خلفاء راشدین کے تقویٰ کی شان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4جون 2011ء میں مکرم مظفر احمد درّانی صاحب کے قلم سے خلفاء راشدین کے تقویٰ کے حوالہ سے ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
= حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ کے والد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے ایک پرانے غلام سے ایک چیزلے کر کھا لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چیز ناجائز ذریعہ سے حاصل کی ہوئی تھی تو آپؓ نے فوراً منہ میں ہاتھ ڈال کر پیٹ میں جو کچھ تھا سب قے کر دیا۔
= ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی جس میں زیادتی حضرت عمرؓ کی طرف سے ہوئی تھی۔ اگرچہ دونوں کو غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور دونوں ہی نادم تھے۔ مگر اصل معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا تو آپؐ نے حضرت عمرؓ کو ڈانٹنا شروع کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے تقویٰ نے جوش مارا اور آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر باربار عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! غلطی میری تھی، غلطی میری تھی۔ آپ ہمیں معاف فرما دیں۔
= آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات پاگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو ہر گز قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ کسی اور کے منہ سے بھی اس کا اظہار سننا آپ کو گوارا نہ تھا۔ مگر جب حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے آکر آیتِ قرآنیہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کی تو حضرت عمرؓ کا تقویٰ دیکھئے کہ یہ آیت سنتے ہی سارا جوش جاتا رہا اور فوراً ہی سرِتسلیم خم کیا۔
= حضرت عمر رضی اللہ عنہ نمازوں میں تلاوت کے دوران تقویٰ اللہ سے خوب روتے، آپ کی آواز پچھلی صفوں تک سنی جاتی۔ اللہ تعالیٰ کے مؤاخذہ کا خوف آپ کو اس قدر تھا کہ کہا کرتے تھے کہ ’’ میرا تو دل چاہتا ہے کہ کاش برابر میں ہی چھوٹ جاؤں اور مجھ سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو، خواہ کوئی انعام نہ ہی دیا جائے‘‘۔
= 18 ھ میں عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کے لئے بہت بے چین ہو گئے۔ دُور دراز سے غلّہ اور خورونوش کا سامان منگوا کر تقسیم کیا اورخود اپنی مرغوب غذائیں چھوڑ دیں۔ گھی مہنگا ہوا تو تیل کھانے لگ گئے۔ اگرچہ اس وجہ سے بیمار بھی ہوگئے مگر تقویٰ اللہ غالب تھا۔ فرمایا کہ اس وقت تک گھی نہیں کھاؤں گا جب تک سب لوگوں کے لئے میسر نہ آجائے۔
= ایک رات حضرت عمرؓ گشت پر تھے کہ ایک بدُّو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی ۔ معلوم ہوا کہ اُس کی عورت کے ہاں ولادت متوقع ہے مگر گھر میں دوسری کوئی عورت مدد کے لئے نہیں ہے۔ آپ فوراً اپنے گھر آکر اپنی زوجہ مطہرہ حضرت امّ کلثوم بنت علیؓ کو ساتھ لائے جنہوں نے اس عورت کی مدد اور خدمت کی۔اور کچھ ہی دیر کے بعد آواز دی کہ اے امیرالمومنین! مبارک ہو، آپ کے دوست کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس پر وہ بدُّو چونکا کہ امیر المومنین اپنی اہلیہ سمیت ہماری خدمت کے لئے آئے ہیں۔ مگر آپؓ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں، کل میرے پاس آجانا، بچے کے لئے وظیفہ بھی مقرر کردیا جائے گا۔
= حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنے ایک غلام کی غلطی پر اس کی گو شمالی کی یعنی کسی بات پر تنبیہ کے لئے کان مروڑے۔ پھر رحم غالب آیا تو اس غلام کو بلا کر فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لے لو۔ اس پر اس نے آپ کا کان پکڑلیا تو آپ نے فرمایا کہ اَور سختی سے مروڑو کہ اسی دنیا میں جو بدلہ چکا دیا جائے وہ کیا خوب ہے۔
= حضرت عثمانؓ اپنے گھر میں کئی غلام اور لونڈیاں ہونے کے باوجود اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ رات کو اُٹھ کر اپنی ضروریات خود پوری کرتے تھے حتیٰ کہ وضو کے پانی کا رات کو بھی خود انتظام کرتے۔ کسی نے کہا کہ خادم کی مدد لے لیا کریں۔ چونکہ دل میں تقویٰ بھرا ہوا تھا، اس لئے فرمایا کہ رات تو اُن کے آرام کے لئے ہے ۔ پھر میں کیونکر اُن کے آرام میں خلل ڈالوں۔
= حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک کافر سے جنگ ہوئی۔ جنگ میں مغلوب ہو کر وہ کافر بھاگا۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہٗ نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے پکڑا۔ اس سے کشتی کر کے اسے زیر کر لیا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس کی چھاتی پر خنجر نکال کر اس کے قتل کرنے کے واسطے بیٹھ گئے تو اس کافر نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ اس کی چھاتی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے الگ ہو گئے۔ وہ کافر اس معاملہ سے حیران ہوا اور تعجب سے اس کا باعث دریافت کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تو محض خدا کے حکم سے کرتے ہیں، کسی نفسانی غرض سے نہیں کرتے بلکہ ہم تو تم لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے تم کو پکڑا خدا کے لئے تھا، مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو اس سے مجھے بشریت کی وجہ سے غصہ آگیا، تب میں ڈرا کہ اگر اس وقت جب کہ اس معاملہ میں میرا نفسانی جوش بھی شامل ہو گیا ہے تم کو قتل کروں تو میرا سارا ساختہ پرداختہ ہی برباد ہو جاوے اور جوشِ نفس کی ملونی کی وجہ سے میرے نیک اور خالصاً لِلّٰہ اعمال بھی حبط ہو جاویں گے۔ یہ ماجرا دیکھ کر کہ ان لوگوں کا اتنا باریک تقویٰ ہے، اس نے کہا کہ میں نہیں یقین کر سکتا کہ ایسے لوگوں کا دین باطل ہو۔ لہٰذا وہ مسلمان ہو گیا۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ609)
= حضرت علیؓ کا کوفہ میں یہ معمول تھا کہ سادہ لباس میں گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر لوگوں کو تقویٰ اور سچائی کی تلقین کرتے اور خریدوفروخت میں پورے ماپ تول کا وعظ کرتے تھے۔ ایک دفعہ بیت المال میں جو کچھ تھا تقسیم کرکے اس میں جھاڑو پھیر دیا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: امید ہے کہ قیامت کے دن یہ میری گواہی ہو گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں