خلفاءِ احمدیت کے بارہ میں تاثرات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے خلافت نمبر (23؍مئی 1998ء) میں ایک مضمون مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس میں خلفاءِ احمدیت کے بارے میں نامور غیرازجماعت افراد اور اخبارات کے تاثرات پیش کئے گئے ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے بارے میں سرسید احمد خان اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں ’’… جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر جب اور ترقی کرتا ہے تو فلسفی بننے لگتا ہے پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے۔ جب یہ ترقی کرے تو … مولانا نورالدین ہو جاتا ہے‘‘۔
کرنل ڈگلس کی عدالت میں جب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بطور گواہ صفائی پیش ہوئے تو کرنل صاحب نے کہا ’’خدا کی قسم اگر یہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں جو اس پر پورا پورا غور کرنے کے لئے تیار ہوں گا‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات پر کشمیری میگزین نے لکھا کہ مولوی نورالدین جیسا قابل فرزند ہندوستان میں ایک عرصہ کے بعد پیدا ہوسکے گا۔
مولانا ظفر علی خان نے لکھا ’’مذہبی عقائد سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو بھی مولانا حکیم نورالدین صاحب کی شخصیت اور قابلیت ضرور اس قابل تھی کہ تمام مسلمانوں کو رنج و افسوس کرنا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ زمانہ سو برس تک گردش کرنے کے بعد ایک باکمال پیدا کیا کرتا ہے۔ الحق اپنے تبحر علم و فضل کے لحاظ سے مولانا حکیم نورالدین بھی ایسے ہی باکمال تھے۔ افسوس ہے آج ایک زبردست عالم ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا ہے …‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ غیرازجماعت احباب میں ایک مؤرخ، سیاستدان، مفسر قرآن کی حیثیت سے خراج تحسین وصول کرتے رہے۔ ایک اجلاس میں جس کی صدارت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کر رہے تھے، جب حضورؓ نے مذہب اور سائنس کے موضوع پر لیکچر دیا تو آخر میں علامہ نے کہا ’’ایسی پر از معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے … میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہورہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ نے مسٹر رام چندمچندہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں اپنا لیکچر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ دیا تھا۔ جناب صدر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا … یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیرمسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا…‘‘۔
ایک موقعہ پر حضورؓ کی اسلامی تاریخ کے موضوع پر تقریر کے بعد نامور مؤرخ پروفیسر سید عبدالقادر صاحب نے اپنے صدارتی ریمارکس میں کہا ’’آج شام کو جب میں ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس لیمپ (جو میز پر تھا) کی روشنی اور بجلی کے لیمپ کی روشنی (جو اوپر آویزاں تھا) میں ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بارے میں نمونۃً ایک واقعہ پیش ہے۔ اگست 1974؁ء میں آپؒ 11 دن پاکستان قومی اسمبلی میں پیش ہوئے اور اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ممبران کی طرف سے پیش کردہ سوالات کی وضاحت حضور سے حاصل کی۔ حضور انور نے ان سوالات کے کافی و شافی جوابات دئے جن سے ممبران اسمبلی بے حد متاثر ہوئے، جس کا اعتراف جمعیت علماء اسلام کے صدر اور ممبر قومی اسمبلی مولانا مفتی محمود صاحب نے ان الفاظ میں کیا:
’’اس میں شک نہیں کہ ممبران قومی اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا بلکہ اُن سے متاثر ہو چکا تھا تو ہم بڑے پریشان تھے … خصوصاً جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصر احمد آیا تو قمیص پہنے ہوئے اور شلوار شیروانی میں ملبوس بڑی پگڑی طرّہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی تو ممبران نے دیکھ کر کہا کہ کیا یہ شکل کافرکی ہے۔ اور جب وہ بیان پڑھتاتھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضور اکرمﷺکا نام لیتا تھا تو ہمارے ممبران ہمیں گھور گھورکر دیکھتے تھے کہ قرآن اور رسول کے نام کے ساتھ درود شریف پڑھتاہے اور تم اسے کافر کہتے ہو اور دشمن رسول کہتے ہو۔ یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپکو مسلمان کہتا ہے تو تمہیں کیا بنی ہے کہ آپ ان کوکافر کہیں۔ … میں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات مجھے رات کو تین چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی‘‘۔
ہفت روزہ NU (ہیگ) حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بارے میں لکھتا ہے ’’ہم نے ایک مقدس وجود سے ہاتھ ملائے۔ یہ ہے وہ تاثر جو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد امام جماعت احمدیہ سے مل کر ابھرتا ہے۔ آپ یورپی خدوخال رکھتے ہیںا ور چہرے سے آپ کے نور جھلکتا ہے جو اہل مغرب کو اپنی طرف کھینچتا ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’فجّی ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ وہ مختلف نوع صلاحیتوں کا مجموعہ ہیں۔ عالم دین ہیں اور سائنسی باریکیوں اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ شکاری، کھلاڑی، منتظم، شاعر اور مقرر ہیں، انگریزی اور عربی میں بھی روانی سے گفتگو کرسکتے ہیں… اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو انتہائی صلاحیتوں کا حامل ایک رہنما عطا کیا ہے جو روحانی اور دنیاوی علوم کے خزانوں سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک متحرّک ذہین دماغ اور زبردست قوّت تقریر کا مالک ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں