خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍مئی 2008ء

اس سال کے یوم خلافت کی ایک خاص اہمیت تھی۔ یہ ایسا یوم خلافت تھا جو عموماً ایک انسان کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے۔
یہ ایک منفرد اور روحانی تجربہ تھااور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کاایک عظیم اظہار تھا جسے اپنوں نے بھی دیکھااور محسوس کیا اور غیروں نے بھی دیکھا۔
یہ 27؍مئی کا دن جس میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہوئے اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نشان دکھا گیا۔ خدا کرے کہ حقیقت میں ایک انقلاب اس تقریب سے دنیا ئے احمدیت پر آیا ہو اور وہ قائم بھی رہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اپنے دلوں کی پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ قائم رکھنے والے بنے رہیں۔
اس خلافت جوبلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحدت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کا خاصّہ ہے۔ باقی سب انتشار کا شکارہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدرنہیں کریں گے۔
آج جب دنیا لہو ولعب میں مبتلا ہے اور کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت ہی ایک واحد جماعت ہے جو خلافت کے جھنڈے تلے اپنی سمتیں درست کرتی رہتی ہے۔
ایم ٹی اے ان سامانوں میں سے ایک سامان ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے پیغام کودنیا کے کناروں تک پہنچایا اور پہنچا رہاہے۔ ایم ٹی اے کو جہاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ دکھانے کا ذریعہ بنا یاہے وہاں غلبہ عطا فرمانے کے لئے ایک ہتھیار کے طورپر بھی مہیا فرمایاہے۔
اگر خلافت نہ ہو تی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہوتیں، نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتاتھا۔ یہ جو ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایاہے یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ اس لئے اس سے پورافائدہ اٹھانا چاہئے۔
خلافت جوبلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کاحصہ بنالیں۔ مَیں نے عہد لیا تھا اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اٹلی میں جہاں عیسائیت کی خلافت ابھی تک قائم ہے اللہ تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر 27؍ مئی کو جماعت کو ایک قطعہ زمین عطا فرمایاہے جہاں انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک مرکز قائم ہوگا اور ایک مسجد بنے گی جہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان ہوگا انشاء اللہ
پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات کی بنا پر دعاؤں کی تحریک۔ مسلمان ملکوں کے لئے خاص طورپر دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسیح محمدی کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 30؍مئی 2008ء بمطابق30؍ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس ہفتے، چند دن پہلے، 27مئی کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے یوم خلافت منایا۔ جیسا کہ مَیں اپنی تقریر میں بیان کر چکا ہوں اس سال کے یوم خلافت کی ایک خاص اہمیت تھی۔ یہ ایسا یوم خلافت تھا جو عموماً ایک انسان کی زندگی میں ایک دفعہ ہی آتا ہے۔ یا کسی کی بہت لمبی زندگی ہو تو اس کی شعور کی زندگی میں ایک دفعہ آتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص ہی کسی پر احسان ہو اور وہ صحیح طرح پورے شعور کی زندگی میں ہو اور لمبی عمر کے ساتھ اس کے اعضاء بھی اس قابل ہوں اور مضمحل نہ ہوئے ہوں۔ تو بہرحال یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں جماعت احمدیہ کی، نہ صرف یہ جو بہت سارے ایسے احمدی ہیں ان کو خلافت جوبلی دکھائی بلکہ جماعت احمدیہ کی 120سالہ تقریباً زندگی ہے اس پر تسلسل کے ساتھ جماعت کی دو مختلف جوبلیاں دیکھنے کا موقع فراہم فرمایا۔ اور اس حوالے سے ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اور احسان کے جذبات سے لبریز ہے۔ جماعت احمدیہ کی بنیاد کی پہلی صدی 1989ء میں آج سے اُنّیس(19) سال پہلے ہم نے منائی۔ اس سال ہم نے جیسا کہ ہم سارے جانتے ہیں خلافت احمدیہ کے حوالے سے، اس کے قیام کے حوالے سے، سو سالہ تقریب اظہا ر تشکر کے طورپر 27؍مئی کو منائی اور دنیاکی مختلف جماعتوں میں منا رہے ہیں۔ اس وقت بہت سے بچے ایسے ہوں گے اور نئے آنے والے بھی جو 1989ء میں پیدا نہیں ہوئے، اس کے بعد پیدا ہوئے یا شعور کی زندگی نہیں تھی یا بعد میں جماعت میں شامل ہوئے۔ انہیں اس جوبلی کا تو پتہ نہیں لیکن یہ جوبلی جو ایسے لوگوں نے اپنے ہوش و حواس میں منائی یا دیکھی اس نے انہیں یقینا ایک منفرد تجربہ سے گزارا ہو گا اور گزر رہے ہوں گے اور گزرے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ہر ایک نے اپنے پروگرام بھی کئے اور کر رہے ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے مرکزی پروگرام میں بھی شامل ہوئے۔
مقامی جماعتوں کے پروگرام اپنے اپنے حالات کے مطابق شاید سارا سال چلتے رہیں۔ لیکن یہاں کا مرکزی پروگرام وہ تھا جب Excel سنٹر میں مرکزی جلسہ ہوااور اس میں تقریبا ً 19-18ہزار کی حاضری تھی اور دنیا کے مختلف ممالک کی نمائندگی بھی ہو گئی جس میں قادیان اورربوہ، ان دونوں بستیوں کے جلسہ سننے والوں کے نظارے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں دکھائے گئے اس نے بھی لوگوں کے دلوں پر ایک خاص قسم کا اثر چھوڑا ہے۔ اس بارے میں مجھے احباب و خواتین کے جو دلی تاثرات ہیں ان کے خطوط اور فیکسز بھی آنے شروع ہو گئے ہیں۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص کیفیت میں اُس دن نہ صرف اُس ہا ل میں موجود میرے سامنے بیٹھنے والے لوگوں کو لے لیا تھا بلکہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی احمدی یہ جلسہ سن رہے تھے خواہ جماعتی انتظام کے تحت یا انفرادی طورپر اپنے گھروں میں یا اپنے خاندانوں میں جو بھی کارروائی سن رہے اور دیکھ رہے تھے جن کو بھی موقع مل رہا تھا سب اس خاص ماحول اور کیفیت سے حصہ لے رہے تھے۔ گویا خداتعالیٰ نے تمام دنیا میں رہنے والے ہر ملک اور قوم کے احمدی کو ایک ایسے تجربے سے گزارا جو انہیں وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ یہ ایک منفرد اور روحانی تجربہ تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا ایک عظیم اظہار تھاجسے اپنوں نے بھی دیکھا اور محسوس کیا اور غیروں نے بھی دیکھا۔
27مئی کایہ دن جس میں خلافت احمدیہ کے 100سال پورے ہوئے اپنوں اور غیروں کو اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نشان دکھا گیا۔ وہاں بیٹھے ہوئے احمدی مرد اور خواتین اور بچے سب اس کیفیت میں تھے کہ جو بھی مجھے ملے اس نے یہی کہا کہ ہمارے ایمان اس تقریب نے تازہ کر دئیے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا باہر کی دنیا کے احمدیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ہر جگہ سے بے انتہاء خلافت سے محبت اور عقیدت اور اپنے ایمان میں مضبوطی کا اظہار ہو رہا ہے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ مَیں آج نئے سرے سے احمدی ہوا ہوں۔ کئی ایسے جو بعض شکوک میں مبتلا تھے گو انہوں نے بیعت تو کر لی تھی خلافت خامسہ کی لیکن ان کے دل اس بات پر راضی نہیں تھے انہوں نے لکھا کہ ہم نے خداتعالیٰ کے حضور استغفار بھی کی اور آپ سے بھی عہد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریر کی برکت سے ہمارے دلوں کو صاف کیا ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ دھو کر چمکا دیا ہے۔ اس کے بعد ہم اب خلافت احمدیہ کے لئے ہر قربانی کے لئے سچے دل سے تیار رہیں گے اور اپنی نسلوں میں بھی وہ روح پھونکنے کی کوشش کریں گے جو ہمیشہ ان کو خلافت کے فیض سے فیضیاب ہونے والا رکھے۔
ایک لکھنے والے نے لکھا کہ اگر مُردوں کو زندہ کرنے کا ذریعہ کوئی تقریب بن سکتی ہے تو وہ یہ تقریب اور آپ کا خطاب تھا۔ خدا کرے کہ حقیقت میں ایک انقلاب اس تقریب سے دنیائے احمدیت پر آیا ہو اور وہ قائم بھی رہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اپنے دلوں کی پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ قائم رکھنے والے بنے رہیں۔ اس وقت وہاں ارد گرد کے ماحول میں ایکسیل(Excel) سنٹر کے مقامی لوگ بھی حیرت سے لوگوں کو جمع ہوتے اور ایک عجیب کیفیت میں دیکھ کر حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ عموماً تو یہ تاثر ہے کہ مسلمان ڈسپلنڈ (Disceplend) نہیں ہوتے، عجیب و غریب ان کی روایات ہیں۔ یہی مغرب میں تاثر دیا گیا ہے۔ لیکن اُس وقت ان کی حالت عجیب تھی اور یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ تو عجیب قسم کے لوگ ہیں جو لگتے تو مسلمان ہیں لیکن ان میں ایک طرح کی تنظیم ہے۔ ایشیائی اکثریت ہونے کے باوجود ان میں مختلف قومیتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اورہر بچے، جوان، مرد، عورت اور مختلف قوموں کے لوگوں کا رخ جو ہے ایک طرف ہے۔ خلافت سے محبت اور عقیدت جو ان کے دلوں میں ہے اس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی ظاہرو عیاں ہے بلکہ جسم کے ہر عضو سے ہو رہا ہے۔
Excel سنٹر کی ایک سییکورٹی خاتون کارکن جو وہاں تھیں، انہوں نے ہماری خواتین کو کہا کہ یہ ایسا نظارہ ہے جو میرے لئے بالکل نیا ہے، بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور اس کو دیکھ کر آج مجھے پتہ چلا کہ اسلام کیا ہے۔ مَیں تو اس نظارے کو دیکھ کر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ بہرحال ان لوگوں میں توعارضی کیفیت فوری ردّ عمل کے طور پیدا ہوتی ہے، اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں لیکن دعاہے کہ اس خاتون اور اس جیسے بہت سوں کے دلوں میں یہ نظارہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ ہمارا مقصد اور مدعا تو یہی ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔ چاہے جس ڈھب سے بھی کوئی سمجھے یا کسی بات سے بھی کوئی سمجھے۔ پس اس خلافت جوبلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحد ت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کا خاصّہ ہے۔ آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے۔ باقی سب انتشار کا شکار ہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک کہ وہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو نہیں مانیں گے کہ جب میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو تو اس کومیرا سلام پہنچاؤ۔
مسلمانوں کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غیر مذاہب کی خداتعالیٰ سے دُوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ شیطان کی گود میں جا پڑے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول چکے ہیں۔ اس مقصد کو بھول چکے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ اب تو اس کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں رہا کہ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔
پس آج اگر کوئی جماعت ہے تو یہ مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت ہے جو اس مقصد کو جانتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عروۂ وُثقٰی کو پکڑا ہوا ہے جس سے ان کے صحیح راستوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ اس مضبوط کڑے کو پکڑا ہوا ہے جس کے نہ ٹوٹنے کی ضمانت خود خداتعالیٰ نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے آج اپنے فضل سے احمدیوں کو اس برتن کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑایا ہوا ہے جس میں مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تازہ بتازہ روحانی پانی بھر دیا ہے۔ وہ زندگی بخش پانی جس کو پینے سے روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ایک مومن طے کر سکتا ہے۔ پھر اس مضبوط کڑے کو پکڑنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس پکڑے رہنے والوں کے ایمان ہمیشہ سلامت رہیں گے۔ مسیح محمدی کی غلامی میں آکر اس سے عہد بیعت باندھنے والے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایمان میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے۔ ہر حالت میں ہرمخالفت کے دور میں اس کڑے کے پکڑے رہنے والوں کے ایمان محفوظ رہیں گے۔ اس کڑے سے چمٹنے والا مومن اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کڑے کو نہیں چھوڑتا جس کے چھوڑنے سے اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔
چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مخالفت کی آندھیاں حقیقی مومنین کو ان کے ایمان کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں۔ ماؤں کے سامنے بیٹے قتل کئے گئے، بیٹوں کے سامنے باپوں کو آہستہ آہستہ اذیت دے کر ماراگیا، شہید کیا گیا، باپوں کے سامنے بیٹوں کو شہید کیاگیا۔ پھر احمدیت کو چھوڑنے کے لئے انتہائی اذیت سے کئی احمدیوں کو گزرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ ٹارچر دے کر مارا گیا۔ اوریہ دُور کے واقعات نہیں ہیں۔ اس سال بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن جس ایمان پر وہ قائم ہو چکے تھے یہ اذیتیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں لا سکیں۔
پس آج جب ہم جوبلی کی خوشی منا رہے ہیں تو دراصل یہ خوشی خلافت کے سو سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی خوشی ہے اور اس سو سال میں جو لہلہاتے باغ اس انعام سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے، اس کی خوشی میں ہے۔ ان لہلہاتے باغوں کو دیکھ کر جب ہم خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں تو ان شہدائے احمدیت کو بھی یاد رکھیں اور ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے اپنے خون سے ان باغوں کو سینچا ہے۔ اپنے ایمان کی مضبوطی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو تاریخ کے سنہری باب ہیں۔
عُرْوَہکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا سبزہ زار جو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے۔ بارش کی کمی بھی اس پر کبھی خشکی نہیں آنے دیتی۔ پس یہ ایسا سبزہ زار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان کی وجہ سے جماعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا کیا ہے جو ہمیشہ سر سبز رہنے کے لئے ہے۔ جس کو شبنم کی نمی بھی لہلہاتی کھیتیوں میں اور سرسبز باغات کی شکل میں قائم رکھتی ہے۔ پس اس عُروَۂ وثقیٰ کو پکڑے رہیں گے تو انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ جس نے شیطان کی باتوں کا انکار کیا اور ایمان پر قائم رہا تو فرمایا کہ

فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا (بقرہ:257)

یعنی ایک نہایت قابل اعتماد مضبوط چیز کو مضبوطی سے پکڑلیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور پھر آخر پر فرمایا

وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (بقرہ:257)

اللہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ پس جو لوگ دلوں کی صفائی کے ساتھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے چمٹے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس سے اِس مضبوط کڑے سے چمٹے رہنے کے لئے دعائیں مانگتے رہیں گے تو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ بہت دعائیں سننے والا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کا حال بھی جانتا ہے۔ وہ نیک نیتی سے کی گئیں دعاؤں اور کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمارے دل بھی ایمان سے لبریز رہیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعام سے فیضیاب بھی ہوتے رہیں گے۔ ہمارا ایمان بھی، ہم میں سے ہر ایک کا ایمان بھی مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جائے گا اور معمولی کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے نیک نیت ہونے کی وجہ سے ہم میں بھی اور ہماری نسلوں میں بھی ایسا ایمان پیدا کرتا چلا جائے گا جس سے ہماری نسلیں بھی اور ہم بھی لہلہاتی فصلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
پس آج خلافت کے سو سال پورے ہونے پر ہم جو نظارے دیکھ رہے ہیں، ایمانوں کو تازہ کر رہے ہیں، جماعت کی وحدت اور ترقی کی ہری بھری فصلیں ہمیں نظر آرہی ہیں۔ غیروں کو بھی عجیب سا لگ رہا ہے اور بعض حاسدوں کو حسد میں بڑھا بھی رہا ہے، جیسا کہ پاکستان کے حالات ہیں۔ یہ بھی اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعو علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے اور خلافت سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر ہمارے نبی ﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ 469-468)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی اور اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ بھی ہر احمدی کو حقیقت میں چمٹائے رکھے۔ اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والا بنائے رکھے۔ اور خلافت احمدیہ کی حفاظت کے لئے قربانی کے عہد کو پورا کرنے والا بنائے رکھے۔ اور آج ہم نے جو نظارے دیکھے، جو ایک اکائی دیکھی، جوو حدت دیکھی، خلافت سے محبت و وفا کے جذبات کا اظہار و یکجہتی جو غیروں کے لئے ایک متاثر کرنے والی چیز اور ایک معجزہ تھااسے قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکنے والے بنے رہیں تاکہ اس شکرگزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے انعاموں کو ہم میں سے ہر ایک کے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے بھی دائمی کر دے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مومنین سے وعدہ ہے کہ اگر تم شکر گزار بنو گے تو مَیں اپنے انعام مزید بڑھاؤں گا۔ تمہارے ایمانوں کو مزید ترقی دوں گا۔ نَتِیْجَۃً تم میرے فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ گے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم:8)

یعنی اور جب تمہارے ربّ نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر گزار بنے تومیں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔
آج ان دنوں مَیں جب اپنی ڈاک دیکھتا ہوں تو دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں۔ اس کے انعامات کی بارش اس طرح جماعت پر ہو رہی ہے کہ اس کے مقابل پر اگر جسم کا رُؤاں رُؤاں بھی شکر گزار ہو جائے تو شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت کس طرح اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر جو خلافت کی صورت میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو دیا ہے شکر گزار بنتی ہے۔ اتنے زیادہ شکرگزاری کے خطوط آرہے ہیں کہ مَیں بغیر کسی شک کے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہی ایسے افراد ہیں جو شکر گزاری میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں۔ اور جب تک ایسے شکر گزاری کے جذبے بڑھتے چلے جائیں گے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہم بنتے چلے جائیں گے اور ہماری نسلیں بھی بنتی چلی جائیں گی۔
پس اس شکر گزاری کے جذبے کو کبھی ماند نہ پڑنے دیں کہ یہی شکر گزاری ہے جو ہمارے لئے نئے سے نئے سرسبز باغوں کو لگاتی چلی جائے گی اور ہمارے ایمانوں میں ترقی کا باعث بنے گی۔ آج جب دنیا لہوو لعب میں مبتلا ہے اور کوئی ان کی راہنمائی کرنے والا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ایک واحد جماعت ہے جو خلافت کے جھنڈے تلے اپنی سمتیں درست کرتی رہتی ہے۔ یہ یقینا ایسا انعام ہے جس کے شکر کا حق تو ادا نہیں ہوسکتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم شکر ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہوں گے صرف زبانی نہیں بلکہ عملوں کی درستگی کی کوشش کی صورت میں تو تب بھی مَیں اپنے انعامات سے تمہیں نوازتا رہوں گا۔
پس اس کے لئے دعا بھی کرتے رہیں۔ آپ میرے لئے دعا کریں اور مَیں آپ کے لئے دعا کروں تاکہ یہ شکرگزاری کے جذبات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کبھی ختم نہ ہوں اور ہر آن اور ہر لمحہ بڑھتے چلے جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بے شمار فیکسیں اور خطوط بچوں، بہنوں اور بھائیوں کے آرہے ہیں۔ مَیں کوشش تو کرتا ہوں کہ ان شکر گزاری اور اخلاص سے بھرے ہوئے خطوط کا جواب دوں اور جلدی جواب دوں لیکن دیر ہو سکتی ہے کیونکہ آج کل مصروفیت ہے کچھ دَوروں کی تیاری کی وجہ سے بھی۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اور دوبارہ کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ایمان اور اخلاص کو بڑھائے۔ ایسے ایسے خط ہیں کہ مَیں جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہوں۔ کیسے کیسے حسین خوبصورت پھول اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چمن میں کھلائے ہوئے ہیں جن کی خوبصورتی کا بیان بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان اور اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں میں سے ایک انعام اس زمانے کی ایجاد سیٹلائٹ ٹیلی ویژن بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا ہے۔ اس کے بارہ میں مَیں کچھ بتانا چاہتاہوں۔ اس میں بہت سارے ہمارے والنٹیئرز بھی کام کرتے ہیں اور بڑی محنت سے کام کرتے ہیں۔ بہت تھوڑے ہیں جوPaid ملازمین ہیں۔ اکثر اپنا وقت بغیر کسی معاوضے کے دیتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ تمام پروگرام دنیا دیکھتی بھی ہے۔ اس کو کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایسا کام کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دکھا سکیں اور اس وحدت کے نظارے دکھا سکیں جو اللہ تعالیٰ نے انعام کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو دنیا تک پہنچا سکیں۔ تاکہ سعید روحوں کو اس طرف توجہ پیدا ہو تو حق کو پہچان سکیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہامات کے ذریعہ جماعت کی ترقی کی خبریں دیں اور آپؑ کو یقین سے پُر فرمایا کہ یقینا آپؑ کا غلبہ ہونا ہے، جماعت کا غلبہ ہے۔ جیسا کہ بے شمار الہامات اس بار ہ میں ہیں۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ:22)

یہ آپؑ کو الہام بھی ہوا تھا آیت بھی ہے۔ تو آپؑ نے اس کا یہی ترجمہ فرمایا کہ خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کا رسول غالب رہیں گے۔ یہاں اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی طرف بھی۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسلام کی ترقی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وابستہ ہے۔ ۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو غلبہ عطافرمانا ہے۔ لیکن اس کے لئے دنیاوی سامان بھی ہوتے ہیں اور یہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے اور فرماتا رہا ہے اور اب بھی فرما رہا ہے۔ آپؑ نے اپنے زمانے میں جو کتب لکھیں اور ان کی اشاعت کی، بلکہ ایک خزانہ تھا جو کہ دیا اور دنیا کے سامنے پیش فرمایا وہ بھی اس غلبہ کے لئے ایک ذریعہ تھا۔ اور اب اس زمانہ میں اس خزانے کو ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا تک پہنچانے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں۔ پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جماعت کی ترقی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق جاری کردہ آپؑ کی خلافت کے نظام کی برکات ہیں، ان کو دکھانے کا ذریعہ بھی ایم ٹی اے کو بنایا۔ پس
ایم ٹی اے ان سامانوں میں سے ایک سامان ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا اور پہنچا رہا ہے اور اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ اس زمانے کی ایجادات کا اگر صحیح استعمال ہورہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہو رہا ہے۔
اِس وقت ایم ٹی اے کے تین چینلز نہ صرف اپنوں کی تربیت کا کام کر رہے ہیں بلکہ مخالفین اسلام کا ان دلائل سے منہ بند کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے۔ پس ایم ٹی اے کو جہاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ دکھانے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں غلبہ عطا فرمانے کے لئے ایک ہتھیار کے طورپر بھی مہیا فرمایا ہے۔ جو اُن مقاصد کو لے کر ہر گھر میں داخل ہو رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا مقصد تھے۔ یعنی وہ کام جو آپؑ کے آقاو مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کئے تھے اور اس زمانے میں وہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد تھے۔ گویا اُن کاموں کو آگے چلاتے چلے جانا آپؑ کے سپرد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے سپرد فرمائے تھے۔ جس میں معجزات دکھانا بھی تھا۔ جس میں دلوں کا تزکیہ بھی تھا۔ جس میں قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانا بھی ہے۔ جس میں انسانیت میں حکمت کے موتی بکھیرنا بھی ہے۔ اور اگر آج ہم دیکھیں تو اس زمانے میں اس زمانے کی ایجادوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے باوجود اسلامی ملکوں کے چینلوں کے اور اس کے علاوہ بعض اسلامی تنظیموں کے چینلوں کے یہ صرف اور صرف ایم ٹی اے ہے جو ان تمام کاموں کو انجام دے رہا ہے۔ اگر غور سے انہیں سنیں تو یہ چاروں باتیں آپ کو نظر نہیں آئیں گی۔ اگر ایک بات صحیح کرتے ہیں تو دوسری جگہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات کر جاتے ہیں جس سے کوئی عقلمند انسان اسلام کا صحیح تصور قائم نہیں کر سکتا۔ پھر دنیا کے دوسرے ٹی وی چینل ہیں ان کا اشتہاروں کے بغیر چلنا مشکل ہے جس میں لغویات اور بے ہودگیاں ہیں۔ اسلامی ملکوں کے چینلز کا بھی یہی حال ہے کہ تفریح کے نام پر پروگرام بھی لغو اور بے ہودہ ہیں۔ پس آج ایک ہی چینل ہے جو مسیح محمدی کے غلاموں کا ہے جو انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کر رہا ہے۔ اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے۔ تو اس طرف بھی احمدیوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے کہ اپنی تربیت کے لئے بھی اور اس لئے بھی کہ آخر بڑی محنت سے یہ چینلز چل رہے ہیں، ان کو باقاعدہ دیکھا کریں، سنا کریں۔ خاص طور پر خطبات اورجو دوسرے عام تربیتی پروگرام ہیں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات اس طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں انعامات دئیے ہیں ان کا شکر ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کے انعام کا شکر ادا کریں جو خلافت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو اپنے وعدوں کے مطابق عطا فرمایا ہے۔ اور یہ پیغام ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں پہنچتا ہے۔ یہ بھی بات واضح ہونی چاہئے کہ اگر خلافت نہ ہوتی تو جتنی چاہے نیک نیتی سے کوششیں ہوتیں نہ کسی انجمن سے اور نہ کسی ادارے سے یہ چینل اس طرح چل سکتا تھا۔ تو یہ جو ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے یہ بھی خلافت کی برکات میں سے ایک برکت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ اس لئے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان باتوں کا جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہ خلافت کے بغیر نہیں چل سکتی تھیں۔ اس لئے کیا ہے کہ ہر ایک کو یہ احساس پیدا ہوتا رہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے جو جو نظام بھی جاری فرمایا اس کو خلافت کے انعام سے باندھا ہے۔ پس ہمیشہ اس کی قدر کرتے رہیں۔
اس خلافت جوبلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو، بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ مَیں نے جو عہد لیا تھا اس عہد کا بھی بڑا اثر ہوا ہے۔ ہر ایک پر یہ اثر ظاہر ہو رہا ہے۔ اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جوعہد کرواسے پورا کروکیونکہ تمہارے عہدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔
پس آج جب کہ یہ بات ابھی آپ کے ذہنوں میں تاز ہ ہے، مَیں اس بات کو اس لئے دہرا رہا ہوں کہ اس بات کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور یہ عہد آپ میں مزید مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے۔ یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی عہد بھی، کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ کئیوں کو احساس بھی ہے۔ خطوط میں بھی لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے توعہد کیا ہے اب ہم انشاء اللہ اس پر عمل کریں گے، کار بند رہیں گے۔ لیکن یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اس کے فضلوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے طریقہ بتایا ہے اس پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار پہلے سے بڑھائیں۔ اس میں بڑھیں۔ نیکیوں میں پہلے سے بڑھیں اور اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ نیکیوں میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے۔ خلافت کی اطاعت میں نظام جماعت کی اطاعت بھی ایک اہم بات ہے۔ اس کے بغیر نہ نیکیاں ہیں اور نہ عہد کی پابندی ہے۔ نظام جماعت بھی خلافت کو قائم کرتا ہے اس لئے اس کی پابندی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوتا چلا جائے۔
27مئی کو اللہ تعالیٰ نے ایک یہ خوشخبری بھی ہمیں دی۔ بڑی دیر سے اٹلی (Italy)میں مشن و مسجد کے لئے کوشش ہو رہی تھی اس کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ تو اب عین 27مئی کو کو نسل نے بُلا کے ایک ٹکڑہ زمین کا اس مقصد کے لئے دیا ہے۔ سودا ہو گیا ہے۔ اس ملک میں جہاں عیسائیت کی خلافت اب تک قائم ہے اللہ تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر ایک ایسی جگہ عطا فرمائی ہے جہاں انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے غلاموں کا ایک مرکز قائم ہو گا اور ایک مسجد بنے گی جہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان ہو گا۔ انشاء اللہ۔
اسی طرح ہمارا یہ جو فنکشن تھا جویہاں ہوا، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ باوجود مولویوں کے شور کے پاکستان میں بھی جماعتوں نے اس میں شمولیت اختیار کی اور اپنے طور پر بھی جو ان کے پروگرام تھے وہ پورے کئے۔ گو کہ اس کے بعد آج یا کل پابندی لگ گئی۔ لیکن جماعت کو وہاں اُس طرح سے محرومی کا وہ احساس نہیں رہا جس طرح 1989ء میں صد سالہ جوبلی پر ہوا تھا کہ ساری تیاریوں کے باوجود حکومت کی طرف سے ایک آرڈیننس آیا تھا جس کے تحت جماعت احمدیہ کسی بھی قسم کا خوشی کا پروگرام نہیں کر سکتی تھی۔ نہ ہی بچوں میں ارد گرد مٹھائی اور ٹافیاں تقسیم کر سکتی تھی۔ یہ حال تھا اس ملک کا اور ہے اور اس وقت فکر یہی تھی کہ کیونکہ اب بھی پنجاب میں وہی حکومت تھی جو اس زمانے میں تھی۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ دورگزر گیا اور 27مئی کا جلسہ بھی جس طرح منانا تھا منایا، دوسرے فنکشن بھی کئے۔ کھانے اور مٹھائی وغیرہ بھی تقسیم کرنی تھی وہ بھی ہو گئی۔ حال ان کا یہ ہے، ان مولویوں کی عقل کا تو یہ حال ہے کہ یہ کیونکہ خاموشی سے ہو گیا تھا زیادہ شور نہیں تھا اس لئے بعضوں کو پتہ بھی نہیں لگا اور ان کا خیال تھا کہ شاید حکومت نے روک دیا ہے۔ یا حکومت کی طرف سے اعلان بھی اخباروں میں آگئے لیکن اتنی سختی نہیں ہوئی۔ بہرحال مولویوں نے یہ بیان دئیے کہ قادیانیوں کو یہ فنکشن نہیں کرنے دیا گیا اور بچوں کو مٹھائی تقسیم نہیں کرنے دی گئی اور خوشی نہیں منانے دی گئی تو یہ حکومت نے بہت اہم کام سرانجام دیا ہے اور اُمّت مسلمہ کو اس بات سے تباہی سے بچا لیاہے۔ اُمّت مسلمہ کی تباہی صرف بچوں کو مٹھائی کھلانے سے ہونی تھی۔ یہ تو ان کی عقلوں کا حال ہے اور نہیں جانتے کہ اس وجہ سے خود تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان کے لئے بھی دعا کریں۔ ان مُلّاؤں کو تو شاید عقل نہیں آنی لیکن جو عوام ہیں ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستے پر چلائے۔ سیاستدان جو وہاں کے ہیں وہ صرف اپنی خود غرضیوں میں نہ پڑے رہیں بلکہ حکومت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ غریبوں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ خزانہ خالی ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ قدم قدم پر رشوت لی جاتی ہے۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں اُس کی کوئی پرواہ نہیں۔ صرف اپنی کرسیوں کی آج کل ان کو پرواہ پڑی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عوام پر بھی رحم کرے۔ تو جہاں ہم خوشی مناتے ہیں دنیا کے دوسرے احمدی بھی خوشی منارہے ہیں، خلافت جوبلی بھی منارہے ہیں، شکرانے کے طورپر دوسرے پروگرام کررہے ہیں، پاکستان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان غریبوں کی حالت بھی سنوارے۔ اگر حکمران ظالم ہیں تو ان سے بھی نجات دلائے اور ان کو صحیح راستے پر چلائے۔ مسلمان ملکوں کے لئے خاص طورپر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو مسیح محمدی کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور عمومًا دنیا کے لئے بھی دعا کریں کہ جس طرح و ہ تباہی کی طرف جا رہی ہے اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں سے انہیں محفوظ رکھے اور حقیقت پہچاننے کی توفیق دے تاکہ دنیا ایسے نظارے دیکھے جہاں صرف اور صرف خدا کی حکومت ہو اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا لہراتا ہو۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں