خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 14؍ جنوری 2005ء

اگر تم نمازوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو گئے تو دنیا کی بے حیائی اور لغوباتوں سے بچ کے رہو گے۔
اگر عبادتوں کا حق اداکرتے ہوئے پھر کاروباربھی کریں گے تو اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالے گا ورنہ بے برکتی ہی رہے گی۔
سپین میں ویلنسیا کے مقام پر ایک اور مسجد بنانے کی عظیم الشان تحریک
اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد کے روشن مینار اور جگہوں پر بھی نظر آئیں۔
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
14؍ جنوری 2005ء بمطابق14؍صلح 1384ہجری شمسی بمقام مسجد بشارت۔پیدروآباد (سپین)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ:22)

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پریہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی عبادت کی طرف توجہ دلا کر شیطان کے پنجے سے بچنے اور رہائی دلانے کے سامان مہیا فرما دئیے اور قرآن کریم میں ہمیں مختلف طریقوں سے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! تم عبادت کرو اپنے رب کی، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ یعنی تمہیں پیدا کرنے والی وہ ہستی ہے جو تمہارا رب ہے۔ تمہیں پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ تمہاری پیدائش کے ساتھ تمہاری پرورش کے بھی سامان پیدا فرمائے۔ تمہاری خوراک کے لئے تمہارے دودھ کا انتظام کیا۔ موسم کی سختیوں سے بچانے کے لئے تمہارے لئے لباس کا انتظام کیا۔تمہاری نگہداشت کے لئے تمہاری ماں کے دل میں تمہارے لئے وہ محبت پیدا کی جس کی مثال نہیں۔ وہ کسی اجر کے بغیر تمہاری اس وقت خدمت کرتی ہے جب تم کسی قابل نہیں تھے۔ تو یہ سب انتظامات اس خدا کی مرضی سے ہی ہو رہے ہیں جو تمہارا رب ہے۔ اور جب تم ایسے حالات میں پہنچ گئے تمہارے اعضاء مضبوط ہو گئے تو اب بھی وہی ہے جو تمہاری ضروریات پوری کر رہا ہے تو یہ تمہارا پیدا کرنے والا، تمہارا پالنے والا، تمہارا مالک اس بات کا حق دار ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، شکر گزار بندے بنو۔ اس نے جو نعمتیں تم پر اتاری ہیں ان کویاد کرکے اس کے آگے جھکو اور یہی ایک انسان کی بندگی کی معراج ہے۔
پس یاد رکھو کہ تمام مخلوق اس کی پیدا کردہ ہے۔ تمام انسان اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اس لئے ہر انسان جو ناشکرا کہلانا پسند نہیں کرتا، جو شیطان کا چیلا کہلانا پسند نہیں کرتا، اس کا کام ہے کہ تقویٰ سے کام لے۔ اس کی خشیت، اس کی محبت، اس کے پیار کو دل میں جگہ دے اور اس کی عبادت کرے۔ اس کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرے۔ تو تبھی ایک خدا کا بندہ کہلانے والا، اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنے والا کہلا سکتا ہے۔ پس ایک احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ مَیں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو سچا ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خبروں کو پورا ہوتے دیکھ کر مسیح موعود کو مانا ہے۔ اُس احمدی کا دوسروں کی نسبت زیادہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی بھی قدر کرتے ہوئے، اپنے رب کے آگے دوسروں سے زیادہ جھکے اور اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچا کرتا چلا جائے۔ اگر کاموں کی زیادتی یا دوسری مصروفیات نے اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے میں روک ڈال دی تو پھر احمدی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو گا کہ اس نے اللہ کو، اللہ کے وعدوں کو پورا ہونے سے پہچانا۔ سچی پہچان کو تو اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کر دینا چاہئے تھا۔ اس کو نمازوں میں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم یقینا میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا، اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا کہ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔ اے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کر کہ مَیں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں۔ آپؐ نے یہ فرمایا کہ جو مجھے محبت تم سے ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مَیں تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور عبادت گزار بندہ دیکھوں۔(سنن ابی داؤدکتاب الصلوٰۃ باب فی الاستغفار)
پس ہر احمدی کو بھی جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہے اس کو بھی یہ ذکر، شکر اور عبادتوں کے طریق اپنانے ہوں گے۔ اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دینی ہو گی، نمازیں پڑھنی ہوں گی۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے، تبھی وہ شکر گزاربندہ بن سکتا ہے۔
عبادت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے۔ انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ اور سو لے مگر وہ مخالفت نفس کرکے مسجد چلا جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے۔ اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی محدود ہوتا ہے، ورنہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو پھر ثواب نہیں۔ عبدالقادر جیلانی
رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب نفس مطمئنہ ہو گیا تو ثواب کیسے رہا۔ نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا، وہ اب رہی نہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 553-552جدید ایڈیشن)
تو یہ جبر کرکے بستر سے اٹھنا اور مسجد باجماعت نماز کے لئے جانا، اپنے کام کا حرج کرکے نمازوں کی طرف توجہ کرنا۔ یہی چیز ہے جو ثواب کمانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انسان کو خدا کے ساتھ اس حد تک تعلق ہو جائے کہ دنیا کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہ رہے تو پھر ثواب نہیں رہتا پھر تو یہ ایک معمول بن جاتا ہے، ایک غذا ہے۔
پھر جوانی کی عمر کی عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ اگر اُس نے یہ زمانہ خدا کی بندگی، اپنے نفس کی آراستگی اور خدا کی اطاعت میں گزارا ہو گا تو اس کا اسے یہ پھل ملے گا کہ پیرانہ سالی میں جبکہ وہ کسی قسم کی عبادت وغیرہ کے قابل نہ رہے گا اور کسل اور کاہلی اسے لاحق حال ہو جاوے گی تو فرشتے اس کے نامہ اعمال میں وہی نماز روزہ تہجد وغیرہ لکھتے رہیں گے جو کہ وہ جوانی کے ایام میں بجا لاتا تھا۔ اور یہ خداتعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ اس کی ذات پاک اپنے بندے کو معذور جان کر باوجود اس کے کہ وہ عمل بجا نہیں لاتا۔پھر بھی وہی اعمال اس کے نام درج ہوتے رہتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 199حاشیہ۔جدید ایڈیشن)
پس ہر احمدی کو صحت کی حالت میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرے اور نہ صرف باقاعدگی اختیار کرے بلکہ باجماعت نمازوں کی طرف بھی توجہ دے۔ اسے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بڑھاپے میں جب انسان کمزورہو جاتا ہے، اس طرح محنت نہیں کر سکتا جس طرح جوانی میں کر سکتا ہے کیونکہ نمازیں بھی ایک طرح کی محنت چاہتی ہیں۔ ان کی ادائیگی بھی جو نمازیں ادا کرنے کا حق ہے اس محنت سے مشکل ہو جاتی ہے جس طرح جوانی میں ادا کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کیونکہ اپنے بندوں پر بخشش اور رحم کی نظر رکھنے والا ہے اس لئے وہ بڑھاپے اور کمزوری کے وقت کی جو کم عبادتیں ہیں ان کو بھی جوانی میں کی گئی عبادتوں کے ذریعے پورا کر دیتا ہے۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کو نوازنے کے طریقے۔ پس ہر وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا چاہتا ہے، اس کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو پاک رکھنا چاہتا ہے، شیطان کے حملوں سے بچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی طرف توجہ دے۔ اور اس کے لئے سب سے ضروری چیز نماز باجماعت کی ادائیگی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآء وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (العنکبوت:46)

کہ تُوکتاب میں سے جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر یقینا نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر یقینا سب ذکروں سے بڑا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ تو نماز قائم کرنے سے مراد ایک تو باجماعت نمازوں کی ادائیگی ہے اور خاص طور پر ان نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی دلائی ہے۔ ایک اور جگہ ایک اور آیت میں بھی توجہ دلائی گئی ہے یہاں بھی اس سے مراد یہی ہے کہ تمہاری سستی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے وقت پر اور باجماعت نمازیں ادا نہیں کی جا رہیں، ان کو ادا کرو، نماز قائم کرو، باجماعت ادا کرو۔ تو یاد رکھو کہ اگر تم نمازوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو گئے تو دنیا کی بے حیائی اور لغو باتوں سے جن میں آج کل کی دنیا پڑی ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس معاشرے میں یورپ کے معاشرے میں، تو ان چیزوں سے تم بچ کے رہو گے۔اس لئے ان کی طرف خود بھی توجہ دو اور اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہو۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے اس کی عبادت ہی ہے جو ہر دنیوی چیز سے بالا ہے۔ اس لئے تمہیں اگر کسی چیز کی فکر کرنی چاہئے تو اس کی عبادت کی طرف توجہ اور وقت پر نمازوں کی طرف توجہ کی فکر کرنی چاہئے۔ یاد رکھو اللہ سب جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس لئے دو عملی نہیں چلے گی۔ قول اور فعل میں تضاد مشکل ہے۔ اگر تم اس فکر سے نمازوں کی طرف توجہ دو گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور دنیاوی معاملات ایک طرف رکھ کر اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے تمہارے دنیوی معاملات میں بھی برکت ڈالے گا۔ ورنہ عبادت کی طرف توجہ نہ دینے سے تمہارے کاروبار میں بے برکتی رہے گی۔ تمہاری اولادوں کے بھی صحیح راستے پر چلنے کی کوئی ضمانت نہیں رہے گی اور پھر مرنے کے بعد تمہارا محاسبہ بھی ہو گا،تمہاری نمازوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ صحیح طور پر ادا کی گئی تھیں یا نہیں کی گئی تھیں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ یونسؓ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے اعمال میں سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس بات کا محاسبہ کیا جائے گا وہ نماز ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا رب عزو جل فرشتوں سے فرمائے گا۔ حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھو کیا اس نے اسے مکمل طور پر ادا کیا تھا یا نامکمل چھوڑ دیا۔ پس اگر اس کی نماز مکمل ہو گئی تو اس کے نامہ اعمال میں مکمل نماز لکھی جائے گی۔ اور اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہو گی تو فرمایا کہ دیکھیں کیامیرے بندے نے کوئی نفلی عبادت کی ہوئی ہے پس اگر اس نے کوئی نفلی عبادت کی ہو گی تو فرمائے گا کہ میرے بندے کی فرض نماز میں جو کمی رہ گئی تھی وہ اس کے نفل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا اسی طرح مواخذہ کیا جائے گا۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ با ب قول النبیؐ کل صلاۃ یا یتمھا صاحبھاتتم من تطوع)
پس ایک احمدی کے معیار یہ ہونے چاہئیں نہ کہ یہ کہ اپنی دنیاوی ضروریات کے لئے نمازوں کو ٹال دیا جائے۔ اپنے نامہ اعمال کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیا ہے اور کیا نہیں۔ اس لئے ایک فرض جو اللہ نے بندے کے ذمے لگایا ہے۔ اسے پورا کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کے محاسبہ سے بچ کے رہے۔ اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ ذرا غور کریں کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزرتی ہو۔ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہ جائے گی۔ صحابہؓ نے عرض کی اس کی میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ ان کے ذریعے خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے۔ (بخاری کتا ب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ الخمس کفارۃ للخطاء)
پس یہ اللہ تعالیٰ کے معاف کرنے طریقے ہیں اپنے بندوں پر شفقت اور ان کے لئے بخشش کے سامان مہیا کرنے کے طریقے ہیں جس سے جتنا بھی کوئی فائدہ اٹھا لے گا اتنی ہی اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والا ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ نماز اصل میں دعا ہے۔ نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے۔ کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔ میں رحم کرتا ہوں۔ بیکسوں کی امداد کرتا ہوں۔ لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس ندا کی پرواہ نہیں کرتا۔ نہ اپنی مشکل کا بیان کرکے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہو گا۔ یہی حال خداتعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے۔ قبولیتِ دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے۔ کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 54جدید ایڈیشن)
تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مشکلیں دور کرنے کے لئے تمہیں پکار رہا ہے۔ اس کی آواز کو سنو،اس کی طرف جاؤ اور اپنی درخواستیں پیش کرو، اپنی ضروریات پوری کرو۔ لیکن یاد رکھو کہ درخواست بھی اس کی قبول ہو گی،دعا بھی اس کی قبول ہو گی، جو نافرمان نہ ہو۔ اس کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو، ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔
پھر نماز باجماعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:’’ باجماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے اکیلے پڑھنے سے 25گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے‘‘۔ مزید فرمایا ’’اوررات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں ‘‘۔ (مسلم کتاب المساجد۔ ومواضع الصلوٰۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ …)
پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے نماز باجماعت کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس ملک میں جماعت کے افراد مختلف جگہوں پہ پھیلے ہوئے ہیں اور اس جگہ پہ صرف مسجدہے اور یہاں بھی جماعت کی تعداد تھوڑی سی ہے۔ باقی جگہ مسجد نہیں ہے لیکن نماز سینٹرز ہیں، مشن ہاؤس ہیں، وہاں اکٹھے ہونا چاہئے۔لیکن میری اطلاع کے مطابق اس طرف توجہ کم ہے باقاعدہ نمازوں پر لوگ نہیں آتے۔ مومن کو تو ہر وقت اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں میں زیادہ ہونے کا سوچنا چاہئے۔ اس لئے کوشش کرکے نماز باجماعت کی طرف ہر احمدی توجہ دے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ ثواب کما سکے کما لے اور صحیح مومن کہلا سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحدہ کی طرح بنا دے اس کا نام وحدت جمہوری ہے۔ جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگے میں سب پروئے جائیں یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تاکہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے۔ اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کرکے اسے قوت دیوے۔ حتیٰ کہ حج بھی اسی لئے ہے۔ اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتداء اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اول یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں۔ تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو۔ اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پیدا ہو جاوے۔ تعارف بہت عمدہ شے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔ حتیٰ کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینے والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی سے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ:’’ دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔ اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔ آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے‘‘۔
تو جمعہ کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ جو معلومات مَیں نے لی ہیں ان سے مجھے پتہ لگا ہے کہ اکثر لوگ دوسرے تیسرے ہفتے جمعے کو جمعہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں تو بڑا واضح حکم ہے کہ جمعہ کے لئے آؤ اور کاروبار کو چھوڑ دو۔ احمدیوں کو تو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ اسی سورۃ میں ہی حکم ہے جس میں آخرین کو پہلوں کے ساتھ ملانے کا حکم ہے۔ تو جمعے کے بعد پھر اجازت ہے کہ آپ کاروبار کر لیں۔ اور جو اس طرح کریں گے جمعے کی نماز کے لئے کاروبار بند کریں اور پھر جمعے کے بعد شروع کر یں تو ان کے کاروبا ر میں اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہو گا۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں ان کی مساجد اور شہروں کی ناپسندیدہ جگہیں ان کی مارکیٹیں ہیں۔ پس کون ہے جو پسندیدہ اور اچھی چیز کو چھوڑ کر ناپسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔(مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح و فضل المساجد)
بعض لوگ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم جس چیز کوبھی ہاتھ ڈالتے ہیں جس کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اس میں بربادی ہو جاتی ہے، کوئی برکت نہیں پڑتی۔ اور پھر اس وجہ سے ان لوگوں کے خیالات اور ان کے ذہن بڑے بیہودہ ہو جاتے ہیں۔ تو اگر عبادتوں کا حق ادا کرتے ہوئے پھر کاروبار بھی کریں گے تو اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالے گا۔ جمعے کی نماز کے وقت بجائے جمعے پہ آنے کے اگر کاروبار کی طرف ہی دھیان رہے گا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اگر ٹالیں گے تو بے برکتی ہی رہے گی۔ پس نمازوں اور جمعہ کے اوقات میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کریں۔بعض دفعہ یہ ہوتاہے کام کی جگہ دور ہے اور دو تین احمدی کسی نہ کسی جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سینٹر میں نہیں آ سکتے تو جو تین چار افراد ہیں وہ اپنی جگہ پر ہی کسی کو اپنے میں سے امام مقرر کرکے جمعہ پڑھ لیا کریں۔ لیکن جمعہ ضرور پڑھنا چاہئے۔
تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں (یہ جمعہ کی مثال دینے کے بعد) کہ:’’ پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز پیش کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور انس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔ پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔ غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپس میں الفت و انس ترقی پکڑے۔ افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے۔ دنیاوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں ان میں تو انسان ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہو سکتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں۔ کون سا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو۔ پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کرکے اسے قوت بخشیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 101-100جدید ایڈیشن)
تو آپؑ نے نمازوں کی ادائیگی سے لے کر جمعہ، جمعے کے بعد عیدین، پھر حج یہ ایک وحدت کا نشان بتایا ہے۔ اور سب سے زیادہ وحدت کانمونہ اگر آج دکھانا ہے تو احمدی نے دکھانا ہے۔ جو غیروں کے اعتراض ہیں ان کے منہ بند کرنے کے لئے خود اپنی عبادتوں کو زندہ کرنا ہے، نمازوں کے لئے اکٹھے ہونا ہے۔،جمعوں کے لئے اکٹھے ہونا ہے، عید پر اکٹھے ہونا ہے۔ پس اس طرف ہر احمدی خاص طور پر توجہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر اپنے اندر تبدیلی کا جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنے والا بننا ہے، حقیقی معنوں میں مومن کہلانے والا بننا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ مومن ہیں نہ ہدایت پانے والے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مسجد کو آباد کرنے والوں کو ایمان لانے والوں میں شمار کرتا ہے۔
فرماتا ہے:

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ:18)

کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مسجدیں آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ‘‘۔(ترمذی ابواب التفسیر سورۃ التوبۃ)
پھر ایک روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ جنت کے باغات کیاہیں ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مساجد جنت کے باغات ہیں۔ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ ان سے کھانے پینے سے کیا مراد ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر

پڑھنا۔ (ترمذی کتاب الدعوات۔ باب حدیث فی اسماء اللہ الحسنی مع ذکرھا تماما)
اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔تو ایک مومن اپنے ایمان میں مضبوطی کے لئے ہدایت کے راستے پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دنیا اور آخرت کی جنت کے پھل کھانے کے لئے مسجد میں جاتا ہے۔ پس یہی مسجدوں کا مقصد ہے۔ اور اسی مقصد کے لئے مسجدیں بنائی جاتی ہیں دنیاداری تو مسجدوں کے پاس سے بھی نہیں گزرنی چاہئے۔بلکہ ایک روایت میں تو آتا ہے کہ کسی گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرنا بھی منع ہے، اس میں بھی بددعا دی گئی ہے۔ تو جب یہاں تک حکم ہو تو پھر مسجد میں تو دنیاداری کی باتوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسجدوں میں تو اس لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار اور الفت پیدا ہو۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا احساس پیدا ہو۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا تو یہی ہے کہ جو بھی اس نے حکم دئیے ہیں چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں یا بندوں کے حقوق ہیں، سب کو ادا کرنے کی طرف توجہ ہو۔ مسجدیں تو اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ ان میں خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔
پس مسجد میں عبادت کی غرض سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ مسجدوں سے وہ لوگ بھی فیض پاتے ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو اس کے بنانے میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اپنے لئے جنت میں باغ لگاتے ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے گھر کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں، نہ کہ نام و نمود کے لئے۔ پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجدیں بنانا بھی یقینا ایک نیک کام ہے اور اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبویؐ کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مَیں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب فضل بناء المساجد والحث علیھا)
لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجدیں بنائی جائیں۔اور احمدی جب مسجدیں بناتے ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بناتے ہیں۔ اس لئے بناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ عبادت گزار اُن سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس لئے بناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں آکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کر سکیں۔ ہماری کوششیں تو عاجزانہ اور دعاؤں کے ساتھ ہوتی ہیں کوئی دکھاوا ان میں نہیں ہوتا۔ہم تو اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہیں جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے مساجد کی آبادی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا کام کیا ہوا ہے۔ ہم تو مساجد اس لئے بناتے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ اِس پاکیزہ جماعت میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جائیں۔ اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بناد ینی چاہئے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے نفسانی اغراض یا کسی شَر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93 جدید ایڈیشن)
پس اس ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہر جگہ مساجدبنانی ہیں اور جماعت احمدیہ اسی لئے مساجد بناتی ہے۔ میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ پانچ سو سال بعد اس ملک میں مذہبی آزادی ملتے ہی جماعت احمدیہ نے مسجد بنائی۔ اور اب اس کو بنے بھی تقریباً 25 سال ہونے لگے ہیں اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد کے روشن مینار اور جگہوں پہ بھی نظر آئیں۔ جماعت اب مختلف شہروں میں قائم ہے۔ جب یہ مسجد بنائی گئی تو اس وقت یہاں شاید چند لوگ تھے۔ اب کم از کم سینکڑوں میں تو ہیں۔ پاکستانیوں کے علاوہ بھی ہیں۔ جماعت کے وسائل کے مطابق عبادت کرنے والوں کے لئے،نہ کہ نام و نمود کے لئے اللہ کے اور گھر بھی بنائے جائیں۔ تو اس کے لئے میرا انتخاب جو مَیں نے سوچا اور جائزہ لیا تو ویلنسیا (Valencia)کے شہر کی طرف توجہ ہوئی۔ یہاں بھی ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور یہ شہر ملک کے مشرق میں واقع ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے دوسروں کو بتانے کے لئے بتا رہا ہوں۔ اور آبادی کے لحاظ سے بھی تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں بھی ابتدا میں ہی 711ء میں مسلمان اگئے تھے مسلمانوں کی تاریخ بھی اس علاقے میں ملتی ہے، ابھی تک ملتی ہے۔ زرعی لحاظ سے بھی اس جگہ کو مسلمانوں نے ڈیویلپ (Develop) کیا ہے۔ بہت سے احمدی جو وہاں کام کرتے ہیں۔ مالٹوں کے باغات میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ مالٹوں کے باغات کو رواج دینا بھی مسلمانوں کے زمانے سے ہی چلا آ رہا ہے۔ تو بہرحال ہم نے اب یہاں مسجد بنانی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے جلد بنانی ہے۔
سپین میں جماعت کی تعداد تو چند سو ہے اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں کے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ زمینیں بھی کافی مہنگی ہیں۔ امیر صاحب کو جب مَیں نے کہا وہ ایک دم بڑے پریشان ہو گئے تھے کہ کس طرح بنائیں گے۔ تومَیں نے انہیں کہا تھا کہ آپ چھوٹا سا، دو تین ہزار مربع میٹر کا پلاٹ تلاش کریں اور اپنی کوشش کریں۔ اور جماعت سپین زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ ڈال سکتی ہے یہ بتائیں۔ کون احمدی ہے جو نہیں چاہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والا نہ بنے؟۔ کون ہے جو نہیں چاہے گا کہ جنت میں اپنا گھر بنائے۔ پس آپ لوگ اپنی کوشش کریں باقی اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے انتظام کر دے گا۔ یہی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا جماعت سے سلوک رہا ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی رہے گا اور وہ خود انتظام فرما دے گا۔ بہرحال بعد میں امیر صاحب نے لکھا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی یا غلط فہمی ہو گئی تھی کہ مَیں نے مایوسی کا اظہار کر دیا، بات سمجھا نہیں شاید۔ تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنائیں گے اور دوسرے شہروں میں بھی بنائیں گے۔ تو بہرحال عزم، ہمت اور حوصلہ ہونا چاہئے اور پھر ساتھ ہی سب سے ضروری چیز اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگتے ہوئے، اس سے مدد چاہتے ہوئے کام شروع کیا جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ برکت پڑتی ہے اور پڑے گی۔ تو بہرحال مجھے پتہ ہے کہ فوری طور پر شاید سپین کی جماعت کی حالت ایسی نہیں کہ انتظام کر سکے کہ سال دو سال کے اندر مسجد مکمل ہو۔ لیکن ہم نے انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر فوری طور پر اس کام کو شروع کرنا ہے اس لئے زمین کی تلاش فوری شروع ہو جانی چاہئے چاہے۔ سپین جماعت کو کچھ گرانٹ اور قرض دے کر ہی کچھ کام شروع کروایا جائے اور بعد میں ادائیگی ہو جائے۔ تو یہ کام بہرحال انشاء اللہ شروع ہو گا۔ اور جماعت کے جو مرکزی ادارے ہیں یا دوسرے صاحب حیثیت افراد ہیں اگر خوشی سے کوئی اس مسجد کے لئے دینا چاہے گا تو دے دیں اس میں روک کوئی نہیں ہے۔ لیکن تمام دنیا کی جماعت کو یا احمدیوں کو مَیں عمومی تحریک نہیں کر رہا کہ اس کے لئے ضرور دیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسجد بن جائے گی چاہے مرکزی طور پر فنڈ مہیا کرکے بنائی جائے یا جس طرح بھی بنائی جائے اور بعد میں پھر سپین والے اس قرض کو واپس بھی کر دیں گے جس حد تک قرض ہے۔ تو بہرحال یہ کام جلد شروع ہو جانا چاہئے اور اس میں اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ کیونکہ اب تک جو سرسری اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق دو تین سو نمازیوں کی گنجائش کی مسجد انشاء اللہ خیال ہے کہ 6-5لاکھ یورو(Euro) میں بن جائے گی۔ یہاں بھی اور جگہوں پر بھی مسجد بنانے کا عزم کیاہے تو پھر بنائیں انشاء اللہ شروع کریں یہ کام۔ ارادہ جب کرلیا ہے تو وعدے کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالے گا۔ جلسے کے دنوں میں جو وزارت انصاف کے شاید ڈائریکٹر جو آئے ہوئے تھے بڑے پڑھے لکھے اور کھلے دل کے آدمی ہیں۔ مجھے کہنے لگے کہ جماعت کے وسائل کم ہیں۔ وہ تو دنیاداری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ حکومت مسلمان تنظیموں کوبعض سہولتیں دیتی ہے۔اب قرطبہ میں بھی انہوں نے مسجد بنائی ہے۔ تو اس طرح اور سہولتیں ہیں لیکن آپ کو (جماعت احمدیہ کو) وہ مسلمان اپنے میں شامل نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے جو حکومت کا مدد دینے کا طریق کار ہے اس سے آپ کو حصہ نہیں ملتا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ ان مسلمانوں کی کچھ باتیں مان جائیں اور حکومت سے مالی فائدہ اٹھا لیا کریں۔ باقی ان کی باتوں میں شامل نہ ہوں۔ تو مَیں نے ان کو جواب دیا تھا کہ اگر باقی مسلمان تنظیمیں راضی بھی ہو جائیں تو پھر بھی ہم یہ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کل کو پھر آپ نے ہی یہ کہنا ہے کہ تمہارا امن پسندی کا دعویٰ یونہی ہے، اندر سے تم بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جو شدت پسند ہیں۔ اور دوسرے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دئیے ہیں کہ ہم باقی مسلمانوں سے الگ ہو کر جو ان کے عمل ہیں،جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں، اس سے بچ کر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی پہچان کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان مہیا فرما دئیے ہیں۔ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے کہ ہماری علیحدہ ایک پہچان ہے تو چند پیسوں کے لئے یا تھوڑے سے مفاد کے لئے ہم اللہ کے رسول کی سچی پیشگوئی اور اللہ کے فضلوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں۔یہ نہیں ہو سکتا۔ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ اور اس کے رسول کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔ہر احمدی کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے نام کی بڑی غیرت ہے۔ اگر حکومت احمدیوں کا حق سمجھ کر ہمیں فائدہ دے سکتی ہے تو ہمیں قبول ہے، ورنہ جماعت احمدیہ میں ہر شخص قربانی کرنا جانتا ہے۔ وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی مساجد کی تعمیر کے لئے پلاٹ خرید سکتا ہے، رقم مہیا کر سکتا ہے، یا جماعت کے دوسرے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔ بہرحال ان کا جماعت سے بڑا تعلق ہے۔ بعض لوگوں سے بڑی ذاتی واقفیت ہے۔ کہنے لگے کہ مَیں تو اس بات کو سمجھتا ہوں۔ لیکن قانون ایسا ہے کہ تمہارا حق بھی دوسری مسلمان تنظیمیں لے رہی ہیں۔ آپس میں چاہے یہ تنظیمیں لڑتی رہیں لیکن جب فائدہ اٹھانا ہو، مفاد لینا ہو، کچھ مالی فائدہ نظر آتا ہو، یا حکومت سے کسی قسم کی مدد لینی ہو تو یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان کو تومَیں نے یہی جواب دیا تھا پھر لینے دیں ہمیں تو اس وجہ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس سہولت کے لئے اپنا ضمیر اور اپنا ایمان نہیں بیچ سکتے۔ ان کا بڑا گہرا مطالعہ تھا اور ان باتوں کا وہ پہلے بھی علم رکھتے تھے شاید براہ راست میرا مؤقف سننا چاہتے تھے اس کے لئے شاید انہوں نے یہ بات چھیڑی ہو گی۔تو بہرحال اس چیز نے بھی میرے دل میں اور بھی زیادہ شدت سے یہ احساس پیدا کیا کہ اب ہمیں کسی بڑے شہر میں جلد ہی ایک اور مسجد بنانی چاہئے۔ مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ ہماری توفیقوں کو بھی بڑھائے گا۔ اور جلد ہی ہمیں سپین میں ایک اور مسجد عطا فرمائے گا۔
پس آپ دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اس بات کا عزم کر لیں کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ انشاء اللہ ضرور مدد کرے گا۔ اللہ کرے، اللہ سب کو توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں