خلافت سے محرومی کا احساس

جماعت احمدیہ بھارت کے خلافت سوونیئر میں بہت سے ایسے حوالے بھی دیئے گئے ہیں جن سے غیروں کی خلافت سے محرومی کے احساس کی شدّت اور خلافت کی ضرورت کی تڑپ محسوس کی جاسکتی ہے۔
٭مولانا ابو الحسن علی ندوی (تعمیر حیات لکھنؤ):
’’اس وقت عالم اسلام خلافت کے اُس ضروری ادارے اور اُس مبارک نظام سے محروم ہے جس کے قیام کے مسلمان مکلف بنائے گئے ہیں اور جس سے محرومی کاجرمانہ مختلف شکلوں میں ادا کررہے ہیں‘‘۔
٭مولانا ابوالکلام آزادؔ (مسئلہ خلافت صفحہ 314 ):
’’ تمام لوگ کسی ایک صاحب علم و عمل مسلمان پر جمع ہو جائیں اور وہ ان کا امام ہو۔ وہ جو کچھ تعلیم دے ایمان و صداقت کے ساتھ قبول کریں۔ قرآن و سنت کے ماتحت جو کچھ احکام ہوں ان کی بلا چون و چرا تعمیل و اطاعت کریں۔ سب کی زبانیں گونگی ہوں، اسی کی زبان گویا ہو۔ سب کے دماغ بیکار ہو جائیں، صرف اسی کادماغ کار فرما ہو۔ لوگوں کے پاس نہ زبان ہو نہ دماغ، صرف دل ہو جو قبول کرے۔ صرف ہاتھ پائوں ہوں جو عمل کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ایک بھیڑ ہے، ایک انبوہ ہے، جانوروں کا ایک جنگل ہے …‘‘۔
٭ جناب عنظریف شہباؔز ندوی (ہفت روزہ نئیؔ دنیا دہلی مارچ 1996ء):
’’خلافت اُس نظام کا نام ہے جسے خالق کائنات کے احکامات کے مطابق اُس کے فرمانبردار بندے چلائیں گے۔ … آپ غور کریں گے تو لا محالہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ خلافت کے بغیر اسلام ادھورا رہ جاتا ہے۔ بلکہ نعوذ باللہ لنگڑا لولا بن جاتا ہے اور اُس کے اپنی مکمل شکل میں جلوہ گر ہونے کیلئے خلافت علی منہاج نبوت کا قیام انتہائی ضروری ہے‘‘۔
٭ مولانا عبد الماجد دریاآبادی نے فروری 1974ء میں اسلامی کانفرنس کے انعقاد پر اپنے اخبار ’’صدق جدید‘‘ میں ’’خلافت کے بغیر اندھیرا‘‘ کے عنوان کے تحت مضمون میں اظہارِ حسرت کیا۔
٭ پاکستانی ماہنامہ ’’ سبق پھر پڑھو‘‘ نے اگست 1992ء کی اشاعت میں لکھا: ’’حقیقتاً تمام حکمرانوں نے وہی شکل اختیار کررکھی ہے جو دورِ جہالت میں قبائل کے سرداروں نے اختیار کر رکھی تھی۔ اور جن سے اقتدار چھین کر رسول اللہﷺ نے ایک خلیفہ کے سپرد کیا تھا۔ قرآن و سنت سے ہماری یہ بڑی روگردانی ذلت و رسوائی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جس سے اس وقت اُمّتِ مسلمہ دو چار ہے۔ حل ایک ہی ہے کہ خلافت کی گاڑی جہاں سے پٹڑی سے اُتری تھی وہیں سے اُسے پھر پٹڑی پر ڈال دیا جائے۔ واضح اور دو ٹوک تشخیص کے بعد اُمّت کے تمام دُکھوں کیلئے ایک ہی شافی نسخہ ہے کہ خلافت کو اس دنیا میں پھر بحال کردیا جائے ‘‘۔
٭ احیاء خلافت کی حالیہ تحریکوں میں سے ایک تحریک کے داعی چوہدری رحمت علی صاحب خلافت کی ضرورت اور اہمیت کا احساس کراتے ہوئے اپنی کتاب ’’دارالسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ نفاذ غلبہ ٔ اسلام اور وجود وقیام ِ خلافت لازم و ملزوم ہیں۔ بالفاظ دیگر جیسے دن سورج کامحتاج ہے اور بغیر اندھیرے کے رات کاتصور ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح خلافت معرض وجودمیں ہوگی تو اسلام کا نفاذ وغلبہ ممکن ہوگا ورنہ

ایں خیال است و محال است وجنوں

… خلافت قائم تھی تو مرکزیت حاصل تھی، خلافت گئی تو انتشار و طوائف الملوکی نے ڈیرے آجمائے۔ خلافت تھی تو جملہ ذرائع و وسائل مجتمع تھے ، خلافت عنقا ہوئی تو وسائل و ذرائع کی فراوانی بھی بے معنی و بے اثر ہوکر رہ گئی۔خلافت تھی تو ہر ملک ، ملک ِ ماست بلکہ ملکِ خدائے مااست، والا منظر تھا۔ لیکن خلافت گئی تو محرومی و مجبوری بلکہ غلامی مسلمانوں کامقدر بن گئی‘‘۔
٭ جناب ذوالفقار علی شاہ صفوی بریلوی (چراغ راہنمائے ؔجہاں صفحہ4) لکھتے ہیں: ’’اگر خلیفہ نہ ہو تو دنیا کی اصلاح کون کریگا؟ اسلئے خلیفہ کاہونا اہم ہؤا … مناسب ہے عوام الناس کو کہ اللہ کے خلیفہ کو تلاش کرکے اطاعت کریں، خلیفہ کا ہونا ہر وقت لازمی ہے‘‘۔
٭ علامہ الشیخ الطنطاوی الجوہری اپنی کتاب ’’القرآن والعلوم العصریہ‘‘ میں آیت اِستخلاف کو درج کرکے لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا طریق بیان کرنے کے بعد ہم نے پھر اس آیت کو دہرایا ہے ۔ کیونکہ اس طریق کاعلم ہمیں کتابِ عزیز سے ہوتا ہے اور اِس کے بغیر مسلمانوں کی کامیابی کااور کوئی طریق نہیں ۔ نہ ہی انہیں زمین میں خوشحالی اور طاقت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی حکومت میسر آسکتی ہے اورنہ ہی ان کا خوف امن سے تبدیل ہوسکتا ہے۔ مگر صرف اور صرف اس (خلافت )کے ذریعہ ‘‘ ۔
٭ اہلسنت کارسالہ ماہنامہ ’’ جدوجہدؔ‘‘ لاہور اپنی اشاعت دسمبر 1960ء میں لکھتا ہے: ’’سب سے بڑا ظلم جو مسلمانوں نے اپنی خود غرضی کی بناء پر کیا وہ یہ تھا کہ خلافت علیٰ منہاج (النبوۃ) کا سلسلہ ختم کرکے دم لیا۔ اور اُمّتِ مسلمہ کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح جنگل میں ہانک دیا کہ جائو ،چرو، چُگو، اپنا پیٹ پالو۔ صرف خلافت ہی ایک ایسامنصب تھا جو مسلمانوں کو منتشر ہونے کی بجائے ایک مرکز پر جمع رکھتا اور ایک نصب العین مقرر کرکے ان کی تنظیمی قوت کو محفوظ رکھتا تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان اعلیٰ روایات کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے خلافت کی قبا چاک کرکے جابر سلطانی کا سلسلہ شروع کردیا اور امت کا شیرازہ اپنے ہاتھوں سے بکھیر دیا۔ … آج کل صرف اسماعیلی فرقہ اور احمدیہ جماعت دو ایسے فرقے ہیں جو خلافت علیٰ منہاج (النّبوۃ) کے اصول پر چل رہے ہیں اور باقی لوگ وہ ہیں جن کے ٹکڑوں پر ُملاّں لوگ پل رہے ہیں۔ کیا باقی مسلمان جو اکثریت میں ہیں اور تمام دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں ایک خلافت اسلامیہ قائم نہیں کرسکتے؟‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں