دو اسیران کابل کی سنگساری کا چشمدید منظر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جولائی 2010ء میں مکرم فضل کریم صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں دو اسیرانِ کابل کی سنگساری کا چشمدید منظر بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون 1926ء کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
آپ تحریر کرتے ہیں کہ کابل کے رہنے والے ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ داستان بیان کی کہ (1925ء میں) میری دکان کے پاس سے دس پندرہ پولیس والے دو آدمیوں کو گرفتار کئے ہوئے لئے جارہے تھے۔ ایک ان میں نوجوان قریباً 30 سال کا تھا اور ایک عمر رسیدہ پچاس سے زیادہ عمر کا تھا۔ دونوں پابجولاں تھے۔ دونوں کے سروں پر عمامے بدن پر کوٹ سلوار پیروں میں جوتے تھے، پیچھے پیچھے ایک بڑا ہجوم تھا جوکہ جوں جوں آگے بازار میں بڑھتا چلا جارہا تھا اور لوگ اس میں شامل ہوتے چلے جارہے تھے اور آپس میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے چلے جارہے تھے گویا کہ کسی تماشہ کو دیکھنے جارہے ہیں۔
منادی کرنے والا جگہ بہ جگہ کھڑا ہوکر اعلان کرتا تھا کہ ان دونوں قادیانیوں کو بحکم قضاۃ آج بعد نماز عصر سنگسار کیا جائے گا۔ دونوں مجرمان خاموش تھے۔ چہروں کا رنگ زرد تھا۔ بڈھے (عبدالحلیم صاحب) کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور کچھ پڑھتا جارہا تھا۔ چونکہ پہلے ہمیں معلوم تھا کہ سنگساری آسیہ بائی ہوگی۔ مَیں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اسی مقام پر گیا مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سنگساری شیرپور ہوگی۔ پھر ہم شیرپور گئے، وہاں جا کر ایک جم غفیر دیکھا اور لوگ جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد قاضی القضاۃ ایک ٹانگے پر آئے۔ ٹانگے سے اترتے ہی حکم دیا کہ جولان توڑ دیئے جائیں اور مجرمان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ کچھ نوافل یا نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں۔ دونوں نے دو دو یا چار چار اب ٹھیک یاد نہیں رکعت نماز ادا کی۔ مخلوق ہر طرف پہاڑوں کے ڈھلوان پر اونچی جگہ کھڑی تھی اور مجرمان نچلی جگہ تھے۔ بعد نماز مجرمان کے عمامے کوٹ اور جوتے اتروا دیئے گئے اور صرف کرتے اور سلواریں ان کے بدنوں پر رہنے دیئے گئے ہیں۔ پھر پولیس کے آدمیوں نے دونوں کو دھکیل کر نچلی طرف کردیا۔ مَیں نے خود نہیں سنا مگر لوگ کہتے تھے کہ وہ دونوں یہ کہہ رہے تھے کہ روز محشر میں ہوگا کہ کون حق پر ہوگا۔
آخرکار قاضی نے پتھر اٹھا کر مارا۔ اس کا مارنا تھا کہ لوگوں نے، جو پہلے سے ہی پتھروں سے جھولیاں بھرے کھڑے تھے، بارش کی طرح پتھر برسانے شروع کردیئے۔ دونوں مجرمان کھڑے تھے۔ مَیں ان سے پندرہ بیس قدم پر تھا مگر کوئی چیخ و پکار ان کی نہ سنی۔ جب بڈھے (مولوی عبدالحلیم صاحب) کو پتھر پڑنے شروع ہوئے تو وہ اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سربسجود ہوگیا حتیٰ کہ اسی حالت میں وہ آدھا پتھروں کے نیچے دب گیا۔ پھر ایک پتھر اس کے سر پر ایسا لگا کہ وہ بیقرار ہو کر منہ پر ہاتھ دھرے دو زانو بیٹھ گیا جیسے کوئی نماز میں بیٹھتا ہے۔ چہرے اور سر بالکل لہو لہان تھے۔ آخر اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی۔
دوسرا مجرم جوکہ نوجوان تھا (مولوی عبداللہ خان صاحب) کھڑا رہا۔ مگر جب اسے کوئی پتھر لگتا۔ تو وہ گر پڑتا۔ پھر کھڑا ہوتا پھر پتھر کھا کر گر پڑتا۔ پھر اٹھتا پھر گرتا۔ پھر وہ اٹھنے کی کوشش کرتا۔ پھر سنبھل نہ سکتا۔ آخرکار اسی طرح اس کی بھی جان نکل گئی۔ دونوں پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ دونوں کے جسم نیچے دب گئے اور سوائے پتھروں کے ڈھیر کے کچھ نظر نہ آسکتا تھا۔
مَیں نے بھی بیس پچیس پھینکے ہوں گے۔ بعض دو دو تین تین سیر وزنی ہوں گے۔ پہاڑی ہے اس لئے جو کسی کے ہاتھ آیا وہی دے مارا۔
ضمناً میں ایک واقعہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ایک شخص نے اپنے ایک دوست کو کابل سے ہندوستان خط لکھا کہ وہ دونوں قادیانی، جن کی سنگساری کے لئے آپ اتنی مدت انتظار کرتے رہے اور اپنی واپسی ہندوستان التواء کرتے رہے، فلاں فلاں تاریخ کو سنگسار کئے گئے۔ اور تاکہ آپ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں مَیں نے آپ کی طرف سے بھی چار پتھر پھینکے تھے۔ آپ کو مبارک ہو۔ جب یہ خبر اس شخص نے پڑھی۔ تو دوستوں سے خوشی خوشی اس کا ذکر کرتا اور ہمیں بھی طنزاً یہ خبر سنائی گئی۔ گویا کہ ان لوگوں کو ایک فتح عظیم نصیب ہوئی۔ کاش یہ لوگ سمجھتے کہ یہ ان کی فتح نہ تھی بلکہ خوفناک شکست۔ فتح تو ان کی تھی جو بقائے دوام پاگئے اور جن کا نام رہتی دنیا تک ذکر خیر کے ساتھ باقی رہے گا اور آنے والی نسلیں ان پر سلام بھیجیں گی اور خود اسی کابل کی سرزمین میں اس پاکیزہ خون سے سینچا ہوا پودا پھل لائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں