی۔ مَیں چلتا گیا یہاں تک کہ مَیں اپنے خاندان کے کنویں تک آپہنچا جو زیادہ دور نہ تھا۔ چنانچہ مَیں نے اپنی بیٹی کو اس کے ہاتھ سے پکڑ کر اس کنویں میں پھینک دیا اور مَیں نے جو اس کی آخری آواز سنی وہ یہ تھی کہ وہ کہہ رہی تھی کہ اے میرے ابّا ! اے میرے ابّا۔
رسول اللہﷺ رو پڑے۔ آپؐ کے آنسو آہستہ آہستہ بہنے لگے۔ اُس وقت رسول اللہﷺ کی مجلس میں جو لو گ بیٹھے تھے اُن میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم نے رسول اللہﷺ کو غمگین کر دیا ہے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم خاموش رہو، یہ مجھ سے ایسے معاملے کے بار ے میں سوال کر رہا ہے جو اس کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پھر آنحضورﷺ نے کہا کہ اپنا قصہ دوبارہ مجھے سناؤ۔ چنانچہ اس نے سارا واقعہ دوبارہ سنایا۔ اس واقعہ کو دوبارہ سن کر آنحضورؐ کے آنسو آپ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آپ کی داڑھی تک جا پہنچے۔ پھر آنحضور ؐ نے اس کو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اعمال سے درگزر فرمایا ہے۔ پس اب تم نئے سرے سے اعمال کا آغاز کرو۔ (سنن الدارمی باب نمبر 1۔ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی عن الجھل والضلالۃ۔ حدیث نمبر 2)
یہ معاملہ اس کے لئے اہمیت کا حامل اس لئے تھا کہ وہ اس لئے حاضر ہوا تھا کہ کیا اتنے بڑے بڑے گناہ کرنے کے بعد بھی میرے بخشے جانے کا، مجھ پر اللہ کی رحمت کے نازل ہونے کا،رحمت سے حصہ لینے کاکوئی امکان ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ جہالت کا زمانہ تھا وہ گزر گیا۔ اب نیک اعمال کرو گے، صالح عمل بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پاتے چلے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے رحمت کے سامان فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے توبہ کی اور نیک عمل کئے، آئندہ کے لئے اگر وہ نیک اعمال کی ضمانت دیں تو ان کو مَیں بخش دوں گا۔
پھر عورتوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے، ان سے رحم کا سلوک کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے ایک مثال د ی ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے آپؓ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ انے فرمایا: عورتوں سے بھلائی سے پیش آیا کرو۔ عورت یقینا پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی کے اوپر کے حصہ میں زیاہ کجی ہوتی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اور تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس تم عورتوں سے بھلائی سے ہی پیش آؤ۔
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء با ب خلق آدم صلوٰت اللہ علیہ وذریۃ۔ حدیث نمبر 3331)
مقصد یہ ہے کہ جس کام کے لئے وہ بنائی گئی ہے، جس شکل میں وہ بنائی گئی ہے اسی سے اس سے کام لو گے تو بہتر رہے گی۔ پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں تو پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہیں یعنی انسان کے جسم کے اس حصہ کی حفاظت وہ نہیں کرسکتی جس میں دل بھی آتا ہے پھیپھڑے بھی ہیں یا اور چیزیں بھی ہیں۔ اسی طرح اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اپنے گھروں کی حفاظت کرو، اپنے بچوں کی تربیت و نگہداشت صحیح طریقے سے کرو،ان کے پالنے کے صحیح سامان کرو تو عورت کو جس شکل میں وہ ہے اس سے کام لو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر عورتوں کو مورد الزام ٹھہرانا، ان کے نقص نکالنا،جھگڑے پیدا کرنا، مسائل پیدا کرنا یہ باتیں تمہار ے گھروں کو بھی برباد کرنے والی ہے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھی محروم کرنے والی ہیں۔ اس لئے فرمایا اس سے اسی طرح کام لو جس طرح اس کی شکل ہے۔ اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے مطابق ہی اُس کو شکل عطا کی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا (النسآء :37)

کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ کیونکہ

اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان:12)

شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ وہ ہستی جس نے کائنات کو پیدا کیا، تمہارا رب ہے، تمہیں پالنے والا ہے۔اپنی رحمانیت کے صدقے ہماری ضروریات کی تمام چیزیں اس نے مہیا کی ہیں۔ پس یہ چیز تقاضا کرتی ہے کہ اس بات پر اس کی شکر گزاری کرتے ہوئے اس کے آگے جھکو تاکہ اس کی رحیمیت سے بھی حصہ پاؤ، ورنہ تم اپنے آپ پر بڑا ظلم کرنے والے ہو گے۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر دوسروں کو اپنا ربّ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے فیض پانے کی بجائے اس سے دور ہٹ رہے ہو گے، اپنی عاقبت خراب کر رہے ہو گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمام گناہ بخش دوں گا۔ لیکن شرک کا گناہ نہیں بخشوں گا۔ پھر فرمایا۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء (النساء :49)

اللہ تعالیٰ اس گناہ کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کا کسی کو شریک بنایا جائے اور جو گناہ اس کے علاوہ ہیں ان کو جس کے حق میں چاہے گا معاف کر دے گا۔ پس
اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے ہر قسم کے شرک سے، وہ ظاہری ہے یا مخفی ہے، بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو اس بارے میں کس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچتے رہیں، اس کا ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ میں گدھے پر سوار تھا کہ رسول اللہﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے مجھے فرمایا اے معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے۔ میں نے عرض کیا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔( یہ بھی صحابہ کا ایک طریقہ تھا۔) آپؐ نے فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جب وہ یہ اعمال کر لیں تو وہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب ما یرجی من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ۔ حدیث نمبر 4296)
لیکن بدقسمتی ہے کہ آجکل مسلمانوں کی بڑی تعداد مخفی شرک میں مبتلا ہے۔ گدی نشینوں، پیروں،فقیروں کے پاس جا کر یا قبروں پرجا کر دعائیں مانگتے ہیں۔وہ بزرگ جن کی قبروں پہ جاتے ہیں ان کو اپنی نجات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جو اپنی ساری زندگی وحدانیت کی تعلیم دیتے رہے مگر ان کے مزاروں پر جا کر شرک کیا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے، عذاب سے بچنے کے لئے آنحضرت انے فرمایا کہ یہ جوہر قسم کے شرک ہیں ان سے بچو۔ اور ہمارا ہر احمدی کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کے خلاف ہمیشہ جہاد کرتا رہے۔ بعض احمدیوں میں بعض جگہوں پر یہ باتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگوں کو جادو ٹونے ٹوٹکے دَم درُود کی طرف بہت زیادہ اعتقاد بڑھ گیا ہے جس کاکوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔
اب مَیں چند واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آپ کے سامنے رکھوں گاکہ آپ کا سینہ و دل لوگوں کے لئے ہمدردی کے جذبات سے کس طرح پُر تھا۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے، آپؐ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے آپؑ نے کیا نمونے دکھائے۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ باہر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کرکے تشریف لائے تو بہت سارے لوگ وہاں جمع تھے اُن لوگوں میں ایک سائل تھا، سوالی جو سوال کیا کرتا تھا۔ اس نے سوال کیا آواز لگائی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لوگوں کے رش کی وجہ سے صحیح طرح سے سن نہ سکے۔ تو جب اندر گئے تو احساس ہوا کہ سوالی نے ایک سوال کیا تھا تو آپؑ باہر آئے اور پوچھا تو لوگوں نے کہا وہ تو چلا گیا ہے۔ پھر آپؑ اندر چلے گئے اس وقت کہا کہ اسے تلاش کرو یا پھر تھوڑی دیر کے بعد سوالی پھر آگیا۔ آپؑ باہر آئے اس کی ضرورت پوری کی اور فرمایا میرا دل بڑا سخت بے چین تھا، مَیں دعا مانگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ آئے اورمَیں اس کی ضرورت پوری کر سکوں۔
(ماخوذ از سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ73-72)
پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی ایک واقعہ کابل کی آئی ہوئی ایک لڑکی کا بیان کیا۔ اس کی آنکھیں سخت دکھنے آگئیں اور وہ دوائی نہیں لگواتی تھی۔ ایک دن اس کی ماں ڈاکٹرکے پاس لے کر گئی تو وہ دوڑ کر آگئی کہ نہیں مَیں تو حضرت صاحب سے ہی علاج کرواؤں گی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوئی اورروتی جاتی تھی اور اپنی آنکھوں کی درد اور سرخی کی تکلیف بیان کر رہی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کر رہی تھی کہ آپؑ میری آنکھوں پر دم کر دیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دیکھا تو واقعی اس کی آنکھیں بڑی سخت تکلیف میں تھیں، دکھ رہی تھیں۔ آپؑ نے اپنا تھوڑا سا لعاب دہن انگلی پر لگا کے اس کی آنکھ پر رکھا اور دعا کی اور فرمایا: بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف کبھی نہیں ہو گی۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں وہ تکلیف آئندہ مجھے کبھی نہیں ہوئی۔
(ماخوذ از سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ284-283)
تو ہر وقت ہر ایک کے لئے بچہ ہو،چھوٹا ہو، بوڑھا ہو، آپؑ میں جذبۂ رحم تھا۔ جذبہ رحم کے تحت ہی آپؑ دعا بھی کرتے تھے، علاج بھی کرتے تھے اور ان کی تکلیفیں دورکرنے کی کوشش فرماتے تھے۔
پھر حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کا بچپن کا واقعہ ہے وہ سخت بیمار ہو گئے تو آپؑ نے دعا کی اور
اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا سنی اور الہام ہوا

سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَبِّ رَّحِیْم

یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے۔چنانچہ میر صاحب صحت یاب ہوئے۔
(ماخوذ از سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ287-286)
جہاں یہ قبولیت دعا کے واقعات ہیں وہاں جس رحم کے جذبے کے تحت آپؑ دعا مانگا کرتے تھے اس کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
حضرت حکیم مفتی فضل الرحمن صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1907ء میں میرا دوسرا لڑکا عبدالحفیظ پیدا ہوا۔ تو ان دنوں میں عورتوں میں بچوں کی پیدائش کے بعد تشنج کی بیماری بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو میری بیوی کو بھی بیماری ہوئی۔کہتے ہیں مَیں دوڑا دوڑاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؑ نے ایک دوائی دی۔ مَیں نے کھلائی۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ دوبارہ آکر عرض کیاآپؑ نے دوسری دوائی دی۔ مَیں نے جا کر کھلائی اس سے بھی فرق نہیں پڑا۔ تیسری دفعہ بھی اسی طرح ہوا تو آپؑ نے فرمایا جو دنیاوی حیلے تھے وہ تو ختم ہو گئے۔ اب دعا کا ہتھیار باقی رہ گیا ہے۔ تم جاؤ اور مَیں اس کے لئے دعا کرتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ مَیں اس وقت تک اپنا سر نہیں اٹھاؤں گا، اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا چلا جاؤں گا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں تو اس کے بعد آکر آرام سے سو گیا کہ اب مجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھیکیدار نے خود ٹھیکہ لے لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ صبح برتنوں کی آواز سے میری آنکھ کھلی تودیکھا تو میری بیوی صحت یاب ہو کر آرام سے اپنے کام میں مصروف تھی۔
(ماخوذ از سیرت احمدؑ از قدرت اللہ سنوری صاحبؓ صفحہ206-204)
لوگوں سے ہمدردی اور ان کے لئے رحمت کے جذبات کا ایک اور واقعہ بھی اس طرح ہے۔ حضرت منشی زین العابدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میری شادی ہوئی، اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اولاد ہوتی تھی اوروقت سے پہلے فوت ہو جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ پوچھا تو مَیں نے بتایا کہ یہ وجہ ہے۔ آپؑ نے کہا کہ حضرت خلیفہ اوّل سے اس کا علاج کروا لو۔ مَیں نے کہا جی مَیں نے اُن سے علاج نہیں کرانا، بہت مہنگا علاج ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ کیا مجھ سے علاج کرواؤ گے؟ مَیں نے عرض کی۔ نہیں، علاج کی ضرورت نہیں۔ دعا کرواؤں گا۔ دیکھیں آپؑ کا جذبہ رحم،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظہرکی نماز کے بعد کہا کہ اچھا اگر یہی ہے تو پھر آؤ دعا کرتے ہیں۔ دروازے کے باہر ہی کھڑے ہو گئے اور آپؑ نے دعا کرنی شروع کی اور وہ کہتے ہیں کہ عصر کی اذان تک رو رو کر دعا کرتے رہے اور آنسو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی داڑھی مبارک سے ٹپک کر کرتے پر گر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں تو تھک کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ اور سوچتا رہا کہ مَیں نے کیوں تکلیف دی۔ نہ بھی اولاد ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن مجھے یہ تکلیف ہرگز نہیں دینی چاہئے تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا لمبی کرتے چلے گئے یہاں تک کہ جب آمین کہہ کر دعا ختم کروائی تو فرمایا کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے اب تمہاری بیوی کی یہ جو بھی بیماری ہے ختم ہو گئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پہلے جو حمل ہو گا اس میں بیٹا پیداہو گا۔ چنانچہ وہ ہوا اَور بچے بھی پیدا ہو ئے۔ تولوگوں کی ہمدردی کے جذبہ سے آپ اپنی تکلیف کا خیال نہیں کیا کرتے تھے۔
(ماخوذ ازاصحاب احمد جلد 13صفحہ95-94)
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ نے جابجا رحم کی تعلیم دی ہے یہی اخوت اسلامی کا منشاء ہے’‘۔
پھر آپ ؑ ایک جگہ فرماتے ہیں ‘’اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12-11)
پھر فرمایا ’’تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ گویا کہ تم اس کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں‘‘۔ حقیقی رشتہ دار کی تعریف بھی فرما دی کہ ماؤں کا رشتہ ہو۔ بعض دوسرے رشتوں میں تو بعض دفعہ دراڑیں آجاتی ہیں لیکن ماں بچے کا رشتہ ایسا ہے جوہمیشہ محبت و پیار اور شفقت کا رشتہ ہوتا ہے۔ اس طرح پیش آؤ جس طرح ماں کا رشتہ ہے۔
پھر فرمایا ’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور مَیں نماز میں مصروف ہوں اور میرے کانوں میں اس کی آواز پہنچ جاوے تومَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنا ر، مَیں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو’‘۔ یعنی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤجو اپنوں سے دکھاتے ہو۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ82۔ جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اُسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے اور آپ کے غلام صادق نے اس زمانے میں جس طرح عمل کرکے، اس نصیحت پر چلتے ہوئے ہمیں دکھایا اور ہمیں نصیحت فرمائی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے رحم اور ہمدردی کے جذبات ہمار ے دل میں ہمیشہ رہیں اور بڑھتے رہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے ہوں۔
آخر میں ایک افسوسناک خبر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ کل پاکستان میں منڈی بہاؤالدین کے علاقے کے ایک گاؤں سیرہ تحصیل پھالیہ میں ایک شہادت ہوئی ہے۔ محمد اشرف صاحب ایک احمدی نومبائع تھے۔ شاید دو تین سال، چار سال پہلے بیعت کی تھی۔ رابطہ تو ان کا دس بارہ سال سے تھا لیکن بیعت کی جب توفیق ملی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی استقامت اور ثبات قدمی دکھائی۔ ان کے خلاف اُس گاؤں میں جہاں یہ رہتے تھے بڑی سخت مخالفت کی ہوا چلی اور مولویوں نے ان کے خلاف لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرنا شروع کیا کہ قادیانیت کا یہ پودا،بُرائی کا پودا جو ہمارے گاؤں میں لگ گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ دو، نہیں تو یہ سارے گاؤں کو خراب کرے گا۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص نے بھی بیعت کی تھی۔ اس کے بعد فضا میں اور زیادہ بڑی سخت مخالفت کی رو چل پڑی۔ ایک طوفان بے تمیزی کھڑا ہوگیا تھا کہ اس گاؤں میں کفر کا پودا لگ گیا ہے اور یہ بڑھ رہا ہے اس کوابھی سے کاٹو۔ تو گزشتہ کل یا شاید پرسوں کسی وقت ایک بدبخت ہی کہنا چاہئے (کہنا کیا چاہئے بلکہ ہے ہی)۔ جو اس وقت پولیس میں حاضر سروس سب انسپکٹر ہے چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا، یہ بھی اور وہ احمدی بھی جو ان کی تبلیغ سے نیا احمدی ہوا ہے ان کی دوکان پر بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے آتے ہی بندوق نکالی اور ان پر فائر کر دیا۔پیٹ میں گولی لگی شہید ہو گئے اور اس نے اس قدر ظالمانہ فعل کیا کہ ہاتھ میں اس کے ٹوکہ یا کلہاڑی تھی، اس ٹوکے سے ان کی شہادت کے بعد ان کی گردن اور بازوؤں پر بھی وار کئے۔ دوسرے احمدی جو تھے انہوں نے وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور آکے جماعت کو اطلاع دی۔ان کے بھائیوں وغیرہ نے بھی ان سے تقریباً بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان کے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی اور اس پراسی وجہ سے ان کو نہیں بلایا ہوا تھا۔ ان کی ایک بیوہ ہے اور تین بچیاں ہیں۔ ان کی اپنی عمر شاید 46سال تھی اور بڑی بیٹی کی عمر 10سال ہے۔ ان کے تمام بچوں نے، فیملی نے بیعت کرلی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو۔ابھی تک تو جو اِن کے بھائی ہیں انہوں نے ان کی بیوہ اور بچوں کو آنے نہیں دیا۔ بہرحال یہ شرافت انہوں نے دکھائی کہ نعش جو ہے وہ جماعت کے سپرد کر دی اور آج ربوہ میں ان کی تدفین ہو گئی ہے۔
یہ بڑے دلیر اور نڈر آدمی تھے اور دعوت الی اللہ بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔ اور مونگ کے شہداء کی تصویروں کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ کاش خدا مجھے بھی ان خوش نصیبوں میں، ان شہیدوں میں شامل کر لے۔تویہ بات قرونِ اولیٰ کی یاد دلاتی ہے جب ایک موقع پر آنحضرت ﷺ مال تقسیم فرما رہے تھے تو ایک شخص نے کھڑے ہو کرکہا کہ حضور مَیں اس مال کے لئے تو مسلمان نہیں ہوا۔ میری تو یہ خواہش ہے کہ مَیں اللہ کی راہ میں قربان ہوں اور میرے حلق پر تیر لگے۔ جب وہ چلا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر اس کی خواہش سچی ہے تو یہ پوری ہو جائے گی۔چنانچہ کچھ عرصہ بعد ایک جنگ میں وہ گئے اور عین حلق پہ ان کے تیر لگا اور وہاں انہوں نے شہادت پائی۔ تو اس کی بھی یقیناخواہش سچی تھی جو اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے، درجات بلند فرمائے انتہائی مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی بیوہ اور بچوں کاحافظ و ناصر ہو۔ ان کے لئے دعا بھی کریں۔ ابھی نمازوں کے بعد جمعہ اور عصر کی نمازوں کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں