خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 25؍مارچ 2005ء

جب شوریٰ پر مشورے دیں تو صرف اس لئے نہ دیں کہ اپنے علم اور عقل کا اظہار کرنا ہے
بلکہ اس لئے دیں کہ ان مشوروں پر عمل کرنے اور کروانے کے لئے
ہم خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں گے
تبھی تما م دنیا کے نمائندگا ن شوریٰ خلافت اور نظام خلافت اور نظام جماعت کی حفاظت میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔
(مشاورت سے متعلق آنحضرت ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں نہایت اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 25؍ مارچ2005ء (25؍ امان 1384ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح۔مورڈن،لندن۔

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَ مْرِفَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ۔ (سورۃ ال عمران آیت نمبر160)

حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری شرعی نبی تھے اور تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ جن پر خداتعالیٰ نے وہ کلام ا تارا جس نے تمام امور کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، اللہ تعالیٰ قدم قدم پر آپ کی رہنمائی فرماتا تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ

شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ

کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر اہم قومی معاملے میں اپنے لوگوں سے، اپنے ماننے والوں سے،اپنی ریاست میں رہنے والوں سے، اپنی حکومت کے زیر انتظام رہنے والوں سے، مشورہ لے لیاکر۔ تو اس آیت کے مکمل مضمون سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ تمام حکم جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا،یہ آیت جو نازل فرمائی یہ منافقین اور معترضین کی باتوں کا جواب ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ نبی بڑا سخت دل اور اپنی مرضی ٹھونسنے والا ہے، کسی کی بات نہیں سنتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے تو ان کے لئے اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ توُتو اپنوں کے لئے بھی مجسم رحمت ہے اور غیروں کے لئے بھی عفو اور درگزر کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ تُواے نبی! منافقین سے بھی صرف نظرکرتے ہوئے نرمی کا سلوک کرتا ہے اور دشمنوں سے بھی نرمی کا سلوک کرتا ہے اور نہ صرف نرمی کرتا ہے بلکہ ریاستی معاملات میں بھی مشورہ کر لیتا ہے۔ قومی معاملات میں مشورہ بھی کر لیتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کو بھی جنگ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے مشورے میں آ نحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل فرمایا تھا۔ اور ان منافقین کی اس بات کو رد کرنے کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جس طرح پروانوں کی طرح تیرے ارد گرد یہ ایمان والے اکٹھے رہتے ہیں اگر سخت دل ہوتا تو کبھی اس طرح اکٹھے نہ ہوتے بلکہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اور آپؐ کی ہمدردی اور لوگوں کو اہمیت دینے نے جو بہت سے دور ہٹے ہوئے تھے، جن کو منافقین نے خراب کیا ہوا تھا، وہ بھی نرمی اور اس حسن سلوک کی وجہ سے اپنی اصلاح کرتے ہوئے آپؐ کے قریب
آ گئے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے قریب آنے کی توفیق دی۔ اور منافقین کو یہ بھی جواب ہے کہ یہ نبی تونہ صرف اس تعلیم کے مطابق مشوروں پر بہت زور دیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کم علمی یا بشری کمزوریوں کی وجہ سیبعض غلط مشورے دینے والوں سے درگزر کا سلوک بھی کرتا ہے اور ان کے لئے بخشش اور مغفرت کی دعا بھی مانگتا ہے۔ بہرحال یہ ہے جس کی وجہ سے ان کو اعتراض ہے کہ یہ اپنا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ نبی کو مشورے لینے کے بعد فیصلے کرنے کا اختیار ہے اور کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا نبی ہے اس لئے جب تمام مشوروں کے بعد کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسی پر توکل کرتا ہے۔ پھر بہتر نتائج کی امید، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ پہ ہی رکھتا ہے۔ اور یہی وہ عمل ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنایا ہوا ہے۔ اور یہی وہ اسوہ ہے جس پر چلنے کے لئے درجہ بدرجہ اپنے دائرہ اختیار کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امت کو بھی نصیحت فرمائی ہے۔ نظام خلافت اور نظام جماعت کو بھی نصیحت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شدت سے مشوروں کی طرف توجہ دینا یہ صرف اس لئے تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امت میں بھی مشوروں کی اہمیت اجاگر ہو، اُمّت کو بھی مشوروں کی اہمیت کا پتہ لگے۔
چنانچہ اس حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ’’جب

شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ

کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری امت کے لئے رحمت کا باعث بنایا ہے۔ پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا۔ اور جو مشورے کو ترک کرے گا وہ ذلت سے نہ بچ سکے گا۔‘‘ (شعب الایمان۔للبیھقی۔الجزء السادس صفحہ 77,76روایت نمبر 7542طبعہ اولیٰ 1990 دارالکتب بیروت)
تو نہ تو اللہ تعالیٰ کو کسی بات کے فیصلے کے لئے مشورہ چاہئے۔ اور پھر اللہ کا رسول ہے جس کو علاوہ قرآنی وحی کے بہت سی باتوں سے اللہ تعالیٰ وقت سے پہلے خود بھی آگاہ کر دیا کرتا تھا۔ تو جن باتوں کے بارے میں مشورہ لیا جا رہا ہے یا جن باتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے ان سے بھی اللہ تعالیٰ آگاہ کر سکتا تھا۔ نبی کو کسی رائے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مشورے کی فضیلت بتانے کے لئے تاکہ امت بعد میں اس پر عمل پیرا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے۔ تو آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرما دیا کہ میری تو اللہ تعالیٰ رہنمائی فرما ہی دیتا ہے۔ تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنا چاہتے ہو تو مشوروں کو ضرور پیش نظر رکھنا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اسی نصیحت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کی وجہ سے جماعت میں شوریٰ کا نظام بھی رائج ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اسی شورٰی کے نظام کی وجہ سے بھی، اس نصیحت پر عمل کرنے کی وجہ سے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی نظر آتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جو مشورے لئے اس وقت میں ان کے کچھ واقعات بیان کروں گا جس سے آپؐ کے خلق کے اس عظیم پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق جو آیت میں نے پڑھی ہے اس قدر مشورے لیا کرتے تھے کہ ہر ایک کو صاف نظر آرہا ہوتا تھا کہ آپؐ جیسا مشورے لینے والا اور اچھے مشورے کی قدر کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے اصحاب سے کسی کو مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘ (سنن الترمذی ابواب فضائل الجھاد۔باب ما جاء فی المشورۃ)
اور یہ سب کچھ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں اس لئے تھا کہ لوگوں کو احساس ہو کہ میں جو اللہ تعالیٰ کا نبی ہو کر بعض اہم معاملات میں مشورہ لیتا ہوں یا ایسے معاملات میں مشورہ لیتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی نہیں آئی ہوتی تو تم لوگوں پر اس پر عمل کرنا کس قدر ضروری ہے۔ پھر باوجود اس کے کہ آپ میں نور فراست اپنے صحابہ سے ہزاروں ہزار گنا زیادہ تھا لیکن کبھی صحابہ کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ مشوروں کے وقت بھی اپنی اس عاجزی کے خُلق کو ہی سامنے رکھا۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھجوانے کا ارادہ فرمایا تو حضورؐ نے صحابہ میں بہت سے لوگوں سے مشورہ طلب فرمایا۔ان صحابہ میں ابوبکرؓ، عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، اور بہت سارے صحابہ تھے (رضی اللہ عنھم)۔حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مشورہ نہ طلب فرماتے تو ہم کوئی بات نہ کرتے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جن امور کے بارے میں مجھے وحی نہیں ہوتی ان کے بارے میں میں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں۔ معاذؓ بتاتے ہیں کہ حضورکے اس فرمان کے مطابق جب حضور ؐ رائے لے رہے تھے قوم کے ہر شخص نے اپنی اپنی رائے بیان کی۔ اور اس کے بعد حضور ؐ نے فرمایا معاذ! تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟تو میں نے عرض کی کہ میری وہی رائے ہے جو حضرت ابوبکرؓ کی ہے۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد۔باب الأجتھاد)
دیکھیں کس سادگی سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو۔ کیونکہ جن معاملات میں مجھے اللہ تعالیٰ نہیں بتاتا ان میں میں بھی تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں جس کومشوروں کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھیں جب آپؐ کی سب سے چہیتی بیوی پر الزام لگا۔ اس وقت اگر آپؐ چاہتے اور یہ عین انصاف کے مطابق بھی ہے کہ حضرت عائشہؓ سے پوچھ کر اس الزام کا رد فرما سکتے تھے، غلط الزام تھا۔ لیکن منافقین کے فتنہ کو روکنے کے لئے آپ ؐ خاموش رہے اور صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کیا۔ کیونکہ آپ ؐ سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ اب ذات سے نکل کر معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ خود ہی روایت کرتی ہیں کہ واقعۂ اِفک کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالبؓ اور اسامہ بن زیدؓ کو اس وقت بلوایاجب آپ ابھی وحی کے منتظر تھے اور ان دونوں سے حضرت عائشہؓ سے علیحدگی کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا۔اس پر حضرت اسامہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل سے تعلق محبت رکھنے کا مشورہ دیا۔ لیکن پھر بھی حضرت عائشہؓ کے مطابق یہ سرد مہری جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بریت ثابت فرمائی۔‘‘ (صحیح البخاری کتاب الشھادۃ باب تعدیل النساء بعضھن بعضا)
اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی بریت ثابت فرما دی تو پھر مجرموں کو سزا بھی آپؐ نے دی۔ پھر کوئی پرواہ نہیں کی کہ اس کا اثر کیا ہو گا۔ اس بارے میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت اسامہؓ سے حضرت عائشہؓ پر لگائے گئے بہتان کے بارے میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی۔ لیکن جب اس بارے میں قرآن کریم نازل ہوا تو اس کے مطابق تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور حضرت علیؓ اور حضرت اسامہؓ کے اختلاف رائے کی طرف التفات نہ فرمایا بلکہ وہی حکم جاری فرمایا جس کا اللہ نے آپ ؐ کو حکم دیا تھا۔(بخاری کتاب الأعتصام بالکتاب و السنّۃ باب قول اللہ تعالیٰ و امرھم شوریٰ بینھم)
تو جہاں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپؐ اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں بھی کس قدر محتاط تھے اور مشورے لیا کرتے تھے وہاں یہ بھی واضح ہو گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آ گیا تو پھر اس کے سامنے کسی کی نہیں سنی۔ اور آئندہ کے لئے ایسے لوگوں کو سزا کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کی گواہی بھی ختم ہو گئی۔
پھر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی جب کفار نے یہ کوشش جاری رکھی کہ آپؐ کو اور مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیں اور تنگ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑتے تھے تو آپؐ نے اس کے سدِّ باب کے لئے صحابہؓ سے مشورہ لیا۔لیکن کیونکہ ابتدائی زمانہ تھا اس لئے آپؐ کی خواہش تھی کہ تمام متعلقہ سردار جو تھے انصار میں سے بھی وہ بھی اس میں شامل ہوں تا کہ بعد میں کسی کی طرف سے بھی کوئی عذر نہ ہو۔ اس واقعہ کا تاریخ میں یوں ذکر ہوا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے تجارتی قافلے کی روانگی کا علم ہوا تو آپؐ نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ ہم ان کے قافلے کو ضرور روکیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ طلب کیا اور صحابہ کو قریش کے ارادوں کے بارے میں بتایا۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ صدیق کھڑے ہوئے اور اپنا مؤقف بڑے اچھے انداز میں پیش کیا۔پھر حضرت عمر بن خطابؓ کھڑے ہوئے اور بڑے اچھے انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ پھر مقدادؓ بن عمرو کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہؐ ! آپؐ نے جو ارادہ کیا ہے اس کی تکمیل کے لئے چلیں۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہم آپؐ سے ویسے نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا۔ کہ

اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْن۔ (المائدہ :25)

کہ تو اور تیرا رب جاؤ ان سے جنگ کرو ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں۔ بلکہ ہم یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ آپؐ اور آپؐ کا رب دشمنان دین کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں ہم آپ ؐ کے ساتھ ہو کر ان سے لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اگر آپؐ ہمیں

بَرْکُ الغِماد

(یہ یمن کے قریب ایک مقام تھا) وہاں تک بھی لے جانا چاہیں گے تو ہم وہاں تک پہنچنے کے لئے رستے کے تمام لوگوں سے لڑائی کرتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ آپ وہاں فروکش ہوں۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیرو برکت کی دعا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور آپؐ دراصل انصار سے مشورہ مانگ رہے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لو گ زیادہ تھے اور دوسرا مشورہ طلب کرنے کا باعث یہ بھی تھا کہ انصار نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم اس وقت تک آپؐ کی حفاظت کی ذمہ داری سے بری ہیں جب تک کہ آپؐ ہمارے پاس نہیں آجاتے۔ جب آپ ؐ ہم میں
آ بسیں گے تو پھر آپؐ کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہو گی۔ ہم آپ ؐ سے ہر دشمن کا دفاع کریں گے جس طرح ہم اپنے بچوں اور بیویوں کا کرتے ہیں۔ تو حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں انصار کی نصرت یا مدد صرف مدینہ کے اندر رہ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کا مقابلہ کرنے کی حد تک محدود نہ ہو۔ اور یہ نہ ہو کہ کہیں دشمن سے مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے میں ساتھ نہ دیں۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورے کے لئے دوبارہ فرمایا تو سعد بن معاذؓ نے عرض کی کہ اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! شاید آپؐ کا روئے سخن ہم انصار کی طر ف ہے۔ آپؐ شاید ہم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم درست سمجھے ہو۔ اس پر حضرت سعد بن معاذؓ نے عرض کی۔ ہم آپؐ پر ایمان لائے اور ہم نے آپ ؐ کی تصدیق کی اور ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ آپؐ جو تعلیم لے کر آئے ہیں وہ برحق ہے اسی وجہ سے ہم نے آپ سے سننے اور اطاعت کرنے کا پختہ عہد کیا ہوا ہے۔ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ اپنے ارادے کی تکمیل کے لئے چلیں۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر یہ سمندر بھی ہماری راہ میں حائل ہوا اور آپؐ نے اسے پار کر لیا تو ہم بھی آپؐ کی معیت میں اسے پار کریں گے۔ ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔ اور ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے کہ آپؐ ہمارے دشمن سے مقابلہ کریں۔ ہم جنگ کی صورت میں بہت صبر کرنے والے ہیں اور دشمن کے مقابلے میں آ کر اپنی بات کو سچ کر دکھانے والے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہماری طرف سے وہ مقام عطا کرے جس سے آپؐ کی آنکھ ٹھنڈی ہو۔ آپ اللہ تعالیٰ کی برکت کیساتھ ہمیں ساتھ لیتے ہوئے چلیں۔ حضرت سعد بن معاذؓ کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتانے لگا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام،ذکر غزوہ بدر الکبریٰ،ظفر المسلمین برجلین من قریش یقفانھم علیٰ اخبارھم)
تو اس واقعہ سے جہاں آپؐ کی اس احتیاط کا پتہ چلتا ہے کہ اکثریت کی رائے بھی آنی چاہئے وہاں یہ مقصد بھی تھا کہ مشورہ دینے والے اپنی بات کا پاس بھی رکھیں گے۔ ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا کہ ہمیں تو زبردستی اس میں کھینچا گیا ہے۔ ہماری مدد تو صرف مشروط تھی،ایک حد تک تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی گہرائی سے انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سب سے مشورہ لیا۔
پھر اُس سے اس انقلاب عظیم کا بھی پتہ چلتا ہے جو آپؐ نے تھوڑے وقت میں ان لوگوں میں پیدا فرما دیاکہ کہاں تو محدود مشروط حفاظت کا معاہدہ تھا اور کہاں یہ انقلاب آیا کہ سمندروں میں کودنے کے لئے تیار ہو گئے۔ پس آپؐ کے مشورہ کا ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ ان نئے ایمان لانے والوں کے ایمان کو بھی پرکھا جا سکے۔ ان کے دلوں کوٹٹول کر اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ نمونے آپؐ نے قائم کرنے کی اس لئے بھی کوشش کی کہ بعد میں آنے والے بھی ان نمونوں پر چلنے والے ہوں۔ آخرین بھی پہلوں سے ملنے کے نمونے دکھائیں۔ جب شوریٰ پر مشورے دیں تو صرف اس لئے نہ دیں کہ اپنے علم اور عقل کا اظہار کرنا ہے بلکہ اس لئے دیں کہ ان مشوروں پر عمل کرنے اور کروانے کے لئے ہم خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں گے۔ اگر خود یہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں تو پھر شوریٰ کے ان نمونوں پر چلنے والے نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ اور وہ نمونے کیا تھے، اس کا اظہار آپؐ دیکھ چکے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ایک صحابیؓ کے ان الفاظ سے بھی یوں نظر آتی ہے۔مقداد بن اسودؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے، آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور ایک روایت میں آتا ہے، یہ بھی کہا،کہ آپ کا دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ پائے گا یہاں تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آئے۔ (صحیح بخاری۔کتاب المغازی۔حدیث نمبر 3952)
اور پھریہ صرف تقریر کی حدتک نہیں تھا۔ بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے، گواہ ہے کہ اپنے عمل سے انہوں نے اپنے اس قول کو پورا کرکے دکھایا۔
اس میں ہمارے شوریٰ کے نمائندگان کے لئے بھی ایک پیغام ہے۔ اس پر غور کریں، اس پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ تبھی تمام دنیا کے نمائندگان شوریٰ خلافت اور نظامت خلافت اور نظام جماعت کی حفاظت میں سچے ثابت ہوسکتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر آیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسی گئیں تو تبھی انہوں نے جواب دیا اور جب بھی ایسے موقعے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ضرور مشورہ لیا۔ لیکن اگر کبھی فیصلہ خود فرما بھی لیا اور بعد میں کوئی بہتر رائے سامنے آ گئی تو فوراً اس بہتر رائے کو اختیار فرما لیا۔
چنانچہ جنگ بدر کے واقعہ کا ایک روایت میں یوں ذ کرآتا ہے کہ جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا وہ ایسی اچھی جگہ نہ تھی اس پر خباب بن مُنذَر نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آپؐ نے خدائی الہام کے تحت یہ جگہ پسند فرمائی ہے یا محض اپنی رائے سے فوجی تدبیر اور حکمت عملی سے اسے ا ختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں کوئی خدائی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ یہ میری رائے، ایک حکمت عملی اور محض ایک داؤ پیچ ہے اس لئے اگر تم اس سے بہتر کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو تو بتاؤ۔خُباب نے عرض کی کہ پھر میرے خیال میں پڑاؤ کے لئے یہ جگہ اچھی اور مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمے پر قبضہ کر لیا جاوے۔ میں اس چشمے کو جانتا ہوں اس کا پانی اچھا ہے اور عموماً ہوتا بھی کافی ہے۔ وہاں مدمقابل قریش کی نسبت پانی کے زیادہ قریب ہوں گے اس لئے وہاں جا کر پڑاؤ کریں اور اس جگہ سے پیچھے جتنے کنویں ہیں ان کا پانی گہرا کر دیں۔ پھر اس جگہ پر ہم ایک حوض بنائیں اور اس کوپانی سے بھر لیں اور پھر ان لوگوں سے جنگ کریں۔ اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے مگر وہ پانی نہیں پی سکیں گے۔ تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت اچھا مشورہ دیا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھ تمام لوگ اٹھ کر چل پڑے اور اپنے مد مقابل کی نسبت پانی کے زیادہ قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ قریش اس وقت تک ٹیلے کے پرے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور چشمہ خالی پڑا تھا۔ مسلمانوں نے وہاں پڑاؤ ڈال کر چشمے کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ اور پھر آپؐ نے کنوؤں کے بارے میں ارشاد فرمایا اور ان کا پانی گہرا کر دیا گیا۔ اور جس کنویں پر آپؐ نے خود پڑاؤ فرمایا تھا اس کو پانی سے بھر دیا گیا۔(سیرۃ ابن ھشام زیر عنوان ’’مشورۃ الحباب علی رسول اللہ ‘‘صفحہ 548دارالمعرفۃ بیروت لبنان طبع اول 2000ء)
تو جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ جنگیں جب مسلمانوں پر ٹھونسی گئیں تو مجبوراً مسلمانوں کو بھی اپنے بچاؤ کے سامان کرنے پڑے۔ جنگ بدرمیں،جنگ کے بعد جب مسلمان جنگ جیت گئے تو بہت سے کفار قیدی بنائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد نہ تو کفار کو قتل کرنا تھانہ قیدی بنا کر رکھنا تھا۔ آپؐ کی خواہش تو یہ تھی کہ یہ جو جنگ کی مجبوری کی وجہ سے قیدی بن گئے ہیں ان کے ساتھ کس طرح زیادہ سے زیادہ نرمی کا سلوک کیا جا سکتا ہے یا ان کو آزاد کر دیا جائے۔ لیکن آپؐ اپنی اس رائے کو، اس خواہش کو دوسروں کی رائے پر فوقیت نہیں دینا چاہتے تھے باجود اس کے کہ آپؐ جو بھی فیصلہ فرماتے صحابہؓ نے اس کو بخوشی قبول کرنا تھا لیکن آپؐ کی محتاط طبیعت نے اس بات کو گوارا نہ کیا اور پھر آپؐ کا ویسے بھی یہ طریق تھا کہ قومی معاملات میں رائے اور مشورہ لے لیا کرتے تھے۔ اس لئے آپؐ نے ان قیدیوں کے بارے میں کہ کیا سلوک کیا جائے مشورے کے لئے معاملہ رکھا اور اس کا روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اسیران بدر کے بارے میں مشورہ طلب فرمایاآپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں میں سے بعض پر غلبہ عطا فرمایا ہے۔حضرت عمر بن خطابؓ کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! ان کو قتل کروا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار اپنی بات دوہرائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر غلبہ عطا فرمایاہے جبکہ کل تک وہ تمہارے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ انہیں قتل کروا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار اپنی بات دوہرائی۔ اس دفعہ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ کھڑے ہوئے۔ اور عرض کی کہ اگر حضورؐ مناسب سمجھیں تو ان کو معاف فرمادیں اور ان سے فدیہ لے لیں۔ یہ سن کر حضورؐ کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے۔ چنانچہ حضورنے انہیں معاف کر دیااور ان سے فدیہ قبول فرما لیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 243۔مطبوعہ بیروت)
تو آپؐ کی زیادہ سے زیادہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ نرمی اوردرگزر کا سلوک کیا جائے۔ چاہے دشمن ہی کیوں نہ ہو جب آپ نے حضرت ابو بکرؓ کے نرمی کے سلوک کی رائے سنی تو فوراً اس پر عملدرآمد کر وایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں سختی تھی۔ اس لئے باوجود اس کے کہ آپؐ حضرت عمرؓ کی رائے کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے اس موقع پر اس سے اعراض فرماتے رہے۔
چنانچہ جب ایک موقع پر حدیبیہ کے معاہدے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کو معاہدہ توڑنے کی سزا دینے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت قریش کے حوالے سے آپؐ کے دل میں نرمی نہیں آئی بلکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نرم رائے کے مقابلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سخت رائے کو زیادہ فوقیت دی اوراس پر عمل کیا۔چنانچہ ذکر آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضور ﷺ کو تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ کسی علاقے کی طرف لشکر کشی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! پھر حضرت ابو بکرؓ نے کہا شاید آپ بنو اصفر یعنی اہل روم کی طرف لشکر کشی کرنا چاہتے ہیں ؟ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ پھر حضرت ابو بکرؓ نے کہا کیا آپ اہل نجد کی طرف لشکر کشی کرنا چاہتے ہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔
حضر ت ابو بکرؓ نے کہا پھر شاید آپؐ کا ارادہ قریش کی طرف ہے۔ اس مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاں میں جواب دیا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا آپؐ میں اور ان میں معاہدے کے وقت (باہم جنگ نہ کرنے)کی مدت طے نہیں ہوئی تھی؟ صلح حدیبیہ میں ایک مدت طے ہوئی تھی یہ سن کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں قریش کے معاہدہ کی خلاف ورزی کا علم نہیں ہوا۔ راوی کہتے ہیں پھر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی علاقوں میں رہنے والے اور مدینے کے ارد گرد کی بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس پیغام کے ساتھ بلا بھیجا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینہ میں مدینہ آ جائے۔ اور یہ پیغام آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے مکہ والوں پر حملہ کرنے کے بارے میں مشورے کے بعد بھیجا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے تو حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور یہ عرض کی تھی کہ یا رسول اللہ ! وہ آپؐ کی قوم ہیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرتے ہوئے آپؐ کو مشورہ دیا اور عرض کی کہ وہ کفر کا سرچشمہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ ساحر ہیں۔ آپؐ جھوٹے ہیں ، (آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار یہ الزام لگاتے تھے۔ نعوذ باللہ) حضرت عمرؓ نے اس موقع پر ان تمام بری باتوں کا ذکر کیا جو کفار مکہ کیا کرتے تھے۔ اور پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! عرب اس وقت تک ماتحتی قبول نہیں کریں گے جب تک اہل مکہ ماتحتی قبول نہ کر لیں۔ اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت ابو بکرؓ کی غلط رائے ہے۔ ان کی رائے کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ فرمایا کہ ابو بکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے معاملات میں بہت زیادہ نرم مزاج تھے۔ اور عمر حضرت نوحؑ کی طرح ہیں اور نوحؑ اللہ تعالیٰ کے معاملات میں چٹان کی طرح سخت تھے۔ اور اس وقت میں عمر کا مشورہ قبول کرتا ہوں۔‘‘ (السیرۃ الحلبیہ۔جلد 3باب ذکر مغازیہ صفحہ 108,107دارالکتب العلمیہ۔بیروت)
توموقع و محل کے لحاظ سے آپؐ مشورہ کو اہمیت دیا کرتے تھے کیونکہ آپؐ نے دیکھا کہ اب سختی میں ہی انسانیت کی بقا ہے اس لئے آپؐ نے لشکر کشی کا حکم فرمایا۔ اس میں ان لوگوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، نصیحت ہے جوخلیفہ ٔ وقت کے بعض فیصلوں پر پہلے خلفاء کا یا کسی پہلے موقع پر دئیے گئے کسی فیصلے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کیونکہ پہلے یہ ہو چکا ہے اس لئے اب بھی اس طرح ہونا چاہئے۔ تو یہ وقت وقت کے مطابق، حالات کے مطابق فیصلے ہوا کرتے ہیں۔ اور کبھی کوئی فیصلہ کسی سے بغض عناد اور کینے کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اصل مقصد اصلاح اور انسانیت کی قدریں بحال کرنا ہوتا ہے۔
پھر دیکھیں احد کا واقعہ ہے جس میں توکل علی اللہ کا ایک عظیم نمونہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل تاریخ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کرکے ان سے قریش کے اس حملہ سے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینے میں ہی ٹھہرا جاوے یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ اس مشورے میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی شریک تھا۔دراصل تو منافق تھا مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو چکا تھا۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مشورے میں شرکت کی دعوت دی۔ مشورے سے قبل آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملہ اور ان کے خونی ارادوں کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کا سر ٹوٹ گیا ہے۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جا رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ اور مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں۔ تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض شہید ہوں گے۔ اور میری تلوار کے کنارے ٹوٹنے سے یہ مراد ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت ہو گی یا شاید مجھے بھی کوئی نقصان پہنچے۔ اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلے کے لئے ہمیں مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ مدینہ کے اندرٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اور مینڈھے پر سوار ہونے والی خواب کی آپؐ نے یہ تعبیر فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کا سردار یعنی علمبردار مراد ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ اس کے بعد آپؐ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا تو بعض اکابر صحابہ نے حالات کی مشکل کو سمجھ کر، سوچ کر اور شاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب سے متاثر ہو کر یہ مشورہ دیا کہ مدینے میں ٹھہر کر ہی مقابلہ کرنا چاہئے۔ اور عبداللہ بن ابی بن سلول نے بھی یہی مشورہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور یہ فرمایا کہ یہی بہتر ہے کہ ہم مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ اور خصوصاً نوجوان صحابہ جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان میں ایک جوش تھا، شہادت کا جوش تھا اور بڑے بیتاب ہو رہے تھے۔ انہوں نے یہ اصرار کیا کہ نہیں کھلے میدان میں جا کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ ان کے جوش کو دیکھ کر اور اکثریت کی رائے کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے، باہر نکل کرمقابلہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ غزوہ میں شامل ہوں اور جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہوں اور پھر آپؐ تیاری کے لئے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اس دوران میں صحابہ نے سمجھایا اور کچھ لوگوں کو خود بھی سمجھ آئی تو نوجوانوں میں سے بھی اکثریت نے اپنی رائے بدل لی کہ نہیں، آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق ہی ہمیں کرنا چاہئے اور مدینے کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہئے۔ تو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہو کر جنگی لباس پہن کر باہر تشریف لائے تو سعد بن معاذجو انصار کے سردار تھے انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو کر کہا کہ حضور کا فیصلہ ہی ٹھیک ہے اور ہم اپنے فیصلے پر شرمندہ ہیں ،یہ ہمیں نہیں کہنا چاہئے تھا۔ تو یہیں مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اب نہیں۔ خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکر پھر اسے اتار دے۔ قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ فرمائے۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔ (طبقات ابن سعد،زر قانی،سیرت ابن ہشام اور بخاری بحوالہ سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ۔صفحہ 486۔,484)
تو یہاں دیکھیں باوجود اپنی رائے مختلف ہونے کے،بعض کبار صحابہ کی رائے مختلف ہونے کے، اکثریت کی رائے کا، نوجوانوں کی رائے کا احترام کیا اور پھر نوجوانوں کی رائے بدلنے کے بعد فرما دیا (یہ بھی توکل کی ایک اعلیٰ مثال تھی) کہ نبی کی شان کے یہ خلاف ہے کہ آگے بڑھ کر پیچھے ہٹے۔ لیکن فرمایا کہ اگر تم لوگ صبرسے کام لوگے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ کی مدد اور تائید بھی تمہارے ساتھ ہو گی۔ لیکن اس ہدایت کے باوجود بے صبری کی وجہ سے واضح طور پر جو جیتی ہوئی جنگ تھی اس کی وہ کیفیت نہ رہی اور مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ تو غرض اس قسم کے بےشمار واقعات ہیں۔ جنگوں وغیرہ میں بھی اور دوسرے قومی معاملات میں بھی جن سے آپؐ کے قوم سے مشورے لینے پر روشنی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سارے معاملات ہیں جن میں آپؐ لوگوں کے ذاتی معاملات میں اور اپنے ذاتی معاملات میں بھی اور بعض دوسرے معاملات میں بھی مشورے لیا کرتے تھے، مشورے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب نماز کے لئے بلانے کے طریق کی تجویز زیرغور آئی کہ کس طرح نماز کے لئے بلانا چاہئے اس وقت اذان کا رواج نہیں ہوا تھا تو بہت سارے لوگوں نے مشورے دئیے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی خواب کے ذریعہ سے عبداللہ بن زیدؓ اور حضرت عمرؓ کو اذان کے الفاظ سکھا دئیے۔ بہرحال جب یہ مشورے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لئے تو اس کا روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ’’ اس سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے وقت بلانے کے لئے اَلصَّلوٰۃُجَامِعَۃٌ کے الفاظ بآواز بلند پکارا کرتے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا کہ کس طرح بلایا جائے۔ مختلف لوگوں نے مشورے دئیے۔ کسی نے کہا کہ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے، کسی نے کہا کہ یہود کی طرح بگل بجایا جائے۔ کسی نے کہا کہ آگ روشن کی جایا کرے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں کو ناپسند فرمایا اور اسی رات انصار میں سے حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو اور مہاجرین میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے۔
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا۔ اس شخص نے ان کو اذان اور اقامت سکھائی اور صبح ہونے پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی رؤیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سچی خواب ہے۔ بلال کے ساتھ جاؤ اور اسے اذان کے وہ الفاظ سکھاؤ جو تمہیں سکھائے گئے ہیں کیونکہ اس کی آواز تم سے بلند ہے۔
حضرت عبداللہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا اور ان کو اذان کے الفاظ بتاتا جاتا اور وہ بآواز بلند ان کو دوہراتے جاتے تھے۔ تو جب یہ اذان ہو رہی تھی تو اس دوران میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ بھی جلدی جلدی گھرسے دوڑتے ہوئے آئے اور وہ کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے خواب میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے اب میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (المواھب اللدنیہ۔(روٗ یا الاذان)۔الجزء الاول۔دارالکتب العلمیہ بیروت طبع اول 1996صفحہ 163)(مسند احمد بن حنبل۔جامع ترمذی)
پھر بعض قومی معاملات میں بھی آپؐ عورتوں سے بھی مشورے لے لیا کرتے تھے۔ ازواج مطہرات سے بھی مشورے لے لیا کرتے تھے۔ حدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ اٹھو اور اونٹوں کو ذبح کرو۔ صحابہ کو اس کا بڑا افسوس تھا اور وہ اس پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ اس لئے کہ شاید اس کو شکست سمجھتے تھے۔ جب پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور صحابہ کوقربانیوں کا حکم دینے والا سارا واقعہ سنایا کہ اس طرح میں نے کہا ہے اورکوئی قربانی نہیں کر رہا۔ اس پر ام سلمہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ اپنی بات پر عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو پھر باہر نکلیں اور کسی سے کوئی بات کئے بغیر اپنے اونٹ کوقربان کر دیں اور حجام کو بلوا کے اپنا سر منڈوانا شروع کر دیں۔ تو دیکھیں صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے چلیں گے۔ چنانچہ آپؐ اٹھے اور خاموشی سے اسی طرح کرنا شروع کر دیا اور جب صحابہ نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور ذبح کرنے لگے اور ایک دوسرے کے سرمونڈھنے لگے۔ تو جن لوگوں کا خیال ہے اور اعتراض کرنے والوں کی طرف سے یہ شورمچایا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس روایت سے ظاہر ہے کہ اس موقع پر ایک عورت کی ہی ہوش و حواس پر قائم رائے مردوں کو راستہ دکھانے کا باعث بنی تھی۔ اس نے مردوں کو راستہ دکھایا تھا۔ کیونکہ اس وقت جوش میں پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ کیا کریں۔
غرض جیسا کہ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مختلف نوعیت کے مشوروں کے بے شمار واقعات ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن جیسا کہ ذکر کر آیا ہوں آپؐ اصل میں تو امت کو مشوروں کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ان کو مشوروں کی عادت ڈالنے کے لئے مشورے کیا کرتے تھے۔
اور اس بارے میں ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے۔ اس کو امانت کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اور پھر فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی اپنے بھائی سے مشورہ مانگے تو وہ اسے مشورہ دے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الادب۔باب المستشار موتمن)
اور مشورے کی یہ اہمیت ہے کہ اس کو امانت قرار دیا گیا ہے اور امانت کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے۔ پھر ایک روایت میں اس طرح بھی آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میری طرف جس نے بھی ایسی جھوٹی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔اور جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے بغیر رُشد کے مشورہ دیا یعنی بغیر غورو خوض اور عقل استعمال کئے تو اس نے اس سے خیانت کی ہے۔ (الأدب المفرد)
خیانت کرنے والوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گناہوں میں بڑھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ پس مشورے بھی بڑی سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ توفیق دے کہ وہ ان نصائح پر عمل کرنے والا ہو،اس اسوہ پر عمل کرنے والا ہو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مشورہ لیتے وقت کس قسم کے لوگوں سے مشورہ لینا چاہئے۔آپؐ نے فرمایا کہ سمجھدار اور عبادت گزار لوگوں سے مشورہ کرو اور مخصوص افراد کی رائے پر نہ چلو۔ (کنزالعمال جلد 3حدیث نمبر 7191)
صرف یہی ذہن میں نہ سوچ لو کہ یہ چند افراد ہیں، عقل کی بات کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔ یہ دیکھو کہ عقل ہو اور عبادت گزار ہو۔ پس اس میں بھی نمائندگان شوریٰ کے لئے توجہ اور نصیحت ہے کہ آپ لوگوں کو آپ کا یہ معیار سمجھتے ہوئے شوریٰ کا نمائندہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں اور دیگر ملکوں میں بعض جگہ شوریٰ ہو رہی ہیں۔ اس لئے عبادتوں کے حق بھی ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنی عقل اور اپنے علم کو دعا کے ساتھ مشورے کی شکل میں ڈھالیں تبھی اللہ تعالیٰ بہتر مشورے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اور اس میں برکت ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں