خلافت کے فیوض و برکات (خوبصورت یادیں)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 و 16؍جنوری 2009ء میں مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین ضیاء صاحب کے قلم سے خلافت کے ساتھ محبت اور خلافت کی برکات و فیوض کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔ مکرم ضیاء صاحب کے حالات زندگی قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2009ء کے اسی کالم میں شائع ہوچکے ہیں۔
٭ آپ بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری والدہ میرے ہاتھ حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں مکھن بھجواتیں۔ ایک دفعہ جب میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت مصلح موعودؓ بھی تشریف لے آئے۔ آپؓ کے ہاتھ میں ایک پلیٹ اور ایک روٹی تھی۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا: محمود! ایک لقمہ اس بچے کو بھی دو۔ حضورؓ نے ایک لقمہ مجھے بھی دیدیا۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا: محمود ایسے نہیں، ایک لقمہ لے کر اپنے دانتوں سے آدھا توڑ کر خود اپنے ہاتھ سے اس بچے کو کھلاؤ۔
٭ قادیان میں اکثر موسم برسات میں وقارعمل ہوا کرتا تھا۔ حضورؓ بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ میں ان دنوں طفل تھا اور پانی پلانے کی ڈیوٹی سرانجام دیتا۔
٭ مدرسہ احمدیہ قادیان میں پڑھتا تھا تو حضرت سید میر محمد اسحق صاحبؓ عصر کے بعد درس حدیث دیا کرتے تھے۔ ایک حدیث مجھے کبھی نہیں بھولی کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ فرشتوں نے کہا یہ بہت نیک شخص تھا اس کو پہلے آسمان پر پہنچا دو۔ اسی طرح سے دوسرے پھر تیسرے آخر ساتویں آسمان پر وہ شخص پہنچ گیا۔ وہاں فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس شخص میں ایک برائی تھی اور وہ متکبر تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر اس کو زمین پر پھینک دو۔ یہ حدیث مجھے ہمیشہ یاد رہی۔ بعض دفعہ انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور اُس کے منہ سے تکبر کی بات نکل جاتی ہے۔
٭ قادیان میں ہماری ایک عزیزہ اپنے بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہ بچے چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد کی محبت سے محروم ہو گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے احباب سے پوچھا کہ ان بچوں کی پرورش کون کرے گا۔ اس پر حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ نے عرض کیا حضور ہم ان بچوں کی پرورش اپنے بچوں کے ساتھ کریں گے۔ چنانچہ خلافت کی برکت سے ایک غریب عورت کے بچوں کی پرورش ایک نواب کے گھرانہ میں ہوئی۔
٭ قادیان میں حضورؓ کی تحریک پر میں فوج میں بھرتی ہوکر دارجیلنگ آگیا۔ یہ کوہ ہمالیہ کا خوبصورت صحت افزا مقام ہے جہاں ماؤنٹ ایورسٹ کا نظارہ کرنے کے لئے لوگ دُور دُور سے آتے ہیں۔ جس پہاڑی سے نظارہ کیا جاتا ہے اس کا نام ٹائیگر ہل ہے۔ میں وہاں فوج کی طرف سے لوکل پرچیز آفیسر (Purchase) کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ایک دفعہ قادیان سے ہمارے انسپکٹر مال تشریف لائے اور انہوں نے چائے کی فرمائش کی۔ میں نے کمپنی کے انگریز مینیجر کو فون کیا تو انہوں نے 14 پاؤنڈ چائے بھجوا دی اور بتایا کہ یہ چائے وائسرائے ہند کے لئے پیک کروائی تھی اور یہ بازار سے آپ کو نہیں ملے گی۔ اس کیلئے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر اور تین سال کے پودوں کی اوپر کی تین کونپلیں ہم لیتے ہیں اور اس کی قیمت پانچ روپے فی پاؤنڈ ہے جبکہ دوسری چائے جو ہم بازار میں سپلائی کرتے ہیں اس کی قیمت تین آنے فی پاؤنڈ ہے۔ مَیں نے اُس میں سے دو پاؤنڈ چائے انسپکٹر صاحب کو دیدی اور باقی اپنے والد صاحب کو اُن کے ہاتھ بھجواکر لکھ دیا کہ اس میں سے چار پاؤنڈ حضورؓ کو اور باقی فلاں فلاں کو دیدیں۔ جب حضورؓ نے یہ چائے استعمال کی تو والد صاحب سے دریافت کیا یہ چائے کہاں سے آئی ہے؟ پھر فرمایا کہ ضیاء الدین کو لکھیں کہ ہر ماہ چار پاؤنڈ چائے مجھے بھجوا دیا کریں۔ چنانچہ میں نے کمپنی کے مینیجر صاحب کو تاکید کی کہ ہر ماہ چار پاؤنڈ چائے حضور کی خدمت میں بھجوا کر بل مجھے بھجوا دیں۔ مینیجر صاحب کہنے لگے ہم ہر ماہ حضور کی خدمت میں چائے بھجوا دیا کریں گے اور قیمت نہیں لیں گے، ہمارے لئے یہی بہت بڑا اعزاز ہے کہ جماعت احمدیہ کے امام کی خدمت کا موقعہ آپ نے ہم کو دیا ہے۔
٭ کلکتہ میں میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ دائر کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ مخالفوں نے جو کچھ اُن کے بس میں تھا، وہ کیا۔ مَیں حضورؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتا رہا۔ قریباً 6 ماہ بعد مجھے عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے خلاف دو اصل ملزموں کو وعدہ معاف گواہ بنا کر پیش کیا گیا۔ گیارہ افسر بھی بطور گواہ پیش ہوئے۔ مخالفین کو یقین تھا کہ مجھے تین سال کی جیل ہوجائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی دعاؤں کو سنا اور مجھے پہلی ہی پیشی پر باعزّت رہائی مل گئی بلکہ میرے خلاف جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔
٭ 1947ء میں جب ہندوستان میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کلکتہ، ممبئی اور لاہور کے فسادات دیکھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے احمدی خلافت کی برکت سے ہر جگہ محفوظ رہے۔
پارٹیشن کے وقت میں قادیان میں تھا۔ حضور لاہور رتن باغ میں تشریف لاچکے تھے اور نہ صرف احمدیوں کے بارہ میں بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی فکرمند تھے۔ درویشان قادیان میں میرا نمبر 301 تھا۔ 10 نومبر 1947ء کو مجھے مرکز کی طرف سے حکم ملا کہ کنوائے میں پاکستان چلا جاؤں اور 25 دسمبر کو حضورؓ کی خدمت میں رپورٹ کروں۔
جب ہم قادیان سے امرتسر پہنچے تو ہماری لاری کے ڈرائیور نے ہارن دیا۔ آگے ایک عورت پانی کا گھڑا اٹھائے سڑک پر سے گزر رہی تھی۔ وہ یکدم گھبرا گئی اور اس کا گھڑا گر کر ٹوٹ گیا۔ اس پر نوجوانوں نے لاری کو گھیرلیا۔ تھوڑی دیر میں SP اور DC پہنچ گئے۔ دونوں نہایت ہی شریف انسان تھے۔ انہوں نے ہجوم سے کہا آپ فکر نہ کریں ہم ان کو پولیس سٹیشن لے جائیں گے۔ ہماری کنوائے کی تین گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے پچھلی دونوں گاڑیوں کو واہگہ جانے کی اجازت دیدی اور ہماری گاڑی کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دُور جا کر کہا کہ آپ اس کچے راستے سے چلے جائیں یہ راستہ واہگہ بارڈر پر لے جائے گا۔ جہاں پر دوسری دونوں گاڑیاں انتظار کررہی ہیں۔ جب ہم بارڈر پر پہنچے تو وہ دونوں گاڑیاں ہمارا انتظار کررہی تھیں شام ہوچکی تھی۔ گیٹ بند ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ ہم نے گیٹ کراس کیا اور پاکستان کی سرحد میں داخل ہوکر رتن باغ کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں سڑک کے دونوں طرف مہاجروں نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا اور سخت بو آرہی تھی۔ کتنے تھے جو بڑی مشکل سے پاکستان پہنچے لیکن یہاں آکر دم توڑ دیا۔ ان بیچاروں کی لاشیں سڑک کے دونوں جانب پڑی ہوئی تھیں۔ لیکن ہم لوگ خلافت کی برکت سے خیریت سے رتن باغ پہنچ گئے جہاں پیارے آقا نے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کر رکھا تھا۔
٭ ایک خواب کی بنا پر جب میں فوج کی ملازمت چھوڑ کر ربوہ آگیا اور مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت کا موقعہ ملا تو جب میں حضور کو مساج کرنے کے بعد ایکسرسائز کرواتا تو حضورؓ کچھ تکلیف محسوس کرتے۔ مگر اس سے حضورؓ کی صحت دن بدن بہتر ہونے لگی۔ ہمارا خیال تھا اس دفعہ جلسہ سالانہ پر حضور افتتاحی خطاب فرماویں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔
اکتوبر 1965ء کے آخر پر آپؓ کی صحت دن بدن گرنے لگی۔ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے مجھے اور مکرم لطف الرحمن صاحب شاکر کو حکم دیا کہ ہم دونوں قصر خلافت میں حضور کے کمرہ کے قریب والے کمرہ میں منتقل ہوجائیں۔

ایک رات اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امّ ناصر صاحبہ تشریف لائی ہیں اور حضور کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جا رہی ہیں اور اس عاجز سے فرماتی ہیں: ضیاء الدین صاحب! میں محمود کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں۔ اب آپ ناصر کا خیال رکھنا اور جس طرح محمود کے لئے آتے تھے اسی طرح ناصر کے پاس آتے رہنا۔ خواب بالکل واضح تھی۔
حضورؓ کی وفات سے ایک رات پہلے یہ عاجز رات گیارہ بجے حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور کو بٹھایا اور کمر پر مساج کی۔ اگلی رات حضورؓ کی وفات ہوئی اور اُسی شام خلافت کا انتخاب ہوا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب منصب خلافت پرمتمکن ہوگئے۔ یہ عاجز بیعت کے بعد اپنے کمرہ میں آگیا۔ حضورؒ جب قصر خلافت میں تشریف لائے تو سیڑھیوں میں یہ عاجز کھڑا ہوگیا اور حضور کو مبارکباد دی اور معانقہ کیا۔ حضورؒ نے فرمایا ابھی 3 دن تک یہاں ہی قصر خلافت میں رہنا اور جب جانا ہو تو مجھے مل کر جانا۔ تین دن کے بعد میں نے حضورؒ سے اجازت مانگی تو حضورؒ نے فرمایا: آپ جس طرح پہلے آیا کرتے تھے، اسی طرح آتے رہنا۔ میں نے عرض کیا: حضور! یہ تو مجھے پہلے ہی خواب میں آپ کی والدہ صاحبہ فرما گئی تھیں اور میں نے وہ خواب حضور کو سنا دی۔
٭ ایک روز لاہور سے ایک غیرازجماعت افسر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملنے کے لئے تشریف لائے اور دعا کے لئے عرض کی کیونکہ اُنہیں آدھے سر کی درد کا عارضہ لاحق تھا اور بہت علاج کروانے سے بھی آرام نہیں آرہا تھا۔ حضورؒ نے فرمایا میں آپ کے لئے دعا کروں گا آپ ضیاء الدین صاحب سے نسخہ لکھوا لیں انشاء اللہ آرام آجائے گا۔ جب یہ عاجز حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ ایک غیراز جماعت دوست میں نے بھجوائے ہیں، ان کو نسخہ لکھ دینا۔ اور دریافت فرمایا کہ کیا نسخہ لکھ کر دو گے؟ میں نے عرض کیا حضور یہ نسخہ ہے۔ آپ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی شامل کرلیں۔
٭ خاکسار کی تنخواہ کے بارہ میں انجمن میں کیس چل رہا تھا۔ ان دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں دو روٹیاں ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: باہر کی دو روٹیوں سے یہاں کی آدھی روٹی بہتر ہے اور آپ نے آدھی روٹی مجھے عطا فرمادی۔ یہ خواب میں نے حضورؒ کو سنادی۔ چند دنوں کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا تمہاری تنخواہ کا کیس انجمن نے میرے پاس منظوری کے لئے بھجوایا ہے۔ انجمن نے لکھا ہے باہر دو ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں لیکن انجمن ضیاء الدین صاحب کو پانچ سو روپے ماہانہ دینے کی سفارش کرتی ہے۔ میں نے منظوری دیدی ہے اور اس طرح تمہاری خواب بھی پوری ہوگئی ہے۔
٭ ایک روز حضورؒ نے مجھے شہد کی ایک بوتل دی اور فرمایا کہ یہ اپنی بیگم کو میری طرف سے دیدیں اور اُن سے کہیں یہ شہد ابھی استعمال نہیں کرنا۔ جب آپ کے ہاں بیٹا ہو تو اُس کو اِس شہد کی گڑتی دینا اور خود بھی استعمال کرنا اور ساتھ ہی مجھے 10 روپے دیئے اور فرمایا ان کی مٹھائی اور پھل خرید کر گھر لے جانا اور میری طرف سے بچوں کو دینا۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ عرصہ بعد ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا پیدا ہوا۔
٭ میں نے ایک دفعہ مکرم صوبیدار عبد المنان صاحب افسر حفاظت سے کہا کہ آپ حضورؒ کی خدمت میں کیوں نہیں عرض کرتے کہ پہریداروں کو بھی انجمن کے کارکنان کی طرح سہولتیں ملنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا: میں تو حضور کی خدمت میں عرض کرنے سے رہا۔ دو دن بعد ایک پہریدار نے مجھ سے کہا کہ میرا بچہ بیمار ہے آپ گھر پر ہی دیکھ لیں۔ میں اُن کے گھر گیا۔ تو اُن کی اہلیہ سے کہا کہ آپ نے گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے، بچے بیمار نہ ہوں تو کیا ان حالات میں تندرست رہیں گے؟ وہ کہنے لگیں: بھائی جان! میرے میاں کی تنخواہ بہت کم ہے۔ گھر کے اخراجات کے لئے کچھ بچتا نہیں، بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ اگلے روز حضور کی خدمت میں مَیں نے سارا واقعہ عرض کر دیا تو حضورؒ نے ازراہ شفقت انجمن کو لکھا کہ پہریداروں کے بھی وہی حقوق ہونے چاہئیں جو دوسرے کارکنوں کے ہیں۔ بلکہ حضورؒ نے اپنی طرف سے مزید الاؤنس دینا بھی منظور فرمایا۔
٭ مجھے انجمن کی طرف سے 30روپے کا الاؤنس ملا کرتا تھا۔ وہ کسی وجہ سے انجمن نے بند کر دیا۔ جب حضور کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا تم انجمن سے کسی قسم کا الاؤنس نہ لینا۔ میں نے عرض کیا حضور میں نہیں لوں گا۔ جب میں ہسپتال پہنچا تو ایک کارکن نے مجھے ایک لفافہ دیا جس میں حضورؒ کا ایک خط تھا اور ساتھ نوٹ تھے۔ اگلے روز میں نے عرض کیا حضور! آپ کے بھیجے ہوئے نوٹ میں نے بطور تبرک رکھ لئے ہیں لیکن میں آپ سے کسی قسم کا الاؤنس نہیں لوں گا۔ اس پر حضورؒ نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب سے فرمایا ضیاء الدین صاحب کو ہسپتال کی طرف سے 30روپے ماہوار الاؤنس ملتا رہنا چاہئے جو مجھے آخر تک ملتا رہا۔
٭ حضور نے ایک دفعہ فرمایا: ناظر صاحب امورعامہ سے مل لیں۔ لاہور سے ایک فائل لانی ہے۔ لیکن ہر حال شام کو واپس آجانا۔ لاہور میں رات کو نہیں رُکنا۔ میں ناظر صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے ایک چٹھی قائد صاحب خدام الاحمدیہ لاہور کے نام دی اور سمجھا دیا۔ میں حسب ہدایت صبح کی ٹرین سے لاہور چلاگیا۔ قائد صاحب سے ملا۔ انہوں نے فرمایا کہ تم ڈسٹرکٹ کورٹ چلے جاؤ اور اِس وکیل کو مل لو۔ میں ڈسٹرکٹ کورٹ پہنچا۔ اُن وکیل صاحب نے کہا: آپ ڈپٹی کمشنر جھنگ سے لکھوا کر لائیں تو پھر فائل مل سکے گی۔ میں تھک کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور دل میں دعا کرنے لگا۔ اچانک میری نظر ایک عرضی نویس پر پڑی۔ میں اس کے پاس گیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس نے کہا ایک اٹھنی دیں میں نے اس کو ایک اٹھنی دیدی۔ اُس نے ڈپٹی کمشنر کے نام ایک درخواست لکھی اور کہا یہاں تین ڈپٹی کمشنر ہیں۔ اس کا تعلق وہ سامنے والے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ہے آپ وہاں چلے جائیں۔ اندر جانے سے چپڑاسی آپ کو روکے گا۔ آپ نے اُس کی بات نہیں سننی بلکہ چق اٹھا کر اندر چلے جانا۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب ڈاک دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے وہ درخواست آگے رکھ دی۔ انہوں نے درخواست پر لکھا: ADM برائے فوری کارروائی۔ پھر چپڑاسی سے کہا صاحب کو ADM کے پاس لے جاؤ۔ ADM کے ریڈر کو وہ درخواست دی تو اُس نے تین عدد فارم نکالے اور اُن کو پُر کر کے وہ درخواست ساتھ لگائی اور میرے لئے چائے منگوائی اور کہا آپ چائے پئیں، ADM کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہے میں کوشش کروں گا صاحب اس پر دستخط کر دیں۔ وہ دستخط کروا کر لے آیا اور چپڑاسی کے ہاتھ میں درخواست دیدی اور کہا ان کو ڈپٹی کمشنر کے پاس لے جاؤ۔ انہوں نے اپنے دستخط کئے اور مہر ثبت کی اور کہا اب آپ اس کو فلاں دفتر میں لے جائیں۔ جب میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے باہر نکلا تو ان کے ریڈر کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ آکر مجھ سے جھگڑنے لگا کہ تم کس کی اجازت سے صاحب کے پاس گئے تھے۔ اس پر صاحب کا چپڑاسی قریب آیا اور ریڈر کے کان میں کچھ کہا تو ریڈر کا غصہ فوراً ٹھنڈا پڑ گیا اور کہا صاحب مجھے معاف کرنا۔ اور فوراً ایک رکشا منگوایا اور رکشا والے سے کہا صاحب کو فلاں دفتر لے جاؤ۔ وقت تنگ ہے دفتر بند ہونے والا ہے۔ اس لئے جلدی کرو اور صاحب سے کرایہ نہیں لینا وہ میں ادا کروں گا۔ رکشے والے نے رکشا بہت تیز چلایا۔ دفتر بند ہونے میں صرف دو منٹ رہتے تھے۔ میں دفتر میں حاضر ہوا تو تمام سٹاف اٹھ رہا تھا۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ سے کہا: صاحب میں ربوہ سے آیا ہوں میرا کام آپ کردیں کیونکہ میں رات کو لاہور میں نہیں ٹھہر سکتا۔ وہ کہنے لگا آپ صبح تشریف لے آئیں۔ میں نے پھر عرض کیا صاحب میں نے آج ہی ربوہ واپس پہنچنا ہے۔ اس سٹاف میں وہ کلرک بھی بیٹھا ہوا تھا جس نے چھٹی نہیں کرنی تھی اور شام تک ڈیوٹی دینی تھی اس نے مجھ سے کہا آپ یہاں آجائیں میں آپ کا کام کر دوں گا۔ ان کو جانے دیں۔ دو منٹ میں دفتر خالی ہوگیا اور ڈیوٹی والے کلرک نے اپنا ٹفن کھولا اور کہنے لگا آئیے کھانا کھائیں۔ میں نے انکار کیا تو اُس نے کینٹین سے چائے منگوادی۔ چائے سے فارغ ہو کر اس نے کہا وہ فائل کب کی ہے۔ کوئی مہینہ اور سن وغیرہ یاد ہے۔ اب میں کیا جواب دیتا مجھے تو کچھ علم نہیں تھا۔ دل میں دعا کی اور اللہ کا نام لے کر کہا ستمبر، اکتوبر ، نومبر 1965ء میں آپ دیکھیں۔ اکتوبر 1965ء میں وہ فائل نکل آئی۔ اس نے وہ فائل مجھے دی اور میری درخواست پر میرے دستخط لئے اور ایک نئی فائل بنا کر اس فائل کی جگہ رکھ دی۔ میں فائل لے کر دفتر سے باہر آیا اور بس پکڑی۔ ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر ربوہ کی ٹکٹ لی اور پلیٹ فارم کی طرف بھاگا۔ کیا دیکھتا ہوں گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی ہے۔ رش اتنا زیادہ ہے کہ دروازے پر بھی 10,8 آدمی لٹکے ہوئے ہیں۔ میں نے ہمت کی اور اپنا ایک پاؤں فٹ بورڈ پر رکھا اور ہینڈل کو پکڑ کر لٹک گیا۔ ٹرین کے اندر ایک شخص میری حالت زار دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا آپ اندر آجائیں۔ لیکن اندر جانا آسان نہیں تھا۔ بہر حال میں نے کوشش کی اندر آگیا۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ ٹائلٹ میں بھی چار آدمی کھڑے تھے۔ خیر میں اُس شخص کے قریب پہنچا تو انہوں نے ساتھ والے دوست سے کہا آپ اٹھ جائیں اور ان کو بیٹھنے دیں۔ میں نے کہا نہیں آپ ان کو نہ اٹھائیں میں یہاں کھڑا ہی ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ نہ مانے اور مجھے بٹھا ہی دیا۔ جب میں بیٹھ گیا تو انہوں نے دریافت کیا آپ کہاں جارہے ہیں میں نے بتلایا کہ ربوہ جانا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ میں سرگودھا جا رہا ہوں اور کھانے کے لئے کچھ نکالا اور کہا لگتا ہے صبح سے آپ نے کچھ کھایا نہیں۔ آپ تھوڑا بہت کھالیں اور تھرماس سے چائے نکالی اور مجھے پینے کے لئے دی۔ میں شام کو ربوہ پہنچ گیا اور اگلے روز وہ فائل ناظر صاحب کو دی۔ جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے دریافت فرمایا وہ فائل لے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا جی لے آیا ہوں اور ناظر صاحب کو دے آیا ہوں۔ لیکن میں نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا حال بیان کروں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی برکت سے فرشتوں سے میری مدد فرمائی۔
٭ میں نے محلہ دارالعلوم شرقی میں ایک کنال کا پلاٹ تو خرید لیا لیکن مکان بنانا بہت مشکل نظر آرہا تھا۔ میں نے حضورؒ سے ذکر کیا تو آپؒ نے فرمایا شروع کریں اللہ تعالیٰ مدد فرماوے گا اور ایک اینٹ پر دعا کرکے دی کہ اس اینٹ کو بنیاد میں رکھ دینا۔ ہم نے تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ حضور روزانہ دریافت فرماتے اب کہاں تک پہنچا ہے۔ بہرحال مکان تعمیر ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح سے غیب سے مدد فرمائی یہ خود ایک ایمان افروز واقعہ ہے۔ پانی کے لئے کنواں کھدوایا گیا تو پانی میٹھا نکل آیا اور کھدائی کے دوران اشوک کے زمانہ کے سکے اور مہاتما بدھ کے مجسمے نکلے۔ صاف کرنے پر سکے تو سارے کے سارے بُھر گئے اور مجسمے اکثر تو بُھر گئے لیکن دو مجسمے بچ گئے۔ ایک مجسمہ بالکل صحیح حالت میں تھا اس کو صاف کر کے میں نے حضور کو دیدیا اور سارا واقعہ بیان کر دیا۔
٭ خاکسار کی اہلیہ مرحومہ حضرت منشی عبد الحق صاحب کاتب (والد محترم مولانا ابوالمنیرنورالحق صاحب) کی بیٹی تھیں۔ بہت ہی نیک خاتون تھیں۔ ربوہ میں اپنے محلہ کی اور جرمنی میں لوکل مجلس کی صدر لجنہ رہیں۔ ایک دفعہ گھر میں کوئی پریشانی تھی۔ تو آپ نے دعا کی اور خواب میں حضرت اماں جانؓ کو دیکھا جنہوں نے فرمایا کہ تم امّ ناصر کے پاس جاؤ اور دعا کے لئے کہو اور ان کی ایک قمیص بھی مانگنا اور خالی ہاتھ نہ جانا خواہ ایک چونی ہی بطور نذرانہ پیش کرنا ور جب کبھی کوئی پریشانی ہو تم امّ ناصر والی قمیص پہن کر دعا کرنا، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ حضرت امّ ناصرؓ نے مسکرا کر اپنی ایک قمیص عطا فرمائی جسے آپ اکثر تہجد کے وقت پہنا کرتی تھیں۔ وفات والے دن بھی صبح تہجد میں وہ قمیص پہنی ہوئی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زندگی میں ہی اس عاجز نے ایک خواب دیکھی جس میں بتلایا گیا تھا کہ اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا دور شروع ہونے والا ہے اور وہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ہوں گے۔ یہ خواب الفضل میں بھی شائع ہوئی تھی۔
میری اہلیہ کی والدہ صاحبہ کا انتقال 1948ء میں ہوا تھا۔ جب وہ قادیان سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائیں تو انہوں نے اپنی ایک خواب کا ذکر کیا جس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آئندہ کبھی خلیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے خاندان میں سے ہوگا۔ میری اہلیہ نے یہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بھی سنائی تھی۔
میرے بھانجے عزیزم پروفیسر محمد اسلم صاحب (آسٹریلیا) نے بھی ایک خواب میں دیکھا تھا کہ ایک گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تشریف فرما ہیں اور ان کی دائیں جانب سیٹ پر ایک چھوٹی داڑھی والے بیٹھے ہیں۔ اتنے میں آسمان سے نور کا ہیولا آیا اور اس نے اس گاڑی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر وہ ہیولا آسمان کی طرف پرواز کرگیا۔ تو دیکھا سیٹ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نہیں ہیں۔ پھر ساتھ والے صاحب ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے۔ غور سے دیکھا تو وہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ) تھے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں