درویش صحابہ کرام: حضرت بابا سلطان احمد صاحبؓ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔
حضرت بابا سلطان احمد صاحبؓ ولد چودھری نورعلی صاحب ساکن بہادر نواں پنڈ متصل گورداسپور نے بیعت کی سعادت 1893ء میں حاصل کی جبکہ زیارت کی توفیق اندازاً 1906ء میں حاصل ہوئی۔
حضرت بابا سلطان احمد صاحبؓ ایک معمولی خواندہ، تہ بند پوش دیہاتی وضع کے بزرگ تھے۔ وہ سُنایا کرتے تھے کہ احمدیت قبول کرتے ہی میری شدید مخالفت ہوئی۔ مَیں بہت معمولی پڑھا لکھا تھا اور ایسی شخصیت اور حیثیت بھی نہ تھی کہ کوئی مجلس منعقد کرکے تقریر کرسکتا۔ لیکن میرے دل میں ایک تڑپ تھی کہ کسی طرح تبلیغ کروں ۔ مَیں نے آواز اچھی پائی تھی اور ’’ ہیر وارث شاہ‘‘ بڑی خوش الحانی سے پڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے یہ طریق اختیار کیا کہ مختلف دیہات میں چلا جاتا اور کسی بارونق مقام پر کھڑے ہوکر اکیلے ہی ہیر پڑھنا شروع کردیتا۔ میری آواز سن کر لوگ جمع ہونے لگتے۔ اور جب کافی مجمع جمع ہوجاتا تو میں ہیر ؔ پڑھنا بند کردیتا اور مہدیؑ کی آمد کی خبر دیتا۔ یہ طریق بڑا کامیاب رہا اور بہت لوگوں تک پیغام حق پہنچایا۔
آپؓ کو تبلیغ کا اتنا شوق تھا کہ جبکہ آپؓ کی عمر 80سال کی ہوچکی تھی اور آپ ؓ اکثر بیمار بھی رہتے تھے، اپنی خدمات اعزازی طور پر نظارت دعوۃو تبلیغ کے سپرد کیں اور کچھ عرصہ تک گورداسپور اور جالندھر وغیرہ اضلاع میں جاکر تبلیغ کرتے رہے۔ آپؓ کا قد میانہ تھا ، باریک نقوش تھے ، بات چیت کا اسلوب زوردار اور دلپذیر ہوتاتھا۔
آپؓ بھی تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے لیکن پھر مئی 1948ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبّیک کہتے ہوئے واپس قادیان آگئے۔ چونکہ عمر رسیدہ تھے اس لئے کئی بار آپؓ سے کہا گیا کہ کچھ عرصہ اپنے بچوں کے پاس ربوہ گزار آئیں لیکن آپؓ رضامند نہ ہوتے۔ ایک دو بار آپؓ کے بیٹے مکرم چودھری عزیز احمد صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ بھی قادیان آئے اور اصرار کرکے آپؓ کو ہمراہ لے گئے۔ لیکن آپؓ پھر واپس قادیان آگئے۔
آپؓ 12مارچ 1958ء کو بعمر 84سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں