خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 16؍مارچ2007ء

خدا مالک ہے جزاسزا کے دن کا۔ ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے۔
مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں اور کامل طورپر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پر ہی آتا ہے۔
جہاں اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے، اپنی مالکیت کی حقیقت کی سمجھ عطا فرماتے ہوئے ہمارے سے ایسے اعمال کروائے جو ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنائیں اور اس کی سزا سے ہم ہمیشہ بچے رہنے والے ہوں۔ وہاں مسلم اُمّہ کے لئے بھی بالخصوص دعا کریں کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی منشاء کو سمجھنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جو امام بھیجا ہے اس کو ماننے والے ہوں اور اس کے مددگار ہوکر دنیا میں اسلام کے غلبہ کی کوشش کریں۔
اللّٰہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ اور اس حوالہ سے اہم نصائح
(مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کی بیوہ محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ کی وفات پر مرحومہ کا ذکر خیر)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 16؍مارچ 2007ء بمطابق 16؍ امان 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ مالکِ کُل ہے، تمام کائنات اس کے اشارے پر چل رہی ہے۔ وہ اِس دنیا میں بھی تمہارا مالک ہے اور مرنے کے بعد بھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حکموں پر عمل کرو تاکہ اِس دنیا میں بھی میری خوشنودی حاصل کر سکو اور اگلے جہان میں بھی جب تمہارے متعلق آخری جزا سزا کا فیصلہ ہو گا، میری رضا کے حصول کے لئے کئے گئے اعمال کی وجہ سے میری جنتوں کے وارث ٹھہر سکو۔ پس یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ جیسا کہ اکثر اللہ تعالیٰ کی ہستی کو نہ ماننے والے سمجھتے ہیں کہ اگلے جہان میں تو پتہ نہیں کیا ہونا ہے یا کچھ ہونا بھی ہے کہ نہیں، سوال جواب بھی ہونے ہیں کہ نہیں، جزا سزا بھی ملنی ہے کہ نہیں، کچھ ہے بھی کہ نہیں،اس لئے دنیا میں جو دل چاہتا ہے کئے جاؤ۔ اگر یہ لوگ غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس دنیا میں بھی ہزاروں آفات ایسی ہیں جن سے ہر روز لوگ گزرتے ہیں اور اس دنیا میں بھی اس کی وجہ سے جزا سزا حاصل کرتے ہیں۔ یہی نہیں، یہ چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ جب اس دنیا میں جزا سزا ہے تو برائیوں میں یا ان اعمال کے کرنے کی وجہ سے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اوران پر اصرار کرنے کی وجہ سے اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ عذاب دے سکتا ہے اور وہ اس کے سزا وار ٹھہر سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن (الفاتحہ:4)

خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا، ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے۔ ہم روزمرّہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے۔ ایک روز نہ پکڑا جاوے گا، دو روز نہ پکڑا جاوے گا، آخر ایک روز پکڑا جائے گا اور زندان میں جائے گا‘‘۔ یعنی قید میں ڈالا جائے گا ’’اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ یہی حال زانی، شراب خور اور طرح طرح کے فسق و فجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شان ستاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے۔ اسی طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرمانبرداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے تو خداتعالیٰ ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا اور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور بار آور ہو کر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونے کے طور پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے۔ غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق، فاجر، شراب خور اور زانی ہیں ان کو خدا کا اور روز جزا کا خیال آنا تو درکنار، اسی دنیا میں ہی اپنی صحت، تندرستی، عافیت اور اعلیٰ قویٰ کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سِل، دق، سکتہ اور رعشہ اور اَورخطرناک امراض ان کے شامل حال ہوکر مرنے سے پہلے ہی مر رہتے اور آخر کار بے وقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ642-641 جدید ایڈیشن )
اس زمانے میں دیکھیں کتنے ہیں جو ان غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ بعض تو ان میں سے ایسے ہوتے ہیں،کوئی نہ کوئی ان میں نیکی کی رگ ہوتی ہے، جن کو خیال آجاتا ہے، اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اس دنیا کی سزا کے نمونے سے ہی عبرت حاصل کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں تو اخروی سزا سے بچ جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ برائیوں پر اصرار کرنے والے ہیں انہیں ان برائیوں کا اصرارلے ڈوبتا ہے۔ اپنی دنیا بھی خراب کرتے ہیں اور آخرت بھی خراب کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا شرابی ہیں، شراب کی وجہ سے اپنی طاقتیں ضائع کر دیتے ہیں، دماغی صلاحیتیں کھو دیتے ہیں۔ یہ شراب پینے والے جب شراب پی رہے ہوتے ہیں ان کے دماغ کے ہزاروں لاکھوں خلیے اور سیل (Cell) ہیں جو ساتھ ساتھ ضائع ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والے ہیں۔
پھر اس زمانے میں جو ایڈز(Aids) کی بیماری ہے، یہ بھی بہت بڑی تباہی پھیلا رہی ہے۔ جب انسان اپنی پیدائش کے اصل مقصد کو بھول کر جانوروں کی طرح صرف نفسانی خواہشات کا غلام ہوجائے تو پھر وہ جو مالک ہے جس نے انسان کے اور حیوان کے درمیان فرق کے لئے حدود قائم کی ہوئی ہیں وہ اپنی صفت مالکیت کے تحت اس دنیا میں بھی سزا دے دیتا ہے اور آخرت میں ان حدود کو توڑنے کی وجہ سے کیا سلوک ہونا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ پس انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے قانون پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ کس قدر تباہی کی طرف جا رہا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے یہاں تو آتا ہی ہے آئندہ جہان میں بھی آسکتا ہے۔ اس لئے صرف یہ سوچ کر کہ اگلا جہان پتہ نہیں ہے بھی کہ نہیں اور اس میں کوئی سزا ملنی بھی ہے کہ نہیں، غلاظتوں اور گناہوں میں پڑ جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو پھر غلط کاریوں اور گناہوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ لیکن اگر احساس ہو کہ سزا ہے تو پھر آدمی اصلاح کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بعض لوگوں کی تو یہ حس ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جانور پن پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور باوجود اس سزا سے گزرنے کے یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم کن غلاظتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس ہر عقلمند انسان کو اپنے ماحول کے نمونوں کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے انسان کی غلطیوں کی وجہ سے بعض کو اس دنیا میں بھی سزا کے جو نمونے دکھاتا ہے تو یہ بات ہمیں خداتعالیٰ کے قریب کرنے والی اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے۔
ان ملکوں میں بعض برائیاں ایسی ہیں جن سے بچنے کے لئے خاص طور پر نوجوانوں کو بہت کوشش کرنی چاہئے۔ شروع شروع میں بعض چھوٹی چھوٹی برائیاں ہوتی ہیں پھر بڑی برائیوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھر اگر ان حرکتوں کے بدنتائج اس دنیا میں بھی ظاہر ہو جائیں تو یہ جہاں ایسے لوگوں کے لئے سزا ہے وہاں ان کے ماں باپ عزیزوں رشتہ داروں خاندان کو بھی معاشرے میں شرمسار کرنے والے ہوتے ہیں۔ان کو بھی معاشرے کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس ان چیزوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم کرتے ہوئے، اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ وہ گناہوں سے بچانے والا بھی ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا بھی ہے، نیکیوں کی توفیق دینے والا بھی ہے اور نیکیوں کا بہترین اجر دینے والا بھی ہے، اس کے سامنے جھکے رہنا چاہئے، اس سے مدد مانگنی چاہئے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ۔ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ(الزمر:7)

یہ ہے اللہ تمہارا ربّ اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم کہاں الٹے پھرائے جاتے ہو۔ توجہ کرو اپنے خدا کی طرف کہ اُسی کی طرف جانا ہے۔ پس اپنے پیدائش کے مقصد کو سمجھ کر اس کے بتائے ہوئے احکامات کی نافرمانی نہ کرو۔ہر ایک عقلمند انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ۔ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ(البقرۃ:108)

کیا تو نہیں جانتا کہ وہ اللہ ہی ہے جس کی آسمان اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر تمہارے لئے کوئی سرپرست اور مددگار نہیں ہے۔
پس آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی واحد اور لاشریک خدا کی ہے تو یہ بات بھی اُسی کو زیب دیتی ہے کہ اس کی عبادت بھی کی جائے اور اس کے احکامات پر عمل بھی کیا جائے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جو تمہارا بہترین دوست اور مددگار ہو۔جو کل عالم کا، زمین و آسمان کا مالک ہے، بادشاہ بھی ہے جب وہ کسی کا دوست اور مددگار ہو جائے تو پھر اس کو اور کیا چاہئے۔ کیا تم اس کے مقابلے میں جو مالک ارض و سماء ہے دنیا کی عارضی چیزیں اور ادنیٰ خواہشات اور شیطان کا غلط کاموں کے لئے بہکانہ اور اس کی جھولی میں گرنا اختیار کروگے۔ پس اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھاتا ہے کہ مَیں جو مالکِ کُل ہوں مجھے چھوڑ کر تم کن باتوں میں پڑنے کی کوشش کر رہے ہو۔ آج دنیا کے تمام فساد اسی اہم نکتے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں۔ آج اگر دنیا اس حقیقت کو سمجھ لے کہ سوائے ایک خدا کے جو مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے مکمل مالکیت اسی کی ہے، وہی مالک حقیقی ہے، اس کی زمین و آسمان پر بادشاہت قائم ہے تو دنیا کے یہ تمام فتنے اور فساد ختم ہو جائیں۔
پس اگر انسان خداتعالیٰ کی حقیقی مالکیت کو اپنے اوپر تسلیم کر لے تو پھر اس کا خوف بھی پیدا ہو گا۔پھر یہ احساس ہو گا کہ ایک خدا ہے جس کی ہمیں عبادت بھی کرنی ہے، جس کے احکامات پر عمل بھی کرنا ہے کیونکہ جز اسزا کا ہمارے ساتھ سلوک ہونا ہے تو پھر ہی نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ بھی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’یاد رہے کہ مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پرہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے۔(چشمہ ٔ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ23)
پس دنیا میں تو کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے لئے انسان تمام حقوق چھوڑتا ہے۔ بادشاہوں کے مقابل پر بھی رعایا کے کچھ حقوق ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے مقابلے پر کوئی حق نہیں ہے۔ یعنی حق کا مطالبہ کوئی نہیں کر سکتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بعض حقوق خود اپنے پر فرض کر لئے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگربندہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرے، اس کی عبادت کرے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے تو اللہ نے پھر اپنے پر یہ فرض کر لیا ہے کہ اس کو اپنی جنت میں جگہ دے۔ پس حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا، اس کی عبادت کرنا، اس کا شکر گزار ہونا، اس کا خوف رکھنا،صرف اس لئے نہیں کہ اگلے جہان میں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے، وہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جزا سزا کا سلوک کرتا ہے۔ نیک کام کرنے والوں کو نوازتا ہے۔ برائیاں کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔ مختلف طریقوں سے اپنے بندوں کے امتحان لیتا ہے اور اس میں پورا اترنے والوں کو اس کی بہترین جزا دیتا ہے اور جو اس کی مالکیت کی بجائے اپنی مالکیت جتاتے اور اس کے ناشکر گزار بندے بنتے ہیں تو بعض وقت وہ اس دنیا میں ہی ان کو سزا بھی دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل کے تین آدمی تھے۔ ایک کوڑھی، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کے لئے ان کے پاس انسانی شکل میں ایک فرشتہ بھیجا۔
پہلے وہ کوڑھی کے پاس گیا اور اس سے کہا تجھے کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا خوبصورت رنگ، خوبصورت جلد، میری وہ بدصورتی جاتی رہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے۔ اس فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اس کی بیماری جاتی رہی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے تھے اور خوبصورت رنگ اس کو مل گیا۔ پھر فرشتے نے کہا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کا نام لیا۔ اسے اعلیٰ درجہ کی دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں دے دی گئیں۔ فرشتے نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔
پھر وہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا کون سی چیز تجھے پسند ہے؟ اس نے جواب دیا خوبصورت بال اور گنجے پن کی بیماری چلی جائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے۔ فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی اور خوبصورت بال اس کے اُگ آئے۔ پھر فرشتے نے کہا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے کہا گائیں۔ فرشتے نے اس کو گابھن گائیں دے دیں یعنی ایسی گائیں جو بچے دینے والی تھیں اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے۔
پھر وہ اندھے کے پاس گیا اور کہا تجھے کون سی چیز پسند ہے؟ اس نے کہا مَیں چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ میری نظر کو لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نظر واپس دے دی۔ پھر فرشتے نے پوچھا کون سا مال تجھے پسند ہے؟ اس نے جواب دیا بکریاں۔ چنانچہ خوب بچے دینے والی بکریاں اسے دے دی گئیں۔ پس ان تینوں کے پاس اونٹ گائے اور بکریاں خوب پھلی پھولیں۔ جس نے اونٹ مانگے تھے اس کے ہاں اونٹوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اسی طرح گائیوں کے گلوں اور بکریوں کے ریوڑوں سے وادیاں بھر گئیں۔
کچھ مدت کے بعد فرشتہ کوڑھی کے پاس خاص غریبانہ شکل و صورت میں آیا اور کہا مَیں غریب آدمی ہوں میرے تمام ذرائع ختم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ کی مدد کے سوا آج میرا کوئی وسیلہ نہیں جس سے مَیں منزل مقصود تک پہنچ سکوں۔مَیں اس خداتعالیٰ کا واسطہ دے کر ایک اونٹ مانگتا ہوں جس نے تجھ کو خوبصورت رنگ دیا ہے، ملائم جلد دی ہے اور بے شمار مال غنیمت دیا ہے۔ اس پر اس نے کہا مجھ پر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔ مَیں ہر ایک کو کس طرح دے سکتا ہوں۔ انسان نما فرشتے نے کہا۔ توُ وہی کوڑھی غریب اور محتاج نہیں ہے جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے صحت عطا فرمائی اور مال دیا۔ اس پر وہ بولا تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ مال تو مجھے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا ہے یعنی میں خاندانی امیر ہوں۔ اس پر فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔
پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور اس کو بھی وہی کہا جو پہلے کو کہا تھا۔ اس نے بھی وہی جواب دیا جوپہلے نے دیا تھا۔ اس پر فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹ بول رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔ ان دونوں کا حال اس جھوٹ کی وجہ سے اور حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ویسا ہی ہو گیا۔
پھر وہ فرشتہ اسی ہیئت اور صورت میں اندھے کے پاس آیا اور اسے مخاطب کرکے کہا۔مَیں غریب مسافر ہوں سفر کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا منزل مقصود تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ نہیں پاتا۔ تجھ سے مَیں اس خدا کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں جس نے تجھے نظر واپس دے دی اور تجھے مال ودولت سے نوازا۔ اس آدمی نے کہا بے شک میں اندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دیا ہے جتنا چاہو اس مال میں سے لے لو اور جتنا چاہو چھوڑ دو۔ سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے۔ خداتعالیٰ کی قسم آج جو کچھ بھی تم لواس میں سے مَیں کسی قسم کی تکلیف اور تنگی محسوس نہیں کروں گا۔ اس پر اس انسان نما فرشتے نے کہا اپنا مال اپنے پاس رکھو یہ تو تمہاری آزمائش تھی۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے خوش ہے اور تیرے دوسرے ساتھیوں سے ناراض ہے۔ تُو اس کی رحمت کا مستحق ہے اور وہ اس کے غضب کے مورد بن گئے۔
(بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث ابرص… مسلم کتاب الزھد)
تو اللہ تعالیٰ کایہ غضب ان لوگوں پر اس دنیا میں نازل ہو گیا اور جس نے نیکی کی تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اجر عطا فرمایا۔
پس اللہ تعالیٰ کی مالکیت کا تصور ہمیشہ رہنا چاہئے۔ جب وہ اپنے فضل سے دیتا ہے تو ایک مومن کے دل میں ہمیشہ یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لئے میرے پر فرض بنتا ہے کہ اس کی راہ میں جس طرح اس نے حکم دیا ہے خرچ کروں لیکن مال کی محبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا دار ڈرتے ہیں۔یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ مالک ہے جس نے پہلے دیا وہ آئندہ بھی دے سکتا ہے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کی بجائے وہ ڈر کربخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کوجیسا کہ ابھی مثال میں بھی دیکھا اللہ تعالیٰ پکڑتا ہے اور ان کا مال ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَھُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَھُمْ لَھَا مٰلِکُوْنَ (یٰسین:72)

کیا انہوں نے دیکھا نہیں ہم نے اس میں سے جو ہمارے دست قدرت نے بنایا ان کی خاطر مویشی پیدا کئے۔ پس وہ اس کے مالک بن گئے۔ پس یہ جو اللہ تعالیٰ نے انعام دیا ہے اور تمہیں جائیدادوں اور مویشیوں کا مالک بنایا ہے یہ بات شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئے اور ہمیشہ یہ خیال رہے کہ اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہے جس نے مجھے ان چیزوں کا مالک بنایا ہے۔ جس نے دنیا کا یہ عارضی سامان ہمارے سپرد کیا ہے اور اس کی ملکیت ہمیں دی ہے اور ملکیت کی شکر گزاری کا یہ حق ہے جو اس طرح ادا ہو سکتا ہے جس طرح اس اندھے نے ادا کیا، جب یہ صورت ہو تو پھر جو اصل مالک ہے اور تمام قدرتوں کا مالک ہے اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور یہ انعام ایمان پر قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور اس کی عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوتے ہیں۔ ورنہ انفرادی طورپر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بعض اوقات ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی مالکیت کے اظہار کے لئے اوراس کی مالکیت کی صفت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا بھی سکھائی ہے تاکہ ہم ہمیشہ اس کے فضلوں کے حصہ دار بنتے رہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہی

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءوَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءوَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءوَتُزِلُّ مَنْ تَشَآئُ۔ بِیَدِکَ الْخَیْرُ۔اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءقَدِیْرٌ (آل عمران:27)

توُ کہہ دے اے میرے اللہ! سلطنت کے مالک تو جسے چاہے فرمانروائی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے فرمانروائی چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقینا تو ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
پس یہ بات ہمیشہ سامنے رہے اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی نہ کی جائے اس کے حکموں پر عمل نہ کیا جائے تو وہ جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے جس کے سامنے نہ حکومتیں کوئی چیز ہیں، نہ دولتیں کوئی چیز ہیں وہ اگر کمزوروں کا بھی مدد گار بن جائے تو ان کو بھی عزت کے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے اور طاقتوروں اور دولتمندوں کو رسوا اور ذلیل کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی اور قومی طور پر بھی سمیٹنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ سب خیر کا سرچشمہ ہے۔ اس نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ میرے احکامات پر عمل کرو تاکہ میری رضا حاصل کرنے والے بنو۔
اللہ کرے کہ مسلم اُمّہ بھی اس نکتے کو سمجھ لے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے سب سے پہلے مخاطب ہیں تاکہ ان قوموں کے ہاتھوں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مغضوب اور ضال قرار دیا ہوا ہے، گھٹیا سلوک سے بچ جائیں۔ ذلیل و رسوا ہونے کے سلوک سے بچ جائیں۔ ان ظالم لوگوں نے بھی اپنی سزا بھگتنی ہے۔ لیکن اگر زمانے کے امام کو نہ مان کر مسلمان ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوں گے تو ان کوبھی سزا ملتی جائے گی۔ اگر یہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تو اتنی ہی جلدی یہ ذلت اور رسوائی کی مار اُن پر پڑے گی جن کو اللہ تعالیٰ نے مغضوب اور ضال قرار دیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر ہے کہ ان لوگوں میں سے بھی وہی لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچیں گے جن کو اللہ تعالیٰ سیدھا راستہ دکھائے گا۔ پس اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان لوگوں کو سمجھانا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’پانچواں سمندر

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

(کی صفت) ہے اور اس سی

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ(الفاتحۃ:7)

کا جملہ مستفیض ہوتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کے غضب اور اس کے (انسان) کوضلالت اور گمراہی میں چھوڑ دینے کی حقیقت لوگوں پر مکمل طور پر جزا اور سزا کے دن ہی ظاہر ہو گی۔ جس دن اللہ تعالیٰ اپنے غضب اور انعام کے ساتھ جلوہ گر ہو گا اور ان کو اپنی طرف سے ذلّت دے کر یا عزّت دے کر ظاہر کر دے گا۔ اور اس حد تک اپنے آپ کو ظاہر کر دے گا کہ اس طرح کبھی اپنے وجود کو ظاہر نہیں کیا ہو گا۔ اور (خدا کی راہ میں )سبقت لے جانے والے یوں دکھائی دیں گے جیسے میدان میں آگے بڑھا ہوا گھوڑا۔اور گنہگار اپنی کھلی کھلی گمراہی میں نظر آئیں گے اور اُس دن منکروں پر واضح ہو جائے گا کہ وہ درحقیقت غضب الٰہی کے مورد تھے او ر اندھے تھے۔ اور جو اس دنیا میں اندھا رہے گا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ لیکن اس دنیا کی نابینائی مخفی ہے اور جزا سزا کے دن وہ ظاہر ہو جائے گی۔ پس جن لوگوں نے انکار کیا اور ہمارے رسول کی ہدایت اور ہماری کتاب( قرآن کریم) کے نور کی پیروی نہ کی اور اپنے باطل معبودوں کی اتباع کرتے رہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھیں گے اور جہنم کے جوش اور اس کی خوفناک آواز کو سنیں گے اور اپنی گمراہی اور کج روی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔اپنے آپ کو لنگڑے کانے جیسے پائیں گے اور جہنم میں داخل ہوں گے جہاں وہ لمبا عرصہ رہیں گے اور ان کا کوئی شفیع نہیں ہو گا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ (خدا کا) اسم

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

دو پہلوؤں والا ہے۔ وہ جسے چاہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ پس تم دعا کرو کہ وہ ہدایت یافتہ بنا دے‘‘۔ (ترجمہ ازعربی عبارت تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد 1 صفحہ117-116 حاشیہ۔ کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7صفحہ119-118)
پس جہاں اپنے لئے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے، اپنی مالکیت کی حقیقت کی سمجھ عطا فرماتے ہوئے ہمارے سے ایسے اعمال کروا ئے جو ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنائیں۔اس کی سزا سے ہم ہمیشہ بچے رہنے والے ہوں اور وہ اپنی ہدایت کی راہیں ہمیشہ ہمیں دکھاتا رہے، وہاں مسلم اُمّہ کے لئے بھی بالخصوص دعا کریں کہ وہ اپنے مالک حقیقی کی منشاء کو سمجھنے والے ہوں اور زمانے کے حالات کے مطابق اپنی مالکیت کے تحت جو اُس نے یہ امام بھیجا ہے۔ (اللہ جب حالات خراب ہوں تو نبی مبعوث فرماتا ہے یا مصلح بھیجتا ہے۔ یہ بھی اپنی مالکیت کی صفت کے تحت ہی بھیجتا ہے جیسا کہ مَیں نے پیچھے بتایا تھا)۔ اس کو یہ لوگ ماننے والے ہوں اور اس کے مددگار ہو کر دنیا میں اسلام کے غلبہ کی کوشش کریں اور اس روح کے ساتھ اس کے حکموں پر چلنے والے ہوں جس کی وہ توقع رکھتا ہے۔ اور بالعموم دنیا کے لئے بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خدا کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے جو

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن

ہے تاکہ اس کی پکڑ سے بچ سکیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ جو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کی بیوہ تھیں وہ امریکہ میں 13؍مارچ کو وفات پا گئی ہیں۔ ان کا جنازہ یہاں آئے گا اس کے بعد پاکستان لے جایا جائے گا۔ انشاء اللہ۔
یہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے تایا چوہدری غلام حسین صاحب کی بیٹی تھیں۔ شادی سے پہلے بھی ان کا رشتہ تھا۔ وہ بھی بڑے دیندار آدمی تھے۔ امتہ الحفیظ صاحبہ کی پیدائش سے قبل ان کے والد نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی سواری آئی ہے اور ان کے سامنے رکی ہے۔ایک لڑکی باہر آئی ہے اور اس نے السلام علیکم کہا۔ جس پر ان کی پیدائش کے وقت ان کا نام امتہ الحفیظ رکھ دیااور یہ چونکہ جھنگ کے رہنے والے تھے اس لئے وہیں تعلیم حاصل کی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ساتھ نکاح پڑھایا تھا۔ اس کے بعد جب ڈاکٹر صاحب یہاں آ گئے تھے تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہاں رہیں اور UK میں ان کی لجنہ میں کافی لمبا عرصہ خدمات ہیں۔ تقریباً 28سال بحیثیت صدر لجنہUK انہوں نے خدمات انجام دیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ کو آرگنائز کیا۔ عورتوں کی تربیت کے لئے بڑے آرام سے پیار سے سمجھانے والی تھیں۔ بڑی نرم مزاج تھیں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ اسی طرح ان کا خلافت سے بڑا وفا اور اطاعت کاتعلق تھا۔ بڑے نیک جذبات رکھتی تھیں اور بڑی عاجزی سے ملا کرتی تھیں۔ اسی طرح نظام جماعت سے بھی بڑا والہانہ تعلق تھا۔ بڑی سادہ، صبر کرنے والی اور منکسرالمزاج تھیں، بڑی دعا گو تھیں اور ایسے دعا کرنے والے لوگوں میں شامل تھیں جن کو میرا خیال ہے اور میرا ان کے ساتھ چند سال کا تجربہ ہے کہ ان کو دعا کے لئے کہو تو تسلّی ہوتی تھی کہ دعا کے لئے کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے۔ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ انہوں نے اللہ کے فضل سے بچوں کی بھی اچھی تربیت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں